۱۵ ۔ محبت اور امن کا منشُورِ اعظم
ڈاکٹر عبدالرؤف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتح مکّہ کے بعد اسلام بڑی تیزی سے جزیرہ نمائے عرب کے گوشے گوشے میں پھیل چُکا تھا ۔ آنحضورﷺ کی حکمرانی ہر سمت تسلیم کر لی گئی تھی ۔ہر طرح کے قبیلے بھانت بھانت کے بُتوں کی پُوجا سے مُنہ موڑ کر ایک خُدا کی عبادت پر راضی ہو چکے تھے ۔یہی خو نخوار قبائل چند ہی سال پہلے ایک دُوسرے کے جانی دشمن تھے ۔وہ ایک دُوسرے کے خلاف قتل وغارت کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں میں بُری طرح جکڑے ہوئے تھے ۔اِسلام کے جھنڈے تلے آتے ہی ان کے دلوں سے نفرت ،عداوت اور تشدّد کی غلاظتیں ختم ہو گئیں ۔وہی تلواریں جو پہلے ذاتی بغض و عنا د اور فضول باتوں پر ایک دوسرے کی گردنوں پر برس پڑتی تھیں ،اب تہذیب و تمدّن کی ترقی اور وطن کے دفاع کے لیے وقف ہو گئیں ۔
آخری حج کا تاریخی قافلہ
ذوالقعدہ ۱۰ ہجری کے آخری دنوں کی بات ہے کہ حضورﷺ حج کی تیّاریوں میں مصروف نظر آنے لگے ۔پھر آپﷺ نے مسلمانوں کوبھی اپنے ہمراہ جانے کے لیے تیّاری کا حُکم دے دیا ۔بس پھر کیا تھا اس خوش خبری سے تمام جزیرہ نمائے عرب میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی ۔پہاڑوں ،وادیوں ،میدانوں اور صحراؤں کو عبُور کرتے ہُوئے اَن گنت لوگوں کے پُر جوش ہجوم مدینہ منوّرہ کا رُخ کرنے لگے ۔دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ کے گردو نواح میں خیموں کا ایک بُہت بڑا شہر آباد ہو گیا ۔حج کے لیے حضورﷺ کے ساتھ جانے کے لیے ان بے قرار لوگوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔یہ وہی لوگ تھے جو آج سے کچھ عرصہ پہلے نفرتوں اور عداوتوں کی دلدلوں میں دھنسے ہُوئے تھے ۔مگر اب وہ سب اخوّت اور اُلفت کی نہ ٹوٹنے والی لڑی میں پروئے جا چکے تھے ۔اُن کے درمیان سگے بھائیوں سے بھی زیادہ شدید محبت کے جذبے موجزن ہو چکے تھے ۔اُن کے دل ودماغ برائیوں اور جہالتوں کے خلاف ٹھوس محاذ آرائی کی شکل اختیار کر چُکے تھے ۔
محبت و اخوّت کے اِس ٹھاٹیں مارتے ہُوئے سمندر کو ساتھ لے کر آنحضورﷺ ۲۵ ذوالقعدہ ۱۰ ہجری (۲۳فروری ۶۳۳ء)کو مدینہ سے مکّہ کی جانب روانہ ہُوئے ۔جب یہ عظیم الشّان قافلہ ذوالخلیفہ پہنچا تو میرِ کاروان ﷺ نے پڑاؤ ڈالنے کا حُکم دیا۔اس مقام پر قافلہ نے رات بسر کی ۔صُبح کے نماز کے بعد سارے قافلہ نے احرام باندھ لیے ۔اِنسانی اخوّت اور مساوات کا یہ رُوح پر ور سماں بے حد دلفریب تھا ۔احرام کا لباس ایک تہہ بند اور ایک چادر پر مشتمل تھا۔سارا قافلہ ایک قسم کا سادہ لباس پہن کر انسانوں کا ایک ایسا بے نظیر اجتماع دکھائی دیتا تھا جس میں امیر غریب کی اُونچ نیچ کا ر ہا سہا فرق بھی ختم ہو چکا تھا۔
ارکانِ حج کی ادائیگی
احرام باندھنے کے بعد جب یہ قافلہ تکبیریں پڑھتا ہُوا آگے روانہ ہُوا تو ساری فضاء اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھی ۔نو دِن کے مسلسل سفر کے بعد ۴ ذی الحجہ کو آپﷺ مکہ پہنچے تو سیدھے خانہ کعبہ تشریف لے گئے ۔حجرِ اسود کو چُو ما۔اللہ کے گھر کا سات مرتبہ طواف کیا ۔مقامِ ابراہیم ؑ پر نماز پڑھی ۔حجرِ اسود کو دوبارہ بوسہ دیا ۔اس کے بعد آپﷺ کو کوہِ صفا تشریف لے گئے اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی (تیز تیز چلنا )فرمائی ۔
۸ ذی الحجہ کو حضورﷺ مکّہ سے منیٰ تشریف لے گئے اور وہاں میدانِ عرفات میں خیمہ لگا کر رات بھر قیام فر مایا ۔اگلی صُبح نماز کے بعد آپﷺ اپنی اُونٹنی (قصواء ) پر سوار ہُوئے اور جبلِ عرفات کا رُخ فرمایا ۔عرفات کی پہاڑی پر چڑھتے چڑھتے آپﷺ کے گرد مسلمانوں کا مجمع اور بھی وسیع ہو چکا تھا ۔ان کی تکبیریں فضا میں گونج رہی تھیں ۔
محبت اور اَمن کا منشُورِ اعظم
سُورج ڈھلنے کے بعد حضورﷺ اُونٹنی پر سوار ہو کر میدانِ عرفات کے وسط میں تشریف لے آئے اور اُونٹنی پر بیٹھے بیٹھے بلند آواز سے ایک ایسا تاریخی خطبہ ارشاد فرمایاجو محبت اور امن کا منشور اعظم ثابت ہُوا ۔چونکہ مجمع بُہت بڑا تھا اِس خطبہ کو تمام حاضرین تک پہنچا نے کے لیے یہ طریق اختیار کیاگیا کہ آنحضورﷺ ایک جُملہ پُورا کر کے چند لمحے خاموش ہو جاتے اور پھر ربیعہؓ بن اُمّیہ اسی جملہ کو بُلند آواز سے دہراتے ۔اِ س طرح سارے اجتماع نے آپﷺ کا پُورا خطبہ اچھّی طرح سُنا اور اسے ذہن نشین کر لیا۔اِس خطبے کا اکثر و بیشتر حصّہ ےُوں ہے ۔اللہ تعالیٰ کی تعریف کے بعد آپﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو!میری بات اچھّی طرح سُن لو ۔کیونکہ شاید میں اس سال کے بعد تم سے اس جگہ پھر کبھی نہ مل سکوں ۔
اے لوگو! قیامت تک کے لیے تمھاری جانیں اور تمھارا مال ایک دوسرے کے لیے اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مہینہ محترم ہیں ۔
عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے ۔وہ تم سے تمھارے اعمال کی جواب دہی کرے گا ۔اچھّی طرح جان لو کہ میں نے تمھیں تمھارے پر ورد گار کی باتیں پہنچا دی ہیں ۔
جس شخص کے پاس کسی کی کوئی امانت ہو وہ اُسے اُس کے مالک کے پاس لوٹا دے ۔آج ہر قسم کا سُود ختم کیا جاتا ہے ۔تم صرف اصل رقم کے حقدار ہو۔تو کسی پر ظلم نہ کرو ۔تمھارے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا۔
یاد رکھو ،جس قدرخون زمانہ جاہلیّت کے تھے سب ختم کیے جاتے ہیں۔اور سب سے پہلے زمانہ جاہلیّت کا جو خون میں معاف کرتا ہُوں وہ ابن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے ۔
اے لوگو ! تمھارے اس ملک میں شیطان اپنی پرستش سے ہمیشہ کے لیے نا اُمّید ہو گیا ہے ۔البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں جنھیں تم بڑے گناہوں میں شامل نہ کروگے ،اس کی پیروی کرو گے اور وہ اس پر خوش ہو گا ۔شیطان سے اپنے دین کی حفاظت تم پر لازم ہے۔
اے لوگو!تمھاری عورتوں پر تمھارا حق ہے ۔اور تمھاری عورتوں کا بھی تم پر حق ہے ۔عورتوں پر تمھارا حق یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو اپنے قریب نہ آنے دیں ۔یہ بات تمھارے لیے غیظ و غضب کاموجب ہو گی ۔نیز وہ بے حیائی کے ارتکاب سے بالکل کنارہ کشی اختیار کریں ۔عورتوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے رہو ۔
اے لوگو! میری باتیں غور سے سنو ! کیونکہ میں نے خدائی پیغام تم تک پہنچا دیا ہے ۔میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہُوں کہ اگر تم انھیں مضبوطی سے تھام لو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔اور وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی ﷺ کی سنّت ۔
اے لوگوں ! میری باتیں بڑے دھیان سے سُنو !دیکھو،ہر مسلمان دُوسرے مُسلمان کا بھائی ہے ۔ اور تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اس لیے کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وُہ اپنے بھائی کی رضا مندی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لے ۔تم ایک دُوسرے پر ظلم کرنے سے باز رہو ۔
اے اللہ ! تُو سُن رہا ہے کہ میں نے تیرا پیغام لوگوں تک پہنچا دیا۔‘‘
بات سمجھانے کا اَنوکھا انداز
سارے اجتماع نے بڑے غورسے حجۃالوداع کا یہ تاریخی خطبہ سُنا ۔حضورﷺ چاہتے تھے کہ آپﷺ کا یہ اہم خطبہ لوگ اچھی طرح سُن سمجھ لیں اور اس کے بنیادی نکتے پلّے باندھ لیں ۔اس لیے اصل مفہوم کو اور زیادہ واضح اور دلچسپ رنگ دینے کے لیے آپﷺ مناسب وقفوں پر حاضرین سے سوال جواب بھی کرتے جاتے تھے ،مثلاََ
حضورﷺ : ’’کیا تم جانتے ہو کہ آج کون سادن ہے ؟‘‘
حاضرین : ’’آج حجِ اکبر کا دن ہے ۔‘‘
حضورﷺ : ’’تو پھر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک تمھارے خُون اور تمھارا مال و دولت ایک دُوسرے پر اسی طرح حرام کر دئیے ہیں ،جس طرح اُس نے اِس دن اور اِ س مہینہ کی حُرمت کو قائم کیا ہے ۔‘‘
خطبہ ختم ہُوا تو آپﷺ نے فرمایا :’’کیا میں نے خُدا کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا دیا ہے ؟‘‘ہر طرف سے صدائیں بلند ہُوئیں :’’یقینا،یقینا۔‘‘اِ س پر آپ ﷺ نے آسمان کی جانب دیکھتے ہُوئے تین بار فرمایا :’’اے اللہ !گواہ رہنا ، میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔‘‘
اسلامی طرزِ زندگی کی تکمیل
اِس تاریخ ساز خطبے کے بعد آپﷺ اپنی اُونٹنی سے نیچے اُترے ۔ظہر اور عصر کی نمازیں ادا فرمائیں اور اُونٹنی پر سوار ہو کر صخرات کے مقام پر جا اُترے ۔عین اِس مقام پر یہ مشہو ر آیتیں نازل ہُوئیں :
’’آج میں نے تمھارا دین مکمل کر دیا ۔
اور اپنی نعمت تم پر مکمّل کر دی ۔
اور تمھارے لیے دین اسلام پسند کر لیا۔‘‘
(سورہ المائدہ )
آپ ﷺ نے یہ آیات اُسی وقت لوگوں کو سُنا دیں۔جب حضرت ابو بکر صدیقؓ نے یہ آ یات سُنیں تو وہ بے اختیار رو پڑے ۔آپؓ بے حد ذہین صحابی تھے ۔آپؓ نے فوراًبھانپ لیا کہ اب جبکہ دین مکمّل ہو چکا ہے اور حضورﷺ اپنے سارے فرائض ادا کر چکے ہیں تو آپﷺ کی وفات بھی نزدیک ہی ہو گی ۔
رسول کریم ﷺ عرفات سے مزدلفہ پہنچے ۔رات وہیں قیام فر مایا ۔صبح کی نماز کے بعد آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہُوئے ۔راستے میں جمرہ کے مقام پر رمی (شیطان پر کنکریاں پھینکنا ) فرمائی اور منیٰ میں اپنے خیمہ میں واپس تشریف لے آئے ۔مدینہ سے روانہ ہوتے وقت آپﷺ اپنے ساتھ قربانی کے لیے ایک سو اُونٹ لے آئے تھے ۔تریسٹھ اُونٹ تو آپﷺ نے اپنی طرف سے اپنی مبارک عمر کے ہر سال کے عوض میں ایک کے حساب سے بطورِ قربانی ذبح کیے ۔باقی سینتیس اُونٹ حضرت علیؓ نے ذبح کیے ۔اس کے بعد حضورﷺنے سر کے بال منڈوا ئے ۔پھر احرام کھولا اور یوں حج کی تمام رسُومات سے فارغ ہُوئے ۔
آخری حج کے مختلف نام
اِ س تاریخی حج کو اِ ن مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے :
۱۔ حجۃ الوداع (آخری حج )
۲۔ حجۃالاسلام (اسلام کا حج )
۳۔ حجۃ البلاغ (تبلیغ کا حج ) اور
۴۔ حجۃالاکبر (سب سے بڑا حج )
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب نام اپنی اپنی جگہ دُرست ہیں ۔یہ حج ان معنوں میں حجۃ الوداع تھا کہ یہ ہمارے پیارے رسولﷺ کا آخری حج تھا ۔اس کے بعد آپﷺ کو مکّہ مکرّمہ کی زیارت اور طواف کعبہ کا موقع نہ مِل سکا ۔حجۃ الاسلام اس طرح تھا کہ دینِ اسلام کی تکمیل کا باضابطہ اعلان بھی اسی حج کے دوران ہُوا تھا ۔حجۃالبلاغ بھی اس لحاظ سے موزوں نام ہے کہ اس حج کے دورا ن حضورﷺ نے وہ تمام اہم باتیں لوگوں تک پہنچا دیں جنھیں پہنچانے کے بارے میں آپﷺ کو خُدا کی طرف سے حکم ہُوا تھا۔اسے بجا طور پر حجۃ الاکبر بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ حج ہر اعتبار سے سب سے بڑا حج تھا ۔ایسا عظیم المرتبہ حج پہلے کبھی ہُوا تھا اور نہ ہی آیندہ کبھی ہو گا ۔