skip to Main Content
مس چڑیل

مس چڑیل

حماد ظہیر

…………………………….

’’مس چڑیل‘‘
مس نے کلاس میں داخل ہوتے ہی بلیک بورڈ پر لکھا دیکھا اور غصہ سے کھول اٹھیں۔
’’کس نے لکھا ہے یہ؟‘‘ وہ غصہ سے دھاڑیں۔ سارے بچے خاموش رہے۔
’’کھڑے ہوجائیں سب اور کان پکڑیں کھینچ کر!‘‘ مس غصہ سے پاگل ہوئی جارہی تھیں۔
ادھر بچوں کی چیخوں کی آوازیں آئیں تو انہوں نے دیکھ کر سر پیٹ لیا۔
’’میرا مطلب تھا اپنے اپنے کان پکڑیں‘‘۔
بچے جو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک دوسرے کے کان کھینچنے میں مصروف تھے چپ چاپ اپنے اپنے کان پکڑ کر کھڑے ہوگئے۔
’’کوئی بھی اس وقت تک نہیں بیٹھ سکتا جب تک اس کے متعلق مجھے کچھ نہ کچھ بتادے!‘‘ مس نے اعلان کیا۔
’’یعنی مس اس کے بارے میں جو بھی پتا ہو بتادیں!‘‘ سوچو کچھ سوچ کر بولا۔
’’ہاں ہاں بالکل!‘‘ مس اشتیاق سے بولیں۔
’’مس اس کو چاک سے لکھا گیا ہے!‘‘ سوچو نے گویا انکشاف کیا اور سکون سے بیٹھ گیا۔
’’کھڑے ہوجاؤ بدتمیز!‘‘ مس چلائیں تو سب بچے ہنسنے لگے۔
’’تم لوگ ایسے نہیں سدھرو گے، اب ہر کوئی میرے ہاتھ سے دو دو ڈنڈے کھائے گا، اور اگر بچنا چاہتا ہے تو مجرم کا نام بتائے گا‘‘۔ مس نے ایک اور اعلان کیا۔
’’مجرم کا نام!‘‘ جاسو کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا اور جاسوس بننے کا بے حد شوق تھا۔
مس نے اسے نظر انداز کیا اور سب سے اگلی نشست پر کھڑے روتو کے دو ڈنڈے رسید کیے۔
روتو کو اور تو کچھ نہ سوجھا، وہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع ہوگیا، جس نے کلاس کا ماحول ہی عجیب ہوگیا۔
’’فوراً چپ ہو۔۔۔ ورنہ اور پٹائی کروں گی!‘‘ مس نے دھمکی دی۔
’’مس اگرآپ اس کی اور پٹائی کریں گی تو یہ اور روئے گا کیوں کہ آپ ہی نے تو پڑھایا تھا کہ ہر ایکشن کا ایک ری ایکشن ہوتا ہے!‘‘ پڑھاکو نے اندازہ لگایا۔
’’غلط مثال دی تم نے، یہاں یوں کہنا مناسب ہوگا کہ جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوگا۔‘‘ بنٹی جلدی سے بولی۔
’’یعنی مس اس کی جتنی پٹائی کریں گی یہ اتنا ہی روئے گا‘‘۔ ببلی خوش ہو کر بولی گویا محاورہ کا تجرباتی مظاہرہ دیکھنا چاہتی ہو۔
’’شٹ اپ! مس نے تو دو ہی ڈنڈے لگائے تھے، تم لوگ تو باتوں باتوں سے مجھے پٹوائے ہی چلے جارہے ہو، آخر میں بھی ایک بونا ہوں کچھ تو خیال کرو!‘‘
روتو رونا دھونا بھول کر جرح کرنے لگا، تو مس نے اس کو غنیمت جانا اور بولیں۔
’’اب باقی لوگ بھی پٹنے کے لیے تیار ہوجائیں اور اگر بچنا چاہتے ہیں تو مجھے مجرم کا نام بتادیں‘‘۔
’’مجرم کا نام!‘‘ جاسو ایک بار پھر کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔
مس اس کے پاس پہنچیں اور پر امید ہو کر بولیں۔
’’ہاں ہاں بولو۔۔۔ رک کیوں گئے‘‘۔
’’یہ تو کسی ناول کا نام ہوسکتا ہے!‘‘ جاسو خوش ہو کر بولا۔
مگر مس نے ناول کے بجائے فلم شروع کردی، وہ بھی مار دھاڑ سے بھرپور، سب سے پہلے دو ڈنڈے جاسو ہی کو وصول کرائے!‘‘
اس کے بعد دوسروں کا نمبر آیا، یہاں تک کہ کسی کی آواز آئی۔
’’مس یہ تو صرف بونو ہی کا کام ہوسکتا ہے، وہ وہ اسمبلی میں دیر سے آیا تھا‘‘۔
مس سب کو چھوڑ چھاڑ کر بونو کے پاس پہنچیں اور بولیں۔
’’بونو۔۔۔ ہر شرارت کے پیچھے تمہارا ہی ہاتھ نکلتا ہے‘‘۔ مگر یہ شرارت نہیں بدتمیزی ہے!‘‘
’’مس اس طرح تو اب تک بونو کے پچیس تیس ہاتھ نکل آئے ہوں گے، مگر ہمیں تو دو ہی نظر آرہے ہیں‘‘۔ ببلی نے حیرت کا مظاہرہ کیا۔ مس نے بونو کو کسی بکرے کی طرح کان سے پکڑا اور اپنی میز کے پاس لے گئیں۔ پھر اپنی کرسی پر بیٹھ کر کسی تھانیدار کی طرح ایک ہاتھ سے ڈنڈا دوسرے پر مارتے ہوئے تفتیش شروع کیا۔
’’تو تم نے یہ کیوں لکھا؟‘‘۔
بونو نے تعجب سے بورڈ کی طرف دیکھا اورپھر نفی میں گردن ہلاتے ہوئے بولا۔
’’مس میں نے تو یہ نہیں لکھا‘‘۔
’’تم ہی نے لکھا ہے۔ تم ہی نے‘‘۔ مس غصے سے کھڑی ہوگئیں۔
وہ شاید یہ اس لیے ثابت کرنا چاہ رہی تھیں تاکہ انہیں مجرم ڈھونڈنے کا مشکل کام دوبارہ نہ کرنا پڑے۔
’’مس یہ بات تو ثابت ہے کہ یہ مس چڑیل بونو نے نہیں لکھا‘‘۔ جاسو پراسرار انداز میں بولا۔
’’وہ کیوں بھلا؟‘‘
’’اس لیے کہ آپ بونو کو ہر مرتبہ ڈانٹتی ہیں کہ وہ چ کا تیسرا نقطہ دو نقطوں سے اوپر لگاتا ہے، جبکہ یہاں مس چڑیل میں نقطہ نیچے لگا ہے‘‘۔
’’اوہ‘‘ ساری کلاس بولی۔
’’دوسرے یہ کہ بونو کا قدم ہم سب بونے بچوں میں سب سے چھوٹا ہے، میرا خیال ہے کہ اس کا ہاتھ بورڈ کی اس جگہ تک پہنچ ہی نہیں سکتا جہاں مس چڑیل لکھا ہوا ہے‘‘۔
’’اوہ۔۔۔ اوہ‘‘۔
’’تیسرے یہ کہ اگر آپ مس چڑیل کو غور سے دیکھیں۔۔۔‘‘ جاسو ابھی کہہ ہی رہا تھا کہ مس نے جاکر ایک زور دار ڈنڈا رسید کیا اوربولیں۔
’’یہ تم کیا ہر جملہ میں مس چڑیل مس چڑیل کہے جارہے ہو، کان پک گئے ہیں سن سن کے‘‘۔
جاسو تو خاموش ہوگیا مگر ساری کلاس مس کی نقل اتارنے لگی۔
’’مس چڑیل، مس چڑیل۔۔۔ کان پک گئے ہمارے بھی سن سن کر مس چڑیل‘‘۔
مس نے ڈنڈے کو میز پر مارنا شروع کردیا، جس کی وجہ سے کچھ زور تھما۔ مس نے بھی مس چڑیل کا پیچھا چھوڑنے ہی میں عافیت جانی اور بولیں۔
’’آج میں سب کا ہوم ورک چیک کروں گی اور جس نے نہیں کیا ہو، اس کی شامت آئے گی‘‘۔
مانیٹر نے سب سے کاپیاں لے لیں لیکن غنڈو کی کاپی نہ ملی، جو کہ کلاس کا نامی گرامی غنڈہ تھا۔
’’مس غنڈو شاید کاپی گھر بھول آیا ہے، باقی سب کی تو آگئیں۔‘‘ مانیٹر نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
’’کیوں غنڈو۔ یہ کیا بہانہ ہے، اگر کاپی نہ ہوئی تو وہی سزا ملے گی جو ہوم ورک نہ کرنے والے کو ملے گی‘‘۔ مس نے کہا۔
’’مس میں نے ہوم ورک کیا تھا، اور کاپی بھی لایا تھا، مگر پھر وہ نہ جانے کہاں چلی گئی؟‘‘ غنڈو حیران بھی تھا اور طیش میں بھی کہ یہ آخر ہوا کیسے۔
’’پھر کیا اسے زمین کھاگئی، یا پھر آسمان نگل گیا؟‘‘ مس طنزاً بولیں۔
’’مجھے لگتا ہے کہ میری کاپی کسی نے میرے بیگ سے نکال کر چھپائی ہے، یہ میرے خلاف سازش ہے‘‘۔ غنڈو مزید طیش میں آگیا۔
’’تمہارے خلاف بھلا کوئی کیوں سازش کرے گا؟‘‘ مس حیرت سے بولیں۔
’’سبھی اس سے تنگ ہیں، کوئی بھی کرسکتا ہے‘‘۔ کسی نے منہ دبا کر کہا۔ 
’’ہر کوئی اپنی ڈیسک اور اپنا بیگ چیک کرلے بھئی!‘‘ مس نے اس کا دل رکھنے کے لیے کہا۔
ہر کوئی ایسا ہی کرنے لگا۔ بونو کا دوست سونو بولا۔
’’بونو‘ تم نہیں چیک کررہے؟‘‘
’’ اس لیے کہ مجھے پتا ہے کہ کاپی پڑھاکو کے پاس سے نکلے گی، میں نے ہی تو صبح رکھی تھی‘‘۔ بونو رازداری سے بولا تو سونو کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔
’’تم نے۔۔۔ مگر کیوں؟‘‘
’’تاکہ غنڈو کا پول کھل جائے‘‘۔ بونو بولا۔
ادھر پڑھاکو نے نعرہ لگایا۔
’’ارے۔۔۔ یہ میرے بیگ میں کہاں سے آگئی؟‘‘
غنڈو نے جلدی سے جاکر دیکھا تو وہی اس کی کاپی تھی۔ وہ خوش ہو کر بولا۔
’’دیکھا۔۔۔ مل گئی نا!‘‘
مس نے اس کی کاپی لے کر ہوم ورک دیکھا جو کہ اچھی طرح کیا گیا تھا‘ پھر بولیں۔
’’شاید پڑھاکو نے تمہاری نقل کرنے کے لیے کاپی لی ہوگی، میں اس کا ہوم ورک بھی دیکھتی ہوں‘‘۔ کچھ دیر تک مس صفحات پلٹتی رہیں پھر بولیں۔
’’دونوں کا کام بالکل ایک جیسا ہے، یعنی کسی ایک نے دوسرے کی نقل کی ہے، مگر ایسا اس لیے نہیں ہے کہ دونوں کی ہینڈ رائٹنگ ایک ہی ہے۔
کیوں پڑھاکو، تم نے اس کا ہوم ورک کیوں کیا؟‘‘
’’غنڈو کی غنڈہ گردی سے دب کر ہی کیا ہوگا‘‘۔ کوئی دھیرے سے بولا۔
مس نے غنڈو کو کلاس کے سامنے مرغا بنادیا، جبکہ پڑھاکو کو بھی کان پکڑ کر کھڑا کرادیا۔
’’شاید ایک پول اور کھل جائے‘‘۔ بونو نے اپنے دوست سونو سے کہا، تو سونو کو کچھ سمجھ نہ آیا، مگر تھوڑی ہی دیر میں کاپیاں چیک کرتے کرتے مس نے اچانک چڑاؤ کو بلالیا،جس کا محبوب مشغلہ دوسروں کی چڑیں بنانا تھا۔
مس نے تین چار ڈنڈے فراخدلی کے ساتھ اسے ٹکائے اور پھر بولیں۔
’’شرم نہیں آتی تمہیں اپنی ٹیچر کا مذاق بناتے ہوئے، کیوں لکھا تھا تم نے بورڈ پر بتاؤ‘‘۔
وہ بے چارہ کیا بتاتا، اس کو تو ابھی تک یہ ہی سمجھ نہ آئی تھی کہ مس کو پتا کیسے چل گیا۔
جبکہ مس نے یہ تو دیکھ لیا تھا کہ اس کی کاپی پر ان کے دستخط کے نیچے کس نے مس چڑیل لکھ کر مٹایا ہے، مگر یہ غور نہ کرسکیں کہ اس میں چ کا تیسرا نقطہ نیچے نہیں بلکہ اوپر تھا۔

*۔۔۔*

یہ بونوں کی ایک چھوٹی سی دنیا تھی جو انسانوں کی آبادی سے کچھ دور زیر زمین آباد تھی۔
آج سے کئی سال پہلے یہاں سورج کی روشنی دن کے وقت بھی بہت مدھم سی آتی تھی، کیوں کہ اس کے آنے کا بھی وہی ایک راستہ تھا جو بونوں کے زمین آنے جانے کا تھا۔
راستے اور بھی بن سکتے تھے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ بارش کے زمانے میں سارا پانی اسی راستے سے یہ بہہ کر بونستان آجایا کرتا اور پھر کافی دن بے چارے بونے سیلاب زدہ رہتے۔
ایسے میں بڈھو بونا انسانوں کے درمیان کافی وقت چھپ کر گزار کر آیا اور پھر اس نے ٹیلی اسکوپ کے طرز پر اندر آنے کی سرنگ میں آئینے لگادیے جس سے سورج کی روشنی براہ راست بونستان میں پڑتی، اور ایسا لگتا کہ گویا سورج خود ہی وہاں نکل آیا ہو۔
سرنگ کو گہرا کرکے ایک اور راستہ نیچے بنادیا گیا تھا جس کے بعد صورتحال یہ تھی کہ پانی تو سرنگ سے نیچے اتر جاتا، مگر روشنی آئینوں سے ٹکر کر اوپر بونستان میں آجاتی اور یوں بونے ایک بہت بڑی مشکل سے بچ جاتے۔
بونے آئینہ بنانے کے فن سے ناآشنا تھے اور جتنے آئینے بھی سرنگ میں لگے تھے وہ بڈھو بونا ہی اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔
بڈھو بونا سب کا ہیرو بن گیا۔ اس کے بعد کچھ اور بونوں نے بھی کوشش کی کہ انسانوں کی دنیا سے جا کر کچھ کارآمد چیزیں لائیں،مگر یا تو وہ راستے ہی میں کسی حادثے کا شکار ہوگئے، یا پھر کسی انسان کے ہتھے چڑھ کر قید ہوگئے اور کبھی واپس نہ آئے۔
اسی لیے اب کسی بھی بونے کو انسانوں کی دنیا میں جانے کی اجازت نہیں تھی، حتیٰ کہ بڈھو بونے کو بھی یہی کہا جاتا کہ ایک مرتبہ وہ قسمت سے بچ کر واپس آگیا ہے، مگر بار بار ایسا نہیں ہوگا۔
بڈھو بونا اب بھی تجربات کرنا چاہتا تھا، اپنی صلاحیتوں سے سب کو فائدہ پہنچانا چاہتا تھا، مگر اسے کچھ بھی نہ کرنے دیا جاتا اس وجہ سے کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے اور اگر کوئی تجربہ الٹا ہوگیا تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔

*۔۔۔*

’’ایک نہیں دو نہیں دس کے دس غائب! ارے کس کمبخت نے ہمارے سارے پان چرالیے‘‘۔ دادو سر پیٹ کر بولیں۔
’’آئے ہائے اماں۔۔۔ مگر آپ کے پاس اتنے بہت سے پان آ کہاں سے گئے تھے؟‘‘ امی پریشان سے زیادہ حیران تھیں۔
’’ارے موئی گلشن سے بڑی مشکل سے حاصل کیے تھے، اب وہ تو ایک ہفتہ سے پہلے آئے گی نہیں، کیسے کٹیں گے یہ دن پان کے بغیر‘‘۔ دادو پریشان ہو کر بولیں۔
’’کیا یہ نونو کی حرکت ہوسکتی ہے؟‘‘ امی نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
’’قطعی نہیں۔ یہ ضرور بونو کی شرارت ہے، صرف وہ ہی اتنا ذہین ہے جو ہماری چھپائی ہوئی جگہ سے پان نکال لے‘‘۔ دادو یقین سے بولیں۔
امی نے بونو کو بلا کر دادو کے حوالے کیا جنہوں نے تفتیش شروع کردی۔
سب سے پہلے اس کی جیبیں دیکھیں۔ پھر ہاتھوں میں کھتے کا رنگ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ منہ کھلوا کر اس میں تانگ جھانک کرتی رہیں کہ شاید کوئی ثبوت مل جائے یا پان کی خوشبو ہی آجائے، مگر ناکامی رہی۔
ایسے میں نونو نے آکر بتایا کہ ’’دس‘‘ دوست دروازے پر آئے ہیں اور کھیلنے کے لیے بلا رہے ہیں۔
’’دس‘‘ کی تعداد پر دادو کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے سارے دوستوں کو بھی بلا کر شامل تفتیش کرلیا۔
دوستوں نے آتے ہی کہا۔
’’بھئی بونو۔۔۔ تمہاری طرف سے کل والی دعوت تو بہت خوب رہی۔۔۔ مزہ آگیا‘‘۔
دادو نے پوچھا۔ ’’ویسے تم لوگوں کو کھانے میں کون کون سی چیزیں اچھی لگتی ہیں؟‘‘
’’پان‘‘ جھٹ پٹ جواب آیا اور دادو نے فوراً کئی چپت بونو کو لگادیے۔
بونو بے چارہ پٹتا رہا۔ بعد میں بولا۔
’’مگر دادو‘ میں نے تو ان لوگوں کو ایک بھی پان نہیں کھلایا‘‘
’’ارے ہائیں‘‘۔ دادو نے حیرت سے دوستوں کی طرف دیکھا تو انہوں نے بھی تائید کی۔
’’ہمیں تو بونو نے کل دعوت میں بیریاں کھلائی تھیں!‘‘
’’کمال ہے، ٹھیک ہے تم سب جاؤ‘‘۔ دادو نے سب کی جان بخشی کی۔
گھر سے باہر نکل کر سونو نے پوچھا۔
’’بونو، جب دادو تمہاری پٹائی کررہی تھیں تو تم نے اس سے پہلے یہ بات کیوں نہ بتائی کہ تم نے ہمیں پان نہیں کھلائے‘‘۔
اس لیے کہ پان دراصل چرائے میں نے ہی ہیں‘‘۔ بونو رازداری سے بولا۔
’’مگر کیوں؟‘‘ سونو حیران رہ گیا۔
اس لیے کہ دادو تمباکو والے پان کھاتی ہیں جو کہ ڈاکٹر نے ایک ہفتے کے لیے سختی سے منع کیے ہیں۔ میں نے دادو کو نقصان سے بچانے کے لیے ایک ہفتہ کے پان غائب کردیے۔

*۔۔۔*

ایک دن صبح تو ہوگئی، مگر بونستان میں روشنی نہ آئی۔ بونوں نے بدحواسی کے عالم میں سرنگ کے پاس گئے تو یہ دیکھ کر ان کے چھکے چھوٹ گئے کہ وہاں کہ دو آئینے مکمل طور پر ٹوٹے ہوئے تھے۔ ایک آفت مچ گئی، ہر کسی کو یہی فکر تھی کہ اب کیا ہوگا۔ ایک بونا بولا۔
’’یہ تو بعد کی بات ہے یہ درست کیسے ہوگا، پہلے تو ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ یہ سب ہوا کیسے؟‘‘
’’ضرور یہاں سے کوئی لوہے والی چیز اند لائی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ ٹوٹا ہے۔‘‘ ایک سیانا بونا بولا۔
ان آئینوں کی وجہ سے بونستان میں لوہے کی چیزیں لانا منع تھا، مگر آج کس کی حماقت کی وجہ سے سارے بونے روشنی سے محروم ہوگئے تھے۔
مجرم کو پکڑنے کے لیے گھر گھر تلاشی کا سلسلہ شروع ہوا، یہاں تک کہ ایک بڑی سی لوہے کی کیل مل گئی اور وہ بھی بونو کے گھر سے۔
بونو کو موت کی سزا تو ملنی ہی تھی، مگر اس سے پہلے ہی اس کی کافی درگت بنادی گئی اور قید کرلیا گیا۔ سونو نے اداس لہجے میں بونو سے کہا۔
’’تمہاری شرارتوں سے تو دوسروں کا فائدہ ہوتا تھا، یہ تم نے کیا حرکت کی کہ سارے بونوں کی روشنی بند کردی‘‘۔
بونو کچھ دیر تو خاموش رہا، پھر سونو کو قریب بلا کر بولا۔
’’تم مجھے میرے گھر سے میری خاص چابی لادو مگر پہرہ داروں کی نظر بچا کر‘‘۔
ادھر بونستان کے سارے لوگ بڈھو بونے کے پاس جمع تھے اور اس بات پر غور و خوض کررہے تھے کہ روشنی کا نظام کیسے ٹھیک کیا جائے۔
بڈھو بونا بولا: ’’سب سے پہلے تو میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس روشنی کے نظام کا ہیرو بھی میں تھا اور اب اس کے بگاڑ کا ذمہ دار بھی میں ہوں‘‘۔
’’آپ؟‘‘ سب حیرت سے بولے۔
’’ہاں میں۔ تم لوگوں نے مجھ پر مزید تجربات کرنے کی پابندی لگادی جس کی وجہ سے مجھے چھپ چھپ کر کوشش کرنی پڑتی اور وہ اسی لیے کامیاب نہیں ہوتیں،اسی طرح کی ایک کوشش کرنے میں رات کے اندھیرے میں مجھ سے وہ آئینے ٹوٹ گئے‘‘۔
’’کیا؟؟‘‘ بونے چیخ اٹھے۔
’’وہ لوہے کی کیل بستی میں میں لارہا تھا، نہ جانے کیوں بونو نے وہ کیل میرے گھر سے اڑالی اور بے چارہ خود پھنس گیا‘‘۔
’’مگر اب روشنی کا کیا ہوگا؟‘‘ ایک بونا پریشان ہو کر بولا۔
’’بونو کو صبح رہا کردیا جائے گا اور پھر ہم سب مل کر آئینوں کے نظام کو دوبارہ سے بنانے کی کوشش کریں گے‘‘۔
سارے بونوں نے اس بات سے اتفاق کیا، مگر پریشانی سب کے چہروں سے مکمل طور پر واضح تھی۔

*۔۔۔*

اگلی صبح بونے اٹھے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بونستان میں سورج کی روشنی بھرپور طریقہ سے آرہی تھی، انہوں نے جا کر سرنگ دیکھی تو وہاں ٹوٹے ہوئے آئینوں کی جگہ پانی بھرے برتن رکھے تھے جو بالکل آئینوں کا کام کررہے تھے، حیرت تو سب ہی کو ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے مگر زیادہ حیرت اس بات کی تھی کہ یہ سب آخر کیا کس نے۔ سب کا خیال تھا کہ بڈھو بونے کی کارروائی ہے، مگر بڈھو بونا اس سے بالکل لاعلم تھا۔
’’اس طرح سے چھپ کر کامیابی سے کام دکھا جانے والا بونو کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا‘‘۔ کسی نے اندازہ لگایا۔
’’مگر وہ کل شام سے قید میں ہے‘‘۔ کسی نے یاد دلایا۔
’’وہ قید میں تو تھا، مگر ایسی قید سے نکل جانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس نے بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں حاصل کررکھی ہیں جو کہ اس کے بہت کام آتی ہیں۔‘‘ بونو کے دوست سونو نے بتایا۔
’’مگر یہ چیزیں اس کے پاس آئی کہاں سے؟‘‘
’’وہ باقاعدگی سے انسانوں کی بستی جاتا ہے اور وہاں سے جا کر چیزیں سیکھتا ہے، کسی کو بتاتا اس لیے نہیں کہ اسے منع کردیا جائے گا‘‘۔
’’ہائیں۔۔۔ اچھا‘‘۔ سب بونے حیرت سے بولیے۔
’’اور یہ روشنی کا نظام بھی اسی نے کل رات کو درست کیا ہے۔ ایسی چیز اس نے چند ماہ پہلے انسانوں کے رسالے ماہنامہ ساتھی میں پڑھی تھی، ہم نے اسی رسالہ کی مدد سے یہ کام سرانجام دیا ہے‘‘۔
سونو یہ کہنے کے بعد ایک مڑا تڑا سا کاغذ لے آیا جس میں انکل فکری کے سائنسی تجربے کو تصاویر کی مدد سے سمجھایا گیا تھا (ساتھی، مئی 2011ء)
سب حیرت سے اس کاغذ کو دیکھنے لگے جبکہ کسی نے صدا لگائی۔
’’ارے کیا یہی سب کرتے رہو گے، کوئی جا کر بونو کو تو قید سے رہائی دلاؤ‘‘۔
بونو سارا کارنامہ سرانجام دے کر دوبارہ قید میں واپس چلاگیا تھا، اسے جب باہر لایا گیا تو اس نے حیرانی کی اداکاری کی اور باقی بونوں سے بولا۔
’’ارے، یہ روشنی کا نظام کیسے ٹھیک ہوگیا؟‘‘ اسے کیا پتا تھا کہ اس کے بارے میں سب کو پتا چل چکا ہے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top