skip to Main Content

باب چہارم: سہ ماہی ادبیات اطفال کے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ

باب چہارم
سہ ماہی ادبیات اطفال کے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ

ترجمہ نگاری اورچند اصولی مباحث
اول: ترجمہ نگاری کیا ہے؟
ترجمہ کی تعریف کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ترجمہ کیسے شروع ہوا ہو گا ؟۔ اس کا جواب ہمیں تاریخ دیتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ایک علاقے کے انسان کسی دوسرے علاقے میں جاتے تو سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ وہاں کے لوگوں سے رابطہ ہوتا تھا۔ وہ لوگ باہمی رابطے کے لیے وہاں کی زبان سیکھتے اور یوں وہاں کی تہذیب سے آشنا ہو پاتے تھے۔باہمی رابطے کے لیے اول تو اشارات اور آوازیں مقرر کی جاتی تھیں اور ایک دوسرے کی باتیں سمجھی جاتی تھیں۔ اس کے بعد انسانی ذہن نے ان اشارات اور آوازوں کی مدد سے ان باتوں کو اپنی زبان میں منتقل کر لیا اور یوں انسان نے ’’ترجمہ ‘‘کے فن کو دریافت کیا اور پھر رفتہ رفتہ اس فن نے ترقی کی یہاں تک کہ تراجم کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔
ڈاکٹر خلیق انجم اسی بارے میں لکھتے ہیں:۔
’’ترجمے کا فن اتنا ہی قدیم ہے،جتنا کہ انسان کی سماجی زندگی۔جب ایک سماجی گروہ کا دوسرے گروہ سے سماجی رشتہ قائم ہونے پر ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے ترجمے کا سہارالینا پڑا ہو گا تو ترجمہ کچھ آوازوں اور کچھ اشاروں پہ مبنی ہوگا۔‘‘(1)
دیکھیے ڈاکٹر خلیق انجم کے اقتباس سے بھی ترجمہ کی ابتداء کے بارے میں یہی اشارہ مل رہا ہے کہ ترجمہ کا فن بہت قدیم ہے اور ترجمہ نے درجہ بدرجہ ارتقاء کی منازل طے کیں اور یوں ترجمہ ایک فن کی صورت میں سامنے آسکا۔
ترجمہ ہر اس فرد کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے جو کسی اجنبی جگہ آیا ہوا ہو اور وہاں کی زبان سے واقف نہ ہو۔ترجمہ کے ذریعے ایک تہذیب نے دوسری تہذیب کے افکار لیے اور اپنے افکار اسے دیئے، یوں تہذیب و ثقافت اور افکار کا لین دین چلتا رہا اور دنیا میں ترقی دیکھنے کو ملی۔اگر ترجمہ کا فن نہ ہوتا تو علوم و فنون کے تراجم نہ ہو سکتے، تہذیبیں ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکتیں اور دنیا میں محدودیت کا قبضہ ہو جاتا اس لیے ترجمہ ایک اہم ضرورت تھی ،ہے اور رہے گا۔۔ ترجمہ کی تعریف متعین کرنے میں بہت سارے اہل علم نے اپنا اپنا انداز اپنایا ہے، ذیل میں کچھ اہل علم کی تعریفات پیش ہیں۔
پروفیسر ظہورالدین لکھتے ہیں:۔
’’ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس کی وساطت سے کسی ایک زبان کے فن پارے کو دوسری زبان میں منتقل کر کے اس زبان کے قارئین کو اس تک پہنچنے کے موقعے فراہم کیے جاتے ہیں۔اسے ایک ایسی کھڑکی قرار دیا جا سکتا ہے جس کے کھل جانے سے ایک ایسی دنیا کے دروازے ہم پر وا ہوتے ہیں جس سے ہم اس سے قبل بالکل واقف نہیں ہوتے۔‘‘(2)
پروفیسر صاحب نے ترجمہ کی جو تعریف پیش کی ہے اس کے مطابق ترجمہ ایک ادبی فن پارے کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ہے، تاکہ اس دوسری زبان کے قارئین بھی اسے پڑھ کر سمجھ سکیں اور وہ ایک نئی دنیا سے واقف ہو سکیں، ان کے مطابق ترجمہ ایک کھڑکی کھول دیتا ہے جس سے جھانک کر قارئین ایک نئی دنیا کی سیر کرتے ہیں اور اس نئی دنیا میں درج ذیل چیزیں پاتے ہیں:
1)) نئی لسانی تراکیب
(2)نئی تہذیب کا عکس
(3)نئی فکر
(4) نیا تمدن اور طرز حیات
ان چیزوں کی وجہ سے دو تہذیبوں میں قربت بڑھتی ہے اور یہی ترجمہ کا سب سے اہم پہلو ہے۔
ترجمہ نگاری کو سمجھنے کے لیے ہم ایک اور تعریف نقل کرتے ہیں، فاخرہ نورین نے اپنی کتاب ترجمہ کاری میں لکھا ہے :۔
’’انگریزی میں ترجمے کا ہم پلہ لفظ translation ہے جس کا اردو مفہوم ‘پار لے جانا’ کا ہے۔گویا مترجم خیال و معانی کویک زبان کے کنارے سے دوسری زبان کے کنارے تک لے جاتا ہے۔‘‘(3)
اس اقتباس کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ترجمہ کے فن میں ایک ترجمہ نگار کو دو مراحل سے گزرنا پڑتا ہے :
(1) ایک زبان کے خیال کی دوسری زبان میں منتقلی۔
(2) صرف خیال کی منتقلی کافی نہیں ہوتی بلکہ خیال کے ساتھ ساتھ ایک زبان کے معانی کی بھی دوسری زبان میں منتقلی کی جاتی ہے۔
گویا مترجم ایک زبان کے لفظ کا دوسری زبان میں متبادل تلاش کرتا ہے جو اس لفظ کا درست مفہوم پیش کر سکے۔
فن ترجمہ نگاری میں دو زبانیں آمنے سامنے ہوتی ہیں، جس زبان سے ترجمہ کیا جانا مطلوب ہو اسے ’’سورس لینگویج‘‘(ماخذی زبان) کہتے ہیں اور جس دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے اسے ’’ٹارگٹ لینگویج‘‘ (ہدفی زبان) کہتے ہیں۔مثلاً انگریزی کی کہانی کو اردو میں ترجمہ کیا جائے تو انگریزی سورس لینگویج اور اردو ٹارگٹ لینگویج کہلائے گی۔
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ترجمہ کے عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
’’ادبیات عالم میں طبع زاد اور ترجمہ کی اصطلاحیں رائج ہیں۔۔ یوں ترجمہ بھی ادب کا حصہ ہے،اگرچہ دوسری زبانوں سے ماخوذ ہونے کی بنا پر اسے بالعموم الگ پہچان دی جاتی ہے۔ کسی تحریر یا تصنیف کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ترجمہ کہلاتا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے ترجمہ کسی متن کو دوسری زبان میں منتقل کرتے ہوئے اس کی تعبیر کرتا ہے۔ یعنی ترجمے کا عمل ایک علمی یا ادبی پیکر میں ڈھالنے کا عمل ہے۔‘‘(4)
مرزا حامد بیگ تراجم کے مباحث پہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ تراجم کے بارے میں ان کی کئی کتب موجود ہیں جو کہ اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس میں مرزا صاحب نے ترجمہ کو ادب قرار دیا ہے۔ اگرچہ یہ ماخوذ ادب ہے لیکن اسے ادب سے خارج نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ترجمہ کے عمل کو متن کی تعبیر قرار دیا ہے یعنی مترجم سورس لینگویج کے متن کی تعبیر ٹارگٹ لینگویج میں پیش کرتا ہے۔
مندرجہ بالا تمام اقتباسات سے ہم یہ باتیں سمجھ سکے ہیں:۔
(1) ترجمہ افہام و تفہیم کا ذریعہ رہا ہے۔
(2) ترجمہ ایک فن ہے۔
(3) ترجمہ ایک زبان کے مفہوم کو دوسری زبان میں پیش کرنے کا نام ہے۔
(4)ترجمہ تہذیب و تمدن کی ترویج کرتا ہے۔
(5) مترجم دو تہذیبوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔
(6) ترجمہ ادب کا حصہ ہے۔
(7) ترجمہ اصل تحریر کے اسلوب کی عکاسی کرتا ہے۔
ترجمہ کی اہمیت اپنی جگہ پر درست ہے لیکن ترجمہ طبع زاد تحریر کا درجہ کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ ترجمہ کی اسی ثانوی حیثیت کو محمد حسین آزاد یوں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’ترجمہ اور تصانیف کے تجربہ کار جانتے ہیں کہ ان کی عبارت میں کسی زبان کا اصل لفظ جو اپنامطلب بنا جاتا ہے، سطر بھرعبارت میں ترجمہ کریں تو بھی وہ بات حاصل نہیں ہوتی جو مجموعہ خیالات کا اور اس کے اوصاف و لوازمات کا اس ایک لفظ سے سننے والے کے سامنے آئینہ ہو جاتا ہے، وہ ہماری سطر بھر پورا نہیں ہوتا۔‘‘(5)
اس اقتباس سے مولانا آزاد ترجمہ کے کمزور پہلو کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اصل عبارت کا لفظ اکیلے جو طاقت رکھتا ہے وہ طاقت ترجمہ میں پوری سطر عبارت سے بھی نہیں مل پاتی، یعنی مطالب واضح نہیں ہو پاتے یا ان کی تفہیم میں دقت پیش آتی ہے۔ترجمہ میں اصل عبارت کا لطف آ ہی نہیں سکتا، اگر ایسا ہو جائے تو ترجمہ اور طبع زاد میں کیا فرق رہے گا؟؟ اس لیے ترجمہ کا طبع زاد سے کمتر ہونا تو واضح ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ترجمہ کیوں کیا جائے؟؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ترجمہ ایک ضرورت ہے اور اس کا آغاز بھی نظریہ ضرورت کے تحت ہوا، اس لیے ترجمہ کی اہمیت کم نہیں ہو سکی، پروفیسر محمد حسن صاحب لکھتے ہیں :۔
’’ضرورت اکثر برائیوں کو اچھائیوں میں بدل دیتی ہے۔ ایسی ہی ایک برائی ترجمہ بھی ہے۔ translatorکوtraitor اور مترجم کو گندم نما جو فروش کہا گیا ہے۔ ترجمہ اگر اصل کا کام دینے لگے تو ترجمہ کیوں کہلائے۔ لازمی طور پر یہ اصل سے کمتر ہوگا۔ اور جو کمتر ہو وہ برائیوں میں کیوں نہ گنا جائے۔ مگر ضرورت کہتی ہے کہ عالمگیر آگہی کا نور اور سرور ایک زبان کے دامن میں تو سمٹنے سے رہا۔جب تک ایک زبان کے بولنے والے دوسری زبانوں کے علم وآگہی، جذبے اور شعور، فکرواساس تکنیک اور سائنس تک پہنچنا چاہیں گے ترجمے کا سہارا لیں گے۔‘‘(6)
پروفیسر صاحب کا مندرجہ بالا اقتباس یہ واضح کر رہا ہے کہ ترجمہ نظریہ ضرورت کے تحت شروع ہوا۔ ترجمہ اور مترجم کو غدار کہا جائے یا کچھ اور، ترجمہ کی ضرورت و اہمیت برقرار رہے گی۔کیوں کہ کچھ وجوہات کی بنا پر ترجمہ کا سہارا لینا اقوام عالم کے لیے ناگزیر ہے۔ ترجمہ کی ضرورت کے ان پہلوؤں کو ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔
دوم : ترجمہ کی ضرورت و اہمیت
موجودہ دور میں آمدورفت میں تیزی اور وسعت آ چکی ہے اور دنیا ایک گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ایسے میں ترجمہ کی ضرورت پہلے سے دوچند ہو گئی ہے۔باہمی ربط ضبط اور اختلاط کے اس ماحول میں ترجمہ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمیں آپس میں جوڑتا ہے۔ ترجمہ کے بہت سارے فوائد ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :۔
(1) علم مشترکہ میراث :
علم سب کی مشترکہ میراث ہے۔ہماری زبان کے علوم پر دیگر لوگوں کا حق ہے اور اسی طرح دیگر زبانوں کے علوم پر ہمارا حق بھی مسلم ہے۔اس لیے ترجمہ کی بدولت ہم ایک زبان کے علم کو دوسری زبان والوں کے لیے قابلِ استفادہ بنا سکتے ہیں۔
(2)احیائے علوم کا ذریعہ :
ترجمہ علوم کے احیاء کا ذریعہ ہے۔اگر ترجمہ نہ ہو تو بہت سارے علوم جو قدیم زبانوں میں لکھے ہوئے ہیں، فنا ہو جائیں، کیوں کہ وہ قدیم زبانیں مٹتی جا رہی ہیں ایسے میں ترجمہ ہی ان علوم کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
(3)ترویج تہذیب و ثقافت :
ترجمہ تہذیب و ثقافت کی ترویج و ترقی کا ضامن ہے۔ ترجمہ کی بدولت ایک علاقے کی تہذیب دیگر لوگوں پہ ظاہر ہوتی ہے اور یوں وہ اس تہذیب سے آشنا ہو جاتے ہیں۔
(4) نئی راہوں کا ضامن :
ترجمہ نئی ادبی تحریکوں کا محرک ہے۔ترجمہ کی بدولت ادبی دنیا ایک دوسرے کی ادبی کاوشوں سے واقف ہوتی ہے۔جیسا کہ اردو میں بہت سارے رجحانات ترجمہ کی وجہ سے آئے ہیں مثلاً علامت نگاری، جدیدیت، رومانیت، حقیقت نگاری وغیرہ۔
(5) مذہبی تعلیمات کاابلاغ :
ترجمہ مذہبی نقطہ نظر سے ابلاغ کے لیے نہایت اہم ہے۔بلاغ کا مطلب مذہبی پیغام کا پہنچانا۔ اسی لیے اناجیل کے تراجم ہوئے اور اس کے بعد قرآن پاک اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تراجم کیے گئے۔لہذا مذہبی نوعیت سے بھی ترجمہ اہم قرار پایا۔
(6) فنون کی ترویج :
ترجمہ مختلف نئے علوم و فنون کے سمجھنے سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ دنیا میں انسان نت نئے طریقے سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔نئی ایجادات ہورہی ہیں۔نئے علوم وجود میں آرہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک علاقے کی علمی و فنی کاوش کو ہم ترجمہ کی بدولت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ترجمہ ہی کے ذریعے سے ایک قوم کے تجربات سے دوسری قوم کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔
(7)گلوبلائزیشن کا دور اور ترجمہ :
ترجمہ کی اہمیت گلوبلائزیشن کے اس دور میں مزید بڑھ گئی ہے کیوں کہ دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے اور تمام اقوام ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اس لیے ہمیں ترجمہ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات کو استوار کرنا چاہیے۔
(8):نئی ادبی اصناف :
ترجمہ کی بدولت ادب میں نئی اصناف متعارف ہوئی ہیں۔ ناول ،افسانہ،خاکہ اور بہت ساری شعری ا صناف ترجمہ کی وجہ سے ادب کا حصہ بنی ہیں۔شعری ادب میں آزاد نظم،سانیٹ اور ہائیکو تراجم کے ذریعے اردو میں آئے ہیں۔
(9): معاشی ترقی :
تراجم کی وجہ سے دو ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی ہے اور معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
(10): ادبی سرمایہ اور تراجم:
تراجم کی وجہ سے کسی نوخیز زبان کے ادبی سرمایے میں اضافہ ہوتا ہے۔جیسے اردو ادب کا نثری سرمایہ تراجم سے بھرا ہوا ہے۔
سوم : ترجمہ کی اقسام (بلحاظ موضوع)
(1)علمی ترجمہ :
ترجمہ کی اس قسم میں ہم تمام سائنسی و فنی کتب کے تراجم کو شامل کرسکتے ہیں۔ سائنسی اور فنی علوم کے تراجم میں لفظی ترجمہ کیا جاتا ہے تاکہ کوئی اہم بات رہ نہ جائے۔ اس کے علاوہ علمی تراجم میں اصطلاحات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔دوسری زبان کی کسی اصطلاح کا ترجمہ جب ہم اپنی زبان میں کریں گے، آگے پوری کتاب میں اس اصطلاح کا وہی ترجمہ کرنا ہو گا تاکہ یکسانیت برقرار رہے۔علمی و فنی تراجم کے لیے مترجم کو ان علوم کا ماہر ہونا چاہیے تاکہ وہ ترجمہ میں درست مطالب پیش کرے۔علمی ترجمہ کے بارے میں فاخرہ نورین یوں بیان کرتی ہیں:۔
’’علمی کتب عموماً منطقی انداز میں لکھی گئی ہوتی ہیں جن میں خیالات کی پیچیدگی کو اس طرح سہل بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ حقائق واضح ہو جائیں۔عموماً کتب میں ادائے خیال و مطلب پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ نثرکی آرائش و زیبائش اور صنعت پر توجہ عموماً نہیں دی جاتی یا مقابلتا کم دی جاتی ہے۔چنانچہ علمی متون کے ترجمے میں بھی خیالات و افکار کی موثر ترسیل کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ ذاتی احساسات یا رویے اور زبان کا چٹخارہ علمی کتب اور تراجم میں راہ نہیں پا سکتا۔‘‘(7)
اس اقتباس سے علمی ترجمہ کے بارے میں درج ذیل نکات معلوم ہوتے ہیں:۔
٭ علمی تراجم کا تعلق علمی و فنی کتب سے ہے۔
٭علمی تراجم میں حقائق واضح کیے جاتے ہیں۔
٭علمی تراجم میں سادہ زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭علمی تراجم میں مترجم اسلوب کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
(2)ادبی ترجمہ :
ادبی ترجمہ سے مراد ایسا ترجمہ ہے جو زبان وبیان کے اصولوں کے مطابق کیا جائے۔ادبی ترجمہ میں نثر اور شاعری کا ترجمہ شامل ہے۔ایسا ترجمہ ہمیشہ با محاورہ ہو گا اور اس میں ادبی رنگ بھی شامل کیا جائے گا مثلاً تشبیہ، استعارہ، کنایہ وغیرہ۔ ادبی ترجمہ میں لفظوں کا ترجمہ نہیں ہوتا بلکہ عبارت کے ادبی مفہوم کو سمجھ کر اسے اپنی زبان کے ادبی سانچے میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ادبی ترجمہ میں مترجم کی کوشش ہوتی ہے کہ ترجمہ طبع زاد سے کم دکھائی نہ دے۔
فاخرہ نورین رقم طراز ہیں:۔
’’ادبی متن کے تراجم کی بات ہو تو مترجم پر دوہری ذمہ داری آن پڑتی ہے، اسے تخلیق کار کے مطمح نظر، یا خیال تک رسائی بھی حاصل کرنی ہوتی ہے نیز اس خیال کو تمام تر جمالیاتی خوبیوں کے ساتھ دوسری زبان میں بھی منتقل کرنا ہوتا ہے۔ یہ فن تنی ہوئی رسی پر چلنے سے بھی کٹھن ہے۔ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے لکھا ہے کہ اس نوع کا ترجمہ بامحاورہ ہونا چاہیے اور ہدفی زبان کے روزمرہ تشبیہات، ضرب الامثال،استعارات و کنایات اور رموز و علامات سے کام لیا جائے تاکہ ترجمہ میں ادبی رنگ آ جائے اور ترجمہ طبع زاد سے کم تر نہ دکھائی دے۔‘‘(8)
یہ اقتباس ادبی تراجم کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم کر رہا ہے۔ادبی ترجمہ میں صرف ادائے خیال و معنی اہم نہیں ہوتا بلکہ اس نوع کے ترجمہ میں ماخذی زبان کے محاسن کو بھی ہدفی زبان میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اردوکا ایک جملہ لیتے ہیں:’’ علی بہت خوش تھا اس لیے آج اس کا دل خوشی کے گھوڑے پر ناچ رہا تھا۔ ‘‘ اگر اس جملے کو انگریزی زبان میں منتقل کیا جائے گا تا صرف مفہوم کی منتقلی کافی نہیں ہوگی بلکہ ’’خوشی کے گھوڑے پہ ناچنے‘‘کا ادبی رنگ بھی منتقل کرنا ہوگا۔اس لیے اس نوع کے تراجم کو تنی ہوئی رسی پر چلنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(3) صحافتی ترجمہ :
اس ترجمہ کو ہم آزاد ترجمہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسا ترجمہ صرف مفہوم کی پیشکش کا نام ہے۔ اس میں نہ تو لفظوں کی رعایت برتی جاتی ہے اور نہ ہی ادبی چاشنی کو مدنظر رکھا جاتا ہے بلکہ اس نوع کے تراجم کا سب سے بڑا مقصد ابلاغ ہوتا ہے۔ایسے ترجمہ کو صحافتی اس لیے کہا گیا ہے کہ اکثر صحافتی دنیا میں ایسا ترجمہ درکار ہوتا ہے۔صحافتی تراجم میں زبان کے علم کے ساتھ ساتھ جغرافیہ اور تاریخ کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔ایسے تراجم اخباری رپورٹس کے سلسلے میں کیے جاتے ہیں اور ان میں بیانیہ انداز اپنایا جاتا ہے۔
پروفیسر ظہور الدین رقم طراز ہیں:۔
’’ترجمے کی اس قسم کو سب سے آسان اس لیے تصور کیا جاتا ہے کہ اس میں، لفظ بہ لفظ یا جملہ بہ جملہ ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کسی اقتباس کو پڑھ کر اس کے مجموعی مفہوم کو ترجمہ نگار اپنی زبان میں پیش کر دیتا ہے۔ اس میں لفظوں کے متبادل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ کسی زبان کے اقتباس کی طوالت یا پیچیدگی کی وجہ سے ترجمے کو بھی ویسے بنانا پڑتا ہے۔‘‘(9)
پروفیسر ظہورالدین نے اس اقتباس میں صحافتی ترجمہ کو سب سے آسان قرار دیا ہے۔ان کی یہ بات سو فی صد درست ہے کیوں کہ اس نوع کے ترجمہ میں مترجم آزاد ہوتا ہے۔وہ ماخذی زبان سے ایک بات کو پڑھتا ہے ،اپنے ذہن میںاس کا ایک مطلب طے کرتا ہے اور پھر اسے ہدفی زبان کا لباس پہنادیتاہے۔ہمارے ہاں آج کل ہونے والے اکثر تراجم اسی زمرے میں آتے ہیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال اور بچوں کے دیگر رسائل میں شائع ہونے والے تراجم کے مطالعہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ آزاد تراجم ہیں۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچوں کی ایک کہانی چالیس صفحات پر ہے لیکن ترجمہ کرنے کے بعد وہ تین چار صفحات تک سکڑ گئی ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ مترجم نے آزاد ترجمہ کے ساتھ ساتھ تلخیص بھی کر دی ہے اور اصل کتاب کو من وعن ترجمہ نہیں کیا۔
فاخرہ نورین اسی کے بارے میں لکھتی ہیں :
’’صحافتی متن کے ترجمے کو آزاد ترجمہ بھی کہا جاتا ہے ، یعنی مفہوم کے ابلاغ اور ترسیل میں مترجم کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ وہ بات پہنچانے کے لیے اپنی مرضی کے الفاظ منتخب کرنے کے لیے آزاد ہوتا ہے۔‘‘(10)
اس اقتباس سے صحافتی متن کے بارے میں اس اصول کا علم ہوتا ہے کہ صحافتی ترجمہ میں مترجم کو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔
چہارم :ترجمہ کی اقسام :(بلحاظ ہیئت وفن ،ترجمہ کی راہیں)
(1)لفظی ترجمہ :
لفظی ترجمہ ابلاغ کے مقاصد کو پورا کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔قدیم دور میں ترجمہ کی حیثیت نقل کی ہوتی تھی اور اس نقل میں ہر لفظ کا متبادل لفظ لایا جاتا اور یوں ترجمہ ہوپاتا تھا، یہی ترجمہ لفظی ترجمہ کہلاتا ہے۔برصغیر میں جب مذہبی تراجم ہوئے تو ان میں بھی اول لفظی ترجمہ سے آغاز ہوا کیوں کہ مذہبی کتب میں کسی قسم کا ردوبدل ناجائز تھا اس لیے ان کتب کے تراجم میں بھی لفظ بہ لفظ ترجمے کا طریقہ اپنایا گیا۔لفظی ترجمہ میں اصل متن کی معنوی خوبیاں پیش نظر رکھتے ہوئے ترجمہ کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی لفظی ترجمہ کو کار عبث کہتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:۔
’’ایسے میں تین طریقے ہو سکتے ہیں، ایک طریقہ تو یہ کہ اصل متن کا صرف لفظی ترجمہ کر دیا جائے اور بس۔(اسے ترجمہ کرنا نہیں کہتے مکھی پر مکھی مارنا کہتے ہیں) دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ مفہوم لے کر آزادی کے ساتھ اپنی زبان کے روایتی و مقبول انداز بیان کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ کر دیا جائے۔تیسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترجمہ اس طور پر کیا جائے کہ اس میں مصنف کے لہجے کی کھنک بھی باقی رہے اور اپنی زبان کا مزاج بھی باقی رہے اور ترجمہ اصل متن کے بالکل مطابق ہو۔‘‘(11)
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس اقتباس میں ترجمہ کی تین اقسام بیان کی ہیں جن میں سے پہلی قسم لفظی ترجمہ ہے جسے انہوں نے بے کار قرار دیا ہے۔اس بارے میں معتدل رائے یہ ہے کہ لفظی ترجمہ بعض مواقع میں بوجہ ضرورت مفید ہوتا ہے اور اس کی اہمیت مسلم ہے جیسا کہ طالب علموں کے لیے نصابی کتب کے تراجم یا پھر زبا ن سیکھنے کے متمنی لوگوں کے لیے تراجم۔اس سے ہٹ کر لفظی ترجمہ نہ تو کامل ابلاغ کا کام دیتا ہے نہ ہی اس میں چاشنی اور لطف دیکھنے کو ملتا ہے۔
(2)آزاد ترجمہ :
آزاد ترجمہ میں مترجم اصل متن کے مفہوم کو اپنی زبان میں منتقل کرتا ہے مگر اس بات کاخیال رکھتا ہے کہ اصل مضمون باقی رہے اور اس کی روح ختم نہ ہو۔آزاد اور لفظی ترجمہ میں اس لحاظ سے فرق کیا جاتا ہے کہ لفظی ترجمہ میں تو اصل متن کے لفظوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے جبکہ آزاد ترجمہ میں اصل متن کے جمالیاتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا ترجمہ اپنی زبان کے جمالیاتی پہلوؤں سے کیا جاتا ہے۔آزاد ترجمہ میں مترجم مفہوم کی ترسیل کے لیے اپنے لفظوں پر اعتماد کرتا ہے جب کہ لفظی ترجمہ میں مترجم کو اصل متن کے لفظوں پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے اور وہ متن کا پابند ہوتا ہے۔
پنجم : ترجمہ کے اصول :
(1)مفہوم کا ابلاغ :
مفہوم کا ابلاغ ترجمہ کا اہم اور بنیادی مقصد ہے۔جو بات مصنف اپنے اصل متن کے ذریعے سمجھانا چاہتا ہے مترجم کی کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو سمجھا سکے۔ لہذا مفہوم کا ابلاغ ترجمہ کا پہلا اصول قرار دیا جاتا ہے۔
(2)ترجمہ کی ہیئت :
یہ ترجمہ کا دوسرا اصول ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ترجمہ اسی ہیئت اور ترتیب سے کیا جائے جس ترتیب سے اصل متن لکھا گیا ہے۔بسا اوقات ہیئت کی تبدیلی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ترجمہ بیکار ہو کر رہ جاتا ہے۔مثلاً ایک درسی کتاب کا ترجمہ کیا گیا اور ترجمہ نگار طلباء کو آسانی بہم پہنچانے کا خواہاں ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ترجمہ اصل متن کی ہیئت کے مطابق کرے، اسی طرح کسی قانونی دستاویز کا ترجمہ کیا جارہا ہے تو وہاں بھی ہیئت کا اصل متن کے مطابق ہونا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔
(3) مصنف کی منشا کا خیال :
ترجمہ نگاری میں مترجم اپنی ذات کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتا بلکہ وہ صرف مصنف کی زبان بولتا ہے۔ یہ ترجمہ کا اہم اصول ہے کہ مترجم مصنف کی منشا کا خیال رکھے۔ مثلاً مصنف اصل متن میں نکتہ چینی کر رہا ہے، مزاحیہ اسلوب اپنائے ہوئے ہے، مصنف کی منشا عذر خواہی ہے تو مترجم کو ان سب کا خیال رکھتے ہوئے ترجمہ کرنا چاہیے۔

(4)اسلوب کی شفافیت :
متن کا اسلوب سادہ ہے تو مترجم کو اسی کے مطابق ترجمہ کا عمل مکمل کرنا چاہیے اور اگر اسلوب میں لفاظی ہے اور منطقی انداز اپنایا گیا ہے تو مترجم کو اسی اسلوب کی رعایت رکھنی چاہیے۔
(5) محاورہ و زبان کا خیال :
مترجم کو دوران ترجمہ دیکھنا چاہیے کہ اصل متن میں جو محاورہ استعمال کیا گیا ہے، اس کا مفہوم کیا ہے اور ہدفی زبان میں اس کے ہم پلہ کون سا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر مترجم اسے ہدفی زبان میں درج کرے ورنہ بات اپنا رنگ نہ دکھا سکے گی، مثلاً خون سفید ہونا کا مطلب رشتوں میں پیار اور خلوص نہ ہونا ہے، اب اسے انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے اس چیز کا خیال رکھنا ہو گا کہ انگریزی کا کون سا محاورہ ہے جو اس کے ہم پلہ ہے وگرنہ خون کے بارے میں سفید رنگ کا ذکر کرنا تو ایک لغو اور مہمل بات بن جائے گا۔
(6) تاریخ و ثقافت زبان کا علم :
مترجم کو ماخذی زبان کی تاریخ اور ثقافت کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ ترجمہ درست طریقے سے کر سکے۔مثال کے طور پر مترجم نے غالب کا ایک شعر ترجمہ کرنا ہے جس میں کوئی تلمیح استعمال ہوئی ہے تو وہ تب تک اس کا ترجمہ درست طریقے سے نہیں کر سکتا جب تک اسے تاریخ کا علم نہ ہو۔
بچوں کا ادب اور تراجم :
ترجمہ کا عمل دو زبانوں کے درمیان ہوتا ہے۔یہ عمل دونوں زبانوں کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اس کی وجہ واضح ہے کہ جس زبان کو ماخذی زبان ہونے کا شرف ملتا ہے اس کا مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے اور اسی طرح ہدفی زبان بھی نئے ادبی سرمایے سے مالامال ہو جاتی ہے۔ دنیا کی ہر وہ زبان تراجم سے بھری ہوئی ہے جو تخلیقی صلاحیتیں رکھتی ہے۔لہذا اردو میں تراجم کا ہونا اس زبان کے تخلیقی ہونے پہ دلالت کرتا ہے۔
اردو زبان میں تراجم کا آغاز سترہویں صدی سے ہوتا ہے۔مشہور ہے کہ اردو کا پہلا ترجمہ نگار ملا وجہی ہے جس نے نے فتاحی نیشاپوری کی مثنوی دستورالعشاق کا ترجمہ کیا۔فتاحی نے دستور العشاق کا خلاصہ قصہ حسن و دل کے نام سے بھی کیا ہے ۔لیکن اس سے پہلے ہمیں شاہ میراں جی کی ترجمہ کردہ کتاب تمہیدات ہمدانی بھی ملتی ہے ۔یہ کتاب 1604ء میں ترجمہ ہوئی جبکہ سب رس 1635ء میں ترجمہ کی گئی۔خلیق انجم اس بارے میں لکھتے ہیں:۔
’’بعض محققین کا خیال ہے کہ شاہ میراں جی خدا نما نے، ابوالفضائل عبداللہ بن محمدعین القضاہ ہمدانی کی تصنیف تمہیدات ہمدانی کا عربی سے اردو میں جو ترجمہ کیا تھا، وہ اردو کا پہلا ترجمہ تھا۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ ملا وجہی نے پہلی بار شاہ جی نیشاپوری کی فارسی تصنیف دستور عشاق کا اردو میں سب رس کے نام سے ترجمہ کیا۔‘‘(12)
اس اقتباس سے ایک چیز ثابت ہوتی ہے کہ اردو تراجم کا آغاز سترہویں صدی میں ہو گیا تھا۔اسی دور میں ہمیں کچھ اور تراجم بھی ملتے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:۔
1۔غواصی نے قصہ الف لیلی کا منظوم ترجمہ سیف الملوک و بدیع الجمال کے نام سے کیا۔
2۔ابن نشاطی نے پھول بن مثنوی کو فارسی قصہ بساتین الانس سے ترجمہ کر کے نظم کیا۔
3۔سنسکرت داستانیں بیتال پچیسی ،سنگھاسن بتیسی اور گل بکائولی بھی اردو میں منتقل ہوئیں۔
4۔فارسی داستانیں داستان امیر حمزہ ،طلسم ہوش ربا اور قصہ چہار درویش اردو میں منتقل کی گئیں۔
ان کے علاوہ کچھ تراجم مذہبی نوعیت کے بھی تھے جو نظریہ ضرورت کے تحت کیے گئے،ان میں شاہ رفیع الدین کا لفظی ترجمہ قرآن اور شاہ عبدالقادر کا با محاورہ ترجمہ قرآن قابل ذکر ہیں۔
یہ سب تراجم انگریزی دور سے پہلے کے ہیں۔انگریز ی دور میں تراجم نے نیا رخ لیا اور اس کام کے لیے کئی ادارے مختص کر دئیے گئے۔فورٹ ولیم کالج بھی اسی طرح کا ایک ادارہ ہے ۔یہ ادارہ لارڈولزلی نے قائم کیا اور اس کے پرنسپل ڈاکٹر جان گل کرائسٹ تھے۔ فورٹ ولیم کالج کے بیشتر تراجم تعلیمی ضرورت کے تحت کیے گئے۔اس ادارے میں عربی،فارسی اور سنسکرت سے تراجم ہوئے۔اس ادارے کے معروف زمانہ تراجم یہ ہیں:۔
1۔باغ و بہار از میر امن ۔یہ کتاب نو طرز مرصع سے ترجمہ کی گئی۔
2۔باغ اردو از میرشیر علی۔یہ کتاب شیخ سعدی کی کتاب گلستان سے ترجمہ ہے۔
3۔آرائش محفل ازحیدر بخش حیدری۔یہ کتاب قصہ حاتم طائی سے ترجمہ کی گئی ہے۔
4۔نثر بے نظیر از میر بہادر علی حسینی۔یہ کتاب میر حسن کی معروف زمانہ مثنوی سحرالبیان کا نثری ترجمہ ہے۔
5۔شکنتلا از کاظم علی جوان۔یہ ایک ڈرامہ ہے جسے کالی داس نے لکھا تھا اور پھر کاظم علی جوان نے اس کاا ترجمہ کیا۔
فورٹ ولیم کالج کے بعد دہلی کالج بھی تراجم کی روایت کو آگے بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے۔اسے ہم تراجم کا دوسرا زینہ قرار دے سکتے ہیں۔اس کالج کے شعبہ تراجم میں ایک سو اٹھائیس کتب کے تراجم ہوئے۔ اس کے بعد جامعہ عثمانیہ کا دارالترجمہ ہے جہاں جدید علوم کے تراجم ہوئے۔اس دارالترجمہ میں ساڑھے چار سو کے قریب کتب ترجمہ ہوئیں۔سرسید کی سائنٹفیک سوسائٹی نے تراجم کے کام میں اپناکردار ادا کیا۔
بیسویں صدی کے آغاز ہی سے تراجم کے سلسلہ میں تیزی دیکھنے کو ملی۔اب ہر موضوع پر کتب کے تراجم ہونے لگے۔ادب، صحافت،طب،فنون لطیفہ،تحقیق ،تنقید اور نفسیات کی کتب ترجمہ کے ذریعے عام ہونے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں کچھ اداروں نے تراجم کے لیے الگ شعبے قائم کیے۔مثال کے طور پر اکادمی ادبیات پاکستان ،نیشنل بک فائونڈیشن اورمقتدرہ قومی زبان اردو نے تراجم کا کام آگے بڑھایا۔دیگر موضوعات کی طرح بچوں کے موضوعات پر بھی تراجم کیے گئے جو بے حد مقبول ہوئے۔ان تراجم کاآغاز بچوں کے رسائل سے ہوا۔بچوں کے مترجمین کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے معروف نام درج ذیل ہیں:۔
سعید لخت
محمد سلیم الرحمان
محمد یونس حسرت
محمد اقبال ثاقب
رضوانہ سید علی
زبیدہ سلطانہ
ڈاکٹر عبدالرئوف
سلیم احمد صدیقی
منشی تیرتھ رام فیروزپوری
اقبال قریشی
سید ذاکر اعجاز
احمد سعید
آفتاب احمد
مقبول انصاری
کشور ناہید
مقبول جہانگیر
ڈاکٹر رضون ثاقب
مسعود احمد برکاتی
مرزا ظفر بیگ
مناظر صدیقی
الطاف فاطمہ
سید خورشید عالم
آصف فرخی
ریاض عادل
ابن آس محمد
احمد عدنان ظارق
گل رعنا صدیقی
بچوں کے لیے تراجم ہر زبان سے ہوئے ہیں لیکن زیادہ تر تراجم انگریزی ادب سے دیکھنے کو ملے ہیں۔ذیل میں ہم کچھ تراجم کی فہرست پیش کرتے ہیں جو اپنے دور میں بھی بے حد مقبول ہوئے اور آج بھی ان کی شہرت میں کمی نہیں آئی۔
نمبرشمار۔ ماخذی تحریر کا عنوان ۔ ہدفی تحریر کا عنوان ۔ مصنف =مترجم
1۔ ایڈونچر آف ریور دیوی کا خزانہ اینڈبلیٹن =سید ذاکر اعجاز
2۔ سکس بیڈ بوائز چھ برے لڑکے اینڈبلیٹن =آفتاب احمد
3۔ تھری انوسٹی گیٹرز تین ننھے سراغرساں رابرٹ آرتھر=مقبول جہانگیر
4۔ رابن سن کروسو رابن سن کروسو ڈینیل ڈیفو=قمر نقوی
5۔ سیکرٹ آف مون کاسٹل اونچی حویلی کا راز اینڈبلیٹن =احمدسعید
6۔ ٹارزن ٹارزن ایڈگررائس =مقبول انصاری
7۔ سپرمین ارژنگ رے بری ڈبوری =محمد یونس حسرت
8۔ افریقن ایڈونچر افریقہ کے جنگلوں میںخونی بستی ولرڈپرائس =مقبول جہانگیر
9۔ ڈاکٹر نکولا ڈاکٹر نکولا گائی بوتھ بے =مقبول جہانگیر
10۔ ندارد نیلی چھتری(پہلا جاسوسی ترجمہ) مارس لیبلانک =ظفر عمر
11۔ ان سین ورلڈ ان دیکھی دنیا آرتھر کونن ڈویل =سعیدرضاسعید
12۔ دا کیٹ سٹرائیک ایٹ نائٹ چھاپہ مار بلا ونڈی کوپر=سید ذاکر اعجاز
13۔ دا ہیل کانگ کنگ کانگ ندارد =سلیم احمد صدیقی
14۔ کنگ سلیمانی مائنز سلیمانی خزانہ ہنری رائیڈر ہیگرڈ=سلیم الرحمان
15۔ لاسٹ ہوریزن خواب نگر جیمز ہیلٹن= رفیع الزمان زبیری
16۔ میکبتھ میکبتھ ولیم شکسپیئر=ستار طاہر
17۔ دا جنگل بک جنگل کا بادشاہ رڈیارڈکلپنگ= احفاظ الرحمان
18۔ تارس بلبا تارس بلبا نکولے گاگل =احفاظ الرحمان
19۔ اولیور ٹویسٹ گرہ کٹ چارلس ڈکنز=ڈاکٹراحسن
20۔ دی ایڈونچر آف ٹام سائر ٹام سائر کے کارنامے مارک ٹوین= توراکینہ قاضی
21۔ دا وار آف دا ورلڈز سیارون کی جنگ ایچ جی ویلز=رشید خان
22۔ دا تھری مسکیٹرز تین بندوقچی الیگزینڈر ڈومس =مسعوداحمدبرکاتی
23۔ دا ریلوے چلڈرن ریل کے بچے ای نسبٹ=احمد خان خلیل
24۔ ہیڈی عجیب لڑکی جوہانا سپیری= سیف الدین حسام
25۔ دا ایڈونچر آف پناکو پناکو کے کارنامے کالولوردی =سعید لخت
26۔ رابن ہڈ رابن ہڈ انانیمیس بلیڈرز=ذاکر اعجاز
27۔ اے ٹیل آف ٹو سٹیز خون کی ہولی چارلس ڈکنز=بیگم ایچ آئی احمد
28۔ ٹریشرآئی لینڈ خونی جزیرہ لوئس سٹیون سن= شوکت ہاشمی
29۔ دی کیٹ اینڈ دا مائوس بلی اور چوہا جولیا ایلس =ریاض عادل
30۔ دا لیٹر خط کارل فلپوٹس =ریاض عادل
31۔ اے بوائے ہو وشڈٹو مچ پیٹر کا چراغ ندارد =احمد عدنان طارق
32۔ سر العلبۃ الذھبیہ مائو کی کہانی احمد نجیب =محمد فیصل علی
33۔ الحصان الطیارفی بلاد الاسرار اڑنے والے گھوڑے کا راز احمد نجیب =محمد فیصل علی
34۔ نوادر جحا للاطفال جحا کے کارنامے شوقی حسن =محمد فیصل علی
35۔ دا کروڈ سیبر خلت قزاق ہیرلڈولیم =سید ہادی حسین
36۔ گریٹ ایکسپک ٹیشن قیدی چارلس ڈکنز=قدسیہ سعید
37۔ اے جرنی ٹو دا سینٹر آف ارتھ زمین کے مرکز سے جولیس ورنی =میمونہ طارق
38۔ دا کائونٹ آف مونٹی کرسٹو مونٹی کرسٹو کا نواب الیگزینڈر ڈومس= مسعوداحمدبرکاتی
39۔ دا پرنس اینڈدا پاپر شہزادہ اور فقیر مارک ٹوین =ستار طاہر
40۔ کرونیکلز آف نارنیہ تاریخ نارنیہ جی ایس لوئس= امان اللہ شوکت
ملکی ادب کے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ:
سہ ماہی ادبیات اطفال کے ان دس شماروں میں پاکستانی زبانوں سے تراجم بھی شامل کیے گئے ہیں۔ان تراجم کی تفصیل درج ذیل ہے:۔
سندھی زبان سے تراجم:13
پنجابی زبان سے تراجم:06
سرائیکی زبان سے تراجم:02
براہوی زبان سے تراجم:02
ہندکوزبان سے تراجم:02
` بلو چی ز بان سے تراجم:01
پشتوزبان سے تراجم:01
کل ملکی ادب کے تراجم کی تعداد: 27
سندھی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ:
سندھی اور اردو زبان و ادب:
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔یہ زبان ملک کے طول وعرض میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔تاہم ہر ملک میں قومی زبان کے علاوہ کچھ علاقائی زبانیں بھی ہوتی ہیں۔سندھی بھی ایک علاقائی زبان ہے۔جس خطے کے لوگ اس زبان کے ناطق ہیں،اس خطے کا نام بھی اسی زبان سے موسوم ہوگیا ہے اورآج اسے ’’سندھ‘‘ کہا جاتا ہے۔سندھی ایک قدیم زبان ہے۔سندھی زبان و ادب میں لوک کہانیاں،شاعری اور نثر کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔لوک داستانوں میں ’’عمر ماروی‘‘کی داستان بہت زیادہ مشہور ہے۔اسی طرح سچل سرمست اور شاہ عبداللطیف بھٹائی شہرۂ آفاق شاعر ہیں۔موجودہ دور کے نامور ادباء و شعراء میں نبی بخش خان بلوچ،استاد بخاری،علامہ آئی آئی قاضی اور حسام الدین راشدی کے نام پیش کیے جاسکتے ہیں۔
اردو اور سندھی زبان کا تعلق بہت قریبی نوعیت کا ہے۔اس تعلق کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ہمارے محققین میں سے سید سلیمان ندوی نے اردو کا مولد سندھ کو قرار دیا ہے۔ان کی کتاب ’’نقوش سلیمانی‘‘ اسی گتھی کو سلجھانے کی کوشش ہے۔اس کتاب میں انہوں نے واضح لکھا کہ’’سندھ کی وادی ہماری متحدہ زبان کا پہلا گہوارا ہے۔‘‘اردو کا آغاز سندھ سے ہوا ہے یا نہیں ،یہ الگ بحث ہے،ہم اس وقت اردو اور سندھی زبان کے قریبی تعلق کی بات کر رہے ہیںجوکہ اظہر من الشمس ہے۔
سہ ماہی ادبیات اطفال میں ملکی ادب کے تراجم بھی پیش ہوتے ہیں۔ان تراجم میں سے سب سے زیادہ تعداد سندھی زبان کے تراجم کی ہے۔سہ ماہی ادبیات اطفال کے دس شماروں میں سندھی زبان سے تیرہ تراجم شامل اشاعت ہیں۔ان تراجم کے مترجمین میں سے پیر نوید شاہ اور فیہم شناس کاظمی نمایاں ہیں۔ان تراجم میں سے بیشتر سندھ کی لوک کہانیاں ہیں۔اکثر کہانیوں کے ذیل میں ماخذ درج نہیں ہے۔اب ان تراجم کے موضوعات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ تراجم بچوں کے لیے کس قدرمفید ہیں:۔
(1) بخت آور بادشاہ:
یہ ایکسندھی کہانی ہے جسے فہیم شناس کاظمی نے ترجمہ کیا ہے ۔ یہ ایک تفریحی کہانی ہے جس میں ایک بادشاہ کی کہانی پیش کی گئی ہے ۔ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا اور جنگل میں کھو گیا، کئی دن تک وہ جنگل میں بھٹکتا رہا۔ ایک دن وہ چلتے چلتے ایک دوسرے ملک میں آ نکلا اور وہاں ایک قتل کے جرم میں پکڑا گیا۔مگر بادشاہ گھبرایا نہیں بلکہ مطمئن رہا۔ عدالت نے تحقیق کی تو وہ بے گناہ نکلا۔ اسی اثناء میں اسے پہچان لیا گیا اور اس شہر کے بادشاہ نے اسے اپنا داماد بنا لیا اور یوں بخت والا بادشاہ شہزادی کے ساتھ اپنے ملک لوٹ گیا۔اس کہانی کا موضوع انسان کا مقدر اور نصیب ہے۔نصیب نے قتل کے جرم میں قید بادشاہ کو اسی ریاست کا داماد بنا دیا۔اس میں دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر نصیب ساتھ نہ دے توبادشاہ بھی جیل جا سکتا ہے۔
(2) کوا اور چڑیا :
اس کہانی کا عنوان ہے کوا اور چڑیا جسے محمد ابراہیم جویو نے لکھا ہے۔اس کا اردو ترجمہ کرنے والے فہیم شناس کاظمی ہیں۔یہ ایک جانور کہانی ہے۔ اس کہانی میں ایک کوے کو چڑیا کے ساتھ حسد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔کوا سوچتا ہے کہ سبھی مجھے دھتکارتے ہیں جبکہ چڑیا کو کوئی کچھ نہیں کہتا، ہو نہ ہو یہ فساد چڑیا کا پھیلایا ہوا ہے۔وہ چڑیا کے گھر پر قبضہ کرتا ہے اور اس کے بچے کھانے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔چڑیا کہتی ہے کہ وہ اس کے بچوں کو نقصان نہ پہنچائے ،بدلے میں وہ کوے کی ہر شرط مانے گی۔کوا چڑیاکو ایک شرط میں پھنسا کر اسے کھانے لگتا ہے۔ چڑیا ذہین ہوتی ہے، وہ اسے کہتی ہے کہ پہلے اپنی چونچ تو دھو کر لاؤ، کوا چونچ دھونے جاتا ہے تو بہت سی الجھنوں میں پڑ جاتا ہے۔وہ ان الجھنوں کا ھل تلاش کرتا ہے اور آخر کار اس کے پر جل جاتے ہیں اور وہ اپنے برے ارادے سے باز آ جاتا ہے۔اس طرح کی ایک کہانی سرائیکی زبان میں بھی ملتی ہے جو دیہی علاقوں کے بچوں میں بے حد مقبول ہے۔اس کہانی کا موضوع یہ ہے کہ حسد نہ کیا جائے۔
(3) ماں بیٹا :
اس کہانی کے مصنف ولی رام ولبھ اور مترجم پیر نوید شاہ ہیں۔ اس کہانی میں ماں اور بیٹے کا مکالمہ ہے۔بیٹا اپنے فوت شدہ باپ کے بارے میں پوچھتا ہے کہ وہ واپس آئے گا یا نہیں۔ ماں اسے سمجھاتی ہے کہ تو فکر نہ کرو، میں اسی طرح مشین چلا کر، لوگوں کے کپڑے سی کر تمہیں بڑا آدمی بناؤں گی۔ بیٹا باپ کے نہ ہونے پر افسردہ ہے اور پھر ماں کے بھی آنسو بہہ پڑتے ہیں۔اس مختصر کہانی میں ایک معاشرتی المیہ پیش کیا گیا ہے کہ یتیم بچے کا ولی وارث کوئی نہیں بنتا جس کی وجہ سے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔

(4) نیند کے پار :
اکبر جسکانی کی لکھی ہوئی کہانی نیند کے پار کو پیر نوید شاہ نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ کہانی ایک خواب پہ مبنی ہے جس میں ایک آدمی دوران خواب عجیب مناظر دیکھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ عجیب باغ میں سونے چاندی کے پھول ہیں، اسی طرح دیگوں میں سالم جانور بھونے جا رہے ہیں۔ بڑے بڑے دسترخوان بچھائے جارہے ہیں، ایک بونا صاحب خواب کو کھانے کی دعوت دیتا ہے اور انکار پر اسے دیگ میں پٹخ دیتا ہے جس پر نیند کھل جاتی ہے اور خواب ٹوٹ جاتا ہے۔یہ ایک علامتی کہانی ہے جس میں ایک غریب آدمی کو دولت کی کثرت کا خواب دیکھتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔
(5) پچھتاوا :
یہ عزیز کنگرانی کی تحریر ہے جسے پیر نوید شاہ نے ترجمہ کیا ہے۔یہ ایک سادہ سی کہانی ہے۔ عرفان نامی ایک بچہ کرکٹ کا اس قدر رسیا ہو جاتا ہے کہ اسے پڑھائی کا خیال ہی نہیں رہتا یوں وہ دسویں کے امتحانات میں ناکام ہو جاتا ہے اور اسے پچھتاوا ہوتا ہے۔ناکامی کے بعد وہ بہت افسوس کرتا ہے لیکن تب اس کا فسوس اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا۔بنیادی طور پر یہ کہانی بچوں کو ایک اخلاقی سبق دے رہی ہے کہ انہیں پڑھائی کے معاملات میں ہرگز سستی نہیں کرنی چاہیے۔
(6) شکست کے بعد :
یہ قاضی منظر حیات کی کہانی ہے جسے پیر نوید شاہ نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ ایک اصلاحی کہانی ہے۔ ساجد اور دلشاد دو دوست ہیں۔ ساجد بری صحبت میں پھنس جاتا ہے اور اسکول سے غیر حاضر رہنے لگتا ہے۔ دلشاد اپنے دوست ساجد کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ نہیں سمجھتا اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ امتحان میں فیل ہو جاتا ہے اور اس کے برے دوست بھی اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔لیکن چونکہ ساجد اس کا سچا دوست ہوتا ہے لہٰذا وہ اس کے گھر پہنچ جاتا ہے اور اس کی مایوسی ختم کرتا ہے ۔دونوں آپس میں بغل گیر ہو جاتے ہیں اور یوں ساجد نئی زندگی کی شروعات کر دیتا ہے۔
(7) مسکان :
اس کہانی کو پیر نوید شاہ نے ترجمہ کیا ہے جبکہ اس کے مصنف امام راشدی ہیں۔ اس کہانی میں مصنف خود کو مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ مصنف ٹرین میں سفر کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک ایک بھکاری کی آواز اسے چونکا دیتی ہے۔یہ آواز اس کے جاننے والے باپ اور بیٹا کی ہوتی ہے جو بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔، علو اور ولو، جو مصنف کے گائوں کے دوست ہیں لیکن اس وقت بھیک مانگ رہے ہیں۔ مصنف ان سے اظہار ہمدردی کرتا ہے اور علو کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے ولو کو اسکول میں پڑھائی کرنے دے۔ مصنف کے اصرار اور پڑھائی کے اخراجات ادا کرنے کے وعدے پر ولو پڑھنے لگ جاتا ہے اور اس کا مستقبل بچ جاتا ہے۔یہ ایک معاشرتی کہانی ہے جس کا موضوع تعلیم کی اہمیت ہے۔
(8) عقل اور بخت :
` یہ ایک سندھی کہانی ہے جس کے مصنف فضل الرحمن میمن ہیں جبکہ مترجم فہیم شناس کاظمی ہیں۔ یہ ایک تمثیلی کہانی ہے جس میں عقل اور بخت کو مجسم انداز میں دکھایا گیا ہے۔ عقل اور بخت میں اس بات پر جھگڑا ہو گیا کہ طاقت ور کون ہے۔ دونوں اپنی اپنی طاقت دکھانے کے لیے تیار ہو گئے ۔ایک ملک میں بادشاہ نے اپنی بیٹی کے لیے دولہا چننا تھا، اتفاق سے ایک چرواہا بھی وہاں موجود تھا، بخت نے چرواہے کا ساتھ دیا اور یوں وہ شہزادی کا شوہر منتخب ہو گیا۔عقل یہ دیکھ کر ہنسی اور کہا اب دیکھنا میرا ساتھ نہ ملنے پر تمہارے دوست کا کیا حال ہوتا ہے۔چرواہے کی ملاقات شہزادی سے کرائی جاتی ہے۔ شہزادی نے چرواہے سے کچھ سوال پوچھے ،اب عقل نے تو اس کا ساتھ دینا ہی نہیں تھا،لہذاچرواہا ان کے جوابات نہ بتا سکا۔ا شہزادی نے اپنے شوہر کو سولی پہ چڑھانے کا حکم دے دیا۔ اب عقل نے چرواہے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بخت کو کہا دیکھو تم نے اسے تختہ دار پر پہنچا دیا اب میرا کمال دیکھو۔ اس کے بعد عقل نے چرواہے کا ساتھ دیا اور شہزادی کے تمام سوالات کے درست جوابات دے کر اس کا دل جیت لیا۔ اس کہانی میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ عقل سب پہ بھاری ہے۔اس لیے ہمیں ہر کام عقل مندی سے کرنا چاہیے۔
(9) کامیابی کا راز :
ایک سندھی کہانی ہے، جسے فضل الرحمن میمن نے لکھا ہے اور فہیم شناس کاظمی نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ کہانی ایک بادشاہ کی ہے جسے تین سوالات کے جوابات کی تلاش تھی۔وہ سوالات یہ تھے:
(1) کسی کام کو شروع کرنے کا اہم وقت کون سا ہے؟
(2)سب سے اہم کام کون سا ہے؟
(3)سب سے اہم آدمی کون ہے؟
بادشاہ نے سلطنت میں اعلان کر دیا کہ ان سوالات کے درست جوابات دینے والے کو انعام دیا جائے گا۔کئی دنوں تک لوگ جواب دیتے رہے مگر بادشاہ مطمئن نہ ہوا۔ آخر وہ ایک درویش کے پاس پہنچا اور اس سے درخواست کی کہ وہ درست جوابات عنایت کرے۔ درویش نے بادشاہ کو اپنے پاس رکنے کو کہا۔ اس دوران بادشاہ کو اپنے سوالات کے جوابات مل گئے ۔جو کہ یہ تھے:۔
(1)کسی کام کو شروع کرنے کا درست وقت ضرورت ہے کہ جب ضرورت ہو تو کام کیا جائے ۔
(2) سب سے اہم کام مصروفیت ہے۔
(3) سب سے اہم آدمی وہ ہے جسے آپ کی مدد درکار ہو۔اور ایسے شخص کی فوری طور پر کی مدد کی جائے۔
(10) بادشاہ اور ٹھگ :
یہ ایک سندھی کہانی ہے جسے جام ساقی نے لکھا ہے اور اسے پیر نوید شاہ نے ترجمہ کیا ہے۔ اس کہانی میں ٹھگوں کے ایک گروہ کا ذکر ہے جنہوں نے ایک بادشاہ کو بے وقوف بنا لیا۔ بادشاہ اعلیٰ سے اعلیٰ پوشاک پہننے کا شوقین تھا۔ٹھگوں نے کہا کہ ہم ایک ایسی پوشاک بنا کر دیں گے جسے صرف عقل مند ہی دیکھ سکیں گے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔کچھ دنوں بعد بہت سارے روپے خرچ کرنے کے بعد ٹھگوں نے بادشاہ کو بلایا اور اس کی قیمتی پوشاک اتار کر نیا لباس پہنانے کی اداکاری کی۔دراصل ٹھگوں نے کوئی لباس بنایا ہی نہیں تھا۔ بادشاہ نے جب خود کو ننگا دیکھا تو ششدر رہ گیا مگر وہ یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ مجھے لباس نظر نہیں آیا ورنہ ٹھگ اسے بیوقوف سمجھتے،ادھر ٹھگ تعریفیں کیے جارہے تھے کہ واہ بھئی واہ کیا کہنے، کیا زبردست پوشاک ہے۔بادشاہ اسی حالت میں باہر نکل آیا تو عوام تو شور مچانے لگے، تب بادشاہ کے حواس بحال ہوئے لیکن تب تک ٹھگ رفو چکر ہو چکے تھے۔
(11) اتفاق میں برکت ہے :
اکبر جسکانی کی سندھی کہانی اتفاق میں برکت ہے کو پیرنوید شاہ نے ترجمہ کیا ہے۔اس کہانی میں ایک معصوم لڑکے جاوید کو دکھایا گیا ہے جو گاؤں میں چندہ جمع کر کے غریب لوگوں کی مدد کرتا ہے۔یہ ایک مختصر کہانی ہے۔اس کہانی کا بنیادی مقصدبچوں کے اندر تعمیری سوچ کو پیدا کرنا ہے۔
(12) مہمان چڑیا :
یہ وحید محسن کی لکھی ہوئی کہانی ہے جسے ننگر چنا نے ترجمہ کیا ہے۔ ایک چڑیا گھر میں پانی پینے آتی ہے تو مصنف اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔وہ اپنے بچوں اور بیوی کو شور کرنے سے روکتا ہے کہ کہیں چڑیا اڑ نہ جائے۔اس کے بعد وہ چڑیا کو دانہ ڈالتے ہیں اور یوں چڑیا ان سے مانوس ہونے لگ جاتی ہے۔وہ روزانہ آتی ہے اور دانہ چگ کر چلی جاتی ہے جس پہ مصنف بے حد خوشی محسوس کرتا ہے۔اس کہانی کا موضوع جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا سبق دینا ہے۔
(13) شرارت کا نتیجہ :
یہ امام راشدی کی لکھی ہوئی کہانی ہے جسے پیرنوید شاہ نے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ایک شرارتی بچے مولو کی کہانی ہے جو روزانہ اسکول جاتے ہوئے راستے میں چھپ جاتا ہے اور پھر آوارہ گردی کرنے کے بعد چھٹی کے وقت گھر چلا جاتا ہے۔ اس دوران مولو باغ سے توتے کے بچوں کو اغوا کرنے اور بیچنے کا کام شروع کر دیتا ہے۔ ایک دن توتا پکڑتے ہوئے اسے سانپ ڈس لیتا ہے اور وہ مالی کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے۔سانپ کے کاٹنے سے اس کی طبیعت بگڑ جاتی ہے اور وہ کافی عرصے تک بیمار رہتا ہے اور پھر صحت یاب ہونے کے بعد وہ شرارتوں سے باز آ جاتا ہے۔
پنجابی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ :
پنجابی اور اردوزبان وادب:
پنجابی صوبہ پنجاب کی زبان ہے۔یہ زبان پورے ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ایک سروے کے مطابق یہ زبان ملک کے ساٹھ فی صد لوگوں کی مادری زبان ہے۔پنجابی ادب کا نام لیتے ہی ذہن میں خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمہ اللہ کا نام جگمگانے لگتا ہے جنہوں نے پنجابی زبان میں صوفیانہ شاعری کا آغاز کیا۔ ان کے علاوہ دیگر شعراء میں بلہے شاہ،شاہ حسین،میاں محمد بخش اور سلطان باہو کے نام بہت مشہور ہیں۔قیام پاکستان کے بعد پنجابی زبان میں ترقی دیکھنے کو ملی۔پنجاب یونی ورسٹی میں پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ایک شعبہ بھی قائم ہے جہاں پہ تحقیقی کام ہوتے ہیں۔
سہ ماہی ادبیات اطفال میں بچوں کے لیے ملکی ادب سے تراجم پیش کیے جاتے ہیں۔ان میں پنجابی زبان کے تراجم بھی شامل ہیں۔ذیل میں ہم انہی تراجم کا موضوعاتی جائزہ لیں گے:۔
(1) ہائے بے چارہ چڑیا :
یہ ایک پنجابی کہانی ہے جسے رضوانہ سید علی نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ ایک لوک کہانی ہے۔ ایک چڑیا دانے کی تلاش میں نکلتی ہے اور اسے سونے کا ٹکڑا ملتا ہے۔وہ ٹکڑا لیے جارہی ہوتی ہے کہ ایک کوے دھوکے سے وہ ٹکڑا ہتھیا لیتا ہے اور کیکر کے درخت پر جا بیٹھتا ہے۔ چڑیا پہلے کیکر سے کہتی ہے کہ وہ کوے کو اڑا دے مگر کیکر انکار کر دیتا ہے، وہ ترکھان کو کہتی ہے کہ کیکر کو کاٹ دے، پھر بادشاہ کو کہتی ہے کہ ترکھان کو سزا دے، پھر ملکہ کو کہتی ہے کہ وہ بادشاہ سے روٹھے، پھر ناگ کو کہتی ہے کہ وہ ملکہ کو کاٹے، پھر آگ کو کہتی ہے کہ وہ ناگ کو جلادے، ان سب کے انکار پہ وہ پانی کے پاس جاتی ہے کہ آگ کو بجھا دے۔پانی چڑیا کی مدد پہ تیار ہوجاتا ہے اور آگ بجھانے کے لیے آجاتا ہے۔آگ کہتی ہے مجھے نی بجھائو ،میں ناگ کو جلاتی ہوں۔اس کے بعد تمام چیزیں چڑیا کی مدد کرنے پہ راضی ہو جاتی ہیں اورآخر کار کوا اسے سونے کا ٹکڑا واپس کرنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔
(2) امرت دھارا :
یہ پنجابی کہانی ہے جسے سعدیہ سمن نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ کہانی ہمارے معاشرے کی دورخی پالیسی کو عیاں کرتی ہے۔کسی گاؤں میں چوریاں بہت زیادہ ہورہی ہوتی ہیں۔ لوگ صوفی صاحب کے پاس دعا کے لیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔کچھ دن بعد چور پکڑے جاتے ہیں تو ان میں صوفی صاحب کا بیٹا بھی ہوتا ہے۔تب صوفی صاحب بیٹے کو ہمت سے کام لینے کی تلقین کر رہے ہوتے ہیں۔یہ ایک معاشرتی کہانی ہے۔

(3)پیار کا پنچھی :
یہ فرخندہ لودھی کی کہانی ہے جسے سعدیہ سمن نے اردو میں منتقل کیا ہے۔یہ ایک ضدی لڑکے بلال کی کہانی ہے جو ایک چڑیا کو پکڑ کر اس پہ رنگ کر دیتا ہے۔چڑیا واپس اپنے دوستوں میں جاتی ہے تو اس کے بدلے ہوئے رنگ کی وجہ سے وہ اسے نہیں پہچانتے اور اس کے دشمن بن کر اسے نکال دیتے ہیں۔ چڑیا بلال کے پاس آ کر رہنے لگتی ہے اور پھر مر جاتی ہے۔اس کہانی میں ایک سبق تو یہ ہے کہ پرندوں پہ ظلم نہ کیا جائے۔دوسرا سبق یہ ہے کہ انسان اگر اپنوں کی روش اور اپنوں کے راستے سے ہٹ جائے تو پھر اس کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔جیسے چڑیوں نے اپنی ساتھی چڑیا کو حلیہ میں بدلائو کی وجہ سے نہ پہچانا اور اسے نکال دیا۔
(4)سبز پری اور ہریل توتا :
فرخندہ لودھی کی کہانی ہے جسے سعدیہ سمن نے ترجمہ کیا ہے۔کہانی یوں ہے کہ ایک توتا اکیلا ہوتا ہے اور اداس رہتا ہے۔ایک دن ایک سبز پری اسے اپنا دوست بنا کر اپنے محل میں لے جاتی ہے اور اس کا ہر لحاظ سے خیال رکھتی ہے۔ توتا مزید لالچ میں آ کر پری سے شادی کی فرمائش کر دیتا ہے جس پہ پری اسے محل سے نکال دیتی ہے۔اس کہانی کا موضوع لالچ کے نقصانات کو نمایاں کرنا ہے۔
(5) سگی ماں کے گیت :
یہ الیاس گھمن کی تحریر ہے جسے منزہ غفور نے ترجمہ کیا ہے۔اس کہانی میں مشین سے نکلنے والے ننھے چوزوں کے جذبات کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ ماں ماں پکارتے ہیں مگر مشین ان کے جذبات کو نہیں سمجھ پاتی، تب وہ آپس میں مل جاتے ہیں اور مل کر بیٹھنے سے انہیں سردی کا احساس بھی نہیں ہوتا اور یوں ان کی تنہائی ختم ہو جاتی ہے۔اس مختصر کہانی سے جہاں ماں کی عظمت واضح ہو ریہ ہے وہیں اتحاد و اتفاق کے ثمرات بھی سامنے آرہے ہیں۔
(6) نئے سال کا پہلا دن :
یہ الیاس گھمن کی تحریر ہے اور اسے سعدیہ سمن نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ کہانی امید اور محبت کے پیغام پہ مشتمل ہے۔ خالد بیمار ہوتا ہے اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے لیکن اس کے گھر والے اسے امید دلاتے ہیں کہ تم جلد صحت یاب ہو جاؤ گے۔کچھ دن بعد خالد ٹھیک ہو جاتا ہے جس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔یہ کہانی بچوں کو مصیبت کے وقت میں صبر سے کام لینے کا درس دیتی ہے۔

سرائیکی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ :
سرائیکی اور اردو زبان و ادب:
پاکستان کی علاقائی زبانوں میں سرائیکی بھی ایک اہم زبان ہے۔یہ زبان چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اس زبان کے بولنے والے چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔تاہم صوبہ پنجاب کا جنوبی علاقہ اس زبان کا مرکز کہلاتا ہے۔سرائیکی ایک قدیم زبان ہے۔اس زبان میں شاعری،داستانیں ،لوک کہانیاں اور حکایات ملتی ہیں۔سرائیکی زبان کے قدیم ادباء میں خواجہ غلام فرید،لطف علی،حمل لغاری اوربیدل سندھی کے نام معروف ہیں۔بیسویں صدی کے نصف آخر میں ڈاکٹر مہر عبدالحق کی کتاب ’’ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق‘‘منظر عام پر آئی جس سے سرائیکی زبان کا اردو سے رشتہ واضح ہوا اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔دور حاضر کے شعراء سرائیکی ادب کو مالا مال کر رہے ہیں جس سے یہ زبان ترقی کر رہی ہے۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں بچوں کے لیے سرائیکی ادب سے تراجم بھی موجود ہیں۔یہ صرف دو تراجم ہیں۔ذیل میںہم ان کا جائزہ لیں گے۔
(1) انوکھا تحفہ :
یہ مسرت کلانچوی کی کہانی ہے جسے سید ضیاء الدین نعیم نے ترجمہ کیا ہے۔ اس کہانی میں دو سہیلیوں کی دوستی کا تذکرہ ہے۔ایک کا نام ماریہ اور دوسری کا نام سمیرا ہے۔ ماریہ غریب ہے لیکن وہ اسکول میں اس کا اظہار نہیں کرتی۔ سمیرا امیر گھرانے کی لڑکی ہے۔ایک دن اسے ماریہ کی غربت کا علم ہو جاتا ہے۔ وہ ماریہ کو اپنے گھر بلا کر اپنے دادا جان سے ملواتی ہے۔ دادا جان اسے بتاتے ہیں کہ غریب ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ وہ ماریہ کو اپنا راز بتاتے ہیں کہ میں بھی غریب تھا لیکن میں نے اپنے بیٹے کو پڑھایا تو اس کی اچھی نوکری لگ گئی۔ تم بھی محنت سے پڑھو اور اپنی زندگی آسان بنالو۔ اس پہ ماریہ دادا جان کا شکریہ ادا کرتی ہے۔اس کہانی میں محنت کا سبق دیا گیا ہے۔
(2) ملکہ تتلی :
یہمسرت کلانچوی کی سرائیکی کہانی ہے جسے سید ضیاء الدین نعیم نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ کہانی بطور خاص ننھے منے بچوں کے لیے ہے۔ اس میں ایک بچی ثمرہ کو دکھایا گیا ہے جو تتلیاں پکڑ کر انہیں مار دیتی ہے۔ ایک رات اسے خواب میں ملکہ تتلی نظر آتی ہے جو اسے قید کر دیتی ہے۔ثمرہ اس خواب سے جاگنے کے بعد بہت ڈری ہوئی ہوتی ہے اور وہ آئندہ کے لیے توبہ کرتی ہے کہ وہ اب تتلیوں کو نہیں ستائے گی۔

براہوی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ :
براہوی اور اردو زبان و ادب:
براہوی زبان صوبہ بلوچستان کی زبان ہے۔یہ قلات ڈویژن میں بولی جاتی ہے۔یہ زبان مختلف زبانوں کا ملغوبہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خود براہوی بھی نسلی طور پر کئی قوموں کا امتزاج بتائے جاتے ہیں۔انہیں ترک،ایرانی اور بلوچ بتایا گیا ہے۔براہوی کافی قدیم زبان ہے۔براہوی زبان کی کئی لوک کہانیاں اردو میں ترجمہ کے ذریعے آئی ہیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی اس زبان سے کیے گئے تراجم شامل ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:۔
(1) موچی اور بونے :
یہ کہانیعقیلہ رحمان کا کیا ہوا ترجمہ ہے۔ اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ ایک موچی بیمار ہوتا ہے۔وہ کام کاج کے قابل نہیں ہوتا۔ایک رات اس کے گھر کچھ بونے آ جاتے ہیں۔وہ موچی کو بیمار دیکھ کر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔وہ روزانہ جوتوں کی نئی اور خوب صورت جوڑی بنا کر رکھ دیتے ہیں جنہیں دیکھ کر موچی خوش اور حیران ہوتا ہے۔وہ جوتے بیچ کر گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔ ایک روز وہ بونوں کو دیکھ لیتا ہے۔ تب وہ بازار جاتا ہے اور بونوں کے لیے اچھے اچھے تحائف لے کر آتا ہے۔ یوں وہ احسان کا بدلہ احسان سے چکاتا ہے۔
(2) نتو کاریت :
یہ کہانی براہوی ادب سے لی گئی ہے جسے ڈاکٹر عنبرین مینگل نے ترجمہ کیا ہے۔ اس کہانی میںاونٹوں کے چروا ہے کا ذکر ہے۔ نتو ایک چرواہا ہے جو اونٹوں کو چراتا ہے۔ ایک رات نتو صحرا میں ہوتا ہے کہ ایک اونٹ بلبلا کر شور مچانا شروع کر دیتا ہے۔نتو اسے بہت مارتا ہے مگر اونٹ کا شور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے تب نتو طیش میں آ کر اس کی ٹانگیں کاٹ ڈالتا ہے۔اس کے بعد وہ سو جاتا ہے۔زخمی اونٹ انتقام میں جل رہا ہوتا ہے اور وہ نتو کے قریب پہنچ کر اسے مار ڈالتا ہے۔صبح جب لوگ وہاں پہنچ کر دیکھتے ہیں تو اونٹ اور نتو ایک ٹیلے پہ مرے ہوئے پڑے ہوتے ہیں۔لوگ یہ سارا منظر دیکھتے ہیں تو وہ اس ٹیلے کا نام نتو کا ریت رکھ دیتے ہیں۔ یہ ٹیلہ بلوچستان میں نوشکی کے مقام پر موجود ہے۔
ہندکو ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ :
ہندکو اور اردو زبان وادب:
ہند کا لفظ فارسی لفظ ہے اس کا معنی ہے’’سندھ‘‘اور کو سے مراد’’ پہاڑ‘‘ ہے۔گویا ہندکو سے مراد سندھ کا پہاڑی علاقہ اور اس علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے۔یہ قدیم زبان ہے اور یہ پاکستان،شمالی ہندوستان اور افغانستان کے ہندکی علاقوں میںبولی جاتی ہے۔ہندکی علاقوں سے مراد ہمالیہ کے تمام پہاڑی سلسلے ہیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں اس قدیم زبان سے دو تراجم بچوں کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔
(1) ٹپ ٹپا :
یہہندکو ادب سے ماخوذ کہانی ہے جسے جدون ادیب نے اردو قالب بخشا ہے۔ کہانی یوں ہے کہ ایک رات بارش ہورہی ہے۔ ایک گھر میں ماں اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔کمرے کی چھت ٹپک رہی ہے۔ بیٹی نے سوال کیا کہ سب سے خطرناک چیز شیر ہے یا بچھو؟؟ ماں ٹپکتی چھت سے نالاں بیٹھی ہے سو اس نے غصے میں جواب دیا کہ سب سے خطرناک چیز ٹپ ٹپا ہے۔ اتفاق سے ایک شیر اس گھر کے پاس ٹھہرا تھا۔اس نے جب یہ سنا کہ ٹپ ٹپا نامی کوئی چیز اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے تو وہ ڈر گیا۔وہ واپسی کے لیے روانہ ہو ہی رہا تھا کہ ایک دیہاتی اندھیرے میں اسے اپنا گدھا سمجھ کر اس پر چڑھ دوڑا اور خوب پٹائی کر دی۔
شیر سمجھا کہ یہ ٹپ ٹپا والی بلا آ گئی ہے۔ وہ منہ زوری سے بھاگا، ادھر دیہاتی نے جب غور کیا تو دیکھا کہ وہ اپنے گدھے کے بجائے ایک شیر پہ سوار ہے، اس کے تو حواس جاتے رہے۔ اسے ایک درخت نظر آیا تو وہ اس سے لٹک گیا اور یوں اس کی جان شیر سے چھوٹ گئی۔ ادھر شیر جنگل میں پہنچا تو بندر سے ملاقات ہوئی، شیر نے ٹپ ٹپا کی کہانی سنائی تو بندر خوب ہنسا اور شیر کے ساتھ اس درخت تک جانے کی ہامی بھر لی۔ادھر دیہاتی ڈنڈا لیے تیار بیٹھا تھا چنانچہ جیسے ہی بندر درخت پر چڑھا۔ دیہاتی نے ڈنڈے برسا برسا کر اس کا کچومر نکال دیا اور شیر اور بندر ٹپ ٹپا، ٹپ ٹپا چلاتے ہوئے بھاگ گئے۔
(2) دانا بوڑھا :
یہ ایک دلچسپ ہندکو کہانی ہے جسے جدون ادیب نے ترجمہ کیا ہے۔ اس کہانی میں ہزارہ قوم کی رسومات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ شادی کے موقع پر ان کی دو رسمیں بڑی عجیب ہوتی ہیں۔ ایک تو بت کر کہلاتی ہے جس میں دولہا والوں کو بھاری پتھر اٹھانے ہوتے ہیں جبکہ دوسری رسم ٹمن گرانا ہوتی ہے جس میں کسی اونچے درخت پر لٹکی چیز کو نشانہ بنا کر نیچے گرانا ہوتا ہے۔ان دو رسموں کے بغیر دولہا والے دلہن کو نہیں لے جا سکتے۔ ایک بار شادی پہ دلہن والوں نے دو عجیب شرطیں لگائیں کہ بارات میں کوئی بوڑھا نہ آئے اور دوسری شرط یہ تھی کہ صرف سو آدمی آئیں۔
دولہا والوں نے ایک دانا بوڑھا اپنے ساتھ چھپا لیا اور چل پڑے۔ دلہن والوں نے مہمانوں کا استقبال کیا اور انہیں کہا کہ اگر آپ سو لوگ سو بھنے ہوئے بکرے کھا لیں گے تو دلہن لے جا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔یہ شرط بہت مشکل تھی، سبھی دانا بوڑھے کے پاس آئے، دانا نے کہا کہ تم شرط مان لو لیکن سو بکرے ایک ساتھ نہ لائے جائیں بلکہ ایک ایک کر کے لائے جائیں یوں تم سو بکرے وقفے وقفے سے کھاتے ہوئے یہ شرط پوری کر لو گے۔دولہا والوں نے دانا بوڑھے کے مطابق کیا تو دلہن والوں کو شک ہو گیا کہ ایسا مشورہ کوئی بوڑھا ہی دے سکتا ہے۔ انہوں نے جب تلاش کیا تو انہیں دانا بوڑھا مل ہی گیا۔اب دونوں قبائل کے معززین نے یہ شرائط ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں ایک دانا کے مشورے سے دولہا والے جیت گئے۔ سچ ہی کہا گیا ہے کہ بوڑھے کا مشورہ جوان کی قوت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
بلوچی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ :
بلوچی اور اردو زبان وادب:
بلوچی صوبہ بلوچستان کی مرکزی زبان ہے۔اس زبان کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اس کے اکثر بولنے والے بلوچ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔بلوچی ادب کے فروغ کے لیے قیام پاکستان کے بعد ایک ادارہ ’’بلوچستان رائٹرز ایسوسی ایشن‘‘ قائم کیا گیا۔اس ادارے نے بلوچی ادب کے تحقیقی گوشوں کو آباد کیا۔بلوچی زبان کی شاعری کا ذکر کیا جائے تو اس میںمست توکلی جیسے شاعر بھی موجود ہیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں بلوچی زبان سے صرف ایک ترجمہ شامل ہے:۔
(1) چالاک گیدڑ :
یہ آمنہ پناہ کا کیا ہوا ترجمہ ہے۔ یہ ایک گیدڑ کی کہانی ہے جو ہر رات ایک دیہاتی کی مرغیاں کھا جاتا تھا۔ایک رات دیہاتی نے اسے پکڑ لیا اور خوب ٹھکائی لگائی اور اپنے پاس باندھ دیا۔دیہاتی اسے روزانہ مار لگاتا۔ روزانہ مار کھانے سے اس کا جسم سوج گیا تھا۔ ایک روز ایک بھوکا گیدڑ ادھر آ نکلا۔اس نے سوجے ہوئے موٹے گیدڑ کو دیکھا تو سمجھا کہ مزے دار خوراک کھانے کی وجہ سے اس کی صحت بہتر ہوگئی ہے۔وہ اس پہ رشک کرنے لگا۔چالاک گیدڑ نے بھوکے گیدڑ کو بیوقوف بنا کر اسے اپنی جگہ بٹھا دیا اور خود آزاد ہو گیا۔ اگلے دن جب دیہاتی نے اس کی پٹائی کی تو اسے اپنا سوجا ہوا جسم دیکھ کر پہلے والے گیدڑ کی صحت کا راز معلوم ہو گیا۔ تب اسے سمجھ آئی کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔
پشتو ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ :
پشتو اور اردو زبان و ادب:
پشتو کا ایک نام پختو بھی ہے۔یہ زبان صوبہ خیبر پختون خوا کی مرکزی زبان ہے۔پشتو ایک قدیم زبان ہے۔خوش حال خان خٹک اس زبان کا نامور شاعر ہے۔اس کے علاوہ رحمان بابا کی شاعری بھی پشتو زبان کا سرمایہ ہے۔بچوں کے لیے ہر زبان میں ادب تخلیق ہوا ہے۔پشتو دبیات میں بھی بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ادبیات اطفال میں پشتو ادب سے ایک کہانی کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے جو کہ یہ ہے:۔
(1) ندامت :
یہ ایک پشتو کہانی ہے جسے سید خالق داد امید نے لکھا ہے اور اسے اردو میں شاہد انور شیرازی نے منتقل کیا ہے۔ اس کہانی میں پشتو معاشرت دکھائی گئی ہے۔ شریف ایک آوارہ طبیعت کا مالک آدمی ہے۔ خائستہ گل شریف کا بیٹا ہے جو بستر مرگ پر پڑا ہے مگر شریف کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ شریف کی بیوی اپنا زیور اتار کر شریف کو دیتی ہے تاکہ وہ بچے کا علاج کرائے۔ اس دوران خائستہ گل کا ماموں آجاتا ہے اور اپنے بھانجے کو ہسپتال لے جاتا ہے۔ شریف جب زیور بیچ کر آتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم خان اس کے بیٹے کو ہسپتال لے گیا ہے۔وہ بہت شرمندہ ہوتا ہے اور ہسپتال جا کر اپنی غفلت کی معافی مانگ کر ایک محنتی انسان بن جاتا ہے۔
غیر ملکی ادب کے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ:
انگریزی :۔15
افریقی:۔ 02
ہندی :۔02
فارسی :۔01
عربی :۔01
کل غیر ملکی ادب کے تراجم 21=
انگریزی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ:۔
(1) بلی اور چوہا :
یہ کہانی انگریزی ادب سے ماخوذ ہے۔ یہ ریاض عادل کا کیا ہوا ترجمہ ہے۔ اس میں بلی اور چوہے کی کہانی پیش کی گئی ہے۔ ایک بلی چوہے کو پکڑ کر اس کی دم توڑ دیتی ہے۔چوہا چیخ چیخ کر اپنی دم کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے مگر بلی ایک شرط پیش کرتی ہے۔شرط یہ ہوتی ہے کہ چوہا بلی کے لیے گائے سے دودھ لے کر آئے۔چوہا بے چارہ بہت محنت کر کے دودھ لاتا ہے اور بلی کو پیش کرتا ہے۔تب کہیں جا کر بلی اس کی دم واپس کر تی ہے۔یہ کہانی جولیا ایلس کی لکھی ہوئی ہے۔یہ ایک باتصویر کہانی ہے جو چھوٹے بچوں میں بے حد مقبول ہے۔انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف میں بآسانی ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے اور آن لائن بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ایک لنک یہ ہے:۔
https://www.yuumpu/the-cat-and-the-mouse/35644569/read/documnt/en/
خوب صورت تصاویر سے مزین یہ کہانی بچوں کے ادب میں بہترین اضافہ ہے۔
(2)ننھا موسیقار:
یہ کہانی انگریزی ادب سے ماخوذ ہے جسے ارضوانہ سید علی نے اردو میں ڈھالا ہے۔ اس کہانی میں فن موسیقی کے معروف فن کار جارج کا ذکر ہے جنہوں نے فن موسیقی پہ کئی کتب بھی لکھی ہیں۔جارج جرمنی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔اسے بچپن ہی سے موسیقی کا شوق تھا مگر اس کے والد ایسا نہیں چاہتے تھے۔وہ اپنے بیٹے کو کسی اور شعبے میںکامیاب دیکھنا چاہتے تھے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جارج اپنے شوق کے ساتھ زندگی گزارتا رہا اور آخر کار اسے ایک ماہر استاد مل گیا جس نے اس کے فن کو نکھارا اور پھراس کی محنت رنگ لائی یہاں تک کہ اسے اپنے فن کی بناپر دربار برلن میں بلا لیا گیا۔ یوں اس کہانی میں محنت کی عظمت کا سبق دیا گیا ہے۔تاکہ بچے بھی محنت کر کے اپنی منزل کو پا لیں۔
(3)پیٹر کا چراغ:
یہ کہانی انگریزی ادب سے ماخوذ ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا عنوان a boy who wished to much ہے۔ یہ احمد عدنان طارق کا کیا ہوا ترجمہ ہے۔ یہ کہانی الہ دین کے چراغ سے ملتی جلتی ہے۔ اس کہانی میں پیٹر کو ایک پرانا چراغ ملتا ہے اور وہ اسے رگڑ کر چراغ کے جن کو حاضر کر کے اپنی خواہشات پوری کرانے لگتا ہے۔ جن اس کے تمام کام کرنے لگ جاتا ہے یوں وہ خود بے کار بیٹھے بیٹھے موٹا اور کاہل بن جاتا ہے۔آخرکار پیٹر اس بے مقصد زندگی سے اکتا جاتا ہے اور وہ چراغ کے جن کو سب کچھ پہلے جیسا کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور یوں سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا ہے۔اس کہانی میں سبق یہ ہے کہ انسان کو بیجا خواہشات اور بے مقصد زندگی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(4) خط :
یہ کہانی ریاض عادل کا انگریزی ادب سے کیا گیا ترجمہ ہے۔اس کہانی کے مصنف Karl Phillpott ہیں۔یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جسے اسکول جانا پسند نہیں ہے۔اس کا نام کلائیو ہے۔ وہ روزانہ اسکول سے بھاگ جاتا ہے اور راستے میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے۔اس کی دادی جب بھی اس سے اسکول کے بارے میں پوچھتی ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ میری پڑھائی بہت خوب جا رہی ہے۔ ادھر کلائیو کی ٹیچر اسے غیر حاضر پاتی ہیں تو دادی کو خط لکھتی ہیں۔
جب دادی ٹیچر کا خط پڑھتی ہیں تو کلائیو پہ غصہ کرتی ہیں اور اسے ٹیچر کے پاس لے جاتی ہیں۔ ٹیچر کے پوچھنے پر کلائیو بتاتا ہے کہ کلاس کے بچے اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے پسند نہیں کرتے اس لیے وہ نہیں پڑھنا چاہتا۔ ٹیچر اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور پھر اس کے بعد کلائیو اسکول جانے لگ جاتا ہے۔کچھ کہانیاں بچوں کے لیے ہوتی ہیں جبکہ کچھ بچوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔مندرجہ بالا کہانی بچوں کے بارے میں ہے۔یہ کہانی بچوں کے سرپرست اور والدین کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ بچوں کو پیار سے سمجھایا جائے تو اس کا نتیجہ دیرپا رہتا ہیاور اس کے فوائد زیادہ ہوتے ہیں۔
(5)سنہری مچھلی :
اینڈ بلیٹن انگریزی ادب کی معروف مصنفہ ہیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال کے شمارہ نمبر تین میں ان کی سات کہانیوں کے تراجم شامل ہیں۔پہلی کہانی touil of goldfish کا ترجمہ احمد عدنان طارق نے کیا ہے۔کہانی کا عنوان سنہری مچھلی ہے۔اس کہانی میں چین کا ایک ایسا تاجر دکھایا گیا ہے جو سنہری مچھلی حاصل کرنے کا خواہاں ہے مگر اسے زندگی بھر ایسی مچھلی نہیں مل سکتی۔آخرکار وہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔تجارت ترک کر دینے کی وجہ سے غریب ہوجاتا ہے۔ اچانک ایک رات اس کے گھر ایک اجنبی مہمان آتا ہے جو جادو بھی جانتا ہوتا ہے۔
بات چیت پہ معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی مہمان اس عورت کا بیٹا ہے جو اس تاجر کی ملازمہ رہی تھی۔ چونکہ تاجر اپنے ملازمین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرتا تھا اس لیے اس کا بیٹا احسان کا بدلہ دینے کے لیے تاجر کو بہت سا سونا دیتا ہے مگر تاجر سونا نہیں لیتا کیوں کہ اسے کسی قسم کی کوئی لالچ نہیں ہوتی۔چنانچہ اجنبی مہمان وہ سونا مچھلیوں والے حوض میں ڈال کر اس پہ ایسا منتر پڑھتا ہے کہ ساری مچھلیاں سنہرے رنگ میں بدل جاتی ہیں۔صبح تاجر بیدار ہوتا ہے تو اجنبی مہمان جا چکا ہوتا ہے اور حوض کی مچھلیاں سنہری ہو چکی ہوتی ہیں. یوں احسان کے بدلے میں اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ اس کہانی میں ملازمین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے۔
(6) جب چاند گر پڑا:
اینڈ بلیٹن کی دوسری کہانی کا عنوان۔the moon fell down when اردو میں اس کا ترجمہ ہے ۔یہ ایک فیبل کہانی ہے۔یہ کہانی مصنفہ کی کتاب six o’ clock میں شامل ہے۔اس میں ایک خار پشت کی معصومیت کو پیش کیا گیا ہے کہ جب وہ ایک درخت کے نیچے سے گزرتا ہے تو اچانک اس کی پشت پر درخت سے ایک پھل گرتا ہے۔ عین اسی وقت اس کی نظر آسمان پر جاتی ہے تو آسمان پر چمکتا ہوا چاند بادلوں میں چھپ گیا ہوتا ہے۔خار پشت کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ مجھ پر جو چیز ابھی گری ہے، ہو نہ ہو یہ وہی چاند ہوگا۔ وہ چاند مجھ پہ گرگیا، گر گیا کی چیخ و پکار کرتا ہوا سارے جانور اکٹھے کر کے لے آتا ہے۔تب وہ وہاں جمع ہو جاتے ہیں اور گرے ہوئے چاند کی تلاش شروع کرتے ہیں تو اسی درخت سے مزید کچھ پھل نیچے گرتے ہیں اور تمام جانوروں کو لگتے ہیں اور چاند بھی بادلوں کی اوٹ سے نکل آتا ہے۔ یہ دیکھ کر جانور ساری حقیقت سمجھ جاتے ہیں اور ہنسنے لگ جاتے ہیں لیکن ان ہنسنے والوں میں خار پشت نہیں ہوتا۔وہ شرمندگی کے مارے بھاگ جاتا ہے۔
(7)بہادر پلا:
اگلی کہانی the brave little puppy اینڈ بلیٹن کی کہانی ہے جسے ریاض عادل نے بہادر پلا کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔ ایک چھوٹا سا پلا دو بھائیوں کو ملتا ہے۔ وہ اسے پالنا چاہتے ہیں مگر اپنی امی کے نہ ماننے پر اسے کہیں اور چھوڑنے روانہ ہو جاتے ہیں۔راستے میں ایک جگہ وہ کار سے اتر کر اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں کہ ان کی کار کو چرانے کے لیے چور آ جاتے ہیں۔بہادر پلا کار کی حفاظت کرنے کے لیے زور زور سے بھونکنا شروع کر دیتا ہے جس پر لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور چور بھاگ جاتے ہیں۔اس واقعہ کے بعد وہ بہادر پلے کو اپنا پالتو بنا لیتے ہیں۔ یہ کہانی جانوروں کی وفاداری کو بیان کر رہی ہے۔
(8)ہوہو کی دعوت::
یہ ایک الو کی کہانی ہے جو بہت بھوکا ہوتا ہے مگر کوئی شکار نہیں مل رہا ہوتا جس سے وہ اپنی بھوک مٹائے۔آخر وہ ایک تجویز سوچتا ہے۔وہ کچھ جانوروں کو اپنے گھر دعوت پہ بلاتا ہے اور یہ منصوبہ بندی کر لیتا ہے کہ جیسے ہی مہمان آئیں گے ان کو کھا لوں گا۔شام کو مہمان آجاتے ہیں لیکن وہ سب ایک ساتھ آتے ہیں اس لیے الو کو شکار کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ مہمان جب دیکھتے ہیں کہ الو نے کوئی بھی کھانا تیار نہیں کیا تو وہ اس کی پٹائی کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔اس کہانی میں بری نیت کا برا انجام دکھایا گیا ہے تاکہ بچے اس روش سے دور رہیں۔
(9)نوٹ جو اڑ گئے:
یہ بھی اینڈ بلیٹن کی کہانی ہے۔اس کاانگریزی نام money that flew away ہے۔اس کہانی میں صفائی کی اہمیت اور خوش قسمتی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ایک ماں اپنے بچوں کے ساتھ میلے میں جا رہی ہوتی ہے کہ اس کے پیسے اڑ جاتے ہیں۔میلے پر جانے کا بنا بنایا پروگرام ختم ہو جاتا ہے اور وہ سب بہت پریشان ہو کر لوٹ آتے ہیں۔گھر پہنچ کر بچے باغیچے کی صفائی کرتے ہیں تو انہیں گرے ہوئے پتوں کے بیچ وہ نوٹ پڑے مل جاتے ہیں۔جس پہ وہ سب خوش ہوتے ہیں۔اس میں صفائی کا فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر وہ صفائی نہ کرتے تو نوٹ نہ ملتے۔
(10)جب کھلونے گھر کو چلے
: اینڈ بلیٹن کی کہانی when the toys walked home کا ریاض عادل نے جب کھلونے گھر کو چلے کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ایک لڑکی شیلا ہے جس کے پاس ایک کھلونا گاڑی ہے۔ ایک دن وہ جنگل میں اپنے کھلونوں کو ہاتھ ریڑھی کے اوپر بٹھا کر سیر کرانے لے جارہی ہوتی ہے کہ جنگل میں ایک بونا نظر آتا ہے۔بونا بلیک بیریز کو گھر لے جانے کے لیے شیلا سے ہاتھ ریڑھی مانگتا ہے۔شیلا کہتی ہے کہ میرے کھلونے گھر کیسے جائیں گے. بونا کہتا ہے کہ یہ خود پیدل ہی جائیں گے اور پھر واقعی شیلا کے کھلونے چلنے لگتے ہیں۔ اگلے دن شیلا کو اس کی ہاتھ گاڑی واپس مل جاتی ہے۔یہ کہانی طلسماتی حقیقت نگاری کا مظہر ہے۔جیسے کھلونوں کا چلنا،اور بونے کا ظاہر ہونا وغیرہ۔
(11)گوفی نے خط پوسٹ کیا :
یہ ایک انگریزی کہانی ہے۔اس کا اردو ترجمہ ریاض عادل نے کیا ہے۔اینڈ بلیٹن نے اس کہانی کا عنوان goofy posts a letter رکھا تھا۔مترجم نے بھی وہی عنوان برقرار رکھا۔یہ ایک بچے کی کہانی ہے جس کا نام گوفی ہے۔گوفی ایک کاہل بچہ ہے۔ اس کی خالہ اسے ایک خط پوسٹ کرنے کو کہتی ہیں۔وہ پہلے تو انکار کرتا ہے لیکن پھر خالہ کے ڈانٹنے پر چلا جاتا ہے۔اس وقت چونکہ وہ کیلا کھارہا ہوتا ہے اس لیے وہ اپنی جیب میں بھی کیلا ڈالے روانہ ہو جاتا ہے۔وہ جیب میں کیلا ڈال کر گھر سے روانہ ہوتا ہے۔
جب وہ لیٹر باکس تک پہنچ جاتا ہے تو جلدی میں خط کے بجائے لیٹر باکس میں کیلا ڈال دیتا ہے۔ پھر اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا غلطی کر بیٹھا ہے۔ اگلے روز وہ لیٹر باکس سے اپنا کیلا نکالنے جاتا ہے تو وہاں پر ایک پولیس آفیسر موجود ہوتا ہے جو غصے کے عالم میں کہہ رہا ہوتا ہے کہ جس نے بھی کیلا اندر پھینکا ہے میں اسے ضرور پکڑ لوں گا۔ گوفی ڈر کے مارے واپس گھر آ جاتا ہے۔تب تک خالہ کو وہ خط گھر میں ہی پڑامل جاتا ہے۔گوفی کے گھرپہنچنے پر خالہ اس کی خوب درگت بناتی ہیں۔اس کہانی میں بچوں کو جلد بازی اور کاہلی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(12)پیلے رنگ کی شہنائی
: یہ اینڈ بلیٹن کی کہانی The Yellow Trumpets کا ترجمہ ہے جسے احمد عدنان طارق نے اردو قالب بخشا ہے۔ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اس کہانی میں دو کاریگروں کا واقعہ پیش کیا گیا ہے جو شہنائیاں بناتے ہیں۔شہنائی کو ہم نقارہ بھی کہہ سکتے ہیں جو شادیوں پہ بجایا جاتا ہے۔ ان کاریگروں کے نام سیمی اور بنٹی ہیں۔ ایک دن وہ پیلے رنگ کی بڑی سی شہنائی بناتے ہیں جس کی آواز بہت اونچی ہوتی ہے۔ بچے ان کی شہنائی کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کی بنی ہوئی شہنائیاں ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ لیکن ان تیز آواز والی شہنائیوں سے ہر طرف شور مچ جاتا ہے۔ چنانچہ بادشاہ سیمی اور بنٹی کو پکڑنے کے لیے سپاہی بھیج دیتا ہے۔ وہ دونوں اپنی دکان سے شہنائیاں ہٹا کر پھولوں کے کھیت میں چھپا دیتے ہیں اور تلاشی لینے والوں کو کچھ بھی نہیں ملتا۔سپاہی ناکام لوٹ رہے ہوتے ہیں کہ ایک بونا سپاہیوں کو بتاتا ہے کہ شہنائیاں تو پھولوں کے کھیت میں چھپی ہیں۔جس پر سیمی اور بنٹی پکڑے جاتے ہیں اور وہ آئندہ کے لیے ایسی شہنائیاں نہ بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔
(13)ٹمی کچھوا :
یہ انگریزی کہانی ایلس واڈ یوس نے لکھی ہے جس کا اردو ترجمہ ریاض عادل نے کیا ہے۔ یہ ایک جانور کہانی ہے۔ ٹمی ایک کچھوا ہے جو تالاب میں رہتا ہے۔ اس کی ساری عمر اسی تالاب میں گزر جاتی ہے اور وہ کبھی بھی باہر سیر کو نہیں جاتا۔تالاب کا ایک مینڈک اس کا گہرا دوست تھا۔ایک بار ٹمی تالاب سے نکلا اور قریبی پہاڑی پہ چڑھ کر سلائیڈنگ کرنے لگا۔ اسے یہ پھسلنا بہت اچھا لگتا تھا. اچانک پھسلتے ہوئے وہ الٹا ہو گیا اور باوجود کوشش کے سیدھا نہ ہو سکا۔اس نے پاس سے گزرنے والی گلہری سے مدد لی، گلہری کچھ مزید جانور بھی بلا لائی مگر وہ سب مل کر بھی کچھوے کے بھاری خول کو سیدھا نہ کرسکے یہاں تک کہ اس کا دوست مینڈک آپہنچا۔اس نے ٹمی کو الٹی حالت میں پاؤں چلاتے دیکھا تو وہ خوب ہنسا پھر اس نے دوست جانوروں کو کہا
’’کیا تم اسے سیدھا کرنے میں ناکام رہے ؟۔‘‘
سب نے اثبات میں سر ہلایا ۔تب مینڈک بولا :۔
’’یہ بہت آسان ہے، آپ اسے گھسیٹ کر تالاب میں ڈال دیں اور بس۔پانی میں جاتے ہی خود بخود سیدھا ہو جائے گا۔‘‘
مینڈک کی یہ تجویز کامیاب رہی اور ٹمی نے سکھ کی سانس لی۔
اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ چار جانوروں کی بے انتہا طاقت جو کام نہ کر سکی وہ کام ایک ننھے سے مینڈک نے اپنی ذہانت کے زور پر پورا کر دیا۔سو ذہانت بڑا حربہ ہے۔
(14)جھیل کے اس پار
: گرم برادرز کی لکھی ہوئی انگریزی کہانی the giant with three golden hairs کا ترجمہ احمد عدنان طارق نے کیا ہے۔یہ ایک مہماتی کہانی ہے۔اس میں ایک غریب لڑکے کی کہانی ہے جس نے بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے کے لیے ایک مہم سر کرنی ہے۔اس مہم میں اس نے جھیل کے پار اس کنارے جاکر جن کے تین سنہرے بال توڑ کر لانے ہیں۔ وہ ایک مشکل سفر طے کرتا ہے اور جن کی دادی کی مدد سے مہم میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس سفر میں کافی سونا چاندی لے کر واپس آتا ہے۔ یوں اس کی شادی شہزادی سے ہو جاتی ہے۔ یہ ایک تفریحی کہانی ہے۔
(15)ہالینڈ کا ننھا ہیرو::
یہ کہانی ہالینڈ کی لوک کہانی ہے۔ اس کہانی پر بہت پہلے امریکہ کی فلم انڈسٹری کی طرف سے ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔وکیپڈیا پر اس واقعے کے بارے میں مکمل صفحہ بھی موجود ہے جسے اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے
https:؍؍en.m.wikipedia.org؍wiki؍The_Little_Hero_of_Holland
اس کہانی میں ہینس نامی ایک لڑکا ہے۔اس کے شہر کے نزدیک ایک بہت بڑا بند ہے۔ ایک دن ہینس کہیں جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ پانی کے بند سے ایک جگہ پانی رس رہا ہے۔ ہینس نے سوچا کہ اگر پانی اسی طرح رستا رہا تو بہت جلد یہ سوراخ بڑا ہو جائے گا اور یوں سیلاب ااجائے گا جس کی وجہ سے پورا علاقہ ڈوب جائے گا۔اس نے اس سوراخ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر پانی کے بہاؤ کو روک دیا۔اب اسے انتظار تھا کہ کوئی آئے اور اس کی مدد کرے لیکن کئی پہر گزر گئے اور کوئی نہ آیا۔ہینس نے ہمت نہ ہاری اور وہ اسی حالت میں بیٹھا رہا۔آخر کار لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور وہ اس کی مدد کے لیے بھاگے بھاگے آئے۔ یوں ہینس کی عقل مندی اور بہادری سے ایک شہر ڈوبنے سے بچ گیا۔

افریقی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ:
(1)چاکی اور دریا :
چنوا اچی بیایک افریقی ادیب ہیں۔انہوں نے بچوں کے لیے ایک ناول chike and the river لکھا۔یہ ناول1966ء میں لکھا گیا۔اس کی زبان انگریزی ہے اور یہ انٹرنیٹ سے بآسانی ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ایک لنک دیا جاتا ہے :۔
https:؍؍yeauganda.files.wordpress.com؍2018؍08؍achebe-chinua-edel-rodrig
uez-chike-and-the-river.pdf
انٹرنیٹ ایڈیشن میں اس کے پچپن صفحات ہیں اور سہ ماہی ادبیات اطفال کے شمارہ نمبر چار میں اس کا ترجمہ سینتیس صفحات پر مشتمل ہے۔اس کا اردو ترجمہ سعید نقوی کی وساطت سے ہم تک پہنچا۔ اس ناول میں ایک گیارہ سالہ نائیجیری لڑکے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ وہ لڑکا چاکی ہے جو شہر میں اپنے چچا کے ساتھ رہنے کے لئے اپنا چھوٹا سا گاؤں چھوڑتا ہے تواسے بہت سے نئے تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب وہ کشتی کے ذریعے دریا کو عبور کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہ ایک دلچسپ اور پرتجسس کہانی ہے۔
(2)کواکو انانسی اور اژدھا: یہ افریقی کہانی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ محمد فیصل نے پیش کیا ہے۔اس کہانی میں ایک چالاک شخص کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس چالاک شخص کی عقل مندی کی بدولت پورا گاؤں ایک خطرناک خونی اژدھے سے نجات پا لیتا ہے۔ چالاک شخص خونی اژدھے کے پاس خوشامدی دوست بن کر جاتا ہے اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ایک کر دیتا ہے۔ اژدھا بہت خوش ہوتا ہے۔کواکو کہتا ہے کہ میں آپ کی لمبائی ماپنا چاہتا ہوں، اس مقصد کے لیے آپ کو اس گرے ہوئے درخت کے ساتھ سیدھا لیٹنا ہو گا اور میں آپ کی لمبائی کے برابر نشانات لگا لوں گا۔اژدھا چالاک کواکو کے جال میں پھنس جاتا ہے اور وہ اسے مار ڈالتا ہے۔ یوں گاؤں والے خونی اژدھے سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔اس کہانی میں بچوں کو عقل کے مفید استعمال کا سبق دیا گیا ہے۔
ہندی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ:۔
(1)شیر پچھاڑ
یہ ایک ہندی لوک کہانی ہے جسے رضوانہ سید علی نے ترجمہ کیا ہے. اس کہانی پر بہت سارے اینیمیشن کارٹون کلپ بھی بن چکے ہیں۔اس کہانی میں عقل کی فوقیت ثابت ہوتی ہے۔کہانی گیدڑ کی ذہانت کو بیان کرتی ہے۔ ایک گیدڑ کا بھٹ بارشوں کی وجہ سے بیٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نئے گھر کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم رہا ہوتا ہے کہ اچانک انہیں ایک غار ملتا ہے۔ وہ غار کو اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ اسی دوران گیدڑ پہ انکشاف ہوتا ہے کہ یہ غار تو جنگل کے بادشاہ شیر کا ہے۔ لہٰذا وہ ایک ترکیب سوچتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کو ترکیب بتاتا ہے کہ جیسے ہی شیر آئے گا ہم نے ڈرامہ کرکے شیر کو ڈرا دینا ہے۔
گیدڑ ایک جگہ چھپ جاتا ہے۔ جیسے ہی شیر آتا ہے گیدڑ زور زور سے چیختا ہے اور اپنے بچوں کو ڈانتا ہے کہ شور نہ مچاؤ، میں ابھی تمہارے لیے شیر کا گوشت لے کر آتا ہوں۔ بچے زور سے بولتے ہیں ہمیں تازہ گوشت چاہیے جس پر گیدڑ کہتا ہے کہ مجھے شیر کی بو محسوس ہو رہی ہے لگتا ہے وہ یہیں قریب ہی ہے۔ شیر یہ مکالمہ سن کر ڈر جاتا ہے اور بھاگ جاتا ہے۔ شیر کو راستے میں ایک لومڑی ملتی ہے۔ وہ شیر کو تسلی دیتی ہے اور کہتی ہے آپ کی کھچار میں کوئی ایسی بلا نہیں ہے جو آپ کو کھا سکے۔چنانچہ وہ شیر کو لیے واپس کھچار تک آتی ہے۔چالاک گیدڑ یہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اب اسے نئی بات سوجھ جاتی ہے۔ جیسے ہی شیر اور لومڑی قریب آتے ہیں۔ گیدڑ زور زور سے بولتا ہے:۔
’’شکریہ لومڑی، تم نے شیر کو میرے جال میں پھنسا دیا اور اپنا وعدہ پورا کر دیا۔‘‘
شیر یہ بات سن کر لومڑی کو غدار غدار کہتا ہوا بھاگ جاتا ہے اور پھر کبھی مڑ کر نہیں آتا یوں وہ غار گیدڑ کا ہو جاتا ہے. یہ کہانی بچوں کو یہ سکھا رہی ہے کہ عقل کے استعمال سے آپ ہر مسئلے کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔
2))چار بے وقوف :
یہ کہانی ہندی ادب سے ماخوذ ہے۔ یہ ایک مزاحیہ کہانی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ سیدہ شاہ بینہ شاہین نے کیا ہے۔ اس کہانی میں چار بے وقوف بھائیوں کے واقعات ہیں جو گھر سے بہت دور کسی شہر میں ملازمت کی تلاش میں آئے ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ ایک سیٹھ کے پاس جاتے ہیں جو انہیں ملازم رکھ لیتا ہے اور انہیں جنگل سے لکڑیاں کاٹنے بھیج دیتا ہے۔ چاروں بے وقوف جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیل گاڑی پر واپس آ رہے ہوتے ہیں کہ اچانک بیل گاڑی کے پہیے سے عجیب سی آواز نکلتی ہے۔ چاروں چونک جاتے ہیں اور ان میں سے ایک بتاتا ہے کہ یہ گاڑی مر چکی ہے لہذا اس کی چتا جلادی جائے۔ چنانچہ وہ گاڑی کو آگ لگا دیتے ہیں اور بیل کسی غریب کو تحفے میں دے کر واپس سیٹھ کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
انہیں خالی لوٹتا دیکھ کر سیٹھ کا منہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد سیٹھ انہیں سیلز مین بنا کر کپڑے کی فروخت کا کام ذمے لگا دیتا ہے۔ مگر وہ بے وقوف کپڑا ادھار پہ دینا شروع کر دیتے ہیں جس سے سیٹھ کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔ آخر میں سیٹھ انہیں مٹی ڈھونے کا کام ذمے لگاتا ہے۔ وہ کھیت سے مٹی بھر بھر کر سیٹھ کے گھر لے آتے ہیں اور سیدھا اس کی ماں کے اوپر ڈالتے جاتے ہیں۔ یوں وہ اس کی ماں کو مارنے کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ سیٹھ ان چاروں کو نوکری سے نکال کر بھگا دیتا ہے۔

فارسی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ:
(1) جان نثار کسان :
یہ ڈاکٹر علی کمیل قزلباش کی ترجمہ کہانی ہے جو کہ فارسی ادب سے ماخوذ ہے۔اس کہانی میں صفر علی کسان کو دکھایا گیا ہے۔وہ سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے۔ایک دن وہ کام کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک اسکی نظر ریل کی پٹری پہ پڑی جہاں پتھروں کا انبار پڑا ہوتا ہے۔پتھروںکو دیکھ کر ریلصفر علی گاڑی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ریل گاڑی کو حادثہ پیش نہ آئے۔وہ شدت سے بھاگتا ہے اور بالآخر ریل گاڑی کو روک لیتا ہے۔ اور یوں وہ سینکڑوں افراد کی جان بچاتا ہے۔
عربی ادب سے تراجم کا موضوعاتی مطالعہ :
(1) جحااور اس کا گھوڑا :
جحا عربی کا معروف مزاحیہ کردار ہے۔ اردو میں ملا نصیرالدین کے لطائف مشہور ہیں تو عربی میں جحا کے لطائف زبان زد عام ہیں۔ یہ کہانی ڈاکٹر فرید بروہی کی ترجمہ شدہ ہے۔اس کہانی میں ایک کوتوال جحا کا اصل گھوڑا ہتھیا کر اسے ایک لاغر گدھا دے دیتا ہے۔جحا پہلے تو کوتوال سے گزارش کرتا ہے کہ وہ اس کا گھوڑا واپس کر دے۔لیکن وہ جحا کی بات نہیں مانتا۔تب جحا بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہے۔ جحا لوگوں کو کہتا ہے کہ کوتوال گدھے کو گھوڑے اور گھوڑھے کو گدھے میں بدلنے کا خفیہ فن جانتا ہے۔لہذا تم سب اپنے گدھے لے کر جائو اور اس کی جگہ گھوڑے لے کر آئو۔تھوڑی دیر بعد سینکڑوں لوگ اپنے گدھے لیے کوتوال کے پاس پہنچ گئے۔ کوتوال حواس باختہ ہو گیا اور اس بات کا چرچہ بادشاہ تک پہنچ گیا۔ بادشاہ نے جحا کو بلوا کر ماجرا معلوم کیا تو اس نے سارا قصہ کہہ سنایا اور یوں اسے اس کا گھوڑا واپس مل گیا۔

حوالہ جات
(1): خلیق انجم،فن ترجمہ نگاری،دہلی،انجمن ترقی اردو ،طبع سوم ستمبر1996،صفحہ 9
(2): ظہورالدین، پروفیسر، فن ترجمہ نگاری، نئی دہلی، سیمانت پرکاشن پبلشرز، 2006 صفحہ نمبر 9
(3): فاخرہ نورین، ترجمہ کاری،،اسلام آباد، ادارہ تحقیقات اردو، 2004 صفحہ 13
(4): مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر، ترجمے کا فن مضمون مشمولہ تراجم کے مباحث، مرتب محمد ابوبکر فاروقی،کراچی، سٹی
بک پوائنٹ،2016 صفحہ 108
(5): محمد حسین آزاد، مولانا، آب حیات،دہلی،کتابی دنیا،طبع 2004، صفحہ17
(6):  پروفیسر محمد حسن، ترجمہ نوعیت اور مقصد، مضمون مشمولہ ترجمہ کا فن اور روایت،(مرتب: پروفیسر قمر رئیس) ص نمبر 96
(7): فاخرہ نورین، ترجمہ کاری،،اسلام آباد، ادارہ تحقیقات اردو،2004صفحہ21
(8): فاخرہ نورین، ترجمہ کاری،اسلام آباد، ادارہ تحقیقات اردو،2004 صفحہ 23
(9): ظہورالدین، پروفیسر، فن ترجمہ نگاری،2006 نئی دہلی، سیمانت پرکاشن پبلشرز، صفحہ نمبر 688
(10) فاخرہ نورین، ترجمہ کاری،اسلام آباد، ادارہ تحقیقات اردو،2004، صفحہ 25
(11): جمیل جالبی، ڈاکٹر، ترجمے کے مسائل مضمون مشمولہ تراجم کے مباحث، مرتب :محمد ابوبکر فاروقی،2016
کراچی، سٹی بک پوائنٹ، صفحہ 221
(12): خلیق انجم،فن ترجمہ نگاری،دہلی،انجمن ترقی اردو ،طبع سوم ستمبر1996،صفحہ11

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top