skip to Main Content

مزیدار کیک

حماد ظہیر

………………

ہم کوئی بے وقوف نہ تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ فوزی آپی بھی آخر ہماری ہی آپی تھیں۔ وہ ہماری چالوں کو اس وقت ناکام بنا دیا کرتیں جب وہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہوتیں۔
پے در پے کئی شکست فاش کھا چکنے کے باوجود ہمارا پیٹ نہ بھرا تھااور ہم کسی ایسی سازش کا منصوبہ بنا رہے تھے جو ہمارے اگلے پچھلے تمام حساب بے باق کر دے۔
سوچتے سوچتے ایک کہانی یاد آئی جس میں مصنف نے کھانے میں صابن ملا دیا تھا اور پکانے والے کی خوب سبکی کرائی تھی۔ بعد میں کھانے والوں کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ بولتے تو منہ سے بلبلے جھڑتے۔ کسی صاحب نے چھینک ماری تواگلے رونے لگے ان کی آنکھوں میں صابن جو چلا گیا تھا۔ خالہ خیرن جن کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی اور کپڑے کاٹنے کیلئے استعمال ہوتی تھی، اب کپڑے دھونے کیلئے استعمال ہونے لگی۔ کامو نوکر کے دانت اس بہانے صاف ہو گئے۔ صابن کے زہریلے کیمیکل سے گڈو کے پیٹ کے سارے کیڑے مر گئے۔ گڈو کی صحت پر البتہ کچھ فرق نہ پڑا۔
کہانی بے تکی ضرور تھی مگر بے وقوفانہ نہیں۔ ہم نے آئیڈیے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ضروری تبدیلیوں کے بعد فوزی آپی پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔
انتظار کرنا بڑا کوفت کا کام ہوتا ہے لیکن اس کا اختتام اتنی ہی خوشیوں کا باعث بھی بنتا ہے۔ آخر کار ایک موقع خود ہی اچھلتا کودتا ہماری گود میں آگرا۔
ابو جان نے کہا ’’فوزیہ بیٹے! آج میرے ایک پرانے دوست آرہے ہیں، تم شام کیلئے کوئی اچھی سی چیز بنا لینا!‘‘
ان دنوں ہمارے گھر نیا نیا اوون آیا تھا اور فوزی آپی کے سر پر کیک بنانے کا جنون سوار تھا۔ تین ہفتوں کے اندر وہ گزشتہ دس سالگرہ منا چکی تھیں۔
انہوں نے جھٹ پٹ کیک بنانے کا فیصلہ کیا اور سرپٹ ہمیں بازار کی طرف سامان لینے دوڑا دیا۔
منصوبہ بندی ہم پہلے ہی کر چکے تھے۔ جب کیک بننا شروع ہوا تو ہم گھات لگا کر بیٹھ گئے اور فوزی آپی کے کھسکتے ہی کارروائی کر ڈالی۔ چلی ساس، سویا ساس، سرکہ اور وہ سب کچھ بھی ہم ڈالتے چلے گئے جن کا ہمیں نام تک نہیں پتا تھا۔ بس اس بات کا خیال رکھا کہ اس احمق مصنف کی طرح صابن نہیں ملایا تاکہ کسی جانی نقصان کا خدشہ نہ رہے۔
بعد میں فوزی آپی کی خوب مدح سرائی بھی کی کہ کیا مزیدار کیک بناتی ہیں، تاکہ انہیں چاپلوسی کی عینک لگا جائے اور وہ کوئی فرق نہ بھانپ سکیں۔

*۔۔۔*

شام کو چہل قدمی کیلئے گیٹ سے باہر صرف ناک ہی نکالنے پائے تھے کہ ایک نعرہ سنا۔
’’ارے ۔۔۔ تم یہاں رہتے ہو!‘‘ ہم نے اپنے کان جھٹکے کہ کیا اسکول کا بھوت یہاں بھی سوار ہو گیا کہ کان بج بھی رہے ہیں تو کلاس ٹیچر کی آواز سے ۔ 
’’خدا کا شکر ہے کہ کوئی تو جان پہچان والا نظر آیا۔‘‘ ہم نے دیکھا کہ وہ حقیقتاً ہمارے کلاس ٹیچر تھے۔ یہاں نہ جانے کیسے ٹپک پڑے تھے۔
ہم نے انہیں سلام اور خدا حافظ ایک ہی جملے میں کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی چپک ہی گئے۔
’’ بھئی کب سے اس علاقے میں بھٹک رہا ہوں، کم از کم پانی تو پلا دو!‘‘
’’ جج جی جی! ‘‘ ہم گھبرا کر بولے اور پانی لینے کو دوڑے۔ ہم انہیں جلد سے جلد رخصت کرنا چاہتے تھے تاکہ کہیں ابوجان سے ان کا ٹکراؤ نہ ہوجائے۔
اب دیکھا تو وہ بھی پیچھے پیچھے چلے آرہے ہیں۔ شاید وہ اس علاقے میں کافی دیر سے بھٹک رہے تھے اور اب بیٹھنا چاہتے تھے ۔ چارونا چار ہم نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور پانی کے بجائے ’’چائے پانی‘‘ کا انتظام کرایا تاکہ ہمارے نمبر بڑھیں۔
ذرا ہی دیر میں فوزی آپی نے چائے کی ٹرالی دروازے سے اندر دھکیل دی۔ ہم خوشی خوشی اٹھے کہ اسے کلاس ٹیچر کی خدمت میں پیش کریں مگر جب ہماری نظر اس میں رکھے ہوئے کیک کے ٹکروں پر پڑی تو سرپیٹ لیا۔
’’ یہ کس نے کہا تھا دینے کو۔‘‘ ہم آہستہ آواز میں مگر غصہ سے بولے اور کیک کی پلیٹ اٹھا کر واپس اندر دینی چاہی۔
’’ پاگل ہو گئے ہو کیا۔ اپنے کلاس ٹیچر کو خالی چائے پلاؤ گے۔‘‘ فوزی آپی بھی بھنائیں۔
’’ مم مطلب یہ کہ کہیں کم نہ پڑ جائے، ابو کے دوست کیلئے۔‘‘ ہم نے بہانہ تراشا۔
’’ کوئی کم وم نہیں پڑے گا، بہت ہے۔‘‘
اب صورتحال یہ تھی کہ دروازے کے بیچوں بیچ چائے کی ٹرالی تھی۔ ایک طرف ہم تو اندر کی طرف فوزی آپی اور ایک پلیٹ پر جھگڑا۔ ہم اسے اندر کی طرف بڑھاتے تو وہ باہر کی طرف دھکیلتیں۔
’’ لے لیں نا!‘‘ ہم روہانسے ہو گئے۔ مگر فوزی آپی جا چکی تھیں۔ دوسری طرف ہمارے کلاس ٹیچر ہمیں خونخوار نظروں سے گھور رہے تھے۔ اگر ابھی تک ہم دس نمبر بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہوں گے تو اس کھٹر پٹر کے بعد پچاس کم ہو گئے تھے۔
’’ یہ کیک دراصل ہماری بہن نے بنایا ہے۔ اسے کیک تو کیا روٹی پکانی نہیں آتی، اوّل تو یہ کیک بے حد بدمزہ ہے اور اگر آپ نے کھا بھی لیا تو ضرور بدہضمی ہوجائے گی!‘‘ ہم کھسیانے ہو کر بولے لیکن ہمارا جھوٹ ایک قدم نہ چلا۔
’’ بھئی میں چکھ کر تو ضرور دیکھوں گا، اب تو اسے دیکھ کر اور دل چاہ رہا ہے کھانے کا۔‘‘ سر نے کہا اور کیک کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
ہم نے انتہائی پھرتی سے پلیٹ اچک لی۔ وہ ہماری اس بدتمیزی پر کھول اٹھے۔ اسکول میں ہوتے تو خیر نہیں تھی۔ 
’’ ہم بس ابھی آئے!‘‘ ہم نے کیک اندر رکھا اور روتے دھوتے فوزی آپی کے پاس پہنچے۔ اقبال جرم کرنا شاید دنیا کا مشکل ترین کام ہے، لیکن اگر ہم اس وقت نہ کرتے تو ہمیشہ کیلئے اسی کلاس میں رہ جاتے۔
فوزی آپی نے اس وقت چیخنا چلانا مناسب نہ سمجھا۔ بولیں ’’تو اب میں کیا کروں؟‘‘
’’ کچھ پیسے دے دیں تاکہ بازار سے نیا کیک آسکے ۔ 
آخر ابو کے مہمان کو تو دینا ہو گا۔‘‘ ہمیں پتا تھا کہ فوزی آپی پاکٹ منی سے کچھ نہ کچھ بچت کرکے جمع کرتی رہتی ہیں۔
کچھ دیر تو وہ خاموش کھڑی رہیں۔ ہم نے سمجھ لیا کہ ان کا انکار ہمارے مستقبل کو تاریک کر دے گا۔ گھر میں بھی اور اسکول میں بھی۔ انہوں نے کچھ پیسے نکالے اور خاموشی سے ہمارے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
وہ اگر دو ایک جلے کٹے جملے کہہ دیتیں تو شاید ہماری شرمندگی کچھ کم ہوجاتی، لیکن اس خاموشی نے تو ہمیں پانی پانی کر دیا۔

*۔۔۔*

رات کے وقت ہمیں ابوجان کی تیز تیز لہجہ میں آواز سنائی دی۔ ہم نے باہر لاؤنج میں پہنچ کر دیکھا تو ابوجان برہم تھے۔ امی جان اور فوزی آپی سے کہہ رہے تھے۔ 
’’ مہمان کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہیے؟‘‘ وہ بھی میرا اتنا اہم مہمان۔ اس بے چارے کا حشر کتنا برا ہوا۔ میں اس کو اس کے گھر نہیں بلکہ پہلے ہسپتال لے کر گیا تھا۔‘‘
ابو کچھ دیر کیلئے ٹھہرے تو ہمیں اندازہ ہوا گیا کہ معاملہ یقیناًہمارے والے کیک کا تھا۔
’’ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ اس کو اتنی لاپرواہی سے کیوں بنایا گیا؟‘‘
ہماری روح فنا ہو گئی۔ کیک لاپرواہی سے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ اس میں ہماری دانستہ غلطی شامل تھی اور اب تو ہم اس کا خود ہی فوزی آپی کے سامنے اقرار بھی کر چکے تھے۔
ہم ویسے تو آڑ میں تھے لیکن درحقیقت بھاڑ میں۔ ہماری ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ہم پورے کے پورے پسینے میں ڈوبے تھے۔ صرف فوزی آپی کو سارا مدعا سنانا تھا اور وہ بری الذمہ ہوجاتیں۔ 
وہ بولیں:’’ کیک تو صحیح بنا تھا مگر۔۔۔‘‘
ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور ہم نے بے ہوشی کی طرف سفر شروع کر دیا۔
’’مگر بن چکھنے کے بعد مجھ سے غلطی سے دوسری ڈش اس پر الٹ گئی۔‘‘ فوزی آپی ندامت سے بولیں۔
’’ کیا دوسری ڈش الٹ گئی۔ پھر یہ مہمان کو پیش کیوں کیا گیا؟ ‘‘ ابوجان دھاڑے۔
’’ میں نے تو اسے الگ رکھ کر بازار سے دوسرا منگوا لیا تھا۔ امی جان نے لاعلمی میں اسے بھجوادیا۔‘‘
ہمیں اصل مسئلہ بھی سمجھ آگیا اور یہ بھی سمجھ آگیا کہ ہماری جان فوزی آپی کے الزام خود پر لینے سے چھوٹی ہے۔ 
سمجھ نہ آئی تو بس یہ بات کہ فوزی آپی بھی آخر ہماری ہی آپی ہیں اور ان سے جیتنا آسان بات نہیں۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top