موذی کی اذیت
کاوش صدیقی
فائزہ باورچی خانے میں جیسے ہی داخل ہوئی، اسے بھن بھن کی آواز یں سنائی دیں۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو دو تین شہد کی مکھیاں ہوا میں منڈلا رہی تھیں۔ اس نے باورچی خانے سے باہر نکل کر دیکھا تو سنک کے اوپر والی کھڑکی کے اوپر بنے چھوٹے سے شیڈ کے اوپر شہد کی مکھیاں اپنا چھتا بنارہی تھیں۔
’’واہ وا…شہد کا چھتا۔‘‘ فائزہ نے خوش ہو کے فضا میں ہاتھ لہرائے۔’’ اب مزہ آئے گا…!‘‘
’’کیا ہوا…؟‘‘عبدالاحد نے اپنے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے پوچھا۔’’بہت خوش نظر آرہی ہو۔‘‘
’’وہ دیکھیں۔شہد کی مکھیاں اپنا چھتا بنا رہی ہیں، اب مزیدار تازہ شہد کھانے کو ملے گا۔ ‘‘
’’اونہہ…!‘‘ عبدالاحد نے منہ بنا کے کہا۔’’بھلا اتنی جلدی شہد کا چھتا تھوڑی بنتا ہے۔ بڑا وقت لگتا ہے۔ تم تو بس ہتھیلی پر سرسوں جماتی ہو۔
’’بس آپ کو تو مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں آتا…!‘‘فائزہ نے تنک کے کہا۔
’’کیا بات ہے کیوں صبح صبح چونچیں چل رہی ہیں؟‘‘ امی نے کمرے سے باہر آتے ہوئے پوچھا۔
’’دیکھیں امی! بھائی مجھے تنگ کر رہے ہیں۔‘‘ فائزہ نے لاڈ سے ماں سے کہا۔
’’کیوں…؟‘‘امی نے عبدالاحد کو گھورا۔ وہ ہنسنے لگا۔
’’چلواب بچپنا چھوڑ و، صبح ہوئی نہیں اور بہن کوتنگ کرنا شروع کر دیا۔‘‘ امی نے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔’’چلو فائزہ! ناشتہ بنانے میں میری مدد کرو۔‘‘
’’جی امی…‘‘فائزہ جلدی سے ماں کے پاس آ گئی۔’’ اب مزے سے شہد کھایا کر یں گے۔‘‘ امی نے اس کی بات پر مسکرا کے اسے دیکھا اور بولیں۔’’ہر بات میں جلدی نہ کیا کرو، چھتا بنانے میں کافی دن لگتے ہیں۔‘‘
’’ تو ہمیں کون سا جلدی ہے…؟‘‘ فائزہ بڑی ہی پر جوش ہورہی تھی۔ ’’ہم بھی یہیں ہیں اور چھتا بھی یہیں۔‘‘
’’امی! ناشتہ جلدی سے دے دیں، کالج سے دیر ہورہی ہے۔‘‘عبدالاحد نے کنگھی کرتے ہوئے امی سے کہا۔
’’یہ لو بس تیار ہی ہے۔‘‘ امی نے جلدی سے ناشتے کی ٹرے فائزہ کو پکڑائی اور بولیں۔’ ’جاؤ جلدی سے بھائی کو دے آؤ۔‘‘
’’جی امی…!‘‘وہ جلدی سے ناشتے کی ٹرے لے کر باہر نکل گئی۔
۔۔۔
فائزہ اور عبدالاحد دو بہن بھائی تھے۔ان کے والد سعودی عرب میں بغرض ملازمت مقیم تھے جو ہر دو سال بعد چھٹیوں میں آیا کرتے تھے۔ فائزہ آٹھویں میں تھی اور عبدالاحد کالج کے دوسرے سال میں تھا۔ دونوں بہن بھائی میں محبت بھی بہت تھی اور لڑائیاں بھی خوب ہوتی تھیں،مگر اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
فائزہ سارا دن وقفے وقفے سے شہد کا چھتادیکھتی رہتی تھی۔امی اس کی بے چینی پر ہنس دیتی تھیں۔
’’امی آپ بھی میرا مذاق اڑارہی ہیں۔!‘‘فائزہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’مذاق نہیں، تمھاری بے چینی پر ہنسی آ رہی ہے۔‘‘ امی نے دھیمے سے کہا۔ ’’صبح سے تم دسیوںمرتبہ چھتا دیکھ چکی ہو مگر تمھاری تسلی نہیں ہوتی۔‘‘
فائزہ نے کہا۔ ’’میں تو بس یہ دعا کرتی ہوں کہ جلدی سے چھتا بڑا ہو جائے۔اس میں سیروں شہد بھر جائے اور ہم خوب مزے لے لے کر کبھی ڈبل روٹی پر لگا کر کھائیں، کبھی دودھ میں ڈال کر پییں اور کبھی ویسے ہی چمچ بھر بھر کر کھائیں۔‘‘ کہتے کہتے فائزہ کے تو منہ میں پانی بھر آیا۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔
امی نے اسے دیکھا تو ہنسنے لگیں پھر ذرا ٹھہر کے بولیں۔ ’’میر اتو خیال ہے کہ ابھی شہد کا چھتانیانیا ہے ہمیں اسے ابھی ہٹادینا چاہیے…!‘‘
’’ وہ کیوں امی…؟‘‘فائزہ نے بے چین ہو کے پوچھا۔
’’اصل میں شہد کی مکھیوں نے چھتا باور چی خانے کی سنک والی کھڑکی کے اوپر شیڈ میں لگایا ہے، اگر کھڑ کی کھلی یا بہت زیادہ باورچی خانے میں دھواں ہوا تو وہ بے چین ہوکر اندر آ سکتی ہیں۔شہد کی مکھیاں بہت براڈ نک مارتی ہیں۔‘‘ امی نے فائزہ کودیکھتے ہوئے سمجھایا۔
’’نہیں امی۔!‘‘فائزہ نے بڑے لاڈ سے مچل کے کہا۔
’’میں کھڑ کی بند رکھوں گی، بہت احتیاط کروںگی بس آپ چھتا نا ہٹائیں، میری اچھی امی۔!‘‘فائزہ نے اٹھ کر ماں کے گلے میں بانہیں ڈال لیں۔
’’اچھا…اچھا!‘‘ امی نے کہا۔’’ میں تو تمھارے بھلے کو کہہ رہی ہوں۔‘‘
’’اچھی امی! مان جائیے نا۔‘‘ فائزہ نے ماں کوپیار کرتے ہوئے ضدی لہجے میں کہا۔
’’اچھا بھئی جیسے تمہاری مرضی۔‘‘امی نے ہنس کر کہا۔
۔۔۔
فائزہ نے اپنی سہیلی ارم کو بتایا کہ ہمارے گھر میں شہد کی مکھیوں نے چھتا بنالیا ہے۔
’’ا چھا…!‘‘ارم نے دلچسپی سے کہا۔’’ مجھے بھی دکھانا، میں بھی دیکھوں گی۔‘‘
’’کیا تم نے شہد کا چھتا کبھی نہیں دیکھا۔؟‘‘فائزہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’ نہیں۔‘‘ ارم نے کہا۔ ’’ہم لوگ پہلے فلیٹ میں رہتے تھے۔ وہاں بلڈنگ میں ایسی چیزیں کہاں نظر آتی ہیں۔ یہاں پر جب سے آئے ہیں، بس تم ہی سے دوستی ہوئی ہے۔‘‘
’’اچھا تم آنا، میں تمھیں دکھاؤں گی۔‘‘ فائزہ نے اسے گھر آنے کی دعوت دی۔ وہ دونوں اسکول سے گھر واپس آ رہی تھیں۔ ارم چند ماہ پہلے ہی ان کی گلی کے گھر میں شفٹ ہوئی تھی اور پھر فائزہ سے اس کی دوستی ہوگئی تھی۔
گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ چھتا آہستہ آہستہ بڑھنے لگا اور ساتھ ہی شہد کی مکھیوں کی تعدادبھی بڑھنے لگی۔ فائزہ بہت خوش تھی کہ اس کا چھتاتیزی سے بڑا ہورہا ہے۔
اتوار کے دن چھٹی تھی۔
امی نے کہا۔ ’’عبدالاحد! مجھے ذرا اپنی خالہ جان کے گھر لے چلو۔ کئی دنوں سے اس کی طبیعت خراب ہے، اسے دیکھ آؤں۔‘‘ امی نے اپنی چھوٹی بہن کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔
’’تم چلوگی…؟‘‘ امی نے فائزہ کی طرف دیکھا۔
’’امی! میرے پیر کو دوٹیسٹ ہیں، میں گھر پر رہ کر یادکرلوں۔‘‘ فائزہ نے پوچھا۔
’’ہاں تم گھر پر پڑھو، میں دو گھنٹے تک آ جاؤں گی اور ہاں کوئی بھی آئے تو دروازہ بغیر پوچھے مت کھولنا…!امی نے برقع پہنتے ہوئے فائزہ کونصیحت کی۔
’’امی! آپ بے فکر ر ہیں۔‘‘فائزہ نے کہا۔’’میں اب اتنی چھوٹی بھی نہیں۔‘‘
’ ’کیا ہوا اگر لمبی ہوگئی ہو ،عقل تو تمہاری ٹخنوںمیں ہی ہے…!‘‘عبدالاحد نے بہن کو چڑایا۔
’’پھر شروع ہو گئے تم دونوں۔‘‘امی نے گھر کا۔
تھوڑی دیر بعد عبد الاحدامی کو لے کر چلا گیا تو فائزہ اپنی کتابیں لے کے بیٹھ گئی اور ٹیسٹ کی تیاری کرنے لگی۔
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی آواز آئی:
’’فائزہ…فائزہ!‘‘
فائزہ جلدی سے دروازے کی طرف لپکی۔ اس نے آواز پہچان لی تھی۔آنے والی ارم تھی۔
’’میں نے سوچا،تمھارے ساتھ ہی پڑھ لوں۔‘‘ ارم اپنی کتابیں ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوتے ہوئے بولی۔
’’اچھا کیا…!‘‘فائزہ نے کہا۔’’چائے شربت کچھ پیوگی۔؟‘‘
’’ارے نہیں، بس ابھی ابھی ناشتا کر کے ہی آئی ہوں۔‘‘ارم نے جواب دیا۔
دونوں بیٹھ کر پڑھنے لگیں۔
اچا نک ارم کو اپنے کان کے پاس بھنبھناہٹ سی سنائی دی۔اس نے سراٹھا کر اوپر دیکھا تو اسے دوشہد کی مکھیاں اڑتی دکھائی دیں۔
’’فائزہ! یہاں تو مکھیاں ہیں۔‘‘ارم نے کہا۔
’’ارے یہ سب میری دوست ہیں۔‘‘ فائزہ نے ہنس کر کہا۔’’ یہ شہد کی مکھیاں ہیں جو چھتے میں شہد جمع کر رہی ہیں۔‘‘
’’ارے ہاں، وہ چھتا مجھے بھی تو دکھاؤ…!‘‘ارم نے بڑے شوق سے کہا۔
’’چلو!‘‘فائزہ نے کتابیں میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
دونوں چھتے کے پاس آ گئیں جس کے اردگرد بہت ساری مکھیاں تھیں۔
’’دیکھا،کتنا بڑا چھتا ہے۔ ‘‘فائزہ نے کہا۔
’’مگر اس میں شہد کہاں ہے۔؟‘‘ارم نے تجسس سے پوچھا۔
’’وہ تو چھتے کے اندر ہے ناں۔‘‘فائزہ نے بتایا۔
’’چلوشہد نکالتے ہیں۔ ‘‘ارم اتاؤلی ہونے لگی۔
’’ارے نہیں ابھی تو چھتا بھراہی نہیں۔‘‘فائزہ نے منع کیا۔
’’تو ہم کون سا سارا شہد نکال لیں گے۔‘‘ ارم نے کہا اور قریب ہی پڑی چھڑی اٹھا کرچھتے پر مارنے لگی۔
’’ارے ارے…یہ کیا کر رہی ہو…؟‘‘فائزہ نے چلا کے کہا۔
’’کچھ نہیں، دیکھنا جیسے ہی شہد نکلے گا میں تھیلی پر لے لوں گی۔‘‘ ارم نے ہنس کر کہا اور اندازے سے ہاتھ آگے کر دیا۔
شہد کی مکھیوں نے یہ افتاد دیکھی تو بھرا مار کے ان کی طرف لپکیں اور چند ہی لمحوں میں دونوں کی چیخیں بلند ہونے لگیں۔ شہد کی مکھیوں نے ان پر حملہ کر دیا تھا۔ دونوں بری طرح اندر بھاگیں اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ درد اور جلن سے ان کی حالت بری ہورہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے چہرے اور ہاتھ سرخ ہو گئے اور سوجنے لگے۔ وہ دونوں ہی رورہی تھیں اور انھیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کریں تو کیا کریں؟
اسی وقت دروازے پر بیل ہوئی۔ فائزہ نے ڈرتے ڈرتے کمرے کا دروازہ کھولا اور پھر مرکزی دروازے تک بھاگ کر آئی۔امی اور عبد الاحد واپس آگئے تھے۔
’’ارے یہ کیا ہوا۔؟‘‘ امی اور عبدالاحد اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے۔
’’امی !شہد کی مکھیوں نے مجھے اور ارم کو کاٹ لیا ہے۔‘‘ فائزہ نے روتے ہوئے بتایا۔
عبدالاحد جلدی سے گلی والے ڈاکٹر سلیم کو بلا لایا۔انھوں نے آ کر دونوں کو انجکشن لگائے اور گولیاں دیں۔
امی نے کہا۔ ’’دیکھو، میں نے کہا تھا ناں کہ چھتا ہٹا دیتے ہیں مگر تم نہیں مانیں۔‘‘
’’ہاں… ہاں ہٹا دیں چھتا، بہت بری اوربہت خراب مکھیاں ہیں، یہ میری دوست نہیں ہو سکتیں۔‘‘ فائزہ نے درد سے کراہتے ہوئے کہا۔
امی کوہنسی آ گئی۔
عبدالاحد نے پوچھا۔’’امی آپ کیوں ہنسیں…؟‘‘
امی مسکراتے ہوئے بولیں۔’’مجھے شیخ سعدی کی ایک حکایت یاد آ گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ موذی کو اذیت دینے سے پہلے دور کر دو۔ اب دیکھو جب میں منع کر رہی تھی تو مان نہیں رہی تھی، اب کہتی ہے کہ مکھیاں بُری ہیں، حالاں کہ اس میں شہد کی ان مکھیوں کا قصور نہیں۔اللہ پاک نے ہر شے میں فائدہ اور ضرر رکھا ہے اور انسان کو عقل دی ہے کہ وہ ضرر سے محفوظ رہتے ہوئے فائدہ حاصل کرے،مگر جب بڑوں کی نصیحت نظر انداز کر دی جائے تو پھر یہی ہوتا ہے۔‘‘
’’ کیا ہوتا ہے۔؟‘‘فائزہ نے کراہتے ہوئے پوچھا۔
’’ سوجا ہوا منہ…!‘‘عبدالاحد نے شرارت سے کہا اور ہنستے ہوئے بہن کو دیکھنے لگا۔
۔۔۔۔۔
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے