مذاق کی بو
عظمیٰ ابو نصر صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سب سلمان سے دور کیوں بھاگ رہے تھے؟‘‘جانیے اس دلچسپ کہانی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’روحی! چوہا۔۔۔ چوہا۔۔۔ تمھاری قمیص پر۔‘‘ سلمان بچوں کا رسالہ پڑھتی روحی کی طرف دیکھ کر چلایا۔
’’کہاں۔۔۔ کہاں ہے؟‘‘ روحی نے ایک دَم صوفے سے کھڑے ہونے کی کوشش کی ۔ رسالہ بھی ہاتھ سے چھوٹا اور وہ جو آلتی پالتی مارے صوفے پر مزے سے رسالہ پڑھ رہی تھی اپنی ہی فراک میں پیر اُلجھنے کی وجہ سے منھ کے بل نیچے جا گری۔
’’ہا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔‘‘ سلمان نے جلدی سے رسالہ اُٹھایا اور ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ یہ رہا۔‘‘
روحی جس کے منھ پر زور سے چوٹ لگی تھی۔ پہلے ہی منھ بسور رہی تھی اور اب اپنا پیارا رسالہ چھن جانے پر زور زور سے رونے لگی۔
’’امی۔۔۔ امی۔۔۔‘‘ بھائی نے جھوٹ بول کر میرا رسالہ لے لیا۔
امی جو اس وقت باورچی خانے میں روٹی پکا رہی تھیں، اس کی مدد تو نہیں آ سکیں اور روحی مزید منھ کھول کر رونے لگی۔
سلمان تیسری جماعت میں پڑھتا تھا اس سے چھوٹے دو بہن بھائی اور تھے جو پہلی اور دوسری جماعت میں پڑھتے تھے۔۔۔ مگر سلمان کو آج کل پتا نہیں کیا ہو گیا تھا وہ بڑے آرام سے جھوٹ بول دیتا اور بعد میں کہہ دیتا کہ میں تو مذاق کررہا تھا۔
ابھی کل ہی وہ کلاس میں اپنے دوست عارف کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھارہا تھا کہ اچانک سلمان نے چیخنا شروع کر دیا۔
’’عارف!تمھارے جوتے پر کاکروچ (لال بیگ) چل رہا ہے، دیکھو اندر گھس گیا۔‘‘
عارف جلدی سے اُٹھ کر زور زور سے اپنے پاؤں زمین پر پٹخنے لگا، پیچھے والی ڈیسک پر بھی ہلچل مچ گئی۔ سلمان تو اپنا لنچ ختم کرچکا تھا اب زور زورسے ہنسنے لگا۔۔۔ ’’بیوقوف بنا دیا۔۔۔ بیوقوف بنا دیا۔‘‘
عارف شرمندہ ہوگیا تو سلمان نے کہا: ’’ارے میں تو مذاق کررہا تھا۔‘‘
امی باورچی خانے میں گرم دودھ پیالی میں نکال رہی تھیں۔ سلمان نے ایسی نکالی جیسے بلی کو بھگا رہا ہو۔۔۔ امی سمجھیں سچ مچ بلی دودھ پینے آگئی۔ ایک دَم ان کا ہاتھ ہلا اور گرم دودھ ان کے ہاتھ پر گر گیا۔۔۔ امی نے مڑ کر سلمان کو گھورا تو وہ کھی کھی کررہا تھا۔
اور شام کو تو حد ہو گئی۔ امی نے سلمان کو ٹیوشن جانے کا کہا تو وہ بولا:’’ٹیوشن والی آپی کی طبیعت خراب ہے اس لیے آج چھٹی ہے۔ ان کا فون آیا تھا۔۔۔‘‘
امی نے بعد میں جب ان کی طبیعت پوچھنے کے لیے فون کیا تو پتا چلا کہ وہ تو بالکل ٹھیک ہیں اور سلمان کے آج نہ آنے کی وجہ پوچھ رہی ہیں۔۔۔ اب تو امی کو بہت غصہ آیا۔ اُنھوں نے ابو کے سامنے ساری بات رکھی اور گھر کے باقی دونوں بچوں کے ساتھ مل کر سلمان کو سدھارنے کا منصوبہ بنایا اور ساتھ ہی ابو نے فون کرکے اسکول کے استاد کو بھی اپنے منصوبے میں شامل کرلیا۔
’’آؤ ریان ہم لوڈو کھیلتے ہیں۔۔۔‘‘ سلمان اپنے چھوٹے بھائی کے پاس لوڈو لے کر بیٹھا تو ریان فوراً اپنی ناک پکڑ کر چیخنے لگا:’’ اونہہ کتنی گندی بدبو آرہی ہے تمھارے پاس سے۔۔۔‘‘
سلمان نے روحی کو بلایا۔۔۔ ’’آؤ روحی ہم کھیلتے ہیں۔‘‘ مگر روحی نے بھی ا س کے پاس آنے سے منع کر دیا۔ ’’آپ کے منھ سے تو بہت بو آرہی ہے۔ ‘‘
’’مگر میں نے تو صبح برش کیا تھا۔۔۔‘‘ اب سلمان نے دوبارہ جا کر برش کیا۔ اور امی کے پاس آیا۔
’’امی کیا اب بھی میرے منھ سے بدبو آرہی ہے۔‘‘ سلمان کے قریب آتے ہی امی نے دوپٹے سے اپنی ناک ڈھانپ لی۔ ’’اونہہ دور ہٹ جاؤ۔۔۔ کتنی بدبو آرہی ہے تمھارے منھ سے۔۔۔‘‘ اب سلمان اکیلا ہی صوفے پر بیٹھ کر کارٹون دیکھنے لگا، روحی اور ریّان بڑے مزے سے مل کر لوڈو کھیل رہے تھے۔۔۔ سلمان کو بہت غصہ آرہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں ابو بھی آگئے، تینوں بچے دوڑ کر ابو کے پاس آئے اور سلام کیا۔۔۔ ابو نے جواب دے کر ان کے لیے لائی ہوئی چاکلیٹ انھیں دیں مگر پھر زور سے بولے۔۔۔ ’’اوہو اتنی بُری بو کہاں سے آرہی ہے؟ سلمان آپ کے منھ سے؟‘‘
سلمان نے جلدی سے اپنے منھ پر ہاتھ رکھ لیا اور واپس جا کر صوفے پر بیٹھ گیا، وہ بہت اُداس تھا۔
صبح خوب اچھی طرح منھ اور دانت صاف کرکے سلمان اسکول گیا، استاد صاحب نے آتے ہی سلمان کو جماعت سے باہر کسی کام کے لیے بھیجا اور سارے بچوں کو اپنا منصوبہ بتایا۔ اب پورا دن سلمان کسی سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ بچہ ناک پر ہاتھ رکھ کر دور ہٹ جاتا کوئی اس کے پاس بیٹھنے کو بھی تیار نہیں تھا۔
اسکول سے واپسی پر سلمان کی شکل بالکل رونے والی ہورہی تھی۔ امی نے وجہ پوچھی تو سلمان نے بتایا کہ اس سے کوئی بھی بات نہیں کررہا اور نہ ہی کوئی اس کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
امی نے سلمان کو اپنے پاس بٹھایا اور اس سے پوچھا۔ ’’آپ کو پتا ہے ناں کہ آپ سے سب بات کیوں نہیں کررہے۔‘‘
’’کیونکہ تمہارے منھ سے بہت بدبو آرہی ہے؟‘‘ امی نے کہا ۔ سلمان نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا:’’ابو بو کیوں آرہی ہے؟‘‘
’’کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ جو بھی جھوٹ بولتا ہے اس کے منھ سے جھوٹ کی وجہ سے نکلنے والی بدبو کے باعث اس کے دونوں کندھوں پر بیٹھے ہوئے فرشتے بھی دور چلے جاتے ہیں، اور آپ کیوں کہ بہت جھوٹ بولنے لگے ہیں اس لیے سب اب آپ سے دور بھاگتے ہیں۔‘‘
’’مگر میں تو مذاق کرتا ہوں۔‘‘ سلمان نے معصومیت سے کہا۔
امی مسکرائیں۔۔۔ ’’بیٹا! اچھے مسلمان تو مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی مذاق کرتے تھے مگر اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہوتا تھا بلکہ مزاح ہوتا تھا۔ جیسے ایک مرتبہ کسی نے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اونٹ مانگا تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تو آپ کو اونٹ کا بچہ دوں گا۔
اُنھوں نے کہا کہ میں اونٹ کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ مجھے تو اونٹ چاہیے۔ اتنی دیر میں ایک صحابی بڑا سا اونٹ لے کر آگئے۔ پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں اونٹ دیا اور کہا: ’’ہر اونٹ اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ وہ صاحب ہنس پڑے اور خوشی خوشی اونٹ لے کر چلے گئے۔
اب سلمان کی امی کی بات سمجھ میں آگئی اور اس نے آئندہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے توبہ کرلی۔
اب سلمان کے منھ سے بدبو نہیں آتی۔
*۔۔۔*