محبت کا سبق
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل کے ایک درخت کی شاخ پر شہد کی مکھیوں کا بڑا سا چھتا لگا ہوا تھا۔ بندر اس شہد کو کھانے کی فکر میں تھا۔ آخر اُسے دور سے ریچھ آتا دکھائی دیا۔ بندر نے ایک ترکیب سوچی اور جیسے ہی ریچھ قریب پہنچا وہ درخت کے پیچھے سے نکلا اور اُس کے قریب جا کر کان میں چلایا: ”السلام علیکم! بھالو بھائی!“
ریچھ ڈر کا اچھل پڑا اور بندر کو دیکھا تو کہنے لگا: ”وعلیکم السلام بھائی! تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ کہاں سے ٹپک پڑے اچانک۔“
”ٹپکوں گا بھلا کہاں سے؟ دوپہر کے کھانے کے بعد ذرا ٹہلنے نکلا تھا کہ تم نظر آگئے تمھاری شکل پر بارہ بج رہے تھے۔ میں نے سوچا ہو نہ ہو آج بھالو بھائی ضرور کسی پریشانی میں ہیں۔“ بندر نے کہا۔
”کہہ تو سچ رہے ہو۔ بڑی عجیب پریشانی ہے۔“ ریچھ نے جواب دیا۔
”وہ کیا بھلا؟“ بندر نے پوچھا۔ ”ہمیں بتاﺅ تو سہی، بھالو بھائی تم پریشان ہوتے ہو تو اپنی بھی نیند اُڑ جاتی ہے، سچ کہہ رہا ہوں۔“ بندر نے جھوٹ موٹ کی ہمدری جتائی۔
”بات یہ ہے کہ آج میری سالگرہ ہے اور میں کیک لینے جارہا ہوں لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیک کہاں سے خریدوں؟ کیا جنگل میں کہیں کیک ملتا ہے؟“ ریچھ نے پوچھا۔
”واہ ! واہ! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے سالگرہ مبارک ہو۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو بھالو بھائی۔“ بندر تالیاں بجاتے ہوئے بولا لیکن وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ریچھ کو کس طرح بے وقوف بنا کر شہد حاصل کیا جائے۔ آخر کار اس نے کچھ سوچ کر کہا: ”لیکن ایک بات میں ضرور کہوں گا بھالو بھائی۔“
”وہ کیا؟“ ریچھ نے کہا۔
”آپ کے بال بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ آپ کی سالگرہ میں جو جانور آئیں گے وہ یہی کہیں گے کہ ریچھ نے بال نہیں کٹوائے۔“ بندر نے کہا۔
”اچھا‘ ریچھ پریشان ہو کر بولا۔ ”پھر میں کیا کروں؟“
”میری مانیے تو حجامت بنوالیجیے۔“ بندر نے ریچھ کو پٹی پڑھائی۔
”حجامت؟ لیکن جنگل میں کون میرے بال کاٹے گا؟“ ریچھ نے منھ لٹکا کر کہا۔
”ارے کیسی باتیں کرتے ہیں آپ بھالو بھائی۔ میں جو حاضر ہوں آپ کی خدمت کے لیے۔ آپ کو کہیں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسے اچھے بال کاٹوں گا کہ بالکل امیتابھ بچن نظر آئیں گے۔“ بندر نے مکاری سے کہا۔
”امیتابھ بچن؟“ ریچھ نے حیرت سے کہا: ”کیا یہ کوئی نیا جانور آیا ہے جنگل میں؟“
اس کی بات سن کر بندر کی ہنسی چھوٹ گئی لیکن ضبط کرکے بولا: ”اس جنگل میں تو نہیں البتہ میرے دادا ابو کہتے ہیں کہ یہاں سے بہت دور ایک بڑا جنگل ہے۔ اس میں اس جیسے کئی جانور پائے جاتے ہیں۔“
”اچھا تو چلو جلدی سے میری حجامت بنا ڈالو۔“ ریچھ نے کہا۔
”ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ابھی لیجیے لیکن آپ کو میرا ایک چھوٹا سا کام کرنا ہوگا۔“ بندر نے کہا۔
”کون سا کام؟“ ریچھ نے معصومیت سے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔
”بس ذرا سا شہد چاہیے مجھے، بہت دیر سے دل چاہ رہا تھا۔ ویسے تو میں خود درخت پر چڑھ کر اتار لیتا لیکن آج میرے پاﺅں میں درد ہے اور درخت پر چڑھ نہیں سکتا۔ شہد کا چھتہ زیادہ اوپر ہے۔ آپ ہاتھ بڑھا کر اتارلیں گے۔“
ریچھ نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ۔ ہاتھ بڑھا کر شہد کی مکھیوں کا چھتہ درخت کی شاخ سے نوچ لیا۔ بندر خطرہ بھانپ کر ایک طرف بھاگا اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر دیکھنے لگا کہ ریچھ کی کیا درگت بنتی ہے۔ اس کا منصوبہ یہی تھا کہ کسی طرح شہد کھایا جائے لیکن مکھیوں کے ڈنگ سے خوف زدہ ہو کر اس نے سوچا کہ کسی ترکیب سے شہد اس طرح حاصل کیا جائے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
بے چارہ بھولا بھالا ریچھ اس کی باتوں میں آگیا اور سالگرہ کے لیے بال کٹوانے کے شوق میں شہد کی مکھیوں کا چھتہ نوچ بیٹھا۔ مکھیاں بھلا ریچھ کو کب چھوڑنے والی تھیں۔ کاٹ کاٹ کر ریچھ کا برا حال کردیا۔ بے چارہ چیخیں مارتا ہوا ادھر ادھر بھاگنے لگا اور غصے میں آکر چھتے کو بالکل ہی پچکا ڈالا۔
بندر یہ دیکھ کر آگے بڑھا اور کیلے کے درخت کا پتا لے کر چھتہ اس میں لپیٹ لیا۔ پھر کئی پتے اور درخت کے شاخیں جمع کرکے ان کو آگ لگادی۔ آگ سے جب دھواں اٹھا تو مکھیاں گھبرا کر بھاگ گئیں۔ ریچھ بے چارہ ایک طرف نڈھال پڑا تھا۔ بندر نے کیلے کا پتا کھولا اور سارا شہد چٹ کرگیا۔
آخر ریچھ ہمت کرکے اٹھا اور بولا: بندر بھائی! اب ذرا جلدی سے میرے بال کاٹ دو۔ سالگرہ کا وقت ہونے والا ہے اور مجھے ابھی کیک لینے بھی جانا ہے۔“
بندر نے جلدی سے منھ صاف کیا اور کہنے لگا: ”ہاں ہاں، کیوں نہیں آﺅ۔“
یہ کہہ کر بندر اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہاں پہنچ کر بندر نے قینچی، کنگھی، استرا اور ایک بڑا سا سفید کپڑا نکالا۔ سفید کپڑا بندر نے ریچھ کی گردن کے اردگرد باندھ دیا اور قینچی نکال لی۔
ریچھ نے جو یہ سارا سامان دیکھا تو کہا: ”آپ کے پاس تو حجامت کا پورا سامان موجود ہے۔ آپ حجام کی دکان کیوں نہیں کھول لیتے۔“
بندر بہت عرصے سے جنگل میں حجامت کی دکان کھولنے کا ارادہ کررہا تھا لیکن سوچتا تھا کہ پہلے کسی جانور کی حجامت مفت میں بنا کر ہاتھ صاف کرلے اور ذرا مہارت ہوجائے تو باقاعدہ دکان کھول لے۔
ریچھ کی حجامت بنانے سے نہ صرف اسے شہد مل گیا بلکہ حجامت بنانے کی مشق بھی ہوجاتی لیکن ریچھ کے سامنے وہ یہ بات ظاہر کرنا نہیں چاہ رہا تھا اس لیے وہ ریچھ کی بات کا کوئی الٹا سیدھا جواب سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں وہاں سے خرگوش گزرا۔ مکھیوں کے کاٹنے کی وجہ سے ریچھ کا منھ جگہ جگہ سے سوجا ہوا تھا اور بے چارے کے ایک آدھ جگہ سے خون بھی نکل رہا تھا۔
جب خرگوش نے ریچھ کو اس حال میں گردن پر سفید کپڑا باندھ بال کٹواتے دیکھا تو اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔
خرگوش کی چیخ سن کر بندر ایسا ڈرا کہ اس نے گھبراہٹ میں قینچی ریچھ کے بالوں کے بجائے اس کے کان پر چلادی اور ریچھ کا کان ذرا سا کٹ گیا۔ اس پر ریچھ نے ایک ایسی زور دار چنگھاڑ ماری کہ بندر تھر تھر کانپنے لگا۔ ریچھ کے کان سے خون بہہ رہا تھا۔
”تم نے میرا کان کاٹ ڈالا!“ ریچھ چلایا۔
”اس خرگوش کے بچے نے مجھے ڈرا دیا تھا۔“ بندر نے کہا۔
”اب کیا ہوگا؟ مجھے ابھی کیک لینے بھی جانا ہے۔ آج میری سالگرہ ہے اور سارے جانور دعوت میں پہنچنا شروع ہوگئے ہوں گے اور میں…. میں یہاں بیٹھا ہوں کٹا ہوا کان اور سوجا ہوا منھ لیے۔“ ریچھ رو دیا۔
”آپ فکر نہ کریں بھالو بھائی۔“ بندر نے کہا۔ ”آپ کی خدمت کے لیے….“
”تم چپ رہو۔“ ریچھ بندر کی بات کاٹ کر نہایت غصے سے بولا: ”تم نے ہی مجھے اس حال تک پہنچایا ہے۔“
خرگوش جو اتنی دیر سے چپ کھڑا تھا بول پڑا۔ ”میری مانو تو پہلے اپنا کان سلوالو درزی سے۔“
”بے وقوف! بھلا درزی بھی کان سیتا ہے۔“ بندر نے ڈانٹ کر کہا۔ ”چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔“
اب ریچھ کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ بندر کے ساتھ چلے۔ تینوں ڈاکٹر ہمدرد کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر ہمدری سے جنگل میں ایک چھوٹے سے مکان میں اکیلے رہتے تھے اور اکثر جانور اس کے پاس علاج کے لیے جایا کرتے تھے۔ یہ تینوں جب ڈاکٹر ہمدرد کے پاس پہنچے تو لومڑی ڈاکٹر صاحب کے پاس آئی ہوئی تھی۔ اس کے پاﺅں میں کانٹا چبھ گیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کانٹا نکال چکے تھے اور پٹی باندھ رہے تھے۔ ان کو دیکھتے ہی ڈاکٹر ہمدرد نے کہا: ”اوہو! بھالو میاں! بھئی یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے تم نے؟“
ریچھ بے حال تو تھا ہی ڈاکٹر صاحب کی ہمدردی پا کر زور زور سے رونے لگا اور سارا قصہ کہہ سنایا۔
ڈاکٹر صاحب بندر پر خفا ہوئے۔ بندر کان دبائے چپ چاپ سنتا رہا۔ آخر ڈاکٹر نے بھالو بھائی کی مرہم پٹی شروع کی۔
لومڑی، جو ریچھ کی ساری بات سن چکی تھی، ڈاکٹر صاحب کے ہاں سے نکلتے ہی سیدھی ریچھ کے گھر پہنچی جہاں سارے جانور ریچھ کی سالگرہ میں شریک ہونے کے لیے جمع ہوچکے تھے۔ لومڑی نے جاتے ہی سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سارے جانور لومڑی کی بات سن کر غصے میں آگئے۔
”بندر کی شرارتیں تو روز بروز بڑھتی جارہی ہیں اسے سبق سکھانا اب ضروری ہوگیا ہے۔“ مور نے کہا۔
”کم بخت میرے سامنے آجائے تو پنجہ مار کر اس کا پیٹ پھاڑدوں۔“ شیر نے غصے سے کہا۔
”نہیں بھئی! اتنا غصہ اچھا نہیں۔“ دریائی گھوڑے نے کہا۔ ”اُسے ذرا سختی سے سمجھادیں گے شاید مان جائے ورنہ پھر کچھ تدبیر سوچیں گے۔
”میرا خیال ہے سب ڈاکٹر ہمدردہی کے گھر چلیں۔ بندر بھی وہیں ہوگا۔“ ہرن نے تجویز پیش کی۔
سب راضی ہوگئے اور ڈاکٹر ہمدرد کے ہاں پہنچے۔ بندر نے جو اُن کو آتے دیکھا تو کھڑکی سے کود کر بھاگ گیا۔
ادھر ڈاکٹر ہمدرد ریچھ کی پٹی کرچکے تھے اور باورچی خانے میں کچھ کام کررہے تھے۔ ریچھ آرام کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ تمام جانوروں نے اس کا حال پوچھا اور اسے سالگرہ کی مبارک باد دی۔
”میرے دوستو! آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ سب یہاں تک آئے لیکن افسوس کہ آج میں آپ کو سالگرہ کا کیک نہ کھلاسکوں گا۔“ ریچھ اداس ہوگیا۔
”نہیں بھئی! ایسی کیا بات ہے۔“ ڈاکٹر ہمدرد کی آواز آئی۔ وہ باورچی خانے سے نکل رہے تھے اور سب نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا خوب صورت کیک تھا۔ ”میں نے اتنی دیر میں تمھاری سالگرہ کے لیے بڑا مزے دار فروٹ کیک بنایا ہے۔ یہ دیکھو۔“ ڈاکٹر صاحب نے کیک آگے کردیا جس پر بالائی سے لکھا ہوا تھا: ”سالگرہ مبارک ہو بھالو بھائی۔“
ریچھ نے کیک کاٹا اور سب جانوروں نے تالیاں بجا کر ہیپی برتھ ڈے ٹو یو بھالو بھائی، گایا۔ ریچھ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔ پھر کچھ سوچ کر بولا۔
”آپ سب لوگوں اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ لیکن کاش! بندر بھی یہاں ہوتا اور سالگرہ کا کیک کھاتا۔“
”ارے! اس نے تمھارے ساتھ اتنا برا سلوک کیا لیکن پھر بھی تم اسے یاد کررہے ہو۔“ چوہے نے حیرت سے کہا۔
”ہاں ہاں کیوں نہیں۔ آخر وہ ہے تو ہمارا بھائی نا۔ اس سے غلطی ہوگئی تو کیا ہوا۔ میں نے اسے معاف کردیا ہے۔“ ریچھ نے کہا۔
”بھالو میاں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔“ ڈاکٹر ہمدرد بولے: ”اچھے لوگ وہی ہوتے ہیں جو دوسروں کو معاف کردیتے ہیں اور اپنے دل میں برے لوگوں کے لیے بھی جگہ رکھتے ہیں۔ یہ بڑے حوصلے اور بڑی بہادری کی بات ہے۔“
اب ذرا بندر کی سنیے! ڈاکٹر صاحب کے گھر سے بھاگ کر جب وہ جنگل میں اس جگہ پہنچا جہاں اس نے ریچھ کو بہلا پھسلا کر شہد چاٹا تھا تو شہد کی مکھیوں نے اسے گھیرلیا۔ اس نے بھاگنے اور جان بچانے کی بہت کوشش کی لیکن توبہ کیجیے صاحب! مکھیوں نے کاٹ کاٹ کر اس کے پورے جسم کو سُجادیا۔ آخر گرتا پڑتا روتا چلاتا مرہم پٹی کرانے ڈاکٹر ہمدرد کے پاس واپس آیا اور جاتا بھی کہاں؟
جیسے ہی وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں داخل ہوا سارے جانور چپ ہوگئے اور اسے دیکھنے لگے۔ ریچھ آگے بڑھا اور اسے سہارا دے کر بٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب نے جلدی جلدی اس کے زخموں پر دوا لگائی اور پٹی باندھی۔ ریچھ نے اسے کیک کا ایک بڑا ٹکڑا دیا۔ یہ دیکھ کر بندر رونے لگا اور کہا: ”تم کتنے اچھے ہو اور میں کتنا برا ہوں۔ مجھے معاف کردو۔“
ریچھ نے کہا: ”میں تو تمھیں پہلے ہی معاف کرچکا ہوں، بس تم وعدہ کرو کہ آیندہ کسی کو تنگ نہیں کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں سزا دی ہے۔“
”میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب کسی کو تنگ نہیں کروں گا۔“ بندر نے کہا۔
تمام جانوروں نے تالیاں بجائیں اور ریچھ نے بندر کو گلے لگالیا۔ بندر نے ریچھ کے کان میں کہا: ”ہیپی برتھ ڈے ٹو یو بھالو بھائی، وہ شہد بہت مزے دار تھا لیکن مہنگا پڑا۔“
”اب اگر تمھیں شہد چا ہیے ہوتو مجھ سے صاف صاف کہہ دینا، حجامت بنوانے کا جھانسہ مت دینا۔“ ریچھ نے کہا اور دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔