مسٹر عجیب و غریب
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں عجیب و غریب چیزیں بنائی ہیں کہیں ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیاں ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ کبھی نیاگرا آبشار دیکھ کر حیرت سے منھ کھل جاتا ہے تو کبھی قطب جنوبی کے برفانی ویرانوں پر تعجب ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض حیران کن اور عجیب و غریب چیزیں ایسی بھی بنائی ہیں جو ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیاگرا آبشار کی طرح مشہور نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ’مسٹر عجیب و غریب‘۔
یہ حضرت دنیا کے ان عجوبوں میں سے تھے جن کو ہر کوئی نہیں جانتا مگر دنیا کے سات عجوبوں کے بعد ان کا نمبر آٹھواں یا نواں ہوتا ہے۔
مسٹر عجیب و غریب کا اصل نام غالباً خود ان کے اور سوائے محلے کے چند بزرگوں کے کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ جس دن یہ محلے میں آئے، ان کے حلیے اور سامان اور چند حرکتوں کو دیکھ کر ہی محلے کے شریر بچوں نے ان کا نام ’مسٹر عجیب و غریب‘ رکھ دیا تھا۔
ہوا یوں کہ جس دن یہ حضرت اپنا سامان لے کر ہمارے محلے میں رہنے آئے اس وقت انھوں نے دھوتی اور قمیص پر ٹائی باندھ رکھی تھی۔ یہ اور ان کا سامان ایسے تانگے پر لدا ہوا تھا جس کو تانگہ کہنے سے شاید تمام گھوڑے اور تانگے برا مان جائیں۔ ان کے سامان میں ایک عدد سوٹ کیس، برتنوں سے بھری ہوئی بوری، بستر اور ایک الماری تھی۔ سوٹ کیس کی حالت سے ظاہر ہورہا تھا کہ ان کی دادی شاید اس میں اپنے جہیز کے کپڑے بھر کر لائی ہوں گی۔ بستر کو انھوں نے رسیوں سے جکڑ رکھا تھا مگر اس میں ایک میلا کچیلا تکیہ جھانک جھانک کر محلے والوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس تکیے کے غلاف پر اتنا تیل لگا ہوا تھا کہ اگر اسے نچوڑا جاتا تو شاید پاکستان میں تیل کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا۔ بوری میں بڑے بڑے سوراخ تھے، جن میں سے برتن جھانک رہے تھے اور شاید ان میں سے ایک آدھ راستے میں گر بھی پڑا ہوگا۔
بہرحال، یہ جناب تانگے سے اترے اور تانگے والے کو پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالنا چاہتا مگر دھوتی میں جیب کہاں سے آتی؟ انھوں نے بوکھلا کر قمیص ٹٹولنا شروع کی اور اتنے میں ان کو زور سے چھینک آنے لگی۔ جناب نے بھاڑ سا منھ کھولا اور اتنے زور سے ’آچھیں‘ کرکے چھینک ماری کہ گھوڑا ڈر کر تانگے سمیت بھاگ کھڑا ہوا۔ تانگے والے نے بڑی مشکل سے اسے قابو کیا۔
اتنے میں محلے کے کئی بچے وہاں جمع ہوچکے تھے اور آہستہ آہستہ ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔ ہجوم کے ساتھ ساتھ آوازیں بھی بڑھتی جارہی تھیں۔ کوئی سیٹی بجا رہا تھا، کوئی ہلکے ہلکے تالیاں پیٹ رہا تھا، کوئی چٹکیاں بجارہا تھا اور کوئی عجیب عجیب آوازیں نکال رہا تھا۔
یہ سب تماشا دیکھ کر تانگے والے نے ان سے کہا: ”جناب! ذرا جلدی سے پیسے دے دیں۔“
مسٹر عجیب و غریب تھوڑی دیر تک تو دھوتی اور قمیص میں جیب ڈھونڈتے رہے اور جب سوٹ کیس کی طرف بڑھے تو ہجوم میں سے کوئی بچہ بولا: ”بڑے میاں، کیا ناک صاف نہیں کروگے؟“
اس پر وہ گڑبڑا گئے اور اپنی ٹائی سے ناک صاف کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر تمام بچے کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ اس پر انھوں نے کہا: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“ جیسے یہ حرکت انھوں نے نہیں، بلکہ بچوں نے کی ہو۔
اس کے بعد انھوں نے اپنا سوٹ کیس کھولا اور اس میں تھوڑی دیر ادھر ادھر ٹٹول کر پانچ روپے کا نوٹ نکالا اور تانگے والے کو دیا۔ تانگے والے نے انھیں جب باقی پیسے واپس کیے تو وہ پیسے انھوں نے اس طرح کمر کے پاس لا کر چھوڑ دیے جیسے انھوں نے دھوتی نہیں، بلکہ پتلون پہن رکھی ہو اور وہ جیب میں پیسے ڈال رہے ہوں لیکن تمام پیسے زمین پر گر پڑے۔ ایک بار پھر سب بچے ہنس پڑے اور زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔ ان کو جب اس کا احساس ہوا تو جلدی سے پیسے اٹھائے اور کہنے لگے: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
تانگے والے نے کسی قدر برہم ہو کر کہا: ”چچا، اپنا سامان تو تانگے سے اتارلو، ورنہ میں ساتھ ہی لے کر چلا جاﺅں گا۔“
یہ بولے: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“ اور سامان اتارنے لگے۔
محلے کے بچے کافی دیر سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ کئی بچوں کی مائیں بھی کھڑکیوں سے یہ تماشا دیکھ رہی تھیں اور ہنس رہی تھیں۔
محلے کے بزرگوں نے جب یہ دیکھا تو ان میں سے ایک دو بزرگ آگے آئے اور انھوں نے بچوں کو ڈانٹ کر مسٹر عجیب و غریب کا سامان اٹھانے کو کہا۔
مسٹر عجیب و غریب بولے: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“ چند بچے تو ان کا سامان اٹھانے لگ گئے اور باقی منھ پر ہاتھ رکھے ”کھوں کھوں، کھیں کھیں“ کرکے ہنستے ہوئے اپنے اپنے کھیل میں لگ گئے۔
اسی دن سے بچوں نے ان کا نام مسٹر عجیب و غریب رکھ دیا اور پھر مسٹر عجیب و غریب اسی نام سے مشہور ہوگئے۔ ان کو اسی نام سے پکارا اور پہچانا جانے لگا اور مزے کی بات تو یہ تھی کہ مسٹر عجیب و غریب نے بھی اس بات کا کبھی برا نہیں منایا۔
مسٹر عجیب و غریب کے محلے میں آنے کے دو تین دن بعد بچوں کو پتا چل گیا کہ مسٹر عجیب و غریب کا تکیہ کلام ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں“ ہے۔ اس کے بعد تو جیسے بچوں کے ہاتھ کوئی کھلونا آگیا ہو۔ وہ بار بار مسٹر عجیب و غریب کے گھر کے قریب جاتے اور زور سے چلاتے ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
مسٹر عجیب و غریب فوراً کھڑکی سے سر نکالتے اور مسکرا کر کہتے ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
کچھ دنوں بعد جب مسٹر عجیب و غریب محلے والوں میں گھل مل گئے تو بچوں نے ان کو تنگ کرنا کم کردیا لیکن کوئی بچہ کبھی انھیں کسی طرح چھیڑتا تو وہ مسکرا کر اپنا تکیہ کلام دہراتے: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
مسٹر عجیب و غریب کو بچوں سے بہت پیار تھا، لیکن وہ بچوں کے ساتھ بھی عجیب و غریب حرکتیں کرتے۔ مثلاً اگر کوئی بچہ کوئی چیز کھارہا ہوتا تو مسٹر عجیب و غریب اس کے ہاتھ سے فوراً وہ چیز چھین کر کھاجاتے۔ اس کے بعد بچہ روئے یا نہ روئے مسٹر عجیب و غریب اس بچے کو وہی چیز ڈھیر ساری دلادیتے اور ساتھ ہی اسے کہتے: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
نہ جانے مسٹر عجیب و غریب کو بچوں سے اس طرح چیزیں چھین کر کھانے میں کیا مزہ ملتا تھا؟“
ایک بار چند بچوں نے مسٹر عجیب و غریب کو گھیر لیا اور باتیں کرنے لگے۔ ایک بچے نے ان سے معصومیت سے پوچھا۔
”چاچا عجیب و غریب! جب پہلے آپ ہمارے محلے میں رہنے کے لیے آئے تھے تو آپ نے دھوتی اور قمیص کے اوپر ٹائی کیوں باندھ رکھی تھی؟“
”دھوتی میں نے اس لیے باندھ رکھی تھی کہ میں کوئی دوسرے شہر تو جا نہیں رہا تھا، اس لیے میں نے سوچا چلو کوئی بات نہیں۔“ چاچا عجیب و غریب نے جواب دیا۔
”اچھا تو پھر آپ نے ٹائی کیوں باندھ رکھی تھی؟“ بچے نے سوال کیا۔
”اوہو…. وہ!“ چچا عجیب و غریب ہنسنے لگے۔ ”بھئی وہ اس لیے کہ میں نے سوچا کہ آخر میں دوسرے محلے میں جارہا ہوں، اس لیے کچھ نہ کچھ تو اچھے کپڑے ہونے چاہئیں نا۔“
یہ سن کر تمام بچے زور سے ہنس پڑے۔ مسٹر عجیب و غریب نے انھیں چونک کر دیکھا اور مسکرا کر بولے: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
اس پر بچے پھر ہنس پڑے۔ ایک بچے نے کہا: ”مسٹر عجیب و غریب! آپ ہمیں کوئی کہانی سنائیے۔“
یہ سن کر مسٹر عجیب و غریب سوچ میں پڑگئے اور تھوڑی دیر بعد بولے: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں، لو سنو۔“
”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں جنگل میں اکیلا چلا جارہا تھا، اچانک جھاڑیوں میں سے ایک خوف ناک ریچھ نکل آیا۔ بھلا بتاﺅ میں نے اس سے کیا کہا ہوگا؟“
ایک شریر بچے نے جواب دیا: ”آپ نے کہا ہوگا، کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
یہ سن کر سب بچے اور خود مسٹر عجیب و غریب نے ہنستے ہوئے کہا: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
ایک بچہ کہنے لگا: ”چاچا! آپ کا کوئی رشتے دار نہیں؟ آپ اکیلے کیوں رہتے ہیں؟“
”ہے کیوں نہیں بھئی؟ میرا ایک بھائی ہے۔ وہ ایک دو دن میں مجھ سے ملنے آرہا ہے۔“
اور واقعی دو دن بعد ان کا بھائی آگیا۔ جب مسٹر عجیب و غریب کا بھائی آیا تو اس وقت وہ گھر پر نہیں تھے۔ ان کے بھائی تانگے سے اترے تو ان کا حلیہ دیکھ کر محلے کے لڑکے ان کے گرد جمع ہوگئے۔
مسٹر عجیب و غریب کے بھائی نے سر سے پاﺅں تک ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس سے ان کا لباس کا کچھ پتا نہ چلتا تھا۔ ان کے ساتھ سامان وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔ انھوں نے تانگے والے کو پانچ روپے دیے۔ تانگے والے نے انھیں ایک رپیہ واپس دیا تو اسے ڈانٹ کر بولے: ”نالائق، ایک روپیہ اور نکال ورنہ مار مار کر چمڑی ادھیڑ دوں گا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہلوا کر…. لاحول ولاقوة۔“ شاید انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا، اسی لیے انھوں نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”تانگے والے نے چپ چاپ ان کو ایک روپیہ اور واپس کیا اور جلدی سے بھاگ نکلا۔
اب جناب انھوں نے لڑکوں کی طرف رخ کیا اور بولے: ”کیوں بھئی بچو، میرے بھائی کا مکان کون سا ہے؟ سچ بتانا ورنہ مرغا بنادوں گا۔“
لڑکے بہت چکرائے کہ یہ کون ہے آخر؟ اور کس کے بارے میں پوچھ رہا ہے؟ آخر ایک لڑکے کو کچھ یاد آگیا۔ اس نے پوچھا: ”آپ مسٹر عجیب و غریب کے بھائی تو نہیں؟“
”کیا؟“ وہ زور سے چلائے۔ ”کون مسٹر عجیب و غریب؟“
اتنے میں مسٹر عجیب و غریب بھی واپس آگئے۔ دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، اور آگے بڑھ کر گلے سے لگ گئے۔ مسٹر عجیب و غریب کے بھائی بولے: ”نالائق، کیا حال ہے تیرا؟ سچ بتا ورنہ چمڑی ادھیڑ دوں گا۔“
مسٹر عجیب و غریب بولے: ”کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“
بچوں کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مسٹر عجیب و غریب کے بھائی ہیں، اور یہ کسی زمانے میں اسکول ماسٹر رہ چکے ہیں۔ اسی لیے ہر بات میں چمڑی ادھیڑ نے، مرغا بنانے اور اسکول سے نکلوانے کی دھمکیاں دیتے تھے۔
بچوں کو مسٹر عجیب و غریب نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی اس کے نیچے ایک اور چادر تھی اور اس کے نیچے ان کے بھائی نے سوٹ پہن رکھا تھا۔ دراصل ان کے بھائی نے سوچا تھا کہ کہیں سفر کے دوران ان کا سوٹ خراب نہ ہوجائے، اس لیے انھوں نے سوٹ کے اوپر چادر اوڑھ لی۔ پھر ان کو خیال آیا کہ اگر چادر خراب ہوگئی تو پھر؟ چنانچہ انھوں نے چادر کے اوپر ایک اور چادر اوڑھ لی۔
بچوں نے مسٹر عجیب کے بھائی کا نام ”ماسٹر ڈانٹ ڈپٹ“ رکھ دیا۔
لیکن کچھ ہی دنوں بعد ماسٹر ڈانٹ ڈپٹ اور مسٹر عجیب و غریب دونوں بھائی نہ جانے کیوں محلہ چھوڑ کر چلے گئے۔ جاتے وقت بچوں نے دیکھا کہ مسٹر عجیب و غریب بڑے اداس تھے۔
مسٹر عجیب و غریب بچوں کو اب بھی بہت یاد آتے ہیں اور بچے ایک دوسرے کو ’ماسٹر ڈانٹ ڈپٹ، مسٹر عجیب و غریب‘ کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں، اور چمڑی ادھیڑ دوں گا۔“ وغیرہ وغیرہ کہہ کر خوب چڑاتے ہیں۔