موت کا تعاقب
محمدعلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ایلس مجھے تمھار ا ساتھ چاہیے۔ آپس کی رنجشوں کو بُھلا کر ہمیں مہم پر جانا ہوگا۔‘‘کیپٹن مارشل نے کہا
’’یس سر!‘‘ ایلس نے جواباً کہا
’’چلو، اپنی بلیٹن سے کہو تیا ر ہوجائے۔ہمیں دو گھنٹے کے بعد روانہ ہونا ہے۔‘‘کیپٹن مارشل نے احکام جاری کرتے ہوئے کہا
ایلس کے ساتھ کھڑے چیف لاسن نے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا’’ایلس! یہ کیا ہو رہا ہے۔ابھی کل ہی تو ہم بحری بیڑے سے واپس آئے ہیں۔ میری توچھٹی بھی منظور ہو گئی تھی۔‘‘
’’پریشان نہ ہو۔میں ابھی معلومات حاصل کر کے آتا ہوں۔‘‘ ایلس نے جواب دیا اور ایڈمرل کے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔چند منٹ کے بعدوہ ایڈمرل کے کمرے کے سامنے کھڑا تھا۔وہ دستک دے کر اندر چلا گیا۔
’’آؤ۔۔۔۔آؤ۔۔۔۔ایلس،مجھے تمھارا ہی انتظار تھا۔‘‘ ایڈمرل جوزف نے ایلس کو دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا
ایڈمرل جوزف نے اب کیپٹن رسل کی طرف آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے کیے ۔کیپٹن رسل کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی وہ اسے پکڑ کر چارٹ پر بنے ہوئے نقشے سے کچھ ہدایات دے رہے تھے۔انہوں نے مہم پر جانے کے لیے مکمل تفصیلات سے آگاہی دی۔
’’کوئی بات پوچھنی ہے تو بتائیں؟‘‘ ایڈمرل جوزف نے تفصیلات بتانے کے بعد کہا
’’سر!میرے سیلر(سپاہی)کو بندوق چلانے کی تربیت نہیں ہے۔‘‘ایلس نے سوچ کر کہا
’’میجر پال اس مہم میں آپ کے ساتھ جائیں گے اور سپاہیوں کو تربیت دیں گے۔‘‘ ایڈمرل جوزف نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
اس کے بعد تھوڑی دیر تک کمرے میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ اس خاموشی کے سکوت کو دروازہ کھولنے کی آواز نے توڑا۔ جہاں سے کیپٹن مارشل اندر داخل ہورہے تھے۔
’’سر! ہمیں ایک ایسا سپاہی بھی چاہیے جو دشمنوں کی زبان سمجھ سکتا ہو۔‘‘ کیپٹن مارشل نے سانس بحال کرتے ہوئے کہا
’’سر! میرے پاس ایسا سپاہی موجود ہے۔‘‘ایلس نے کیپٹن مارشل کے سوال کا جواب دیا
’’ٹھیک ہے پھر مہم پر جانے کی تیاری کریں۔‘‘ایڈمرل جوزف نے آخری کلمات کہے
ایلس اور کیپٹن مارشل کمرے سے باہر آگئے۔وہاں پر دشمنوں کی طرز کی آبدوز کھڑی تھی۔ جس پر دشمنوں کا پرچم لگا ہوا تھا۔ سار ا سامان تقربیاً آبدوز میں پہنچ گیا تھا۔ ضروری جانچ پڑتال کے بعد ایلس اور کیپٹن مارشل آبدوز میں چلے گئے۔اب آبدوز آہستہ آہستہ چلنے شروع ہوگئی تھی۔آبدوز کے اندر کیپٹن مارشل نے سپاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔’’ہم ایک بہت اہم خفیہ مہم پر جارہے ہیں۔ دشمنوں کی آبدوز کسی وجہ سے چل نہیں رہی۔انہوں نے مدد کے لیے ریڈیو سے پیغام بھیجاجو ہمیں بھی معلوم ہوگیا۔اس لیے اُن کی مدد آنے سے پہلے ہمیں آبدوز پر سے خفیہ راز حاصل کرنے ہیں۔ اس مہم میں میجر پال بندوق چلانے کی تربیت دیں گے۔‘‘
میجر پال نے بھی مہم کی اہمیت و افادیت کے بارے میں آگاہی دی۔ اس کے بعد ایلس کھڑا ہوا اور کہنے لگا’’اس مہم میں کیپٹن مارشل ہمارے کپتان اور میں کمانڈنگ آفیسر ہوں۔‘‘
اس میٹنگ کے بعد تمام سپاہی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ کچھ سپاہی آرام کی خاطر اپنے بستروں پر لیٹ گئے۔ آبدوزتیز رفتار سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھی۔ وہاں میجر پال سپاہیوں کو تربیت دے رہے تھے۔چند دنوں میں وہ اپنی منز ل کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔باہر موسم بہت خراب تھا،بجلی کے چمکنے اوربادلوں کے کڑکراہٹ کے ساتھ زور و شور سے بارش ہورہی تھی۔ ایک سپاہی نے جو عرشے پر موجود تھااُس نے اطلاع دی کہ پانچ سو میڑ کی دوری سے کوئی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘کیپٹن مارشل نے ایلس ،میجر پال اور سپاہیوں کو دیکھ کر کہا’’ ہماری منزل آگئی ہے۔سب جلدی سے تیارکرو۔‘‘ کیپٹن مارشل کے احکامات ملنے کی دیر تھی کہ سب تیاری کرنے لگے۔میجر پال کی ہدایت کے مطابق سب نے دشمنوں کا لباس پہنا ہوا تھا جس سے ایسا لگے کہ ہم مدد کرنے والے ہیں۔کیپٹن مارشل اور چند سپاہی جہاز میں رہے اور میجر پال اور ایلس باقی سپاہیوں کے ساتھ لائف بوٹ کے ذریعے دشمنوں کی آبدوز کی طرف روانہ ہوگئے۔
’’جب میں کہوں ،تب ہی فائر کرنا۔‘‘ میجر پال نے ضروری ہدایات دی
لائف بوٹ اب آبدوز کے قریب سے قریب تک پہنچ رہی تھی۔دشمنوں کے آبدوز کا کپتان باربار اُونچی آواز میں کچھ پوچھ رہا تھا۔ ایلس نے جیف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جو اُ ن کی زبان سمجھ سکتا تھا’’وہ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘ جیف نے جواباً کہا’’ کیا تم مدد کرنے کے لیے آئے ہو۔‘‘
دشمنوں کے کپتان کی آواز زور زور سے آرہی تھی۔ایلس باربار میجر کی طرف دیکھ رہ تھا جو احکامات جاری کریں۔جب لائف بوٹ آبدوز کے قریب پہنچ گئی تو جیف نے بھی اس کا اونچی آواز میں جواب دیا۔ساروں نے دشمنوں کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس لیے دشمن کپتان کو کوئی شک و شبہ نہیں ہوا۔لائف بوٹ اب آبدوز کے ساتھ لگ گئی تھی۔ سیڑھیوں کی مدد سے وہ اوپر چڑھنے لگے۔ اچانک آخری سپاہی کے ہاتھ سے مشین گن دشمن کے کپتان کو نظر آگئی۔ اُس نے تمام عملہ کو آگاہ کردیا۔ اس کے بعد گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔اس کے برعکس میجر ،ایلس اور سپاہیوں نے بھر پورکوشش کی اور آبدوز پر قابو پالیا اور دشمنوں کے سپاہیوں کو قیدی بنا لیا۔
میجر پال لائف بوٹ کے ذریعے اپنی آبدوز پر آئے اور قیدیوں کو نمبر لگانے میں مصروف ہوگئے۔دوسری آبدوز پر اب صرف ایلس اورچند سپاہی رہ گئے تھے۔ان ہی سپاہی میں ایک کانام چیف لاسن تھا جو ہر کامیاب مہم کے بعد تصاویر بنوا کر اپنے پاس محفوظ کر لیتا تھا۔اس مقصد کے لیے اُس نے اپنا کیمرہ ہر مہم میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
’’ایلس سر! آپ کی جیت کی خوشی میں ایک فوٹو ہوجائے۔‘‘چیف لاسن نے کیمرے کو سیٹ کرتے ہوئے کہا
ایلس نے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ اُس کے چہرے پر جیت کی خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی۔چیف لاسن نے ابھی تصویر لی ہی تھی کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور اُن کی آبدوز آگ اُگلنے لگی۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ سپاہی اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے۔ اور اُڑ اُڑ کر سمندر میں گرنے لگے۔ اس اچانک حملے نے ایلس کے دماغ کو ماؤف کر دیاتھا۔
’’تمام اس آبدوز میں اندر چلے جائیں۔‘‘ایلس نے کو خود کو سنبھالتے ہوئے کہا
چیف لاسن نے دور سے ایک آبدوز کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر کہا’’سر!مدد گار آبدوز آگئی ہے۔‘‘
ایلس اور باقی سپاہی جو بچ گئے تھے وہ آبدوز کے اندر چلے اور ایلس نے سب سے پہلے یہ حکم دیا کہ آبدوز میں کیاخرا بی یہ معلوم کرو۔اس کام کے لیے ایڈی ان کے کام آگیا تھا جو انجن کا کام جانتا تھا۔
’’سر! اس آبدوز کا پیچھے کا انجن خراب ہے اور آگے کے انجن میں معمولی خرابی ہے ۔وہ جلدی ٹھیک کر دوں گا۔‘‘ ایڈی نے آبدوز کی صورت حال بتاتے ہوئے کہا
’’جیف تم ایڈی کے ساتھ جاؤ اور انجن سٹارٹ کرنے میں مدد کرو۔ ہمیں جلدی سے جلدی سمندر کے اندر جانا ہے۔‘‘ ایلس نے دوربین سے مد د گار آبدوز کو دیکھتے ہوئے کہا
معمولی خرابی کو دور کرنے کے بعد ایڈی نے جیف کی مدد سے انجن سٹارٹ کر دیا تھا۔آبدوز اب سمندر کے اندر جارہی تھی۔
’’۱۰ میٹر نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰ میٹر نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۳۰ میٹر نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ چیف لاسن کی آواز وقفے وقفے سے آرہی تھی۔
’’ سر! میں دوسری آبدوز کی آواز بہت صاف سُن سکتا ہوں۔‘‘ایک سپاہی ولسن نے کہا
’’ایڈی!ہمارے پاس کتنے تارپیڈو ہیں۔‘‘ ایلس نے ایڈی سے رابطہ قائم کرتے ہوئے کہا
’’پانچ ہیں سر!‘‘ ایڈی کا جواب آیا
’’تارپیڈو کو تیار کرو،کسی بھی وقت ضرورت پیش آسکتی ہے۔ ‘‘ایلس نے ضروری ہدایت دیں۔
’’سر! انھوں نے تار پیڈو فائر کر دیاہے۔‘‘ ولسن نے پریشانی سے کہا
’’آبدوز کو دائیں طرف موڑ لو۔‘‘ اس احکام کو جاری کرنے کے بعد ایلس نے ایڈی سے رابطہ کیا اور تارپیڈو کو فائر کرنے کے لیے کہا
آبدوز بہت آہستہ آہستہ کر کے اپنی سمت تبدیل کر رہی تھی۔ اسی دوران ایڈی نے چار تار پیڈو آگے پیچھے فائر کر دیے تھے۔ایلس اور باقی سپاہیوں کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور دوسرا رنگ جار ہا تھا۔ سخت سردی کے موسم میں بھی پسینہ سے وہ شربوار تھے۔ تارپیڈو کی شکل میں موت آہستہ آہستہ اُن کی طرف بڑھ رہی تھی۔
’’خدا ہماری مد د فرما‘‘ ایلس نے یہ کہا اور آنکھیں بند کرلیں
’’سر!تار پیڈو ہمارے نیچے سے گزار گئے ہیں۔میں اُن کی آواز سن سکتا ہوں۔‘‘ولسن نے موجوں کی آواز سنتے ہوئے کہا
اس کے تھوڑی دیر بعد ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا اور مددگار آبدوز تباہ ہوگئی۔
’’اب کیا حکم ہے سر!‘‘چیف لاسن نے ایلس سے پوچھا
’’ہمیں اُوپر لے چلو، کوئی زندہ ہوتو اُسے بچالیں گے۔‘‘ایلس نے پسینہ صاف کر تے ہوئے کہا
آبدوز کو سطع سمند ر پر لے جایا گیا۔ایلس اور باقی سپاہیوں نے سرچ لائٹ کی مدد سے دیکھنا شروع کر دیا۔ جہاں تک نظر جارہی تھی لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھیں۔اچانک ایلس کی سرچ لائٹ کیپٹن مارشل پر پڑی جن کی کچھ سانسیں چل رہی تھی۔ ایلس نے رسی اُن کی طرف پھینکی۔’’ ایلس اب تم کپتان ہو اور مہم کی کامیابی تمھارے سر پر ہے ۔‘‘کیپٹن مارشل نے آخری کلمات کہے اورمر گئے۔
ایلس باقی سپاہیوں کے ساتھ آبدوز میں چلا گیا۔آبدوز آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔سب کے چہر ے غم زدہ تھے۔اب وہ کیسے واپس جائیں گے۔ان ہی خیالات کا اظہار ولسن نے کردیا’’ سر! ہم واپس کیسے جائیں گے۔‘‘
’’ہم انگلینڈ سے ہو کر واپس جائیں گے۔‘‘ ایلس نے جواب دیا
’’سر! وہاں تو جنگ ہورہی ہے۔ ہم دشمنوں سے بچ کر کیسے جاسکتے ہیں۔‘‘ اس دفعہ ایڈی نے سوال کیا۔
’’میں نہیں جانتا۔‘‘ ایلس نے مایوسی سے جواب دیا
’’سر! ہم ریڈیو کے ذریعے پیغام بھیج کر مدد مانگ سکتے ہیں۔‘‘جیف نے اپنا خیال ظاہر کیا
’’جیسی غلطی انھوں نے کی ویسی ہم بھی کر دیں۔یہ ناممکن ہے۔‘‘ایلس نے دو ٹوک جواب دیا
’’ہم اپنے آپ کو یونہی مرنے کے لیے پیش کر دیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ۔‘‘ولسن نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا
’’ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
’’کیپٹن مارشل ہوتے تو وہ یہی فیصلہ کرتے کہ پیغام بھیجا جائے۔‘‘ ایڈی نے اس بار کہا
’’کیپٹن مارشل مرگئے ہیں۔ اب ایلس تمھارا کپتان ہے ۔ان کا حکم ماننا تم پر لازم ہے۔‘‘چیف لاسن جو خاموش بیٹھا تھا غصے سے بولا
ایلس ایک کمرے میں چلا گیا اور آنکھیں بند کر کے آرام کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس کی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا تھا۔ اب اس معاملے کو وہ کس طرح حل کرے یہ سوچ رہا تھا۔دروازے پر دستک ہوئی اور چیف لاسن اندر داخل ہوا۔ ایلس نے چیف لاسن کو دیکھتے ہوئے کہا’’بولو، کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘
’’سر! اگر آپ بُرا نہ مانے تو ایک بات کہوں۔‘‘چیف لاسن نے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے ۔کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ایلس نے چیف لاسن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا
’’سر! میری ایک عمر گزاری ہے سمندر ی سفر کرتے ہوئے۔آپ ابھی کم عمر ہیں اور اتنا تجربہ بھی نہیں رکھتے کہ سپاہیوں کو ان مشکل حالات میں کیسے قابو کر کے احکامات کو پورا کروایا جائے۔ایک کمانڈنگ آفیسرلیڈر ہوتا ہے۔اگر وہ مایوسی کی باتیں کرنے لگے تو سپاہی تو پہلے ہی دل چھوڑ بیٹھتے ہیں۔’’میں نہیں جانتا‘‘ اس فقرے نے سپاہیوں کے دل چیر دیے ہیں۔ اس لیے آپ ہمیشہ مثبت اور تعمیری سوچ رکھیں۔‘‘
ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ جیف نے آکر بتایا کہ دشمنوں کا ایک طیارہ آبدوز کے گرد منڈلا رہا ہے۔ایلس نے دوربین پکٹری اور عرشے پر آگیا۔ جیف نے مشین گن سنبھال لی۔ ایلس دور بین سے طیارے کو دیکھنے لگا۔’’یہ دشمنوں کا طیارہ ہے۔اُسے دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلاآؤ۔‘‘ایلس نے حکم دیا
ایلس ، جیف اور ولسن نے ٹوپی کو ہاتھ میں پکڑا اور ہاتھ ہلانے لگے۔طیارہ ایک زناٹے کے ساتھ اُن کے اوپر سے گزار گیا۔
’’سر! طیارہ واپس آرہا ہے۔جیف مشین گن کا رخ اُس کی طرف کر لو۔‘‘ ولسن نے پریشانی سے کہا
’’تمھیں جو حکم دیا ہے اُسے پورا کرو۔‘‘ایلس نے غصے سے کہا
’’جیف دیکھ کیا رہے وہ طیارے ہماری طرف آرہا ہے،فائر کرو۔‘‘ ولسن نے جذباتی انداز میں کہا
’’جیف تم اس کی باتوں پر توجہ نہ دو۔‘‘ایلس نے ولسن کو گھورتے ہوئے کہا
جیف کی حالت اُ س وقت ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہونہیں۔پسینہ سے بُرا حال ہوگیا تھا۔طیارہ ایک زناٹے کے ساتھ آیا اور اُن کے سر کے اُوپر سے گزر گیا۔
’’میں نے کہا تھا کہ وہ صرف ماحول چیک کرنے آیا ہے۔‘‘ایلس نے گرجتے ہوئے ولسن سے کہا
’’سر! وہ دیکھیں سامنے دشمنوں کا بحری جہاز نظر آرہا ہے۔‘‘جیف نے ایلس کی توجہ جہاز کی طرف کروائی
’’بہت بُرا ہوا،ولسن تم جاکر ایڈی اور جیف لاسن سے کہو کہ ہمیں سمندر میں لے جاؤ۔ایلس نے ہدایت دی
بحری جہاز سے لائف بوٹ میں سپاہی ان کی طرف آرہے تھے۔اب حکمت عملی کرنے کا وقت آگیا تھا۔ ایلس کی آزمائش اس کے سامنے کھڑی تھی۔ ایلس نے سوچا کہ اگر ہم ان کا ریڈیو سٹم تباہ کر دیں تو وہ ریڈیو سے پیغام نہیں بھیج سکیں گے اور ہم آسانی سے سمندر کے اندر چلے جائیں گے۔
’’سر! ایڈی کہہ رہا ہے کہ انجن میں معمولی خرابی ہے جس کی وجہ سے ہم ابھی سمندر میں نہیں جا سکتے ہیں۔‘‘
’’اُسے کہو ،ایک منٹ میں انجن ٹھیک کرے۔ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘ایلس نے گرج کر کہا
لائف بوٹ کے سپاہی اب قریب پہنچ چکے تھے۔’’جیف ان کو کہو کہ واپس چلے جائیں۔ ورنہ ہم اُن پر فائر کر دیں گے۔‘‘ایلس نے ہدایت دی
جیف نے اُن کی زبان میں اُنہیں سمجھایا۔لائف بوٹ نے واپسی کا رخ کر لیا۔ ایلس نے جیف کو دوربین کے ذریعے ریڈیو سٹم دکھایا۔’’ اس سٹم کو ایک ہی گولے سے تباہ کرنا ہے۔‘‘ ایلس نے جیف کو کہا
جیف اپنی پوزیشن پر بیٹھ گیا اور دوربین کے ذریعے پوزیشن کو سیٹ کر کے فائر کر دیا۔ اﷲ کی کرنی ایسی ہوئی کہ گولے نے ایک ہی وار سے ریڈیو سٹم تباہ برباد ہو گیا۔
’’جیف !بہت ہی اچھا نشانہ لگایا ہے۔‘‘ایلس نے داد دیتے ہوئے کہا
’’سر! انجن تیار ہے۔‘‘ولسن نے اُونچی آواز میں کہا
’’ہمیں سمندر میں لے چلو۔‘‘ایلس نے جواباً کہا
بحری جہاز میں ہائی الرٹ کا آلارم زور و شور سے بجنے لگاگیا تھ۔بحری جہاز سے آبدوز پر گولے باری شروع ہوگئی تھی۔ ایک گولہ آبدوز کے بالکل قریب آکر گرا تھا۔ جس سے زور دار دھماکہ ہوا اور سب لڑکھڑا کر ایک دوسرے پر گر پڑے تھے۔بحری جہاز سے مسلسل گولیوں کی بوچھاڑ بھی جاری تھی۔
’’ایڈی! انجن کی رفتارتیز کر دو۔ہمیں جلدی سمندر میں جانا ہوگا۔‘‘ایلس نے ایڈی سے رابطہ قائم کرتے ہوئے کہا
’’۲۵ میڑ نیچے۔۔۔۔۔۵۰ میڑ نیچے۔۔۔۔۔۔۔۷۵ میڑ نیچے۔۔۔۔۔۔۔۔۱۰۰ میڑ نیچے۔۔۔۔۔۔‘‘ وقفے وقفے سے چیف لاسن کی آواز آرہی تھی۔
آبدوز کے شیشے سے وہ باآسانی دیکھ سکتے تھے کہ وہ بحری جہاز کے نیچے سے گزر رہے رہے ہیں اس کے علاوہ گولہ باری اُسی طرح جاری تھی۔بحری جہاز کے نیچے سے آبدوز نکل گئی تھی۔ موت کی اس گھڑی کو بھی وہ آسانی سے پار کر گئے تھے۔ایلس اب آگے کا لائحہ عمل پرجانچ پڑتال کر رہا تھا۔وہ سوچ کر رہا تھا کہ کیسے اپنی جان اس بحری جہاز سے بچائی جائے۔
’’سر! انھوں نے اپنے بحری جہاز کی رفتار تیز کر دی ہے۔ اور وہ کچھ دیر میں ہمارے اوپر ہوں گے۔ولسن نے اطلاع دی
’’آپ کی حالت کبھی پہلے ایسی ہوئی ہے چیف!‘‘ جیف نے ماحول کی سختی کو کم کرتے ہوئے پوچھا
’’ہاں! ایک بار ایسا ہوا تھا کہ ہم ۱۷۰ میٹر کی گہرائی میں تھے۔ دشمن بم پربم گرا رہا تھا۔ایک بم ہماری آبدوز پر بہت قریب لگا،اس کے نتیجے میں ہمارے کپتان کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔لیکن کمال ہمت سے ہم واپس آگئے تھے۔‘‘
’’سر ! پانی میں مجھے آہٹ محسوس ہورہی ہے۔‘‘ولسن نے یہ بات کہی تھی کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور آبدوز کی لائٹیں بند ہوگئیں۔دوسرے دھماکہ کے ساتھ آبدوز کے پائپ سے پانی نکلنے لگا۔
’’سر! انہوں نے بم پھینکنے شروع کر دیے ہیں۔‘‘ چیف لاسن نے آگاہ کیا۔
ہر دو تین سکینڈ کے بعد دھماکہ ہوتا اور آبدوز بُری طرح ہلنے لگتی تھی۔بحری جہاز کسی طرح بھی اپن مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔آبدوز کے اندر ایلس اورسپاہیوں کے ماتھے اور چہرے سے خون نکل رہا تھا۔اتنے زور سے گرتے تھے کہ توازن برقرار نہیں رہتا تھا۔ایلس نے سوچا کہ مرنا اس طرح بھی ہے اور اُس طرح بھی ہے۔کیوں نہ لڑ کر مرا جائے۔ اس بات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وہ چیف لاسن کی طرف متوجہ ہوا۔
’’چیف! ہمیں ۲۰۰ میڑ نیچے لے جاؤ۔ہمیں بموں سے بچنا ہے۔‘‘ ایلس نے کہا
’’۲۰۰ میٹرنیچے لے چلو۔‘‘ چیف لاسن نے ہدایت دی
ایلس اور اُن کے سپاہیوں نے پہلی بار اتنی گہرائی میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔کیونکہ آبدوز اتنی گہرائی میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتی اور ٹوٹنے کا ڈر رہتا ہے۔آبدوز اب ۲۰۰ میڑ کی گہرائی میں تھی۔یہاں پر بھی بموں کی آواز آرہی تھی۔لیکن آبدوز پر اثر نہیں ہو رہا تھا۔ایلس نے سوچا کہ اگر ہم اپنی رفتار کم کر دیں،اس کے ساتھ تیل اور لائف جیکٹ ڈھیر ساری سمندر میں پھینک دیں تو وہ دھوکے میں آجائیں گے۔اس طرح بحری جہاز کچھ دیر کے لیے رک جائے گا۔ اس دوران ہم تارپیڈو سے حملہ کر دیں گے۔
اس خیال کو تکمیل دینے کے لیے ایلس نے ریڈی سے رابطہ کیا اور اپنے خیال کو ظاہر کیا۔’’سر! ترکیب تو اچھی ہے۔لیکن بم لگانے کی وجہ سے تار پیڈو کے پائپ میں سوراخ ہوگیا ہے۔ مرمت میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘‘ایڈی نے اپنے خیال بیان کیا۔’’جلدی سے ٹھیک کر لو۔‘‘ ایلس نے جواباً کہا
ایلس دوربین سے بحری جہاز کا معائنہ کرنے لگا کہ اچانک ایک پائپ سے پیچ نکل کر باہر زور سے گرا۔اس کے ساتھ یک بعد دیگر پائپ میں سے پیچ نکلنے لگے اور پانی پوری طاقت سے اندر آنے لگا۔ پانی کا پریشر اتنا تیز تھا کہ ان سے کھڑا نہیں ہو پارہا تھا۔ایلس کو اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کروں تو اُس نے آبدوز اُوپر لے جانے کا حکم دے دیا۔
’’ سر! آبدوز قابو میں نہیں آرہی ہے۔وہ مسلسل گہرائی میں جارہی ہے۔‘‘چیف لاسن نے چیختے ہوئے کہا
’’چیف!کوشش جاری رکھو۔‘‘ ایلس نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
آبدوز آہستہ آہستہ کرکے گہرائی میں جا رہی تھی۔بلب،میڑز کے شیشے تک ٹوٹ چکے تھے۔ موت اب اُن کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔ آبدوز اس وقت ۳۰۰ میڑ کی گہرائی میں جاچکی تھی۔ چیف لاسن ابھی بھی کوشش کر رہا تھا۔اُس نے اپنی زندگی کا تجربہ اور جوش وجذبہ اکھٹا کرکے مشین کو اُوپر لے جانے کی کوشش کی جس میں بالاآخر وہ کامیاب ہوگیا۔آبدوز اب آہستہ آہستہ اُوپر آرہی تھی۔
ایلس نے ایڈی سے رابط قائم کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا’’ایڈی ۔۔۔۔کیا تم زندہ ہو۔۔۔۔آواز دو۔۔۔۔۔‘‘ دوسری طرف سے کچھ دیر کے بعد ایڈی بولا’’جی سر!‘‘
’’تارپیڈو تیار ہوا کے نہیں‘‘ ایلس نے پوچھا
’’نہیں سر! مجھے لگتا ہے یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا۔‘‘ایڈی نے مایوسی سے جواب دیا
’’ایڈی! تم یہ کام کر سکتے ہو۔کوشش کرو۔‘‘ ایلس نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
’’میں کوشش کر تا ہوں۔‘‘ ایڈی نے جواباً کہا
’’چیف! ہم ابھی اوپر نہیں جا سکتے۔ ابھی تار پیڈو تیار نہیں ہے۔‘‘ ایلس نے کہا
’’سر! اب کچھ نہیں ہوسکتا۔مشین خراب ہوچکی ہے۔‘‘چیف لاسن نے جواباًکہا
’’سر !بحری جہاز رُک گیا ہے۔ لگتا ہے وہ ہماری چال میں پھنس گئے ہیں۔‘‘ولسن نے آگاہ کیا
’’ہم پانچ منٹ میں سطح سمندر پر ہوں گے۔‘‘چیف لاسن نے کہا
ایلس نے ایک پھر ایڈی سے رابطہ کیا’’تارپیڈو تیار ہوا کے نہیں‘‘
’’سر !بس تھوڑی دیر اور چاہیے۔ پریشر جہاں سے ضائع ہو رہا ہے وہ بہت تنگ جگہ ہے میرا وہاں تک ہاتھ نہیں پہنچ رہا ہے‘‘ ایڈی نے صورت حال بتائی
’’ایڈی!ہم تھوڑی دیر میں سطح سمندر پر ہوں گے۔ دشمن کا جہاز ہمارے سامنے ہوگا۔اس لیے میرے بھائی کوشش کرو۔‘‘ایلس نے کہا
’’جیف تم ایڈی کی مدد کرو۔‘‘ایلس نے جیف کو متوجہ کرتے ہوئے کہا
جیف بھاگ کر ایڈی کے پاس پہنچ گیا۔واقعی وہ جس پائپ کو بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا وہاں تک اُس کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا۔دوسری طرف آبدوز اب سطح سمندر پر نمودار ہو رہی تھی۔بحری جہاز کے عملے نے اس بات کو نوٹ کر لیا تھا۔ وہ دوبارہ سے گولہ باری کرنے لگے تھے۔اب آخری امید ایڈی ہی بچا تھا۔جیف نے ایڈی کو پیچھے کیا اور خود لیٹ کر ہاتھ لمبا کر کے پائپ کو بند کرنے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ اُ س کا ہاتھ چھوٹا تھا اس لیے تنگ جگہ سے آسانی سے پار چلا گیا۔ایلس نے ایک بار پھر ایڈی سے رابطہ کیا’’ ایڈی ! جلدی سے تارپیڈو فائر کرو۔ ورنہ ہم مارے جائیں گے۔‘‘
ایلس کا یہ حکم ملتے ہی تارپیڈو فائر ہوگیا۔ بحری جہاز کے عملے کو بھی اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ تار پیڈو فائر ہوا ہے۔ چند سکینڈ کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا اور بحری جہاز تباہ و برباد ہوگیا۔ اس پر ایلس اور سپاہیوں نے خوشی منائی تھی۔چیف لاسن نے فخر سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا’’سر! آئندہ کبھی آپ کو ہماری ضرورت پڑے تو ہم تیار ملیں گے۔اب اس آبدوز کو چھوڑنے کی اجازت دیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ایلس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
لائف بوٹ کے ذریعے وہ سمندر میں اُتار گئے اور واپسی کے لیے روانہ ہوگئے۔اس مہم پر اُنہوں نے کئی بات موت کو اپنے سامنے دیکھا تھا۔لیکن ہمت نہیں ہاری اور کامیاب ہو کر لوٹے تھے۔