موسم گزر گیا
شاہین اقبال اثر
وہ پوچھتے ہیں کس لئے چہرہ اتر گیا
سنئے ! خدا نخواستہ کیا کوئی مر گیا
کیا کھو گیا ہے آپ کا بٹوہ جنابِ من
یا جیب کترا ، جیب کہیں صاف کر گیا
کیا چوری ہو گئی ہے کہیں بھینس آپ کی
یا بیل راہِ راست سے ہٹ کر ٹکر گیا
کیا دشمنوں کی آج طبیعت خراب ہے
یا دل کسی چڑیل کے سائے سے ڈر گیا
دل ہی تو ہے یہ، سنگ یا آہن تو ہے نہیں
اصرارِ تعزیت پہ با لآخر بپھر گیا
رو کر کہا کہ آپ کو اس کی خبر نہیں؟
مہمان آیا ، آتے ہی واپس وہ گھر گیا
اب تو سمجھ گئے، کہ ہوں مغموم کس لئے
محبوب دوست ’’آم‘‘ کا موسم گزر گیا
Facebook Comments