skip to Main Content

میاں اکڑفوں

برطانیہ کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
دھوپ بہت تیز تھی۔ راستے سنسان تھے۔ مارے گرمی کے چیل بھی انڈ اچھوڑے دے رہی تھی۔ ایسے میں میاں اکڑفوں ایک لمبی پگڈنڈی پر چلے جار ہے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ رینگ رہے تھے اور ساتھ ساتھ کچھ بڑا بڑا بھی رہے تھے۔ ویسے تو بڑ بڑانا اور ہردم پھوں پھاں کرنا ان کی گھٹی میں پڑا تھا مگر ایسی شدید گرمی میں تو کسی خوش اخلاق کو بھی باہر نکلنا پڑتا تو اسکی بھی ساری خوش مزاجی رخصت ہو جاتی۔ ویسے آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ یہ ”میاں اکڑ فوں“ آخر تھے کون؟ تو چلیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ ایک بہت غصیلے اور تنک مزاج خرگوش تھے۔ اور انکے ہر دم غصے میں رہنے کی وجہ سے ہی سب انہیں ”میاں اکڑفوں“ کہنے لگے تھے۔
اس وقت بھی وہ گرمی کے ساتھ ساتھ غصے میں جلتے بھنتے لمبی سی پگڈنڈی پر چلے جارہے تھے۔ اچا نک پیچھے سے چرخ چوں کی آواز سنائی دی۔ پیچھے مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اود بلاؤاپنے چھکڑے میں ایک لومڑ جوتے،اسے ہانکے لیا چلا آتا ہے۔ اود بلاؤ نے بھی میاں اکڑفوں کو دیکھ لیا اور بوڑھے سے تھکے ماندے خرگوش پہ ا سے رحم آ گیا۔ قریب آ کر بولا۔
”میاں! اگر جانورستان جانا ہے تو آؤ بیٹھ جاؤ میری گاڑی میں۔“
میاں اکڑفوں نے اپنی سرخ واسکٹ اتار کر کندھے پہ ڈال رکھی تھی۔ خوامخواہ ہی اسے اتار کر جھٹکا، دوسرے کندھے پہ ڈالا اور اچھل کر گاڑی میں جا بیٹھے۔ اود بلا ؤ اس رویے پہ حیران تو ہوامگر خاموشی سے گاڑی ہانکنے لگا۔ کچھ دیر بعد اسے پیچھے سے بڑ بڑسنائی دی۔ اس نے پلٹ کر پوچھا۔
”کیا کہتے ہومیاں؟“
”تمہاری گاڑی بہت سخت ہے۔ بیٹھتے ہی میری کمر دکھنے لگی۔“
”یہ تو تمہاری عمر کا تقاضا ہے۔“ اود بلا ؤ نے ہنس کر کہا۔”اچھا ایسا کرو۔ اپنی واسکٹ نیچے بچھالو۔“
اود بالا پھر گاڑی ہانکنے لگا۔ گرمی بڑھتی جارہی تھی۔ لومڑ بے چارہ بھی ہانپ رہاتھا۔ کچھ دیر بعد پیچھے سے پھر بڑ بڑاہٹ سنائی دی۔
”اب کیا ہوا؟“
”تمہارالومڑ بہت آہستہ چل رہا ہے۔ اس نے تو کچھوے کو مات کر دیا ہے۔“
”گرمی بھی تو دیکھو کس قیامت کی پڑ رہی ہے۔ ہم لوگ تین میل پیچھے سے آرہے ہیں۔ اسکے بعد کچھ دیرخاموشی رہی اور پھر وہی بڑ بڑاہٹ شروع۔ اود بلاؤ جھلا کر پلٹا۔
”اب کیا مسئلہ ہے؟“
”تم اسقدر پھیل کر بیٹھے ہو کہ مجھے کچھ نہیں دکھائی دے رہا۔“
”میں پھیل کر نہیں بیٹھا بلکہ میں ہوں ہی موٹا تازہ۔“ اور بلا ؤجل کر بولا۔
چلتے چلتے وہ لکڑی سے بنے ایک پرانے پل پہ جاپہنچے۔ یہاں چھکڑے نے اتنے ہچکولے کھائے کہ اس کے پہیے بھی کراہ اٹھے اور چرخ چوں کی آواز چراخ خ خ خ خ…… چوں چوں چیں میں بدل گئی۔ پیچھے سے میاں اکڑفوں بھی بڑ بڑ کرنے لگے۔ اور بلاؤ نے کراہ کر پوچھا۔
”میاں! اب کیا کہتے ہو؟“
”تمہارا چھکڑابہت ہی پرانا ہے۔ میرا تو انجر پنجر ہی ڈھیلا ہو گیا۔“
اودھ بلاؤ نے باگیں کھینچیں، لومڑ گاڑی رک گئی۔ ”میاں خرگوش!فوراً نیچے اتر جاؤ۔“
”نیچے اتر جاؤں؟“ اکڑفوں کی تو سٹی ہی گم ہوگئی۔
”ہاں میرے بھائی!تم پیدل ہی چلوتو بہتر ہے۔ یہ چھکڑ اتمہاری شاندارشخصیت کے قابل نہیں۔“
”میں تو…… میں تو…… بس یونہی کہہ رہا تھا۔“
”فوراً اترو۔ سیٹ سخت ہے…… میں پھیل کر بیٹھا ہوں …… لومڑ رینگ رہا ہے…… چھکڑ اپرانا ہے…… جاؤ جا کر کوئی شاہی سواری ڈھونڈو۔“ اود بلاؤ کو واقعی غصہ آ گیا۔
میاں اکڑفوں نے اپنی واسکٹ اٹھائی اور منہ لٹکائے گاڑی سے اتر گئے۔ اب لومڑ گاڑی آگے تھی اور پیچھے پیچھے اکڑفوں میاں گھسٹتے چلے آ رہے تھے۔ بار بار واسکٹ کی جیب سے رومال نکال کر پسینہ پونچھتے۔ اور پھر جیسے ان کی ساری پھوں پھاں کہاں غائب ہوگئی۔ ذرا آگے بڑھ کر بولے۔
”بھیا!بس ایک موقع اور دے دو۔ اب بالکل چپ چاپ بیٹھوں گا۔ ایک لفظ میرے منہ سے نہ نکلے گا۔“
اود بلا ؤ کو آخران پہ ترس آ ہی گیا اور اس نے اس تھکے ماندے خرگوش کو پھر سے اپنی گاڑی میں بٹھالیا۔ خاصی دیر خاموشی سے سفر کیا اور پھر ایک مرتبہ اود بلاؤ کو پیچھے سے کچھ منمنا ہٹ سی سنائی دی۔ وہ جھلا کر پیچھے مڑا۔ اکڑفوں نے جلدی سے کہا۔”بھیا!تمہاری گاڑی ایک نعمت سے کم نہیں۔ پیدل چلتے ہوئے تو میرے تلوے جھلس رہے تھے۔“
”یہ ہوئی نہ بات۔ لیکن ابھی بھی تم پڑھا اور کہنا بھول رہے ہو۔“
”وہ کیا؟“
”تم خودسوچو۔“
میاں اکڑفوں سوچتے رہے۔ گاڑی چلتی رہی۔ چرخ چوں۔ چرخ چوں ……
”اور…… اور یہ کہ میں گاڑی میں بیٹھ کر بہت خوش ہوں …… بھیا اود بلا ؤ!تمہارا بہت شکر یہ۔“
”ہاں! اب تم بالکل درست سوچ رہے ہو۔ میری گاڑی جیسی بھی ہے پر میں نے خلوص سے تمہیں بیٹھنے کی دعوت دی۔ جواب میں تمہیں میر اشکر یہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ تم تو ہر چیز کو برا بھلا کہنے لگے۔ بہر حال تمہیں احساس ہو گیا۔ بہت اچھی بات ہے۔“
”شکریہ میرے دوست! تم نے مجھے ایک اور طرح سوچنا سکھایا۔“میاں اکڑفوں نے بہت خوش مزاجی سے کہا۔ گاڑی چلتی جارہی تھی۔ سفر تھوڑا ہی رہ گیا تھا اور اب پہیوں کی چرخ چوں میاں اکڑفوں کو بالکل نا گوار نہ گزر رہی تھی۔ اود بلا ؤ نے ایک قہقہہ لگایا اور گاڑی کو جانورستان کی طرف ہانکنے لگا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top