مٹی کا گھروندا یا جنت کا محل
اشفاق حسین
………
ایک دفعہ ہارون رشید سر شام دجلہ کی سیر کو نکلا۔ملکہ زبیدہ بھی پالکی میں ہمراہ تھی ۔دریاکنارے ایک مجذوب کو دیکھا کہ مٹی کے گھروندے بنا رہا ہے۔ہارون رشید نے پوچھا،یہ کیا ہے۔بولا”جنت کے گھروندے ہیں۔خریدوگے؟“۔
ہارون رشید ہنس دیا اور گزر گیا۔ملکہ زبیدہ کی پالکی مجذوب کے قریب سے گزری۔پوچھا،”یہ کیا ہیں؟“۔بولا”جنت کے گھروندے ہیں خریدوگی؟“۔
”بصد شوق“ملکہ زبیدہ نے اشتیاق ظاہر کیا۔
”کتنے لو گی؟“سوال ہوا۔
”جتنے ہیں سبھی دیدو“۔ملکہ نے ایک قیمتی موتی مجذوب کے حوالے کر دیا۔
رات کوہارون رشید نے خواب دیکھا کہ ایک بہت بڑا آبدار موتی ہے اتنا بڑا کہ اس میں ایک باوقارمحل بنا ہوا ہے۔اس کی پیشانی پر لکھا ہے”قصر زبیدہ“۔ہارون رشید اس میں داخل ہونا چاہتا ہے تو درشت رو دربان اس کی راہ روک لیتے ہیں کہ زبیدہ کے محل میں اجنبی داخل نہیں ہو سکتے۔آنکھ کھلتی ہے تو ہارون رشید کو ایک ہی فکر کہ وہ سودا جو کل نہ ہو سکا آج ہو جائے۔شام ہوئی سیر کو نکلا۔مجذوب دریا کنارے موجود تھا۔گھروندے بنا رہا تھا۔پوچھا”یہ کیا ہیں؟“
بولا ”ریت کے گھروندے“
”اور وہ جنت کے گھروندے کیاہوئے“ہارون رشید نے پوچھا۔
”میاں وہ غیب کا سودا تھا۔مشاہدے کے بعد تو شوق شوق نہیں رہتا۔لالچ کہلائے گا“۔