skip to Main Content
موت کا راستہ

موت کا راستہ

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیگم عرفان کی اچا نک آنکھ کھل گئی… وہ ایک بہت خوف ناک خواب دیکھ رہی تھیں… خواب میں ایک جن نما انسان وحشیانہ انداز میں ان کی طرف قدم اٹھا رہا تھا… اس کے نوکیلے دانت ڈریکولا کی طرح ہونٹوں سے باہر نکلے ہوئے تھے… بانچھوں سے خون رس رہا تھا جیسے ابھی ابھی کسی کا خون پی کر آیا ہو… پھر جونہی وہ ان پر جھکا، ان کی آنکھ کھل گئی… ان کا پورا بدن پسینے میں بھیگا ہوا تھا…
ایسے میں ان کی نظر دروازے کی طرف اٹھ گئی… ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا… آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں… وہاں ایک سیاہ پوش کھڑا تھا… ا س کا پورا بدن سیاہ لباس میں چھپا ہوا تھا… ہاتھوں پر بھی سیاہ دستانے تھے… آنکھوں کی جگہ دو سوراخ تھے… ان سوراخوں سے بھی آنکھیں صاف نظر نہیں آرہی تھیں… یعنی وہ یہ نہ جان سکیں کہ اس کی آنکھیں کیسی ہیں… اس کے دائیں ہاتھ میں ایک پستول تھا… اس کا رنگ بھی سیاہ تھا…
ان کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا:
’’منہ سے آواز نکلی اور تم گئیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’نن… نہیں…‘‘ آواز ان کے گلے میں اٹک کر رہ گئی… ان کا بدن تھرتھر کانپ رہا تھا… ان کے شوہر عرفان احمد بڑے بچوں کے ساتھ ایک شادی میں گئے ہوئے… وہ اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر میں تھیں اور ان کے دونوں چھوٹے بچے ان کے دائیں بائیں گہری نیند میں تھے… انھیں حیرت اس بات پر تھی کہ سیاہ پوش اندر کیسے آگیا، لیکن یہ وقت ایسی کوئی بات سوچنے کا تو تھا ہی نہیں۔
’’سیف کی چابیاں مجھے دے دو۔‘‘
انھوں نے بیڈ کے ساتھ لگی دراز کو کھینچا اور چابیاں اس کی طرف بڑھا دیں… وہ دو قدم آگے بڑھا اور چابیوں کا گچھا اس سے لے لیا… انھوں نے دیکھا…اس کی دائیں ٹانگ میں قدرے لنگڑا پن تھا… وہ دائیں ٹانگ کو کسی قدر جھکا کر چلتا تھا…
’’دیکھو! تمہاری اور تمہارے بچوں کی خیریت اسی میں ہے کہ اسی طرح آرام سے بیٹھی رہو… اگر تم نے کوئی گڑبڑ کی تو تم بھی جان سے جاؤ گی اور تمہارے بچے بھی۔ سمجھ گئیں۔‘‘ سمجھ گئیں پر اس نے خوب زور دیا۔
’’جی! سمجھ گئی… میں کوئی غلط حرکت نہیں کروں گی… مجھے اپنے بچے مال و دولت سے زیادہ عزیز ہیں۔‘‘
’’تم ایک عقل مند خاتون ہو اور میں عقل مند خاتون کو کوئی تکلیف نہیں دوں گا۔‘‘
اب وہ تجوری کی طرف متوجہ ہوا:
’’وقت ضائع نہیں ہوگا… تم خود بتا دو… کون سی چابی لگے گی۔‘‘
’’سب سے بڑی والی۔‘‘ وہ بولیں۔
اس نے بڑی چابی تجوری کو لگائی… کلک کی آواز کے ساتھ تجوری کھل گئی… اندر خفیہ خانہ بھی موجود تھا اور چند خانے بھی تھے… اس نے باری باری سب خانے کھول ڈالے… ان خانوں میں سے ایک میں زیورات تھے، دوسرے میں کرنسی نوٹ تھے… تیسرے خانے میں کاغذات تھے… اس نے نہ تو زیورات کو چھیڑا نہ کرنسی نوٹوں کو… بس کاغذات والا خانہ الٹ پلٹ کرتا رہا…یہاں تک کہ ایک ایک کر کے اس نے تمام کاغذات دیکھ ڈالے… آخر وہ سیدھا کھڑا ہوگیا… ان کی طرف مڑتے ہوئے بولا:
’’معاف کیجیے گا… میں نے آپ کی نیند خراب کی… آپ کو پریشان کیا… امید ہے، معاف فرمائیں گے… آپ کے حق میں بہتر یہ رہے گا کہ اس معاملے کا ذکر کسی سے بھی نہ کریں… یہاں تک کہ اپنے شوہر سے بھی نہ کریں… میں آپ کے گھر سے کچھ نہیں لے جارہا… تمام چیزیں بھی جوں کی توں ہیں… ٹھیک ہے… کیا میں امید کرتا ہوں، آپ کسی سے ذکر نہیں کریں گے۔‘‘
’’اگر مجھ سے کسی نے نہ پوچھا تو میں بھی کوئی بات نہیں کروں گی۔‘‘
’’اس میں شک نہیں کہ آپ ایک سمجھ دار خاتون ہیں… یہ لیجیے اپنی چابیاں… اللہ حافظ۔‘‘ یہ کہتے ہی وہ مڑا اور لگا کمرے سے نکلنے… لیکن عین اسی لمحے بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی… اور کار کا ہارن بھی سنائی دیا…
وہ زور سے چونکا۔
’’یہ کون آگیا۔‘‘
’’میرے شوہر۔‘‘
’’انھیں تو رات ایک بجے آنا تھا۔‘‘ وہ بولا۔
یہ سن کر بیگم عرفان کو حیرت ہوئی کہ اسے یہ بات بھی معلوم ہے… انھوں نے فوراً کہا:
’’بھلا میں کیا کہ سکتی ہوں کہ وہ جلد کیسے آگئے… ان سے پوچھوں گی تو پتا چلے گا۔‘‘
’’میں باہر نکل کر کسی تاریک گوشے میں چھپ رہا ہوں… جونہی وہ اندر آئیں گے، میں نکل جاؤں گا… دیکھیں! میں نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا… لہٰذا ہدایات پر عمل کریں… اگر میں الجھا تو آپ کو بھی ساتھ میں الجھنا پڑے۔‘‘
’’ٹھیک ہے… آپ چھپ جائیں… میں دروازہ کھولنے کے لیے جاتی ہوں۔‘‘
’’میں جانتا ہوں… گھر میں کوئی ملازم نہیں ہوتا۔‘‘ اس نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
اس کے چند سیکنڈ بعد وہ باہر نکلیں… اسی وقت گھنٹی پھر بجی اور ہارن بھی بجایا گیا… ظاہر ہے… بچے کار میں تھے اور اس کے شوہر کار سے نکل کر گھنٹی بجا رہے تھے… ایسے میں موبائل کی گھنٹی بھی بجی… یعنی انھیں جگانے کے لیے ایک بچے نے یہ طریقہ بھی اختیار کر لیا تھا… ان کے قدم تیز تیز اٹھنے لگے… اجنبی انھیں باہر کہیں بھی نظر نہیں آیا… ظاہر ہے… اس نے خود کو کہیں چھپا لیا تھا…
انھوں نے دروازہ کھول دیا…
’’بہت دیر لگا دی بیگم… اتنی گہری نیند تو نہیں ہے آپ کی۔‘‘
’’کبھی گہری آبھی سکتی ہے۔‘‘ وہ مسکرائیں۔
اس کے شوہر کار میں بیٹھے اور کار کو اندر لے آئے… اب دونوں بچے بھی اتر پڑے… شوہر نے دروازہ بند کیا اور سب اندر کی طرف چل پڑے:
’’آپ جلدی کیسے آگئے؟‘‘
’’بارات اتنی دیر سے نہیں آئی جتنی کہ امید تھی… بس جلدی فارغ ہوگئے۔‘‘
’’اوہ سمجھی۔‘‘
وہ کمرے میں آگئے… شوہر اور دونوں بچوں نے لیٹے کی کی… وہ پانچوں ایک ہی کمرے میں سوتے تھے… بچے اتنے بڑے نہیں تھے کہ الگ کمرے میں سوئیں…
’’آپ نے دروازہ تو اندر سے بند کر دیا تھا نا۔‘‘
’’ہاں! بالکل کر دیا ہے۔‘‘
’’لیکن میرا خیال ہے، آپ نے دروازہ اندر سے بند نہیں کیا۔‘‘
’’اچھا تو آپ اطمینان کر لیں… یہ اچھی بات ہے۔‘‘
وہ دل میں مسکرا دیں… پھر دوبارہ دروازے پر پہنچیں… دروازہ کھلا ملا، اس کا مطلب تھا، وہ جاچکا ہے… انھوں نے دروازہ بند کیا اور کمرے میں لوٹ آئیں…
’’کیوں بند تھا نا۔‘‘
’’نہیں کھلا تھا۔‘‘ وہ مسکرائیں۔
’’ہائیں… کیا واقعی… میری یادداشت بہت کمزور ہوگئی ہے… کل ڈاکٹر سے بات کروں گا۔‘‘ ان کے شوہر بولے اور پھر انھوں نے آنکھیں بند کر لیں… عین اس لمحے دروازے کی گھنٹی بہت زور دار انداز میں بجائی گئی… شوہر نے چونک کر آنکھیں کھول دیں… ادھر ان کا دل دھک دھک کر اٹھا…
’’یہ اس وقت کون آگیا۔‘‘
’’پپ پتا نہیں… مجھے تو ڈر لگ رہا ہے… آپ ایسے ہی دروازہ نہ کھول دیجیے گا۔‘‘
’’میں اتنا پاگل نہیں۔‘‘ عرفان صاحب بولے اور اٹھ کر باہر نکل گئے۔
’’کون؟‘‘ وہ بولے۔
’’پولیس۔‘‘
’’پولیس… کیا مطلب… پولیس کا میرے دروازے پر کیا کام۔‘‘ انھوں نے حیران ہو کر کہا۔
’’آپ فوراً دروازہ کھول دیں… اگر آپ نے ایک سیکنڈ بھی دیر کی تو آپ پر شک کیا جاسکے گا۔‘‘
وہ بوکھلا اٹھے… انھوں نے فوراً دروازہ کھول دیا…
’’یہ کیا کہا آپ نے، مجھ پر شک کیا جاسکے گا… کس بات کا شک۔‘‘
’’ایک مجرم کو چھپانے کا۔‘‘
’’کیا بات کرتے ہیں۔‘‘ ان کا لہجہ ناخوش گوار تھا۔
’’ہمیں آپ کے گھر کی تلاشی لینی ہے۔‘‘
’’آخر بات کیا ہے۔‘‘
’’ہمیں ایک مجرم کی تلاش ہے… ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ اسے یہاں آس پاس دیکھا گیا ہے۔‘‘
’’اوہ… تب تو آپ شوق سے تلاشی لے لیں… کیونکہ یہاں کوئی نہیں ہے۔‘‘
پولیس فوراً اندر آگئی… ان میں ایک آفیسر تھا اور چار کانسٹیبل۔‘‘
’’فوراً سارے گھر کی تلاشی لو۔‘‘
’’سامنے والے کمرے میں میرے بیوی بچے ہیں۔‘‘ عرفان صاحب نے ناخوش گوار لہجے میں کہا۔
’’دوسرے کمروں کی تلاشی لینے دیں… پھر انھیں ساتھ والے کمرے میں لے جائیے گا… ہم آپ کا کمرہ بھی دیکھ لیں گے۔‘‘ آفیسر نے کہا۔
’’اچھی بات ہے۔‘‘
اس طرح پوری کوٹھی کی تلاشی لی گئی… آخر میں ان کا کمرہ بھی دیکھا گیا… اور کانسٹیبل اپنے آفیسر کے پاس آگئے… ایک نے کہا:
’’نہیں سر… وہ یہاں نہیں ہے۔‘‘
’’اوہ اچھا… معاف کیجیے گا جناب! ہماری وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی۔‘‘
’’کوئی بات نہیں… قانون کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔‘‘ عرفان صاحب مسکرا دیے۔
’’آپ عرفان صاحب ہیں… محکمہ داخلہ میں ملازم ہیں… یہی بات ہے؟‘‘ آفیسر نے کہا۔
’’ہاں! انکل۔‘‘
’’شکریہ سر۔‘‘
اور پھر وہ چلے گئے… وہ دروازہ کھول کر ان کی طرف مڑے اور پھر ان کے قدم زمین میں گڑ کر رہ گئے… ان کی آنکھوں میں خوف پھیل گیا…
’’اب میں اطمینان سے رات یہاں بسر کر سکوں گا۔‘‘ بیگم عرفان نے اجنبی کی آواز سنی… وہ ان کے سامنے ہی تنہا کھڑا تھا…
’’کیا مطلب؟‘‘ عرفان صاحب کے منہ سے نکلا۔
’’پولیس یہاں سے اطمینان کر کے جاچکی ہے… لیکن اس پورے علاقے کی ناکہ بندی ختم نہیں ہوگی… رات بھر جاری رہے گی… وہ انتظار کرے گی کہ کب مجرم کسی گھر سے نکلے اور کب وہ اسے چھاپ بیٹھیں… لیکن میں یہاں سے کیوں نکلوں گا… میں تو دن نکلنے تک یہیں رہوں گا اور جب دن کی چہل پہل شروع ہوگی… اس وقت یہاں سے نکل جاؤں گا۔‘‘
’’لیکن اس وقت بھی تو آپ کو دیکھ لیا جائے گا۔‘‘ بیگم عرفان بولیں۔
عرفان احمد صاحب چونک اٹھے۔
’’کیا آپ اس شخص سے مل چکی ہیں بیگم۔‘‘
’’میرے خیال میں یہاں بات کرنا مناسب نہیں… کمرے میں چلتے ہیں۔‘‘ اجنبی بولا۔
’’ہاں! ٹھیک ہے۔‘‘
اور پھر وہ کمرے میں آگئے… جب سب اطمینان سے بیٹھ گئے… تب عرفان صاحب بولے:
’’یہ سب کیا چکر ہے۔‘‘
’’میں بتاتی ہوں۔‘‘
انھوں نے تفصیل سنا دی… سن کر عرفان صاحب بولے:
’’جب ہم آئے… آپ باہر نہیں گئے تھے۔‘‘
’’نہیں! میں اندر ہی رہا تھا۔‘‘
’’تب پھر بیگم کو دروازہ کیوں کھلا ملا؟‘‘
’’میں نے ہی کھولا تھا… تاکہ انھیں یقین ہوجا ئے کہ میں جاچکا ہوں… اسی لیے آپ نے پولیس سے بہت پرسکون انداز میں بات کی… کوئی گھبراہٹ ظاہر نہیں کی… اور انھیں کوئی شک نہیں گزرا… ورنہ آپ اتنے اطمینان سے ان سے بات نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
’’چلیے! یہ تو ٹھیک ہے… اب یہ بتائیں… آپ کس چیز کی تلاش میں آئے تھے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں اس کا چہرہ تن گیا… پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی:

*****

اور اس نے حرکت یہ کی تھی کہ پستول کا ایک فائر سامنے دیوار لگے فریم پر کیا تھا۔ اس کا شیشہ ٹوٹنے کی آواز گونج اٹھی۔ تاہم فائر کی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ اس کا مطلب تھا، پستول بے آواز ہے۔
’’یہ کیا کیا؟‘‘
’’مسٹر عرفان! میں نے اب تک جو کچھ کیا ہے… وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا ہے… میرا یہاں ایسے وقت میں آنا جب آپ گھر میں نہیں تھے… پھر یہاں کی تلاشی لینا… اس کے بعد چلے جانا ظاہر کرنا… تاکہ پولیس کو آپ پورے اطمینان سے بتائیں… یہاں کوئی نہیں ہے… اب پوری رات پولیس میری تلاش میں چاہے کسی گھر میں بھی کیوں نہ جائے… وہ کم ازکم یہاں نہیں آئے گی۔‘‘
’’آخر… آخر تم چاہتے کیا ہو۔‘‘
’’پہلے تو میں آپ کو اپنا نشانہ دکھا دوں… کہ کس قدر پختہ ہے۔‘‘ یہ کہ کر وہ ایک بار پھر پستول چلانے کی پوزیشن میں آگیا اور بولا۔
’’آپ دائیں طرف والی دیوار پر لگی تصویر دیکھ رہے ہیں، میں اس تصویر کی بائیں آنکھ کا نشانہ لوں گا… گولی ٹھیک آنکھ کے اندر لگے گی… ادھر اُدھر نہیں لگے گی۔‘‘
’’ایک منٹ! کیوں میرے کمرے کی دیواروں اور فریموں کا ستیاناس کر رہے ہیں… میں نے یقین کر لیا کہ آپ بہترین نشانہ باز ہیں… آپ صرف یہ بتائیں… آپ چاہتے کیا ہے۔‘‘
’’ہا… ہا… یہ بتا دوں… وہ بھی اتنی آسانی سے… نہیں ہرگز نہیں… اس میں کچھ وقت لگے گا… اور جب میں وجہ بتاؤں گا تو آپ کو پسینہ آجائے گا، اگرچہ یہ موسم پسینہ آنے کا نہیں ہے… نہ سردی ہے… نہ گرمی… گویا خوش گوار موسم ہے… اور اس وقت رات کے کتنے بجے ہیں بھلا… ہاں… وہ رہا کلاک… کلاک کہہ رہا ہے… رات کے بارہ بجے ہیں… مطلب یہ کہ دن نکلنے میں پانچ گھنٹے تو ہیں ہی… اور مجھے یہاں سے جانے کی یوں بھی جلدی نہیں ہے… جب آپ کے دفتر جانے کا وقت ہوگا… تو ہم آپ کی کار میں آپ کے ساتھ ہی گھر سے نکلیں گے… اس طرح کسی کو شک نہیں ہوگا… اور ہم راستے میں کسی جگہ اتر جائیں گے… یہ تو تھا میرے یہاں قیام کا پروگرام… اب اگر آپ لوگ اطمینان سے بیٹھ جائیں تو ہم پرسکون ماحول میں باتیں کر لیں گے۔‘‘
عرفان صاحب نے منہ سے کچھ نہ کہا… اپنی بیگم اور بچوں کی طرف دیکھ کر بولے:
’’بیٹھ جائیں… سب لوگ۔‘‘
سب بیٹھ گئے… اس کے ہاتھ میں پستول بدستور موجود تھا… اور اس کا رخ ان کی طرف تھا… اب اس نے جیب سے موبائل نکالا.. . اس پر کسی کا نمبر ڈائل کیا… پھر بولا:
’’ہاں جیمی… آجاؤ… میدان صاف ہے… ہمارے لیے یہاں کوئی خطرہ نہیں… پولیس کم ازکم آج رات یہاں نہیں آئے گی۔‘‘ یہ کہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
’’یہ… یہ تم نے کسے فون کیا ہے۔‘‘ عرفان صاحب بولے۔ ان کا رنگ اب زرد پڑ چکا تھا اور ان کی حالت دیکھ کر ان کی بیگم اور بچوں کی حالت بھی پتلی ہورہی تھی۔
ایسے میں سیاہ پوش کے موبائل کی گھنٹی بجی… اس نے سکرین پر نظر ڈالی… پھر بولا:
’’آپ اپنے بیٹے سے کہیں… دروازہ کھول دے… میرے ساتھی آئے ہیں… وہ چار ہیں۔‘‘
’’انجم بیٹے… تم جا کر دروازہ کھول آؤ۔‘‘
عرفان صاحب کا بڑا بیٹا اٹھ کر کمرے سے جانے لگا… وہ کوئی بارہ سال کا تھا…
’’ایسے نہیں… آج کے بچے بھی بہت تیز ہیں… نزدیک آؤ برخوردار… میں پہلے تمہاری تلاشی لوں گا… کیا پتا… تمہارے پاس کوئی موبائل ہو اور تم کسی کو فون کر دو۔‘‘
انجم اس کے نزدیک چلا گیا… اس کی آنکھوں میں خوف تھا… سیاہ پوش نے بائیں ہاتھ سے تلاشی لی… پھر اسے جانے دیا… جلد ہی وہ چار لمبے تڑنگے آدمیوں کے ساتھ اندر داخل ہوا… وہ بھی عام لباس میں تھے… اور صرف چہرے ڈھکے ہوئے تھے…
’’آؤ جیمی… تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس وقت تک کی مہم خیریت سے طے ہوگئی… اب اگلا قدم تمہارے آنے پر اٹھانا تھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے استاد… ہم تیار ہیں۔‘‘
’’اپنا کام شروع کرو جیمی۔‘‘ استاد کا لہجہ سرد ہوگیا۔
باس کے ساتھی عرفان صاحب اور ان کے بیوی بچوں کی طرف بڑھے۔
’’تت… تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو۔‘‘
’’صبر… مسٹر عرفان صبر۔‘‘
اس کے ساتھی جیب سے ریشم کی ڈوریاں نکال کر ان کے ہاتھ پیر باندھنے لگے… یہاں تک کہ انھوں عرفان صاحب کو بھی باندھ دیا… بیوی بچوں کے منہ بھی رومالوں سے باندھ دیے گئے… عرفان صاحب کا منہ کھلا رہنے دیا گیا…
’’لیجیے باس! بندھ گئے یہ لوگ۔‘‘
’’اچھی بات ہے… اب میں انھیں بتاتا ہوں… ہم یہاں کیوں آئے ہیں… مسٹر عرفان… آپ محکمہ داخلہ کے ایک ذمے دار آفیسر ہیں… ایک ہفتہ پہلے آپ کو وزیر داخلہ نے ایک فائل دی تھی… وہ ہے فائل ایس کے چونتیس… ہمیں وہ فائل چاہیے۔‘‘
’’کک… کیا… نن نہیں۔‘‘ عرفان صاحب کی آنکھیں مارے خوف کے پھیل گئیں۔
’’اب اگر آپ ہمیں وہ فائل دے دیتے ہیں تو آپ سب محفوظ رہیں گے… ہم آپ لوگوں کو ہلکی سی بے ہوشی کی دوا سنگھا کر یہاں سے چلے جائیں… آپ صبح تک جاگ جائیں گے… اور آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔‘‘
’’یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘ عرفان صاحب بولے۔
’’کیا مطلب… بھلا کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟‘‘
’’میں وہ فائل آپ کو کیسے دے سکتا ہوں… اس طرح تو میں ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا اور الٹا مجھ پر کیس بھی بن جائے گا۔‘‘
’’اگر آپ سیدھی طرح فائل نہیں دیں گے تو ہم الٹی طرح لیں گے… ہمیں دونوں طریقے آتے ہیں… آپ پر کیس بنے یا آپ اپنی ملازمت سے جاتے ہیں، ہمیں اس سے غرض نہیں… ہمیں تو اپنے کام سے غرض ہے… اور یہ کام ہمیں آج رات کرنا ہے… آپ کی زندگیوں کی ضمانت ہم اسی صورت میں دے سکتے ہیں… جب آپ فائل ہمیں دے دیں… ورنہ آپ زندہ نہیں بچیں گے… اور فائل آخر ہم تلاش کر ہی لیں گے۔‘‘
’’نہیں! میں وہ فائل آپ کو نہیں دوں گا۔‘‘
’’اچھی بات ہے… جیمی۔‘‘ اس کا لہجہ اداس ہوگیا۔
’’یس باس۔‘‘
’’گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکل رہا۔‘‘
’’تو انگلیاں ٹیڑھی کر لیتے ہیں۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے… کر لو پھر انگلیاں ٹیڑھی… پہلے بڑے والا بیٹا۔‘‘ اس نے سفاک لہجے میں کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ سب ایک ساتھ چلا اٹھے۔
’’ابھی مطلب سمجھ میں آجائے گا۔‘‘
’’نن… نہیں نہیں… میں آپ کو ایسا نہیں کرنے دوں گی… آپ میرے بچوں کو ایک فائل پر قربان نہیں کر سکتے۔‘‘
’’بیگم! وہ فائل میرے پاس امانت ہے… مجھے جوں کی توں وزیر خارجہ کے حوالے کرنی ہے… مجھے تو وہ صرف نظرِ ثانی کے لیے دی گئی تھی… کاش وہ ایسا نہ کرتے۔‘‘
’’لیکن اب تو ایسا ہوگیا ہے۔‘‘
’’آپ… آپ کو کس نے بتایا کہ فائل مجھے دی گئی ہے۔‘‘
’’واہ… یہ بات میں بھلا آپ کو کس طرح بتا دوں۔‘‘ سیاہ پوش ہنسا۔
’’اس لباس میں آتے ہوئے… راستے میں کسی نے آپ کو دیکھا کیوں نہیں۔‘‘ عرفان صاحب بولے۔
’’یہ لباس تو میں نے آپ کی چھت پر بدلا ہے۔‘‘
’’اوہ… تو آپ چھت کے راستے اندر آئے ہیں۔‘‘
’’ہاں! بالکل… اب دیر نہ کرو… یا فائل دو… یا اپنے بچوں کی زندگی سے ہاتھ دھو لو۔‘‘
’’نہیں نہیں۔‘‘ بیگم اور بچے چلائے۔
عرفان صاحب گھبرا گئے… انھوں نے خود کو ٹٹولا… انھوں نے محسوس کر لیا، ان میں اتنی ہمت نہیں ہے… کہ اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح ہوتے ہوئے دیکھ سکیں… آخر وہ بولے:
’’اچھی بات ہے… میرے بیٹے کو چھوڑ دو… میں فائل دے دیتا ہوں۔‘‘
’’بہت خوب! یہ ہوئی نا بات۔‘‘
’’لیکن میری ایک شرط ہے۔‘‘
’’اور وہ کیا؟‘‘
’’آپ ہمیں بے ہوش کر کے نہ جائیں… ہم آدھ گھنٹے بعد کسی کو فون کریں گے۔‘‘
’’اور اگر آپ نے آدھ گھنٹے سے پہلے کسی کو فون کر دیا… مگر نہیں ابھی تو ہم ایسے بھی نہیں جاسکتے… ہم تو دن نکلنے پر ہی جائیں گے… کیونکہ اس وقت تک پولیس کی ناکہ بندی ختم ہوچکی ہوگی… یوں بھی ہم آپ کی کار میں یہاں سے رخصت ہوں گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… بے ہوش کرنے کا پروگرام تو پھر ویسے بھی نہیں رہ جائے گا… وہ تو اس صورت میں تھا جب ہم رات کے وقت جاتے… ویسے ایک بات اور ہے… آپ دفتر والوں کو کیا بتائیں گے۔‘‘
’’جو ہوا ہے… وہ بتاؤں گا اور کیا بتاؤں گا۔‘‘ عرفان صاحب نے برا سا منہ بنایا۔
’’کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ ہم آپ سب کو باندھ کر چلے جائیں… یعنی ابھی نہیں… صبح کے وقت… آپ لوگوں کو باندھ کر آپ کی کار میں یہاں سے نکل جائیں… آپ کے گھر کے تمام دروازے چوپٹ کھلے چھوڑ جائیں گے… اس طرح پڑوسی بہت جلد آپ کے گھر کی طرف متوجہ ہوجائیں گے اور آپ کو کھول دیں گے… اس طرح آپ دفتر کے لوگوں کو بتا سکیں گے کہ آپ کو رسیوں سے باندھ کر بالکل بے بس کر دیا گیا تھا اور پھر وہ گھر سے فائل لے گئے… اس طرح محکمہ آپ کو ملازمت سے نہیں نکالے گا۔‘‘ سیاہ پوش نے جلدی جلدی کہا۔
’’نہیں! میں ایسا نہیں کروں گا… بلکہ جو ہوا ہے… وہ بتاؤں گا… محکمہ اگر مجھے ملازمت سے نہیں نکالے گا… تب بھی میں خود استعفیٰ دے دوں گا، اس لیے کہ میں اس ملازمت کے قابل نہیں… بچوں کی محبت کے مقابلے میں میں آپ کو فائل دے رہا ہوں… جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں فائل آپ کو نہ دیتا… چاہے آپ میرے سب بیوی بچوں کو میری آنکھوں کے سامنے ذبح کر دیتے… اور اس کے بعد مجھے بھی مار دیتے… یہ تھی مضبوطی… لیکن آج پتا چل گیا… مجھ میں مضبوطی نہیں ہے… میں… میں بہت کمزور ہوں۔‘‘ یہ کہ کر وہ رونے لگے۔ انھیں روتے دیکھ کر ان کے بیوی بچے بھی رونے لگے۔
سیاہ پوش اور اس کے ساتھی انھیں آنسو بہاتے دیکھتے رہے… آخر سیاہ پوش نے کہا:
’’تم لوگوں کا رونا مجھ پر اثر کر رہا ہے… لیکن میں مجبور ہوں… کاش میں مجبور نہ ہوتا اور یہ فائل لے کر نہ جانا۔‘‘
’’کیا مطلب… آپ مجبور کس طرح ہیں۔‘‘ عرفان صاحب نے چونک کر پوچھا:
’’ہم لوگ حکم کے غلام ہیں۔‘‘
’’حکم کے غلام… کیا مطلب؟‘‘ ان کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔
’’ہم کسی کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں… اگر ہم نہ ناچیں تو وہ ہمیں پھانسی پر لٹکوا دے۔‘‘
’’دیکھو… خدا کے لیے… صاف صاف بتا دو… شاید کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ فائل بھی نہ جائے… اور تم لوگ بھی صاف بچ جاؤ۔‘‘
’’بھلا ایسی کیا صورت ہوسکتی ہے… ہمارا تو بال بال جکڑا ہوا ہے… نہیں نہیں ہم اس سے بھاگ کر نہیں جاسکتے۔‘‘
’’اوہو… آخر کون ہے… کیا کرتا ہے وہ… اسے اس فائل کی کیا ضرورت آپڑی۔‘‘ عرفان صاحب چلائے۔
’’وہ… وہ۔‘‘
’’ہاں ہاں… کون ہے وہ۔‘‘
عرفا ن صاحب چلا اٹھے… ایسے میں گھر کے فون کی گھنٹی بج اٹھی:

*****

انھوں نے چونک کر فون کی طرف دیکھا:
’’کیا میں یہ فون سن لوں۔‘‘ عرفان صاحب بولے۔
’’نہیں! میں سنوں گا۔‘‘ سیاہ پوش نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر فون کا ریسیور اٹھا لیا۔
’’ہیلو چیکو! میرے خلاف تمہاری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی… اور تم بے موت مارے جاؤ گے… اس وقت تک تم نے جو کچھ یہاں کیا ہے… یا جتنی بات چیت کی ہے… وہ میں جانتا ہوں… بس تم ایک بات یاد رکھنا چیکو… میرے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی… صرف اس بات سے اندازہ لگا لو کہ میں اس وقت تم سے کافی فاصلے پر ہوں… لیکن… وہ سب جانتا ہوں… جو تم نے پروگرام بنایا ہے… لہٰذا تم میرے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے… عقل مندی اسی میں ہے کہ پروگرام کے مطابق عمل کرو… اس طرح تم اور تمہارے ساتھی اپنی زندگیوں کی بازی نہیں ہاریں گے… ورنہ تم گئے کام سے… مجھے بس یہی کہنا ہے… اب جو تمہارے جی میں آئے… کرو… یہ فائل تو میں ایسے بھی حاصل کر لوں گا… میں ابھی اور اسی وقت اپنے تین جلاد بھیج رہا ہوں… پھر نہ کہنا خبر نہیں ہوئی… ان الفاظ کے ساتھ ہی فون بند کر دیا گیا… اور ادھر سیاہ پوش کے قدم لڑکھڑا گئے… یوں لگا جیسے وہ اب گرا کہ اب گرا… اس کی ٹانگوں سے گویا جان نکل گئی تھی… باس کے جلادوں کے بارے میں وہ بہت کچھ جانتا تھا… اس نے انھیں لوگوں کی زندگیوں سے اس طرح کھیلتے دیکھا تھا جیسے بچے کھلونوں سے کھیلتے ہیں اور انھیں توڑتے پھوڑتے ہیں۔‘‘
’’کیا… کیا ہوا استاد۔‘‘
’’بب… باس… باس۔‘‘
’’کیا کہا باس نے۔‘‘
’’ہم نے یہاں جتنی بات چیت کی ہے… یا جو کچھ بھی کیا ہے… اسے سب معلوم ہے… اور اس نے کہا ہے… اگر ہم نے فائل اصل نہ دی تو وہ ہماری طرف اپنے تین جلادوں کو بھیج رہا ہے۔‘‘
’’کیا!!!‘‘ وہ مارے خوف کے چلائے۔
ان کے رنگ بالکل سفید پڑ گئے… یوں لگا جیسے ان کے جسموں میں خون بالکل نہ رہ گیا ہو…
’’اگر آپ ہمارا ساتھ دینے پر تیار ہوں تو ہم پولیس کو بلا لیتے ہیں… پھر وہ آپ کا باس کیا کرے گا۔‘‘
’’آپ نہیں جانتے… اس کے ہاتھ واقعی بہت لمبے ہیں۔‘‘ سیاہ پوش نے لرزتی آواز میں کہا۔
’’آپ بلاوجہ ڈر رہے ہیں… اچھا یوں کرتے ہیں… ہم انسپکٹر جمشید کو بلا لیتے ہیں۔‘‘
’’اوہ ہاں! یہ ایک راستہ ہے… لیکن۔‘‘ سیاہ پوش نے انکار میں سر ہلایا۔
’’لیکن کیا؟‘‘
’’ہم تو پھر بھی مارے جائیں گے… اس نے ہمارے خلاف جو ثبوت جمع کر رکھے ہیں… وہ تمام ثبوت پولیس کو بھیج دے گا۔‘‘
’’تم لوگوں کو قانون سے معافی دلوانا میرے ذمے رہا… کیونکہ… یہ فائل اس قدر قیمتی ہے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی… اور اس فائل کا کسی غیر مسلم ملک کے ہاتھ لگنا ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا… اس میں ملک کے کچھ ایسے ہی خفیہ معاملات ہیں۔‘‘
’’کک… کیا آپ واقعی وعدہ کرتے ہیں اور آپ کو پوری امید ہے… آپ ہمیں بچا لیں گے۔‘‘
’’بالکل… جب میں کہ رہا ہوں… تو یہ میری ذمے داری ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… لیکن ہم نے اب تک جتنی باتیں کی ہیں… وہ سب سن چکا ہے اور اب تک اپنے جلادوں کو روانہ کر چکا ہوگا۔‘‘
’’کوٹھی کے تمام دروازے بند ہیں۔‘‘
’’وہ تو اس وقت بھی بند تھے… جب میں آیا تھا… میں بھی تو اندر آگیا تھا۔‘‘ سیاہ پوش بولا۔
’’اوہ ہاں… تب پھر؟‘‘
’’میں چھت پر جاتا ہوں… پائپ کے ذریعے کوئی اوپر آیا تو میں اسے آسانی سے نشانہ بنا سکوں گا… صدر دروازے کی طرف سے تو وہ اندر آنہیں سکیں گے… اور آپ فون کریں انسپکٹر جمشید کو… جیمی… ہوشیار ہوجاؤ… اب ہمیں اس گھر کے لوگوں کو بچانا ہے… اور باس کے جلادوں سے بھی خود کو بچانا ہے… ہوسکتا ہے، ہم اس مصیبت بھری زندگی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے استاد… آپ فکر نہ کریں… جو پروگرام آپ کا… وہ ہمارا۔‘‘
سیاہ پوش نے زینے کی طرف دوڑ لگا دی… اس کے ساتھی یہ کہتے ہوئے صدر دروازے کی طرف چلے گئے:
’’ہم ہر طرف دھیان رکھیں گے… لیکن آپ انسپکٹر جمشید سے کہیں وہ جلدازجلد آجائیں۔‘‘
’’فکر نہ کرو۔‘‘
یہ کہ کر عرفان صاحب نے فون پر نمبر ڈائل کیے… دوسری طرف گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دی… اور پھر کسی کی نیند بھری آواز سنائی دی:
’’کیا بات ہے… آپ رات کو سوتے نہیں۔‘‘
’’سنیے… میں عرفان احمد بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’یہ اچھی بات ہے کہ آپ عرفان احمد بات کر رہے ہیں… لیکن میں نے آپ سے پوچھا، کیا آپ رات کو سوتے نہیں۔‘‘ دوسری طرف سے ناخوش گوار لہجے میں کہا گیا۔
’’سنیے! ہم لوگ شدید خطرے میں ہیں… اس سے بڑا خطرہ اس فائل کے لیے ہے… وہ دشمن ملک کے لوگ ہم سے چھین لے جانا چاہتے ہیں… انسپکٹر جمشید مجھے اچھی طرح جانتے ہیں… آپ بس انھیں اتنا بتا دیں… عرفان احمد محکمہ خارجہ سے بات کر رہے تھے… پھر دیکھیے گا… وہ کس طرح دوڑ پڑے ہیں۔‘‘
’’یہ تو ہم اس وقت دیکھیں گے… جب وہ گھر میں ہوں… لیکن پہلے آپ اپنا پتا بتائیں… تاکہ ہم انھیں اطلاع دے سکیں۔‘‘
’’9 باشوری روڈ اور اب خدا کے لیے کچھ اور نہ پوچھیں… یوں سمجھیں کہ موت کے ہرکارے ہم تک پہنچنے ہی والے ہیں۔‘‘
’’ہم پہنچ رہے ہیں… جاشوری روڈ ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے… آپ نے کیا نام بتایا… عرفان احمد۔‘‘
’’جی ہاں! جلدی کریں۔‘‘ یہ کہ کر عرفان احمد نے فون بند کر دیا… عین اسی وقت دروازے کی گھنٹی زور دار آواز میں بجی:

*****

’’اٹھو بھئی… کیا گھوڑے بیچ کر سوئے تھے… خطرہ… سر پر ہے… اور ہمیں کچھ فاصلہ طے کرنا ہے۔‘‘ محمود نے ان دونوں کو زور سے ہلاتے ہوئے کہا:
’’کیا طے کرنا ہے۔‘‘ فاروق نے گہری نیند کے عالم میں کہا۔
’’فاصلہ… 9 جاشوری روڈ عرفان احمد محکمہ داخلہ… اس وقت شدید خطرے میں ہیں۔‘‘
’’کک… کیا۔‘‘ فرزانہ بری طرح اچھلی اور پھر بستر سے اترتے ہی باہر کی طرف بھاگی۔
’’ہائیں! اسے کیا ہوا… یہ تو اس طرح بھاگ پڑی ہے… جیسے اسے چابی لگ گئی ہو۔‘‘
’’ابا جان نے ایک بار بتایا تھا… عرفان احمد ایک اہم آدمی ہیں۔‘‘ فرزانہ چلائی۔ وہ اب تک کافی آگے جاچکی تھی۔
جلد ہی وہ اپنی کار میں بیٹھے اڑے جارہے تھے۔
’’کیا کہا تھا انھوں نے فون پر۔‘‘
’’یہ کہ ہم لوگوں پر موت جھپٹنے والی ہے… جلد پہنچیں… انھوں نے تو دراصل یہ پیغام ابا جان کو دیا ہے… میں نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ ابا جان نہیں ہیں اور نہ وہ صبح سے پہلے شہر میں پہنچ سکتے ہیں… وہ شہر سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ اسی وقت بھی روانہ ہوں… اور تیز ترین ڈرائیونگ کر کے سفر طے کریں، تب بھی صبح سویرے پہنچیں گے… اور ابھی رات کا ایک بجا ہے… لہٰذا ہمیں ہی جانا ہوگا۔‘‘
’’تو ہم انکل اکرام کو کیوں نہ لے چلیں۔‘‘
’’پتا نہیں! وہاں کیاصورتِ حال ہے… پہلے عرفان صاحب سے پوچھ لیں… اگر وہ کہیں گے تو ضرور بلا لیں گے۔‘‘
’’تو فون پر ہی کیوں نہ پوچھ لیا جائے۔‘‘ فرزانہ نے جلدی سے کہا۔
’’یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
محمود نے عرفان احمد کے وہی نمبر ڈائل کیے جن سے انھوں نے بات کی تھی اور ان کی آواز سن کر بولا:
’’عرفان صاحب! یہ فون ہم مشورہ لینے کے لیے کر رہے ہیں۔‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں… دشمن دروازے پر دستک دے چکا ہے… اور آپ ابھی مشورہ کر رہے ہیں۔‘‘ عرفان احمد نے جھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
’’ہم یہ مشورہ گھر سے نہیں کر رہے ہیں… بلکہ گھر سے نکل چکے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ آپ سے نزدیک ہوتے جارہے ہیں۔‘‘
’’کیا فائدہ… دشمن کسی بھی لمحے اندر داخل ہونے والا ہے۔‘‘
’’اوہ… تو آپ اندرونی دروازے بند کر لیں… آخر دشمن کو دروازے توڑنے یا کھولنے میں کچھ تو وقت لگے گا۔‘‘
’’دروازے بند ہیں۔‘‘
’’بس آپ فکر نہ کریں۔‘‘
’’میں فکر بھی نہ کروں… کمال ہے… دروازے پر موت کی دستک ہورہی ہے۔‘‘
’’مم… موت کی دستک۔‘‘ محمود کانپ گیا۔
’’مم… موت کی دستک… یہ… یہ تو۔‘‘ فاروق کہتے کہتے رک گیا۔
’’فاروق خدا کے لیے۔‘‘ فرزانہ نے گھبرا کر کہا۔
’’لیجیے! ہم آپ کی کوٹھی کے نزدیک پہنچ گئے… اور دشمن ابھی اندر داخل نہیں ہوا… یہی بات ہے نا۔‘‘
’’لیکن صرف آپ کیوں بات کر رہے ہیں… انسپکٹر جمشید کیوں بات نہیں کر رہے۔‘‘
’’آپ کے پاس پہنچ کر وجہ بتائیں گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… اللہ مالک ہے… ہوگا تو وہی جو اللہ کو منظور ہوگا۔‘‘
انھوں نے دور سے ہی دیکھ لیا… عرفان احمد کے دروازے پر چار آدمی کھڑے تھے… اور ان میں سے ایک کی انگلی دروازے کی گھنٹی پر تھی…
’’اس طرف سے نہیں محمود… کوٹھی کے پچھلی طرف۔‘‘ فرزانہ نے جلدی سے کہا۔
محمود نے سر ہلایا… کیونکہ اب وہ صدر دروازے کی طرف سے نہیں جاسکتے تھے… چکرکاٹ کر محمود کوٹھی کے پیچھے آگیا… وہ جلدی سے نیچے اتر آئے… فاروق نے آؤ دیکھا نہ تاؤ… پائپ پر چڑھتا چلا گیا… جلد ہی وہ چھت پر نظر آیا…
’’خبردار! ہاتھ اوپر اٹھا دو۔‘‘ چھت پر موجود سیاہ پوش نے کہا۔
محمود کے ہاتھ اوپر اٹھ گئے:
’’یہ کیا… تم تو ایک لڑکے ہو۔‘‘
’’اور تمہیں اس طرف سے کس کے آنے کی امید تھی۔‘‘ فاروق نے برا سا منہ بنایا۔
’’تت… تو کیا آپ انسپکٹر جمشید کے بیٹے ہیں۔‘‘
’’ہاں! الحمدللہ۔‘‘
’’اوہ تب تو یہ خوشی کی بات ہے… عرفان احمد اور ہم سب خطرے میں ہیں… انسپکٹر صاحب کہاں ہیں۔‘‘
’’ایک منٹ ٹھہریں… میں بتاتا ہوں… لیکن آپ سیاہ لباس میں کیوں ہیں۔‘‘
’’یہ اس تفصیل کا وقت نہیں۔‘‘
’’میں اپنے ساتھیوں کو بلا لوں۔‘‘
اب اس نے نیچے جھانکا اور بری طرح چونکا۔ اسے اپنی سٹی گم ہوتی محسوس ہوئی:

*****

محمود اور فرزانہ کے سامنے چار نقاب پوش کھڑے تھے… ان کے ہاتھوں میں پستول تھے اور ان دونوں کے ہاتھ اوپر اٹھے ہوئے تھے… پھر وہ صدر دروازے کی طرف قدم اٹھانے لگے… وہ انھیں جاتے ہوئے دیکھتا رہ گیا… کچھ بھی نہ کر سکا… ایسے میں سیاہ پوش کی دبی آواز سنائی دی:
’’کیا دیکھنے لگ گئے… بلاتے کیوں نہیں اپنے ساتھیوں کو۔‘‘
’’بلانے کا وقت گزر گیا۔‘‘ اس نے سرد آہ بھری۔
’’کیا مطلب… وقت گزر گیا۔‘‘
’’ہاں! اور آپ جانتے ہی ہوں گے، گزرا ہوا وقت لوٹ کر نہیں آتا۔‘‘
’’آپ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے… میں نے تو آپ لوگوں کی بہت تعریفیں سنی ہیں۔‘‘
’’تمام تعریفیں اس ایک اللہ کے لیے ہیں… جو سارے جہانوں کا بنانے والا ہے۔‘‘
’’اپنے ساتھیوں کو کیوں نہیں بلا رہے۔‘‘
’’کہاتو ہے… اب میں انھیں نہیں بلا سکتا… انھیں چار نقاب پوش صدر دروازے کی طرف لے گئے ہیں۔‘‘
’’کیا!!!‘‘ مارے خوف کے اس کے منہ سے نکلا۔ پھر وہ بولا:
’’اس کا مطلب ہے… باس آگیا۔‘‘
’’اب مجھے کیا پتا… آپ کا باس کون ہے… اور وہ آگیا ہے یا نہیں۔‘‘
’’میں آپ کو پوری صورتِ حال سناتا ہوں… پھر آپ جو مناسب سمجھیں کریں۔‘‘
’’پہلے زینے کا دروازہ بند کر لیں… ورنہ وہ نقاب پوش اس طرف بھی آنے ہی والے ہوں گے۔‘‘
’’اوہ ہاں۔‘‘ اس نے چونک کر کہا اور دروازہ بند کر دیا۔
’’اب ذرا جلدی جلدی بتائیں… کیونکہ وقت بہت نازک ہے… نہ جانے نیچے کیا صورتِ حال ہو۔‘‘
’’میں بتاتا ہوں۔‘‘
اس نے رکے بغیر تفصیل سنا دی… فاروق نے اس کے خاموش ہوتے ہی آئی جی صاحب کے نمبر ملائے… یہاں موبائل بند ملا… اب اس نے اپنے والد کے نمبر ڈائل کیے… ان کا موبائل بھی بند تھا… اکرام کو فون کرنا اس نے اس وقت مناسب نہ جانا… لیکن پھر خیال آیا… کم ازکم اسے خبردار تو کر ہی دے، چنانچہ اکرام کے نمبر ملائے… اور صورتِ حال اسے بتا دی…
’’میں اپنے ماتحتوں کو لے کر آرہا ہوں۔‘‘
’’لیکن انکل… ابھی آپ دخل اندازی نہ کیجیے گا… پہلے ہم دیکھتے ہیں… نیچے کیا صورتِ حال ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’اور ابھی۔‘‘
فاروق کے الفاظ درمیان میں رہ گئے… اسی وقت زینے کے دروازے پر زور دار انداز میں چوٹ ماری گئی تھی… ساتھ ہی کسی نے غرا کر کہا:
’’دروازہ کھول دو… نیچے تمہارے سب ساتھی ہمارے قبضے میں ہیں… یقین نہیں تو صحن سے نیچے جھانک کر دیکھ لو… اور اگر تم نے دروازہ نہ کھولا تو انھیں گولیوں کا نشانہ بنا دیا جائے گا۔‘‘
’’کن کی بات کر رہے ہو۔‘‘ فاروق نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
’’جو نیچے ہمارے نشانے پر ہیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے… پہلے میں نیچے دیکھ لوں جھانک کر۔‘‘
’’ہاں ہاں… شوق سے۔‘‘
اب اس نے نیچے دیکھا… سب لوگ واقعی زد پر نظر آئے… نہ جانے ان لوگوں نے بند دروازے کس طرح کھول لیے تھے… آخر وہ گرل سے ہٹ آیا اور بولا:
’’میں نے دیکھ لیا ہے… اور دروازہ کھول رہا ہوں۔‘‘
’’اگر کوئی شرارت کی تو نیچے والے تو جان سے جائیں گے ہی… تم بھی ہاتھ دھو لو گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… دروازہ کھول دو بھئی… اب ان کے ساتھ نیچے جانا ہی پڑے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے موبائل بند کر دیا… اکرام نے ساری بات سن ہی لی تھی…
ادھر دروازہ کھلا اور دو نقاب پوش کھڑے نظر آئے:
’’ہاتھ اوپر اٹھا کر نیچے کا رخ کرو۔‘‘ غرا کر کہا گیا۔
’’اچھا بھائی… اچھا… ناراض تو نہ ہوں نا۔‘‘ فاروق نے کہا اور آگے بڑھا… اس نے جائزہ لیا… اس وقت کوئی حرکت کرنا کسی صورت مناسب نہیں تھا… آخر دونوں سیڑھیاں اترنے لگے… نقاب پوش ان کے پیچھے چلے آرہے تھے… اس طرح وہ صحن میں پہنچ گئے… محمود اور فرزانہ دوسروں کے ساتھ ہاتھ اوپر کیے کھڑے نظر آئے… اب یہ دونوں بھی ان کے ساتھ جاکھڑے ہوئے… انھوں نے دیکھا… بعد میں آنے والے کل چھ تھے… ان سب کے ہاتھوں میں خطرناک اسلحہ تھا… ان سب کے چہرے نقابوں میں تھے… جونہی وہ نیچے آئے، ان میں سے ایک بولا:’’ بے وقوف استاد… تم نے باس کو کیا سمجھا تھا… یہ ہمیں کہیں بھی بھیج دے… ہم سب ان کی نظروں میں رہتے ہیں… وہ ہماری تمام بات چیت سن رہا ہوتا ہے… تمہیں یہاں بھیجا گیا تھا… فائل ایس کے 43 کے لیے… اور تم ان لوگوں سے مل بیٹھے… اب باس تمہیں بتائے گا… غداری کا انجام کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’نن… نہیں۔‘‘ استاد نے لرز کر کہا۔
’’نن نہیں۔‘‘ فاروق بھی اس کے انداز میں بولا۔
’’یہ کیا… تم نے نن نہیں کیوں کہا۔‘‘ محمود نے اسے گھورا۔
’’اوہ سوری… ہا… ہاں… ہاں آ۔‘‘ وہ بولا۔
’’یہ کیا بات ہے۔‘‘ محمود جھلا اٹھا۔
’’تمہی نے تو کہا ہے… تم نے نن… نہیں کیوں کہا۔‘‘
’’دماغ نہ چاٹو۔‘‘ محمود نے برا سا منہ بنایا۔
’’تم ذرا اپنی زبانیں بند رکھو… ہمیں اپنا کام کرنے دو… ہمارے پاس وقت بہت کم ہے… کیونکہ ہم جانتے ہیں… ابھی خفیہ پولیس اس پورے علاقے کو گھیرے میں لینے والی ہے… تم سب انسپکٹر اکرام کو فون کر چکے تھے۔‘‘
’’پتا چل گیا… تم سب کچھ جانتے ہو۔‘‘ فاروق بولا۔
’’ہاں تو مسٹر عرفان… آپ پہلی فرصت میں وہ فائل نکال لائیں… ورنہ آپ کے بیوی بچے ابھی خون میں تڑپتے نظر آئیں گے… جلدی کریں… ہم انتظار نہیں کر سکتے۔‘‘
عرفان صاحب نے ان سب پر نظر ڈالی… سب کے چہروں پر بے بسی نظر آئی… آخر انھوں نے کہا:
’’تت… تو کیا میں فائل انھیں دے دوں۔‘‘
ان میں سے کسی نے کچھ نہ کہا… کہتے بھی کیا… آخر عرفان صاحب اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے…
’’ککو… تم ان کے ساتھ جاؤ… کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کریں تو گولی مار دینا… فائل ہم خود تلاش کر لیں گے۔‘‘
’’اوکے باس… بہت دن ہوگئے… کسی کو گولی نہیں ماری… بہت جی چاہ رہا ہے۔‘‘
’’اگر فائل نہ دیں تو پھر تم اپنی خواہش پوری کر لینا… اجازت ہے۔‘‘ اس کا لہجہ سفاک تھا۔
’’شکریہ باس۔‘‘ ککو نے دانت نکال دیے اور عرفان صاحب کے پیچھے چلا گیا۔
’’تویہ ہیں… انسپکٹر جمشید کے بچے… وہ خود نظر نہیں آرہے… بڑی خواہش تھی کہیں ان سے دو دو ہاتھ ہوتے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے باس ہنسا۔
محمود، فاروق اور فرزانہ کچھ نہ بولے… وہ صورتِ حال پر غور کر رہے تھے…
’’اور یہ ہیں ہمارے مہربان استاد چیکو… آج انھوں نے ہم سے وفاداری ختم کردی اور قانون کی مدد کرنے پر تل گئے… ان بے چاروں کو کیا معلوم تھا کہ میرے ہاتھ قانون کے ہاتھوں سے زیادہ لمبے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے، وہ پھر ہنسا۔
’’اور چیکو… تمہیں تو غداری کا انعام نقد ہی دے کر جارہا ہوں… باقی رہ گئے یہ لوگ… ان کے بڑے چونکہ ساتھ نہیں… اور لوگ کہیں گے… بچوں کو مار کر چل دیا… لہٰذا میں انھیں چھوڑے جارہا ہوں… بس فائل لے جارہا ہوں… اصل مسئلہ فائل کا ہے… ایک بار میں فائل یہاں سے لے جاؤں… پھر ان لوگوں سے نبٹوں گا۔‘‘
ایسے میں کمرے سے عرفان صاحب اور ککو واپس آتے نظر آئے… ککو کے ہاتھ میں فائل تھی… اور اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ بھی تھی:
’’تو فائل مل گئی۔‘‘
’’ہاں باس… مبارک ہو۔‘‘
’’نہیں بھئی… ابھی مجھے مبارک باد نہ دو، ابھی منزل دور ہے… اس فائل کو آگے پہنچانا بھی ہمارے ذمے ہے… ویسے ہمارے وارے نیارے ہونے والے ہیں، یہ کام اتنا چھوٹا نہیں… بلکہ ہماری امیدوں سے بھی بڑا ہے۔‘‘
’’آگے کہاں۔‘‘ محمود بول اٹھا۔
اس نے چونک کر محمود کی طرف دیکھا… پھر ہنس کر بولا:
’’بہت خوب… تو تمہیں بتا دوں… فائل کہاں بھیجی جارہی ہے… خوب خوب۔‘‘
’’نہ بتائیں… ہم خود معلوم کر لیں گے۔‘‘
’’لاؤ بھئی ککو… فائل دکھاؤ… کہیں ہمارے مہربان نے غلط فائل نہ تمہیں تھما دی ہو۔‘‘
ککو نے فائل باس کی طرف بڑھا دی… اس نے فائل کے باہر والے حصے کو غور سے دیکھا… پھر فائل کو کھول کر اس کے صفحات کو بھی غور سے دیکھا… پھر بولا:
’’فائل اصلی ہے… ہم کامیاب رہے… اب رہ گیا بے چارہ استاد اور اس کے تین ساتھی… انھیں ان کی غداری کی سزا دیتے ہیں اور پھر چلتے ہیں… ہاں تو ہم چاروں ایک ساتھ ان چاروں پر فائر کریں گے… نشانہ خطا نہ جائے… سمجھ گئے۔‘‘
’’جی بالکل۔‘‘ انھوں نے ایک ساتھ کہا۔
اور پھر استاد چیکو اور اس کے تینوں ساتھیوں کی طرف ان کے پستول تن گئے… ایسے میں چیکو نے کہا:
’’ایک منٹ باس! میں ذرا عرفان صاحب سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہاں ضرور… کیوں نہیں۔‘‘
’’آپ دیکھ رہے ہیں مسٹر عرفان… ہم آپ کا ساتھ دینے کی وجہ سے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں! یہی بات ہے۔‘‘ عرفان صاحب کھوئے کھوئے انداز میں بولے۔
’’آپ تو پھر ہمارے کچھ بھی کام نہیں آسکے۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم تھا… یہ باس صاحب یہاں اتنی جلدی پہنچ جائیں گے اور انسپکٹر جمشید نہیں پہنچیں گے… مجھے اس بات کا صدمہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘
’’لیکن کیا فائدہ آپ کے صدمے کا ہمیں۔‘‘ عرفان نے اٹک اٹک کر کہا۔
ایسے میں اوپر چھت سے ایک آواز سنائی دی۔ ان سب نے چونک کر اوپر دیکھا۔ اوپر سے کہا گیا تھا:
’’خبردار! تم سب میری زد پر ہو اور میں تمہاری زد پر نہیں ہوں۔‘‘

***** 

اوپر انھیں کچھ نظر نہ آیا… چند لمحے خاموشی کے عالم میں گزر گئے… پھر باس کی آواز اُبھری:
’’کون ہو تم… ہمیں تو اوپر کوئی نظر نہیں آرہا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے… اب مجھے اپنے اوپر موجود ہونے کا ثبوت دینا پڑے گا اور اس بات کا بھی کہ تم سب میری زد پر ہو… تو پھر یہ لو… تم میں سے ایک کے کندھے کا نشانہ لے رہا ہوں۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ ہی ایک بے آواز فائر ہوا اور ساتھ ہی استاد کے ایک ساتھی کے منہ سے بھیانک چیخ نکل گئی… وہ اپنا بایاں کندھا پکڑ کر بیٹھتا چلا گیا… فوراً ہی انھوں نے ا س کا ہاتھ خون سے سرخ ہوتے دیکھا:
’’یقین آگیا۔‘‘ اوپر سے ہنس کر کہا گیا۔
’’ہاں آگیا… کیا چاہتے ہو۔‘‘
’’وہی… جو تم چاہتے ہو… اپنے ایک ساتھی کے ہاتھ یہ فائل اوپر بھیج دو… ورنہ تم میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچے گا اور ہاں… ذرا ہاتھ بھی اٹھا دو۔‘‘
ان کے ہاتھ اٹھ گئے… لیکن محمود، فاروق اور فرزانہ نے ہاتھ نہ اٹھائے… نہ استاد اور اس کے ساتھیوں نے اٹھائے…
’’اور تم لوگوں نے کس خوشی میں ہاتھ نہیں اٹھائے بھلا۔‘‘
’’کیا مطلب… کیا آپ ہمارے ساتھی نہیں ہیں۔‘‘ محمود نے چونک کر کہا… کیونکہ وہ اب تک یہی سمجھتے رہے تھے… کہ ان کے لیے مدد آگئی… اور یہ کوئی سرکاری اہل کار ہے… لیکن اب انھیں معلوم ہوا کہ یہ ان کی خوش فہمی تھی… اب تو انھوں نے بھی ہاتھ اٹھا دیے… ساتھ میں وہ فکر مند بھی ہوگئے کہ فائل تو ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہے… کیونکہ وہ جو کوئی بھی تھا… چھت پر ایسی جگہ تھا کہ وہ نیچے سے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے…
’’تم نے اب تک فائل اوپر نہیں بھیجی۔‘‘ سرد آواز آئی۔
’’جاؤ ککو… فائل اوپر دے آؤ۔‘‘ باس نے مری مری آواز میں کہا۔
ککو نے فائل باس کے ہاتھ سے لے لی… اور زینے کی طرف بڑھا:
’’مسٹر باس! یہ سن لو… اگر ککو نے سیڑھیوں میں کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو تم نہیں بچو گے… اور بعد میں ککو سے بھی نبٹ لوں گا۔‘‘
’’سن لیا ککو… تم کوئی گڑبڑ نہیں کرو گے۔‘‘
’’بہت بہتر باس۔‘‘
اب ککو لگا سیڑھیاں چڑھنے… ان سب کے دل دھک دھک کرنے لگے… فائل نہ صرف ان کے ہاتھ سے بلکہ استاد کے ہاتھ سے بھی نکلی جارہی تھی… اور اس وقت عرفان صاحب کا چہرہ بالکل سفید پڑ چکا تھا… وہ اس وقت زمین و آسمان گھومتے محسوس کر رہے تھے… آخر اوپر سے آواز آئی:
’’شاباش ککو… تم بہت سمجھ دار ہو… تم نے کوئی گڑبڑ نہ کر کے خود کو اور ان سب کو بچا لیا… اب اچھے بچوں کی طرح نیچے جاؤ۔‘‘
جلد ہی انھوں نے ککو کو واپس آتے دیکھا… اور پھر وہ بھی سب کے ساتھ صحن میں نظر آیا:
’’سنو مسٹر باس… اور انسپکٹر جمشید کے بچو اور عرفان صاحب… میں یہ فائل لے جارہا ہوں اور نہایت آسانی سے لے جارہا ہوں… مجھ سے حاصل کر سکتے ہو تو کر لو۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ ہی اوپر سے کوئی چیز نیچے گری… اور ایک دھماکے سے پھٹی…
محمود، فاروق اور فرزانہ نے فوراً سانس روک لیے… اس چیز کے پھٹتے ہی صحن میں دھواں پھر گیا… محمود نے فوراً بیرونی دروازے کی طرف چھلانگ لگائی… یہی فاروق اور فرزانہ نے کیا… انھوں نے بیرونی دروازہ کھولنا چاہا… لیکن دروازہ باہر سے بند کر دیا گیا تھا… وہ چکرا کر رہ گئے… فائل لے جانے والا انھیں پوری طرح بے بس کر کے گیا تھا… اور فائل بھی لے گیا تھا…
’’افسوس! اب کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ فرزانہ بولی… ساتھ ہی اسے زور دار کھانسی آئی… کیونکہ گیس کا اثر دروازے تک بھی آگیا تھا…
وہاں سے انھوں نے کوٹھی کے باغ کی طرف دوڑ لگا دی… ساتھ ہی محمود نے اکرام کا نمبر ڈائل کیا… فوراً ہی اس کی آواز سنائی دی…
’’انکل! کوئی تیسرا فائل لے کر نکل رہا ہے… ابھی وہ عرفان صاحب کی کوٹھی سے زیادہ فاصلے پر نہیں پہنچا ہوگا… کوٹھی میں اس نے دھوئیں کا بم مارا ہے… اور اب ہم بھی بے ہوش ہوجائیں گے… اگر ہوا کا رخ باغ کی طرف ہوا تو۔‘‘
’’میں دیکھتا ہوں… ادھر بھی کسی کو بھیجتا ہوں… انتظار کرو۔‘‘
اکرام نے فون بند کر دیا… اسی وقت انھوں نے دیکھا… دھوئیں کا رخ دوسری سمت میں تھا… گویا ان کے بے ہوش ہونے کا خطرہ ٹل گیا تھا… پھر اکرام کے ماتحتوں نے آکر باہر سے دروازہ کھول دیا… وہ نامعلوم شخص باہر تالا لگا گیا تھا…
’’آپ نے تالا کیسے کھولا؟‘‘ محمود نے گھبرا کر کہا۔
’’فکر نہ کریں… پہلے انگلیوں کے نشانات اٹھائے ہیں… پھر کھولا ہے۔‘‘ ماتحت مسکرا کر بولا۔
’’بہت خوب! یہ ہوئی نا بات۔‘‘
آدھ گھنٹے بعد اکرام وہاں پہنچ گیا… اس کے چہرے پر ناکامی لکھی تھی… اس وقت دھوئیں سے بے ہوش ہونے والوں کو ہسپتال پہنچایا جاچکا تھا… اور فائل کے سلسلے میں حملہ آور ہونے والوں کے گرد اس وقت خفیہ پولیس موجود تھی…
ایسے میں انسپکٹر جمشید کی گاڑی وہاں آکر رکی…
’’جلدی سے تفصیل سنا دو… مجھے بہت ضروری سرکاری کام چھوڑ کر آنا پڑا ہے… لیکن اس فائل کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔‘‘
محمود نے پوری تفصیل سنا دی… ا س کے خاموش ہوتے ہی وہ بولے:
’’غلطی ہوگئی محمود۔‘‘
’’جی کیا مطلب… کس سے غلطی ہوگئی؟‘‘
’’تم سے اور کس سے… جونہی اکرام کے ماتحت پہنچے… تمہیں چھت پر جانا چاہیے تھا۔‘‘
’’اس سے کیا ہوجاتا… کیا آپ کے خیال میں وہ ہمیں بھاگتا نظر آجاتا۔‘‘
’’نہیں… وہ فوری طور پر یہاں سے فرار نہیں ہوا ہوگا… پس آس پاس کسی گھر میں چھپا رہا ہوگا… اور اسی گھر کے ذریعے وہ عرفان صاحب کی چھت پر پہنچا ہوگا اور جانتے ہو، اس کا کیا مطلب ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرا دیے۔
’’جی… مطلب… کس بات کا مطلب۔‘‘ فاروق نے حیران ہو کر کہا۔
’’اس بات کا کہ وہ آس پاس کے کسی گھر کی چھت سے ہوتا ہوا عرفان صاحب کی چھت پر پہنچا ہوگا۔‘‘
’’اس بات کا مطلب بس یہی ہے… جو آپ نے بتایا۔‘‘ فاروق گڑبڑا گیا۔
’’اچھا آؤ… میں تمہیں مطلب بتاتا ہوں۔‘‘
’’جی… مطلب بتانے کے لیے کہیں جانے کی کیا ضرورت؟‘‘ محمود کے منہ سے نکلا۔
’’یار آؤ۔‘‘ وہ جھلا اٹھے۔
اور پھر وہ انھیں چھت پر لے آئے… پہلے تو انھوں نے چھت کا جائزہ لیا… چھت پر کوئی چیز نظر نہ آئی… انھوں نے دائیں بائیں اور پچھلی سمت کا جائزہ لیا… دائیں طرف چھتوں کی قطار نظر آئی اور بائیں طرف بھی… البتہ پچھلی طرف ایک کھلا میدان تھا…
’’دائیں طرف بھی چھتوں کی قطار ہے اور بائیں طرف بھی… دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس گھر سے نکل کر فرار ہوا ہے… ہمیں ایک ایک کا جائزہ لینا ہوگا… آؤ پہلے دائیں طرف سے شروع کرتے ہیں… کیونکہ دائیں طرف کی تمام عمارتیں سڑک تک جاتی ہیں… جب کہ بائیں طرف والی عمارتوں کے دوسری طرف سڑک نہیں ہے… اس کا مطلب ہے… اس نے فرار ہونے کے لیے یہ سمت اختیار کی ہوگی۔‘‘
’’بسم اللہ کریں پھر۔‘‘
وہ دائیں طرف والی پہلی چھت پر اتر گئے… یہ چھت عرفان صاحب کی چھت سے نیچی تھی… اس لیے ان کے لیے اتر جانا آسان تھا… انھوں نے چھت کا جائزہ لیا اور آگے بڑھے…
’’ظاہر ہے… وہ اتنے نزدیک والے گھر میں تو چھپ نہیں سکتا تھا۔‘‘
وہ اس چھت سے آگے بڑھے… اب ان کے سامنے ایک اونچی چھت تھی…
’’بھلا یہاں سے وہ کس طرح دوسری طرف گیا ہوگا۔‘‘ فرزانہ بڑبڑائی۔
’’ہوسکتا ہے… ا س کا کوئی ساتھی اس کے ساتھ ہو… وہ اس کے کندھے پر کھڑا ہو کر اس دیوار تک پہنچ سکتا تھا… اور پھر اپنے ساتھی کو کھینچ سکتا تھا… ہم عملی طور پر ایسا کر کے دیکھ لیتے ہیں… اکرام… تم میرے کندھے پر کھڑے ہو کر دیوار پر چڑھ جاؤ۔‘‘
’’سس… سر۔‘‘ وہ گھبرا گیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’سر! میں اور آپ کے کندھے پر چڑھوں… آپ میرے کندھے پر چڑھ جائیں۔‘‘
’’کوئی فرق نہیں پڑتا… اس وقت ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔‘‘
آخر اکرام ان کے کندھے پر چڑھ گیا… اس طرح ا س کے ہاتھ دیوار پر پہنچ گئے… دیوار پر پہنچ کر وہ نیچے جھکا اور اس نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا… ا س طرح وہ بھی دیوار پر پہنچ گئے…
’’تم یہیں ٹھہرو… پہلے ہم دیکھ لیں کہ یہ سلسلہ کہاں تک چلتا ہے… پھر جہاں سلسلہ رکے گا… تمہیں اس گھر کے دروازے پر بلا لیں گے… ا س طرح سب کے سب کا چھتیں پھلانگنا برا لگتا ہے۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘
دس منٹ بعد انھوں نے موبائل پر ہدایت دی:
’’نیچے اتر کر سڑک کے کنارے والی کوٹھی تک آجاؤ… حیرت انگیز چیزیں ملی ہیں۔‘‘
’’اوہ اچھا۔‘‘
وہ فوراً نیچے اتر آئے اور تیز چلتے آخری کوٹھی تک پہنچ گئے… اکرام دروازے پر ان کا انتظار کر رہا تھا… انھیں دیکھ کر وہ اشارہ کرتے ہوئے اندر داخل ہوگیا… انسپکٹر جمشید ایک موٹے تازے شخص کے ساتھ کھڑے تھے… اس کی آنکھوں میں الجھن اور پریشانی تھی… انھیں دیکھتے ہی انسپکٹر جمشید نے کہا:
’’آؤ بھئی… ان سے ملو… یہ ہیں آفاق ہادی صاحب… ایک مل کے مالک ہیں… ہمارا مجرم ان کی کوٹھی میں داخل ہوا… چھت پر پہنچا… اور وہاں سے عرفان صاحب کی چھت تک گیا… اس طرح اس نے فائل حاصل کی… اور اسی راستے سے واپس آگیا… لیکن وہ یہاں سے فوری طور پر باہر نہیں گیا… کچھ دیر یہیں رہا… جب تم لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ مجرم فائل لے کر دور جاچکا ہے… تب وہ یہاں سے نکلا… لیکن۔‘‘ لیکن کہہ کر وہ زور دار انداز میں رک گئے۔
’’لیکن کیا ابا جان؟‘‘
’’یہ بیان ان کا ہے… یعنی آفاق ہادی صاحب کا… جب کہ مجھے ان کے بیان پر یقین نہیں آیا، تم اس بارے میں کیا کہتے ہو۔‘‘
’’ہمیں بھی نہیں یقین آیا… ا س لیے کہ اس نامعلوم شخص کو کیسے پتا چل گیا… کہ عرفان صاحب کی چھت تک جانے کے لیے ان کے گھر سے راستہ جائے گا۔‘‘
’’بالکل ٹھیک… میں نے ان سے یہی کہا ہے… لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’اوہو اچھا… تو آپ ہمیں وہ جواب بھی تو بتائیں نا۔‘‘
’’ان کا کہنا ہے کہ دو دن پہلے انھوں نے محسوس کیا تھا کہ ان کی چھت پر کوئی پھر رہا ہے… اس کا مطلب ہے… مجرم لوگ دو دن پہلے ا س راستے کا جائزہ لے چکے تھے۔‘‘
’’تب تو ان کی یہ بات درست ہوسکتی ہے ابا جان۔‘‘ فرزانہ نے کہا۔
’’ہوسکتی تھی… لیکن ان کی بات درست ہے نہیں۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے فوراً کہا۔
’’آخر کیسے… وضاحت کریں نا۔‘‘
’’وہ ایسے کہ میں نے تم لوگوں کے آنے سے پہلے ان کی چھت اور ان کے پورے گھر کی تلاشی لی ہے… اور میرا دعویٰ ہے کہ یہ سچ نہیں بول رہے اور میں اپنی بات ثابت کر سکتا ہوں… آؤ میرے ساتھ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ کوٹھی کے اندرونی حصے کی طرف گھوم گئے۔

*****

انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا… آفاق ہادی کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا نظر آیا… آخر وہ اندر داخل ہوئے… ایسے میں انسپکٹر جمشید کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی:
’’آفاق ہادی صاحب نے ہمارے مجرم کو اس کمرے میں رکھا تھا… یہی بات ہے نا ہادی صاحب۔‘‘
’’جی… جی ہاں!‘‘ وہ بولا۔
’’شکریہ! آپ کا کہنا ہے… دو دن پہلے آپ نے اپنی چھت پر ہل چل محسوس کی… اس کے بعد آپ نے کیا کیا… یہ آپ نے نہیں بتایا۔‘‘
’’میں اوپر گیا… لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے… آپ نے پہلی بار اس شخص کو آج ہی دیکھا… اس سے پہلے نہیں دیکھا۔‘‘
’’جی ہاں! یہی بات ہے۔‘‘
’’تب پھر آپ نے اس کے لیے کھانے کا انتظام کیوں کر رکھا تھا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ آفاق ہادی زور سے اچھلا۔
’’وہ فائل اڑا کر سیدھا آپ کے گھر آیا… کیونکہ دو دن پہلے وہ آپ کی چھت سے لے کر عرفان صاحب کے گھر تک کے راستے کا جائزہ لے چکا تھا… اور بقول آپ کے دو دن پہلے آپ کی اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی… بس آج ہی آیا تھا اور کچھ دیر رک کر جب اس نے راستہ صاف دیکھا تو چلا گیا… اگر کہانی یہی ہے… تو آپ نے اسے کھانا کیوں کھلایا۔‘‘
’’آپ… آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ میں نے اسے کھانا کھلایا؟‘‘ آفاق ہادی نے پریشان آواز میں کہا۔
’’میں بتاتا ہوں… بلکہ اپنی بات ثابت کرتا ہوں… یہ کمرہ آپ کا ڈرائنگ روم ہے… یہی بات ہے۔‘‘
’’جی ہاں!‘‘
’’آپ کے بیوی بچے آج گھر میں نہیں ہیں… یہی بات ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں… وہ اپنے نانکے گئے ہوئے ہیں… میں گھر میں اکیلا ہوں۔‘‘
’’اور آپ کھانا نہیں بنا سکتے تھے… لہٰذا آپ نے ہوٹل سے کھانا منگوایا تھا… آپ نے ہوٹل فون کیا… اور دو آدمیوں کا کھانا منگوایا… دو ہی بوتلیں منگوائیں… اور دو آدمیوں کا یہ کھانا نگینہ ہوٹل سے آیا۔‘‘
’’آپ… آخر آپ یہ باتیں کیسے کہ سکتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا آپ انکار کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں! میں انکار کرتا ہوں… جو شخص فائل لے کر آیا تھا،میں نے اسے کھانا نہیں کھلایا… نہ میں نے ہوٹل سے کھانا منگوایا… نہ بوتلیں منگوائیں… کیونکہ۔‘‘ آفاق ہادی کہتے کہتے رک گیا۔
’’کیونکہ کیا؟‘‘
’’اس نے کہا تھا… بس میں تھوڑی دیر کے لیے رکوں گا، پھر چلا جاؤں گا… اور اگر آپ نے میرے ساتھ تعاون نہ کیا تو میرا بے آواز پستول آپ کا کام تمام کر دے گا… اس لیے میں مجبور ہوگیا… ان حالات میں بھلا میں کیوں اس کے لیے کھانا منگواتا۔‘‘
’’مطلب یہ کہ میرا دعویٰ غلط ہے… دو دن پہلے آپ کی ا س سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی… نہ اس نے آپ کے ساتھ مل کر کوئی پروگرام طے کیا۔‘‘
’’ہاں! یہی بات ہے۔‘‘ آفاق ہادی نے جھلا کر کہا۔
’’ہادی صاحب! یہ ٹھیک ہے… آپ نے اس ڈرائنگ روم میں اسے کھانا نہیں کھلایا… بلکہ یہ کھانا باورچی خانے میں کھایا گیا ہے۔‘‘
’’نہیں… ہرگز نہیں۔‘‘
’’آئیے میرے ساتھ… باورچی خانے میں۔‘‘
اب وہ باورچی خانے میں آئے:
’’آپ فرش پر دو خالی بوتلیں دیکھ رہے ہیں… یہ ٹرے دیکھ رہے ہیں… یہ ہوٹل کی ٹرے ہے… اس پر ہوٹل کا نام لکھا ہے… نگینہ ہوٹل… باقی پلاسٹک کی وقتی پلیٹیں چمچے وغیرہ بھی یہاں نظر آرہے ہیں… اب آپ کیا کہتے ہیں۔‘‘
’’بس! اتنی سی بات… جب کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں… میرے بیوی بچے گئے ہوئے ہیں… ظاہر میں ہوٹل سے منگوا کر ہی کھاتا ہوں گا… آپ نے ان برتنوں کو دیکھ کر اور دو خالی بوتلوں کو دیکھ کر یہ کہ دیا کہ میں نے اس مجرم کو کھانا کھلایا ہے… حالانکہ یہ کھانا تو میں نے اپنے لیے منگوایا تھا… اور آپ دیکھ رہے ہیں… میں کافی ڈیل ڈول کا آدمی ہوں… میری خوراک بہت ہے… میں ایک وقت میں دو آدمیوں کے برابر کھاتا ہوں… لہٰذا اتنی سی بات سے آپ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ میں نے اسے یہاں کھانا کھلایا ہے… بات بس اتنی ہی ہے… وہ آیا… میں بے خبر تھا… اس نے مجھ پر پستول تان دیا، صورتِ حال بتائی… اور کہا کہ وہ کچھ دیر بعد یہاں سے چلا جائے گا… اور بس… پھر وہ چلا گیا… اب اس نے مجھ پر پستول تانا ہوا تھا… میں کیا کرتا۔‘‘
’’جس نے پستول تانا ہوا ہو… لوگ اسے پیار اور محبت سے خاص اہتمام سے کھانا نہیں کھلاتے۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
’’پھر وہی… آپ اپنی بات ثابت نہیں کر سکتے… اور مجھ پر بلاوجہ رعب ڈال رہے ہیں۔‘‘
’’اوہ اچھا… بھئی محمود، فاروق اور فرزانہ۔‘‘ انسپکٹر جمشید گھبرائے ہوئے انداز میں ان تینوں کی طرف مڑے۔
’’جی… ابا جان!‘‘ تینوں ایک ساتھ بولے۔
’’میں اپنی بات ثابت نہیں کر سکا۔ تم میری بات ثابت کر دو۔‘‘
’’جی… جی… ہم ثابت کر دیں… اور آپ کی بات؟‘‘
’’ہاں بس! کر دو ثابت۔‘‘
’’جج… جی اچھا… آپ کہتے ہیں تو ثابت کر دیتے ہیں… ہمارا کیا جاتا ہے… سنیے محترم آفاق ہادی صاحب… بات دراصل یہ ہے کہ… کہ۔‘‘ فاروق کہتے کہتے رک گیا۔
’’ہاں ہاں! کہیے… بات دراصل کیا ہے؟‘‘ آفاق ہادی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’بات دراصل یہ ہے کہ محمود یار… تم بتا دو… تم مجھ سے بڑے ہو نا۔‘‘
’’مم… میں… اچھا میں بتا دیتا ہوں… لیکن نہیں… فرزانہ بتائے گی… کیونکہ ایسے کام یہی کیا کرتی ہے۔‘‘
’’مم… میں … ہاں کیوں نہیں… اللہ کی مہربانی سے میں بتا سکتی ہوں… ابا جان کا کہنا بالکل ٹھیک ہے… آفاق ہادی صاحب نے اس نامعلوم مجرم کے لیے پہلے ہی کھانا منگوا لیا تھا۔‘‘
’’اوہو… ثبوت کیا ہے اس بات کا۔‘‘ آفاق ہادی نے جھلا کر کہا۔
’’وہ بیرا… جو کھانا لایا تھا۔‘‘
’’ حد ہوگئی… میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں نے یہ کھانا اپنے لیے منگوایا تھا اور میں دو آدمیوں کے برابر کھانا کھاتا ہوں… لہٰذا بیرا تو یہی کہے گا کہ میں نے دو آدمیوں کا کھانا منگوایا تھا۔‘‘
’’تب پھر … آپ ہی بتائیں… ہم یہ بات کس طرح ثابت کریں… ابا جان کہہ رہے ہیں… یہ بات ثابت کریں… آپ کہہ رہے ہیں، ایسا ہوا ہی نہیں… درمیان میں پھنس گئے ہو… خیر آپ بھی کیا یاد کریں… ہم بھی اپنے ابا جان کی بات کو آج ثابت کر کے رہیں گے… یہ دیکھیے… فرش پر جوتوں کے نشان… آپ کے بیوی بچے چونکہ گھر میں نہیں ہیں… اور ملازم بھی آپ نے غالباً نہیں رکھا ہوا، اس لیے باورچی خانے کی صفائی نہیں ہوئی… فرش پر گرد موجود ہے… لہٰذا اس شخص کے جوتوں کے نشان یہاں موجود ہیں… جب کہ آپ کے جوتوں کے نشانات اور طرح کے ہیں… اب اگر آپ نے اسے کھانانہیں کھلایا تو وہ باورچی خانے میں کیا کرنے آیا تھا۔‘‘ فرزانہ یہاں تک کہہ کر رک گئی۔
’’بہت خوب فرزانہ! تم بہت اچھی رہیں… مسٹر آفاق ہادی… اب کہیں کیا کہتے ہیں… میری بیٹی نے تو یہ بات بہت آسانی سے ثابت کر دی۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے خوش ہو کر کہا۔
’’تو آپ نے بھی یہاں جوتوں کے نشانات دیکھ کر یہ اندازہ لگایا تھا۔‘‘ فرزانہ بولی۔
’’ہاں بالکل… مسٹر آفاق… ہم آپ کا جواب سننے کے لیے بے چین ہیں۔‘‘
’’میرا جواب یہی ہے… وہ کچھ وقت کے لیے گھر میں آیا… لہٰذا اس نے باورچی خانے کا بھی چکر لگایا۔‘‘
’’یہ بات آپ نے پہلے کیوں نہ بتائی۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
’’بس غلطی ہوگئی۔‘‘
’’ایسی بات نہیں مسٹر آفاق خادی۔‘‘ فرزانہ نے منہ بنا کر کہا۔
’’خادی نہیں… ہادی۔‘‘ فاروق نے فوراً کہا۔
’’اوہ ہاں… سوری۔‘‘
’’کیا کہا تم نے فرزانہ… ایسی بات نہیں۔‘‘ محمود نے اس کی طرف دیکھا۔
’’ہاں… وہ صرف چکر لگا کر یہاں سے نہیں چلا گیا… بلکہ اس میز پر بیٹھا رہا… اور میز کے دوسری طرف مسٹر آفاق بیٹھے رہے… کیونکہ۔‘‘ فرزانہ کہتے کہتے رک گئی۔
’’یہ کیونکہ کہنے کے بعد تمہاری گاڑی رک کیوں جاتی ہے۔‘‘ محمود نے اسے گھورا۔
’’پپ پتا نہیں… کیا خرابی ہوجاتی ہے۔‘‘
’’حد ہوگئی… اصل بات رہی جاتی ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید جھلا اٹھے۔
’’اوہ معاف کیجیے گا ابا جان… اب میں یہ بات ثابت کرتی ہوں کہ ہمارا مجرم یہاں باقاعدہ بیٹھا رہا ہے… وہ صرف باورچی خانے کا چکر لگانے نہیں آیا تھا… ادھر میز کے نیچے دیکھیے… جوتوں کے صرف اگلے حصے کے نشانات، کیونکہ جب کوئی کھانے کی میز پر بیٹھا ہوتا ہے تو عام طور پر پورا جوتا نہیں ٹکاتا… کبھی پورا بھی ٹک جاتا ہے… لیکن عام طور پر جوتے کا اگلا حصہ ٹکانا ہے… اب یہاں اس جوتے کے اگلے حصے کے کتنے ہی نشانات ہیں… اب بھی اگر مسٹر آفاق ہادی اس سے انکار کریں گے تو ہم کوئی اور قدم اٹھا سکیں گے… لیکن میرا خیال ہے… اب یہ انکار نہیں کریں گے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک … مسٹر ہادی… اب آپ کیا کہتے ہیں۔‘‘
’’یہ کہ آپ لوگ حیرت انگیز ہیں… اور یہ کہ آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا ہے… ایسا ہی ہوا ہے… لیکن پھر بھی بات یہی ہے کہ اس جرم سے میرا کوئی تعلق نہیں۔‘‘
’’تب پھر واضح کریں… آپ نے اسے کھانا کس خوشی میں کھلایا۔‘‘
’’آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ دو دن پہلے اس نے مجھ سے ملاقات کی تھی۔‘‘
’’کیا!!!‘‘ محمود، فاروق اور فرزانہ نے ایک ساتھ کہا۔
’’ہاں! اس نے مجھے اپنا سارا پروگرام بتایا تھا… اور اس نے کہا تھا… وہ عرفان صاحب کے گھر چوری کی ایک واردات کرے گا اور میرے مکان کے ذریعے فرار ہوگا… اس سلسلے میں اگر آپ مدد کریں تو ایک بھاری رقم مجھے دے گا… بس میں لالچ میں آگیا… اور۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’اور کیا۔‘‘
’’آپ کو پتا ہے… لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک بات ہے… تو آپ اندھے ہوگئے تھے۔‘‘ فاروق نے جلدی سے کہا۔ انسپکٹر جمشید مسکرا دیے۔
’’ہاں!‘‘ اس نے کہا۔
’’تب پھر تو میں اپنے ماتحت کو بلاتا ہوں… وہ آپ کو گرفتار کر کے حوالات میں پہنچا دے گا۔‘‘
’’ضرور ایسا کریں۔‘‘
’’تو وہ کس وقت یہاں سے گیا۔‘‘
’’کھانا کھاتے ہی چلا گیا۔‘‘ آفاق ہادی نے کہا۔
’’مجھے افسوس ہے… آپ اب بھی سچ نہیں بول رہے… کیونکہ۔‘‘
انسپکٹر جمشید کہتے کہتے رک گئے۔ ان کے چہرے پر پُراسرار مسکراہٹ تیر گئی۔

*****

’’کیا کہا آپ نے۔‘‘ آفاق ہادی زور سے اچھلا۔
’’کیا کہ رہے ہیں آپ… یہ ابھی بھی سچ نہیں بول رہے۔‘‘ مارے حیرت کے فرزانہ نے کہا۔
’’ہاں! میرا دعویٰ تو یہی ہے۔‘‘
’’آخر کیسے… اب میں کیا غلط بیانی کر رہا ہوں… سب کچھ تو صاف صاف بتا دیا میں نے۔‘‘
’’صاف صاف تو خیر نہیں… کافی گھما پھرا کر پوری بات بتائی ہے… جس کے بارے میں ہمارے ابا جان کا کہنا ہے… کہ وہ اب بھی صاف بات نہیں… گویا ابھی آپ کو اس کی مزید صفائی کرنی پڑے گی۔‘‘ محمود نے پرجوش انداز میں کہا۔
’’ورنہ یہ اپنی صفائی کرائیں گے۔‘‘ فاروق بول اٹھا۔
’’مسٹر آفاق ہادی… اب آپ کو سانپ کیوں سونگھ گیا… بولیے نا… ہمارے ابا جان کے سوال کا جواب دیجیے نا۔‘‘ فرزانہ بولی۔
’’کون سا سوال… انھوں نے تو مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔‘‘
’’سوال یہ ہے کہ صاف بات کیا ہے… آپ اب بھی کچھ چھپا رہے ہیں… آخر کب تک چھپاتے چلے جائیں گے۔‘‘
’’آپ لوگ ڈرائنگ روم میں تشریف رکھیں… ہم بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں… میں ساری بات بالکل صاف صاف بتا دیتا ہوں… اس کے بعد فیصلہ کرنا آپ کے ہاتھ میں ہوگا… جو آپ کا فیصلہ ہوگا… مجھے منظور ہوگا۔‘‘
’’وہ تو خیر اس لیے منظور ہوگا کہ آپ منظور کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘
’’ایسی بات نہیں… نہ میں مجبور ہوں… نہ آپ کا پابند… میں اس وقت بھی ایسی پوزیشن میں ہوں کہ جو چاہوں، کر سکتا ہوں۔‘‘ آفاق ہادی نے پرسکون، پروقار اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
پہلی بار انسپکٹر جمشید کے چہرے پر فکر مندی کے آثار یک دم نمودار ہوئے اور آن کی آن میں مٹ بھی گئے… انھوں نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا اور بولے:
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘
’’جب کہ میرا دعویٰ کچھ اور ہے۔‘‘ اس کی آواز اُبھری۔
’’آپ کا دعویٰ… کیا مطلب؟‘‘
’’میرا دعویٰ یہ ہے کہ آپ میرا مطلب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں… ہاں آپ کے بچے شاید نہ سمجھے ہوں۔‘‘
ایک بار پھر انسپکٹر جمشید کانپ سے گئے۔ آخر انھوں نے کہا:
’’ٹھیک ہے مسٹر آفاق ہادی… آپ کیا چاہتے ہیں۔‘‘
’’آپ بس ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے نکل جائیں… یہ میرا نرم ترین حکم ہے… اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو نتیجے کی ذمے داری آپ کے سر ہوگی۔‘‘
’’یہ ہماری موت کے برابر ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید کا لہجہ سپاٹ تھا۔
’’اور آپ لوگوں کا یہاں ٹھہرے رہنا بھی آپ لوگوں کی موت کے برابر ہے۔‘‘ اس کی سرد آواز لہرائی۔
انسپکٹر جمشید نے محمود ، فاروق اور فرزانہ کی طرف دیکھا… پھر وہ ان سے سرسراتی آواز میں بولے:
’’تم تینوں فوراً باہر چلے جاؤ… میں ان سے ایک بات کر کے آتا ہوں۔‘‘
’’نن نہیں۔‘‘ تینوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
’’کیا نن نہیں۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے بھنا کر کہا۔
’’ہم آپ کو ساتھ لیے بغیر نہیں جائیں گے۔‘‘
’’جو میں کہہ رہا ہوں، کرو۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ تینوں بولے۔
’’کیا ہوگیا ہے تمہیں۔‘‘ انسپکٹر جمشید چلائے۔
’’ہم آپ کی بات سمجھ گئے ہیں… آپ ہمیں باہر بھیج کر دروازہ اندر سے بند کر لیں گے… گویا خود اندر ہی رہ جانا چاہتے ہیں… اور یہاں ہم سب کی زندگی داؤ پر لگ چکی ہے… لہٰذا آپ نے سوچا ہے… چلو کم ازکم اپنے بچوں کو تو بچا لوں… نہیں ابا جان… ہم نہیں جائیں گے… ہم آپ کا یہ حکم نہیں مانیں گے اور ایسا زندگی میں پہلی بار کر رہے ہیں… آپ ہمیں معاف کر دیجیے گا۔‘‘ فرزانہ جذباتی آواز میں کہتی چلی گئی۔
’’فرزانہ۔‘‘ انسپکٹر جمشید کی آواز بھرا گئی۔ پھر وہ آفاق ہادی کی طرف متوجہ ہوئے:
’’تم نے دیکھا… تم نے سنا… یہ ہیں وہ بچے جو اس ملک پر قربان ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہیں… انھیں زندگی کا راستہ دیا جارہا ہے… لیکن یہ ایسی زندگی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں… ایک تم ہو… جو بک چکے ہو… دشمن ملک کے ہاتھوں… اب میری صاف صاف بات سن لو… فائل اڑانے والا شخص خود تمہارا ساتھی ہے… سارا منصوبہ پہلے ہی ترتیب دے لیا گیا تھا… آنے والا اچانک نہیں آگیا تھا… لہٰذا اس کے لیے کھانا کیوں نہ منگوایا جاتا… اب جو کرنا ہے کر ڈالو… بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید یہاں تک کہ کر خاموش ہوگئے۔
’’دیکھا! تم ہار گئے اور میں جیت گیا۔‘‘ آفاق ہادی نے ہنس کر کہا۔
یہ کہتے وقت اس کا رخ ان کی طرف نہیں تھا… بلکہ اوپر کی طرف اٹھ گیا تھا… انھوں نے اس کی نظروں کے تعاقب میں اوپر دیکھا… اوپر اس کے قریب نقاب پوش کھڑے نظر آئے… ان کے پستول ان کا نشانہ لیے ہوئے تھے… آفاق ہادی کے خاموش ہوتے ہی ان میں سے ایک نے کہا:
’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا باس۔‘‘
’’کیا مطلب… کیا کہا تھا؟‘‘ محمود کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’میں نے انھیں بتایا تھا کہ انسپکٹر جمشید یہاں پہنچ جائیں گے اور سب کچھ بھانپ لیں گے… جب کہ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا دور دور تک امکان نہیں، اس طرح میں ان لوگوں کے مقابلے میں جیت گیا… اب انسپکٹر جمشید… تم نے آخری موقع بھی کھو دیا… میں نے تو سوچا تھا… تم بس یہاں کی تلاشی لے کر چلے جاؤ گے اور ہم فائل یہاں سے لے جائیں گے… لیکن امید کے عین مطابق تم نے اپنی ٹانگیں اڑا ہی لیں… اب مجبوری ہے… ان ٹانگوں کو کاٹنا پڑے گا۔‘‘
’’آخر تم اس فائل کا کرو گے کیا۔‘‘
’’اس فائل کے گاہک کئی ملک ہیں… ہم اس کی کاپیاں تیار کرکے ان سب کو فروخت کریں گے… اور اس طرح چند دن میں مال دارترین لوگوں میں شمار ہونے لگیں گے… باقی رہی یہ بات کہ ہم یہاں اس ملک میں یہ فائل اڑانے کے بعد کیسے عیش و آرام سے رہ سکیں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں رہنا کون پسند کرتا ہے… ہم تو یہاں سے سیدھے کسی بھی ملک جاسکتے ہیں… جو لوگ ہم سے فائل خریدیں گے… وہ تو ہمیں ہیرو سمجھتے ہیں۔‘‘
’’میں سمجھ گیا… لیکن ایک فائل اڑانے کے لیے تم نے اتنا لمبا چوڑا چکر کیوں چلایا۔‘‘
’’اس چکر کے بغیر یہ فائل ہاتھ نہیں آسکتی تھی… عرفان کے بارے میں ہمیں معلوم تھا کہ یہ فائل عام طور پر ان کے پاس رہتی ہے اور وہ اسے گھر میں اکثرلے آتے ہیں… لہٰذا پہلے اس پورے محلے کا جائزہ لیا گیا… یہ جائزہ بجلی کی خطرناک وائرنگ کو چیک کرنے والی ایک فرضی ٹیم کے ذریعے لیا گیا… یعنی ان لوگوں نے بتایا تھا کہ ان کا تعلق ایک فلاحی ادارے سے ہے… اور بجلی کی غلط وائرنگ سے شہر کے کئی بڑے گھر آگ سے تباہ ہوچکے ہیں… لہٰذا وہ بجلی کی وائرنگ کو خدمتِ خلق کے طور پر چیک کرتے پھر رہے ہیں… بھلا اس سے کوئی کیوں انکار کرتا… اس طرح سب کے گھروں کا جائزہ لے لیا گیا… آخر میں نتیجہ یہ نکلا کہ اس کوٹھی کو کرایے پر لینا ہوگا… اب کرایے پر لینے کا مسئلہ پیدا ہوا… یہاں پہلے ہی کرایے دار رہ رہے تھے… ان سے بات کی… انھیں ایک بہت کم کرایے والی اس سے اچھی کوٹھی دکھائی… اگرچہ اس کا کرایہ ہمیں اپنے پاس سے دینا پڑا تھا… خیر اس طرح کوٹھی حاصل کر لی گئی… اس کے بعد کی پلاننگ آسان تھی… آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
’’واقعی… تم لوگوں نے زبردست منصوبہ بندی کی۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے کہا۔’’اس کا مطلب ہے… وہ فائل ابھی یہیں ہے۔‘‘
’’ہاں! لیکن بے فکر رہو… اب وہ تمہارے ہاتھ نہیں لگ سکتی… وہ تمہاری پہنچ سے بہت دور ہے۔‘‘
’’ہے تو یہیں نا۔‘‘
’’ہاں! اسی کوٹھی میں ہے… تم اپنی خیر مناؤ… ہم ابھی تھوڑی دیر تک یہاں سے چلے جائیں گے… جانو… تم اپنا کام شروع کر دو۔‘‘ اس نے اوپر دیکھے بغیر کہا۔
اور پھر ان کے پیروں کے پاس کوئی چیز آگری… وہ ایک دھماکے سے پھٹی… اس سے فوری طور پر گہرا دودھیا دھواں نکلنے لگا… اور دیکھتے ہی دیکھتے اس دھوئیں نے پورے صحن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا…
انھوں نے اپنے سانس روک لیے… وہ اس کام کے ماہر تھے… کئی منٹ تک آسانی سے سانس روک سکتے تھے… اور اس حالت میں انسپکٹر جمشید نے اس طرف چھلانگ لگائی… جہاں آفاق ہادی کھڑا ہوا تھا… لیکن وہ دیوار سے ٹکرائے… آفاق ہادی تو دھوئیں کا بم پھٹتے ہی وہاں سے ہٹ گیا تھا…
’’باہر کا رخ کرو۔‘‘
وہ دروازے کی طرف دوڑے… لیکن دروازہ باہر سے بند تھا… اب انھوں نے باغ کار خ کیا… لیکن باغ کا دروازہ بھی بند تھا…
اسی وقت ان کی سانس روکنے کی طاقت جواب دے گئی… اور وہ دھوئیں میں سانس لینے پر مجبور ہوگئے… جونہی انھوں نے سانس لیے، انھیں زور دار چکر آیا اور گرتے چلے گئے…
انھیں ہوش آیا تو اکرام ان پر جھکا ہوا تھا اور وہ ہسپتال میں تھے…
’’مجھے افسوس ہے سر! مجھے وہاں پہنچنے میں دیر ہوگئی۔‘‘
’’ہمیں اپنا نہیں… فائل کا رنج ہے۔‘‘
’’تت… تو کیا فائل وہیں موجود تھی۔‘‘
’’ہاں! وہ ہمیں بے ہوش کرنے کے بعد فائل لے گئے۔‘‘
’’افسوس!‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔
’’لیکن نہیں… ہم اب بھی ان کا سراغ لگا کر رہیں گے… کیونکہ اس کھیل کا ایک اہم موڑ ابھی میرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’جی… اہم موڑ… کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب ابھی نہیں… پہلے تم ہمیں فوری طور پر عرفان صاحب کے پاس لے چلو۔‘‘
وہ پولیس جیپ میں عرفان کے گھر پہنچے… صبح کا اجالا پھیل رہا تھا… جب انھوں نے کوٹھی کے دروازے پر دستک دی…
عرفان صاحب نے دروازہ کھولا اور انھیں دیکھ کر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے… اس وقت انسپکٹر جمشید بولے:
’’اکرام… وہ لوگ کہاں ہیں… جنھیں ہم نے گرفتار کیا تھا، انھیں یہیں لے آؤں۔‘‘
’’جی… اچھا۔‘‘
جلد ہی جیمی، ا س کا باس چیکو یعنی استاد اور ان کے تینوں ساتھی… ان کے سامنے کھڑے نظر آئے…
انسپکٹر جمشید ایک ایک قدم ان کی طرف بڑھے اور پھر انھوں نے ایک عجیب حرکت کی۔ انھوں نے استاد کی مونچھیں پکڑ کر ایک زور دار جھٹکا مارا تھا:

*****

استاد کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔ اس کی مونچھیں اب ان کی دو انگلیوں میں تھیں۔
’’میں نے پہلی نظر ہی میں یہ بات بھانپ لی تھی کہ تم میک اپ میں ہو۔ تم اسے دیکھ رہے ہو اکرام۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’یس سر!‘‘ اکرام فوراً بولا۔
’’ہاں تو کون ہے یہ۔‘‘
’’بھنڈاری… کسی زمانے میں شہر میں ایک گروہ وارداتیں کیا کرتا تھا… وہ کالیا گروپ کہلاتا تھا، اس نے بہت اودھم مچائی تھی… پولیس نے اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی… ان تمام کوششوں کے نتیجے میں اس گروہ کا صرف ایک آدمی پولیس کے ہاتھ لگ سکا تھا… اور وہ تھا بھنڈاری… لیکن یہ بھنڈاری پھر جیل سے بھاگ نکلا تھا… اس کے بعد یہ گروہ ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ… اور آج اتنی مدت بعد بھنڈاری ایک بار پھر سامنے آیا ہے… لیکن اس بار یہ ایک ڈاکو کی بجائے ایک فائل اڑانے والے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے… افسوس! فائل تو اس کے ہاتھ نہیں لگی… یہ خود پھنس گیا… ویسے بھنڈاری… اگر تم چاہتے ہو کہ پولیس تم سے نرم سلوک کرے تو ا س کا بس ایک ہی طریقہ ہے۔‘‘ یہاں تک کہہ کر ا نسپکٹر جمشید خاموش ہوگئے اور اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’اور وہ کیا؟‘‘ وہ جلدی سے بولا۔
’’وہ فائل ہمیں واپس دے دو… اور اسی وقت دے دو… کیونکہ کچھ وقت تک اگر وہ فائل کسی ملک کے کسی دشمن کے پاس رہ گئی تو اس کی تو تیار ہوجائیں گی کاپیاں… پھر وہ ہمیں واپس ملی بھی تو کیا۔‘‘
’’لیکن سر! میں تو اس معاملے میں ناکام ہوگیا تھا… فائل تو کوئی اور لے اڑا ہے۔‘‘
’’چلو چھوڑو… فائل کو… آج کل پھر کس کے لیے کام کر رہے ہو۔‘‘ وہ طنزیہ انداز میں بولے۔
’’کسی کے لیے بھی نہیں… بس اپنے لیے کام کر رہا ہوں… اب میرا اپنا گروہ ہے۔‘‘
’’اور کالیا۔‘‘
’’کالیا کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں۔‘‘
’’جو ہم سے فائل لے گیا… وہ کون تھا۔‘‘
’’میں نہیں جانتا… آپ نے خود دیکھا تھا… وہ نقاب میں تھا۔‘‘
’’ایسی بات نہیں ہے بھنڈاری۔‘‘ اچانک ان کا لہجہ سرد ہوگیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ چونکا۔
’’تم آج بھی کالیا کے لیے کام کر رہے ہو… پندرہ سال پہلے تم لوگوں نے بڑے ہاتھ مارے تھے… لیکن پھر اچانک کالیا گروہ غائب ہوگیا… بھلا ایسا کیوں ہوا تھا بھنڈاری۔‘‘
’’مجھے کیا معلوم سر۔‘‘
’’خیر! میں بتا دیتا ہوں… کیونکہ اب تو میں تمہیں بھی دیکھ چکا ہوں اور کالیا کو بھی… ایک ہی رات میں ایک ہی معاملے میں… تم ایک ہی جگہ پائے گئے اور کہہ رہے ہو، تم اب کالیا کے لیے کام نہیں کرتے… اگر اب بھی تم نے دیر لگائی تو پھر ہم تمہیں کمرۂ امتحان میں لے جانے پر مجبور ہوں گے۔‘‘
’’نن نہیں۔‘‘ وہ کانپ گیا۔
’’کالیا ہمیں کہاں ملے گا… اس سوال کا جواب دیے بغیر تمہاری جان نہیں چھوٹے گی۔‘‘
’’پالگا سرائے۔‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔
’’اسے سنبھالو اکرام… ہم چلے پالگا سرائے، تم بھی آجاؤ۔‘‘
’’سر… کیا خبر… یہ دھوکا کر رہا ہو… اور کالیا وہاں نہ ملے۔‘‘
’’نہیں… اس سرائے کے بارے میں کچھ خبریں مجھ تک پہلے بھی پہنچ چکی ہیں… پھر بھی اگر وہاں کالیا نہ ہوا… تو یہ ہمارے قابو میں ہے ہی۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر۔‘‘
انسپکٹر جمشید ان تینوں کو ساتھ لیے اسی وقت روانہ ہوگئے… پالگا سرائے کا پتا انھیں معلوم تھا… ان کے پیچھے اکرام اور اس کے ماتحت بھی چلے آرہے تھے… جلد ہی وہ پالگا سرائے کو گھیرے میں لے چکے تھے…
یہ ایک بہت شان دار اور بہت بڑی عمارت تھی… دروازے پر دو مسلح پہرے دار کھڑے نظر آئے… انسپکٹر جمشید آگے بڑھے تو انھوں نے راستہ روک لیا:
’’آپ کو کس سے ملنا ہے۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’کالیا سے۔‘‘ وہ بولے۔
’’یہاں کوئی کالیا نہیں ہے۔‘‘
وہ سادہ لباس میں تھے، اس لیے پہرے دار انھیں خاطر میں نہیں لا رہے تھے… اب انھوں نے کہا:
’’ہمارا تعلق پولیس سے ہے سمجھے… اگر تم رکاوٹ بنو گے تو تمہیں بھی گرفتار کیا جائے گا۔‘‘
’’کس جرم میں؟‘‘ ان میں ایک نے دانت نکالے۔
’’قانون کی مدد کرنے کے بجائے، اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کے جرم میں۔‘‘ فاروق جھلا اٹھا۔
’’اپنا کارڈ دے دیں… پالگا صاحب نے ملاقات کرنا پسند کی تو آپ کو بلا لیں گے… اور اگر انھوں نے ملاقات سے انکار کر دیا تو پھر آپ ان سے کسی صورت نہیں مل سکیں گے… کیونکہ۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا اور ایک بار پھر ہنس دیا۔
’’کیونکہ کیا… اور یہ تم بار بار دانت کیوں نکال رہے ہو؟‘‘ محمود نے منہ بنایا۔
’’توکیا اب ہمارے ہنسنے پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔‘‘ اس کے لہجے میں طنز تھا۔
’’لگتا ہے… تم لوگوں کا دماغ بھی درست کرنا پڑے گا۔‘‘
’’ضرور کوشش کریں… ہمیں خوشی ہوگی۔‘‘
’’یہ لو کارڈ۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے طیش میں آئے بغیر کہا جب کہ محمود، فاروق اور فرزانہ کا مارے غصے کے برا حال تھا۔ وہ کارڈ لے کر اسے دیکھنے لگا۔
’’ہم ان دونوں کو ضرور سبق سکھائیں گے۔‘‘
’’زیادہ غصہ صحت کے لیے مضر ہوتا ہے… یہ دونوں اپنی مرضی کے مالک نہیں… انھیں ضرور شہ دی گئی ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے دبی آواز میں کہا۔
’’اوہ۔‘‘
اور پھر ان میں سے ایک اندر چلا گیا… جلد ہی اس کی واپسی ہوئی… اس نے کہا:
’’پالگا صاحب کا کہنا ہے، وہ اس وقت بہت مصروف ہیں… آپ پھر کسی و قت تشریف لائیے گا۔‘‘
’’یہ کہا ہے سرائے کے مالک نے۔‘‘ اکرام حیرت زدہ رہ گیا۔
’’اکرام! یہ لوگ دراصل وقت گزار رہے ہیں… ہم ان کے ہاتھوں مزید الو نہیں بن سکتے… سپیکر پر اعلان کرا دو۔‘‘
فوراً ہی سپیکر پر آواز گونجی تھی:
’’خواتین و حضرات پالگا سرائے کو پولیس کے گھیرے میں لے لیا ہے… ہمیں یہاں کی تلاشی لینی ہے… لہٰذا تمام گاہکوں سے درخواست کی جاتی ہے… وہ باہر آجائیں… تلاشی لینے کے بعد انھیں جانے دیا جائے گا… البتہ ہوٹل کی انتظامیہ کا کوئی فرد نہ جانے پائے۔‘‘
اس اعلان نے خوف کی فضا طاری کر دی… لوگ اٹھ اٹھ کر باہر آنے لگے… اکرام کے ماتحت ان کی تلاشی لیتے اور انھیں جانے دیتے… جلد ہی ایک بہت لمبے قد کا طاقت ور آدمی باہر آتا نظر آیا… اس کا چہرہ مارے غصے کے تنا ہوا تھا… پھر وہ تنتنا تا ہوا باہر آگیا… اس نے چیختی آواز میں کہا:
’’یہ کیا ہورہا ہے… یہ میری سرائے ہے یا آپ لوگوں کی۔‘‘
’’آپ کون ہیں۔‘‘ اکرام آگے بڑھ کر بولا۔
’’میں یہ ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہی اس نے ایک بھرپور مکا اکرام کے منہ پر دے مارا… اکرام بالکل بے خبر تھا… اس کے گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ اس طرح ہاتھ اٹھا بیٹھے گا… اور ڈیل ڈول کے اعتبار سے وہ تھا بھی بہت لمبا چوڑا… نتیجہ یہ نکلا کہ اکرام اچھل کر دور جاگرا:
اب تو سب سکتے میں آگئے، انسپکٹر جمشید فوراً ہی حرکت میں آئے اور اس کی طرف جھپٹے… ساتھ ہی وہ چلا اٹھا:
’’خبردار! کوئی میری طرف بڑھا تو اپنی جان سے جائے گا۔‘‘ اس کے ہاتھ میں پستول نظر آیا۔
انسپکٹر جمشید رک گئے… ساتھ ہی ان کے ہاتھ میں بھی پستول نظر آیا… وہ سرد آواز میں بولے:
’’آپ پستول گرا دیں…آپ نے قانون کے محافظ پر ہاتھ اٹھایا ہے… اب آپ کوگرفتاری تو دینا ہوگی۔‘‘
’’میری طرف ایک قدم بھی بڑھایا تو۔‘‘ وہ غرایا۔
ان الفاظ کے ساتھ ہی انسپکٹر جمشید نے ٹریگر دبا دیا… اس کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی… پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا… اکرام کے ایک ماتحت نے فوراً پستول اٹھا لیا… اور اس کا رخ اس کی طرف کردیا… انھوں نے دیکھا… اس کے ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا… انسپکٹر جمشید نے اس کے ہاتھ کا نشان لیا تھا…
ایسے میں دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دی… آواز سرائے کے اندر سے آرہی تھی… پھر انھوں نے دیکھا… سرائے کے ملازم مختلف قسم کے ہتھیار اٹھائے باہر کی طرف دوڑتے چلے آرہے تھے…
’’خبردار! کوئی آگے بڑھا تو اڑا دیا جائے گا۔‘‘ انسپکٹر جمشید گرجے… اس کے ساتھ ہی اکرام کے تمام ماتحتوں کے ہاتھوں میں پستول نظر آئے… اتنی دیر میں سب انسپکٹر اکرام بھی اٹھ چکا تھا… اندر سے باہر آنے والے رک گئے… لیکن ان سب کے ہتھیاروں کا رخ ان سب کی طرف تھا… اس وقت تک انسپکٹر جمشید صورتِ حال کا جائزہ لے چکے تھے… انھیں بیسیوں ملازم سرائے کی چھت کار خ کرتے نظر آئے… جب کہ وہ کھلی جگہ کھڑے تھے اور انھیں نشانہ بنانا بہت آسان تھا… تاہم انھوں نے کوئی پروا نہ کی اور ڈٹ کر کھڑے رہے… پھر اوپر سے آواز آئی:
’’آپ لوگ اپنے پستول گرا دیں… ورنہ اوپر سے گولیاں برسنا شروع ہوجائیں گی۔‘‘
انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا… صورتِ حال اس وقت پوری طرح سرائے والوں کے ہاتھوں میں تھی… کیونکہ اگر انسپکٹر جمشید پارٹی سامنے کھڑے سرائے کے مالک اور دوسرے ملازمین کو گولیوں کا نشانہ بنا بھی ڈالتی… تب بھی اوپر والے آسانی سے انھیں نشانہ بنا ڈالتے… اور خود وہ سرائے کی منڈیرکی اوٹ میں تھے… انھیں تو نشانہ بنایا نہیں جاسکتا تھا:
’’گرا دو بھئی پستول۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے پرسکون آواز میں کہا۔ ساتھ ہی انھوں نے عجیب سی آواز میں کہا۔
’’مجھے نہیں معلوم تھا… یہ سرائے نہیں… انسانوں کی قتل گاہ ہے… اور یہ ہمارے اپنے شہر میں ہورہا ہے… خیر… اکرام تم فکر نہ کرو… بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی… سرائے پالگا والے اب بھی بچ نہیں سکیں گے۔‘‘
’’فی الحال تو تم اپنی خیر مناؤ… انسپکٹر جمشید… بہت نام سنا تھا آپ کا… لیکن لگتا ہے… آج تک برابر کی کسی چوٹ سے واسطہ ہی نہیں پڑا تھا… اب آئے گا مزا۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ ہی انھوں نے پستول گرا دیے… سرائے کے ملازمین ایک نیم دائرے کی صورت میں ان کی طرف بڑھنے لگے:

*****

’’سرائے میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ پالگا کی سرد آواز سنائی دی۔
انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر سرائے کے اندر داخل ہوگئے۔
’’چلتے رہو… ہدایات کے مطابق مڑتے رہو۔‘‘ پالگا گرجا… دائیں بائیں ملازمین ہی ملازمین تھے… پہلی بار انھوں نے محسوس کیا تھا کہ یہ نام کی سرائے ہے، ورنہ اندر سے یہ ایک بہت بڑا ہوٹل ہے… اس میں بے شمار کمرے ہیں اور اسی مناسبت سے اس کے ملازم بہت ہیں… لیکن حیرت یہ تھی کہ تمام کے تمام ملازمین مسلح تھے… سب کے پاس پستول تھے… اور اسی لیے وہ محسوس کر رہے تھے کہ یہ سرائے دراصل جرائم پیشہ لوگوں کا گڑھ ہے… سرائے تو بہانہ ہے…
’’دائیں طرف مڑ جاؤ۔‘‘ پیچھے سے پالگا نے کہا:
وہ برآمدے میں دائیں طرف مڑ گئے… اب ان کے سامنے ایک دروازہ تھا…
’’دروازے کو کھولو۔‘‘
انسپکٹر جمشید نے دروازے کو کھولا تو آگے سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آئیں:
’’شاباش سیڑھیاں اترتے چلے جاؤ… ہم بھی آرہے ہیں… اب تہ خانے میں باتیں ہوں گی۔‘‘
سیڑھیاں ختم ہونے پر انھیں ایک بڑا ہال نظر آیا… ہال روشن تھا… سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک بڑی بھاری کرسی بچھی تھی… دائیں بائیں دونوں دیواروں کے ساتھ ساتھ بھی کرسیاں بچھی تھیں… ان پر بیٹھے لوگ کسی صورت بھی شریف نہیں کہلا سکتے تھے… ان کے چہروں پر درندگی تھی… سفاکی تھی… اور بے رحمی تھی… پالگا کو دیکھ کر وہ ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے:
’’بیٹھو ساتھیو… آج کا شکار بالکل نیا ہے… اور انوکھا ہے… یہ مشہور زمانہ لوگ انسپکٹر جمشید اور ان کے بچے ہیں… اور ان کے ماتحت سب انسپکٹر اکرام بھی ہیں۔‘‘
’’ارے… اور آپ انھیں یہاں لے آئے باس۔‘‘ ایک نے بوکھلا کر کہا۔
’’ہاں!اور کیا کرتا۔‘‘
’’لیکن اب پولیس ان کی تلاش میں یہاں پہنچ جائے گی۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’میں جانتا ہوں… پولیس آئے گی… لیکن کیا وہ انھیں تلاش کرے گی۔‘‘ پالگا ہنسا۔
’’تلاش… تلاش تو خیر نہیں کر سکے گی… لیکن ہم لوگوں کی پریشانی کا سبب تو بنے گی۔‘‘
’’نہیں بنے گی… فکر نہ کرو… اب اوپر سرائے کے ہال میں صرف شریف لوگ نظر آئیں گے… محلے میں بھی کوئی غیر شریف نظر نہیں آئے گا… دوسرے یہ کہ آنے والوں میں یہ لوگ تو ہوں گے نہیں… عام پولیس والے ہوں گے… سراغ لگانا ان کے بس کی بات ویسے بھی نہیں ہوگی۔‘‘
’’بہت خوب باس! لیکن یہ چکر کیا ہے۔‘‘
’’ابھی معلوم ہوجاتا ہے… یہاں کچھ بہت معزز مہمان آنے والے ہیں… ان کی آمد تک انتظار کرو۔‘‘ پالگا نے کہا۔
اور پھر سیڑھیوں سے کچھ لوگ آتے نظر آئے… یہ تقریباً دس تھے… ان کے لباس مختلف انداز کے تھے… گویا یہ لوگ اپنے اپنے ملک کے لباس میں تھے…
’’لو! ہمارے معزز مہمان تشریف لے آئے۔‘‘
یہ کہہ کر پالگا دونوں ہاتھ پھیلائے ان کی طرف بڑھا… وہ ان سے خوب گرم جوشی سے ملا… پھر انھیں اپنی شاہی کرسی کے قریب والی کرسیوں پر بٹھایا…
’’کہاں ہے، وہ فائل۔‘‘
’’یہ رہی۔‘‘ پالگا نے میز کی دراز سے فائل نکال کر ان کے سامنے رکھ دی… ان سب نے باری باری فائل کی ورق گردانی کی… آخر ان میں سے ایک نے کہا:
’’فائل بالکل ٹھیک ہے… ہم سب اس کی ایک ایک کاپی لیں گے… لہٰذا آپ نے دس کاپیاں بنوالی ہوں گی۔‘‘
’’ابھی تک اتنا وقت نہیں مل سکا… لیکن اس کام میں کون سا زیادہ وقت لگ جائے گا… جب تک ہم سودا طے کریں گے… کاپیاں بن جائیں گی… فوٹو اسٹیٹ مشین یہاں موجود ہے۔‘‘
’’بہت خوب! آپ کاپیاں بنانے کی ہدایت کر دیں… ادھر ہم بات شروع کرتے ہیں۔‘‘
اس نے اپنے ایک ماتحت کی طرف اشارہ کیا:
’’کاپیاں بنوا لو۔‘‘
’’لیکن یہ فائل تہہ خانے سے باہر نہیں جانی چاہیے۔‘‘ ایک مہمان نے کہا۔
’’آپ فکر نہ کریں… یہیں انتظام ہے۔‘‘
انھوں نے سر ہلا دیے:
’’ہاں تو اب ہوجائے معاملے کی بات… اس میں شک نہیں… یہ آپ نے بہت اہم کارنامہ انجام دیا ہے… گویا ہم نے بالکل درست آدمی کے ذمے یہ کام لگایا تھا۔‘‘
’’شکریہ! آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس فائل کے ساتھ ہم نے انسپکٹر جمشید اور ان کے ساتھیوں کو بھی قابو میں کر لیا ہے۔‘‘
’’اوہو اچھا… کہاں ہیں، وہ لوگ۔‘‘
’’یہ رہے، اس طرف۔‘‘
مہمانوں کے چہرے ان کی طرف گھوم گئے… ان میں سے ایک نے کہا:
’’یہ تو ٹھیک نہیں۔‘‘
’’کیا ٹھیک نہیں۔‘‘ پالگا چونکا۔
’’ان کی یہاں موجودگی… یہ لوگ حد درجے خطرناک ہیں… کوئی نہ کوئی ایسی صورتِ حال پیدا کر دیں گے کہ فائل ان کے ہاتھ لگ جائے گی… لہٰذا پہلے انھیں یہاں سے ہٹا دیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے… تہ خانے کے دوسرے حصے میں بھجوا دیتا ہوں۔‘‘
’’یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ وہ مہمان بولا۔
’’انھیں دوسرے کمرے میں بند کر دو… اور خود دروازے پر موجود رہو… دروازہ باہر سے بند رکھنا… اور پوری طرح ہوشیار رہنا۔‘‘
’’اس کی کیا ضرورت ہے آخر۔‘‘ ایک مہمان نے منہ بنایا۔
’’جی کس کی؟‘‘ پالگا نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’انھیں کمرے میں بند کر کے رکھنے کی… جب یہ لوگ ہیں ہی خطرناک… تو انھیں ٹھکانے لگا دیں۔‘‘
’’ہم یہ کام بعد میں کرتے رہیں گے… پہلے آپ کو فارغ کر دیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘
’’ہاں تو اب ذرا معاملے کی بات ہوجائے… ہم دس افراد ہیں… دس کے دس آپ کو ایک ایک کروڑ روپے دے دیتے ہیں۔‘‘
’’بس! ایک ایک کروڑ روپے۔‘‘ مارے حیرت کے پالگا کے منہ سے نکلا۔ اس کا رنگ اڑتا نظر آیا۔
’’کیوں… کیا بات ہے۔‘‘
’’مجھے تو منصوبہ بتانے والے نے بتایا تھا کہ یہ فائل اربوں روپے کی ہے۔‘‘
’’اربوں اور کھربوں کے فائدے تو بعد کی بات ہے… فائل سے براہِ راست اربوں کھربوں نہیں کمائے جاسکتے… پہلے اس ملک کی حکومت ہم لوگوں کے سامنے کئی معاملات میں آئیں بائیں شائیں کرتی رہتی تھی… یہ فائل ہاتھ لگنے کے بعد یہ ملک پوری طرح ہماری مٹھی میں ہوگا… کیونکہ ملک میں جو خفیہ منصوبے شروع ہیں… وہ سب ہمارے علم میں آجائیں گے… اور ہم اس ملک کو ان منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
’’ہوں… لیکن پھر بھی ایک ایک کروڑ سے گویا صرف دس کروڑ… اور میں نے کتنا بڑا خطرہ مول لیا ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… دو دو کروڑ دے دیتے ہیں۔‘‘
’’کم ازکم پانچ پانچ کروڑ… اس سے کم پر بات نہیں ہوگی۔‘‘
’’گویا آپ پچاس کروڑ… یعنی نصف ارب مانگ رہے ہیں… دیکھ لیں مسٹر پالگا… یہ بہت بڑی رقم ہے۔‘‘
عین اسی وقت تہہ خانے میں ایک سرخ بلب تیزی سے جلنے بجھنے لگا… پالگا نے اپنی کرسی میں لگا ایک بٹن دبایا اور بولا:
’’ہاں! کیا بات ہے۔‘‘
’’پولیس نے سرائے کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔‘‘
’’پروا نہ کرو… پولیس زیادہ سے زیادہ تلاشی لے گی… تم کہہ دینا… انسپکٹر جمشید وغیرہ یہاں آئے ضرور تھے… سرائے کی تلاشی لے کر چلے گئے ہیں۔‘‘
’’اوکے سر۔‘‘
اس نے بٹن آف کر دیا:
’’کیا پولیس اس تہہ خانے کا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوجائے گی۔‘‘
’’نہیں! اس علاقے کا پولیس آفیسر ساتھ ہوگا… وہ میرا دوست ہے… زیادہ گہرائی میں تلاشی لینے ہی نہیں دے گا۔‘‘
’’لیکن یہ مسئلہ ہے… خود پولیس کے چند نامور ملازمین کا… جو ریڑھ کی ہڈی کہلاتے ہیں… ان کے لیے کیا وہ سرسری تلاشی لے کر چلے جائیں گے۔‘‘
’’وہ اس تہہ خانے میں پھر بھی نہیں آسکتے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… تب ہم اپنی بات جاری رکھ سکتے ہیں… اور اپنی بات یہ ہے کہ ہم آپ کو تین تین کروڑ روپے دے سکتے ہیں… اس سے زیادہ نہیں… اس فائل کے خریدار صرف ہم ہی ہوسکتے ہیں… ہمارے علاوہ گاہک آپ کو ملیں گے نہیں… مطلب یہ کہ اگر آپ فائل ہمارے ہاتھوں فروخت نہیں کریں گے تو یہ آپ کے پاس بالکل بے کار ہوگی… اس کا کوئی فائدہ آپ کو نہیں ہوگا۔‘‘ ان میں سے ایک نے مضبوط لہجے میں کہا۔
’’دوسری طرف! اگر آپ یہ فائل نہیں لے جاتے… تو آپ کو اس ملک کے بارے میں جن معلومات کی ضرورت ہے… وہ آپ کبھی حاصل نہیں کر سکیں گے، اس لیے کہ وہ معلومات صرف اور صرف اس فائل میں ہیں۔‘‘
’’ہمیں اس سے انکار نہیں… لیکن ہم بہرحال اس سے زیادہ نہیں دے سکتے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… آپ 30 کروڑ ادا کر دیں… اور اس فائل کی ایک ایک کاپی لے کر یہاں سے رخصت ہوجائیں… تاکہ میری ذمے داری ختم ہوجائے۔‘‘
’’ضرور… کیوں نہیں… ہم ڈالرز لے کر آئے ہیں۔آپ انھیں بنک میں محفوظ کر لیجیے گا۔‘‘
’’وہ میں کرا لوں گا… آپ فکر نہ کریں۔‘‘
ایسے میں سرخ بلب ایک بار پھر جلنے بجھنے لگا… پالگا نے برا سا منہ بنا کر کرسی کا بٹن پھر دبایا:
’’ہاں! اب کیا ہے۔‘‘
’’صورتِ حال اچھی نہیں ہے سر۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’یہ لوگ تفصیلی تلاشی کا مطالبہ کر رہے ہیں… ان کے ساتھ ڈی آئی جی صاحب بھی ہیں۔‘‘
’’اوہ اچھا… اب دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں سر۔‘‘
’’کیا ان کے پاس تلاشی کے وارنٹ ہیں۔‘‘
’’ہاں سر ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے… تم انھیں اوپر والا حصہ دکھانا شروع کر دو… ابھی ان کے پاس فون آئے گا… فکر نہ کرو۔‘‘
’’اوکے سر۔‘‘
اب پالگا مہمانوں میں سے ایک کی طرف مڑا:

***** 

’’اوپر پولیس کے ساتھ ایک ڈی آئی جی صاحب بھی آگئے ہیں… سرائے کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے… ایسا نہ ہو، وہ تہہ خانے کا سراغ لگا لیں، اس صورت میں ہم سب مارے جائیں گے… جب تک عام پولیس اوپر تھی… اس وقت تک کوئی خطرہ نہیں تھا… لیکن اب چونکہ ڈی آئی جی صاحب بھی آگئے ہیں، اس لیے میں فکر مند ہوگیا ہوں… آپ ذرا اس سلسلے میں کوشش کریں… اگر ہم لوگ پھنس گئے تو آپ بھی ہمارے ساتھ پھنسیں گے… اور پھر اخبارات جو شور مچائیں گے، اس کا اندازہ ہم لگا ہی سکتے ہیں۔‘‘
’’مسٹر پالگا… ڈونٹ وری… میں ابھی بندوبست کرتا ہوں۔‘‘
اب اس نے موبائل پر کسی کا نمبر ملایا… اور سلسلہ ملنے پر بولا:
’’ہم اس وقت سرائے پالگا میں ہیں اور پولیس سرائے پالگا کی تلاشی لینا چاہتی ہیں… ہمارے ساتھ وہ فائل بھی ہے… پولیس اگر۔‘‘
’’میں سمجھ گیا… فکر نہ کرو… چند منٹ میں تلاشی کا عمل روک دیا جائے گا۔‘‘
پھر دو منٹ بعد تہہ خانے میں سبز بلب جلنے بجھنے لگا… اس کو دیکھ کر پالگا مسکرا دیا اوربولا:
’’دیکھا… کتنا فوری اثر ہوا ہے۔‘‘
’’لیکن ابھی آپ کو اوپر سے کوئی پیغام نہیں ملا۔‘‘ ایک مہمان نے کہا۔
’’سبز بلب کا مطلب یہی ہے… میں آپ کے اطمینان کے لیے بات بھی کیے لیتا ہوں۔‘‘ یہ کہ کر اس نے پھر کرسی میں لگا بٹن دبایا… جلد ہی اس کے ماتحت کی آواز اُبھری:
’’یس سر۔‘‘
’’یہ تو مجھے معلوم ہے… تلاشی کا عمل رک گیا ہے… یہ جاننا چاہتا ہوں… یہ لوگ چلے گئے ہیں یا نہیں۔‘‘
’’جونہی انھیں حکم ملا… سب سرائے سے نکل گئے۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔
’’کیا وہ اب ہوٹل کے باہر موجود ہیں۔‘‘
’’نظر تو نہیں آرہے سر۔‘‘
’’خیر… ہوشیاررہنا… ہوسکتا ہے، یہ لوگ پھر آئیں۔‘‘
’’فکر نہ کریں سر۔‘‘
اس نے موبائل بند کر دیا اور ان کی طرف مڑا:
’’اب تو آپ کا اطمینان ہوگیا ہوگا۔‘‘
’’ہاں بالکل… اب ہمیں کھٹکا ہے… انسپکٹر جمشید اور ان کے ساتھیوں کا… آپ پہلے ان کا کانٹا نکال دیں… تبھی ہم یہاں سے بے فکر ہو کر رخصت ہوں گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے… ان لوگوں کو لے آؤ بھئی۔‘‘
’’اوکے سر۔‘‘
پالگا کے آدمی اس کمرے کی طرف چلے گئے جس میں انھوں نے انسپکٹر جمشید وغیرہ کو بند کیا تھا… جلد ہی وہ ان کے ساتھ لوٹ آئے… ان سب کے چہرے اترے ہوئے تھے:
’’ہم نے تو ان کا بہت نام سنا تھا… لیکن یہ تو بالکل چوہے نظر آرہے ہیں۔‘‘
’’میرے مقابلے میں ان کا بس نہیں چلا نا… شروع سے ہی ہم چھائے رہے… اور ان کی ہر کوشش ناکام گئی… ان حالا ت میں ان کے چہرے نہ اتریں تو کیا ہو۔‘‘
’’خیر… انھیں کیسے ٹھکانے لگانا ہے۔‘‘
’’کوئی مسئلہ نہیں… اس تہہ خانے کے نیچے ایک گہرا کنواں ہے… ہم ان لوگوں کو اس میں ڈال دیتے ہیں… گولیوں سے ہلا ک کریں گے تو یہاں خون بہے گا… پھر صفائی کا مسئلہ پیدا ہوگا… جب کہ کنویں کا معاملہ بہت آسان ہے… بس انھیں اس میں دھکا دے دیں گے اور کنویں کا ڈھکنا بند کر دیں گے، بات ختم۔‘‘
’’اس کنویں سے نکلنے کا کوئی راستہ تو نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں… ہم پہلے بھی دشمنوں اور مخالفوں کو اسی میں دھکا دے دیتے ہیں… بس وہیں سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔‘‘
’’بہت خوب! بہ بہت اچھا طریقہ ہے… ہم بھی انھیں کنویں میں گرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ضرور کیوں نہیں… چلو بھئی انھیں کنویں کی طرف لے چلو۔‘‘
’’آخر وقت ہوگیا۔‘‘ انھوں نے انسپکٹر جمشید کی آواز سنی۔
’’وقت ہوگیا… کس بات کا وقت۔‘‘
’’جس وقت کے انتظار میں ہم چپ تھے۔ تم لوگوں کا سارا منصوبہ فلاپ ہوگیا، تم ناکام ہوگئے۔‘‘
’’ہمارا منصوبہ فلاپ ہوگیا… ہم ناکام ہوگئے… کیا مطلب؟‘‘
’’جس فائل کے لیے یہ سارا چکر چلایا گیا… وہ تمہارے ہاتھ تو نہیں لگ سکی۔‘‘
’’شاید انسپکٹر جمشید کا دماغ چل گیا ہے… صدمہ ہی اتنا بڑا برداشت کرنا پڑا ہے نا۔‘‘ پالگا ہنسا۔
’’فائل کھول کر دیکھ لو۔‘‘
’’ فائل کھول کر دیکھ لیں… کیا دیکھ لیں… فائل کھول کر تو ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں اور اپنا اطمینان کر چکے ہیں۔‘‘
’’میں نے کہا نا… فائل کھول کر دیکھ لیں۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’پالگا… فائل کھولو… نہ جانے انسپکٹر جمشید کیا دکھانا چاہتے ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے جھلا کر کہا۔
اب پالگا نے فائل کھولی اور ان کے سامنے کر دی:
’’یہ لیں… دیکھ لیں فائل… بالکل اسی حالت میں تو ہے… وہی تو ہے… اور اب تو اس کی دس کاپیاں بھی بن چکی ہیں۔‘‘
’’آپ لوگوں کو اصل فائل کی نشانی بتائی گئی تھی۔‘‘
’’ہاں بالکل… اس کے آخری صفحے پر دی اینڈ لکھا ہے… اور دی اینڈ کے دونوں طرف اوپر کی طرف Z لکھا ہے… اسZ پر ایک بڑا سا نقطہ ہے… سو ہم یہ چیز فائل کے آخر میں دیکھ کر اطمینان کر چکے ہیں۔‘‘
’’اسی لیے میں نے کہا ہے، آپ لوگ ناکام ہوگئے… آپ کا منصوبہ فلاپ ہوگیا۔‘‘
’’آخر کیسے… ہم یہ کیوں نہ خیال کریں کہ آپ ہم سے کوئی چال چل رہے ہیں۔‘‘ ایک غیر ملکی نے کہا۔
’’بات وہ جودلیل سے کی جائے… آپ نے ایک دلیل پیش کی کہ اس کے آخر میں دی اینڈ لکھا ہے… اس کے اوپر دونوں طرف Z لکھا ہے اور Z کے اوپر ایک بڑا سا نقطہ ہے… یہی بات ہے نا۔‘‘
’’ہاں! بالکل۔‘‘
’’یہ بات تم سے کس نے کہی۔‘‘
’’جس نے ہمیں فائل کے بارے میں بتایا۔‘‘
’’بس… یہی ہے وہ نقطہ۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ چونکے۔
’’یہ فائل عرفان صاحب کے پاس تھی… وہ محکمہ اطلاعات کے ریکارڈ کیپر ہیں… انھیں یہ بات معلوم تھی کہ یہ فائل بہت اہم اور خفیہ ہے… کسی کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جائے گی… سوال یہ ہے کہ کسی کو کیسے پتا چلا کہ اس کے آخر میں کیا لکھا ہے… اور کیسے لکھا ہے۔‘‘
پہلی بار پالگا اور اس کے مہمانوں کی پیشانیوں پر بل پڑتے نظر آئے:
’’لگتا ہے… اب آپ میری بات کو سمجھ رہے ہیں۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
’’ہاں؟‘‘ وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔
’’اور عرفان صاحب ایسے آدمی ہیں نہیں کہ فائل کے بارے میں کسی کو ایک لفظ بھی بتا دیں۔‘‘
’’تب پھر۔‘‘ پالگا کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔
’’تب پھر یہ کہ آخر میں لکھے دی اینڈ کے بارے میں عرفان صاحب کو معلوم تھا… محکمہ اطلاعات کے اور کسی شخص کو معلوم نہیں تھا… کیونکہ۔‘‘ انسپکٹر جمشید ڈرامائی انداز میں رک گئے۔
’’کیونکہ کیا؟‘‘
’’کیونکہ انھیں یہ لکھنے کے لیے میں نے کہا تھا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میں نے ان سے کہا تھا… اس فائل کے آخر میں دی اینڈ لکھ دیں اور اس پر اس طرح Z بنا دیں اور زیڈ پر ایک نقطہ لگا دیں… کیونکہ اس فائل کو اڑانے کا منصوبہ بن چکا ہے… اس لیے اس کی کوئی نہ کوئی نشانی ضرور ہونی چاہیے… چنانچہ عرفان صاحب نے میرے سامنے یہ لکھ دیا تھا… اور میں نے عرفان صاحب سے کہا تھا… اس فائل کے اس نشان کے بارے میں کسی سے ذکر نہ کریں۔‘‘ انسپکٹر جمشید ایک بار پھر خاموش ہوگئے۔
’’تب پھر… اس سے کیا ہوگیا۔‘‘
’’میرا مطلب ہے… آپ لوگوں کو یہ بات کس نے بتائی… کہ اصل فائل کی نشا نی یہ ہے۔‘‘
’’جس نے فائل اڑانے کا منصوبہ بنایا۔‘‘
’’جب کہ فائل کے آخر میں جو یہ لکھا گیا ہے… اس کا علم صرف مجھے تھا یا پھر عرفان صاحب کو… بلکہ عرفان صاحب کو میں نے ہی یہ لکھنے کے لیے کہا تھا… اس سے آپ کیا مطلب نکالیں گے بھلا۔‘‘
’’یہ کہ سارا منصوبہ عرفان صاحب نے خود بنایا ہے۔‘‘
’’لیکن! وہ ایسے آدمی نہیں ہیں۔‘‘
’’تب پھر یہ منصوبہ آپ کا ہے… اور آپ وہ شخص ہیں… جو اس فائل کا سودا کررہے ہیں… لیکن یہ کیسے ممکن ہے بھلا۔‘‘ مارے حیرت کے پالگا نے کہا۔
’’پہلے یہ بتائیں… جس شخص نے آپ کو فائل کا منصوبہ بنا کر دیا… آپ اس سے واقف ہیں۔‘‘
’’نہیں… بالکل نہیں۔‘‘
’’تب پھر اس نے آپ کو منصوبہ کس طرح بنا دیا۔‘‘
’’مجھے ایک گمنام فون ملا تھا… یہ کہ کچھ طاقتیں اس ملک کی ایک بہت اہم فائل کے چکر میں ہیں… وہ فائل اس قدر اہم ہے کہ اگر ان طاقتوں کے ہاتھ لگ گئی تو ملک کہیں کا نہیں رہے گا… اسے اس قدر بڑا نقصان پہنچے گا کہ پھر شاید سو سال تک یہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا… وہ طاقتیں یہ فائل حاصل ضرور کرنا چاہتی ہیں… لیکن ان کے پاس حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں… جب کہ یہ طریقہ انھیں میں بتا سکتا ہوں… اگر تم کہو تو میں پورا منصوبہ بنا کر دے سکتا ہوں… اور اس پر عمل کرنے کے قابل بھی بنا دوں گا… اب ظاہر ہے… ہمیں اور کیا چاہیے تھا… میں نے ان حضرات سے بات کی… یہ تیار ہوگئے، بس انھوں نے شرط یہ رکھی کہ فائل کو ایک نظر دیکھ کر رقم طے کریں گے… کیونکہ منصوبہ بنانے والا تو سامنے آنے کے لیے تیار نہیں تھا… آخر ہم نے اس سے کام لینے کا فیصلہ کر لیا اور اسے منصوبہ بنانے کے لیے کہ دیا… چنانچہ اس کے منصوبے کے تحت ہم لوگ عرفان صاحب کے گھر میں داخل ہوئے… یہ منصوبہ ساز ہی تھا… جس نے تمام معلومات دیں… کہ کس گھر کے ذریعے ہمیں داخل ہونا ہے… پہلے کون لوگ جائیں گے… پھر کون جائے گا… اور فائل لے کر کس طرح واپس آنا ہے… وغیرہ وغیرہ… اصل فائل کی نشانی بھی اسی نے بتائی تھیں… اس طرح ہم نے فائل حاصل کر لی… لیکن آپ ہمارے پیچھے لگ گئے… پھر یہ ہوا کہ آپ یہاں سرائے تک بھی آگئے۔‘‘
’’بہت خوب! میرا سوال اپنی جگہ موجود ہے… منصوبہ ساز کو فائل کی اصل نشانی کے بارے میں کس نے بتایا۔‘‘
انسپکٹر جمشید نے بلند آواز میں کہا:

*****

ان کی نظریں انسپکٹر جمشید پر جم گئیں… تھوڑی دیر پہلے جن لوگوں کو انھوں نے بے بس کر کے ایک کمرے میں ڈال دیا تھا… اب وہ ان سب پر پوری طرح چھائے ہوئے نظر آرہے تھے…
’’آپ نے بتایا نہیں۔‘‘ انسپکٹر جمشید پھر بولے۔
’’یا آپ بتاسکتے تھے… یا عرفان صاحب… کیونکہ خود آپ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ فائل پر خاص نشان خود آپ نے لگوایا تھا… لگانے والے خود عرفان صاحب تھے… لہٰذا کسی تیسرے کو تو یہ بات معلوم ہی نہیں تھی… لہٰذا آپ بتا سکتے تھے یا عرفان صاحب۔‘‘
’’میں کہ چکا ہوں کہ عرفان صاحب ایسے آدمی نہیں ہیں۔‘‘
’’تب پھر منصوبہ ساز کو آخر کس نے یہ بات بتائی۔‘‘
’’اس سے بھی پہلے سوال یہ ہے کہ منصوبہ ساز ہے کون… کوئی بات اسے کوئی بتائے گا تو اس صورت میں جب اس کے بارے میں کسی کو پتا ہوگا… لیکن ہم دیکھ رہے ہیں… آپ لوگوں میں سے کوئی اسے نہیں جانتا۔‘‘
’’ہاں! یہی بات ہے… اب آپ ہم سے پہیلیاں نہ بجھوائیں اور صاف صاف بتا دیں… منصوبہ ساز کو یہ بات کس نے بتائی تھی۔‘‘
’’میں نے۔‘‘ آخر انسپکٹر جمشید نے یک دم کہا۔’’اور میں خود ہی منصوبہ ساز ہوں۔‘‘
’’کیا!!!‘‘ وہ سب کے سب چلا اٹھے۔
’’یہ… یہ آپ کیا کہ رہے ہیں… محمود کی آواز کانپ گئی… انھوں نے جیسے اس کا جملہ سنا ہی نہیں۔‘‘
’’کیا کہا آپ نے… منصوبہ ساز کو یہ بات آپ نے بتائی تھی۔‘‘ پالگا مارے حیرت کے بولا۔
’’ہاں! میرے علاوہ اور کون بتا سکتا تھا۔‘‘
’’تو ملک کی اس قدر اہم فائل کا سودا کرنے والے دراصل آپ خود ہیں… بچو! تم نے سنا… تمہارے والد کیا ہیں۔‘‘ پالگا کے لہجے میں گہرا طنز شامل ہوگیا۔
محمود، فاروق اور فرزانہ کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا… وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے… انھیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا… وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے… کہ ان کے والد یہ کام کر سکتے ہیں… لیکن مشکل یہ تھی کہ خود ان کے والد یہ بات اپنے منہ سے کہ رہے تھے… ا ب وہ کرتے تو کیا اور کہتے تو کیا… ادھر پالگا سوالیہ نشان بنا انھیں تک رہا تھا… آخر محمود نے کہا:
’’ہاں! ہم نے سنا… اور اب آپ ایک بات ہماری بھی سن لیں… بعض اوقات جونظر آتا ہے… وہ بات ہوتی نہیں… یا جو ہم سنتے ہیں… بات اس طرح نہیں ہوتی… اس وقت بھی صورتِ حال کچھ اسی قسم کی ہے… بہت جلد اصل صورت تم لوگوں کے سامنے آجائے گی۔‘‘
’’خیر خیر… جب اصل صورتِ حال سامنے آجائے تو ہمیں بتا دینا۔‘‘ پالگا ہنسا۔
’’ضرور کیوں نہیں۔‘‘
’’تم مجھ سے بات کرو… انھیں پریشان نہ کرو… میں کہہ رہا تھا، اگر یہ بات منصوبہ ساز کو میں نے بتائی تھی… تو پھر تو مجھے ساری صورتِ حال معلوم تھی… پھر میں یہاں کیسے آپھنسا۔‘‘
’’ہمیں کیا پتا کہ آپ یہاں کیسے آپھنسے… ہمیں تو آج یہ معلوم ہوگیا کہ بہت بڑے محبِ وطن بننے والوں کا اصل روپ کیا ہے… ان کے روپ ہم جیسوں سے کوئی الگ نہیں… ہم جیسے ہی ہیں۔‘‘
’’چلیے شکر ہے… آپ کو پتاتو چل گیا… اب آپ سب نے جان لیا ہوگا کہ یہ سارا معاملہ میرے علم میں تھا… لہٰذا اصل فائل بھلا میں کیوں آپ لوگوں کے ہاتھ لگنے دیتا… کیا سمجھے۔‘‘
’’مطلب یہ کہ یہ فائل بالکل نقلی ہے۔‘‘ ایک غیر ملکی نے سرد آواز میں کہا۔
’’ہاں بالکل۔‘‘
’’تب پھر اصل فائل کس کے پاس ہے۔‘‘
’’میرے پاس۔‘‘
’’اور تم اس کا سودا ہم سے کرنا چاہتے ہو۔‘‘
’’ہاں! کر لیتا ہوں… لیکن پہلے پالگا کو الگ کر دو… آخر اس سودے میں ہم اسے کیوں شامل کریں اور وہ دیکھیے… اس کا ہاتھ میز کے بٹن کی طرف جارہا ہے… گویا یہ اپنے ساتھیوں کو بلانا چاہتا ہے… پہلے تو اسے قابو میں کر لیں۔‘‘
’’فکر نہ کریں۔‘‘
ان دس میں سے چار کے قریب پالگا پر ٹوٹ پڑے اور جلد ہی اس کا بھرکس نکال دیا… وہ ادھ موا سا ہوگیا… پھر اسے رسیوں سے جکڑ دیا گیا:
’’اب آپ لوگ اپنے پستول جیبوں میں رکھ لیں… تاکہ ہم پرسکون فضا میں بات کر سکیں۔‘‘
’’پہلے یہ بتائیں… اصل فائل کہاں ہے۔‘‘
’’میرے پاس! میں فائل کو ابھی آپ کے حوالے کر سکتا ہوں… یہ کوئی مسئلہ نہیں… لیکن پہلے معاملہ طے ہوجائے… ہم خالی ہاتھ ہیں… اور آپ دس ہیں… آپ کو آخر کیا خطرہ ہے… پستول جیب میں رکھ کر بات کرلیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے… اگر آپ نے کوئی چال چلنے کی کوشش کی تو نتیجے کی ذمے داری آپ پر ہوگی۔‘‘
’’بالکل مجھ پر ہوگی… آپ فکر نہ کریں۔‘‘ وہ بولے۔
انھوں نے پستول جیب میں رکھ لیے… پھر ایک نے کہا:
’’اب ہوجائے معاملے کی بات۔‘‘
’’اس سے پہلے تعارف… کیونکہ میں آپ لوگوں کو نہیں جانتا… پالگا ضرور جانتا ہوگا… اس لیے پہلے آپ تعارف کروائیں۔‘‘
انھوں نے باری باری اپنے نام اور ملک کے نام بتائے… یہ لوگ انشارجہ، شارجستان، برٹائن، ونٹاس، بیگال وغیرہ کے لوگ تھے… یعنی سب کے سب ان کے ملک کے بدترین دشمن تھے… اور اسی لیے فائل حاصل کرنے کے لیے بے چین تھے…
’’بہت خوب! تعارف کرانے کا شکریہ… فائل میرے گھر میں ہے… آپ پسند کریں تو یہاں منگوا لیتے ہیں… یا پھرآپ میرے گھر چلیں۔‘‘
’’ہم کہیں نہیں جائیں گے… آپ فائل یہاں منگوالیں… ہم تسلی کر کے اس کی قیمت آپ کو دے دیں گے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک… میں فون کرتا ہوں۔‘‘
’’ایک منٹ! ہمیں کیا پتا آپ کسے فون کریں گے… فائل آپ کے گھر میں ہے تو گھر کے نمبر ملا کر ہمیں دکھا دیں… ہمارے پاس آپ کے گھر والے موبائل کے نمبر ہیں… پی ٹی سی ایل کے نمبر بھی ہیں… آپ پی ٹی سی ایل پر فون کریں۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ انھوں نے کہا اور گھر کے نمبر ملائے… سکرین پر انھیں نمبر دکھائے اور بولے:
’’کیا خیال ہے… بٹن دبا دوں۔‘‘
’’بٹن ہم خود دبائیں گے۔‘‘
’’ضرور کیوں نہیں۔‘‘ انھوں نے اپنا موبائل ان میں سے ایک کی طرف بڑھا دیا… یہی بات کر رہا تھا… اس نے بٹن دبا کر موبائل ان کے حوالے کیا… دوسری طرف سے بیگم جمشید کی آواز سنائی دی…
’’السلام علیکم… فرمائیے۔‘‘
’’بیگم! میں نے تمہیں جس فائل کے بارے میں ہدایات دی تھیں نا۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئے۔
’’وہی Z والی فائل۔‘‘
’’بالکل بالکل۔‘‘
’’آپ فکر نہ کریں… وہ بالکل محفوظ ہے۔‘‘ ادھر سے کہا گیا۔
’’اوہو! وہ تو میں جانتا ہوں… مجھے اس فائل کی یہاں ضرورت ہے… بہت اچھے گاہک مل گئے ہیں… بس یوں سمجھ لو… تیس کروڑ تو کہیں گیا نہیں۔‘‘
’’خوب! سن کر مزہ آیا… کہاں لے کر آؤں۔‘‘
’’سرائے پالگا… نون روڈ کے آخر میں واقع ہے… تم باہر پہنچ کر مجھے رنگ کرنا… سرائے کا کوئی ذمے دار آدمی تمہیں مجھ تک لے آئے گا اور فائل خفیہ انداز سے لے کرآنا… جیسا کہ میں نے تمہیں سمجھایا ہوا ہے۔‘‘
’’آپ فکر نہ کریں۔‘‘
’’بس تو پھر تم روانہ ہوجاؤ… یہ پینتیس منٹ کا راستہ ہے۔‘‘
’’ٹھیک پینتیس منٹ بعد رنگ کروں گی ان شاء اللہ۔‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا اور انسپکٹر جمشید نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔
’’اب ہمیں پینتیس منٹ انتظار کرنا ہوگا۔‘‘
’’کوئی پروا نہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’بس آپ لوگ پالگا کا خیال رکھیں… یہ کوئی بٹن نہ دبانے میں کامیاب ہوجائے، اس طرح اس کے خونخوار ملازم نیچے آجائیں گے۔‘‘
’’اس سے پہلے یہ لاش میں تبدیل ہوجائے گا۔‘‘ ایک اور نے سرد آواز میں کہا۔
تہہ خانے میں موت کا سناٹا طاری ہوگیا… ان میں سے ہر ایک کا دل دھک دھک کر رہا تھا… ایک ایک منٹ مشکل سے گزر رہا تھا… ان کی نظریں بار بار اپنی گھڑیو ں کی طرف اٹھ رہی تھیں… سب سے برا حال پالگا کا تھا… اسے رسیوں سے باندھ دیا گیا تھا اور منہ میں بھی کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا… محمود فاروق اور فرزانہ بار بار اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے… اور ان کی مسکراہٹیں پالگا کے تن بدن میں آگ لگا رہی تھیں… اس کا بس نہیں چل رہا تھا… ورنہ ان سب کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا… فائل کے سلسلے میں ساری بھاگ دوڑ اس کی تھی… لیکن اب اس کی حیثیت صفر ہو کر رہ گئی تھی… وہ پیچ و تاب نہ کھاتا تو کیا کرتا…
آخر پینتیس منٹ بعد ان کے موبائل کے گھنٹی بجی:
’’میری بیگم آگئیں… آپ کرسی میں لگا بٹن دبا دیں… اوپر سے کوئی پالگا کو مخاطب کرے گا۔‘‘
’’لیکن پالگا تو بندھا پڑا ہے… اور پھر ہم اسے بات کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں دے سکتے… لہٰذا اس کی بجائے میں بات کروں گا۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’کیامطلب… آپ بات کریں گے… وہ بھلا آپ کا حکم کیوں ماننے لگے۔‘‘
’’میں ان سے پالگا کی آواز میں بات کروں گا… آپ فکر نہ کریں۔‘‘ انھوں نے یہ الفاظ بھی پالگا کی آواز میں کہے تھے… ان کے منہ مارے حیرت کے کھل گئے… پھر ایک نے کرسی کے پائے میں لگابٹن دبا دیا…
’’یس سر۔‘‘ فوراً آواز اُبھری۔
’’سرائے کے باہر ابھی ابھی ایک خاتون آئی ہیں… انھیں تہہ خانے میں بھیج دو… لیکن ایسا کرنے سے پہلے چاروں طرف کا جائزہ لے لینا۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر… آپ فکر نہ کریں۔‘‘
جلد ہی تہہ خانے کا دروازہ کھلا اور بیگم جمشید سیڑھیاں اترتی نظر آئیں… ایک ایک سیڑھی کر کے وہ نیچے آرہی تھیں اور ان کی نظریں گویا ان کے پیروں سے چپک کر رہ گئی تھیں…
اور پھر وہ ان کے سامنے آگئیں… انھوں نے ایک فائل اپنے کپڑوں کی ایک سلائی کو کھول کر نکالی اور ان کی طرف بڑھا دی…
ادھر انسپکٹر جمشید نے فائل لینے کے لیے ہاتھ بڑھا دیے:

*****

’’لو دوستو! فائل آگئی۔‘‘
’’اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ اصل فائل ہے۔‘‘
’’وہ میں ثابت کروں گا، لیکن۔‘‘ انھوں نے کہا۔
’’لیکن کیا!‘‘
’’لیکن اس سے پہلے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ ہم لوگ یہاں سے نکلیں گے کیسے… ظاہرہے… جب اوپر پالگا کے آدمی موجود ہیں… اور جب تک پالگا انھیں حکم نہیں دے گا… اس وقت تک وہ لوگ کسی کو جانے نہیں دیں گے… دو چار تو وہ ہیں نہیں… پچاس سے زیادہ ہیں اور اسلحے سے پوری طرح لیس ہیں… اس لیے آپ رقم میرے حوالے کر دیں… فائل آپ قابو میں کر لیں… پھر میں آپ لوگوں کو یہاں سے نکلنے کی ترکیب بتاؤں گا۔‘‘
’’اچھی بات ہے… ہمارے پاس بریف کیسوں میں نقد رقم ڈالرز کی صورت میں موجود ہے۔‘‘
’’وہ آپ ایک بڑے بریف کیس میں ڈال دیں… ہم لوگ یہاں سے اتنے بریف کیس کو اٹھا کر نہیں جائیں گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘
اب انھوں نے اپنے اپنے بریف کیسوں میں سے ڈالرز نکال نکال کر ایک بڑے بریف کیس میں رکھ دیے… وہاں کئی خالی بریف کیس موجود تھے… ظاہر ہے… پالگا ایسی بڑی رقمیں وصول کرتا رہتا ہوگا…
یہ رقم بریف کیس میں رکھ دی گئی تو انسپکٹر جمشید نے کہا:
’’رقم ہمیں مل گئی اور فائل آپ کو… اب صرف یہاں سے نکلنے کا کام باقی ہے… اور وہ آپ میری مدد کے بغیر نکل نہیں سکتے… کیونکہ پالگا کی آواز میں اس کے ملازمین کو حکم میں دے سکتا ہوں… آپ نہیں دے سکیں گے۔‘‘
’’ہاں! ٹھیک ہے۔‘‘
’’اور پالگا کو ہم کھول نہیں سکتے… ورنہ یہ ابھی اپنے آدمیوں کو حکم دے دے گا اور یہاں خون خرابہ ہوجائے گا… آپ خون خرابے کو تو پسند کرتے نہیں ہوں گے۔‘‘
’’بالکل نہیں… ہم شریف لوگ ہیں۔‘‘
’’الحمدللہ! ہم بھی شریف لوگ ہیں۔‘‘
’’وہ تو بریف کیس میں رکھی یہ رقم ہی بتا رہی ہے… کہ انسپکٹر جمشید دراصل چھوٹے ہاتھ نہیں مارتے… بہت بڑے بڑے ہاتھ مارتے ہیں۔‘‘
’’آپ کو پتا ہی ہے… اس دنیا میں کیسے کیسے لوگ موجود ہیں… بس میں بھی اسی دنیا کا انسان ہوں۔‘‘
’’یہ تو ہے… خیر اب آپ اس کے ملازمین سے کہیں… ہمیں جانے دیا جائے گا۔‘‘
’’پہلے میری بیگم جائیں گی… پھر آپ لوگ جائیں گے… کیونکہ جب تک ہم رقم کو محفوظ جگہ پر نہیں پہنچا دیتے… اس وقت تک آپ کو نہیں جانے دیں گے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’کیا خبر… باہر آپ لوگوں نے اپنے کچھ لوگ مقرر رکھے ہوں اور وہ یہ رقم اڑا لے جائیں… کیونکہ اس رقم کے بارے میں تو آپ ہی کو معلوم تھا نا… اور پالگا اپنی رقم خود چھنوا سکتا نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے… آپ انھیں بھیج دیں…‘‘ ایک نے مردہ آواز میں کہا… گویا انھوں نے ایسا انتظام واقعی کر رکھا تھا۔
’’بیگم تم اس خفیہ مقام پر پہنچ کر مجھے رنگ کر و گی… جو ہمارے درمیان طے ہوا تھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
اب انسپکٹر جمشید نے بٹن دبا دیا… اوپر سے فوراً کہا گیا:
’’یس باس!‘‘
’’سنو! وہ خاتون جسے تم نے ابھی نیچے بھیجا تھا… ایک بریف کیس لے کر اوپر آرہی ہے… اسے جانے دیا جائے۔‘‘
’’اوکے باس۔‘‘
’’جاؤ بیگم… اللہ حافظ۔‘‘
’’اللہ حافظ۔‘‘ انھوں نے کہا اور جانے کے لیے مڑ گئیں… جاتے ہوئے انھوں نے الوداعی انداز میں ہاتھ بھی ہلایا… انھوں نے بھی ہاتھ ہلائے… پھر وہ سیڑھیاں چڑھنے لگیں اور آخر دروازہ کھول کر باہر نکل گئیں…
’’اب ہمیں ان کے پیغام تک یہیں رکنا ہے۔‘‘
’’آخر اس کی کیا ضرورت… ہم نے باہر کسی کو اس کام کے لیے مقرر نہیں کیاکہ… وہ یہ ڈالرز چھین لے۔‘‘
’’ہم اپنا اطمینان چاہتے ہیں۔‘‘
’’آپ کی مرضی۔‘‘ ڈھیلے انداز میں کہا گیا اوروہ مسکرا دیے:
اور پھر پندرہ منٹ بعد ان کے موبائل کی گھنٹی بجی… فون بیگم جمشید کا تھا:
’’میں محفوظ جگہ پہنچ گئی ہوں… کسی نے میرا تعاقب کرنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘
’’بس ٹھیک ہے۔‘‘
اب انسپکٹر جمشید ان کی طرف مڑے:
’’رقم محفوظ جگہ پہنچ گئی دوستو… اب آپ لوگوں کو رخصت کرنا ہے اور پھر خود ہمیں بھی یہاں سے جانا ہے… آپ اپنے پستول یہیں چھوڑ دیں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’اگر پستول آپ کے پاس ہوئے اور سرائے سے باہر پولیس ہوئی تو آپ کو جواب دینا مشکل ہوجائے گا… اور ہمیں ہر شک سے دور رہ کر یہاں سے نکلنا ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘
انھوں نے پستول وہاں چھوڑ دیے اور اوپر چلے گئے… انسپکٹر جمشید نے پھر اوپر بات کی… انھوں نے کہا:
’’یہ دس غیر ملکی آرہے ہیں… انھیں بھی جانے دیا جائے۔‘‘
’’اوکے سر۔‘‘
اور پھر وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گئے:
’’اب رہ گئے… مسٹر پالگا او رہم اور اکرام۔‘‘
’’اور اکرام… کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ بے چارے اکرام کے منہ پر جو مسٹر پالگا نے مکا مارا… اور یہ ہیں قانون کے محافظ… تو اس مکے کا بدلہ تو پالگا سے لینا پڑے گا نا… اور یہ مکا سرائے کے تمام ملازمین کے سامنے مارا جائے گا۔‘‘
’’بھلا یہ کیسے ممکن ہے ابا جان۔‘‘
’’بھئی اگر پالگا مکا مار سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں مار سکتے۔‘‘ وہ بولے۔
’’اس لیے کہ اوپر اس کے پچاس خوں خوار آدمی موجود ہیں… جب کہ ہمارا ایک آدمی بھی نہیں ہے۔‘‘
’’اگر ہم نے اپنے آدمیوں کے ہوتے ہوئے مکا مارا تو کیا مزہ… مزہ تو تب ہے جب ہم اس کے سب لوگوں کی موجودگی میں مکا ماریں۔‘‘
’’کیا آپ کے ذہن میں کوئی ترکیب ہے۔‘‘
’’نہیں… اور نہ یہ میرا کام ہے۔‘‘ وہ مسکرائے۔
’’جی… کیا مطلب؟‘‘ وہ ایک ساتھ بولے۔
’’سیدھی سی بات ہے… ہمیشہ فرزانہ ترکیب بتاتی ہے… اب بھی وہی بتائے گی۔‘‘
’’جج… جی… مم… مم… یعنی کہ میں میں۔‘‘ فرزانہ بری طرح ہکلائی۔
’’ہاں کیوں… آج سے پہلے تو پٹ پٹ ترکیبیں بتاتی ہو… آج کیوں نہیں؟‘‘
’’اچھی بات ہے… لیکن اس سے پہلے میں یہ جاننا چاہتی ہوں، آپ نے آخر ان دس غیرملکیوں کو کیوں جانے دیا… کیا آپ کے خیال میں وہ مجرم نہیں تھے۔‘‘
’’مجرم کیوں نہیں ہیں… تمہارے سوال کا جواب جلد ملے گا… تم ترکیب بتاؤ۔‘‘
’’ترکیب آسان ہے… اب ہم سرائے کے ملازمین کو قابو میں کر سکتے ہیں… پالگا ہمارے قابو میں ہے… ہم اس کے موبائل سے… ارے مم… مگر نہیں… یہ کام تو امی جان کر چکی ہوں گی۔‘‘
’’اب آئی عقل… انھیں اسی لیے تو بلوایا تھا… سرائے کے تمام ملازمین اب ہمارے قابو میں ہیں… اور ہم پالگا کو اوپر لے جارہے ہیں۔‘‘
یہ کہ کر انسپکٹر جمشید نے اپنی فورس سے رابطہ کیا… جلد ہی وہ نیچے آتے نظر آئے… اور پھر وہ سب پالگا سمیت اوپر آگئے… دس کے دس غیر ملکی بھی اب فورس کے نشانے پر تھے اور ان کے رنگ فق ہوچکے تھے…
’’اکرام… ایک مکہ اپنی طرف سے اور ایک مکا میری طرف سے پالگا کے چہرے پر… اسے احساس دلا دو… قانون کے محافظوں کے منہ پر مکا مارنے والے کا اپنا چہرہ سلامت نہیں رہ سکتا… چلو شاباش۔‘‘
’’نہیں سر… رہنے دیجیے… اب یہ اپنی سزا بھگتے گا ہی۔‘‘
’’وہ سزا بعد میں شروع ہوگی… اور یہ بھی جان لو… ہم یہ مکا تمہارے بدلے میں نہیں ماریں گے… بلکہ قانون پر ہاتھ اٹھانے کے بدلے میں ماریں گے… تم قانون کے نام پر مکا مارو… بلکہ دو مکے۔‘‘
’’جی… بہتر۔‘‘
اب اکرام آگے بڑھا… ایسے میں پالگا کے منہ سے نکلا:
’’نن نہیں۔‘‘
’’پہلے یہ بتاؤ… تم یہ گھناؤنا کھیل کس کی مدد سے کھیلتے رہے ہو… سرکاری راز دشمن ملکوں کے حوالے کرنے کاشرم ناک کھیل۔‘‘
’’نن نہیں… میں نہیں بتاؤں گا۔‘‘
’’خیر… تم نہ بتاؤ… میں بتا دیتا ہوں… اس کا نام ہے، آفاق ہادی۔‘‘
’’کیا!!!‘‘ وہ ایک ساتھ چلا اٹھے۔
’’ہاں! یہ کھیل آج کا نہیں… کافی پرانا ہے… اصل مجرم پالگا ہے… یہ آفاق ہادی جیسوں کے ذریعے کام لے کر راز حاصل کرتا ہے اور راز ان جیسے لوگوں کو فروخت کرتا ہے۔‘‘ یہ کہتے وقت انھوں نے دس آدمیوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’لیکن کیسے؟‘‘
’’عرفان صاحب بہت شریف اور سیدھے آدمی ہیں… محکمہ اطلاعات کے ذمے دار انسان ہیں… ادھر آفاق ہادی ایک بہت پرانے گروہ کے پرانے سربراہ کالیا ہیں۔‘‘
’’اوہ اوہ۔‘‘
’’کالیا نے مدت پہلے اپنا گروہ ختم کر دیا تھا… اور جرائم سے کنارہ کر لیا تھا… لیکن انسان کو آخر اپنے جرائم کی سزا تو ملنا ہوتی ہے… اس لیے… ان کے کسی پرانے مہربان نے انھیں پھر اکسایا اور یہ کہا کہ عرفان صاحب کے گھر سے ایک فائل اڑانی ہے… اور اس کام کی بہت بھاری رقم ملے گی… اور یہ کام آپ کے لیے مشکل ثابت نہیں ہوگا… کیونکہ آپ کی چھت کے ذریعے عرفان صاحب کے گھر آسانی سے جاسکتے ہیں اور ایسی ترکیب اختیار کی جاسکتی ہے کہ فائل آسانی سے اڑائی جائے… سو وہ یہ تیار ہوگئے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے… آفاق ہادی۔‘‘
’’ہاں! اور اسے تیار کرنے والے صاحب ہیں پالگا… یہ بھی کسی زمانے میں کالیا گروہ کے سرگرم کارکن رہے ہیں اور اسی دولت سے انھوں نے یہ اتنی بڑی سرائے بنائی تھی۔‘‘
’’اوہ… اوہ۔‘‘
’’دراصل مجھ سے عرفان صاحب نے ملاقات کی تھی… انھوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ خفیہ طور پر کچھ لوگ ہمارے محکمے کی فائلیں اڑا رہے ہیں… وہ ان کی نقل تیار کر کے فائل پھر اس جگہ پر رکھ رہے ہیں… اس پر میں نے ان کے گھر کا خاموشی سے جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کے کمرے میں خفیہ آلات نصب کیے گئے ہیں… ان کے ذریعے یہاں ہونے والی بات سنی جاتی ہے… سو میں نے انھی کے کمرے میں ان سے ملاقات کی اور اس فائل کی اہمیت کے بارے میں بات کی… اور اس کے آخر میں Z والا نشان لگانے کی بات کی… ان آلات کے ذریعے بات چیت آفاق ہادی سنتا تھا… اور پالگا کو بتاتا تھا… اس طرح یہ لوگ فائلوں سے نقب لگاتے تھے… اس طرح اس کیس کے اصل ہیرو ہم نہیں… عرفان صاحب ہیں… کیونکہ اصل بات انھوں نے محسوس کی تھی… میں نے بس انھیں پکڑنے کا ایک منصوبہ بنایا تھا اور اس پر عمل کیا ہے… اللہ کا شکر ہے… مجرم پکڑے گئے… ان سے حاصل ہونے والے ڈالرز حکوم کے کام آئیں گے اور حکومت کانقصان پہنچنے والا یہ سلسلہ ختم ہوا… الحمدللہ!‘‘
’’ان کے دھوئیں کے بم مارنے کا اندازہ ہمیں بھی نہیں تھا… وہ اچانک پیش آیا تھا… اس طرح ہم وہاں مار کھا گئے… اب آفاق ہادی کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں… بہت جلد اسے بھی گرفتار کر لیا جائے گا… اول تو پالگا صاحب کو جب کمرۂ امتحان میں لے جایا جائے گا تو یہ اس کے بارے میں بہت جلد بتا دیں گے کہ وہ کہاں مل سکتا ہے۔‘‘
اور پھر یہی ہوا… پالگا نے فوراً ہی اس کے چھپنے کی تین چار جگہوں ک نشان دہی کر دی… اس طرح اس کی گرفتاری عمل میں آگئی… اس وقت فاروق نے خوش ہو کر کہا:
’’چلو چھٹی ہوئی۔‘‘
’’لیکن کس کی؟‘‘ محمود نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’مجرموں کی اور کس کی… ہماری تو چھٹی ہونے سے رہی… ایک آدھ دن ہی مشکل سے گزرے گا… کہ پھر کوئی کیس پلے پڑ جائے گا۔‘‘ فاروق ہنسا۔
’’دھت تیرے کی۔‘‘ فرزانہ نے محمود کے انداز میں کہا اور سب کے چہروں پر مسکراہٹیں کھیلنے لگیں۔

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top