skip to Main Content

منکو اور چنکو

عمارہ فہیم
۔۔۔۔

چنکو بکرا اور منکو بندر دونوں گہرے دوست تھے،منکو چنکو کی پیٹھ پر بیٹھ جاتا اور دونوں ساتھ جنگل کی سیر کرتے رہتے،کہیں کچھ کھانے کی مزے مزے کی چیزیں نظر آتیں تو دونوں مل کر کھاتے،زیادہ تر وقت دونوں ساتھ ہی گزارا کرتے۔
چنکو بہت صفائی پسند تھا،کوئی پھل یا پتے کھاتا تو اسے راستے میں کبھی نہیں پھیلاتا بلکہ ساری جگہ کو صاف کردیتا، جبکہ منکو کوئی بھی چیز کھاتا تو اس کو آدھا کھاتا آدھا گرادیتا یا پھر پھیلا کر چھوڑ دیتا،چنکو نے بہت مرتبہ منکو کو سمجھایا کہ ”ایسا نہیں کیا کرو یہ اچھی عادت نہیں ہے،ایسا کرنے سے ہمارا ہی جنگل گندا ہوجائے گا،پھر کوئی بھی ہمارے جنگل کی سیر کرنے نہیں آئے گا۔“ مگر منکو چنکو کی اس بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا تھا اور چنکو کی گردن سے لٹک کر جھولنے لگتا۔
ایک مرتبہ چنکو اور منکو اپنے اسکول سے واپس آرہے تھے راستے میں کیلے کے درخت نظر آگئے اور منکو کے پیٹ میں چوہے کودنے لگے اور تیزی سے چنکو کی گردن پر جھول کر اس کے چہرے کی طرف آیا اور بولا۔
”چنکو چنکو!وہ دیکھو اس راستے میں تو کیلے کے بہت سارے درخت ہیں۔ چلو وہیں چلتے ہیں اور مزے سے کیلے کھاکر بھوک مٹاتے ہیں۔“
چنکو نے جب منکو کے ہاتھ کے اشارے کی سمت دیکھا تو اس کی بھی بھوک چمک اٹھی کیونکہ آج لنچ بریک میں بہت کم پھل ملے تھے۔ سب بڑے بچوں نے کھالیے تھے۔
”ارے واہ منکو!تمھاری نظریں تو بہت تیز ہیں،دور سے ہی تم نے کیلے کے درخت دیکھ لیے۔“چنکو نے زبان کو منہ میں گول گول گھماکر منکو کو دیکھ کر کہا۔
”اب کیا یہیں کھڑے باتیں کرتے رہو گے،جلدی چلو بہت بھوک لگی ہے۔“منکو جھٹ ایک ہاتھ چنکو کی گردن کے دوسری طرف کرکے جھولتے ہوئے پیٹھ پر چڑھ کر کہا۔
”ہاں ہاں!چل رہا ہوں مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے۔“چنکو نے بھی گردن ہلائی اور مزے سے اچھلتے ہوئے درختوں کی سمت دوڑ لگادی۔
درختوں کے پاس پہنچ کر دیکھا تو کیلے تو اوپر تھے۔ منکو تو آرام سے اوپر جاکر کھاسکتا تھا مگر چنکو تو زیادہ اونچا نہیں اچھل سکتا تھا اور نہ ہی درخت پر چڑھ سکتا تھا۔
وہ درختوں کو غور سے دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ اگر وہ اچھلے گا تو زور سے زمین کی طرف واپس آئے گا اور اس طرح اسے چوٹ لگ سکتی ہے کیونکہ امی نے اسے بتایا تھا کہ”اس کی ہڈی نازک ہے جلدی چوٹ لگ سکتی ہے۔“
یہ سب سوچ کر چنکو کا منہ لٹک گیا،منکو نے جب اپنے دوست کا لٹکا ہوا منہ دیکھا تو جھٹ درخت پر چڑھ گیا اور کیلے توڑ کر چنکو کے قریب ڈالتا گیا اور زور سے آواز لگائی۔
”جب چنکو کا دوست منکو ہے تو وہ کیوں اداس ہورہا ہے،چلو اب مزے سے کھاؤ۔“
منکو نے ایک ڈال سے دوسری ڈال پر جھولتے ہوئے مزے سے کہا اور پھر شاخ پر بیٹھ کر مزے سے کیلے کھانے لگا۔
اور یہ کیا منکو تو اوپر سے کیلے کھاکھاکر چھلکے دور اچھال رہا تھا۔
”منکو یہ کیا کررہے ہو،یہ تو بہت بری بات ہے تم چھلکوں کو ایسے ہی راستے میں پھینک رہے ہو اگر کسی کو نظر نا آئے یا پھر کوئی جلدی میں ہوا اور اس کی وجہ سے پھسل کر گر گیا تو اسے چوٹ آ جائے گی اورتمھیں یاد ہے چینی استانی نے بتایا تھا:”ساری کائنات کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کا بہت خیال رکھتے تھے،ہمیں بھی ان کی طرح سب کا خیال رکھنا چاہیے۔“اور امی بھی کہتی ہیں۔”کسی کو تکلیف دینا تو بری بات ہے۔“
چنکو نے پیار سے منکو کو سمجھایا مگر منکو نے اس کی بات ہمیشہ کی طرح ہوا میں اڑا دی اور جب پیٹ بھر گیا تو اچھلتا ہوا تیزی سے چنکو کی طرف آنے لگا مگر اپنی جلد بازی میں بھول گیا کہ راستے میں اسی کے پھینکے ہوئے چھلکے بھی ہیں۔بس پھر تیزی سے آتے ہوئے اس کا پاؤں پھسلا اور ایک زور دار چیخ اس کے منہ سے نکلی اور وہ زمین پر گر گیا۔
”اوہو منکو میرے بھائی!“
چنکو نے منکو کی آواز سنی تو کیلے کھاتے ہوئے منہ اوپر کرکے اس طرف دیکھا جہاں سے اس کی آواز آئی تھی اور تیزی سے اس طرف لپکا،منکو نے اٹھنا چاہا مگر اس سے ٹھیک طرح کھڑا نہ ہوا گیا،چنکو بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اٹھا کر اپنی پیٹھ پر رکھ دیا اس طرح منکو مشکل سے ہی سہی مگر چنکو کی پیٹھ پر چڑھ کر مضبوطی سے پکڑ کر لیٹ گیا،اور چنکو جلدی جلدی اسے لے کر گھر پہنچا۔
”چنکو منکو بیٹا!کہاں رہ گئے تھے آپ دونوں اور یہ منکو کو کیا ہوا۔“
دونوں کی امی گھر کے پاس ہی بیٹھی ہوئی ان کا انتظار کررہی تھیں کیونکہ دونوں کا اسکول ٹائم ختم ہوگیا تھا۔
سب کو پریشان دیکھ کر چنکو نے ساری بات بتادی جسے سن کر سب گھر والے پریشان ہوئے اور جلدی سے حکیم چاچا سے منکو کا علاج کروایا۔
جب منکو کو کچھ آرام ہوا تو منکو کی امی نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔
”منکو بیٹا!کسی کو تکلیف دینا اچھی بات نہیں ہے اور جب ہم غلط کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوتے ہیں اور ہمیں کسی نہ کسی طرح بتاتے ہیں کہ ہم نے غلط کیا ہے اور ویسے بھی کچرا پھیلانا،گندے رہنا یہ تو بہت بری بات ہے،پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھتے تھے کسی کو تکلیف نہیں دیتے تھے اور تکلیف دینے والوں سے بھی اچھا سلوک کرتے تھے اور اب آپ خود دیکھو کہ آپ نے چھلکے پھینکے اور پھر اس سے خود پھسل گئے تو ہوئی نا یہ بری بات……!!“منکو کی امی نے آہستگی سے اپنی بات کہی۔
”جی امی جان!چنکو مجھے بار بار کہتا تھا کہ میں ایسا نہ کروں مگر میں اس کی نہیں سنتا تھا۔ اب مجھے سمجھ آگئی ہے کہ اچھے بچے وہی ہوتے ہیں جو سب کا خیال رکھتے ہیں اور جو سب کا خیال رکھتا ہے وہ پریشانی سے بچ جاتا ہے۔اس لیے اب میں بڑوں کی بات مانوں گا اور کہیں کسی کو تنگ نہیں کروں گا اور صفائی کا بھی خیال رکھوں گا۔“منکو نے سر جھکا کر شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
”جب آپ نے اتنے اچھے کام کو کرنے کا ارادہ کیا ہے تو منہ کیوں لٹکایا ہے،اب تو سر اٹھا کر کہو کہ میں اچھا بچہ بنوں گا۔“منکو کی امی نے اس کا لٹکا ہوا منہ اوپر کرکے کہا تو منکو مسکرایا اور زور سے بولا۔
”میں اچھا بچہ بنوں گا۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top