skip to Main Content

میرے بابا

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا اکلوتا بیٹا معاذ آج اپنے کمرے میں منھ پھلائے بیٹھا تھا کیونکہ جس چیز کی خواہش وہ ابھی مجھ سے کررہا تھا۔ وہ ایک باپ کی حیثیت سے میں پوری نہیں کرسکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ میں کر بھی دیتا اگر اس خواہش کے ساتھ میری تلخ یادیں جڑی نہ ہوتیں۔
معاذ مجھ سے ضد کررہا تھا کہ میں اسے گاڑی دوں تاکہ وہ اسے چلا کر قریبی مارکیٹ تک جائے۔ وہ ابھی صرف چودہ برس کا تھا۔ میں زندگی میں کامیاب شخص تھا۔ مجھے گاڑی کے چھوٹے موٹے نقصان کا قطعی ڈر نہیں تھا لیکن اس ضد کو پورا کرنے میں کسی قسم کے نقصانات کا اندیشہ تھا۔ وہ میں ماضی میں دیکھ چکا تھا۔ میں بھی اس وقت معاذ کی عمر کا تھا۔ چلیں اسی وقت کیا ہوا تھا میں آپ کو کہانی کی صورت میں سناتا ہوں اور پھر یہی کہانی میں معاذ کو بھی سناؤں گا تو امید ہے کہ اچھے بیٹے کی طرح وہ میری بات مان جائے گا۔
میں بچپن میں شہر کے سب سے منہگے علاقے میں بہت خوبصورت مکان میں رہا کرتا تھا۔ میرے والد بہت خوشحال کاروباری آدمی تھے۔ اُنھوں نے ساری زندگی بہت محنت سے جو کچھ کمایا تھا۔ اس سے وہ بہت کامیاب اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ مجھے بابا جان کی سب چیزوں سے زیادہ ان کی نئی نویلی گاڑی سے محبت تھی اور میں ہمیشہ اس میں سفر کرنے کے لیے تیار رہتا تھا۔ میں سوچتا رہتا کہ میں کب اس گاڑی کو چلا پاؤں گا لیکن ابھی دلّی مجھ سے بہت دور لگتی تھی۔ میں روز دن گنتا کہ میرا ڈرائیونگ لائسنس کب بنے گا۔ لیکن ہر دفعہ میرا حوصلہ جواب دے جاتا جب مجھے یاد آتا کہ یہ ابھی دنوں کی نہیں برسوں کی بات ہے۔
میرے گھر کے سامنے بہت بڑا کھلا میدان تھا۔ جہاں میں نے گاڑی چلانے کی مشق کی تھی ۔ وہاں تک گاڑی لے جانے کی مجھے اجازت بھی تھی لیکن بابا جان کی طرف سے ابھی مجھے قطعی اجازت نہیں تھی کہ میں گاڑی سڑک پر لے جاؤں۔ اُنھوں نے مجھے سختی سے منع کر رکھا تھا کہ میں اس میدان سے باہر گاڑی لے جاؤں۔ میرے لیے یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہوا کرتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ بابا جان کی منت کی۔ لیکن ان کو منا نہیں سکا۔ پھر بھی ایک دن میں نے ان سے پوچھا:” آخر میں میدان سے گاڑی باہر کیوں نہیں لے کر جاسکتا۔ اب مجھے گاڑی چلانا اچھی طرح آتی ہے۔ میں صرف بازار تک جانا چاہتا ہوں۔ تاکہ میں اپنے دوستوں کو دکھاؤں کہ میں گاڑی چلا سکتا ہوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی نقصان نہیں کروں گا۔“
بابا جان بولے:”دیکھو بیٹا میں تمھیں بار بار وجہ بتا چکا ہوں۔ سب سے پہلی بات تمھارے پاس لائسنس کا نہ ہونا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر تم سڑک پر گاڑی چلاؤ گے تو یہ غیر قانونی عمل ہوگا۔سارجنٹ تمھیں پکڑے تو تمھیں جرمانہ تو ہوگا ہی۔ اس کے علاوہ نہ صرف یہ میرے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے یہ بے عزتی والی بات ہوگی۔ جس کے لیے میں تمھیں اجازت نہیں دے سکتا۔“ میں نے بابا جان سے بحث کے انداز میں کہا۔ ” لیکن بابا جان میں اپنے ہم عمر بہت سے لڑکوں کو جانتا ہوں جو اپنے اپنے بابا کی گاڑیاں بازاروں میں لیے پھرتے ہیں۔“
بابا بولے: ”ہوسکتا ہے وہ لیے پھرتے ہوں لیکن ان کی غلط حرکات کی وجہ سے تمھیں اُنھی کی طرح غلط حرکتیں کرنے کی اجازت نہیں مل سکتی لیکن ان سب باتوں سے بڑھ کر بیٹا کیا تم اس بات کا احساس نہیں کرسکتے کہ لائسنس کے بغیر گاڑی شاہراہ پر چلا کہ تم خود کو اور وہاں راہگیروں کو خطرے میں ڈالو گے۔“
میں تنک کر بولا: ”بابا جان کیسے؟ میں کسی کو چوٹ تو نہیں پہنچاؤں گا۔“
بابا نے کہا: ” یہ تمھارا اندازہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لائسنس کے بعد گاڑی چلا کر اگر تم کسی حادثے کا مرتکب ہوتے ہو تو خاندان تباہ ہوسکتا ہے۔ “
میں بولا: ” لیکن بابا! گاڑی کا تو بیمہ ہوا ہے۔“
بابا مجھے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے: ”بیٹا سمجھنے کی کوشش کرو کہ اگر غیر قانونی طریقے سے گاڑی چلائی جائے گی اور اسے ایسا شخص چلائے گا جس کا لائسنس نہیں بنا ہوا تو کیا بیمہ پالیسی اس پر لاگو ہوگی۔ اس لیے اگر تم کسی کار کو ٹکر مارو گے یا گاڑی سے کچل دو گے تو مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مالی طور پر لاکھوں ہزاروں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اچھا اب چھوڑو اور اس بحث کو ختم کردو۔ جیسے ہی تم بڑے ہوگے تمھارا لائسنس بن جائے گا۔ تم گاڑی جہاں مرضی لے جانا لیکن ابھی نہیں۔“
میں نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا: ”جی ٹھیک ہے۔ مجھے پتا ہے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ لیکن وقت گزر ہی جائے گا۔“ بابا بولے: ”وقت تو بیٹا بہت جلد گزر جاتا ہے۔“ بابا نے تو کہہ دیا تھا لیکن میں ایسا نہیں سوچ رہا تھا۔ میں ہمیشہ اس بات پر ٹھنڈی سانسیں ہی بھرتا رہا کہ وقت جلد ی کیوں نہیں گزر رہا۔ ہر دفعہ میری نظر چمچماتی کار پر پڑتی اور میں دل مسوس کر رہ جاتا۔ میں اس کے پاس جا کر کسی دوست کی طرح اس سے باتیں کیا کرتا۔ میں کہتا۔ ” کچھ دن اور انتظار کرو دوست پھر تمھاری باگ دوڑ میرے ہاتھ میں ہوگی۔ ہم دونوں شاہراہوں پر گھومیں گے۔ پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ…. ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ اور اگر کوئی دیکھ نہ رہا ہو تو سو کلومیٹر سے بھی زیادہ رفتار سے۔ “
پھر ایک دن میرے بابا جب شہر سے باہر گئے ہوئے تھے اور امی جان پڑوسیوں کے ہاں تھیں تو میرے اندر خواہش زور پکڑنے لگی۔ میں نے گاڑی گیراج سے نکالی اور اسے گھر سے باہر لے گیا۔ گاڑی پچھلے گیئر میں ڈالی اور واپس گیراج میں لگا دی۔ ایسا میں نے تین چار دفعہ کیا۔ لیکن آخری دفعہ گھر سے نکل کر میں نے سڑک پر نظر دوڑائی جو مرکزی شاہراہ سے ملتی تھی۔ جس پر گاڑی چلا کر بابا ہمیں مارکیٹ لے کر جاتے تھے۔ میں نے سڑک کو دیکھا جو خالی تھی۔ میں نے آہستہ آہستہ گاڑی سڑک پر ڈال لی۔
وہ خوشی مجھے آج تک نہیں بھولتی۔ اچانک گویا میرے قبضے میں اتنی زیادہ طاقت آگئی تھی۔ گاڑی فراٹے بھرنے کے لیے میرے پاؤں کے اشارے کی منتظر تھی۔ جوش میں ہوش کھو بیٹھا تھا اور اپنے پیارے بابا جان کی تمام نصیحتوںکو یکسر فراموش کر بیٹھا ۔ میں سڑک پر آگے ہی آگے بڑھتا گیا مجھے یہ سب کچھ اتنا آسان لگ رہا تھا کہ میں سوچنے لگا کہ آخر بابا جان آج تک اس اتنے آسان کام سے مجھے کیوں روکتے رہے ہیں؟ میں راستے میں ایک دو موڑ مڑا اور پھر مرکزی شاہراہ پر چڑھ کر اس ڈر سے شہر میں داخل نہ ہوا کہ کہیں کوئی پولیس آفیسر مجھے روک نہ لے

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top