skip to Main Content

منجھا ہوا جرائم پیشہ

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر عابدی کی پیشانی پر پسینے کے بے شمارقطرے چمک اٹھے۔ ان کے منہ سے مارے خوف کے نکلا:
”اف میرے خدا! یہ کیا ہوگیا؟“
”کیا ہوا پروفیسر صاحب! خیر تو ہے۔“ ان کے نائب عرفان غوری نے ان کی طرف بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”تمہیں تو معلوم ہی ہے غوری… میں ان دنوں کس تجربے پر کام کررہا ہوں۔“
”ہاں پروفیسر صاحب! آپ انسانی عمر میں دو چنداضافے پر تجربات کر رہے ہیں۔ آپ ایسے جراثیم پیدا کرنے کوشش میں ہیں جو انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف زبردست قوت پیدا کردیں اور اس طرح انسان اپنی طبعی عمر سے دوگنا جی سکے۔ گویا اگر آپ کامیاب ہوجاتے ہیں تو انسان کی عمر ڈیڑھ پونے دو سو سال تک ہوسکے گی۔ یہی ناں پروفیسر صاحب!“
”ہاں غوری! لیکن جانتے ہو… ہوا کیا ہے؟“
”کیا ہوا ہے؟“ عرفان غوری نے بے چینی کے عالم میں پوچھا۔
”ہوا اس کے الٹ ہے… آﺅ… میں تمہیں دکھاتا ہوں… میرے تجربات سے وجود میں آنے والے جراثیم کیا گل کھلا رہے ہیں۔“
”جی… کیا کہا… گل کھلا رہے ہیں۔“
”ہاں… آﺅ۔“
وہ اسے اسکرین کے سامنے لے آئے… اب انھوں نے ایک بٹن دبایا اور بولے:
”دیکھو غوری! یہ ہے شیشے کا وہ جار جس میں میں نے ان جراثیم کی افزائش کی ہے… اور یہ رہا دوسرا جار… اس میں انسانی جسم کے سرخ خلیے موجود ہیں… ان خلیات کی بھی میں نے افزائش کی ہے… اب اگر میں جار نمبر ایک میں سے چند جراثیم جار نمبر دو میں شامل کردوں تو کیا ہونا چاہیے بھلا؟“ پروفیسر عابدی کہتے کہتے رک گئے۔
”کیا ہونا چاہیے؟“ عرفان غوری نے قدرے حیران ہو کر کہا۔
”ہاں! سامنے کی بات ہے… انسانی عمر میں اضافہ اس صورت میں ممکن ہے جب سرخ خلیات کی پیداوار میں اضافہ ہوتا چلا جائے… کیونکہ جب انسانی جسم میں سرخ خلیات مر جاتے ہیں تو آدمی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔“
”آپ کا مطلب ہے، جب آپ جار نمبر دو میں اپنے جراثیم داخل کریں گے تو اس میں سرخ ذرات میں اضافہ ہونے لگے گا۔“
”بالکل ٹھیک اور اس طرح عمر میں اضافہ ممکن ہوجائے گا۔“
”آپ کا خیال ٹھیک ہے… تب پھر اس میں پریشانی کیا لاحق ہوگئی۔“
”معاملہ بالکل الٹ ہوگیا ہے۔“ پروفیسر عابدی کے چہرے پر اب ہوائیاں اڑتی نظر آرہی تھیں۔
”مہربانی فرما کر وضاحت کریں… کیا ہوگیا ہے۔“
”میں نے جار نمبر ایک میں سے چند جراثیم جار نمبر دو میں منتقل کیے تو میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ میرے جراثیم سرخ خلیات کو بہت تیزی سے کھا رہے ہیں۔“
”کیا!!!“ عرفان غوری چلا اٹھے۔
”ہاں غوری… بالکل یہی بات ہے… اور یہ منظر تم خوردبین کی مدد سے صاف دیکھ سکتے ہو… لو دیکھ لو۔“
یہ کہتے ہوئے پروفیسر عابدی نے خوردبین غوری کو تھما دی… اس نے خوردبین پر آنکھ جما دی… اسے جار نمبر دو میں سرخ خلیات بہت تیزی سے غائب ہوتے نظر آئے…
”آپ… آپ ٹھیک کہتے ہیں پروفیسر… لیکن آپ کے لیے اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟“
”بات یہ ہے۔“ وہ پُرزور انداز میں بولے۔
”اور… وہ کیا؟“
”یہ جراثیم جار نمبر ایک میں محفوظ ہیں… یہ اپنی افزائش میں خودبخود اضافہ کرتے چلے جائیں گے… یعنی ایک جار سے دو اور اس سے چار جار بھرے جاسکتے ہیں جب کہ ان کی بہت تھوڑی سی مقدار اگر انسانی جسم میں داخل کر دی جائے تو وہ آدمی بہت جلد مر جائے گا… شاید چند دن میں یا شاید چند ماہ میں… ابھی میں مدت کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا… اور مزے کی بات یہ کہ کوئی ڈاکٹر… کوئی لیبارٹری ٹیسٹ موت کی وجہ نہیں بتا سکے گی… گویا ایک سرنج کے ذریعے چند جراثیم کسی کے جسم میں داخل کر دو… بس وہ زندگی کی بازی ہار جائے گا… اب ذرا سوچو غوری… یہ جراثیم جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھ لگ جائیں تووہ ان سے کتنی تباہی مچا سکتے ہیں… انسانیت پر کتنی بڑی تباہی لا سکتے ہیں… تم شاید سمجھ نہیں رہے، میں کیا کہہ رہا ہوں… سنو غوری فرض کیا ہم واٹر سپلائی ٹینک میں یہ جراثیم شامل کر دیں… تو کیا ہوگا؟“
”اوہ… اوہ!“ عرفان غوری اچھل پڑے۔ اب اس کی آنکھوں میں بھی خوف تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ خوف دور ہوگیا اور خوف کی جگہ طنز نے لے لی۔ پھر یہ طنز اور گہرا ہوگیا، لیکن پروفیسر عابدی اس کی کیفیت سے بے خبر اسکرین پر سرخ خلیات کو غائب ہوتے دیکھ رہے تھے۔ انہیں تو اس وقت پتا چلا جب کوئی ٹھنڈی چیز ا ن کی گدی سے آلگی۔ وہ چونک کر مڑے۔ اسی وقت عرفان غوری کی سرد آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔
”حرکت نہ کرنا پروفیسر۔“
”کک… کیا مطلب… یہ… یہ کیا غوری۔“ مارے حیرت اور خوف کے پروفیسر عابدی کے منہ سے نکلا۔
”اب جراثیموں سے فائدہ میں اٹھاﺅں گا… جرائم پیشہ لوگوں کو میں فروخت کروں گا اور وہ ان کے ذریعے لاکھوں کروڑوں کمائیں گے… میرا مطلب ہے کرائے کے قاتلوں کو… لیکن ان کی چابی میرے ہاتھ میں ہوگی… میں انہیں جراثیم فروخت کروں گا تو وہ کچھ کر سکیں گے ناں… اس طرح میں دنوں میں مال دار ترین آدمی بن جاﺅں گا… کرائے کے قاتلوں کو یہ خوف نہیں رہ جائے گا کہ وہ پکڑے جائیں گے… وہ ہر قسم کی مشقت سے بچ جائیں گے۔“ یہاں تک کہہ کر عرفان غوری رک گیا۔
”نہیں غوری! ایسا ظلم نہ کرنا… یہ جراثیم انسانیت کے لیے بہت خطرناک ہیں… ہمیں تو انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنا ہے… نہ کہ اس کی تباہی کے لیے… یہ دولت تمہارے کچھ بھی کام نہیں آئے گی… اس خیال کو جھٹک دو… یہ پستول میری گدی سے ہٹا لو… میں اس جار کو آگ میں ڈال دیتا ہوں… اس صورت میں ہم پرسکون زندگی گزار سکیں گے… یا پھر ہم یہ جراثیم حکومت کے حوالے کر دیں گے… وہ دشمن ممالک پر انہیں استعمال کر سکتی ہے۔“
”بھاڑ میں جاﺅ پروفیسر تم۔“ یہ کہتے ہی اس نے گولی چلا دی۔
پروفیسرعابدی کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکلی اور ان کا جسم تڑپنے لگا۔ مرتے مرتے بھی انھوں نے بمشکل کہا:
”نن… نہیں… غوری نہیں… ایسا… ایسا نہ… کرنا۔“
اور اس کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔
”یہ… یہ تم نے کیاکیا غوری، اب پولیس تمہیں نہیں چھوڑے گی۔“ اپنے پیچھے آواز سن کر غوری جلدی سے مڑا۔ پھر مسکرا کر بولا۔
”آخر… رانا یہ شخص اسی قابل تھا… اس کا ارادہ یہ تھا کہ ان جراثیموں کو تباہ کر دے یا حکومت کے حوالے کر دے… حکومت اس پر مزید تجربات کرے اور ملکی سطح پر ان جراثیموں سے فائدہ اٹھایا جائے… لیکن تم خود سوچو… بھلا اس سے ہمیں کیا ملتا… اصل فائدہ تو ہمیں اب ہوگا۔“
”لیکن مجھے… آخر ہم کیسے فائدہ اٹھا سکیں گے۔“
”میں وہ نہیں جو نظر آتا ہوں… میں نے پروفیسر کے نائب کے طور پر یہاں ملازمت صرف اس لیے کی تھی کہ قانون کی نظروں سے بچا رہوں… ورنہ میں ایک منجھا ہوا جرائم پیشہ رہا ہوں، جرائم کی دنیا سے میرا تعلق پہلے ہی ہے… اب ان جراثیموں کی بدولت اور زیادہ تعلق قائم ہوجائے گا، تم دیکھنا… دولت ہم پر کس طرح برسے گی۔“
”لیکن… تم فرابی کا کیا کرو گے؟“
”میں نے سب سن لیا ہے… میں غوری کا ساتھ دوں گا۔“ ایک اور آواز آئی۔
”تب میں بھی ساتھ ہوں۔“ رانا نے فوراً کہا۔
تینوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملائے… پھر غوری نے کہا:
”البتہ چوکیدار کا کچھ کرنا ہوگا، ہوسکتا ہے، اسے اندر ہونے والے واقعے کی سن گن لگ چکی ہو… اسے اندر بلا کر پوچھ لیتے ہیں… اس کے چہرے کے تاثرات سے پتا چل بھی جائے گا… اگر اس کی رائے ہمارے خلاف ہوئی تو ہم اسے بھی ختم کر دیں گے… اور اس جگہ کو چھوڑ دیں گے۔“
”ٹھیک ہے… رانا… تم جا کر اسے لے آﺅ… ہم صورتِ حال اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں… پھر دیکھا جائے گا۔“
جلد ہی رانا چوکیدار کے ساتھ اندر داخل ہوا… وہ پروفیسر عابدی کی لاش کو دیکھ کر بری طرح اچھلا… اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا…
”یہ… یہ… یہ کیا؟“
”سنو نور خان، ہم تمہیں ساری بات بتا دیتے ہیں… اس کے بعد فیصلہ تمہارے ہاتھ ہوگا… ہمارا ساتھ دینا پسند کرو گے تو ہم اسی تجربہ گاہ کو اپنا اڈہ بنا لیں گے اور اگر تم نے ساتھ دینا پسند نہ کیا تو پھر ہمارے راستے الگ ہوں گے۔“
”مم… میں سمجھا نہیں۔“
”ہم تمہیں سمجھا دیتے ہیں۔“
اور غوری نے ساری بات اس کے سامنے رکھ دی۔ نور خان کا چہرہ خوشی سے پھول گیا۔ اس نے اچھل کر کہا:
”میں تم لوگوں کا ساتھ دوں گا دوستو… اب ہم دنیا کے مال دار ترین آدمی بن جائیں گے۔“
”بہت خوب! یہ ہوئی ناں بات! اب ہم اپنے کام کی تیاری شروع کرتے ہیں۔ تم اس لاش کے لیے ایک گڑھا کھودو… ہم شہر سے جا کر کچھ سامان خرید لاتے ہیں… پھر آرام سے بیٹھ کر منصوبہ بندی کریں گے۔“
”ٹھیک ہے… میں تم لوگوں کے آنے سے پہلے اس لاش کا نام و نشان مٹا دوں گا… تمام آثار ختم کر دوں گا… یوں بھی شہر سے باہر موجود اس تجربہ گاہ پر کون شک کر سکتا ہے… جاﺅ… اور جلدی لوٹ آنا… کیونکہ لاش کی وجہ سے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ہے۔“
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں نور خان! یہ صرف ایک لاش ہے… یہ تمہیں کچھ بھی نہیں کہے گی۔“ عرفان غوری ہنس دیا۔
پھر وہ تینوں چلے گئے اور نور خان اپنے کام میں مصروف ہوگیا… تین گھنٹے بعد ان تینوں کی واپسی ہوئی…وہ سامان سے لدے پھندے تھے… انھوں نے دیکھا کہ تجربہ گاہ کی صفائی ہوچکی تھی اور لاش وہاں موجود نہیں تھی…
”تو تم نے اسے ٹھکانے لگا دیا۔“
”ہاں ساتھیو!“
”تب پھر تم بھی اسی سفر پر روانہ ہوجاﺅ… ہم نے فیصلہ کیا ہے، اس کاروبار میں تین سے زیادہ ساتھی نہیں ہونے چاہئیں۔“
”کیا مطلب؟“ نور خان بہت زور سے اچھلا۔ اس کی آنکھوں میں خوف پھیل گیا۔
”آنے والی دولت کو ہم چارکے بجائے تین پر کیوں نہ تقسیم کریں… تمہیں کیوں حصہ دار بنائیں، لو تم بھی جاﺅ۔“
ان الفاظ کے ساتھ ہی وہاں ایک فائر ہوا… لیکن جواب میں نور خان کی چیخ سنائی نہیں دی تھی… بلکہ چیخ عرفان غوری کی تھی… اس کے ساتھیوں نے اس کے ہاتھ سے خون تیزی سے بہتے دیکھا… ساتھ ہی آواز گونجی…
”تم لوگ ہاتھ اوپر اٹھا لو۔“
اس آواز کے ساتھ ہی کمرے میں پولیس اور فوج کے چند جوان آگئے… ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا دی گئیں… ان میں سے ایک فوجی ان سے کہہ رہا تھا:
”تم منجھے ہوئے جرائم پیشہ ہوگے، لیکن نور خان ایک منجھا ہوا ریٹائرڈ فوجی ہے… اس نے قوم اور ملک سے غداری کرنا نہیں سیکھا… تم نے ایک بے گناہ کے خون سے ہاتھ ہی نہیں رنگے… قوم کو ایک مفید شخصیت سے محروم بھی کیا ہے… سزا تو تمہیں ملنی تھی… لیکن اس قدر جلد سزا کا ملنا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمہارا یہ فعل کچھ زیادہ ہی گھناﺅنا تھا… ورنہ جرائم پیشہ تو تم کب سے چلے آرہے ہو… تمہارے ان جرائم پر تمہیں فوری سزا نہیں ملی، لیکن اس جرم پر فوری پکڑ ہوگئی… سنا تم نے منجھے ہوئے جرائم پیشہ انسان۔“
فوجی آفیسر کے لہجے سے گہرا طنز اور دکھ جھانک رہا تھا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top