۴ ۔ میدان بدر میں
اشتیاق احمد
میدان بدرمیں
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کچے کنویں پر ایک حوض بنوایا،جہاں اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں پانی بھروادیا اور ڈول ڈلوادیئے۔اس طرح حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل ہوا۔اس کے بعد سے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو ذی رائے کہا جانے لگا تھا۔
اس موقع پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
’’ اے اللہ کے رسول! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک عریش بنادیں۔(عریش کھجور کی شاخوں اور پتوں کا ایک سائبان ہوتا ہے) آپ اس میں تشریف رکھیں۔اس کے پاس آپ کی سواریاں تیار رہیں۔اور ہم دشمن سے جاکر مقابلہ کریں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مشورہ قبول فرمایا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سائبان بنایا گیا۔یہ ایک اونچے ٹیلے پر بنایا گیا تھا۔اس جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے میدان جنگ کا معائنہ فرماسکتے تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں قیام فرمایا۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا:
’’آپ کے ساتھ یہاں کون رہے گا تاکہ مشرکوں میں سے کوئی آپ کے قریب نہ آسکے۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’ اللہ کی قسم!یہ سن کر ہم میں سے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور اپنی تلوار کا سایہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کرتے ہوئے بولے:
’’ شخص بھی آپ کی طرف بڑھنے کی جرات کرے گا،اسے پہلے اس تلوار سے نمٹنا پڑے گا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ان جُرات مندانہ الفاظ کی بنیاد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سب سے بہادر شخص قرار دیا۔
یہ بات جنگ شروع ہونے سے پہلے کی ہے۔جب جنگ شروع ہوئی تو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سائبان کے دروازے پر کھڑے تھے۔اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی انصاری صحابہ کے ایک دستے کے ساتھ وہاں موجود تھے۔اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔
اس طرح صبح ہوئی،پھر قریشی لشکر ریت کے ٹیلے کے پیچھے سے نمودار ہوا۔اس سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مشرکوں کے نام لے لے کر فرمایا کہ فلاں اس جگہ قتل ہوگا،فلاں اس جگہ قتل ہوگا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کے نام لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس جگہ قتل ہوگا،وہ بالکل وہیں قتل ہوئے،ایک انچ بھی ادھر ادھر پڑے نہیں پائے گئے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ قریش کا لشکر لوہے کا لباس پہنے ہوئے اور ہتھیاروں سے خوب لیس بڑھا چلا آرہا ہے تو اللہ رب العزت سے یوں دعا فرمائی:
’’ اے اللہ!یہ قریش کے لوگ،یہ تیرے دشمن اپنے تمام بہادروں کے ساتھ بڑے غرور کے عالم میں تجھ سے جنگ کرنے(یعنی تیرے احکامات کے خلاف ورزی)اور تیرے رسول کو جھٹلانے کے لئے آئے ہیں،اے اللہ!آپ نے مجھ سے اپنی مدداور نصرت کا وعدہ فرمایا ہے،لہٰذا وہ مدد بھیج دے۔اے اللہ!تو نے مجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے ثابت قدم رہنے کا حکم فرمایا ہے،مشرکوں کے اس لشکر پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔اے اللہ! انہیں آج ہلاک فرمادے۔‘‘
ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ صلی علیہ وسلم کی دعا میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
’’ اے اللہ!اس امت کے فرعون ابوجہل کو کہیں پناہ نہ دے،ٹھکانہ نہ دے۔‘‘
غرض جب قریشی لشکر ٹھہر گیا تو انہوں نے عمیر بن وہب جہمی رضی اللہ عنہ کو جاسوسی کے لیے بھیجا۔ یہ عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔اور بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔
قریش نے عمیر رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’جاکر محمد کے لشکر کی تعداد معلوم کرو اور ہمیں خبر دو۔‘‘
عمیر رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے۔ انہوں نے اسلامی لشکر کے گرد ایک چکر لگایا۔پھر واپس قریش کے پاس آئے اور یہ خبر دی:
’’ان کی تعداد تقریباً تین سو ہے۔ممکن ہے کچھ زیادہ ہوں…مگر اے قریش!میں نے دیکھا ہے ان لوگوں کو لوٹ کر اپنے گھروں میں جانے کی کوئی تمنا نہیں اور میں سمجھتا ہوں،ان میں سے کوئی آدمی اس وقت تک نہیں مارا جائے گا جب تک کہ کسی کو قتل نہ کردے۔ گویا تمہارے بھی اتنے ہی آدمی مارے جائے گے…جتنے کہ ان کے…اس کے بعد پھر زندگی کاکیا مزہ رہ جائے گا،اس لیے جنگ شروع کرنے سے پہلے اس بارے میں غور کرلو۔‘‘
ان کی بات سن کر کچھ لوگوں نے ابوجہل سے کہا:
’’ جنگ کے ارادے سے بعض آجاؤ اور واپس چلو،بھلائی اسی میں ہے۔‘‘
واپس چلنے کا مشورہ دینے والوں میں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ابو جہل نے ان کی بات نہ مانی اور جنگ پر تل گیا اور جو لوگ واپس چلنے کا کہہ رہے تھے،انہیں بزدلی کا طعنہ دیا۔اس طرح جنگ ٹل نہ سکی۔
ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ اسود مخزومی نے قریش کے سامنے اعلان کیا:
’’ میں اللہ کے سامنے عہد کرتا ہو کہ یا تو مسلمانوں کے بنائے ہوئے حوض سے پانی پیوں گا…یا اس کو توڑ دوں گا یا پھر اس کوشش میں جان دے دوں گا۔‘‘
پھر یہ اسود میدان میں نکلا۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس کے مقابلے میں آئے۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس پر تلوار کا وار کیا، اس کی پنڈلی کٹ گئی،اس وقت یہ حوض کے قریب تھا،ٹانگ کٹ جانے کے بعد یہ زمین پر چت گرا،خون تیزی سے بہہ رہا تھا،اس حالت میں یہ حوض کی طرف سرکا اور حوض سے پانی پینے لگا۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ فوراً اس کی طرف لپکے اور دوسرا وار کرکے اس کا کام تمام کردیا۔
اس کے بعد قریش کے کچھ اور لوگ حوض کی طرف بڑھے۔ ان میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آتے دیکھ کر فرمایا:
’’انہیں آنے دو،آج کے دن ان میں سے جو بھی حوض سے پانی پی لے گا،وہ یہیں کفر کی حالت میں قتل ہوگا۔‘‘
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے پانی نہیں پیا، یہ قتل ہونے سے بچ گئے اور بعد میں اسلام لائے،بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔
اب سب سے پہلے عتبہ،اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید میدان میں آگے نکلے اور للکارے۔
’’ہم سے مقابلے کے لیے کون آتا ہے۔‘‘
اس للکار پر مسلمانوں میں سے تین انصاری نوجوان نکلے۔ یہ تینوں بھائی تھے۔ان کے نام معوذ، معاذ اور عوف رضی اللہ عنہم تھے۔ ان کے والد کا نام عفرا تھا۔ ان تینوں نوجوانوں کو دیکھ کر عتبہ نے پوچھا:
’’ تم کون ہو؟ ‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’ ہم انصاری ہیں۔‘‘
اس پر عتبہ نے کہا:
’’ تم ہمارے برابر کے نہیں…ہمارے مقابلے میں مہاجرین میں سے کسی کو بھیجو،ہم اپنی قوم کے آدمیوں سے مقابلہ کریں گے۔‘‘
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس آنے کا حکم فرمایا۔یہ تینوں اپنی صفوں میں واپس آگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی اور انہیں شاباش دی۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا:
’’اے عبیدہ بن حارث اٹھو!اے حمزہ اٹھو!اے علی اٹھو۔‘‘
یہ تینوں فوراً اپنی صفوں میں سے نکل کر ان تینوں کے سامنے پہنچ گئے۔ان میں عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ زیادہ عمر کے تھے، بوڑھے تھے۔ان کا مقابلہ عتبہ بن ربیعہ سے ہوا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مقابلہ شیبہ سے،اور حضرت علی کا مقابلہ ولید سے ہوا۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے شیبہ کو وار کرنے کا موقع نہ دیا اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ہی وار میں ولید کا کام تمام کردیا۔البتہ عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور عتبہ کے درمیان تلواروں کے وار شروع ہوگئے۔
تلواروں کے سائے میں
دونوں کے درمیان کچھ دیر تک تلواروں کے وار ہوتے رہے،یہاں تک کہ دونوں زخمی ہوگئے۔اس وقت تک حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اپنے اپنے دشمن(مقابل)کا صفایا کرچکے تھے۔لہٰذا وہ دونوں ان کی طرف بڑھے اور عتبہ کو ختم کردیا۔ پھر زخمی عبیدہ بن حارت رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر لشکر میں لے آئے۔انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لٹا دیا گیا۔ انہوں نے پوچھا:
’’ اے اللہ کے رسول!کیا میں شہید نہیں ہوں؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو۔‘‘
اس کے بعد صفراء کے مقام پر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔انہیں وہی دفن کیا گیا، جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ منورہ کی طرف لوٹ رہے تھے۔
جنگ سے پہلے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفوں کو ایک نیزے کے ذریعے سیدھا کیا تھا۔صفوں کو سیدھا کرتے ہوئے حضرت سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے،یہ صف سے قدرے آگے بڑھے ہوئے تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تیر سے ان کے پیٹ کو چھوا اور فرمایا:
’’ سواد!صف سے آگے نہ نکلو،سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔‘‘
اس پر حضرت سواد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’ اللہ کے رسول!آپ نے مجھے اس تیر سے تکلیف پہنچائی۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے حق اور انصاف دے کر بھیجا ہے لہٰذا مجھے بدلہ دیں۔‘‘
آپ نے فوراً اپنا پیٹ کھولا اور ان سے فرمایا:
’’ لو!تم اب اپنا بدلہ لے لو۔‘‘
حضرت سواد آگے بڑھے اور آپ کے سینے سے لگ گئے اور آپ کے شکم مبارک کو بوسہ دیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا:
’’سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’ اللہ کے رسول!آپ دیکھ رہے ہیں،جنگ سر پر ہے،اس لیے میں نے سوچا،آپ کے ساتھ زندگی کے جو آخری لمحات بسر ہوں،وہ اس طرح بسر ہوں کہ میرا جسم آپ کے جسم مبارک سے مس کررہا ہو…‘‘(یعنی اگر میں اس جنگ میں شہید ہوگیا تو یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں)۔
یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ایک روایت میں آتا ہے:
’’جس مسلمان نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو چھولیا،آگ اس جسم کو نہیں چھوئے گی۔‘‘ایک روایت میں یوں ہے کہ:
’’جو چیز بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو لگ گئی،آگ اسے نہیں جلائے گی۔‘‘
پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو سیدھا کردیا تو فرمایا:
’’جب دشمن قریب آجائے تو انہیں تیروں سے پیچھے ہٹانا اور اپنے تیر اس وقت تک نہ چلاؤ جب تک کہ وہ نزدیک نہ آجائیں۔(کیونکہ زیادہ فاصلے سے تیراندازی اکثر بے کار ثابت ہوتی ہے اور تیر ضائع ہوتے رہتے ہے)اسی طرح تلواریں بھی اس وقت تک نہ سونتنا جب تک کہ دشمن بالکل قریب نہ آجائے۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خطبہ دیا:
’’مصیبت کے وقت صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ پریشانیاں دور فرماتے ہیں۔اور غموں سے نجات عطا فرماتے ہیں۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سائبان میں تشریف لے گئے۔اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔سائبان کے دروازے پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کچھ انصاری مسلمانوں کے ساتھ ننگی تلواریں لیے کھڑے تھے تاکہ دشمن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے سے روک سکیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہاں سواریاں بھی موجود تھیں۔تاکہ ضرورت کے وقت آپ سوار ہوسکیں۔
مسلمانوں میں سب سے پہلے مہجع رضی اللہ عنہ آگے بڑھے۔یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے،عامر بن حضرمی نے انہیں تیر مارکر شہید کردیا۔
ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سائبان میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گر کر یوں دعا کی:
’’اے اللہ!اگر آج مومنوں کی جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘
پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سائبان سے نکل کر صحابہ کے درمیان تشریف لائے اور انہیں جنگ پر ابھارنے کے لیے فرمایا:
’’ قسم ہے اس ذات کی،جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے،جو شخص بھی آج ان مشرکوں کے مقابلے میں صبر اور ہمت کے ساتھ لڑے گا،ان کے سامنے سینہ تانے جما رہے گا اور پیٹھ نہیں پھیرے گا،اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ‘‘
حضرت عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ الفاظ سن کر کھجوریں ہاتھ سے گرادیں اور بولے:
’’ واہ واہ!تو، میرے اور جنت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے کہ ان کافروں میں سے کوئی مجھے قتل کردے۔‘‘
یہ کہتے ہی تلوار سونت کر دشمنوں سے بھڑ گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
حضرت عوف بن عفراء رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
’’ اللہ کے رسول!بندے کے کس عمل پر اللہ کو ہنسی آتی ہے۔‘‘(یعنی اس کے کون عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں)۔
جواب میں آپ نے فرمایا:
’’ جب کوئی مجاہد زرہ بکتر پہنے بغیر دشمن پر حملہ آور ہو۔‘‘
یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے جسم پر سے زرہ بکتر اتار کر پھینک دی اور تلوار سونت کر دشمن پر ٹوٹ پڑے،یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
حضرت معبد بن وہب رضی اللہ عنہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لے کر جنگ میں شریک ہوئے۔یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم زلف تھے یعنی ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کی بہن کے خاوند تھے۔
جنگ کے دوران حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھائی اور مشرکوں پر پھینک دی۔ایسا کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا تھا۔
کنکریوں کو مٹھی میں پھینکتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ یہ چہرے خراب ہوجائیں۔‘‘
ایک روایت کے مطابق یہ الفاظ آئے ہیں:
’’اے اللہ!ان کے دلوں کو خوف سے بھردے،ان کے پاؤں اکھاڑ دیں۔‘‘
اللہ کے حکم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے کوئی کافر ایسا نہ بچا جس پر وہ کنکریاں نہ پڑی ہوں۔ان کنکریوں نے کافروں کو بدحواس کردیا۔آخر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شکست کھاکر بھاگے۔ مسلمان ان کا پیچھا کرنے لگے۔انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔
کنکریوں کی مٹھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
’’اور اے نبی!کنکریوں کی مٹھی آپ نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی۔‘‘(سورہ الا نفال: آیت 17)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے شکست کھا جانے کے بعد اعلان فرمایا:
’’مسلمانوں میں جس نے جس کافر کو مارا ہے…اس کا سامان اسی مسلمان کا ہے اور جس مسلمان نے جس کافر کو گرفتار کیا،وہ اسی مسلمان کا قیدی ہے۔‘‘
وہ کافر جو بھاگ کر نہ جاسکے،انہیں گرفتار کرلیا گیا۔اس جنگ میں حضرت ابو عبیدہ بن الجرح رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو قتل کیا۔پہلے خود باپ نے بیٹے پر وار کیا تھا۔لیکن یہ وار حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بچاگئے اور خود اس پر وار کیا، جس سے وہ مارا گیا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں،آپ انہیں نہ دیکھیں گے کہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور رسول کے خلاف ہیں اگرچہ وہ ان کے بیٹے یا بھائی یا خاندان میں سے کیوں نہ ہوں۔‘‘(سورۃ المجادلتہ: 23)
اس جنگ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے کو قیدی بنالیا۔اسلام سے پہلے مکہ میں یہ شخص حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا دوست رہا تھا…اور یہی وہ امیہ بن خلف تھا جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر بے تحاشہ ظلم کرتا رہا تھا…حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان دونوں کو لیے میدان جنگ سے گزر رہے تھے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نظر امیہ بن خلف پر پڑگئی۔
کفار کی عبرت ناک شکست
حضرت بلال رضی اللہ عنہ اسے دیکھ کر بلند آواز میں پکارے:
’’کافروں کا سردار امیہ بن خلف یہ رہا…اگر امیہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو امیہ اپنے بیٹے کے ساتھ ادھر ادھر بھاگتا نظر آیا تھا،حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں کئی زرہیں تھیں۔یہ مال غنیمت میدان جنگ سے ملا تھا،لیکن جونہی انہیں امیہ اور اس کا بیٹا نظر آیا،انہوں نے زرہیں گرادیں اور ان دونوں کو پکڑ لیا…اس طرح یہ دونوں اب ان کے قیدی بن گئے۔یہ انہیں لیے جارہے تھے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا اور پکارنے لگے:
’’ یہ رہا امیہ بن خلف۔‘‘حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے الفاظ سنتے ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’ لیکن یہ دونوں اب میرے قیدی ہیں۔‘‘
حضرت بلال نے پھر وہی الفاظ کہے:
’’اگر آج امیہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا۔‘‘
ساتھ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو پکارا:
’’اے انصاریو!اے اللہ کے مددگارو!یہ کافروں کا سردارامیہ بن خلف ہے۔اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا۔‘‘
یہ سن کر انصاری ان کی طرف دوڑ پڑے،انہوں نے چاروں طرف سے انہیں گھیرلیا،حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تلوار کھینچ لی اور اس پر وار کیا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امیہ کو بچانے کے لیے اس کے بیٹے کو آگے کردیا۔امیہ جاہلیت کے زمانے میں ان کا دوست تھا۔اسی دوستی کے ناتے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اسے قتل ہونے سے بچانا چاہتے تھے۔ادھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر اس کے قتل کی دھن پوری طرح سوار تھی۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی تلوار امیہ کے بیٹے کو لگی اور وہ زخمی ہوکر گرا،اسے گرتا دیکھ کر امیہ بھیانک انداز میں چیخا۔یہ چیخ حد درجے خوفناک اور ہولناک تھی، ساتھ ہی تلواریں بلند ہوئیں اور امیہ کے جسم میں اتر گئیں۔امیہ کو بچانے کے سلسلے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خود بھی معمولی سے زخمی ہوئے۔وہ کہا کرتے تھے:
’’اللہ تعالیٰ بلال پر رحم فرمائیں،میرے حصے میں نہ زرہیں آئیں نہ قیدی۔‘‘ایسے میں حضور نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا :
’’کسی کو نوفل بن خویلد کا بھی پتہ ہے؟ ‘‘
جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول!اسے میں نے قتل کیا ہے۔‘‘
یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:
’’اللہ اکبر!اللہ کا شکر ہے جس نے اس شخص کے بارے میں میری دعا قبول فرمائی۔‘‘
جنگ شروع ہونے سے پہلے اس نوفل بن خویلد نے بلند آواز میں کہا تھا:
’’اے گروہِ قریش!آج کا دن عزت اورسر بلندی کا دن ہے۔‘‘اس کی بات سن کر آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
’’اے اللہ! نوفل بن خویلد کا انجام مجھے دکھلا۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے حکم دیا:
’’قتل ہونے والے کافروں میں ابوجہل کی لاش کو تلاش کیا جائے۔‘‘
ابوجہل نے جنگ شروع ہونے سے پہلے کہاتھا:
’’اے اللہ!دونوں دینوں (یعنی اسلام اور کفار کے خود ساختہ دین) میں جو دین تیرے نزدیک افضل اور پسندیدہ ہو ،اسی کی مدد فرما اور نصرت فرما۔‘‘
حضرت معاذ بن عمرو جموح رضی اللہ عنہ جو اس جنگ کے دوران کم سن صحابہ میں شمار ہوتے تھے،کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران میں نے دیکھا کہ ابوجہل کو اس کے بہت سے ساتھی حفاظت کے لیے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں اور وہ کہہ رہے تھے:
’’اے ابو الحکم (ابوجہل کی کنیت تھی) تم تک کوئی نہیں پہنچ پائے گا۔‘‘
جب میں نے ان کی یہ بات سنی تو ابوجہل کی طرف بڑھااور اس پر تلوار کا ایک ہاتھ مارا۔اس وار سے اس کی پنڈلی کٹ گئی۔ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ باپ کی مدد کے لیے بڑھے۔(یہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے)انھوں نے مجھ پر تلوار کا وار کیا۔اس سے میرا بازو کٹ گیا۔صرف تھوڑی سی کھال کے ساتھ بازو اٹکا رہ گیا۔میں جنگ میں مصروف رہا،لیکن لٹکنے والے ہاتھ کی وجہ سے لڑنا مشکل ہورہاتھا۔میں تمام دن لڑتا رہا اور وہ بازو لٹکتا رہا۔آخر جب اس کی وجہ سے رکاوٹ زیادہ ہونے لگی تو میں نے اپنا پاؤں اس پر رکھ کر جھٹکا دیا۔اس سے وہ کھال بھی کٹ گئی۔میں نے اپنے بازو کواٹھا کر پھینک دیا۔ابوجہل زخمی حالت میں تھا کہ اس دوران اس کے پاس معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ گزرے۔انہوں نے اس پر وار کیا۔اس وار سے وہ گرگیا اور وہ اسے مردہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے،لیکن وہ ابھی زندہ تھا۔
حضرت معوذ رضی اللہ عنہ جنگ کرتے آگے بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔اتنے میں زخموں سے چور ابوجہل کے پاس سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا۔انہوں نے اپنا پیر اس کی گردن پر رکھ کر کہا:
’’اے خدا کے دشمن!کیا تجھے خدا نے رسوا نہیں کر دیا۔‘‘
اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول!میں نے ابو جہل کو قتل کیا ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’برتری اسی ذات باری تعالیٰ کے لئے ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ تین بار فرمایا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل کی تلوار حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو عطا فرما دی۔اس خوبصورت اور قیمتی تلوار پر چاندی کا کام کیا گیا تھا۔
بدر کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے بھی مدد فرمائی تھی۔اس روز حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے نہایت سرفروشی سے جنگ کی۔ان کے جسم پر بہت بڑے بڑے زخم آئے۔
اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک چھڑی عنایت فرمائی۔ وہ چھڑی ان کے ہاتھ میں آتے ہی معجزاتی طور پر ایک چمک دار تلوار بن گئی۔حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ اس تلوار سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔اس تلوار کا نام عون رکھا گیا۔یہ تلوار تمام غزوات میں حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہی اور اسی تلوار سے وہ جنگ کیا کرتے تھے۔ان کے انتقال کے بعد یہ تلوار ان کی اولاد کو وراثت میں ملتی رہی،ایک سے دوسرے کے پاس پہنچتی رہی۔
اسی طرح حضرت سلمہ بن اسلم رضی اللہ عنہ کی تلوار بھی ٹوٹ گئی تھی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی جڑ عطا فرمائی اور فرمایا: ’’اس سے لڑو‘‘
انہوں نے جونہی اس جڑ کو ہاتھ میں لیا،وہ ایک نہایت بہترین تلوار بن گئی اور اس غزوہ کے بعد ان کے پاس رہی۔
حضرت خبیب بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک کافر نے میرے دادا پر تلوار کا وار کیا۔اس وار میں ان کی ایک پسلی الگ ہو گئی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب دہن لگا کر ٹوٹی پسلی اس کی جگہ رکھ دی۔وہ پسلی اپنی جگہ پر اس طرح جم گئی جیسے ٹوٹی ہی نہیں تھی۔
حضرت رفاعہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک تیر میری آنکھ میں آکر لگا،میری آنکھ پھوٹ گئی۔میں اسی حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا،آنکھ اسی وقت ٹھیک ہو گئی اور زندگی بھر اس آنکھ میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ مشرکوں کی لاشوں کو ان جگہوں سے اٹھا لایا جائے جہاں جہاں ان کے قتل ہونے کی نشان دہی کی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے ایک دن پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ ان شاء اللہ کل یہ عتبہ بن ربیعہ کے قتل کی جگہ ہوگی،یہ شیبہ بن ربیعہ کے قتل کی جگہ ہو گی۔یہ امیہ بن خلف کے قتل کی جگہ ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان جگہوں کی نشان دہی فرمائی تھی۔۔۔اب جب لاشیں جمع کرنے کا حکم ملا اور صحابہ کرام لاشوں کی تلاش میں نکلے تو کافروں کی لاشیں بالکل انہی جگہوں پر پڑی ملیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لاشوں کو ایک گڑھے میں ڈالنے کا حکم فرمایا۔
فتح کے بعد
جب تمام مشرکوں کو گڑھے میں ڈال دیا گیا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گڑھے کے ایک کنارے پر آکھڑے ہوئے…وہ وقت رات کا تھا۔بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ میں فتح حاصل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مقام پر تین رات قیام فرمایا کرتے تھے۔ تیسرے دن آپ نے لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔وہاں سے کوچ کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس گڑے کے کنارے کھڑے ہوکر ان لاشوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:
’’اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں! کیا تم نے دیکھ لیا کہ اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ کتنا سچا تھا،میں نے تو اس وعدے کو سچ پایا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا تھا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے نام بھی لیے…مثلاً فرمایا:
’’اے عتبہ بن ربیعہ،اے شیبہ بن ربیعہ،اے امیہ بن خلف اور اے ابوجہل بن ہشام…تم لوگ نبی کا خاندان ہوتے ہوئے،بہت برے ثابت ہوئے،تم مجھے جھٹلاتے تھے جبکہ لوگ میری تصدیق کررہے تھے۔تم نے مجھے وطن سے نکالا،جب کہ دوسروں نے مجھے پناہ دی۔تم نے میرے مقابلے میں جنگ کی جب کہ غیروں نے میری مدد کی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول!آپ ان مردوں سے باتیں کررہے ہیں جو بے روح لاشیں ہیں۔‘‘
اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:
’’جو کچھ میں کہہ رہا ہوں،اس کو تم لوگ اتنا نہیں سن رہے ، جتنا یہ سن رہے ہیں مگر یہ لوگ اب جواب نہیں دے سکتے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کی خبر مدینہ منورہ بھیج دی۔مدینہ منورہ میں فتح کی خبر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ لائے تھے۔انہوں نے یہ خوش خبری بلند آواز میں یوں سنائی:
’’اے گروہ انصار!تمہیں خوش خبری ہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی اور مشرکوں کے قتل اور گرفتاری کی۔قریشی سرداروں میں سے فلاں فلاں قتل اور فلاں فلاں گرفتار ہوگئے ہیں۔‘‘
ان کے منہ سے یہ خوش خبری سن کر اللہ کا دشمن کعب بن اشرف یہودی طیش میں آگیا اور انہیں جھٹلانے لگا،ساتھ ہی اس نے کہا:
’’اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)نے ان بڑے بڑے سورماؤں کو مار ڈالا ہے تو زمین کی پشت پر رہنے سے زمین کے اندر رہنا بہتر ہے۔‘‘(یعنی زندگی سے موت بہتر ہے)۔
فتح کی یہ خبر وہاں اس وقت پہنچی جب مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی وفات پاچکی تھیں اور ان کے شوہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور وہاں موجود صحابہ کرام ان کو دفن کر کے قبر کی مٹی برابر کررہے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی اطلاع دی گئی تو ارشاد فرمایا:
’’ الحمد اللہ!اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔‘‘
فتح کی خبر سن کر ایک منافق بولا:
’’اصل بات یہ ہے کہ تمہارے ساتھی شکست کھا کر تتر بتر ہوگئے ہیں،اور اب وہ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکیں گے،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی اونٹنی پر زید بن حارثہ بیٹھ کر آئے ہیں،اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)زندہ ہوتے تو اپنی اونٹنی پر خود سوار ہوتے مگر یہ زید ایسے بدحواس ہورہے ہیں کہ انہیں خود بھی پتا نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘
اس پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:
’’اوہ اللہ کے دشمن!محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آلینے دے،پھر تجھے معلوم ہوجائے گا…کسے فتح ہوئی اور کسے شکست ہوئی ہے؟‘‘
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں صفراء کی گھاٹی میں پہنچے تو اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔اس مال میں ایک سو پچاس اونٹ اور دس گھوڑے تھے،اس کے علاوہ ہر قسم کا سامان، ہتھیار،کپڑے اور بے شمار کھالیں،اون وغیرہ بھی اس مال غنیمت میں شامل تھا۔یہ چیزیں مشرک تجارت کے لیے ساتھ لے آئے تھے۔
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:
’’جس شخص نے کسی مشرک کا قتل کیا،اس مشرک کا سامان اسی کو ملے گا اور جس نے کسی مشرک کو گرفتار کیا،وہ اسی کا قیدی ہوگا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال میں سے ان لوگوں کے بھی حصے نکالے،جو غزوہ بدر میں حاضر نہیں ہوسکے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں خودآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وجہ سے جنگ میں حصہ لینے سے روک دیا تھا کیونکہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ بہت بیمار تھیں اور خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو چیچک نکلی ہوئی تھی،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اصحاب بدر میں شمار فرمایا۔اسی طرح حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ تھے،انہیں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے پاس بطور محافظ چھوڑا تھا۔اور حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا اور عالیہ والوں کے پاس چھوڑا تھا۔
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا بھی حصہ نکالا جنہیں جاسوسی کی غرض سے بھیجا گیا تھا تاکہ وہ دشمن کی خبر لائیں۔یہ لوگ اس وقت واپس لوٹے تھے جب جنگ ختم ہوچکی تھی۔
اسی مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔یہ شخص قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کرتا تھا۔اسی طرح کچھ آگے چل کر آپ نے عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم فرمایا۔یہ بھی بہت فتنہ پرور تھا۔اس نے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر تھوکنے کی کوشش بھی کی تھی اور ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں سجدے کی حالت میں دیکھ کر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر اونٹ کی اوجھ لا کر رکھ دی تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ارشاد فرمایا:
’’مکہ سے باہر میں جب بھی تجھ سے ملوں گا تو اس حالت میں ملوں گا کہ تلوار سے تیرا سر قلم کروں گا۔‘‘
اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگے روانہ ہوئے اور پھر مدینہ منورہ کے قریب پہنچ گئے۔یہاں لوگ مدینہ منورہ سے باہر نکل آئے تھے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا استقبال کرسکیں اور فتح کی مبارک باد دے سکیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو شہر کی بچیوں نے دف بجا کر استقبال کیا۔وہ اس وقت یہ گیت گارہی تھیں:
’’ہمارے سامنے چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے،اس نعمت کے بدلے میں ہم پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔‘‘
دوسری طرف مکہ معظمہ میں قریش کی شکست کی خبر پہنچی،خبر لانے والے نے پکار کر کہا:
’’لوگو!عتبہ اور شیبہ قتل ہوگئے،ابوجہل اور امیہ بھی قتل ہوگئے اور قریش کے سرداروں میں سے فلاں فلاں بھی قتل ہوگئے…فلاں فلاں گرفتار کرلیے گئے۔‘‘
یہ خبر وحشت ناک تھی۔خبر سن کر ابولہب گھسٹا ہوا باہر آیا۔اسی وقت ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے،یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے۔اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔یہ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے تھے۔ابولہب نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا:
’’میرے نزدیک آؤ اور سناؤ…کیا خبر ہے؟‘‘
قیدیوں کی رہائی
ابوسفیان بن حارث (رضی اللہ عنہ) نے جواب میں میدان جنگ کی جو کیفیت سنائی،وہ یہ تھی:
’’خدا کی قسم!بس یوں سمجھ لو کہ جیسے ہی ہمارا دشمن سے ٹکراؤ ہوا،ہم نے گویا اپنی گردنیں ان کے سامنے پیش کردیں،اور انہوں نے جیسے چاہا،ہمیں قتل کرنا شروع کردیا،جیسے چاہاگرفتار کیا،پھر بھی میں قریش کو الزام نہیں دوں گا،کیونکہ ہمارا واسطہ جن لوگوں سے پڑا ہے،وہ سفید رنگ کے تھے اور سیاہ اور سفید رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے،وہ زمین اور آسمان کے درمیان پھر رہے تھے۔ اللہ کی قسم ان کے سامنے کوئی چیز ٹھہرتی نہیں تھی۔‘‘
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،یہ سنتے ہی میں نے کہا:
’’تب تو خدا کی قسم وہ فرشتے تھے۔‘‘
میری بات سنتے ہی ابولہب غصہ میں آ گیا اس نے پوری طاقت سے تھپڑ میرے منھ پر دے مارا۔پھر مجھے اٹھا کر پٹخ دیا اور میرے سینے پر چڑھ کر مجھے بے تحاشا مارنے لگا۔
وہاں میری مالکن یعنی ام فضل بھی موجود تھیں۔ انہوں نے ایک لکڑی کا پایہ اٹھا کر اتنے زور سے ابولہب کو مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ساتھ ہی ام فضل نے سخت لہجے میں کہا:
’’تو اسے اس لیے کمزور سمجھ کر مار رہا ہے کہ اس کا آقا یہاں موجود نہیں۔‘‘
اس طرح ابولہب ذلیل ہوکر وہاں سے رخصت ہوا۔جنگ بدر میں اس قدر ذلت آمیز شکست کے بعد ابولہب سات روز سے زیادہ زندہ نہ رہا۔طاعون میں مبتلا ہوکر مرگیا۔ اسے دفن کرنے کی جرأت بھی کوئی نہیں کررہا تھا۔آخر اسی حالت میں اس کی لاش سڑنے لگی،شدید بدبو پھیل گئی۔تب اس کے بیٹوں نے ایک گڑھا کھودا اور لکڑی کے ذریعے اس کی لاش کو گڑھے میں دھکیل دیا۔پھر دور ہی سے سنگ باری کرکے اس گڑھے کو پتھروں سے پاٹ دیا۔
اس شکست پر مکہ کی عورتوں نے کئی ماہ تک اپنے قتل ہونے والوں کا سوگ منایا۔اس جنگ میں اسود بن ذمعہ نامی کافر کی تین اولادیں ہلاک ہوئیں۔یہ وہ شخص تھا کہ مکہ میں جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتا تھا،تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مذاق اڑایا کرتا تھااور کہتا تھا:
’’لوگو!دیکھو تو!تمہارے سامنے روئے زمین کے بادشاہ پھررہے ہیں جو قیصر و کسریٰ کے ملکوں کو فتح کریں گے!!!‘‘
اس کی تکلیف دہ باتوں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اندھا ہونے کی بددعا دی تھی،اس بددعا سے وہ اندھا ہوگیا تھا۔بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے اندھا ہونے اور اس کی اولاد کے ختم ہوجانے کی بددعا فرمائی تھی۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا قبول فرمائی،چنانچہ پہلے وہ اندھا ہوا،پھر اس کی اولاد جنگ بدر میں ماری گئی۔
جنگ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیدیوں کے بارے میں مشورہ فرمایا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ یہ تھا کہ ان کو فدیہ لے کررہا کردیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض مصلحتوں کے تحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ پسند فرمایا اور ان لوگوں کی جان بخشی کردی، ان سے فدیہ لے کر انہیں رہا کردیا۔
تاہم اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کرتے ہوئے سورۃ الأنفال کی آیت 67تا70 نازل فرمائی۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ ان قیدیوں کو قتل کیا جانا چاہیے تھا۔
بدر کے قیدیوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند ابوالعاص رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ میں تھیں۔جب زینب رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا کہ فدیہ لے کررہا کرنے کا فیصلہ ہوا ہے تو انہوں نے شوہر کے فدیہ میں اپنا ہار بھیج دیا۔ یہ ہار حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا۔فدیے میں یہ ہار ابوالعاص رضی اللہ عنہ کا بھائی لے کر آیا تھا۔ اس نے ہار حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا۔ہار کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آ گئیں۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
’’تم مناسب سمجھو تو زینب کے شوہر کو رہا کردو اور اس کا یہ ہار بھی واپس کردو۔‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم نے فوراً کہا:
’’ضرور یا رسول اللہ! ‘‘
چنانچہ ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو رہا کردیا گیا اور زینب رضی اللہ عنہا کا ہار لوٹادیا گیا۔البتہ آپ نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے وعدہ لیا تھا کہ مکہ جاتے ہی وہ زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ بھیج دیں گے۔ انھوں نے وعدہ کرلیا۔
(یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی شادی ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے اس وقت ہوئی تھی جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کی دعوت شروع نہیں کی تھی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کی دعوت شروع کی تو مشرکین نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ پر زور دیا تھا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ کو طلاق دے دیں،لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔البتہ ابولہب کے دونوں بیٹوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت کلثوم رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ ابھی صرف ان کا نکاح ہوا تھا،رخصتی نہیں ہوئی تھی۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا تھا کہ ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے مشرکوں کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی تھی۔ ’ابوالعاص رضی اللہ عنہ غزوہ بدر کے کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوگئے تھے)
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو لانے کے لیے مدینہ منورہ سے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے وعدے کے مطابق انہیں ان کے ساتھ بھیج دیا(اس وقت تک حجاب کا حکم نازل نہ ہوا تھا)اس طرح وہ مدینہ آگئیں۔راستے میں کافروں نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی تھی،لیکن ابوالعاص کے بھائی ان کے راستے میں آگئے اور مشرک ناکام رہے۔
قیدیوں میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بھائی ولید بن ولید (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔انہیں ان کے بھائی ہشام اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے رہا کرایا۔ان کا فدیہ ادا کیا گیا۔جب وہ انہیں لے کر مکہ پہنچے تو وہاں انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس پران کے بھائی بہت بگڑے۔انھوں نے کہا:
’’اگر تم نے مسلمان ہونے کا ارادہ کرلیا تھا تو وہیں مدینہ میں کیوں نہیں ہوگئے۔‘‘
سازش ناکام ہوگئی
بھائیوں کی بات کے جواب میں حضرت ولید بن ولید رضی اللہ عنہ بولے:
’’میں نے سوچا،اگر میں مدینہ منورہ میں مسلمان ہوگیا تو لوگ کہیں گے، میں قید سے گھبرا کر مسلمان ہوگیا ہوں۔‘‘
اب انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے بھائیوں نے ان کو قید کردیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان کے لیے قنوت نازلہ میں رہائی کی دعا فرمانے لگے۔ آخر ایک دن ولید بن ولید رضی اللہ عنہ مکہ سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
ایسے ہی ایک قیدی حضرت وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ(جو بعد میں اسلام لائے)نے بھی غزوہ بدر میں مسلمانوں سے جنگ کی تھی اور کافروں کی شکست کے بعد قیدی بنالیے گئے تھے۔وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عمیر تھا…ان کے ایک دوست تھے، صفوان (رضی اللہ عنہ)۔ان دونوں دوستوں کا تعلق مکہ کے قریش سے تھا۔دونوں اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے اور مسلمانوں کے بدترین دشمن تھے۔ایک روز یہ دونوں حجر اسود کے پاس بیٹھے تھے۔دونوں بدر میں قریش کی شکست کے بارے میں باتیں کرنے لگے…قتل ہونے والے بڑے بڑے سرداروں کا ذکر کرنے لگے،صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اللہ کی قسم!ان سرداروں کے قتل ہوجانے کے بعد زندگی کا مزہ ہی ختم ہوگیا ہے۔‘‘
یہ سن کر عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’تم سچ کہتے ہو،خدا کی قسم!اگر مجھ پر ایک شخص کا قرض نہ ہوتا اور مجھے اپنے پیچھے بیوی بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)کے پاس پہنچ کر انہیں قتل کردیتا (معاذ اللہ)۔ میرے پاس وہاں پہنچنے کی وجہ بھی موجود ہے،میرا اپنا بیٹا وہب ان کی قید میں ہے،وہ بدر کی لڑائی میں شریک تھا…‘‘
یہ سننا تھا کہ صفوان رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرتے ہوئے کہا:
’’تمہارا قرض میرے ذمہ ہے،وہ میں ادا کروں گا اور تمہارے بیوی بچوں کی ذمہ داری بھی میرے ذمے ہے، جب تک وہ زندہ رہیں گے،میں ان کی کفالت کروں گا۔‘‘
عمیر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا پختہ عزم کرلیا اور کہا:
’’بس تو پھر ٹھیک ہے،یہ معاملہ میرے اور تمہارے درمیان راز رہے گا…نہ تم کسی سے اس ساری بات کا ذکر کروگے،نہ میں۔‘‘
صفوان رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرلیا۔عمیر رضی اللہ عنہ نے گھر جا کر اپنی تلوار نکالی،اس کی دھار کو تیز کیا اور پھر اس کو زہر میں بجھایا۔پھر مکہ سے مدینہ کا رخ کیا۔
مسجد نبوی میں پہنچ کر عمیر رضی اللہ عنہ نے دیکھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے غزوہ بدر کی باتیں کررہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر ان پر پڑی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے،کیونکہ انھوں نے عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ لی تھی،انھوں نے کہا:
’’یہ خدا کا دشمن ضرور کسی بُرے ارادے سے آیا ہے۔‘‘
پھر وہ فوراً وہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرے مبارک میں گئے اور عرض کیا:
’’اللہ کے رسول!خدا کا دشمن عمیر ننگی تلوار لیے آیا ہے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’عمر!اسے میرے پاس اندر لے آؤ۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً باہر نکلے،تلوار کا پٹکا پکڑ کر انہیں اندر کھینچ لائے۔اس وقت وہاں کچھ انصاری موجود تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:
’’تم لوگ بھی میرے ساتھ اندر آجاؤ…کیونکہ مجھے اس کی نیت پر شک ہے۔‘‘
چنانچہ وہ اندر آگئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عمیر رضی اللہ عنہ کو اس طرح پکڑ کر لا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’ عمر!اسے چھوڑدو…عمیر!آگے آجاؤ۔‘‘
چنانچہ عمیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب آگئے اور جاہلیت کے آداب کی طرح صبح بخیر کہا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’عمیر!ہمیں اسلام نے تمہارے اس سلام سے بہتر سلام عنایت فرمایا ہے،جو جنت والوں کا سلام ہے…اب تم بتاؤ،تم کس لیے آئے ہو؟‘‘
عمیر رضی اللہ عنہ بولے:
’’میں اپنے قیدی بیٹے کے سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں۔‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’پھر اس تلوار کا کیا مطلب…سچ بتاؤ،کس لیے آئے ہو؟‘‘
عمیر رضی اللہ عنہ بولے:
’’میں واقعی اپنے بیٹے کی رہائی کے سلسلے میں آیا ہوں۔‘‘
چونکہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے ارادے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی پہلے سے بتادیا تھا،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’نہیں عمیر!یہ بات نہیں…بلکہ بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے تم اور صفوان حجراسود کے پاس بیٹھے تھے اور تم دونوں اپنے مقتولوں کے بارے میں باتیں کررہے تھے، ان مقتولوں کی جو بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور جنہیں ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا تھا۔اس وقت تم نے صفوان سے کہا تھا کہ اگر تمہیں کسی کا قرض نہ ادا کرنا ہوتا اور پیچھے تمہیں اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں جاکرمحمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو قتل کردیتا۔اس پر صفوان نے کہا تھا،اگر تم یہ کام کرڈالو تو قرض کی ادائیگی وہ کردے گا اور تمہارے بیوی بچوں کا بھی خیال وہی رکھے گا،ان کی کفالت کریگا۔مگر اللہ تعالیٰ تمہارا ارادہ پورا ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
عمیر رضی اللہ عنہ یہ سن کر ہکّا بکّا رہ گئے،کیونکہ اس گفتگو کے بارے میں صرف انہیں پتا تھا یا صفوان رضی اللہ عنہ کو،چنانچہ اب عمیر رضی اللہ عنہ فوراً بول اُٹھے:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں،اور اے اللہ کے رسول!آپ پر جو آسمان سے خبریں آیا کرتی ہیں اور جو وحی نازل ہوتی ہے،ہم اس کو جھٹلایا کرتے تھے،جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے…تو اُس وقت حجر اسود کے پاس میرے اور صفوان کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی ہماری گفتگو کی کسی کو خبر ہے،کیونکہ ہم نے رازداری کا عہد کیا تھا۔ اس لیے اللہ کی قسم!آپ کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی اس بات کی خبر نہیں دے سکتا،پس حمدوثنا ہے اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے جس نے اسلام کی طرف میری رہنمائی کی اور ہدایت فرمائی اور مجھے اس راستے پر چلنے کی توفیق فرمائی۔‘‘
اس کے بعد عمیر رضی اللہ عنہ نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے،تب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
’’اپنے بھائی کو دین کی تعلیم دو اور انہیں قرآن پاک پڑھاؤ اور ان کے قیدی کو رہا کرو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔
سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی رخصتی
اب حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول!میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اللہ کے اس نور کو بجھادوں اور جو لوگ اللہ کے دین کو قبول کرچکے ہیں،انہیں خوب تکالیف پہنچایا کرتا تھا۔اب میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیں،تاکہ وہاں کے لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤں اور اسلام کی دعوت دوں۔ ممکن ہے،اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمادیں۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں مکہ جانے کی اجازت دے دی،چنانچہ یہ واپس مکہ آگئے۔ان کی تبلیغ سے ان کے بیٹے وہب رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے۔
جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ عمیر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ بھونچکا رہ گئے اور قسم کھا لی کہ اب کبھی عمیر رضی اللہ عنہ سے نہیں بولیں گے۔اپنے گھر والوں کو دین کی دعوت دینے کے بعد عمیر رضی اللہ عنہ صفوان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور پکار کہا:
’’اے صفوان!تم ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہو،تمہیں معلوم ہے کہ ہم پتھروں کو پوجتے رہے ہیں اور اور ان کے نام پر قربانیاں دیتے رہے ہیں،بھلا یہ بھی کوئی دین ہوا…میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
ان کی بات سن کر صفوان رضی اللہ عنہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ بعد میں فتح مکہ کے موقع پر عمیر رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے امان طلب کی تھی اور پھر یہ بھی ایمان لے آئے تھے۔(ان کے اسلام لانے کا قصہ فتح مکہ کے موقع پر تفصیل سے آئے گا۔ان شاء اللہ)
اسی طرح ان قیدیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ صحابہ کرام نے انہیں بہت سختی سے باندھ رکھا تھا۔ رسی کی سختی انہیں بہت تکلیف دے رہی تھی اور وہ کراہ رہے تھے۔ان کی اس تکلیف کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بھی تمام رات بے چین رہے…جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس وجہ سے بے چین ہیں تو فوراً حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی رسیاں ڈھیلی کردیں…یہی نہیں!باقی تمام قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کردیں…پھر انھوں نے اپنا فدیہ ادا کیا اور رہا ہوئے،اسی موقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے تھے مگر انھوں نے مکہ والوں سے اپنا مسلمان ہونا پوشیدہ رکھا۔
قیدیوں میں ایک قیدی ابوعزہ جمحی بھی تھا۔اس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے التجا کی:
’’اے اللہ کے رسول!میں بال بچوں والا آدمی ہوں اور خود بہت ضرورت مند ہوں…میں فدیہ نہیں ادا کرسکتا…مجھ پر رحم فرمائیں۔‘‘
یہ شاعر تھا،مسلمانوں کے خلاف شعر لکھ لکھ کر آپ کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا۔اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی درخواست منظور فرمائی اور بغیر فدیے کے اسے رہا کردیا…البتہ اس سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں لکھے گا…اس نے وعدہ کرلیا،لیکن رہا ہونے کے بعد جب یہ مکہ پہنچا تو اس نے پھر اپنا کام شروع کردیا۔مسلمانوں کے خلاف اشعار لکھنے لگا۔یہ مکہ کے مشرکوں سے کہا کرتا تھا:
’’میں نے محمد پر جادو کردیا تھا،اس لیے انھوں نے مجھے بغیر فدیے کے رہا کردیا۔‘‘
اگلے سال یہ شخص غزوہ احد کے موقع پر کافروں کے لشکر میں شامل ہوا اور اپنے اشعار سے کافروں کو جوش دلاتا رہا۔اسی لڑائی میں یہ قتل ہوا۔
بدر کے فتح کی خبر شاہِ حبشہ تک پہنچی تو وہ بہت خوش ہوئے۔حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے مسلمان اس وقت تک حبشہ ہی میں تھے۔شاہِ حبشہ نے انہیں اپنے دربار میں بلا کر یہ خوش خبری سنائی۔
بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والے صحابہ بدری کہلائے۔ انہیں بہت فضیلت حاصل ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے اصحابِ بدر پر اپنا خاص فضل و کرم فرمایا ہے اور ان سے کہہ دیا ہے کہ جو چاہو کرو،میں تمہارے گناہ معاف کرچکا۔۔۔یا یہ فرمایا کہ تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ ان کے سابقہ گناہ تو معاف ہو ہی چکے ہیں،آئندہ بھی اگر ان سے کوئی گناہ ہوئے تو وہ بھی معاف ہیں۔
غزوہ بدر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردی۔شادی سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ سے پوچھا:
’’بیٹی تمہارے چچازاد بھائی علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے تمہارا رشتہ آیا ہے،تم اس بارے میں کیا کہتی ہو؟‘‘
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں۔ گویا انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے پوچھا:
’’تمہارے پاس کیا کچھ ہے؟‘‘(یعنی شادی کے لیے کیا انتظام ہے؟)
انھوں نے جواب دیا:
’’میرے پاس صرف ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’گھوڑا تو تمہارے لیے ضروری ہے،البتہ تم زرہ کو فروخت کردو۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ زرہ چارسواسی درہم میں فروخت کردی اور رقم لاکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کردی۔
اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتا چلا کہ شادی کے سلسلے میں حضرت علی اپنی زرہ بیچ رہے ہیں تو انھوں نے فرمایا:
’’یہ زرہ اسلام کے شہسوار علی کی ہے،یہ ہرگز فروخت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
پھر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غلام کو بلایا اور انہیں چارسو درہم دیتے ہوئے کہا:
’’یہ درہم اس زرہ کے بدلے میں علی کو دے دیں۔‘‘
ساتھ ہی انھوں نے زرہ بھی واپس کردی…بہرحال اس طرح شادی کا خرچ پورا ہوا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کے لیے دعا فرمائی۔
غزوہ بدر کے بعد غزوہ بنی قینقاع پیش آیا۔قینقاع یہودیوں کے ایک قبیلے کا نام تھا۔یہودیوں میں یہ لوگ سب سے زیادہ جنگجو شمار ہوتے تھے۔مدینہ منورہ میں آمد کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ فرمایا تھا۔ معاہدے میں طے ہوا تھا کہ یہ لوگ کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے پر نہیں آئیں گے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں کو کوئی مدد دیں گے۔ جن لوگوں سے معاہدہ ہوا۔ان میں یہ تین قبیلے شامل تھے۔بنی قینقاع،بنی قریظہ اور بنی نظیر۔
معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی دشمن مسلمانوں پر حملہ کرے گا تو یہ تینوں قبیلے مسلمانوں کی پوری پوری مدد کریں گے۔ ان کا ہر طرح ساتھ دیں گے،لیکن ان لوگوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ انھوں نے ایک مسلمان عورت سے بدتمیزی کی۔ ان کی بدتمیزی کو پاس سے گزرتے ہوئے ایک صحابی نے دیکھ لیا،انھوں نے اس یہودی کو قتل کردیا،یہ دیکھ کر محلے کے یہودیوں نے مل کر ان صحابی کو شہید کردیا۔ اس خبر کے پھیلنے پر وہاں اور مسلمان جمع ہوگئے۔
یہودیوں کے خلاف پہلا جہاد
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے یہودیوں کو جمع کر کے ان سے فرمایا:
’’اے یہودیو!تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تباہی سے بچنے کی کوشش کرو جیسی بدر کے موقع پر قریش پر نازل ہوئی ہے،اس لیے تم مسلمان ہو جاؤ،تم جانتے ہو کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس حقیقت کو تم اپنی کتاب میں درج پاتے ہو۔
اس پر یہودیوں نے کہا:
’’اے محمد!آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی قوم کی طرح ہیں،اس دھوکے میں نہ رہیے گا،کیونکہ اب تک آپ کو ایسی قوموں سے سابقہ پڑا ہے جو جنگ اور اس کے طریقے نہیں جانتے۔لہٰذا آپ نے انہیں آسانی سے زیر کر لیا،لیکن اگر آپ نے ہم سے جنگ کی تو خدا کی قسم آپ کو پتا چل جائے گا کہ کیسے بہادروں سے پالا پڑا ہے۔‘‘
ان کے یہ الفاظ کہنے کی دراصل وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ جنگجو اور عسکری فنونِ کے بہت ماہر تھے۔پھر یہودیوں میں سب سے زیادہ دولت مند تھے،ہر قسم کا بہترین اسلحہ ان کے پاس تھا۔ان کے قلعے بھی بہت مضبوط تھے۔ان کے الفاظ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۃ آل عمران کی آیت نازل ہوئی:
ترجمہ:’’اے نبی! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ بہت جلد تم (مسلمانوں کے ہاتھوں) شکست کھاؤ گے اور آخرت میں جہنم کی طرف جمع کر کے لے جائے جاؤ گے اور وہ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘
اس دھمکی کے بعد بنی قینقاع قلعہ بند ہو گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم اس غزوہ میں سفید رنگ کا تھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ان کے قلعوں کی طرف روانہ ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی بستیوں کا محاصرہ کر لیا۔یہ محاصرہ بہت سخت تھا۔پندرہ دن تک جاری رہا۔آخر اللہ تعالیٰ نے ان یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب طاری کر دیا۔وہ اس محاصرے سے تنگ آ گئے،حالانکہ ان یہودیوں میں اس وقت تقریباً 700 جنگجو تھے۔اب انہوں نے درخواست کی کہ ہم یہاں سے نکل کر جانے کے لیے تیار ہیں،شرط یہ ہے کہ انہیں نکل جانے کا راستہ دے دیا جائے۔اس صورت میں وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ہماری عورتیں اور بچوں کو بھی جانے دیا جائے۔مال و دولت اور ہتھیار وغیرہ وہ یہیں چھوڑ جائیں گے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور فرما لی۔اور انہیں نکل جانے کا راستہ دے دیا۔ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ بے تحاشا مال غنیمت آیا۔ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکل جانے کے لیے تین دن کی مہلت دی گئی۔یہ لوگ وہاں سے نکل کر ملک شام کی ایک بستی میں جا بسے۔ایک روایت کے مطابق ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کا اثر تھا۔
غزوہ قینقاع کے بعد چند چھوٹے چھوٹے غزوات اور ہوئے۔کچھ دنوں بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے اور پھر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا۔ یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے۔ان دونوں میں نبھ نہ سکی،لہٰذا طلاق ہوگئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا۔ یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فرمایا تھا اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تھی۔ جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’’زینب کو جاکر خوشخبری سنادو،اللہ تعالیٰ نے آسمان پر ان سے میرا نکاح کردیا ہے۔‘‘
اس بارے میں اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں آیت بھی نازل فرمائی…تاکہ لوگ شک و شبہ نہ کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کیا ہے۔ دراصل عرب کے جہالت زدہ معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح محرم سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی سے شادی ناجائز سمجھی جاتی تھی،ساتھ ساتھ اسے وراثت میں بھی حصہ ملتا تھا۔ اسلام نے اس فرسودہ رسم کو بالکل ختم کردیا اس کی ابتدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دعوت ولیمہ بھی کھلائی۔ اسی روز پردے کی آیت نازل ہوئی۔
3ھ میں غزوہ احد پیش آیا۔احد پہاڑ مدینہ منورہ سے دو میل کے فاصلے پر ہے۔اس پہاڑ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’یہ احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ جب تم اس کے پاس سے گزرو تو اس کے درختوں کا پھل تبرک کے طور پر کھا لیا کرو،چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
غزوہ احد کیوں ہوا؟اس کا جواب یہ ہے کہ غزوہ بدر میں کافروں کو بدترین شکست ہوئی تھی۔کافر جمع ہوکر اپنے سردار حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا:
’’بدر کی لڑائی میں ہمارے بے شمار آدمی میں قتل ہوئے ہیں۔ہم ان کے خون کا بدلہ لیں گے…آپ تجارت سے جو مال کما کر لاتے ہیں،اس مال کے نفع سے جنگ کی تیاری کی جائے۔‘‘
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان کی بات منظور کرلی اور جنگ کی تیاریاں زورشور سے شروع ہوگئیں۔ کہا جاتا ہے کہ سامانِ تجارت سے جو نفع ہوا تھا،وہ پچاس ہزار دینار تھا۔غزوہ بدر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوحمزہ شاعر کو فدیہ لیے بغیر رہا کردیا تھا،اور اس سے اقرار لیا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف شعر نہیں کہے گا…اب جب جنگ کی تیاریاں شروع ہوئیں تو لوگوں نے اس سے کہا:
’’تم اپنے اشعار سے جوش پیدا کرو۔‘‘
پہلے تو ابوحمزہ نے انکار کیا،کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وعدہ کر آیا تھا،لیکن پھر وعدہ خلافی پر اتر آیا اور اشعار پڑھنے لگا۔
آخر قریشی لشکر مکہ معظمہ سے نکلا اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا۔قریش کے لشکر میں عورتیں بھی تھیں۔عورتیں بدر میں مارے جانے والوں کا نوحہ کرتی جاتی تھیں۔اس طرح یہ اپنے مردوں میں جوش پیدا کررہی تھیں،انہیں شکست کھانے یا میدان جنگ سے بھاگ جانے پر شرم دلا رہی تھیں۔
قریش کی جنگی تیاریوں کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھیجی۔انہوں نے یہ اطلاع ایک خط کے ذریعے بھیجی۔ خط لے جانے والے نے تین دن رات مسلسل سفر کیا اور یہ خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت قبا میں تھے۔
غزوہ احد کی تیاری
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قبا سے مدینہ منورہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قریشی لشکر سے مقابلے کے سلسلے میں مشورہ کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ قریش پر شہر سے باہر حملہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر اپنا دفاع کیا جائے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تمہاری رائے ہو تو تم مدینہ منورہ میں رہ کر ہی مقابلہ کرو،ان لوگوں کو وہیں رہنے دو،جہاں وہ ہیں،اگر وہ وہاں پڑے رہتے ہیں تو وہ جگہ ان کے لیے بدترین ثابت ہوگی اور اگر ان لوگوں نے شہر میں آ کر ہم پر حملہ کیا تو ہم شہر میں ان سے جنگ کریں گے اور شہر کے پیچ و خم کو ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رائے دی تھی،تمام بڑے صحابہ کرام کی بھی وہی رائے تھی۔منافقوں کے سردار عبداللہ ابن اُبی نے بھی یہی مشورہ دیا۔یہ شخص ظاہر میں مسلمان تھا اور اپنے لوگوں کا سردار تھا۔
دوسری طرف کچھ پرجوش نوجوان صحابہ اور پختہ عمر کے صحابہ یہ چاہتے تھے کہ شہر سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔یہ مشورہ دینے والوں میں زیادہ وہ لوگ تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور انہیں اس کا بہت افسوس تھا۔وہ اپنے دلوں کے ارمان نکالنا چاہتے تھے،چنانچہ ان لوگوں نے کہا:
’’ہمیں ساتھ لے کر دشمنوں کے مقابلے کے لیے باہر چلیں تاکہ وہ ہمیں کمزور اور بزدل نہ سمجھیں،ورنہ ان کے حوصلے بہت بڑھ جائیں گے اور ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ ہمیں دھکیلتے ہوئے ہمارے گھروں میں گھس آئیں اور اے اللہ کے رسول!جو شخص بھی ہمارے علاقے میں آیا،ہم سے شکست کھاکر گیا ہے،اب تو آپ ہمارے درمیان موجود ہیں،اب دشمن کیسے ہم پر غالب آسکتا ہے؟‘‘
حضرت حمزہ رضی االلہ عنہ نے بھی ان کی تائید کی۔آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات مان لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز پڑھائی اور لوگوں کے سامنے وعظ فرمایا۔انہیں حکم دیا:
’’ مسلمانو! پوری تن دہی اور ہمت کے ساتھ جنگ کرنا،اگر تم لوگوں نے صبر سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے،اب دشمن کے سامنے جاکر لڑنے کی تیاری کرو۔‘‘
لوگ یہ حکم سن کر خوش ہوگئے۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔اس وقت تک ارد گرد سے بھی لوگ آگئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں تشریف لے گئے۔ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر عمامہ باندھا اور جنگی لباس پہنایا۔باہر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے اور صفیں باندھے کھڑے تھے۔
اس وقت حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما نے مسلمانوں سے کہا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی شہر میں رہ کر لڑنے کی تھی،تم لوگوں نے انہیں باہر نکل کر لڑنے پر مجبور کیا…بہتر ہوگا،تم اب بھی اس معاملے کو ان پر چھوڑ دو۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حکم دیں گے،ان کی جو بھی رائے ہوگی،بھلائی اسی میں ہوگی،اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری کرو۔‘‘
باہر یہ بات ہورہی تھی،اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی لباس پہن رکھا تھا،دوہری زرہ پہن رکھی تھی۔ ان زرہوں کا نام ذات الفضول اور فضہ تھا۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی قینقاع سے مال غنیمت سے ملی تھیں۔
ان میں سے ذات الفضول وہ زرہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو یہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہودی کی رقم ادا کرکے اسے واپس لیا تھا۔ زرہیں آپ صلی للہ علیہ وسلم نے لباس کے اوپر پہن رکھی تھیں۔اس وقت ان نوجوانوں نے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول!ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ کی رائے کی مخالفت کریں یا آپ کو مجبور کریں،لہٰذا آپ جو مناسب سمجھیں،وہ کریں۔‘‘
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اب میں ہتھیار لگا چکا ہوں اور کسی نبی کے لیے ہتھیار لگانے کے بعد ان کا اتار دینا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ اللہ تعالی اس کے اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرمادے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر تین پرچم بنوائے۔ایک پرچم قبیلہ اوس کا تھا۔یہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔دوسرا پرچم مہاجرین کا تھا،یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔تیسرا پرچم قبیلہ خزرج کا تھا،یہ حباب بن منذر رضی اللہ عنہ یا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔
اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔لشکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما چل رہے تھے۔ یہ دونوں قبیلہ اوس اور خزرج کے سردار تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا،مدینہ منورہ سے کوچ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثنیہ کے مقام پر پہنچے۔ پھر یہاں سے روانہ ہوکر شیخین کے مقام پر پہنچے، شیخین دو پہاڑوں کا نام تھا۔یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کا معائنہ فرمایا اور کم عمر نوجوانوں کو واپس بھیج دیا۔یہ ایسے نوجوان تھے جو ابھی پندرہ سال کے نہیں ہوئے تھے۔ان کم سن مجاہدوں میں رافع بن خدیج اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما بھی تھے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رافع رضی اللہ عنہ کو جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔یہ دیکھ کر حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’آپ نے رافع کو اجازت دے دی جب کہ مجھے واپس جانے کا حکم فرمایا،حالانکہ میں رافع سے زیادہ طاقت ور ہوں۔‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اچھا تو پھر تم دونوں میں کشتی ہوجائے۔‘‘
دونوں میں کشتی کا مقابلہ ہوا،سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو پچھاڑ دیا۔اس طرح انہیں بھی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت ہوگئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کے معائنے سے فارغ ہوئے تو سورج غروب ہوگیا۔حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ پھر عشاء کی نماز ادا کی گئی۔نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمانے کے لیے لیٹ گئے۔رات کے وقت پہرہ دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس مجاہدوں کو مقرر کیا۔ان کا سالار حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔یہ تمام رات اسلامی لشکر کے گرد پہرہ دیتے رہے۔ رات کے آخری حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخین سے کوچ فرمایا اور صبح کی نماز کے وقت احد پہاڑ کے قریب پہنچ گئے۔
معرکہ احد کا آغاز
اسلامی لشکر نے جہاں پڑاؤ ڈالا اس مقام کا نام شوط تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں فجر کی نماز ادا فرمائی۔اس وقت لشکر میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا، یہ منافق تھا۔اس کے ساتھ تین سو جوان تھے، یہ سب کے سب منافق تھے۔اس مقام پر پہنچ کر عبداللہ بن ابی نے کہا:
’’آپ نے میری بات نہیں مانی اور ان نوعمرلڑکوں کا مشورہ مانا۔حالانکہ ان کا مشورہ کوئی مشورہ ہی نہیں ہے۔اب خود ہی ہماری رائے کے بارے میں اندازہ ہوجائے گا، ہم بلاوجہ کیوں جانیں دیں۔اس لیے ساتھیو! واپس چلو۔‘‘
اس طرح یہ لوگ واپس لوٹ گئے۔اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات سو صحابہ رہ گئے۔اس روز مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے۔ان میں سے ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور دوسرا ابو بردہ رضی اللہ عنہ کا تھا۔شوط کے مقام سے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی گھاٹی میں پڑاؤ ڈالا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کی طرف رہے۔
اس جگہ رات بسر کی گئی۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان دی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صفیں قائم کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔نماز کے بعد حضورﷺ نے مسلمانوں کو خطبہ دیا۔اس میں جہاد کے بارے میں ارشاد فرمایا۔جہاد کے علاوہ حضورﷺ نے حلال روزی کمانے کے بارے میں بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا:
’’جبرئیل (علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ وحی ڈالی ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اپنے حصے کے رزق کا ایک ایک دانہ حاصل نہیں کرلیتا (چاہے کچھ دیر میں حاصل ہو مگر اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی)۔اس لیے اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور رزق کی طلب میں نیک راستے اختیار کرو (ایسا ہرگز نہیں ہوناچاہئے کہ رزق میں دیر لگنے کی وجہ سے تم اللہ کی نافرمانی حاصل کرنے لگو)۔
آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’ایک مومن کا دوسرے مومن سے ایسا ہی رشتہ ہے جیسے سر اور بدن کا رشتہ ہوتاہے۔اگر سر میں تکلیف ہو تو سارا بدن درد سے کانپ اٹھتا ہے۔‘‘
اس کے بعد دونوں لشکر آمنے سامنے آکھڑے ہوئے۔مشرکوں کے لشکر کے دائیں بائیں خالد بن ولید اور عکرمہ تھے۔یہ دونوں حضرات اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ دے کر فرمایا:
’’تم خالد بن ولید کے مقابلے پر رہنا اور اس وقت تک حرکت نہ کرنا جب تک کہ میں اجازت نہ دوں۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کے ایک دستے پر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں اس درے پر متعین فرمایا جو مسلمانوں کی پشت پر تھا۔اس درے پر پچاس تیر انداز مقرر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پشت کی طرف سے دشمن حملہ نہ کرسکے۔حضور اکرم ﷺ نے ان پچاس تیر اندازوں سے فرمایا:
’’ تم مشرکوں کے گھڑ سوار دستوں کو تیر اندازی کرکے ہم سے دور ہی رکھنا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پشت کی طرف سے آکر حملہ کردیں، ہمیں چاہے فتح ہو یا شکست….تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا۔‘‘اس کے بعد حضور اکرمﷺنے ایک تلوار نکالی اور فرمایا:
’’کون مجھ سے یہ تلوار لے کر اس کا حق ادا کرسکتا ہے؟‘‘
اس پر کئی صحابہ کرام اٹھ کر آپ ﷺ کی طرف لپکے، لیکن آپ ﷺ نے وہ تلوار انہیں نہیں دی۔ان حضرات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔آپ ﷺ نے ان صحابہ سے فرمایا:
’’بیٹھ جاؤ۔‘‘
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بھی وہ تلوار لینے کی تین بار کوشش کی، مگر آپ ﷺ نے ہر مرتبہ انکار کردیا۔آخر صحابہ کے مجمع میں سے حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا:
’’میں اس تلوار کا حق ادا کروں گا۔‘‘
آپ ﷺ نے وہ تلوار انہیں عطا فرمادی۔ابودجانہ رضی اللہ عنہ بے حد بہادر تھے، جنگ کے دوران غرور کے انداز میں اکڑ کر چلا کرتے تھے۔جب آپ ﷺ نے انہیں دونوں لشکروں کے درمیان اکڑ کر چلتے دیکھا تو فرمایا:
’’ یہ چال ایسی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نفرت فرماتا ہے،سوائے اس قسم کے موقعوں کے۔(یعنی دشمنوں کا سامنا کرتے وقت یہ چال جائز ہے تاکہ یہ ظاہر ہوکہ ایسا شخص دشمن سے ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہے اور نہ اسے دشمن کے جنگی ساز و سامان کی پروا ہے۔) پھر دونوں لشکر ایک دوسرے کے بالکل نزدیک آگئے۔اس وقت مشرکوں کے لشکر سے ایک اونٹ سوار آگے نکلا اور مبارزت طلب کی یعنی مقابلے کے لیے للکارا۔اس نے تین مرتبہ پکارا۔تب حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اسلامی صفوں سے نکل کر اس کی طرف بڑھے۔حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس وقت پیدل تھے۔جب کہ دشمن اونٹ پر سوار تھا۔اس کے نزدیک پہنچتے ہی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ایک دم زور سے اچھلے اور اس کی اونچائی کے برابر پہنچ گئے۔ساتھ ہی انہوں نے اس کی گردن پکڑلی۔
دونوں میں اونٹ پر ہی زورآزمائی ہونے لگی۔ان کی زورآزمائی دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان میں سے جو پہلے نیچے گرے گا، وہی مارا جائیگا۔اچانک وہ مشرک نیچے گرا پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس پر گرے، گرتے ہی انہوں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا اور وہ جہنم رسید ہوگیا۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی:
’’ہر نبی کا ایک حواری (یعنی خاص ساتھی) ہوتاہے اور میرے حواری زبیر ہیں۔پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اگر اس مشرک کے مقابلے کے لیے زبیر نہ نکلتے تو میں خود نکلتا۔اس کے بعد مشرکوں کی صفوں میں سے ایک اور شخص نکلا۔اس کا نام طلحہ بن ابو طلحہ تھا۔یہ قبیلہ عبدالدار سے تھا۔اس کے ہاتھ میں پرچم تھا۔اب اس نے مبارزت طلب کی۔اس نے بھی کئی بار مسلمانوں کو للکارا، تب حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی صفوں میں سے نکل کر اس کے سامنے پہنچ گئے، اب ان دونوں میں مقابلہ شروع ہوا۔دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار کے وار کیے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک وار اس کی ٹانگ پر لگا۔ٹانگ کٹ گئی۔وہ بری طرح گرا اور اس کے کپڑے الٹ گئے۔اس طرح وہ برہنہ ہوگیا۔وہ پکار اٹھا:
’’میرے بھائی میں خدا کا واسطہ دے کر تم سے رحم کی بھیک مانگتا ہوں۔‘‘
حق اداکردیا
حضرت علی رضی اللہ عنہ طلحہ بن ابو طلحہ کو چھوڑ کر لوٹ آئے…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:
’’اے علی! تم نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! اس نے مجھے خدا کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی تھی۔‘‘
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اسے قتل کر آؤ۔‘‘
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گئے اور اسے قتل کرڈالا۔اس کے قتل کے بعد مشرکوں کا پرچم اس کے بھائی عثمان بن ابوطلحہ نے لے لیا۔اس کے مقابلے پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آئے۔انہوں نے اس کے نزدیک پہنچتے ہی تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کا کندھا کٹ گیا۔ وہ گر پڑا، اور دوسرے وار سے انہوں نے اس کا خاتمہ کردیا۔
اب طلحہ کا بیٹا مسافع آگے بڑھا۔حضرت عاصم بن ثابت بن ابوالافلح رضی اللہ عنہ نے اس پر تیر چلایا، وہ بھی ہلاک ہوگیا۔اس کے بعد اس کا بھائی حارث میدان میں نکلا، حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے اسے بھی تاک کر تیر مارا، وہ بھی مارا گیا۔ان دونوں کی ماں بھی لشکر میں موجود تھی۔اس کا نام سلافہ تھا۔اس کے دونوں بیٹوں نے ماں کی گود میں دم توڑا۔مرنے سے پہلے سلافہ نے پوچھا:
’’بیٹے! تمہیں کس نے زخمی کیا ہے؟‘‘
ایک بیٹے نے جواب دیا:
’’میں نے اس کی آواز سنی ہے، تیر چلانے سے پہلے اس نے کہا تھا، لے اس کو سنبھال، میں ابوالافلح کا بیٹا ہوں۔‘‘
اس جملے سے سلافہ جان گئی کہ وہ تیر انداز حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں، چنانچہ اس نے قسم کھائی۔
’’اگر عاصم کا سر میرے ہاتھ لگا تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی۔‘‘
ساتھ ہی اس نے اعلان کیا کہ ’’جو شخص بھی عاصم بن ثابت کا سر کاٹ کر لائے گا، میں اسے سو اونٹ انعام میں دوں گی۔‘‘
حضرت عاصم رضی اللہ عنہ اس جنگ میں شہید نہیں ہوئے، یہ واقعہ رجیع میں شہید ہوئے جس کا ذکر اپنے وقت پر آئے گا، انشاء اللہ!
ان دونوں کے قتل کے بعد ان کے بھائی کلاب بن طلحہ نے پرچم اٹھالیا، اسے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے قتل کردیا، کلاب کے بعد اس کے بھائی جلاس بن طلحہ نے پرچم اٹھایا۔
اسے حضرت طلحہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا۔اس طرح یہ چاروں اپنے باپ کی طرح وہیں قتل ہوگئے۔ان کے چچا عثمان بن طلحہ اور ابوسعید بن طلحہ بھی اسی غزوہ احد میں مارے گئے تھے۔
اس کے بعد قریشی پرچم ارطاۃ بن شرحبیل نے اٹھایا، اس کے مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے، وہ ان کے ہاتھوں مارا گیا۔
اس کے بعد شریح ابن قارظ نے پرچم اٹھایا،وہ بھی مارا گیا۔روایت میں یہ نہیں آیا کہ یہ کس کے ہاتھوں مارا گیا۔اس کے بعد پرچم ابو زید بن عمرو نے اٹھایا، اسے حضرت قزمان رضی اللہ عنہ نے قتل کیا، اس کے بعد ان لوگوں کے غلام صواب نے پرچم اٹھایا، یہ ایک حبشی تھا۔اس نے لڑنا شروع کیا، یہاں تک کہ اس کا ایک ہاتھ کٹ گیا، یہ جلدی سے بیٹھ گیا، پرچم کو اپنی گردن اور سینے کے سہارے اٹھائے رہا یہاں تک کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔
اب عام جنگ شروع ہوگئی۔دونوں لشکر ایک دوسرے پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوئے۔ اس جنگ کے شروع ہی میں مشرکوں کے گھڑسوار دستے نے تین مرتبہ اسلامی لشکر پر حملہ کیا۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑی کے اوپر تیراندازوں کا جو دستہ مقرر فرمایا تھا، وہ ہر مرتبہ تیروں کی باڑھ مارکر اس دستے کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا تھا۔مشرکین تینوں مرتبہ بدحواسی کے عالم میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔
اس کے بعد مسلمانوں نے مشرکوں پر بھرپور حملہ کیا۔یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ مشرکوں کی طاقت کو زبردست نقصان پہنچا۔اس وقت لڑائی پورے زوروں پر تھی۔
مشرکوں کی عورتوں میں ہندہ بھی تھی۔ یہ ابوسفیان کی بیوی تھی۔ اس وقت تک یہ اسلام نہ لائی تھیں اور مسلمانوں کی سخت ترین دشمن اور بہت تند مزاج تھیں۔انہوں نے اپنے ہاتھوں میں دف لے لیا، اور ان کے ساتھ دوسری عورتیں بھی تھیں…انہوں نے بھی دف لے لیے۔اب سب مل کر دف بجانے لگیں اور گیت گانے لگیں۔یہ قدم انہوں نے اپنے مردوں کو جوش دلانے کے لئے اٹھایا۔
ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو جو تلوار عطا فرمائی تھی، انہوں نے اس کا حق ادا کردیا۔حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا تو میرے تین مرتبہ تلوار مانگنے کے باوجود آپ نے وہ تلوار مجھے مرحمت نہ فرمائی، حالانکہ میں آپ کا پھوپھی زاد تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار ابودجانہ کو دے دی تو میں نے دل میں کہا، دیکھتا ہوں کہ یہ اس تلوار کا حق کس طرح ادا کرتے ہیں؟ اس کے بعد میں نے ان کا پیچھا کیا اور سائے کی طرح ان کے ساتھ لگا رہا۔میں نے دیکھا انھوں نے اپنے موزے میں سے ایک سرخ رنگ کی پٹی نکالی، اس پٹی پر ایک طرف لکھا تھا، اللہ کی مدد اور فتح قریب ہے۔دوسری طرف لکھا تھا، جنگ میں بزدلی شرم کی بات ہے، جو میدان سے بھاگا وہ جہنم کی آگ سے نہیں بچ سکتا۔یہ پٹی نکال کر انھوں نے اپنے سر پر باندھ لی۔انصاری مسلمانوں نے جب یہ دیکھا تو وہ بول اٹھے:
’’ابودجانہ نے موت کی پٹی باندھ لی ہے۔‘‘
انصاریوں میں یہ بات مشہور تھی کہ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ جب یہ پٹی سر پر باندھ لیتے تو پھر دشمنوں پر اس طرح ٹوٹتے ہیں کہ کوئی ان کے مقابلے پر ٹک نہیں سکتا۔
چنانچہ اس پٹی کے باندھنے کے بعد انہوں نے انتہائی خوفناک انداز میں جنگ شروع کردی۔وہ دشمن پر موت بن کر گرے، انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔دشمنوں کو اس حد تک قتل کیا کہ آخر یہ تلوار مڑگئی اور مڑ کر درانتی جیسی ہوگئی۔
اس وقت مسلمان پکار اٹھے:
’’ابودجانہ نے واقعی تلوار کا حق ادا کردیا۔‘‘
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہے کہ مشرکوں میں ایک شخص میدان جنگ میں زخمی مسلمانوں کو تلاش کرکر کے شہید کررہا تھا۔ میری نظر اس پر پڑی تو میں نے دعا مانگی:
’’ یا اللہ! اس کا سامنہ ابودجانہ سے ہوجائے۔‘‘
اللہ نے میری دعا قبول فرمائی اور اس کا آمنا سامنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ سے ہوگیا۔
اب دونوں میں تلوار کے وار ہونے لگے۔اچانک اس مشرک نے ابودجانہ رضی اللہ عنہ پر تلوار بلند کی۔
پانسہ پلٹ گیا
مشرک کے اس وار کو ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی چمڑے کی ڈھال پر روکا۔مشرک کی تلوار ان کی ڈھال میں پھنس گئی۔بس اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے فوراً اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیا۔
حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ایک موقع پر میں نے ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو وہی تلوار ہند بنت عتبہ کو قتل کرنے کے لئے بلند کرتے دیکھا، لیکن پھر انہوں نے اس عورت کو قتل نہ کیا۔ اس بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
’’میں نے مناسب نہ سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سے ایک عورت کا قتل کروں، اس لیے اسے چھوڑ کر ہٹ آیا۔‘‘
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ان کی طرح انتہائی سرفروشی سے جنگ کر رہے تھے۔ اس روز حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بیک وقت دو تلواروں سے لڑ رہے تھے، یعنی ان کے دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھیں…اور لڑتے ہوئے وہ کہتے جارہے تھے:
’’میں اللہ کا شیر ہوں۔‘‘ایسے میں سباع بن عبدالعزیٰ ان کے سامنے آ گیا۔انہوں نے اسے للکارا۔پھر تیزی سے اس کی طرف بڑھے اور اس کے سر پر پہنچ کر تلوار کا وار کیا، سباع فوراً ہی ڈھیر ہوگیا۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس روز اس قدر دلیری سے لڑے کہ ان کے ہاتھ سے 31 مشرک مارے گئے۔سباع کو قتل کرنے کے بعد وہ اس کی زرہ اتارنے کے لیے جھکے۔اس وقت حضرت وحشی کی نظر ان پر پڑی جو اس وقت مشرکین کے لشکر میں شامل تھے۔جھکنے کی وجہ سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی زرہ پیٹ پر سے سرک گئی تھی۔ حضرت وحشی یہ واقعہ سناتے ہوئے فرماتے تھے:
’’میں نے فوراً نیزہ تاک کر مارا، وہ ان کے پیٹ میں لگا، میں ان کی طرف بڑھا۔انہوں نے مجھے دیکھا اور شدید زخمی حالت کے باوجود انہوں نے اٹھ کر مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن پھر کمزوری کی وجہ سے گر گئے۔کچھ دیر تک میں ایک طرف دبکا رہا۔ جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ ان کی روح نکل چکی ہے، تب ان کے قریب گیا۔وہ واقعی شہید ہوچکے تھے۔میں وہاں سے ہٹ آیا اور اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا۔کیونکہ مجھے صرف ان کے قتل سے دلچسپی تھی۔اور اس جنگ میں کسی کو قتل کرنے کی خواہش نہیں تھی…اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر میں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا تو مجھے آزاد کر دیا جائے گا۔‘‘حضرت وحشی رضی اللہ عنہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے اوروہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
ادھر مشرکوں کے پرچم بردار جب ایک ایک کرکے ختم ہوگئے اور کوئی پرچم اٹھانے والا نہ رہا تو ان میں بددلی پھیل گئی…وہ پسپا ہونے لگے۔پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ایسے میں وہ چیخ اور چلارہے تھے۔ ان کی عورتیں جوکچھ دیر پہلے جوش دلانے کے لیے اشعار پڑھ رہی تھیں، اپنے دف پھینک کر پہاڑ کی طرف بھاگیں۔ان پر بدحواسی اس قدر سوار ہوئی کہ اپنے کپڑے نوچنے لگیں۔
مسلمانوں نے جب دشمن کو بھاگتے دیکھا تو ان کا پیچھا کرنے لگے، ان کے ہتھیاروں اور مال غنیمت پر قبضہ کرنے لگے۔
اب یہاں…اس موقع پر ایک عجیب واقعہ رونما ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑی کے درے پر پچاس تیرانداز مقرر فرمائے تھے اور انہیں واضح طور پر ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں…ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ تھے…اس دستے نے جب کافروں کو بھاگتے دیکھا اور مسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرتے دیکھا تو یہ بھی اپنی جگہ چھوڑنے لگے۔یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ بولے:
’’کہاں جارہے ہو؟ ہمیں یہاں سے ہٹنا نہیں چاہیے، اللہ کے رسول نے ہمیں ہدایت فرمائی تھی کہ اپنی جگہ جمے رہیں…اور یہاں سے نہ ہٹیں۔‘‘
اس پر ان کے ساتھی بولے:
’’اب مشرکوں کو شکست ہوگئی ہے، اب ہم یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ انہیں روکتے رہ گئے۔ لیکن وہ نہ مانے اور میدان میں چلے گئے۔لیکن حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور چند ساتھی البتہ وہیں رکے رہے، ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔انہوں نے نیچے کا رخ کرنے والوں سے کہا:
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کریں گے۔‘‘
اس طرح وہاں دس سے بھی کم مجاہد رہ گئے…اس وقت حضرت خالد بن ولید کی نظر درے پر پڑی۔یہ کافروں کے ایک دستے کے سالار تھے۔ اور لشکر کے دائیں بازو پر مقرر تھے۔شکست کے بعد یہ اس طرف سے پسپا ہو رہے تھے کہ درے پر نظر پڑی…جنگ کے دوران بھی یہ اس طرف سے بار بار حملہ کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے، لیکن پچاس تیراندازوں کے تیروں کی بوچھاڑ نے ان کی پیش قدمی روک دی تھی… اب انہوں نے دیکھا کہ وہاں پچاس کے بجائے چند مسلمان رہ گئے ہیں تو یہ اپنے دستے کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوئے۔ان کے دستے کے ساتھ ہی عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے دستے کے ساتھ اس طرف پلٹ پڑے۔
اس طرح پورے دو دستوں نے ان چند مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ان کا یہ حملہ اس قدر زبردست تھا کہ پہلے ہی حملے میں حضرت عبداللہ ابن جبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔مشرکوں نے حضرت عبداللہ ابن جبیر رضی اللہ عنہ کی لاش کا مثلہ کیا۔یعنی ان کے ناک، کان، ہاتھ اور پیر کاٹ ڈالے۔ان کے جسم پر اتنے نیزے لگے تھے کہ پورا جسم چھلنی ہوکر رہ گیا تھا۔لیکن آفرین ہے اس مرد مجاہد پر کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر وہاں سے نہ ہٹے۔
اب ان دونوں دستوں نے اس درے کی طرف سے مسلمانوں کی پشت پر اچانک بہت زور کا حملہ کیا۔مسلمان اس وقت مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے۔ان میں سے اکثر نے اپنی تلواریں نیام میں ڈال لی تھیں۔اس تابڑ توڑ حملے نے انہیں بدحواس کردیا۔
کافر اس وقت پورے جوش کی حالت میں ’’یا ہبل یا عزیٰ ‘‘کے نعرے لگارہے تھے، یعنی اپنے بتوں کے نام پکار رہے تھے۔
مسلمان اس حملے سے اس قدر بدحواس ہوئے کہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔اس وقت تک انہوں نے جتنے کافروں کو قیدی بنالیا تھا یا جتنا مال غنیمت لوٹ چکے تھے ۔وہ سب چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔
مشرکوں کا پرچم اس وقت زمین پر پڑا تھا…ایک مشرک عورت بنت علقمہ کی نظر اس پر پڑی تو اس نے لپک کر اس کو اٹھا لیا اور بلند کردیا۔اب تک جو مشرک بھاگ رہے تھے، وہ بھی اپنے پرچم کو بلند ہوتے دیکھ کر پلٹ پڑے ۔وہ جان گئے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے۔اب سب دوڑ دوڑ کر اپنے پرچم کے گرد جمع ہونے لگے اور بدحواس مسلمانوں پر حملہ آور ہونے لگے۔
ایسے میں ایک مشرک ابن قمیہ نے پکار کر کہا:
’’محمد قتل کردیئے گئے۔‘‘(معاذ اللہ)
اس خبر نے مسلمانوں کو اور زیادہ بدحواس کردیا۔
جب پروانے شمع رسالت پر نثار ہوئے…
ایسے میں کسی صحابی نے کہا:
’’اب جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہوچکے ہیں تو ہم لڑ کر کیا کریں گے؟‘‘
اس پر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:
’’اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو کیا تم اپنے نبی کے دین کے لیے نہیں لڑوگے، تاکہ تم شہید کی حیثیت سے اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو۔‘‘
حضرت ثابت بن وحداح رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا:
’’اے گروہ انصار! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو زندہ ہے، اسے تو موت نہیں آسکتی۔اپنے دین کے لیے لڑو، اللہ تعالیٰ فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے۔‘‘
یہ سنتے ہی انصار کے ایک گروہ نے مشرکوں کے اس دستے پر حملہ کردیا۔جس میں خالدبن ولید، عکرمہ بن ابوجہل، عمرو بن عاص اور ضرار بن خطاب موجود تھے اور یہ چاروں زبردست جنگ جو تھے۔انصار کے حملے کے جواب میں خالد بن ولید نے ان پر جوابی حملہ کیا۔اس جوابی حملے میں ابن وحداح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔
بدحواسی کے عالم میں کچھ لوگ مدینہ کی طرف پلٹ پڑے تھے، ان کے راستے میں اُمّ ایمن رضی اللہ عنہ آگئیں۔ وہ بولیں:
’’مسلمانو!! یہ کیا! تم پیٹھ پھیر کر جارہے ہو؟ ‘‘
اس پر وہ پلٹ پڑے اور مشرکوں پر حملہ آور ہوئے۔دوسری طرف مسلمانوں کے تتر بتر ہوجانے کی وجہ سے مشرکوں کے ایک گروہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سخت وقت میں بھی ثابت قدم رہے اور اپنی جگہ پر جمے رہے، اس عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمارہے تھے:
’’اے فلاں! میری طرف آؤ، اے فلاں! میری طرف آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تیروں کی بوچھاڑ ہورہی تھی…اس حالت میں ان تیروں سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی۔اس نازک وقت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع رہی…یہ جماعت مشرکوں کے مسلسل حملوں کو روک رہی تھی۔خود کو پروانوں کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کررہی تھی۔ان میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ وہ دشمن کے وار اپنی ڈھال پر روک رہے تھے۔وہ بہت اچھے تیرانداز تھے، نشانہ بہت پختہ تھا۔چنانچہ دشمنوں پر مسلسل تیر بھی چلارہے تھے اور کہتے جاتے تھے:
’’میری جان آپ پر فدا ہوجائے، میرا چہرہ آپ کے لیے ڈھال بن جائے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مسلمان کے ترکش میں تیر نظر آتے تو اس سے فرماتے:
’’اپنا ترکش ابوطلحہ کے سامنے الٹ دو۔‘‘
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس روز اس قدر تیراندازی کی کہ ان کے ہاتھ سے تین کمانیں ٹوٹ گئیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کو دیکھنے کے لیے سر اوپر کرتے تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ پکار اٹھتے:
’’اے اللہ کے رسول! آپ اپنا سر اوپر نہ کریں…کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے۔‘‘
پھر خود پنجوں کے بل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے آجاتے تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہیں…کوئی تیر لگے تو مجھ کو لگے۔
اس دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کمان تھی، اس کا نام کتوم تھا۔کمان کا ایک سرا ٹوٹ گیا تھا اور دست مبارک میں کمان کی بالشت بھر ڈوری رہ گئی تھی۔حضرت عکاشہ ابن محصن رضی اللہ عنہ نے کمان کی ڈوری باندھنے کے لیے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے لی مگر ڈوری تو چھوٹی ہوچکی تھی۔اس پر انہوں نے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! ڈوری چھوٹی ہوگئی ہے، اس لیے بندھ نہیں سکتی۔‘‘
اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اس کو کھینچو! پوری ہوجائے گی۔‘‘
عکاشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’اللہ کی قسم! میں نے اس ڈوری کو کھینچا تو وہ کھنچ کر اتنی لمبی ہوگئی کہ وہ کمان کی دونوں سروں پر پوری آگئی۔میں نے ایک سرے پر دو تین بل بھی دے دیئے اور پھر اس پر گرہ لگا دی۔‘‘
اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے، انہوں نے دشمنوں سے زبردست جنگ کی۔ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی تھے۔یہ بھی زبردست تیرانداز تھے۔یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تیر اٹھا اٹھا کر مجھے دے رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے:
’’اے سعد! تیراندازی کرتے جاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘
وہ فرماتے ہیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مجھے ایک تیر ایسا بھی ملا جس کے سرے پر پھل(تیز دھار نوک والا حصہ)نہیں تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیکھ لیا کہ تیر کا پھل نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’یہی تیر چلاؤ۔‘‘
اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے دعا کرتے ہوئے کہا:
’’اے اللہ! یہ تیرا تیر ہے، تو اس کو دشمن کے سینے میں پیوست کردے۔‘‘
ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:
’’اے اللہ! سعد کی دعا قبول فرما۔اے اللہ! اس کی تیراندازی کو درست فرما۔‘‘
پھر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا ترکش خالی ہوگیا، تیر ختم ہوگئے،تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ترکش ان کے سامنے الٹ دیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ پھر تیر چلانے لگے…کہا جاتا ہے، حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے، یعنی ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا:
’’آپ کی دعائیں کیوں فوراً قبول ہوتی ہیں۔‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’میں زندگی بھر کوئی لقمہ یہ جانے بغیر منہ تک نہیں لے گیا کی یہ کہاں سے آیا ہے؟‘‘
(مطلب یہ کہ ہمیشہ حلال کھایا ہے۔)
اس بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جب بھی کوئی بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔‘‘
اس سلسلے میں ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’جس کا کمانا حرام ہو، جس کا پینا حرام ہو اور جس کا لباس حرام ہو، اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟ ‘‘
اس روز حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے۔ہر تیر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
’’تیراندازی کرو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جملہ حضرت سعد کے علاوہ کسی اور کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔‘‘
حضرت سعد رضی اللہ عنہ رشتہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں لگتے تھے، اس لیے ان کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے:
’’یہ سعد میرے ماموں ہیں، کوئی مجھے ایسا ماموں تو دکھائے۔‘‘
اس روز حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے بھی تیر چلائے جوکہ اس نازک وقت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں میں شامل تھے۔
حضرت زید بن عاصم رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہ اس روز مجاہدوں کو پانی پلارہی تھیں، جب جنگ کا پانسہ پلٹا ،مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلی تو یہ اس وقت بھی زخمیوں کو پانی پلارہی تھیں۔
صحابہ اور صحابیات کی فداکاری
حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا کا اصل نام نسیبہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا اور مشرکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوتے دیکھا تو بے چین ہوگئیں، جلدی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچیں اور تلوار کے ذریعے دشمنوں سے لڑنے لگیں۔تلوار چلاتے چلاتے جب زخمی ہوگئیں، تو تیر کمان سنبھال لیا اور مشرکوں پر تیر چلانے لگیں۔
ایسے میں انہوں نے ابن قمیہ مشرک کو آتے دیکھا، وہ یہ کہتا ہوا چلا آرہا تھا:
’’مجھے بتاؤ…محمد کہاں ہیں؟ اگر آج وہ بچ گئے تو سمجھو، میں نہیں بچا۔‘‘
یہ کہنے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ آج یا وہ رہیں گے یا میں رہوں گا۔جب وہ قریب آیا تو حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اس کا راستہ روکا، اسی وقت اس نے حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا پر حملہ کیا، ان کے کندھے پر زخم آیا، حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس پر تلوار کے کئی وار کیے، مگر وہ زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ان کے وار سے محفوظ رہا۔ان کی کوششوں کو دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تمہارے گھرانے میں برکت عطا فرمائے۔‘‘
اس پر حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! ہمارے لیے دعا فرمایئے کہ ہم جنت میں آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے اللہ انہیں جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔‘‘
اس وقت حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’اب مجھے اس کی پروا نہیں کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’احد کے دن میں دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتا تھا، اُمّ عمارہ کو دیکھتا تھا کہ میرے بچاؤ اور میری حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا کر دشمنوں سے لڑ رہی ہیں۔‘‘
غزوہ احد میں حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا کو بارہ زخم آئے۔ان میں نیزوں کے زخم بھی تھے اور تلواروں کے بھی۔
اس روز حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے جسم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنالیا تھا۔جو تیر آتا، وہ اس کو اپنی کمر پر روکتے، یعنی انہوں نے اپنا منہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر رکھا تھا، اس طرح وہ تمام تیر اپنی کمر پر لے رہے تھے۔تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہیں۔اس طرح ان کی کمر میں بہت سے تیر پیوست ہوگئے۔
اسی طرح حضرت زیاد بن عمارہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کی حفاظت میں مردانہ وار زخم کھا رہے تھے۔یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’انہیں میرے قریب لاؤ۔‘‘
ان کی خوش قسمتی دیکھیے کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لایا گیا، جب انہیں زمین پر لٹایا گیا تو انہوں نے اپنا منہ اور رخسار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر رکھ دیے اور اسی حالت میں جان دے دی… کس قدر مبارک موت تھی ان کی!!اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاتے ہوئے ابن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔دراصل ابن قمیہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ رہا تھا، اس لیے کہ ان کی شکل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی۔چنانچہ جب اس نے شہید کیا تو قریش کے سرداروں کو جاکر اطلاع دی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا ہے، حالانکہ اس نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔
اسی دوران ابی بن خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔اس پر کئی صحابہ اس کے راستے میں آگئے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اسے میری طرف آنے دو۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھے:
’’اے جھوٹے! کہاں بھاگتا ہے؟‘‘
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کے ہاتھ سے ایک نیزہ لیا اور نیزے کی نوک ابی بن خلف کی گردن میں بہت ہی آہستہ سے چبھودی، مطلب یہ کہ نیزہ اس قدر آہستہ چبھویا کہ اس سے خون بھی نہیں نکلا مگر اس ہلکی سی خراش ہی سے وہ بری طرح چیختا ہوا وہاں سے بھاگا…وہ کہہ رہا تھا:
’’خدا کی قسم! محمد نے مجھے مار ڈالا۔‘‘
مشرکوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا:
’’تو تو بہت چھوٹے دل کا نکلا…تیری عقل جاتی رہی، اپنے پہلو میں تیر لیے پھرتا ہے، تیراندازی کرتا ہے…اور تجھے کوئی زخم بھی نہیں آیا…لیکن چیخ کتنا رہا ہے، ایک معمولی سی خراش ہے، ایسی خراش پر تو ہم اف بھی نہیں کرتے۔‘‘
اس پر ابی بن خلف نے درد سے کراہتے ہوئے کہا:
’’لات اور عزیٰ کی قسم! اس وقت مجھے جس قدر شدید تکلیف ہورہی ہے، اگر وہ ذی المجاز کے میلے میں سارے آدمیوں پر بھی تقسیم کردی جائے تو سب کے سب مرجائیں۔‘‘
بات دراصل یہ تھی کہ مکہ میں ابی بن خلف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتا تھا:
’’اے محمد! میرے پاس ایک بہترین گھوڑا ہے، میں اسے روزانہ بارہ مرتبہ چارہ کھلا کر موٹا کررہا ہوں، اس پر سوار ہوکر میں تمہیں قتل کروں گا۔‘‘
اس کی بکواس سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فرماتے تھے:
’’انشاء اللہ! میں خود تجھے قتل کروں گا۔‘‘
اب جب اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں خراش پہنچی تو اس کی ناقابل برداشت تکلیف نے اسے چیخنے پر مجبور کردیا…وہ بار بار لوٹ پوٹ ہورہا تھا اور کسی ذبح کیے ہوئے بیل کی طرح ڈکرا رہا تھا۔اس کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے اس کے کچھ ساتھی اسے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے، لیکن اس نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔
ایک حدیث میں آتا ہے:
’’وہ شخص جسے نبی نے قتل کیا ہو یا جسے نبی کے حکم سے قتل کیا گیا ہو، اسے اس کے قتل کے وقت سے قیامت کے دن تک عذاب دیا جاتا رہے گا۔‘‘
ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’سب سے زیادہ سخت عذاب اسے ہوتا ہے جسے نبی نے خود قتل کیا ہو۔‘‘
احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک فتنہ باز کافر ابو عامر نے جگہ جگہ گڑھے کھود دیے تھے، تاکہ مسلمان بے خبری میں ان میں گرجائیں اور نقصان اٹھاتے رہیں، یہ شخص حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا باپ تھا… اور حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔
لڑائی جاری تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گر گئے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺکوگرتے دیکھا۔انہوں نے آگے بڑھ کرفوراً آپ ﷺ کو اپنے ہاتھوں پر لے لیا۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے آپ ﷺ کو اوپر اٹھا کر باہر نکالا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گڑھے میں گرے تو ابن قمیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے، ان میں سے ایک پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں لگا، عتبہ بن ابی وقاص نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارا۔اس کا پھینکا ہوا پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر لگا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا اور نچلا ہونٹ پھٹ گیا، حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب عتبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکتے دیکھا تو اس کی طرف لپکا، میں نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے جالیا، میں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کی گردن کٹ کر دور جا گری، میں نے فوراً اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، آپ کو عتبہ کے قتل کی خبر سنائی…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تم سے راضی ہوگیا، اللہ تم سے راضی ہوگیا۔‘‘
اس حملے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود(لوہے کی ٹوپی) بھی ٹوٹا، چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، ابن قمیہ کے حملے سے دونوں رخسار بھی زخمی ہوئے تھے ،خود کی دو کڑیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں گڑ گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن قمیہ کو بددعا دی:
’’اللہ تجھے ذلیل او رپست کردے ، برباد کردے۔‘‘
موت کے نرغہ میں
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی۔ اس جنگ کے بعد جب ابن قمیہ اپنی بکریوں کے گلّے میں پہنچا تو انہیں لے کر پہاڑ پر چڑھا، وہ بکریوں اور مینڈھوں کو گھیر گھیر کر لے جارہا تھا کہ اچانک ایک مینڈھے نے اس پر حملہ کردیا، اس نے اسے اس زور سے سینگ مارا کہ وہ پہاڑ سے نیچے لڑھک گیا اور اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خون بہنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے:
’’وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو اس لیے خون سے رنگین کردیا کہ وہ انہیں ان کے پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں خود کی کڑیاں گھس گئی تھیں، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اپنے دانتوں سے ان کڑیوں کو کھینچ کھینچ کر نکالا، اس کوشش کے دوران ان کا اپنا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا۔ بہرحال کڑی نکل گئی، پھر انہوں نے دوسری کڑی کو دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو ایک دانت اور ٹوٹ گیا…تاہم کڑی نکل گئی۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ جانے کے بعد ان کا چہرہ بدنما ہوجاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ پہلے سے زیادہ خوب صورت ہوگیا۔
جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت دیکھا اور پکارے:
’’اے مسلمانو! تمہیں خوش خبری ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ موجود ہیں۔‘‘
جب مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت دیکھا تو پروانوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے ساتھ ایک گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت حارث بن صمہ رضی اللہ عنہم تھے۔
اس روز حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بھی زبردست ثابت قدمی دکھائی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں موت کی بیعت کی تھی، یعنی یہ عہد کیا تھا کہ آپ کی حفاظت میں جان تو دے دیں گے، لیکن ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان صحابہ کے ساتھ گھاٹی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ عثمان بن عبداللہ ایک سیاہ اور سفید گھوڑے پر سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا، وہ لوہے میں پوری طرح غرق تھا، آپ اس کی آواز سن کر رک گئے، اسی وقت عثمان بن عبداللہ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی، وہ ایک گڑھے میں گر گیا، ساتھ ہی حضرت حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ اس کی طرف لپکے اور اپنی تلوار سے اس پر وار کیا، اس نے تلوار کا وار روکا…تھوڑی دیر دونوں طرف سے تلوار چلتی رہی، پھر اچانک حضرت حارث نے اس کے پیر پر تلوار ماری، وہ زخم کھا کر بیٹھ گیا…حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے ایک بھرپور وار کرکے اس کا خاتمہ کر دیا، اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کا شکر ہے جس نے اسے ہلاک کردیا۔‘‘
اسی وقت عبداللہ بن جابر عامری نے حضرت حارث رضی اللہ عنہ پر حملہ کر دیا، اس کی تلوار حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے کندھے پر لگی، کندھا زخمی ہوگیا…ان لمحات میں حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن جابر پر حملہ کر دیا اور اپنی تلوار سے اسے ذبح کر ڈالا۔
مسلمان حضرت حارث رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر لے گئے تاکہ ان کی مرہم پٹی کی جاسکے۔
پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چٹان کے اوپر جانے کا ارادہ فرمایا جو گھاٹی کے اندر ابھری ہوئی تھی، لیکن زخموں سے خون نکل جانے اور زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چڑھ نہ سکے، یہ دیکھ کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاندھوں پر بٹھا کر چٹان کے اوپر لے گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’طلحہ کے اس نیک عمل کی وجہ سے ان پر جنت واجب ہوگئی۔‘‘
ان کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی، جب یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کندھوں پر اٹھا کر چلے تو چال میں لنگڑاہٹ تھی، اب ان کی کوشش یہ تھی کہ لنگڑاہٹ نہ ہو…تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کندھوں پر اٹھا کر چلنے کی برکت سے ان کی لنگراہٹ دور ہوگئی۔
اس وقت تک جنگ کی یہ خبریں مدینہ منورہ میں پہنچ چکی تھیں، لہٰذا وہاں سے عورتیں میدان احد کی طرف چل پڑیں، ان میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی دیکھا تو بے اختیار آپ سے لپٹ گئیں، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کو دھویا، حضرت علی رضی اللہ عنہ پانی ڈالنے لگے، لیکن زخموں سے خون اور زیادہ بہنے لگا، تب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر جلایا، جب وہ جل کر راکھ ہو گیا تو وہ راکھ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں میں بھر دی، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے خون بہنے کا سلسلہ رکا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اس چٹان پر پہنچے تو دشمن کی ایک جماعت پہاڑ کے اوپر پہنچ گئی، اس جماعت میں خالد بن ولید بھی تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کو دیکھ کر فرمایا:
’’اے اللہ! ہماری طاقت اور قوت صرف تیری ہی ذات ہے۔‘‘
اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور انہیں پیچھے دھکیل کر پہاڑ سے نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی، کمزوری کی وجہ سے یہ نماز بیٹھ کر ادا فرمائی۔
اس لڑائی میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم پر تقریباً 70 زخم آئے، یہ نیزوں، برچھوں اور تلواروں کے تھے، تلوار کے ایک وار سے ان کی انگلیاں بھی کٹ گئیں، دوسرے ہاتھ میں ان کو ایک تیر آ کر لگا تھا، اس سے مسلسل خون بہنے لگا، یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے ان پر بے ہوشی طاری ہوگئی، اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اس سے انہیں ہوش آیا تو فوراً پوچھا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
’’خیریت سے ہیں۔‘‘
یہ سن کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اللہ کا شکر ہے، ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے منہ پر ضرب لگی۔ اس ضرب سے ان کے دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ ان کے جسم پر بیس زخم تھے۔ ایک زخم ایک پیر پر بھی آیا تھا۔ اس سے وہ لنگڑے ہوگئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے جسم پر بھی بیس کے قریب زخم آئے تھے۔ غرض اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شدید زخمی ہوئے تھے ۔احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک شخص قزمان نامی بھی مسلمانوں کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ شخص جہنمی ہے۔ وہ احد کی لڑائی میں بہت بہادری سے لڑا، لڑائی شروع ہونے پر سب سے پہلا تیر بھی اسی نے چلایا تھا، لڑتے لڑتے وہ مشرکوں کے اونٹ سوار دستے پر ٹوٹ پڑا اور آٹھ دس مشرکوں کو آن کی آن میں قتل کرڈالا۔ بعض صحابہ نے اس کی بہادری کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا…اس تذکرے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے تو اسے جہنمی فرمایا ہے اور وہ اس قدر دلیری سے لڑ رہا ہے…اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ارشاد فرمایا:
’’یہ شخص جہنمی ہے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر بہت حیران ہوئے۔
مشرکین کی واپسی
جب قزمان لڑتے لڑتے بہت زخمی ہوگیا تو اسے اٹھا کر بنی ظفر کے محلے میں پہنچایا گیا۔ یہاں لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ۔اس پر وہ بولا:
’’مجھے کیسی خوش خبری سنارہے ہو، خدا کی قسم! میں تو صرف اپنی قوم کی عزت اور فخر کے لیے لڑا ہوں۔ اگر قوم کا یہ معاملہ نہ ہوتا تو میں ہرگز نہ لڑتا۔‘‘
اس کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ بلند کرنے کے لیے نہیں لڑا تھا…پھر زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی۔ اس نے اپنی تلوار نکالی۔ اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر سارا بوجھ اس پر ڈال دیا۔ اس طرح تلوار اس کے سینے کے آر پار ہوگئی…اس طرح وہ حرام موت مرا۔ اسے اس طرح مرتے دیکھ کر ایک شخص دوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
آپ نے دریافت فرمایا:
’’کیا ہوا؟‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے، اس نے خودکشی کرلی ہے۔‘‘
اس طرح قزمان کے بارے میں آپ کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی، اس کے بالکل الٹ ایک واقعہ یوں پیش آیا کہ بنی عبد الاشہل کا ایک شخص اصیرم ہمیشہ اپنی قوم کو اسلام لانے سے روکتا تھا…جس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، یہ شخص مدینہ آیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ بنی عبد الاشہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اچانک اس نے اسلام کے لیے رغبت محسوس کی، اس نے زرہ پہنی، اپنے ہتھیار ساتھ لیے اور میدان جنگ میں پہنچ گیا، پھر مسلمانوں کی ایک صف میں شامل ہوکر کافروں سے جنگ کرنے لگا۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا۔ جنگ کے بعد بنی عبد الاشہل کے لوگ اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے کہ اصیرم پر نظر پڑی۔ انہوں نے اسے پہچان لیا…اسے میدان جنگ میں زخموں سے چور دیکھ کر اس کے قبیلے کے لوگوں کو بہت حیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا:
’’تم یہاں کیسے آگئے…قومی جذبہ لے آیا یا اسلام سے رغبت ہوگئی ہے؟‘‘
اصیرم نے جواب دیا:
’’میں اسلام سے رغبت کی بنیاد پر شریک ہوا ہوں۔ پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا پھر میدان میں آکر جنگ کی…یہاں تک کہ اس حالت میں پہنچ گیا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مجھے ایسے شخص کا نام بتاؤ جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی مگر وہ جنت میں چلا گیا۔ ان کا اشارہ حضرت اصیرم رضی اللہ عنہ کی طرف ہوتا تھا۔
اس لڑائی میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ احد کی لڑائی سے ایک دن پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دوسری صبح ہی غزوہ احد کا اعلان ہوگیا…یہ غسل کے بغیر لشکر میں شامل ہوگئے اور اسی حالت میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں۔‘‘
اسی بنیاد پر حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو’’غسیل الملائکہ‘‘ کہا گیا، یعنی وہ شخص جنہیں فرشتوں نے غسل دیا۔
غزوہ احد میں جنگ کے دوران ایک مشرک ابن عویف جنگجو اپنی صفوں سے نکل کر آگے آیا اور مقابلے کے لئے للکارا، ایک صحابی آگے بڑھے اور ابن عویف پر تلوار کا وار کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا:
’’لے میرا وار سنبھال! میں ایک فارسی غلام ہوں۔‘‘
ابن عویف کی زرہ کندھے پر سے کٹ گئی، تلوار اس کے کندھے کو کاٹ گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جملہ سنا تو فرمایا:
’’تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں۔‘‘
اب ابن عویف کا بھائی آگے بڑھا، ان صحابی نے اس پر وار کیا اور اس کی گردن اڑادی، اس مرتبہ انہوں نے وار کرتے ہوئے کہا:
’’لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں۔‘‘
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا:
’’تم نے خوب کہا۔‘‘
اسی غزوہ میں حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ یہ لنگڑے تھے، ان کے چار بیٹے تھے، جب یہ جنگ کے ارادے سے چلنے لگے تو چاروں بیٹوں نے ان سے کہا تھا:
’’ہم جا رہے ہیں…آپ نہ جائیں۔‘‘
اس پر عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے:
’’اللہ کے رسول! میرے بیٹے مجھے جنگ میں جانے سے روک رہے ہیں…مگر اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تم معذور ہو، لہٰذا تم پر جہاد فرض نہیں ہے۔‘‘
دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹوں سے فرمایا:
’’تمہیں اپنے باپ کو جہاد سے روکنا نہیں چاہیے، ممکن ہے اللہ انہیں شہادت نصیب فرمادے۔‘‘
یہ سنتے ہی حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے ہتھیار سنبھالے اور نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے اللہ سے دعا کی:
’’اے اللہ! مجھے شہادت کی نعمت عطا فرما اور گھر والوں کے پاس زندہ آنے کی رسوائی سے بچا۔‘‘
چنانچہ یہ اسی جنگ میں شہید ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں…انہی لوگوں میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں، میں نے انہیں جنت میں ان کے اسی لنگڑے پن کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھا ہے۔‘‘
اسی جنگ میں ان کے ایک بیٹے خلاد رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے اور ان کے سالے عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔
حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی بیوی کا نام ہندہ بنت حزام تھا، جنگ کے بعد یہ اپنے شوہر، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کی لاشیں ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے لگیں، تاکہ انہیں مدینہ منورہ میں دفن کیا جا سکے، لیکن اونٹ نے آگے جانے سے انکار کردیا اور بیٹھ گیا۔ اس کا رخ میدان احد کی طرف کیا جاتا تو چلنے لگتا، مدینہ منورہ کی طرف کرتے تو بیٹھ جاتا، آخر حضرت ہندہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ صورت حال بیان کی، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’یہ اونٹ مامور ہے ۔‘‘(یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ یہ مدینہ نہ جائے) اس لئے ان تینوں کو یہیں دفن کردو۔‘‘
اس سلسلے میں یہ روایت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ کیا عمرو بن جموح نے چلتے وقت کچھ کہا تھا، تب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے دعا کی تھی:
’’ اے اللہ! مجھے زندہ واپس آنے کی رسوائی سے بچانا۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ اونٹ مدینہ منورہ نہیں جائے گا۔
چنانچہ ان تینوں کو وہیں میدان احد میں دفن کیا گیا، مشرکوں کے ساتھ آنے والی عورتوں نے شہید ہونے والے مسلمانوں کا مثلہ کیا تھا…یعنی ان کے ناک، کان اور ہونٹ وغیرہ کاٹ ڈالے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ہندہ (حضرت ابو سفیان کی اہلیہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔) نے ان کا کلیجہ نکال کے چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی۔
لاشوں کو مثلہ کرنے کے بعد مشرک واپس لوٹے…مسلمانوں نے بھی انہیں روکنے کی کوشش نہ کی…کیونکہ سب کی حالت خستہ تھی، البتہ ایسے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’دشمن کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو، وہ کیا کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ اگر وہ لوگ اونٹوں پر سوار ہیں اور گھوڑوں کو ہانکتے ہوئے لے جارہے ہیں تو سمجھو وہ مکہ جارہے ہیں، لیکن اگر گھوڑوں پر سوار ہیں اور اونٹوں کو ہانک رہے ہیں تو سمجھو وہ مدینہ جارہے ہیں، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر انہوں نے مدینہ کا رخ کیا تو میں ہر قیمت پر مدینہ پہنچ کر ان کا مقابلہ کروں گا۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے، آخر معلوم ہوا کہ مشرکوں نے مکہ جانے کا ارادہ کرلیا ہے، اس طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے مقتولین کی فکر ہوئی، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کوئی سعد بن ربیع کا حال معلوم کرکے آئے…میں نے ان کے اوپر تلوار چمکتی دیکھی تھیں۔‘‘
اس پر کچھ صحابہ کرام ان کا حال معلوم کرنے کے لیے جانے لگے، اس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اگر تم سعد بن ربیع کو زندہ پاؤ تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ تم سے تمہارا حال پوچھتے ہیں۔‘‘
ایک انصاری مسلمان نے آخر حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو تلاش کر لیا، وہ زخموں سے چور چور تھے، تاہم ابھی جان باقی تھی۔
شہداء احد کی تدفین
ان صحابی نے فوراً حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم تمہارا حال پوچھتے ہیں۔زندوں میں ہو یا مردوں میں ہو؟‘‘
حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا:
میں اب مردوں میں ہوں۔ میرے جسم پر نیزوں کے بارہ زخم لگے ہیں، میں اس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ مجھ میں سکت باقی تھی۔ اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ ابن ربیع آپ کے لئے عرض کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے وہی بہترین جزا عطا فرمائے جو ایک امت کی طرف سے اس کے نبی کو مل سکتی ہے، نیز میری قوم کو بھی میرا سلام پہنچادینا اور ان سے کہنا کہ سعد بن ربیع تم سے کہتا ہے کہ اگر ایسی صورت میں تم نے دشمن کو اللہ کے نبی تک پہنچنے دیا کہ تم میں سے ایک شخص بھی زندہ ہے تو اس جرم کے لئے اللہ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔‘‘
یہ کہنے کے چند لمحے بعد ہی ان کی روح نکل گئی۔ وہ انصاری صحابی اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ سعد پر رحمت فرمائے، اس نے صرف اللہ اور رسول کے لئے زندگی میں بھی اور مرتے وقت بھی (دونوں حالتوں میں) خیر خواہی کی ہے۔‘‘
حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی دو صاحبزادیاں تھیں، ان کی ایک صاحبزادی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ ان سے ملنے کے لئے آئیں۔ آپ نے ان کے لئے چادر بچھادی۔ ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: یہ خاتون کون ہیں؟
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
’’اے خلیفہ رسول وہ کون شخص تھا؟ ‘‘
آپ نے فرمایا:
’’وہ شخص وہ تھا جو سبقت کرکے جنت میں پہنچ گیا، میں اور تم رہ گئے، یہ سعد بن ربیع کی صاحبزادی ہیں۔‘‘
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے۔ اس وقت ایک شخص نے عرض کیا:
’’میں نے انہیں چٹانوں کے قریب دیکھا ہے، وہ اس وقت کہہ رہے تھے، میں اللہ کا شیر ہوں اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔‘‘
اس کے بتانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چٹانوں کی طرف چلے جہاں اس شخص نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا، آخری وادی کے درمیان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا کی لاش نظر آئی۔ حالت یہ تھی کہ ان کا پیٹ چاک تھا اور ناک کان کاٹ ڈالے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ منظر بہت دردناک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس جیسا تکلیف دہ منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا ،پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوب روئے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا آپ حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش پر روئے۔‘‘
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اپنی والدہ کو اس طرف نہ آنے دینا، وہ پیارے چچا کی نعش دیکھنے نہ پائیں۔‘‘
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تھا، وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔حکم سنتے ہی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے راستے پر پہنچ گئے۔اس طرف سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا چلی آرہی تھیں، وہ انہیں دیکھتے ہی بولے:
’’ماں! آپ واپس چلی جائیں۔‘‘
اس پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بیٹے کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:
’’کیوں چلی جاؤں؟…مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کی لاش کا مثلہ کیا گیا ہے، مگر یہ سب خدا کی راہ میں ہوا ہے، میں انشاء اللہ صبر کا دامن نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
ان کا جواب سن کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کا جواب آپ کو بتایا، تب آپ نے فرمایا:
’’اچھا! انہیں آنے دو۔‘‘
چنانچہ انہوں نے آکر بھائی کی لاش کو دیکھا:
’’اناللہ واناالیہ راجعون‘‘ پڑھا اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’حمزہ کے لیے کفن کا انتظام کرو۔‘‘
ایک انصاری صحابی آگے بڑھے۔انہوں نے اپنی چادر ان پر ڈال دی۔پھر ایک صحابی آگے بڑھے، انہوں نے بھی اپنی چادر ان پر ڈال دی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’جابر! ان میں سے ایک چادر تمہارے والد کے لیے اور دوسری چادر میرے چچا کے لیے ہوگی۔‘‘
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو بھی کفن کے لیے صرف ایک چادر ملی، وہ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے، پاؤں ڈھانکتے تو سر کھل جاتا تھا…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پیروں پر گھاس ڈال دو۔‘‘
یہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ وہ تھے جو اسلام لانے سے پہلے قیمتی لباس پہنتے تھے، ان کا لباس خوشبوؤں سے مہکا کرتا تھا۔آج ان کی میت کے لیے پورا کفن بھی میسر نہیں تھا۔
باقی شہداء کو اسی طرح کفن دیا گیا،ایک ایک چادر میں دو دو تین تین لاشوں کو لپیٹ کر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء پر نماز جنازہ ادا فرمائی۔
غزوہ احد کے شہداء میں حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ بھی تھے۔انہوں نے ایک دن پہلے دعا کی تھی:
’’اے اللہ! کل کسی بہت طاقتور آدمی سے میرا مقابلہ ہو جو مجھے قتل کرے، پھر میری لاش کا مثلہ کرے…پھر میں قیامت میں تیرے سامنے حاضر ہوں تو تو مجھ سے پوچھے: اے عبداللہ! تیری ناک اور کان کس وجہ سے کاٹے گئے؟ تو میں کہوں گا کہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت کی وجہ سے اور اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں، تو نے سچ کہا۔‘‘
چنانچہ یہ اس لڑائی میں شہید ہوئے اور ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا، لڑائی کے دوران ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی۔تب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔وہ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی تلوار بن گئی اور یہ اسی سے لڑے۔
اس جنگ میں حضرت جابر کے والد عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے تھے۔ان کے چہرے پر زخم آیا تھا۔اس زخم کی وجہ سے جب ان کا آخری وقت آیا تو ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا۔جب ان کی لاش اٹھائی گئی اور ہاتھ کو زخم پر سے اٹھایا گیا تو زخم سے خون جاری ہوگیا۔اس پر ان کے ہاتھ کو پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔جونہی ہاتھ رکھا گیا، خون بند ہوگیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہما کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔کافی مدت بعد احد کے میدان میں سیلاب آگیا، اس سے وہ قبر کھل گئی…لوگوں نے دیکھا کہ ان دونوں لاشوں میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا…بالکل تروتازہ تھیں…یوں لگتا تھا جیسے ابھی کل ہی دفن کی گئی ہوں، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اسی طرح اس زخم پر تھا…کسی نے ان کا ہاتھ ہٹادیا…ہاتھ ہٹاتے ہی خون جاری ہوگیا، چنانچہ پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں میدان احد سے ایک نہر کھدوائی، یہ نہر شہداء کی قبروں کے درمیان سے نکالی گئی، اس لیے انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے اپنے مردوں کو ان قبروں سے نکال کر دوسری جگہ دفن کردیں…لوگ روتے ہوئے وہاں پہنچے، انہوں نے قبروں میں سے لاشوں کو نکالا تو تمام شہداء کی لاشیں بالکل تروتازہ تھیں، نرم، ملائم تھیں۔ان کے تمام جوڑ نرم تھے۔اور یہ واقعہ غزوہ احد کے چالیس سال بعد کا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش نکالنے کے لیے ان کی قبر کھودی جارہی تھی تو ان کے پاؤں میں کدال لگ گئی۔
شہداء کا مرتبہ
کدال کا لگنا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے خون جاری ہوگیا۔گویا ان کا جسم اس طرح تروتازہ تھا جیسے کسی زندہ انسان کا ہوتا ہے، یہاں تک کہ خون بھی خشک نہیں ہوا تھا اور خون شریانوں میں اس طرح جاری تھا کہ ذرا سی کدال لگتے ہی پیر سے جاری ہوگیا۔دوسری یہ بات سامنے آئی کہ ان لاشوں سے مشک جیسی مہک آ رہی تھی…یہ واقعہ غزوہ احد کے تقریباً پچاس سال بعد کا ہے، جب کہ مدینہ منورہ کی مٹی اس قدر شور(نمکیات والی)ہے کہ پہلی ہی رات لاش میں تبدیلی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔معلوم ہوا، جس طرح زمین انبیاء کے جسموں میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی، اسی طرح شہداء کے جسم بھی سلامت رہتے ہیں۔
اسی طرح حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی ربیع رضی اللہ عنہ کو ایک قبر میں دفن کیا گیا، یہ ان کے چچازاد بھائی تھے۔بعض لوگ اپنے شہداء کو احد سے مدینہ منورہ لے گئے تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ انہیں واپس لایا جائے اور میدان احد ہی میں دفن کیا جائے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے شہداء کے بارے میں فرمایا:
’’میں ان سب کا گواہ ہوں…جو زخم بھی کسی کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں لگا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس زخم کو دوبارہ اسی حالت میں پیدا فرمائیں گے کہ اس کا رنگ خون کے رنگ کا سا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔‘‘
غزوہ احد میں شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے جابر! کیا میں تمہیں ایک بات نہ بتادوں؟…اور وہ یہ کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کسی شہید سے کلام فرماتا ہے تو پردوں میں سے کلام فرماتا ہے لیکن اس ذات حق نے تمہارے باپ سے روبرو کلام فرمایا اور فرمایا، مجھ سے مانگو، میں عطا کروں گا۔انہوں نے کہا:
’’اے باری تعالیٰ! مجھے پھر دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ وہاں پہنچ کر میں ایک بار پھر تیری راہ میں قتل ہوسکوں۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’یہ میری عادت کے خلاف ہے کہ مردوں کو دوبارہ دنیا میں لوٹاؤں۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’پروردگار! جو لوگ میرے پیچھے دنیا میں باقی ہیں، ان تک یہ بات پہنچادے کہ یہاں شہداء کو کیسے کیسے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
ترجمہ: ’’اور اے مخاطب! جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مقرب ہیں۔انہیں رزق بھی ملتا ہیں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی دینار کی ایک عورت کے پاس پہنچے۔اس عورت کا شوہر، باپ،اور بھائی اس غزوہ میں شہید ہوئے تھے، ایک روایت کے مطابق ان کا بیٹا بھی شہید ہوا تھا…جب لوگوں نے انہیں یہ خبر سنائی تو انہوں نے فوراً پوچھا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہیں؟ ‘‘لوگوں نے بتایا:
’’اللہ کا شکر ہے…آپ بخیر و عافیت سے ہیں۔‘‘
اس پر عورت نے کہا:
’’میں آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔‘‘
پھر جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے دیکھ لیا تو بولیں:
’’آپ خیریت سے ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے۔‘‘ یعنی اب کسی غم کی کوئی اہمیت نہیں۔
غزوہ احد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں زخم آگیا تھا…یہاں تک کہ آنکھ ڈیلے سے باہر نکل کر لٹک گئی تھی۔لوگوں نے اسے کاٹ ڈالنا چاہا، اور اس بارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کاٹو نہیں۔‘‘
پھر انہیں اپنے پاس بلایا اور ان کی آنکھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر ہتھیلی سے اس کی جگہ پر رکھ دی۔پھر یہ دعا پڑھی:
’’اے اللہ! ان کی آنکھ کو ان کے حسن اور خوبصورتی کا ذریعہ بنادے۔‘‘
چنانچہ یہ دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی…حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کو کبھی آنکھ کی تکلیف ہوتی تو دوسری میں ہوتی، اس آنکھ پر اس تکلیف کا کوئی اثر نہ ہوتا۔
ایک اور صحابی کی گردن میں ایک تیر آکر پیوست ہوگیا…وہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا۔زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔
غزوہ احد میں اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔جنگ کے دوران ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑلیا، جب وہ بھی کٹ گیا تو دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے جھنڈے کو تھام لیا، اس وقت وہ یہ آیت تلاوت کررہے تھے:
ترجمہ:’’اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہی تو ہیں، اس سے پہلے اور بھی بہت رسول گزرچکے۔‘‘(سورۃ آل عمران: آیت 144)
جب انہوں نے جنگ کے دوران کسی کو یہ کہتے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے گئے تو خود بخود ان کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوگئے۔
اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔
غرض جنگ ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کردینے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی طرف روانہ ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گھوڑے پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت شہداء اور ان کے عزیزوں کے لیے یہ دعا فرمائی:
’’اے اللہ! ان کے دلوں سے رنج اور غم کو مٹادے، ان کی مصیبتوں کو دور فرمادے اور شہیدوں کے جانشینوں کو ان کا بہترین جانشین بنادے۔‘‘
مدینہ پہنچنے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار خون آلود دیکھ کر فرمایا:
’’اگر تم نے جنگ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو فلاں فلاں نے بھی خوب جہاد کیا ہے۔‘‘
غزوہ احد میں 70 کے قریب مسلمان شہید ہوئے۔مرنے والے مشرکوں کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے، جب اللہ کے رسول مدینہ منورہ پہنچے تو مسلمانوں کی شکست پر منافقوں اور یہودیوں کی زبانیں کھل گئیں۔وہ کھلے عام مسلمانوں کو برا کہنے لگے، خوشی سے بغلیں بجانے لگے۔ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات بھی کہے، مثلا وہ کہتے پھرتے تھے:
’’محمد صرف حکومت کرنے کے شوقین ہیں۔آج تک کسی نبی نے اس طرح نقصان نہیں اٹھایا جس طرح انہوں نے اٹھایا ہے، خود بھی زخمی ہوئے اور اپنے اتنے ساتھیوں کو بھی مروایا ہے۔‘‘(معاذاللہ)
کبھی کہتے:
’’تمہارے جو ساتھی مارے گئے، اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے تو اس طرح اپنی جانیں نہ گنواتے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک ان کی یہ باتیں پہنچیں تو انہیں بہت غصہ آیا۔انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں ان لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دیں۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’کیا یہ لوگ یعنی منافقین ظاہر میں مسلمان نہیں ہیں۔کیا یہ کلمہ نہیں پڑھتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ہوں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’بے شک کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ ایسا تلوار کے خوف سے کرتے ہیں، اب ان کی حقیقت ظاہر ہوچکی ہے، ان دلوں میں جو کینہ اور فساد ہے وہ سامنے آگیا ہے۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اسلام کا اعلان کرے، چاہے ظاہری طور پر ہی کرے، مجھے اس کے قتل کی ممانعت کردی گئی۔‘‘
غزوہ احد کے دوسرے ہی روز، صبح سویرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد مدینہ منورہ میں یہ اعلان کررہا تھا:
’’مسلمانو! قریش کا تعاقب کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔‘‘
غزوہ حمراء الاسد اور کفّار کی پسپائی
یہ اعلان قریش کو ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ انھیں معلوم ہوجائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کے تعاقُّب میں تشریف لارہے ہیں ۔ اور ساتھ میں انھیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں میں ابھی بھی طاقت موجود ہے۔ اُحد کی شکست کی وجہ سے وہ کمزور نہیں ہوگئے ۔
اس طرح تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ روانہ ہوئے ۔سب لوگ زخمی تھے لیکن کسی نے بھی اپنے زخموں کی پرواہ نہ کی…جبکہ حالت یہ تھی کہ بنو سلمہ کے چالیس آدمی زخمی ہوئے تھے ۔ خود اللہ کے رسول بھی زخمی تھے ۔ اور اسی حالت میں صحابہ کو لیکر روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زخموں کی صورت یہ تھی کہ چہرہ مبارک زرہ کے گڑجانے کی وجہ سے زخمی تھا ۔ چہرہ مبارک پر پتھر کا ایک زخم بھی تھا ۔ نچلا ہونٹ اندر کی طرف سے زخمی تھا ۔ ایک روایت میں اوپر کا ہونٹ زخمی ہونے کا ذکر بھی موجود ہے ۔ ان زخموں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دایاں کندھا بھی زخمی تھا ۔ اس کندھے پر ابن قمیہ نے اس وقت وار کیا تھا جب آپ گڑھے میں گرے تھے۔ گڑھے میں گِر جانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں گھٹنے بھی زخمی تھے ۔ ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’طلحہ تمہارے ہتھیار کہاں ہے؟ ‘‘
انھوں نے فرمایا:
’’ یہیں ہیں اللہ کے رسول! ‘‘
یہ کہہ کر وہ گئے اور ہتھیار پہن کر آگئے حالانکہ ان کے صرف سینے پر نو زخم تھے جبکہ پورے جسم پر ستّر زخم تھے…اللہ اکبر ۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا لشکر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ حمراء الاسد کے مقام پر ٹھہرا ۔ یہ جگہ مدینہ منوّرہ سے تقریباً 12 کلومیٹر دور ہے ۔ اس مقام پر مسلمانوں نے تین دِن تک قیام کیا ۔ ہر رات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پڑاو میں جگہ جگہ آگ روشن کرتے رہے تاکہ دشمن کو دور سے روشنیاں نظر آتی رہیں ۔ اس تدبیر سے دشمن نے خیال کیا کہ مسلمان بڑی تعداد کے ساتھ آئے ہیں ۔ چنانچہ ان پر رعب پڑ گیا۔
اس مہم کو غزوہ حمراء الاسد کہا جاتا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس غزوے میں مسلمانوں کے پاس کھانے کے لیے صرف کھجوریں تھیں یا صرف اونٹ ذبح کیے جاتے تھے ۔
کفّار نے جب یہ خبر سنی کہ مسلمان تو ایک بار پھر تیاری کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو وہ مکّہ کی طرف لوٹ گئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی مدینہ کوچ فرمایا ۔
حمراء الاسد کے مقام پر مسلمانوں نے ابوعزہ شاعر کو گرفتار کیا ۔ یہ شخص مسلمانوں کے خلاف اشعار کہا کرتا تھا ۔ غزوہ بدر کے موقع پر بھی گِرفتار ہوا تھا ۔ گِرفتار ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لایا گیا تھا تو گِڑ گڑانے لگا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا ۔ لیکن یہ اپنے وعدے سے پھر گیا تھا اور مسلمانوں کے خلاف اشعار کہتا رہا تھا ۔ اس موقع پر یہ پھر گِرفتار ہوا۔ اب پھر اس نے رونا گِڑ گِڑانا شروع کیا…لگا معافی مانگنے…اس نے کہا:
’’اے محمد! مجھے چھوڑدیجئے! مجھ پر احسان کیجیے! میری بیٹیوں کی خاطر رہا کردیجیے میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا ۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ نہیں اب تو مسلمانوں کو دکھ نہیں پہنچا سکے گا ۔‘‘
اس کے بعد اس کو قتل کردیا گیا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا ۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان کی وضاحت علماء نے یہ بھی لکھی ہے کہ مومن کو چاہیے کوئی اسے دھوکہ دے تو اس سے ہوشیار رہے اور پھر اس کے دھوکے میں نہ آئے ۔
اسی سال یعنی ۳ہجری میں شراب حرام ہوئی۔
۴ہجری میں غزوہ بنو نضیر پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بنو نضیر کے محلے میں تشریف لے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کووہاں ایک ضروری معاملے میں بنو نضیر سے بات طے کرنا تھی ۔ یہ یہودیوں کا قبیلہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدہ کر رکھا تھا کہ مسلمانوں کو کسی کا خون بہادینا پڑا تو بنو نضیر بھی اس سلسلہ میں مدد کریں گے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب ان کے محلے میں تشریف لے گئے تو صحابہ کرام کی ایک مختصر جماعت بھی ساتھ تھی ۔ ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی ۔ ان میں حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں پہنچ کر ان سے بات شروع کی تو وہ بولے:
’’ہاں ہاں! کیوں نہیں…ہم ابھی رقم ادا کردیتے ہیں ۔ آپ پہلے کھانا کھالیں۔‘‘
اس طرح وہ بظاہر بہت خوش ہوکر ملے لیکن دراصل وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کی سازش پہلے سے تیار کر چکے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو انھوں نے ایک دیوار کے ساتھ بٹھایا ۔ پھر ان میں سے ایک یہودی اس مکان کی چھت پر چڑھ گیا ۔ وہ چھت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک بڑا سا پتھر گرانا چاہتا تھا ۔ ابھی وہ ایسا کرنے ہی والا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج دیا ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش سے باخبر کردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے وہاں سے اٹھے ۔ انداز ایسا تھا جیسے کوئی بات یاد آگئی ہو…آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر مدینہ منورہ لوٹ آئے ۔
جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی واپسی میں دیر ہوئی توصحابہ کرام حیران ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے ۔ انہیں مدینہ منورہ سے آتا ہوا ایک شخص دکھائی دیا…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا ۔ اس نے بتایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں دیکھ کر آرہا ہے ۔ اب صحابہ رضی اللہ عنہم فوراً مدینہ منورہ پہنچے ۔ تب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سازش کے بارے میں بتایا ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنو نظیر کے پاس بھیجا اور انہیں یہ پیغام دیا:
’’میرے شہر (یعنی مدینہ) سے نکل جاؤ، تم لوگ اب اس شہر میں نہیں رہ سکتے ۔ اس لیے کہ تم نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ غداری تھی ۔‘‘
تمام یہودیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہوں نے کیا سازش کی تھی، اس لیے کہ سب کو اس بارے میں معلوم نہیں تھا ۔ سازش کی تفصیل سن کر یہودی خاموش رہ گئے ۔ کوئی منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکا ۔ پھر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تم دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ، اس مدت کے بعد جو شخص بھی یہاں پایا گیا، اس کی گردن مار دی جائے گی ۔‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سن کر یہودیوں نے وہاں سے کوچ کی تیاریاں شروع کردیں…اونٹوں وغیرہ کا انتظام کرنے لگے، لیکن ایسے میں منافقوں کی طرف سے انہیں پیغام ملا کہ اپنا گھربار اور وطن چھوڑ کر ہرگز کہیں نہ جاؤ، ہم لوگ تمہارے ساتھ ہیں، اگر جنگ کی نوبت آئی تو ہم تمہاری مدد کو آئیں گے اور اگر تم لوگوں کو یہاں سے نکلنا ہی پڑا تو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے ۔‘‘
یہودیوں کو روکنے میں سب سے زیادہ کوشش منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے کی، اس نے یہودیوں کو پیغام بھیجا:
’’ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر مت جاؤ، اپنی حویلیوں میں جمے رہو…میرے ساتھ دو ہزار جانباز ہیں، ان میں میری قوم کے لوگ بھی ہیں اور عرب کے دوسرے قبائل بھی ہیں، وقت آن پڑا تو یہ لوگ تمہاری حویلیوں میں پہنچ جائیں گے اور آخر دم تک لڑیں گے، تم پر آنچ نہیں آنے دیں گے، تم سے پہلے جانیں دیں گے…ہمارے ساتھ قبیلہ بنی قریظہ کے لوگ بھی ہیں اور قبیلہ غطفان کے لوگ بھی…یہ سب تمہاری طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔‘‘
بنی نظیر کو یہ پیغامات ملے تو انہوں نے جلاوطن ہونے کا خیال ترک کردیا…چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا:
’’ہم اپنا وطن چھوڑ کر ہرگز نہیں جائیں گے…آپ کا جو جی چاہے، کرلیں ۔‘‘
یہ پیغام سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ تکبیر بلند کیا، آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا:
’’یہودی جنگ پر آمادہ ہیں لہٰذا جہاد کی تیاری کرو۔‘‘
مسلمانوں نے جہاد کی تیاری شروع کردی، اس وقت یہودیوں کو جنگ پر ابھارنے والا شخص حیی بن اخطب تھا، اسی شخص کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں جو بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور ام المومنین کا اعزاز پایا ۔ حیی بن اخطب بنو نضیر کا سردار تھا، بنو نظیر کے ایک دوسرے سردار سلام بن مشکم نے اسے سمجھانے اور جنگ سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، لیکن حیی بن اخطب منافقوں کی شہہ پر باز نہ آیا اور جنگ پر تلا رہا، اس پر سلام بن مشکم نے اس سے کہا:
’’تم نے میری بات نہیں مانی، اب تم دیکھنا، ہم اپنے وطن سے بے وطن کردیئے جائیں گے، ہماری عزت خاک میں مل جائے گی، ہمارے گھر والے قیدی بنا لیے جائیں گے اور ہمارے نوجوان اس جنگ میں مارے جائیں گے۔‘‘
حیی بن اخطب پر اس کا بھی اثر نہ ہوا۔
آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کے ساتھ بنونظیر کی طرف روانہ ہوئے ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا ۔ جنگی پرچم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اٹھایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسلامی لشکر کے ساتھ آگے بڑھے ۔ شام کے وقت مسلمان بنونظیر کی بستی میں پہنچ گئے اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا ۔ ادھر یہودی اپنی حویلیوں میں بند ہوگئے اور چھتوں پر سے تیر برسانے لگے، پتھر گرانے لگے ۔
وہ دن اسی طرح گزرا ۔ دوسرے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم لکڑی کے ایک قبے(گنبد نما سائبان) میں قیام پذیر ہوئے، جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بنایا تھا ۔
یہودیوں میں سے ایک شخص کا نام غزول تھا، وہ زبردست تیرانداز تھا…اس کا پھینکا ہوا تیر دور تک جاتا تھا۔ اس نے ایک تیر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قبے کی طرف پھینکا ۔ تیر وہاں تک پہنچ گیا ۔ یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے قبے کو ذرا دور منتقل کردیا ۔
رات کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ غائب ہوگئے ۔ یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حیرت ہوئی، انہوں نے آپ سے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! علی نظر نہیں آرہے؟‘‘
آپ نے فرمایا:
’’فکر نہ کرو، وہ ایک کام سے گئے ہیں ۔‘‘
کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غزول کا سر اٹھائے ہوئے آگئے ۔ اب ساری صورتحال کا پتا چلا، جب غزول نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سائبان کی طرف تیر پھینکا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی وقت سے اس کے پیچھے لگ گئے تھے اور آخر اس کا سر کاٹ لائے ۔ اس کے ساتھ دس آدمی اور تھے، وہ غزول کو قتل ہوتے دیکھ کر بھاگ لیے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ دس آدمی اور بھی روانہ فرمائے تھے ۔ ان میں حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ یہ جماعت ان لوگوں کی تلاش میں نکلی…جو غزول کے مارے جانے پر بھاگ نکلے تھے ۔۔آخر اس جماعت نے انہیں جالیا اور سب کو قتل کردیا ۔
بنونظیر کا محاصرہ جاری رہا، یہاں تک کہ چھ راتیں گزر گئیں ۔ اس دوران منافق عبداللہ بن ابی برابر یہودیوں کو پیغامات بھیجتا رہا کہ تم اپنی حویلیوں میں ڈٹے رہو ۔ ہم تمہاری مدد کو آرہے ہیں، لیکن یہودیوں کو اس سے کوئی مدد نہیں پہنچی ۔ اب تو یہود کا سردار حیی بن اخطب بہت پریشان ہوا…کچھ عقل مند یہودیوں نے اسے عبداللہ بن ابی کے مشورے پر عمل نہ کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن حیی بن اخطب نے ان کی بات نہیں مانی تھی ۔ اب انہوں نے طعنے کے طور پر کہا:
’’عبداللہ بن ابی کی وہ مدد کہاں گئی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا…اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے؟‘‘
وہ کوئی جواب نہ دے سکا، یہودی اب بہت پریشان ہوچکے تھے، ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سختی سے ان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، آخر اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردیا، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ انھیں یہاں سے نکل جانے دیا جائے…وہ ہتھیار ساتھ نہیں لے جائیں گے، البتہ اپنا گھریلو سامان لے جائیں گے ۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی، چنانچہ یہودیوں نے اپنے اونٹوں پر اپنی عورتوں اور بچوں کو سوار کرلیا اور اپنا سارا سامان بھی اس پر لاد لیا، یہ کل چھ سو اونٹ تھے، ان اونٹوں پر بہت سا سونا چاندی اور قیمتی سامان تھا ۔
اس طرح بنی نظیر کے یہ یہودی جلاوطن ہوکر خیبر میں جابسے، خیبر کے یہودیوں نے انہیں وہاں آباد ہونے میں مدد دی، کچھ لوگ شام کی طرف بھی چلے گئے ۔
غزوہ بنو نظیر کے بعد غزوہ ذات الرقاع، غزوہ بدر ثانی اور غزوہ دومتہ الجندل پیش آئے…یہ چھوٹے چھوٹے غزوات تھے جو یکے بعد دیگرے پیش آئے ۔ پھر غزوہ بنی مصطلق پیش آیا…قبیلہ بنو مصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار تھا، اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کے لیے ایک لشکر تیار کیا، اس لشکر میں اس کی قوم کے علاوہ دوسرے عرب بھی شامل تھے ۔
اس اطلاع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جنگ کی تیاری کی، اسلامی لشکر 2شعبان 5ہجری کو روانہ ہوا، ادھر جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے ساتھیوں کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ملی تو بہت سے لوگ بدحواس ہوکر حارث کا ساتھ چھوڑ گئے اور ادھر ادھر بھاگ نکلے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے ساتھ اس قبیلے پر حملہ آور ہوئے، مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کے مشرکوں پر حملہ کردیا، یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ان میں سے دس فوراً مارے گئے، باقی گرفتار ہوگئے، ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ۔
ان قیدیوں میں بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برّہ بنت حارث بھی تھیں، مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو برّہ، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگئیں، اب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے برّہ سے طے کیا کہ اگر وہ نو اوقیہ سونا دے دیں تو وہ انہیں آزاد کردیں گے۔
یہ سن کر برّہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں:
’’اے اللہ کے رسول! میں مسلمان ہوچکی ہوں، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہمارے ساتھ جو ہوا، اس کو آپ جانتے ہیں، میں قوم کے سردار کی بیٹی ہوں…ایک سردار کی بیٹی اچانک باندی بنالی گئی…ثابت بن قیس نے آزاد ہونے کے لیے میرے ذمہ جو سونا مقرر کیا ہے وہ میری طاقت سے کہیں زیادہ ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں میری مدد فرمائیں۔‘‘
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ بتادوں؟‘‘
برّہ بولیں:
’’وہ کیا اے اللہ کے رسول۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’تمہاری طرف سے سونا میں دے دیتا ہوں اور میں تم سے نکاح کرلوں ۔‘‘
اس پر برّہ بولیں:
’’اے اللہ کے رسول! میں تیار ہوں۔‘‘
چنانچہ آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو بلایا، برّہ کو ان سے مانگا، وہ بولے:
’’اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! برّہ آپ کی ہوگئی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اتنا سونا ادا کردیا اور برّہ سے شادی کرلی، اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی، ان کا نام برّہ سے جویریہ رکھا گیا، اس طرح وہ امّ المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہوگئیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نہایت خوب صورت خاتون تھیں ۔
بعد میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا باپ حارث ان کا فدیہ لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس فدیے میں بہت سے اونٹ تھے، حارث ابھی راستے میں تھا کہ اس کی نظر ان میں سے دو خوب صورت اونٹوں پر پڑی، اس نے ان دونوں کو وہیں عقیق کی گھاٹی میں چھپادیا اور باقی فدیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کرکے کہا:
’’یہ فدیہ لے لیں اور میری بیٹی کو رہا کردیں ۔‘‘
اس کی بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’اور وہ دو اونٹ کیا ہوئے جنھیں تم عقیق کی گھاٹی میں چھپا آئے ہو؟‘‘
حارث بن ابی ضرار یہ سنتے ہی پکار اٹھا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں…اس بات کا علم میرے اور اللہ کے سوا کسی کو نہیں…اس سے ثابت ہوا، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
اس طرح وہ مسلمان ہوگئے، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن حارث بھی مسلمان ہوگئے، اس کے بعد بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو رہا کردیا گیا، کچھ سے فدیہ لیا گیا، کچھ بغیر فدیے کے چھوڑ دیے گئے ۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’بنی مصطلق پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چڑھائی سے تین دن پہلے میں نے خواب دیکھا کہ یثرب(مدینہ منورہ) سے چاند طلوع ہوا اور چلتے چلتے میری گود میں آرہا، پھر جب ہم قیدی بنالیے گئے تو میں نے خواب کے پورا ہونے کی آرزو کی…جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے نکاح فرمالیا تو مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی ۔‘‘
اس غزوہ سے فارغ ہوکے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو ایک بہت دردناک واقعہ پیش آگیا۔
ادھر کافی تلاش کے بعد میرا ہار مل گیا اور میں لشکر کی طرف روانہ ہوئی، وہاں پہنچی تو لشکر جاچکا تھا، دور دور تک سناٹا تھا، میں جس جگہ ٹھہری ہوئی تھی، وہیں بیٹھ گئی…میں نے سوچا، جب انہیں میری گم شدگی کا پتا چلے گا تو سیدھے یہیں آئیں گے، بیٹھے بیٹھے مجھے نیند نے آلیا ۔
صفوان سلمی رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ کسی کا کوئی سامان رہ جائے یا گر جائے تو اٹھا لیا کریں، اس روز بھی لشکر سے پیچھے تھے، چنانچہ جب یہ اس جگہ پہنچے جہاں قافلہ تھا… تو انہوں نے مجھے دور سے دیکھا اور خیال کیا کہ کوئی آدمی سویا ہوا ہے، نزدیک آئے تو انہوں نے مجھے پہچان لیا، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھا، ان کی آواز سن کر میں جاگ گئی، انہیں دیکھتے ہی میں نے اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’صفوان سلمی حیرت زدہ تھے کہ یہ کیا ہوا، لیکن منہ سے انہوں نے ایک لفظ نہ کہا، نہ میں نے ان سے کوئی بات کی، انہوں نے اپنی اونٹنی کو میرے قریب بٹھادیا، اور صرف اتنا کہا :
’’ ماں! سوار ہوجایئے!‘‘
میں نے اونٹ پر سوار ہوتے وقت کہا:
’’حَسْبِی للہ وَ نِعْمَ الوَکیِْل۔‘‘
(اللہ تعالیٰ کی ذات ہی مجھے کافی ہے اور وہی میرا بہترین سہارا ہے)
پھر میرے سوار ہونے کے بعد انھوں نے اونٹ کو اٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ لشکر میں پہنچ گئے، لشکر اس وقت نخلِ ظہیرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور وہ دوپہر کا وقت تھا، جب ہم لشکر میں پہنچے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو بہتان لگانے کا موقع مل گیا ۔ اس نے کہا:
’’یہ عورت کون ہے جسے صفوان ساتھ لایا ہے؟‘‘
اس کے ساتھی منافق بول اٹھے:
’’یہ عائشہ ہیں…صفوان کے ساتھ آئی ہیں ۔‘‘
اب یہ لوگ لگے باتیں کرنے…پھر جب لشکر مدینہ منورہ پہنچ گیا تو منافق عبداللہ بن اُبی دشمنی کی بنا پر اور اسلام سے اپنی نفرت کی بنیاد پر اس بات کو شہرت دینے لگا ۔
امام بخاری لکھتے ہیں:
’’ جب منافق اس واقعہ کا ذکر کرتے تو عبداللہ بن اُبی بڑھ چڑھ کر ان کی تائید کرتا تاکہ اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملے ۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’مدینہ منورہ آکر میں بیمار ہوگئی…میں ایک ماہ تک بیمار رہی، دوسری طرف منافق اس بات کو پھیلاتے رہے، بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہے، اس طرح یہ باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک اور میرے ماں باپ تک پہنچیں، جب کہ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم ہوسکا تھا…البتہ میں محسوس کرتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے پہلے کی طرح محبت سے پیش نہیں آتے تھے جیسا کہ پہلے بیماری کے دنوں میں میرا خیال رکھتے تھے ۔ (دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھرانے پر منافقین کی الزام تراشی سے سخت غمزدہ تھے۔ اس فکر ورنج کی وجہ سے گھر والوں سے اچھی طرح گھل مل بات کرنے کا موقع بھی نہ ملتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس طرزِ عمل سے میں پریشان رہنے لگی، میری بیماری کم ہوئی تو اُمّ مسطح رضی اللہ عنہا نے مجھے وہ باتیں بتائیں جو لوگوں میں پھیل رہی تھیں، ام مسطح رضی اللہ عنہا نے خود اپنے بیٹے مسطح کو بھی برا بھلا کہا کہ وہ بھی اس بارے میں یہی کچھ کہتا پھرتا ہے…یہ سنتے ہی میرا مرض لوٹ آیا، مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، بخار پھر ہوگیا…گھر آئی تو بری طرح بے چین تھی، تمام رات روتے گزری…آنسو رکتے نہیں تھے، نیند آنکھوں سے دور تھی، صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا:
’’کیا حال ہے؟ ‘‘
تب میں نے عرض کیا:
’’کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر ہو آؤں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اجازت دے دی…دراصل میں چاہتی تھی، اس خبر کے بارے میں والدین سے پوچھوں ۔ جب میں اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی تو میری والدہ (ام رومان رضی اللہ عنہا) مکان کے نچلے حصے میں تھیں…جب کہ والد اوپر والے حصے میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے، والدہ نے مجھے دیکھا تو پوچھا:
’’تم کیسے آئیں؟‘‘
میں نے ان سے پورا قصہ بیان کردیا…اور اپنی والدہ سے کہا:
’’اللہ آپ کو معاف فرمائے، لوگ میرے بارے میں کیا کیا کہہ رہے ہیں، لیکن آپ نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں۔‘‘
اس پر میری والدہ نے کہا:
’’بیٹی! تم فکر نہ کرو! اپنے آپ کو سنبھالو، دنیا کا دستور یہی ہے کہ جب کوئی خوب صورت عورت اپنے خاوند کے دل میں گھر کر لیتی ہے تو اس سے جلنے والے اس کی عیب جوئی شروع کردیتے ہیں ۔‘‘
یہ سن کر میں نے کہا:
’’اللہ کی پناہ! لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں، کیا میرے ابا جان کو بھی ان باتوں کا علم ہے ۔‘‘
انھوں نے جواب دیا:
’’ہاں! انھیں بھی معلوم ہے ۔‘‘
اب تو مارے رنج کے میرا برا حال ہوگیا، میں رونے لگی، میرے رونے کی آواز والد کے کانوں تک پہنچی تو وہ فوراً نیچے اتر آئے، انھوں نے میری والدہ سے پوچھا:
’’اسے کیا ہوا؟‘‘
تو انھوں نے کہا:
’’اس کے بارے میں لوگ جو افواہیں پھیلا رہے ہیں، وہ اس کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں ۔‘‘
اب تو والدہ بھی رونے لگیں، والد بھی رونے لگے، اس رات بھی میں روتی رہی، پوری رات سو نہ سکی، میری والدہ بھی رو رہی تھیں، والد بھی رو رہے تھے…ہمارے ساتھ گھر کے دوسرے لوگ بھی رو رہے تھے، ایسے میں ایک انصاری عورت ملنے کے لیے آگئی…میں نے اسے اندر بلالیا، ہمیں روتے دیکھ کر وہ بھی رونے لگی، یہاں تک کہ ہمارے گھر میں جو بلی تھی…وہ بھی رو رہی تھی…ایسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے…آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کیا اور بیٹھ گئے…جب سے یہ باتیں شروع ہوئی تھیں…آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے پاس بیٹھنا چھوڑ دیا تھا، لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس بیٹھ گئے، ان باتوں کو ایک ماہ ہوچکا تھا…اس دوران آپ پر وحی بھی نازل نہیں ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھنے کے بعد کلمہ شہادت پڑھا اور فرمایا:
’’عائشہ! مجھ تک تمہارے بارے میں ایسی باتیں پہنچی ہیں، اگر تم ان تہمتوں سے بری ہو اور پاک ہو تو اللہ تعالیٰ خود تمہاری برأت فرمادیں گے اور اگرتم اس گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں ۔‘‘
اس پر میں نے اپنے والد اور والدہ سے عرض کیا:
’’جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے، اس کا جواب دیجیے ۔‘‘
جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’میں نہیں جانتا، اللہ کے رسول سے کیا کہوں ۔‘‘
تب میں نے عرض کیا:
’’آپ سب نے یہ باتیں سنی ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان الزامات سے بری ہوں اور میرا اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو کیا اس پر یقین کرلیں گے…لہٰذا میں صبر کروں گی، میں اپنے رنج اور غم کی شکایت اپنے اللہ سے کرتی ہوں ۔
اس کے بعد میں اٹھی اور بستر پر لیٹ گئی، اس وقت میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں آیات نازل فرمائے گا، جن کی تلاوت کی جایا کرے گی، جن کو مسجدوں میں پڑھا جایا کرے گا…البتہ میرا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی خواب دکھادیں گے اور مجھے اس الزام سے بری فرمادیں گے…ابھی ہم لوگ اسی حالت میں تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کے آثار محسوس ہوئے۔
’’میں نے جب آپﷺ پر وحی کے آثار دیکھے تومیں نے کوئی گھبراہٹ محسوس نہیں کی، کیونکہ میں بے گناہ تھی، البتہ میرے والدین پر بے تحاشا خوف طاری تھا۔‘‘
آخر آپﷺ سے وحی کے آثار ختم ہوئے، اس وقت آپﷺ ہنس رہے تھے اور آپﷺ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ دوقطرے موتیوں کی طرح نظر آرہے تھے، اس وقت آپﷺ نے جو پہلا جملہ فرمایا، وہ یہ تھا:
’’عائشہ! اللہ تعالی نے تمہیں بری کردیاہے۔‘‘
اللہ تعالی نے اس موقع پر سورۃ نور کی آیت نازل فرمائی تھیں:
ترجمہ:’’ جن لوگوں نے یہ طوفان برپاکیاہے(یعنی تہمت لگائی ہے)اے مسلمانوں! وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے، تم اس(طوفان)کو برانہ سمجھو، بلکہ یہ انجام کے اعتبار سے تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے، ان میں سے ہر شخص نے جتنا کچھ کہاتھا، اسے اسی کے مطابق گناہ ہوا اور ان میں سے جس نے اس طوفان میں سب سے زیادہ حصہ لیا(عبد اللہ بن ابی)اسے(زیادہ)سخت سزاملے گی۔ جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تھی تو مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں نے اپنے آپس والوں کیساتھ نیک گمان کیوں نہ کیا اور زبان سے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے۔یہ الزام لگانے والے اپنے قول پر چار گواہ کیوں نہ لائے، سو قاعدے کے مطابق یہ لوگ چار گواہ نہیں لائے تو بس اللہ کے نزدیک یہ جھو ٹے ہیں اور اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل نہ ہوتا تو جس کام میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب واقع ہوتا۔جب کہ تم اس جھوٹ کو اپنی زبانوں سے نقل درنقل کر رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کر رہے تھے، جس کی تمہیں کسی دلیل سے قطعاً خبر نہیں تھی اورتم اس کی ہلکی بات(یعنی گناہ واجب نہ کرنے والی)سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات ہے۔ اور تم نے جب(پہلی بار)اس بات کوسناتو یوں کیوں نہ کہا کہ ہمیں زیبا نہیں کہ ایسی بات منہ سے نکا لیں۔معاذاللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر ایسی حرکت مت کرنا، اگر تم ایمان والے ہو۔ اللہ تم سے صاف احکام بیان کرتاہے اور اللہ جاننے والا، بڑاحکمت والاہے۔جولوگ(ان آیات کے نزول کے بعد بھی)چاہتے ہیں کہ بے حیائی کی بات کا مسلمانوں میں چرچاہو، ان کے لئے دنیا وآخرت میں سزادرد ناک مقرر ہے اور(اس بات پر سزاکا تعجب مت کرو،)کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اور اے توبہ کرنے والو! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ کا فضل وکرم ہے(جس نے تمہیں توبہ کی توفیق دی)اور یہ کہ اللہ تعالیٰ بڑا شفیق،بڑارحیم ہے(توتم بھی وعید سے نہ بچتے)(سورہ نور آیات11تا20)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ان آیات کہ نزول سے پہلے میں نے خواب دیکھاتھا، خواب میں ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا، کیابات ہے، آپ کیوں غمگین رہتی ہیں، میں نے اسے بتایاکہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، میں اس کی وجہ سے غمگین ہوں۔تب اس نوجوان نے کہا کہ آپ ان الفاظ میں دعاء کریں:
ترجمہ:’’ اے نعمتوں کی تکمیل کرنے والے اور ائے غموں کو دور کرنے والے، پریشانیوں کو دور کرنے والے، مصیبتوں کے اندھیرے سے نکالنے والے، فیصلوں میں سب سے زیادہ انصاف کرنے والے اور ظالم سے بدلہ لینے والے، اور اے اوّل اور اے آخر! میری اس پریشانی کو دور فرما دے اور میرے لیے گلو خلاصی کی کوئی راہ نکال دے۔‘‘
دعاء سن کر میں نے کہا، بہت اچھا، اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی، میں نے ان الفاظ میں دعاء کی، اس کے بعد میرے لیے برأت کے دروازے کھول دیئے گئے۔
الزام لگانے والوں میں مسطح رضی اللہ عنہ بھی تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی خبر گیری کرتے تھے، انہوں نے ہی ان کی پرورش کی تھی…لیکن یہ بھی الزام لگانے والوں میں شامل ہوگئے،جب اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بری فرما دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے مسطح رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر سے نکال دیا اور ان سے کہا:
’’اللہ کی قسم آئندہ میں کبھی بھی تم پر اپنا مال خرچ نہیں کروں گا،نا تمہارے ساتھ کبھی محبت اورشفقت کابرتاؤ کروں گا۔‘‘
اس پر اللہ تعالی نے سورۃ النور کی یہ آیت نازل فرمائی:
ترجمہ:’’اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی اور (دنیاوی) وسعت والے ہیں،وہ قرابت داروں کو اور مسکینوں کو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دینے کی قسم نہ کھا بیٹھیں، بلکہ چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں،کیا تم یہ بات نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمہارے قصور معاف کردے،بے شک اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔‘‘
اس آیت کے نزول پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کردے؟‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’اللہ کی قسم! میں یقیناًچاہتا ہوں کہ میری مغفرت ہوجائے۔‘‘
پھر وہ مسطح رضی اللہ عنہٗ کے پاس گئے ،ان کا جو وظیفہ بند کر دیا تھا اس کو پھر سے جاری کردیا…نہ صرف جاری کر دیا بلکہ دوگنا کردیا اور کہا:
’’آئندہ میں کبھی مسطح کا خرچ بند نہیں کروں گا۔‘‘
انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ بھی ادا کیا۔
اسی غزوہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار دو مرتبہ گم ہوا تھا،پہلی بار جب ہار گم ہوا تو اس کی تلاش کے سلسلے میں سب لوگ رکے رہے، اسی دوران صبح کی نماز کا وقت ہو گیا،اس وقت مسلمان کسی چشمے کے قریب نہیں تھے،اس لیے پانی کی تنگی تھی،جب لوگوں کو تکلیف ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ڈانٹا، اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر رکھ کر سو رہے تھے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:
’’تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب لوگوں کی منزل کھوٹی کر دی،نہ یہاں لوگوں کی پاس پانی ہے، نہ قریب میں کوئی چشمہ ہے۔‘‘
یہ کہنے کے ساتھ ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیٹی کی کمر پر ٹہوکے بھی مارے،ساتھ ہی وہ کہتے جاتے تھے:
’’لڑکی! تو سفر میں تکلیف کا سبب بن جاتی ہے،لوگوں کے پاس ذرا سا بھی پانی نہیں ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس موقع پر میں اپنے جسم کو حرکت سے روکے رہی، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تھے تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار نہیں کرتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہوتے تھے،کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نیند میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہورہا ہے، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے وقت بیدار ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا تو بتایا گیا کہ پانی نہیں ہے، اس وقت اللہ تعالی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی ۔
اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’بیٹی! جیسا کہ تم خود بھی جانتی ہو، تم واقعی مبارک ہو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:
’’عائشہ! تمہارا ہار کس قدر مبارک ہے ۔‘‘
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اے آلِ ابی بکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ کے ساتھ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دیتے ہیں۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:
’’ہار کی تلاش کے سلسلے میں ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا، جس پر میں سوار تھیں تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔‘‘
مطلب یہ کہ اس واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں کو تیمم کی سہولت عطا ہوئی، اس سے پہلے مسلمانوں کو تیمم کے بارے میں معلوم نہیں تھا ۔
اس واقعہ کے بعد جب آگے سفر ہوا تو منافقین کی سازش کا وہ واقعہ پیش آیا جو آپ نے پیچھے پڑھا ۔
اسی سال چاند کو گرہن لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خسوف پڑھائی یعنی چاند گرہن کی نماز پڑھائی، جبکہ یہودی اس وقت زور زور سے ڈھول بجارہے تھے اور کہہ رہے تھے چاند پر جادو کردیا گیا ہے۔