skip to Main Content

محبوبﷺکی سیرت

بنت مسعود احمد
۔۔۔۔

وہ دونوں آپس میں بری طرح گتھم گتھا تھے۔قریب ہی ایک دودھ کی تھیلی پھٹی پڑی تھی جس میں سے سارا دودھ بہہ چکا تھا۔
”تیمور!یہ کیا ہو رہا ہے؟“ وہ عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے آرہے تھے کہ گلی میں اپنے پوتے کو محلے کے بچے کے ساتھ ہاتھاپائی کرتے دیکھ کرحیران و پریشان رہ گئے۔ فوراً آگے بڑھ کر انہیں ایک دوسرے کی گرفت سے چھڑایا۔
دوسرا لڑکا بری طرح رورہا تھا۔ زمین پر گرنے کی وجہ سے اس کے کپڑے بھی مٹی میں اٹ چکے تھے جبکہ ان کے پوتے تیمور کے ہونٹ سے خون رس رہا تھا۔
”کیوں لڑ رہے تھے تم دونوں؟“وہ سخت لہجے میں دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگے۔
”دادا ابو! میں دودھ لے کر گھر جارہا تھا کہ اس نے پیچھے سے آکر مجھے ایک دم سے پکڑ لیا اور میرے ہاتھ سے دودھ کی تھیلی گر کر پھٹ گئی۔“وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔
”انکل میں نے تو مذاق میں اس کو پکڑا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے ہاتھ میں دودھ ہے ورنہ میں کبھی ایسا مذاق نہ کرتا۔“طاہر لال چہرہ لیے اپنی غلطی کی وضاحت کرنے لگا۔
”اوہ تو یہ معاملہ تھا،طاہر بیٹے آپ اپنے گھر جاؤ منہ ہاتھ دھوکر کپڑے بدلو جاؤ شاباش۔“وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بولے اور تیمور کا ہاتھ تھامے گھر کی جانب چل دیے۔

۔۔۔۔۔

”اتنی دیر سے کہاں تھے تم؟ میں نے کب سے دودھ لینے بھیجا ہے اور یہ ہونٹ کیسے پھٹ گیا؟“رعنا تیمور کو دیکھ کر فکر مندی سے پوچھنے لگیں۔
”کچھ نہیں ہوا بٹیا۔۔۔بچے ہیں، آپس میں چھوٹی موٹی لڑائیاں ہو ہی جاتی ہیں۔“وہ صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولے جبکہ تیمور سر جھکائے کھڑا تھا۔
”ابا جی یہ لڑکا حد سے زیادہ بدتمیز ہوتا جارہا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر چھوٹے بھائی بہن کو بھی مارنے کو دوڑتا ہے،سب سے بڑا ہے پر عقل نام کو نہیں۔“ رعنا پہلے ہی اس کی غصیلی طبیعت سے خائف تھیں اور آج تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ وہ باہر بھی کسی سے لڑ کر آگیا تھا۔وہ بیٹے کی طرف سے بہت فکر مند رہنے لگی تھیں۔

۔۔۔۔۔

فرقان صاحب آج کل چھوٹے بیٹے فیضان کے پاس اپنے کسی کام کے سلسلے میں کراچی آئے ہوئے تھے۔ انہیں آئے ہفتہ ہوچلا تھا اور انہیں اپنے کام کی وجہ سے مزید کچھ دن لگ سکتے تھے۔وہ جب سے یہاں آئے تھے، یہی دیکھ رہے تھے کہ ان کا بیٹا گھر اور بچوں کو ٹھیک سے وقت اور توجہ نہیں دے پارہا۔ خصوصاً تیمور عمر کے جس دور سے گزر رہا تھا، اس عمر کے بچے اکثر جذباتی ہوہی جاتے ہیں اور خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔وہ صبح کا گیا رات میں تھکا ہارا لوٹتا تھا۔پھر کھانا کھاکر کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر حال احوال پوچھ کر سونے چلا جاتا۔
اتوار کا دن سودا سلف لانے یا پھر کہیں آنے جانے میں نکل جاتا تھا۔

۔۔۔۔۔

آج کے واقعہ نے انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ پھر بہو کی کہی باتیں بھی انہیں فکرمند کر گئیں۔ انہیں اپنا گزرا وقت یاد آنے لگا۔شام میں آفس سے آکر وہ کچھ دیر آرام کرتے پھر عشاء کی اذان ہوتے ہی وہ فیضان اور نعمان کا ہاتھ تھامے انہیں مسجد لے جاتے۔ مسجد سے واپسی پر کبھی چنے اور کبھی ریوڑیاں، کبھی کوئی پھل انہیں دلاتے، پھر رات کا کھانا کھا کر وہ بچوں کو لے کر بیٹھ جاتے۔کبھی قصص الانبیاء،کبھی سبق آموز کہانیاں سناتے اور کبھی سیرت کی کتاب سے روشن احوال سنائے جاتے۔ ان کے دونوں بیٹے اور تینوں بچیاں بڑے ذوق و شوق سے سنتے اور آخر میں سنائے ہوئے قصے کی بابت وہ چھوٹے چھوٹے آسان سوال کرتے جو سب سے زیادہ صحیح جواب دیتا،وہ اسے انعام دیتے۔یوں بچے خوب لگن اور دل جمعی سے واقعات سنتے اور ان کے ننھے ذہنوں میں ثبت ہوجاتے۔
وہ حسین ماضی کے دھندلکوں میں کھوئے تھے کہ پوتی کے رونے کی آواز نے ان کی توجہ کے تانے بانے بانٹ ڈالے۔”مریم!!“ وہ کمرے سے باہر آئے اور روتی ہوئی مریم کو آواز دی۔
”دادا ابو! بھیا نے میری گڑیا توڑدی۔“وہ ان کے پاس آکر روتے روتے بولی۔
”تیمور!“مریم کو گود میں لے کر چپ کراتے ہوئے انہوں نے اسے پکارا۔
معلوم ہوا تیمور میاں بھی روتے روتے ان کے سامنے آکھڑے ہوئے۔
”اب تم کیوں رو رہے ہو؟“
”امی نے مارا ہے۔“اس نے اپنا ہاتھ ان کے آگے کیا جو سرخ ہورہا تھا۔
”کیوں مارا ہے؟کوئی وجہ تو ہوگی؟“
”مریم نے میری کتاب کا صفحہ پھاڑدیا تھا تو۔۔۔“وہ اتنا بول کر خاموش ہوا۔
”تو تم نے اس کی گڑیا توڑدی؟“انہوں نے اس کا ادھورا جملہ مکمل کیا۔
”ہممم۔۔۔“وہ سرجھکائے اتنا ہی بولا۔
”تیمور بیٹا! یہ دیکھو کہ مریم آپ سے کتنی چھوٹی ہے۔وہ ناسمجھ ہے لیکن آپ تو ماشاء اللہ بڑے ہو، سمجھ دار ہو، یہ اچھی بات ہے کہ بڑے ہوکر چھوٹوں کی برابری کرو اور ان سے مقابلہ بازی کرو۔کل تم نے عمار کو صرف اتنی سی بات پر دھکا دیا کہ وہ تمہاری جگہ پر آبیٹھا تھا۔“ وہ اسے اپنے ساتھ لیے کمرے میں آبیٹھے۔مریم کو وہ رعنا کی گود میں دے آئے تھے۔
اب دادا پوتا آمنے سامنے مسہری پر بیٹھے تھے۔
”بیٹے اپنی ذات سے کسی کو تکلیف پہنچانا کیا اچھی بات ہوئی؟مریم اور عمار دونوں تم سے چھوٹے ہیں۔ وہ وہی کریں گے جو تم کرو گے اور طاہر تمہارا اتنا اچھا دوست ہے۔ تم اس کے ساتھ اسکول جاتے ہو، ٹیوشن جاتے،ہو کرکٹ کھیلنے جاتے ہو، اگر اس نے مذاق میں تمہیں پکڑ لیا اور دودھ کی تھیلی گرگئی تو جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوگیا مگر تم غصے میں بے قابو ہوکر اسے مارنے لگے۔یہ کیا اچھی بات ہوئی؟اس نے دودھ جان بوجھ کر تو نہیں گرایا تھا نا مگر تم نے اسے جان بوجھ کر زمین پر گرادیا تھا۔“
”اس نے بھی میرے ہونٹ پر زور سے مارا تھا۔“وہ اپنا سوجا ہونٹ انہیں دکھانے لگا۔
”مگر بیٹے مارنے میں پہل تو تم نے ہی کی تھی نا؟“
”جی۔یہ میری غلطی تھی۔“
”اچھا یہ بتاؤ کاپی پر کچھ لکھتے ہو اور کسی لفظ کو لکھتے وقت غلطی ہوجاتی ہے تب کیا کرتے ہو؟“
”ربڑ سے مٹاکر دوبارہ سے لکھ لیتا ہوں۔“وہ فوراً بولا۔
”ہمم۔۔۔۔اب یہی کام ان غلطیوں کو سدھارنے کے لیے بھی کرنا پڑے گا جو تم کرچکے ہو۔“
”وہ کیسے دادا ابو۔۔؟“
”سب سے پہلے یہ عہد کرو کہ کسی کو اپنی ذات سے تکلیف نہیں دینی۔اگر یہ ایک کام کرلیا تو پھر کبھی کوئی جھگڑا ہی نہیں ہوگا۔“
”میں کوشش کروں گا دادا ابو پر جب کوئی مجھے تنگ کرتا ہے تو مجھے غصہ آجاتا ہے۔“
”ہمم ……یہ بات تو ہے مگر بدلہ لینے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو بندے کا معاف کردینا پسند ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسے بندے پسند ہیں جو لوگوں کی غلطیوں کو معاف کردیتے ہیں۔چلو تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں غور سے سننا۔“
”جی دادا ابو سنائیں میں غور سے سنوں گا۔“وہ ہمہ تن گوش ہوا۔
”بہت زمانے پہلے کی بات ہے چند نیک لوگ مسجد میں بیٹھے دین کی باتیں کررہے تھے۔کچھ دیر بعد معمول کے مطابق سب اپنے گھروں کو جانے لگے۔جونہی وہ مسجد سے نکلے تو ایک وحشی اور اجڈ شخص مسجد سے نکلنے والے اس شخص کے پاس آیا جو ان میں سب سے زیادہ نیک اور بزرگ تھا۔اس وحشی نے اس نیک شخص کی چادر اس زور سے کھینچی کہ اس چادر کی رگڑ سے ان کی گردن سرخ ہوگئی۔
نیک شخص نے مڑکر اس وحشی کو دیکھا تو وہ بولا ”میرے اونٹوں کو غلے سے لاد دے، تیرے پاس جو مال ہے وہ نہ تیرا ہے اور نہ تیرے باپ کا۔“
نیک شخص کو ذرا غصہ نہ آیا بلکہ صرف اتنا کہا کہ ”پہلے میری گردن کا بدلہ دو تب غلہ دیا جائے گا۔“
اس پر وہ وحشی کہنے لگا کہ”خدا کی قسم میں ہرگز بدلہ نہیں دوں گا۔“
جانتے ہو پھر اس نیک شخص نے کیا کیا؟“
”شاید اس وحشی کو تھپڑ مارا ہوگا یا اسے غلہ نہیں دیا ہوگا۔“تیمور اندازہ لگاتے ہوئے بولا۔
”نہیں میرے بیٹے، اللہ کے نیک بندے برائی کا بدلہ برائی سے نہیں بلکہ ہمیشہ اچھائی سے ہی دیتے ہیں۔اس نیک بندے نے اس وحشی کے اونٹوں پر جو اور کھجوریں لدوادیں۔“
”اچھا۔۔۔ اس وحشی نے ان کے ساتھ برا کیا مگر پھر بھی نیک آدمی نے اس کو اتنی چیزیں دے دیں۔“
”ہاں بالکل۔۔ایسا ہی کیا تھا۔اب ایک واقعہ اور سنو۔۔“
”ایک بار وہی نیک شخص اللہ کی عبادت میں مشغول تھا کہ اللہ کے دشمن نے ایک چادر کو رسی کی طرح بل دے کر نماز کی حالت میں ان کے گلے میں ڈالا اور بل دینے لگے یہاں تک کے گردن پر گرفت سخت ہوگئی۔اتنے میں اس نیک شخص کا سب سے بہترین دوست وہاں آگیا اور اس نے فوراً اس شخص کو دور کیا جو ان کو تنگ کررہا تھا۔“
”یہ تو بہت ہی گندی بات ہوئی نماز میں کسی کو تنگ کرنا بہت بری بات ہے،اس آدمی نے بہت غلط حرکت کی۔“
”مگر اس نیک آدمی نے اس غلط حرکت اور اذیت کا بدلہ بھی نہیں لیا۔“
”واقعی دادا ابو، وہ تو بہت بہت اچھے تھے کہ اس کے ساتھ لوگ برا کرتے مگر وہ برا نہیں کرتے تھے۔“
”جانتے ہو وہ نیک شخص کون تھے؟“
”نہیں۔“اس نے نفی میں گردن دائیں بائیں ہلائی۔
”وہ نیک شخص ہمارے پیارے نبیﷺ تھے اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو محبوب رکھتا ہے جو ان کے محبوب ﷺ کے طریقے کو اپناتا ہے۔بے شک ہمارے نبیﷺانسانیت کے سب سے اعلیٰ اور ارفع درجے پر فائز ہیں،اس لیے ان کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اگر ہم اپنی دنیاوی زندگی گزاریں گے تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔ جانتے ہو نبی ﷺ کے عمل کی نقل کی برکت سے کیا ملے گا؟“۔انہوں نے رک کر اس سے سوال کیا۔
”اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوجائیں گے۔“اس نے بیساختہ کہا۔
وہ اس کا جواب سن کر مسکرائے اور بولے۔”بالکل ٹھیک اللہ تعالیٰ خوش ہوکر جنت عطا فرمادیں گے۔“
”پر دادا ابو کیا میں بھی ان کے طریقے پر عمل کرسکتا ہوں؟“
”ہاں بالکل کیوں نہیں، ہر مسلمان کو نبیﷺکی سیرت اپنانی چاہیے۔اس کے لیے پہلے سیرت کو پڑھو،سمجھو اور اس کو سیکھو۔ تھوڑی کوشش سے، محنت سے یہ اچھی عادتیں خود بہ خود تمہاری عادت میں شامل ہونے لگیں گی۔کچھ سمجھ آئی میری بات؟“انہوں نے پوچھا۔
”جی دادا ابو سمجھ گیا۔ ہمیں اپنے نبی ﷺکی اچھی عادتیں سیکھنی ہیں اور اپنانی ہیں تاکہ ہم بھی اللہ کے پیارے بن جائیں۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top