skip to Main Content

مکان کراے کے لیے خالی ہے

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صابر صاحب مکان کے سلسلے میں بہت پریشان تھے۔ اس شہر میں ان کی پوسٹنگ ہوئے مہینہ گزر چکا تھا۔ مگر رہائش کا مسئلہ ہنوز حل طلب تھا۔ فی الحال وہ اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے مگر کب تک! ایک دن مہمان، دو دن مہمان، تیسرے دن بلائے جان والے محاورے سے وہ خوب واقف تھے۔ مکان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔ جیب ہلکی ہوتو مکان کی تلاش بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسے میں جب ان کے دفتر کے ساتھی ریاض صاحب نے کہا۔ 
’’ارے! عظیم پلازہ میں میرا ڈیڑھ کمرے کا گراؤنڈ فلور پر فرنشڈ فلیٹ ہے….. آج کل خالی پڑا ہے…. پہلے کرایہ دار رہتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد آج کل میں اپنا گھر بار چھوڑ کر وہاں سورہا ہوں۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے۔ خالی مکان دیکھ کر لوگ قبضہ جمالیتے ہیں۔ فلیٹ قدرے پرانے زمانے کا ہے پھر بھی اس کا ایڈوانس ’دس ہزار‘ سے کم نہیں مگر اب آپ سے کیا سودا بازی کرنا آپ ڈھائی ہزار دیجیے اور بسم اللہ کرکے سامان لے آئیے۔ کرایہ جو مناسب سمجھیں دیتے رہیے!‘‘
صابر صاحب ششد رہ گئے۔ جب انہوں نے چٹکی کاٹ کر خود کو یقین دلانا چاہا کہ جو کچھ سنا وہ حقیقت ہی تھی تو ریاض صاحب چیخ اٹھے۔ جس سے نہ صرف صابر صاحب کو یقین آگیا بلکہ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ انہوں نے غلطی سے چٹکی اپنے ہاتھ پہ کاٹنے کے بجاے ریاض صاحب کے کاٹ لی تھی۔ بہر حال جونہی یقین آیا انہوں نے ڈھائی ہزار نکالے اور ریاض صاحب کے سامنے دھر دیے کہ کہیں ان کا ارادہ بدل نہ جائے۔
آج وہ فلیٹ کا معائنہ کرنے آئے تھے۔ اپارٹمنٹ کی عمارت دیکھ کر ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ فلیٹس نہایت بوسیدہ تنگ و تاریک اور سیلن زدہ ہوں گے۔ مگر رہنے کو چھت میسر آجائے، اس وقت یہی بہت تھا۔ اپارٹمنٹ کی سیڑھی پہ پان کے اتنے داغ نظر آئے جیسے لوگ دور دور سے یہاں پان کی پیک تھوکنے آتے ہوں۔ دل ہی دل میں شکر بجا لائے کہ ان کا فلیٹ گراؤنڈ فلور پرہے اور انہیں سیڑھیوں سے کم ہی واسطہ پڑے گا لیکن فلیٹ کی حالت دیکھ صابر صاحب کی اپنی حالت خراب ہوگئی۔ مکان انتہائی مخدوش ہوچکا تھا۔ جگہ جگہ سے دیوار اور چھت کا پلستر جھڑ رہا تھا۔ انہوں نے ریاض صاحب کو دیکھا جو اپنے ہی فلیٹ کو ایسی تعریفی نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔
’’جناب! آپ کو کبھی مکان کی مرمت کرانے کا خیال نہیں آیا؟‘‘ صابر صاحب نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے بے چارگی سے آہ بھر کے پوچھا۔
’’جی ہاں! کئی بار….. لیکن جب بھی مرمت کرانے کی کوشش کی ….. اوپر کے فلیٹ والوں نے ہماری ’مرمت‘ کردی۔‘‘
’’ہاں! وہ کیوں؟‘‘ صابر صاحب دنگ رہ گئے۔
’’بھئی جب ہم نے اپنی چھت کا پلستر کرانے کے لیے پرانا پلستر کھرچنا شروع کیا تو اوپر والوں کا فرش اکھڑ گیا اور انہوں نے نیچے آکر ہماری اچھی خاصی ’مرمت‘ کردی….. لیکن دیکھیے بیڈ روم کی چھت نسبتاً اچھی حالت میں ہے۔‘‘
’’وہ تو ہے….. مگر یہ کونے کی دیوار پر چھت سے سفید سفید کیا چیز بہہ رہی ہے؟‘‘ صابر صاحب نے پریشان ہوکر پوچھا۔
’’یہ ٹوتھ پیسٹ کا جھاگ ہے….. اوپر کے فلیٹ سے بہہ کر نیچے آرہا ہے۔‘‘ ریاض صاحب نے بڑی تفصیلی وضاحت فرمائی۔
’’اوہ میرے خدا! یعنی حد ہوگئی….. اوپر والوں کا ٹوتھ پیسٹ بہہ کر نیچے آرہا ہے!‘‘ صابر صاحب چلا اٹھے۔
’’جی ہاں! مجھے خود تعجب ہے….. کیوں کہ اوپر جو صاحب رہتے ہیں…. ان کے منھ میں ایک دانت نہیں….. پھر ٹوتھ پیسٹ کا کیا سوال؟ معاملہ خاصا پراسرار ہے!‘‘ 
’’پراسرار کے بچے! چھت میں جہاں ’رساؤ‘ ہے وہاں سیمنٹ کیوں نہیں لگواتے؟‘‘ صابر صاحب دل میں کچکچا کر رہ گئے۔ پھر تاسف سے سرہلاکر بولے۔’’ہوں معاملہ واقعی پر اسرار ہے۔‘‘
’’پراسرار پہ یاد آیا….. اس فلیٹ کی ہر چیز خاصی پرانی ہے۔ لہٰذا کنڈے، کھڑکیوں کے کواڑغرض ہر چیزکے قبضے کمزور ہونے کے سبب خود بخود ہلتی اور شور مچاتی رہتی ہے اور مزے کی بات یہ کہ آس پاس والوں کو پورا یقین ہے کہ اس مکان میں ’جن بھوت‘ رہتے ہیں!‘‘
’’حالانکہ اس میں آپ رہتے ہیں!‘‘ صابر صاحب نے ریاض صاحب کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’ارے میاں میں تو صرف سوتا ہوں….. وہ بھی اس لیے کہ خالی گھر دیکھ کر کسی کی نیت خراب نہ ہوجائے۔‘‘
’’ہونہہ!‘‘ صابر صاحب نے سرجھٹکا: ’’اگر کسی کو قبضہ ہی کرنا ہوا….. تو کسی ڈھنگ کے فلیٹ پہ نہ کرے گا۔‘‘
’’آپ نے فرمایا کہ فلیٹ ڈیڑھ کمرے کا ہے….. باقی آدھا کمرہ کہاں ہے؟‘‘ صابر صاحب نے بدمزہ ہوکر پوچھا۔
’’وہ سامنے کوٹھری نما اسٹور ہے…. مگر یہ زیرِ استعمال نہیں…. اس میں وہ سامان پڑا ہے جو ضائع ہوگیا!‘‘
’’اچھا! یعنی سابقہ کراے دار؟‘‘ پھر صابر صاحب نے گردن لمبی کرکے اسٹور میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے ! یہاں تابوت کیوں رکھا ہے؟‘‘
’’تابوت….. کک….. کہاں؟ ‘‘ ریاض صاحب چکرا کر گرتے گرتے بچے پھر سنبھل کر بولے: ’’افوہ! بھئی وہ تابوت تھوڑی ہے، وارڈ روب ہے، کپڑے رکھنے کی الماری!‘‘
’’الماری! مگر یہ زمین پہ لیٹی ہوئی کیوں ہے؟‘‘
صابر صاحب گڑ بڑاکر بولے: ’’ارے بھئی دیوار گیر الماری تھی، ایک کرایہ دار اکھاڑ گیا، دوسرا لٹا گیا۔‘‘
’’توبہ یہاں جالے اس قدر لگے ہیں کہ اندر جانا بھی مشکل ہے!‘‘ صابر صاحب تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے بولے۔
’’یہ پچھلے کرایہ دار لگا کر گئے تھے۔ میرا اس میں کوئی ہاتھ نہیں!‘‘ ریاض صاحب نے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی اور صابر صاحب کا دھیان بٹانے کو بولے: ’’دیکھئے یہ کونے میں باورچی خانہ ہے۔‘‘
’’کیا!!‘‘ صابر صاحب چیخ اٹھے۔ ’’اتنا سا باورچی خانہ؟ کیا میں چولھے کے اوپر کھڑا ہوکر کھانا پکاؤں گا؟‘‘
’’ارے جناب! آپ اکیلے آدمی….. آپ کو باورچی خانے کا کیا کام!‘‘
’’اچھا! مگر یہ باورچی خانے کے بغل میں اتنی جہازی سائز کھڑکی بنانے کا کیا مقصد ہے، اس میں سلاخیں وغیرہ بھی نہیں ہیں اور یہ کھلتی بھی باہر کی جانب ہے!‘‘
’’میاں! یہ ایمرجنسی کے لیے ہے….. مطلب یہ کہ اگر مکان میں آگ لگ جائے اور بیرونی دروازہ جام ہوجائے یا پھر ڈاکو گھس آئیں تو ایمرجنسی میں صاحب خانہ اس راستے سے باہر نکل سکیں گے!‘‘
’’اور اگر….. ڈاکو کو ایمرجنسی ہوتو وہ اسی کھڑکی سے اندر آسکے گا!! خوب بہت خوب! کیا غضب کی منصوبہ سازی ہے۔ کہاں ہے اس مکان کا نقشہ ساز، میں اس کے ہاتھ چومنا چاہوں گا!‘‘
’’اس کے ہاتھ چومنے کے لیے آپ کو جہنم میں جانا ہوگا….. کیوں کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے!‘‘
صابر صاحب نے دو تین بار سر جھٹکا اور باتھ روم اور ٹوائلٹ کا جائزہ لینے لگے۔
’’یہ فلش کی ٹنکی کام بھی کرتی ہے یا نہیں؟ یعنی پانی تو گرتا ہے نا اس میں سے؟‘‘ صابر صاحب نے زنگ آلود ٹنکی کو مشکوک نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’ہوں!! کیوں نہیں مگر….. کبھی پانی گرتا ہے تو کبھی ٹنکی۔ زیادہ تر پانی ہی گرتا ہے!‘‘
’’دیکھیے جناب! مجھے کہنے دیجیے کہ آپ نے مجھے خوب بے وقوف بنایا ہے ورنہ…..‘‘
’’دیکھو میاں! ایک تو یہ کہ میں اللہ کے کاموں میں دخل نہیں دیتا….. دوسری بات یہ کہ میں نے کہا تھا کہ ڈیڑھ کمرے کا فرنشڈ فلیٹ ہے۔ فرنیچر اور فلیٹ کیسا ہے یہ آپ نے پوچھا نہ میں نے بتایا۔ پھر بے وقوف بنانے کا کیا سوال ؟ ویسے بھی آپ ایڈوانس دے چکے ہیں۔ اب کیا ہوسکتا ہے؟ بس اپنا سامان لے آئیے….. فلیٹ ٹھیک ٹھاک کرکے گزارہ کرلیجیے۔ میری راے میں تو فلیٹ کچھ ایسا برا نہیں ہے۔‘‘
صابر صاحب ’صابر‘ ہونے کے باوجود کھول کر رہ گئے۔ بہر حال مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق اپنا مختصر سا سامان اٹھا لائے اور سوچا کہ فی الحال تو سورہے ہیں صبح دیکھیں گے کہ اس گھر کو رہنے کے قابل کیسے بنایا جاسکتا ہے۔‘‘
رات کو جب چار پائی پہ لیٹے تو کافی دیر تک نیند نہ آئی۔ نئی جگہ ویسے ہی نیند اتنی آسانی سے نہیں آتی۔ پھر نہ جانے کیوں رات کے اندھیرے میں انہیں فلیٹ کچھ زیادہ ہی خوفناک اور پراسرار لگنے لگا تھا۔ جیسے شہر کا فلیٹ نہ ہو۔ مصر کا کوئی تکون مقبرہ ہو۔ کمرے میں زیرو بلب نہ تھا۔ ٹیوب لائٹ بند ہوتے ہی گھپ اندھیرا چھا گیا تھا۔ آدھی رات تک کروٹیں بدلنے کے بعد بالآخر انہیں نیند نے آلیا …. ابھی نیند گہری بھی نہ ہوئی تھی کہ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ان کی اوڑھی ہوئی چادر (جس کا کونہ لٹک رہا تھا) پائینتی کی جانب سے کوئی کھینچ رہا ہے۔ ان کی آنکھ کھل گئی۔ کئی بار پلکیں جھپکا کر دیکھا اور سوچا کہ شاید انہیں وہم ہوا ہے…. لیکن چادر سفید تھی اور اندھیرے میں سرکتی ہوئی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ چادر سینے سے سرکتی ہوئی گھٹنوں کی جانب جارہی تھی…. خود بخود!! انہیں چادر کے ساتھ اپنا دم بھی سرکتا ہوا محسوس ہوا۔ ہر چند کہ وہ کوئی بزدل آدمی نہ تھے مگر صورتِ حال ہی کچھ ایسی تھی کہ وہ دہشت زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک انجان اور ویران سے گھر میں رات کے گھپ اندھیرے اور سناٹے میں کوئی ان کی چادر کا کونہ کھینچ رہا تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس سے وہ نظر نہ چراسکتے تھے…. لائٹ کا سوئچ بہت دور تھا۔ انہوں نے قدم اٹھانا چاہا تو یوں محسوس ہوا جیسے سارا جسم پتھر کا ہوگیا ہو۔ اٹھنے کی ہمت نہ ہوئی….. ان کے کانوں میں مالک مکان کے الفاظ گونج رہے تھے۔
’’مزے کی بات یہ کہ اہلِ محلہ کو پور ایقین ہے کہ اس مکان میں ’جن بھوت‘ رہتے ہیں! اور ہاں یہ جھاگ نہ معلوم کہاں سے آرہا ہے، جب کہ اوپر جو صاحب رہتے ہیں ان کے منھ میں ایک دانت نہیں …. پھر توٹھ پیسٹ کا کیا سوال؟معاملہ بہت پر….. اسرار ہے! دروازے، کنڈے، کھڑکیوں کے کواڑ خود بخود ہلتے اور شور مچاتے رہتے ہیں….. ‘‘
صابر صاحب کو سارے جسم میں چونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوئیں۔ چادر مسلسل حرکت کررہی تھی اور سرکتے سرکتے ان کے پاؤں تک پہنچ گئی تھی۔ اچانک ان کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ کیوں کہ کسی نے ایک جھٹکا مار کر ان کی چادر کھینچ لی تھی اور اب چادر زمین پر پڑی تھی۔ ان کا پورا جسم کپکپا کر رہ گیا…. غیر شعوری طور پر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھے۔ ان کے اٹھتے ہی ایک انتہائی ’عجیب و غریب‘ شکل کا کالا بلا وہاں سے کود کر بھاگا۔ ایک لمحے کو وہ چکرا کر رہ گئے کہ وہ بِلّا ہی تھا یا کوئی بلا؟ کیوں کہ اس کی شکل بلی جیسی نہیں تھی! ان کا جسم پسینے سے بھیگ چکا تھا…. انہوں نے اٹھ کر لائٹ جلائی اور حواس بحال کرنے کے لیے پانی دو گلاس پئیے….. باورچی خانے سے کھٹر پٹر کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھی….. معلوم نہیں ان کے کان بج رہے تھے یا واقعی ایسا ہورہا تھا…. بہر حال وہ اپنے بستر پہ ہی بیٹھے رہے….. کچھ ہی دیر بعد صبح ہوگئی ۔ ان کا سر بہت بھاری ہورہا تھا…. رات کی وحشت قدرے دور ہوچکی تھی۔ مگر اب بھی گھبراہٹ سی طاری تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس فلیٹ میں ہرگز نہیں رہیں گے خواہ مالک مکان ان کا دیا ہوا ایڈوانس ضبط کرے۔ کیوں کہ یہ اس سے بہر حال بہتر تھا کہ کوئی آسیب یا بلا ان کی روح قبض کرے!
انہوں نے سوچا کہ نیچے جائیں اور کسی ہوٹل سے چاے پی آئیں۔ کچھ تو سرکا بھاری پن کم ہوگا اور طبیعت بحال ہوگی ۔ ابھی وہ باہر جانے کے لئے دروازہ کھول رہے تھے کہ اچانک باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آئی….. جیسے کوئی نہارہا ہو….مگر کل تک تو یہاں پانی نہیں آرہا تھا پھر اس وقت پانی کیسے آرہا ہے؟ باتھ روم میں کون نہا رہا ہے….. ؟ 
ان کا ذہن الجھ کر رہ گیا مگر اب رات کا وقت نہیں تھا کہ وہ وحشت زدہ ہوجاتے ….. رات اور اندھیرے کا اپنا ایک خوف ہوتا ہے۔ صبح تو انہوں نے سارے گھر کا ایک چکر بھی لگایا مگر انہیں کوئی غیر معمولی بات محسوس نہ ہوئی تھی۔ انہوں نے خود پر خوف کو غالب نہ آنے دیا اور آگے بڑھے…. دھکا دے کر باتھ روم کا دروازہ کھول دیا…. باتھ روم خالی تھا…. نل کھلا ہوا تھا…. اور پانی بہہ رہا تھا …. اوہ !! میں بھی کتنا خبط الحواس ہوں …. کل خود ہی تو ٹونٹی کھول کر دیکھا تھا…. چونکہ اس وقت پانی نہیں آرہا تھا لہٰذا بند نہیں کی ہوگی…. اب پانی آنا شروع ہوا تو بہنے لگا۔ انہوں نے سر جھٹک کر نل بند کیا اور واپس مڑ ے …. مگر یہ کیا!! صابن کی گیلی ٹکیہ فرش پر پڑی تھی! جب کہ انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ رات کو انہوں نے خود واش بیسن پہ نئی ٹکیہ کھول کر رکھی تھی کہ اگر قسمت سے صبح پانی آئے گا تو منھ دھولیں گے۔ پھر یہ گھلی ہوئی ٹکیہ فرش پہ کس نے رکھی؟ کیا واقعی یہاں کوئی نہا رہا تھا…. ؟
اس سے آگے سوچنے کی ہمت نہ ہوئی اور انہیں جھرجھری سی آگئی …. اگر ریاض صاحب نے صبح آنے کو نہ کہا ہوتا تو وہ کب کے تالا ڈال کر اس فلیٹ سے نکل بھاگے ہوتے ۔ شکر ہوا کہ ریاض صاحب جلد ہی آگئے۔ صابر صاحب کا اڑا ہوا رنگ دیکھ کر بولے:’’میاں !خیریت تو ہے …. یہ چہرے پہ بارہ کیوں بج رہے ہیں…. کیا رات ٹھیک سے نیند نہ آئی؟‘‘
’’نیند!! ارے جناب گولی ماریں نیند کویہاں تو ساری رات جان پہ بنی رہی…. رات بھر کوئی ’کالی بلا‘ میری چادر گھسیٹتی رہی اور صبح کو میرے باتھ روم میں کوئی ’آسیب‘ نہاتا رہا….. سنا آپ نے!!‘
’کیا!!‘ ریاض صاحب بھونچکا رہ گئے۔ جب صابر صاحب نے پوری تفصیل بتائی تو قہقہہ مار کے بولے: ’’خوب! میاں تم بھی بڑے وہمی نکلے مجھے بھی ڈرا کر رکھ دیا….. میں تمھیں بتاتا ہوں کہ قصہ کیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ….. ‘‘
ابھی ریاض صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک انتہائی باڈی بلڈر قسم کا بلی کے سائز کا چوہا بھاگتا ہوا آیااور ان کے پیروں کو پھلانگتا ہوا نالی میں غائب ہوگیا۔
’’یہ چوہا ہے اور یہی وہ آسیب اور بلا ہے جس سے آپ رات بھر ڈرتے رہے!‘‘
دراصل ان چوہوں نے ہماری نالیوں کے نیچے زمین دوز فلیٹس تعمیر کر رکھے ہیں….. بڑے انجینئر ہوتے ہیں یہ بھی!!‘‘ انہوں نے فخریہ لہجہ اختیار کیا۔
’’اچھا !!‘‘ صابر صاحب نے سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔’’لیکن چوہوں کے زمین دوز فلیٹس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں….میں ان بلوں میں سیمنٹ بھروا کر سارے چوہوں کو انڈر گراؤنڈ ہونے پہ مجبور کردوں گا۔‘‘
’’آہا!!‘‘ ریاض صاحب چہکے۔ ’’آپ ایک جگہ سے سیمنٹ بھروائیں گے تو یہ دوسری جگہ سے نکل آئیں گے۔ یہ بڑی زور آور اور ذہین مخلوق ہیں۔‘‘ انہوں نے چوہوں کی ایسے تعریف کی جیسے اپنے بچوں کی کررہے ہوں۔
’’چوہے جتنے بھی ذہین ہوں…. لیکن میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے فلیٹ کا ایڈوانس لینے سے قبل مجھے آگاہ کیوں نہ کیا کہ یہاں چوہوں کی ’ہاؤسنگ سوسائٹی‘ بھی موجود ہے، اور مجھے فلیٹ چوہوں کے ساتھ شیئر کرنا پڑے گا….‘‘
’’آپ نے پوچھا کب تھا؟ آپ نے صرف بجلی، پانی اور گیس کا پوچھا تھا۔ اگر آپ پوچھتے کہ چوہے ہیں تو میں بتادیتا کہ وہ بھی ہیں رات کو تو پورے فلیٹ پہ ان کا قبضہ ہوتا ہے۔‘‘
’’یہ تو ظلم ہے مجھے چوہوں سے سخت نفرت ہے اور وہ بھی بلی کے سائز کے چوہے!! یہ تو آدمی کو کھاجائیں۔‘‘
’’آہستہ بولیں! چوہے بڑی حساس مخلوق ہیں اگر انہوں نے آپ کے خیالات سن لیے اور مائنڈ کر گئے تو رات کوآپ کے سارے خیالات ٹھیک کردیں گے!‘‘ ریاض صاحب کا لہجہ خاصا دھمکی آمیز تھا۔
’’ہونہہ اگر یہ ایسے ہی حساس ہیں تو پھر اتنے فضول فلیٹ میں کیسے رہ رہے ہیں؟ کہیں اور کیوں نہیں جابستے ! براۂ مہربانی، آپ میر ایڈوانس واپس فرمادیجیے۔ میں اس فلیٹ میں ہرگز نہیں رہ سکتا اور ٓٓآپ کو شرم آنی چاہیے…. آپ میرے مقابلے میں مسلسل چوہوں کی سائیڈ لے رہے ہیں۔‘‘ صابر صاحب تقریباً روہانسے ہوچکے تھے۔ 
’’مگر میاں صاحبزادے یہ چوہے بے ضرر ہیں۔ اول تو آپ ان کے سائز کے متعلق مسلسل مبالغے سے کام لے رہے ہیں یہ چوہے بلی کے برابر نہیں زیادہ سے زیادہ گدھ کے برابر ہوں گے اور آپ کا دوسرا خیال بھی غلط ہے کہ یہ آدمی کو کھاسکتے ہیں بہت ہواتو یہ پاؤں کا انگوٹھا یا چھنگلی کتر لیتے ہیں اور بس اس کے علاوہ صابن ان کی کمزوری ہے۔ بہت شوق سے کھاتے ہیں آپ صابن چھپاکر رکھیں تاکہ یا نالی میں نہ گھسیٹ کر لے جائیں۔ رات کو کبھی کبھار چادر گھسیٹے ہیں چار پائی نہیں لہٰذا بے فکر ہوکر سوتے رہیے۔ آپ تو ناحق اندیشہ بدگمانی میں مبتلا ہیں اور رائی کا پہاڑ بنارہے ہیں…. اور ہاں ایڈوانس تو اب واپس نہیں ہوسکتا …. اگر آپ کو چوہے، میرا مطلب ہے…. فلیٹ پسند نہیں تو ایڈوانس ضبط ہوجائے گا۔‘‘
صابر صاحب اسم بامسمّی تھے لہٰذا محض خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے اور اپنا سامان سمیٹ کر چل پڑے…. کہاں؟ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے …. ان ہی کے پیچھے ریاض صاحب بھی فلیٹ سے نکل پڑے…. نئے کرایے دار کی تلاش میں!!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top