skip to Main Content

۳۔محسن انسانیت

پروفیسر عفت گل اعزاز

۔۔۔۔۔۔۔۔

حضورﷺ کی شخصیت
آپﷺ کی دلکش شخصیت کو دیکھنے کا جن خوش قسمت لوگوں کو شرف حاصل ہوا،ان میں سے ایک معزز خاتون نے کہا۔”مطمئن رہو،میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا جو چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا۔“حضرت جابر بن سمرہ ؓنے کہا۔”میں کبھی چاند کو دیکھتا تھا اور کبھی آپ ﷺ کو۔بالآخر اس فیصلے پر پہنچا کہ حضور اکرمﷺ چاند سے کہیں زیادہ حسین ہیں۔“حضرت کعب بن مالک ؓنے فرمایا۔”خوشی میں حضور ﷺکا چہرہ ایسا چمکتا،گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔اس چمک کو دیکھ کر ہم آپﷺ کی خوشی کو پہچان جاتے۔“جب ہمارے پیارے نبی ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق ؓکے ساتھ ہجرت کے لئے نکلے اور مدینہ کی طرف سفر کا آغاز کیا تو راستے میں پہلے ہی روز قوم خزاعہ کی ایک نیک عورت کا خیمہ نظر آیا۔اس کا نام معبد تھا۔حضورﷺ اور آپ کے ساتھی کو پیاس لگ رہی تھی۔انہوں نے ام معبد سے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ملے گا۔تو اس نے ایک مریل سی بکری کی طرف اشارہ کیا کہ یہ دودھ نہیں دیتی۔حضورﷺ نے اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو خدا کے فضل سے بکری نے بہت سا دودھ دیا۔ان مہمانوں نے دودھ خوب سیر ہو کر پیا اور دودھ بچ بھی گیا۔مہمان چلے گئے۔کچھ دیر بعد عورت کا شوہر گھر کے اندر آیا اور وہاں دودھ دیکھ کر حیران ہوا۔ام معبد نے تمام واقعہ بتایا۔وہ پوچھنے لگا۔”اس قریشی نوجوان کا نقشہ تو بیان کرو۔یہ وہی تو نہیں جس کی تمنا ہے۔“اس پر ام معبد نے نے حضورﷺ کی شخصیت کا جو نقشہ کھینچا وہ یوں ہے۔”پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، پیٹ ہموار، نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مردمک، سرمگین چشم،باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ، گویا دل بستگی لیے ہوئے، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و د ل فریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی وبیشی الفاظ سے معرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ، زیبندہ منظر والا قد، ان کے رفیق ایسے کہ ہر وقت ان کے گرد و پیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتا تو چپ چاپ سنتے ہیں، حکم دیتا ہے تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں، مخدوم مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو، یہ ام معبد کے تاثرات تھے، حضورﷺ کے بارے میں۔تو ایسے تھے ہمارے پیارے نبیﷺ۔
حضورﷺ کا لباس اطہر
حضورﷺ کا عام لباس چادر، قمیض اور تہمد تھا۔آپﷺ نے منیٰ کے بازار سے پاجامہ بھی خریدا تھا،خیال کیا جاتا ہے کہ اسے زیب تن فرمایا ہوگا۔آپﷺ کو کرتا ایسا پسند تھا کہ جو نہ زیادہ تنگ ہو نہ بہت ڈھیلا۔کرتا پہنتے ہوئے پہلے سیدھا ہاتھ ڈالتے پھر الٹا۔
سر پر عمامہ باندھنا پسند تھا۔سفید اور زردی مائل رنگ اور سیاہ رنگ کا عمامہ استعمال فرمایا۔اس کے ساتھ ٹوپی بھی پہنتے تھے۔چادر بھی اوڑھتے تھے۔آپﷺ کو یمن کی چادر جس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں،جبرہ کہلاتی تھی،بہت پسند تھی۔نیا کپڑا خدا کی حمد اور شکر کے ساتھ جمعہ کے روز زیب تن فرماتے۔فاضل جوڑے بنواکر نہیں رکھتے تھے۔کپڑا پھٹ جاتا تو پیوند لگا لیتے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے۔”اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمت کا اثر اس کے بندے سے ظاہر ہو۔“اس لیے حضورﷺ نے کبھی کبھار اچھا لباس بھی زیب تن کیا۔تنگ آستین کا رومی جبہ،سرخ دھاری کا اچھا جوڑا،ریشمی کوٹ والا کسروانی جبہ بھی پہنا۔ایک بار آپﷺ نے ستائیس اونٹنیوں کے بدلے قیمتی جوڑا بھی خریدا اور پہنا۔کپڑوں کے لیے سفید رنگ آپﷺ کو بہت پسند تھا۔سفید کے بعد سبز رنگ بھی پسندیدہ تھا۔ شوخ سرخ رنگ بہت ناپسند تھا۔
حضورﷺ کا جوتا چپل یا کھڑاؤں کی شکل کا ہوتا تھا، جس کے دو تسمے تھے۔جرابیں بھی استعمال کرتے تھے۔سب سے چھوٹی انگلی میں چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے،جس میں چاندی کا نگینہ ہوتا تھا اور کبھی حبشی پتھر۔آپ ﷺنے سرکاری کاموں کی غرض سے انگوٹھی بنوائی جس پر”اللہ، رسول، محمد“ اوپر سے نیچے کی ترتیب سے لکھا ہوتا۔ا سے مہر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
حضورﷺ کی وضع قطع اور آرائش
حضورﷺ بالوں میں تیل کثرت سے ڈالتے تھے،کنگھا کرتے اور سیدھی مانگ نکالتے،داڑھی کو ہموار رکھتے۔آپﷺ کے پاس سات چیزیں ہمیشہ رہتیں۔تیل کی شیشی، کنگھا،سرمہ دانی سیاہ،قینچی،مسواک،آئینہ اور لکڑی کی پتلی ڈنڈی۔
سرمہ رات کو سوتے وقت لگاتے۔تین تین سلائیاں دونوں آنکھوں میں لگاتے۔خوشبو بہت مرغوب تھی،مشک اور عود کی خوشبو کے علاوہ ریحان کی خوشبو اور مہندی کے پھول اپنی بھینی بھینی خوشبو کی وجہ سے بہت پسند تھے۔ایک عطر دان میں بہترین خوشبو ہمیشہ موجود رہتی۔اکثر حضرت عائشہؓ اپنے ہاتھوں سے حضورﷺ کے خوشبو لگاتیں۔کوئی شخص خوشبو کا تحفہ دیتا تو ضرور قبول فرماتے۔
حضورﷺ کی چال
حضورﷺ کی چال عظمت،وقار،شرافت اور احساس ذمہ داری کی ترجمان تھی۔آپﷺ جب چلتے تو پاؤں کو مضبوطی سے جما کر چلتے۔ بدن سمٹا ہوا رہتا اور دائیں بائیں دیکھے بغیر چلتے۔آپﷺ کی چال سے ہرگز کسی غرور اور نخوت کا اظہار نہ ہوتا۔
حضور ﷺکی گفتگو کا انداز
گفتگو کے وقت چہرے پر عموماً مسکراہٹ شامل رہتی،جو حضورﷺ کی سنجیدگی کو خشونت سے بچاتی۔آپﷺ کو مکروہ،فحش اور بے حیائی کی باتوں سے سخت نفرت تھی۔آپﷺ بلاضرورت بات چیت نہ کرتے۔آپﷺ نے خود فرمایا۔”میری لسانی تربیت خود اللہ عزوجل نے فرمائی ہے اور میرے ذوق ادب کو خوش تر بنا دیا۔نیز میں نے بچپن میں قبیلہ سعد کی فصاحت آموز فضا میں پرورش پائی ہے۔“
حضرت ابوبکر صدیق ؓنے فرمایا۔”آپﷺ سے بڑھ کر کلام فصیح کسی اور سے نہیں سنا۔“
حضرت عمرؓ نے فرمایا۔”اے اللہ کے رسولﷺ،کیا بات ہے کہ آپﷺ فصاحت میں ہم سے بالاتر ہیں؟“
آپﷺ نے فرمایا۔”میری زبان اسماعیل علیہ السلام کی زبان ہے جسے میں نے خاص طور پر سیکھا ہے۔اسے جبریل ؑمجھ تک لائے اور میرے ذہن نشین کرا دی۔“
آپﷺ کے مختصر ترین جملے میں بے حد وسعت ہوتی تھی، مثلاً۔
۱۔اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے۔
۲۔ اعمال کا انحصار نیت پر ہے۔
۳۔جنگ چالوں سے لڑی جاتی ہے۔
۴۔ہر نعمت پانے والے سے حسد کیا جاتا ہے۔
۵۔جو رحم نہیں کرتا،اس پر رحم کیا جائے گا۔
آپﷺ کی گفتگو کا انداز سادہ،دل نشین،پر دلائل اور اثر انگیز ہوتا تھا۔فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ کی گفتگو کس درجہ سادہ اور دل میں اترنے والی تھی کہ لوگ آپﷺ کی سچائی پر ایمان لائے بغیر نہ رہ سکے اور بے دھڑک اسلام قبول کرتے چلے گئے۔

پسندیدہ خوراک اور مشروب
آپﷺ کو گوشت کا شوربہ بہت پسند تھا۔خصوصاً ایک کھانا جسے”ثرید“ کہا جاتا تھا۔یہ ایک قسم کا شوربہ ہوتا تھا جس میں روٹی کو چور کر ڈالا جاتا تھا۔کھانے کی پسندیدہ چیزوں میں شہد،کھجوریں،سرکہ،خربوزہ،ککڑی،لوکی،زیتون،کھچڑی،دودھ اور مکھن شامل ہیں۔جَو کا ستو اور انجیر بھی آپ ﷺکو پسند تھی۔میٹھا پانی،دودھ میں پانی ملا کر لسی تیار کی جاتی تھی، وہ آپﷺ کو پسند تھی۔شہد کا شربت بھی آپﷺ کو مرغوب تھا۔کلونجی کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا۔”اس میں ہر مرض کا علاج ہے سوائے مرض الموت کے۔“
حضورﷺ کے معمولات زندگی
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی زندگی سادگی کا بہترین نمونہ تھی۔خوراک، لباس، اٹھنے بیٹھنے میں، گھر کے اندر، گھر کے باہر، جنگ میں، امن میں، تنہائی میں اور لوگوں کے درمیان،غرضیکہ ہر جگہ آپﷺ سادگی، انکساری اور اخلاص کے ساتھ نظر آتے تھے۔عام طور پر زمین پر بیٹھتے تھے۔محفل میں آنے والوں کو اندازہ نہ ہوتا کہ اسلامی ریاست کا سربراہ کون ہے؟کیونکہ نہ تو آپﷺ دیگر بادشاہوں کی طرح لباس فاخرہ پہنتے تھے، نہ آپﷺ کے چہرے پر جلال اور رعب و دبدبہ ہوتا کہ آنے والا بادشاہ کی ہیبت سے مرعوب ہو جائے۔نہ آپﷺ اونچے اور عالی شان محلوں میں رہتے تھے،نہ آپ ﷺتخت و تاج پسند کرتے تھے۔
آپﷺ چلتے تو نگاہ نیچی رکھتے،چہرے پر عاجزی و انکساری ہوتی اور فخر و غرور کا نام تک نہ ہوتا۔آپﷺ خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو آرام اور سہولت مہیا کرتے۔تمام زندگی اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کرنا پسند تھا،کپڑا پھٹ جاتا تو اسے پیوند لگا لیتے،گھر کے اندر ازواج مطہرات کے ساتھ کام کرواتے۔بکری کا دودھ دوہ لیتے اور جوتے کی مرمت خود ہی کر لیتے۔
کسی چیز کے ٹوٹ جانے یا کسی کام کے بگڑ جانے پر آپﷺ کو غصہ نہ آتا،البتہ کوئی بات دین کے خلاف ہو جاتی تو آپﷺ کو سخت غصہ آجاتا۔آپ ﷺکو کسی شخص پر غصہ آجاتا تو نام لے کر اس کا ذکر محفل میں نہ کرتے۔اپنے ملازموں کو کبھی اف تک نہ کی اور کبھی ان میں سے کسی کو نہیں مارا۔
اگر بازار جاتے اور کپڑا خریدتے تو اس کی قیمت زیادہ ادا فرما دیتے۔کوئی شخص تحفہ دیتا تو اسے قبول فرماتے اور اسے بھی تحفہ دینے کا خیال رکھتے۔اگر کوئی شخص آپﷺ سے کوئی شے طلب کرتا،وہ شے آپﷺ کے پاس ہوتی تو دے دیتے،ورنہ دوسرے وقت دینے کا وعدہ فرما لیتے،یا اس کے حق میں دعا کرتے کہ حق تعالیٰ اس کو وہ شے کسی اور ذریعے سے عطا فرما دیں۔
آپﷺ نہایت نرم مزاج تھے۔سختی آپ ﷺمیں نہ تھی۔جب کوئی آپﷺ سے ملنے آتا تو آپﷺ سلام کرنے میں پہل کرتے۔ جب گھر میں داخل ہوتے تو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ مسکراتے ہوئے داخل ہوتے۔احباب سے گلے بھی ملتے اور مصافحہ بھی کرتے اور اس وقت تک ہاتھ نہ کھینچتے جب تک کہ دوسرا خود ہی ہاتھ الگ نہ کرتا۔یہ بات پسند نہ کرتے کہ لوگ آپ ﷺکی تعظیم میں کھڑے ہوں۔
آپﷺ کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوتے۔”بسم اللہ“ پڑھ کر کھانا شروع کرتے۔سیدھے ہاتھ سے اپنے سامنے والے حصے سے کھانا شروع کرتے۔کھانے میں عیب نہ نکالتے۔اگر کھانا پسند نہ بھی آتا تو خاموشی سے ہاتھ روک لیتے۔کھانا ختم کر کے”الحمدللہ“ کہتے۔فرماتے تھے چند ایک آدمیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا باعث برکت ہے۔دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ فرماتے۔
آپﷺ جب پانی پیتے تو پانی کا برتن سیدھے ہاتھ میں پکڑتے،بیٹھ کر اور تین سانسوں میں رک رک کر پانی پیتے۔کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا یا سانس لینا نا پسند فرماتے۔
کسی شخص کو اتفاقاً کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو اسے بدلہ لینے کا حق دیتے اور کبھی اس کے بدلے کوئی تحفہ دے دیتے۔کوئی شخص نیا کپڑا پہن کر سامنے آتا تو مسرت کا اظہار کرتے۔فرماتے۔”خوب دیر تک پہنو،پہن کر پرانا کرو۔“دوسروں کی بدسلوکی کا بدلہ برے سلوک سے نہ دیتے،دوسروں کے قصور معاف کر دیتے۔ کوئی آپﷺ کو پکارتا،خواہ وہ گھر کا آدمی ہو یا دوستوں میں سے،ہر ایک کے لئے فوراً حاضر ہو جاتے۔بیماروں کی عیادت کے لیے ضرور جاتے۔حال چال پوچھتے۔بیمار کی پیشانی اور نبض پر ہاتھ رکھ دے۔کبھی سینے اور پیٹ پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے۔تسلی دیتے ہو اور فرماتے۔”فکر کی کوئی بات نہیں،خدا نے چاہا تو جلد صحت یاب ہو جاؤ گے۔“
حضورﷺ اپنے مشرک چچاؤں کی بیماری کے موقع پر ان کے گھر گئے۔ایک یہودی بچے کی عیادت بھی کرنے گئے۔یہاں تک کہ ایک بار منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کی عیادت بھی فرمائی۔
جب کسی شخص پر نزع کا عالم طاری ہوتا تو آپﷺ اس کے پاس جاتے،توحید اور اللہ کی طرف توجہ کی تلقین کرتے۔اگر کسی شخص کا انتقال ہو جاتا تو میت کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار فرماتے۔انہیں صبر کی تلقین کرتے،رونے چلانے اور چیخنے کو منع کرتے۔تجہیز و تکفین میں جلدی کراتے۔جنازہ اٹھتا تو ساتھ ساتھ جاتے۔نماز جنازہ پڑھاتے اور مغفرت کی دعا فرماتے۔کبھی کسی غیر مسلم کا بھی جنازہ گزرتا تو آپﷺ کھڑے ہو جاتے۔
حضورﷺ اوہام پسندی سے دور رہتے تھے۔کبھی برے شگون نہ لیتے۔لوگوں کے اور جگہوں کے اچھے نام آپﷺ پسند کرتے،جن میں برکت،خوشی یا کامیابی کا مفہوم ہوتا۔آپ ﷺجھگڑے اور نقصان والے نام پسند نہ فرماتے۔اکثر ایسے نام تبدیل فرما دیتے۔کام اکثر ایسے لوگوں کے حوالے کرتے جن کے نام میں خوشی یا کامیابی کا مفہوم پایا جائے۔
رات آرام کرنے کے لیے ہوتی ہے اور دن کام کرنے کے لئے۔صبح سویرے اٹھنا،عشاء کی نماز پڑھ کر رات کو جلدی سونا۔رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نماز پڑھنا حضور ﷺکے معمولات تھے۔جو لوگ دن کو رات بنا لیتے ہیں یعنی دن کے وقت سوتے ہیں اور دیر تک جاگتے ہیں وہ قدرت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں اس عادت کو ترک کرنا چاہیے۔
عمر بھر آپﷺ کا معمول رہاکہ آدھی رات کے بعد اٹھ کرمسواک کرتے۔ وضو کرتے اور تہجد ادا فرماتے۔ قرآن پاک ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے اور نماز میں بعض دفعہ اتنی دیر تک قیام فرماتے کہ حضورﷺ کے پاؤں پر ورم آجاتا۔ ایک صحابی نے اپنی محبت کی وجہ سے کہا۔”اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر خاص کرم فرمایا ہے، پھر آپﷺ عبادات میں اتنی جان کیوں گھلاتے ہیں۔“
حضورﷺ نے فرمایا۔”کیا میں خدا کا احسان شناس اور شکر گزار بندہ نہ بنوں؟“
آپﷺ نے زندگی ایک مسافر کی طرح گزاری جو تھوڑی دیر کے لئے سائے میں آرام کرتا ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔آپﷺ نے اعلیٰ درجہ کی عمارتیں نہیں بنوائیں،محل،کوٹھیاں اور بنگلے نہیں بنائے۔نہ ان کی آرائش و تزئین کی، نہ ہی آپﷺ نے مال و اسباب جمع کیا۔
حضورﷺ کا خاندان اور امہات المومنینؓ
حضورﷺ کی شادی حضرت خدیجۃ الکبریؓ سے ہوئی۔وہ نہایت نیک، پاکیزہ اور محبت کرنے والی بیوی تھیں۔انہوں نے اپنے محبوب شوہر کا ہر لمحہ ساتھ دیا اور ایک بہترین بیوی اور بہترین ساتھی ہونے کا حق بھرپور طریقے سے ادا کیا۔جس وقت اسلام کی اشاعت کا مرحلہ درپیش تھا،لوگوں نے آپ ﷺکو جھٹلایا اور آپﷺ کو تنہا کر دیا،حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کا پورا پورا ساتھ دیا۔تکلیف اور مصیبت کے وقت آپﷺ کا حوصلہ بڑھایا۔حضورﷺ کی نبوت پر ایمان لانے والی پہلی شخصیت حضرت خدیجہؓ ہی کی ہے۔حضور پاکﷺ نے ایسی نیک اور مخلص بیوی کی بے حد قدرومنزلت کی،جب تک آپ زندہ رہیں،حضورﷺ نے دوسری شادی کا خیال تک نہ کیا۔آپ کو اعلیٰ صفات کی وجہ سے خدیجۃالکبریٰ کہا جاتا ہے۔
حضرت خدیجہ ؓسے حضور ﷺکی چار بیٹیاں، حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ اور دو بیٹے قاسمؓ اور عبداللہؓ پیدا ہوئے،جن کے لقب طاہر اورطیب تھے۔ایک اور صاحبزادے ابراہیم،حضرت ماریہ قبطیہ سے پیدا ہوئے۔حضرت ماریہ قبطیہ مصر کی ایک معزز خاتون تھیں۔انہیں عزیز مصر نے حضورﷺ کے لیے بھیجا تھا۔آپ اسلام لے آئی تھیں اور حضورﷺ نے آپ سے نکاح کیا۔
حضرت زینبؓ کی شادی ابوالعاص سے ہوئی جو ہجرت کے چند سالوں کے بعد اسلام لائے۔سیدہ رقیہؓ کی شادی حضرت عثمان ؓسے ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا عبداللہ تھا،جس کا چھ سال کی عمر میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ان کے انتقال کے بعد حضرت عثمانؓ بہت غمگین رہتے تھے کہ ان کی وجہ سے حضورﷺ سے جو رشتہ تھا، وہ ٹوٹ گیا۔آپﷺ نے چھوٹی صاحبزادی ام کلثوم ؓسے ان کا عقد کر دیا۔حضورﷺ کی اولاد میں سے صرف حضرت فاطمہ الزہراؓ صاحب اولاد ہوئیں۔ حضرت فاطمہ ؓکی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی۔آپﷺ کے دو بیٹے حضرت حسن ؓاور حضرت حسینؓ اور دو بیٹیاں حضرت ام کلثومؓ اور حضرت زینب ؓتھیں۔حضرت حسن ؓکو دشمنوں نے زہر دے کر شہید کردیا اور حضرت حسینؓ نے حق کے لیے لڑتے ہوئے کربلا کے میدان میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔حضرت امام حسینؓ کو حضورﷺ نے جنت میں نوجوانوں کے سردار ہونے کی بشارت دی۔حضرت فاطمہؓ سے بے حد و حساب پیار تھا۔حضورﷺ کے وصال کے بعد وہ بہت غم زدہ رہتی تھیں اور اپنے والد کی یاد میں روتی رہتی تھیں۔چھ ماہ بعد ہی آپ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
حضورﷺ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد تنہا رہ گئے تھے۔احباب کے کہنے پر آپﷺ نے حضرت سودہ سے نکاح کیا۔ان کے پہلے شوہر سکر ان کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ بیوہ تھیں۔ان کی عمر نکاح کے وقت پچاس سال تھی۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ،حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی تھیں جو حضورﷺ کے نکاح میں آئیں۔حضرت عائشہؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضورﷺ کے پاس جبریل امین، اللہ تعالی کا یہ پیغام لے کر آئے کہ آپﷺ عائشہؓ سے شادی کیجئے۔آپؓ حضورﷺ کی واحد بیوی تھیں جو شادی کے وقت کنواری تھیں۔وحی نازل ہوتے وقت حضرت عائشہ حضورﷺ کے ساتھ ہوتی تھیں۔ایک بار کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ پر بدگمانی کی اور ان پر الزام لگایا تو حضرت عائشہ کی پاکدامنی کی گواہی کے بارے میں قرآنی آیت نازل ہوئی۔ جس وقت حضور ﷺنے انتقال فرمایا،حضورﷺ کا سر مبارک،حضرت عائشہ کے پہلو میں تھا۔آپ ﷺنے آخری وقت میں دیگر ازواج سے اجازت لے کر حضرت عائشہ کے حجرے میں قیام کیا اور انھیں کے حجرے میں حضورﷺ کی تدفین ہوئی۔حضرت عائشہ نہایت حسین و جمیل،بے حد متقی اور نیک عادات و اخلاق والی اور صاحب علم و فضل خاتون تھیں۔حضورﷺ لاڈ سے انہیں اکثر”عائش“ کہہ کر پکارتے تھے۔آپﷺ مسلمان خواتین کو تعلیم دیتی تھیں،ان کے مسئلوں کا حل بتاتی تھیں۔انہوں نے بہت سی احادیث بیان کیں۔یہ حضرت عائشہ ہی کا قول ہے۔”آپ ﷺ کا اخلاق قرآن مجید ہیں۔“یعنی قرآن مجید میں کوئی حکم ایسا نہیں جس کی عملی تفسیر حضور ﷺنے نہ فرما دی ہو۔
حضرت حفصہؓ،حضرت عمر فاروقؓ کی بیٹی تھیں۔آپ کے پہلے شوہر خنیس بن حذافہ تھے۔ان دونوں نے ایک ساتھ ہجرت فرمائی تھی۔ حضرت خنیسؓ نے جنگ بدر میں شرکت کی اور مہلک زخموں کی وجہ سے بعد میں وفات پا گئے۔حضرت عمرؓ اپنی بیٹی کی بیوگی کی وجہ سے فکر مند تھے۔انہوں نے رسول پاک ﷺسے ذکر کیا تو آپﷺ نے حضرت حفصہ سے شادی کا پیغام دیا۔حضرت حفصہ بہت عبادت گزار اور مذہب کی پابند تھیں اور مسلسل روزے رکھتی تھیں اور راتوں میں نماز کے لئے کھڑی رہتی تھیں۔مزاج کی کچھ تیز تھیں۔حضرت عمر فاروقؓ اپنی صاحبزادی کو تنبیہ کرتے تھے۔
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کا لقب ام المساکین تھا۔ان کے پہلے شوہر جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔آپ حضورﷺ سے نکاح کے بعد دو تین ماہ تک زندہ رہیں اور حضورﷺ کی زندگی ہی میں انتقال ہوا۔آپ بے حد فیاض تھیں۔
حضرت ام سلمہ کے پہلے شوہر ابو سلمہ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے اور مہلک زخموں کی وجہ سے انتقال فرما گئے۔انتقال سے کچھ پہلے حضرت ابوسلمہ نے کہا تھا۔”میرے مرنے کے بعد نکاح کر لینا۔“اور دعا فرمائی۔”یا اللہ میرے بعد ام سلمہ کو مجھ سے بہتر جانشین عطا فرما۔“ان کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد حضورﷺ سے ان کا نکاح ہوگیا۔ آپ نہایت ذہین اور معاملہ فہم تھیں،نہایت عبادت گزار،فیاض اور سخی تھیں۔
حضرت جویریہ نہایت خود دار اور عبادت گزار تھیں۔ان کا نام پہلے برہ تھا۔حضورﷺ نے ان کا نام تبدیل کرکے جویریہ رکھ دیا تھا۔حضرت جویریہ ایک سردار کی بیٹی تھیں اور اپنی قوم کے لئے نہایت با برکت تھیں۔
حضرت زینبؓ بن جحش کا پہلا نکاح حضرت زیدؓ بن حارث سے ہوا جو حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے تھے اور حضرت زینب حضورﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔حضرت زید اور حضرت زینب ایک دوسرے کے ساتھ خوش نہ تھے اس لیے حضرت زید نے انہیں طلاق دے دی۔اس کے بعد حضورﷺ نے حضرت زینب سے ان کی دلجوئی کے لیے نکاح کیا۔اس طرح عربوں کے اس رواج کو غلط ثابت کیا کہ منھ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے شادی نہیں ہوسکتی۔جب حضرت زینب کو حضورﷺ کے نکاح کا پیغام ملا تو آپ نے فرمایا۔”جب تک خدا کا حکم نہ ہو، میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔“یہ کہہ کر آپ مسجد میں چلی گئیں۔خدا تعالیٰ کی طرف سے آیت نازل ہوئی۔”پھر جب زید نے اس عورت کو طلاق دے دی تو ہم نے تمہارے ساتھ اس عورت کا نکاح کر دیا۔“(سورہ الاحزاب) اس حکم الٰہی کے ساتھ آپ کے نکاح کی تکمیل ہو گئی۔آپ کا نکاح آسمانوں پر ہوا۔آپ نہایت فیاض اور توکل والی تھیں۔یتیموں اور مساکین کی سرپرست تھیں۔ آپ نہایت متقی، روزہ دار اور عبادت گزار تھیں۔
حضرت ام حبیبہ ابوسفیان کی صاحبزادی تھیں۔ان کا پہلا نکاح عبداللہ بن جحش سے ہوا۔دونوں میاں بیوی نے اسلام قبول کیا پھر ہجرت کر کے دونوں حبشہ چلے گئے۔کچھ دن بعد عبداللہ نے وہاں عیسائی مذہب اختیار کر لیا، لیکن ام حبیبہ مسلمان ہی رہیں۔بعد میں عبداللہ شراب نوشی کی کثرت کی وجہ سے مر گیا۔حضورﷺ نے ام حبیبہ سے نکاح کے لیے حبشہ کے شاہ نجاشی کو پیغام بھیجا جو انہوں نے قبول کیا۔نجاشی نے خود نکاح پڑھایا۔ام حبیبہ حضورﷺ کا بے حد خیال رکھتی تھیں یہاں تک کہ جب ان کے والد ابو سفیان ان سے ملنے گھر آئے تو آپ نے بستر الٹ دیا اور باپ کو جواب دیا۔”آپ اس بستر پر نہیں بیٹھ سکتے۔یہ پاک نبی ﷺکا پاک بستر ہے اور آپ مشرک ہیں۔“
جب غزوہ خیبر میں یہودیوں کے ساتھ معرکہ ہوا۔مال غنیمت میں حضرت صفیہ بھی شامل تھیں۔حضرت صفیہ کی شادی پہلے سلام سے ہوئی تھی جو شاعر اور سردار تھا۔اس سے طلاق کے بعد ان کی شادی کنانہ سے ہوئی۔غزوہ خیبر کے دوران کنانہ مارا گیا اور اس کے اہل و عیال قیدی بنا لیے گئے۔چونکہ حضرت صفیہ کا تعلق سرداروں کے خاندان سے تھا۔حضورﷺ نے ان کے اعلیٰ نسب کی وجہ سے انہیں آزاد کر کے نکاح فرمایا۔ حضرت صفیہ حضور پاکﷺ سے بے حد محبت کرتی تھیں۔نہایت سخی دل اور فیاض تھیں۔
حضرت میمونہ کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو سے ہوا۔طلاق کے بعد آپ کی شادی ابورہم سے ہوئی۔ان کے انتقال کے بعد حضورﷺ کے عقد میں آئیں۔حضرت میمونہ سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والی اور صلہ رحمی کرنے والی تھیں۔آپ نہایت راسخ العقیدہ خاتون تھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح اللہ تعالیٰ کے حکم سے کئے۔آپﷺ نے ان نکاحوں کے ذریعے رنگ، نسل اور برادری کے بتوں کو توڑا۔ آج کے زمانے میں بھی بہت سے لوگ اپنے خاندان سے باہر رشتہ جوڑنا نہایت معیوب خیال کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے بیٹے بیٹیوں کی شادیوں میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔آپﷺ عام انسانوں سے بہت بلند و بالا تھے، اس لیے آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے چار سے زائد نکاحوں کی اجازت دی۔اس طرح بے سہارا اور مطلقہ، بیوہ عورتوں کو تحفظ بھی ملا۔ ان تمام اعلیٰ و ارفع خواتین کو جو حضورﷺ کی ازواج مطہرات تھیں،نہایت بلند مقام حاصل ہے۔انہیں امہات المومنین یعنی ا مت کی مائیں کہا جاتا ہے۔
حضورﷺ کے معجزات
حضورﷺ کے بہت سے معجزات ہیں۔معجزہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رونما ہوتا ہے اور یہ ایسا کام ہوتا ہے جو عام انسانوں کے بس سے باہر اور انسانی عقل سے بالاتر ہو۔معجزے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے عام لوگ نبی کی صداقت پر یقین کر سکیں۔حضورﷺ کے کچھ معجزات یہ ہیں:
ایک بار ابو جہل نے کہا۔”تم ہمیں اپنے دین کے بارے میں بتاؤ۔“
حضورﷺ نے کہا۔”میں تو بتانے کو تیار ہوں لیکن تم سنتے کہاں ہو؟“
ابوجہل نے کہا۔”ایسے ہی نہیں،اپنی کوئی نشانی یا معجزہ دکھاؤ تو بات ہے۔“جب یہ بات ہو رہی تھی اس وقت آسمان پر چودھویں کا چاند چمک رہا تھا۔ابوجہل نے کہا۔”اگر آپ آسمان پر چمکنے والے چاند کو دو ٹکڑوں میں توڑ دیں تو ہم آپﷺ کو سچا نبی مان لیں گے۔“
حضور ﷺنے چاند پر نظر ڈالی۔اللہ کے حکم سے چاند اسی لمحے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا جو چند لمحے بعد پھر جڑ گئے۔ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے یہ عجیب اور ناقابل یقین منظر اپنی نگاہوں سے دیکھا۔وعدے کے مطابق حضور ﷺکی سچائی پر ایمان لے آنا چاہیے تھا لیکن وہ بڑا سخت دل آدمی تھا،اپنی بات سے پھر گیا۔
اس منظر کو مکہ سے دور رہنے والے قافلوں نے بھی دیکھا اور ہندوستان کے ایک ہندو راجہ نے بھی دیکھا۔
دوسرا اہم معجزہ معراج النبیﷺ کا ہے۔ جب ہمارے پیارے نبیﷺ نے اوپر آسمانوں میں جا کے پچھلے انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو ایک حجاب کے ساتھ شرف دیدار بخشا۔
فتح مکہ کے وقت جب حضور پاکﷺ حرم کعبہ میں داخل ہوئے اور وہاں موجود بتوں کو ایک قوس سے اشارہ کرتے تو بت خود بخود نیچے گرتے جاتے تھے۔آپ ﷺکو درختوں اور پتھروں نے سجدہ کیا اور پہاڑوں نے۔”السلام علیکم یا رسول اللہ“کہا۔
غزوہ خندق کے موقع پر بشیر بن سعد کی بیٹی اپنے والد اور ماموں عبداللہ بن رواحہ کے لیے تھوڑی سی کھجوریں لے کر گئی۔حضورﷺ نے ایک کپڑا منگوا کر اس پر کھجور رکھیں۔آپﷺ کی برکت سے وہ کھجوریں اتنی زیادہ ہو گئیں کہ کپڑے سے باہر بھی گرتی رہیں۔تمام اصحاب خندق نے وہ کھجوریں سیر ہو کے کھائیں اور پھر بھی کھجوریں باقی بچ گئیں۔
اسی موقع پر جابر بن عبداللہ نے اپنے گھر میں ایک بکری ذبح کی۔ اس کا گوشت بھون کر تیار کیا اور جو کی کچھ روٹیاں پکوائیں اور حضور ﷺکو کھانے کی دعوت دی۔ آپﷺ نے تمام صحابہ کو اپنے ساتھ بلا لیا۔حضور ﷺنے”بارک اللہ“ اور”بسم اللہ“ کہہ کر کھانا شروع کیا۔ دوسرے لوگ بھی باری باری کھانا کھانے لگے۔ایک جماعت آکر کھانا کھاتی اور فارغ ہو کر چلی جاتی، پھر دوسری جماعت آتی اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا،یہاں تک کہ تمام اہل خندق نے کھانا کھا لیا۔
ہمارے پیارے نبیﷺ نے بے شمار انسانوں کے دلوں سے الحاد کو صاف کیا اور وہاں حق کا نور بھر دیا۔دنیا میں پھیلے ہوئے ظلمت کے اندھیروں کو ختم کیا اور اسلام کا نور پھیلایا۔یہ پیارے نبی ﷺکا ہی معجزہ ہے کہ آج دنیا کے ہر حصے میں اسلام کے ماننے والے بستے ہیں۔ایسا عظیم الشان کارنامہ دنیا کی تاریخ میں اور کوئی شخص کبھی انجام نہ دے سکا۔
حضورﷺ سے صحابہ کرام کی محبت و عقیدت
حضورﷺ کا رتبہ نہایت بلند ہے۔آپﷺ کی شخصیت میں وہ دلکشی و جاذبیت اور ایسی کشش تھی کہ صحابہ کرام آپ ﷺکے گرد بیٹھے رہتے اور ان کا جی چاہتا کہ بس حضورﷺ کی باتیں سنتے رہیں۔نگاہ نیچی کیے، با ادب ہو کر حضورﷺ کے احکامات سنتے اور ان پر عمل کرنے کو دوڑ پڑتے۔یہ بات خوب واضح تھی کہ دنیا کے اور کسی بھی راہنما سے اتنی محبت اور عقیدت نہیں کی گئی جتنی کہ رسول اکرم ﷺسے ان کے پیروؤں نے کی۔

جب عمرہ کے ارادے سے حضورﷺ مکہ پہنچے اور کفار نے آپﷺ کو اور آپﷺ کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس وقت مذاکرات کے لئے عروہ بن مسعود، حضورﷺ کے پاس پہنچا۔وہ بات کرتے ہوئے عرب کے جاہلانہ طریقہ کے مطابق ہاتھ بڑھا بڑھا کے باتیں کرنے لگا یہاں تک کہ صحابہ نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ حضور ﷺکی ریش مبارک تک پہنچ رہے ہیں تو انہیں سخت غصہ آیا۔حضرت مغیرہ نے عروہ سے کہا کہ وہ اپنا ہاتھ حضورﷺ کی داڑھی مبارک سے الگ رکھے۔ایک مشرک کے لیے یہ کسی طرح زیبا نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو چھو سکے۔تب وہ اس حرکت سے باز آیااور وہ رسول اکرمﷺ کے مداحوں کی محبت اور عقیدت کو خوب اچھی طرح دیکھ بھال کے گیا اور اس نے قریش کے پاس جاکر انہیں بتایا۔”میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس بھی گیا ہوں اور ان کے آداب بھی دیکھے ہیں مگر بخدا میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے اصحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہو جیسے محمد(ﷺ) کے اصحاب ان کی کرتے ہیں۔کوئی بات محمد (ﷺ) کی زبان سے نکلتی ہے تو سب اس کو پورا کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کا پانی لینے کے لیے اس طرح کوشش کرتے ہیں کہ گویا آپس میں لڑ جائیں گے۔محمد (ﷺ)کے سامنے بولتے ہیں تو نیچی آواز سے۔ تعظیم اور جلال کی وجہ سے کبھی آنکھ نہیں ملاتے۔یہ لوگ محمد(ﷺ) کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
صفر ۴ ہجری کو قبیلہ عضل اور قارہ کے کچھ لوگ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبیلے نے اسلام قبول کرلیا ہے لہٰذا چند لوگ ہمارے ساتھ کر دیجئے جو ہمیں قرآن پڑھائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔چنانچہ حضور ﷺنے چند صحابہ کی جماعت کو ان کے ہمراہ بھیج دیا۔رجیع کے مقام پر پہنچ کر ان لوگوں نے بدعہدی کی اور دو سو تیر اندازوں پر مشتمل بنی ہزیل کو بلا لیا۔جب وہ لوگ قریب پہنچے تو مسلمان بھی اپنے تحفظ میں لڑنے پر مجبور ہوگئے۔تین صحابہ لڑتے ہوئے شہید ہوئے،تین صحابہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ان میں سے حضرت زید الدثنیہ بھی شامل تھے۔ان کو قتل کرنے کا فیصلہ ہوا تو بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ان میں ابو سفیان بھی تھا۔اس نے حضرت زید سے پوچھا۔”کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم کو چھوڑ دیا جائے تاکہ تم خوشی خوشی اپنے اہل و عیال میں رہواور تمہاری جگہ محمد کی گردن مار دی جائے (خدانخواستہ)۔اس پر حضرت زید نے جواب دیا۔”واللہ! ہمیں یہ بھی پسند نہیں کہ ہم آزاد ہوں اور اپنے اہل میں رہیں اور محمدﷺ جہاں بھی ہوں وہاں ان کو ایک کانٹا بھی چبھے۔“ابو سفیان نے یہ سن کر کہا۔”میں نے کسی کو ایسا محبوب نہیں پایا جیسا کہ محمد کے اصحاب محمد کو محبوب رکھتے ہیں۔“
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمانؓ مکہ ہی میں ٹھہر گئے اور قریش نے ان کو پیشکش کی تھی کہ آپ تنہا حج کر لیں تو حضرت عثمان نے جواب دیا کہ وہ حضور کے بغیر حج نہیں کریں گے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top