میں ایک لائبریرین ہوں
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوسکتا ہے اس مضمون کا عنوان پڑھتے ہیں بہت سے لوگوں کے منہ میں پانی بھر آئے اور وہ کہہ اٹھیں:”آ ہاہاہا! کیا مزے کی چیز ہے یہ لائبریرین ہونا بھی!“یعنی کام کاج کچھ نہیں۔سارا دن مزے سے کتابیں ،رسالے اور اخبار پڑھنا اور تنخواہ الگ ملے ۔گویا لائبریرین ہونا یعنی کتب خانے کا دھیان رکھنا تو کوئی کام ہی نہیں۔ مطلب یہ کہ دن بھر میں دس بار ہی کتابیں جاری کر دینا تو کام نہ ہوا نا۔بس پھر دن بھر پڑھتے رہو۔واہ وا!اور پیسے بھی ملیں۔خوب اور نام ملے لائبریرین صاحب!گویا یعنی مطلب یہ کہ وغیرہ وغیرہ۔“
جی ہاں میں ایک لائبریرین ہوں اور لوگوں کے خیال میں بہت مزے اڑا رہا ہوں۔ آئیے میں آپ کو بتاؤں کہ لائبریرین ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔
صبح صبح جب آپ لائبریری پہنچیں گے تو دو تین حضرات لائبریری کے باہر بے چینی سے ٹہل رہے ہوں گے۔ ٹہل کیا رہے ہوں گے بس یوں سمجھ لیجئے کہ آپ کے آنے کا انتظار ہو گا کہ کب لائبریرین صاحب آئیں اور انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ لائبریرین صاحب کا قصور؟
”میں اتنی دیر سے انتظار کر رہا ہوں اور لائبریری ابھی تک نہیں کھلی۔“ اس پر آپ نے گھڑی دکھائیں گے کہ ابھی لائبریری کھلنے کا وقت نہیں ہوا، لیکن وہ سنی ان سنی کر کے لائبریری کا دروازہ کھلتے ہی اندر دوڑ پڑیں گے اور اس سے پہلے کہ چپراسی صفائی کرے یا بتیاں روشن کرے، ان اخبارات پر جھپٹ پڑیں گے جو اخبار والا صبح سویرے دروازے کے نیچے کی درز سے ڈال گیا ہوگا ۔ دراصل ان سے دو منٹ بھی صبر نہیں ہوسکتا ۔ایک تو یہ کہ کوئی ان کا پسندیدہ اخبار ان سے پہلے نہ پڑھ لے ۔دوسرے یہ کہ ان کے اخبار دیر سے پڑھنے سے شاید زمین کی گردش رک جائے گی اور پھر جب چپراسی جھاڑپونچھ شروع کرے گا یا خاکروب جھاڑو لگائے تو بہت خفا ہوں گے کہ گرد اڑ رہی ہے مگر دو منٹ باہر انتظار نہیں کریں گے۔ ایک دن چپراسی نے تنگ آکر کہہ دیا کہ صاحب اگر اتنی ہی تکلیف ہے تو لائبریری نہ آیا کریں۔ بس یہ کہنا غضب ہوگیا۔ اس غریب کی سات پشتوں تک کو کوس ڈالا۔
ایک اور حضرت جو بڑی پابندی سے لائبریری آتے ہیں، سنانے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اخبار میں ہر خبر پڑھ کر اونچی آواز میں سنانا اور پھر اس پر جوش و خروش کے ساتھ تبصرہ کرنا ان کی پرانی بیماری ہے۔ جب انہیں ٹوکا جائے کہ لائبریری میں خاموشی ہونا ضروری ہے تو پلٹ کر بڑے غصے سے کہتے ہیں کہ ابھی آپ بھی تو چپراسی کو ہدایت دے رہے تھے۔ اس سے بھی شور ہوتا ہے۔ پہلے آپ چپ رہیے ۔ اب لائبریرین صاحب کے پاس سر پیٹنے کے سوا کیا چارہ ہے؟
جو لوگ لائبریری سے کتاب اپنے نام جاری کرا کے گھر لے جاتے ہیں ،ان کی دو قسمیں ہیں ۔ایک وہ جو کتابیں واپس نہیں کرتے، دوسرے وہ جو کر دیتے ہیں اور دونوں ہی تکلیف دہ ہیں۔ جو لوگ کتابیں واپس نہیں کرتے وہ عموماً کسی ادیب کا یہ قول سناتے ہیں :” جو شخص کسی کو کتابیں پڑھنے کے لئے دے دیتا ہے، وہ بڑا بے وقوف ہے اور جو کتابیں پڑھنے کے لئے کسی سے لے کر انہیں واپس بھی کر دیتا ہے وہ اس سے بھی بڑا بے وقوف ہے۔“ اور وہ اپنے آپ کو بڑا بیوقوف ثابت کرنا نہیں چاہتے، اس لئے لائبریرین صاحب کو بیوقوف بنا کر چلتے بنتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بے چارے لائبریرین صاحب ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے پیسے کٹوا کر کتابوں کا نقصان پورا کرتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ جو کتابیں واپس کر دیتے ہیں، اپنی دانست میں لائبریری اور لائبریرین پر بڑا احسان کرتے ہیں ،لیکن کتابوں کا جو حشر وہ کرکے لاتے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ حضرت کتابوں کو گھر لے جا کریا توپانی کے مٹکے میں ڈال دیتے ہیں یا کوڑے کے ڈبے میں رکھتے ہیں۔ کتاب جب واپس آتی ہے تو اس کی جلد دور ہی سے رو رو کر کہہ رہی ہوتی ہے:” مجھے بے دردی سے نوچاگیا۔ منے میاں مجھ پر اپنی ڈرائنگ کی مشق کرتے رہے ہیں۔ اس ظالم کے ہاتھ میں آئندہ کبھی کوئی کتاب نہ دینا ۔“کتاب کے صفحات الگ فریاد کر رہے ہوتے ہیں کہ پورے مہینے کے سودے کا حساب ہمیں پر کیا گیا ہے۔ پان کھا کر انگلیاں ہم ہی پر صاف کی گئی ہیں۔ اور ایک آدھ صفحہ بطور نمونہ پھاڑ کر الگ بھی رکھ لیا گیا ہے۔ سرورق دیکھ کر لگتا ہے کہ اس پر گھی کا کوئی برتن انڈیلا نہیں تو رکھا ضرور گیا ہے۔ گویا وہ شخص اس قابل نہیں کہ اس کے ہاتھ میں کوئی کتاب دی جائے ،لیکن کیا کیا جائے صاحب! اب میں ایک لائبریرین ہوں اور کتابیں جاری کرنا ہی میرا کام ہے۔
کچھ مہربان ایسے بھی ہیں جو لائبریری میں آکر ایک کونے سے کتابیں دیکھنا شروع کرتے ہیں اور آخرتک ا نہیں کھدیڑتے چلے جاتے ہیں ۔ کتاب اٹھائی، نام پڑھا یا نام بھی پتا نہیں پڑھایا نہیں اور جہاں دل چاہا کتاب واپس رکھ دی۔ ان کے جانے کے بعد کتب خانے کا عالم یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کی کتابیں شاعری کے خانے میں رکھی ہوتی ہیں۔ ناول اسلامیات سے گلے مل رہے ہوتے ہیں ۔فلسفہ طنزومزاح کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے اور تاریخ اور جغرافیہ ایک ہوچکے ہوتے ہیں ۔ یہی حضرت جب اگلے دن یہی حرکت کرنے دوبارہ تشریف لائیں گے تو وقفے وقفے سے کچھ اسی قسم کی چنگھاڑیں سنائی دیں گی:” بھئی یہ کیا مذاق ہے؟ دیوان غالب کو معاشیات کی کتابوں میں کس احمق نے ڈال دیا؟ یہ اردو لغت کس پاگل نے انگریزی ادب میں گھسا دی ہے ؟ فارسی شاعری کو سائنس کی کتابوں میں کوئی جاہل ہی رک سکتا ہے۔“ اور یہ سارے خطابات دراصل خود ہی کو دے رہے ہوتے ہیں۔
اسی طرح کچھ لوگ کتابوں کے حاشیوں اور خالی صفحات پر اپنی رائے اور قیمتی خیالات سے قوم کو آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ مثلا ًایک اچھے خاصے معقول حضرت جب ایک کتاب واپس کرنے آئے تو اس کے اندر ایک جگہ قلم سے لکھا تھا:” ملک کی خدمت کرو ۔“جب یہ کتاب ایک اور صاحب نے جاری کرائی تو واپسی پر اس فقرے کے نیچے لکھا تھا:” تم نے کر لی ہے؟“
ایک صاحب نے ایک کتاب کے خالی صفحے پر لکھا:” میں کیا کروں، کیاکروں، کہاں جاؤں؟“
جواب میں کسی نے انہیں ایک انمول مشورہ اسی کے نیچے بالکل مفت دیا جو یہ تھا:
” ایک کام تو یہ کرو کہ لائبریری کی کتابوں پر لکھنا چھوڑ دو۔ یہ بہت گھٹیا حرکت ہے۔“
ملاحظہ فرمایا آپ نے اس گھٹیا حرکت کے جواب میں خود انہوں نے وہی گھٹیا حرکت کر ڈالی تھی۔
ایک صاحب نے لائبریری سے ایک کتاب جاری کرائی:” بچوں کی پرورش۔“ جب وہ کتاب واپس آئی تو اس کے اندر انہوں نے لکھا تھا: ”میں ابھی کنوارا ہوں۔“ اور بیوی کے ہاتھوں ستائے ہوئے کسی شخص نے وہ کتاب واپس کی تو اس میں ایک جملے کا اضافہ ہو چکا تھا جو یہ تھا: ”شکر کرو کہ کنوارے ہو اور ابھی تک بچے ہوئے ہو۔ ہمارے حال سے عبرت پکڑو۔“
جب لائبریری کی کتابوں کا یہ حال دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ لیکن کیا کروں صاحب میرا تو کام ہی کتابیں لوگوں کو دینا ہے۔ میں ایک لائبریرین جو ٹھہرا۔