مینڈک
خواجہ حسن نظامی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برسات ہو چکی۔جنگل میں جگہ جگہ بھرا ہوا پانی سُوکھ گیا۔بڑے بڑے تالاب بھی چھوٹے چھوٹے ہو گئے۔اب پانی میں رہنے والے مینڈک پردیس جاتے ہیں۔کچھ خبر بھی ہے کہ اُن کا پردیس کہاں ہے؟
سُنو!ہم تمھیں بتاتے ہیں:
جب سردی کا موسم آتا ہے تو مینڈک زمین کے اندر گھُس جاتے ہیں یا بڑے بڑے پتھروں کے نیچے چُھپ کر بیٹھ رہتے ہیں۔اس سے ان کو سردی نہیں ستاتی،کیوں کہ سردی کے موسم میں زمین کے اندر سردی ہوتی ہے۔اور جب سردی کا موسم گُزر جاتا ہے ۔گرمی شروع ہوتی ہے تو اللہ میاں زمین کے اندر ٹھنڈک کر دیتے ہیں،اور مینڈک گرمی کی دُھوپ سے لُوسے بچے ہوئے چُپ چاپ پڑے رہتے ہیں۔جہاں برسات شروع ہوئی اور مینہ برسااور مینڈک اپنے پردیس سے گھر کو آئے۔پھر جہاں دیکھومینڈک صاحب اُچھلتے کُودتے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔رات کو تالابوں اور جنگل میں پانی کے جو ہڑوں پر بیٹھ کر وہ ایسا زور شورسے ٹّراتے ہیں کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی۔
برسات کے دنوں میں تو تم نے اکثر دیکھا ہو گا،کہ چھوٹی چھوٹی مینڈکیاں راستوں میں اُچھلتی دوڑتی پھرتی ہیں۔یہ بارش کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہیں۔
اب برسات ختم ہوئی۔سردی آئی۔اور مینڈک پردیس چلے۔تو اُنھوں نے ایک جلسہ کیااور سب مینڈک ایک مکان میں جمع ہوئے جہاں کرسیاں بچھائی گئیں،اور ایک ایک کرسی پر ایک ایک مینڈک بیٹھ گیا،اور تخت پر ایک کُرسی رکھی گئی،جس کے اُوپر چھتر لگا ہوا تھا۔اس کُرسی پر مینڈکوں کا بادشاہ ایک بڑامینڈک آن کر بیٹھا اور اُس نے سب مینڈکوں سے کہا:
’’اے میرے پیاری رعیّت!آج دربار اس واسطے ہے کہ ہم سب مل کر جنگل میں چلیں اور اپنے پیدا کر نے والے کا شکرانہ ادا کریں،جس نے ساری برسات ہم کو آرام سے رکھا۔تالابوں میں پانی بھرا،جس میں ہم تیرتے غوطہ مارتے،اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ڈورتے پِھرے۔اُسی خدا نے ہم کو کھانا دیا،اور اُسی خدا نے ہم کو پینے کے لیے پانی دیا،اور اُسی خدا نے ہم کو رات بھر گانا گانے کی بے فکری دی۔اب ہم سب پردیس جاتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم سب مل کر خدا کی نعمتوں اور احسانوں کا شکریہ ادا کریں اور اُس سے دعا مانگیں کہ وہ سردی اور گرمی کا زمانہ پردیس میں آرام سے گُزارے۔‘‘اپنی اس ولولہ انگیز اور جوشیلی تقریرکے بعس بادشاہ مینڈک آرام سے بیٹھ گیا۔
بادشاہ مینڈک کی تقریرسُننے کے بعد ایک مینڈک کھڑا ہوااور اُس نے کہا:’’پردیس میں ہم لوگ کھائیں گے کیا؟‘‘
بادشاہ نے کہا:
’’خدا نے اپنے فضل سے یہ بندونست کیا ہے کہ پردیس میں ہم کو بُھوک نہیں لگے گی۔مٹی چاٹ چاٹ کر ہمارا پیٹ بھر جائے گااور کسی دوسری چیز کو کھانے کی ضرورت ہم کو نہ ہوگی۔‘‘
یہ بات سُن کر سب مینڈکوں نے خُوشی کا نعرہ لگایا اور’’خدا کا لاکھ احسان،خدا کا لاکھ شُکر‘‘کہنے لگے۔
دربار بر خاست ہوا،تو سب مینڈک جنگل میں جمع ہوئے۔کسی کے سر پر تُرکی ٹوپی تھی ،کسی کے سر پر عمامہ تھا،کسی کے سر پر اہندوانہ گول پگڑی تھی۔کسی کے سر پر پارسی پگڑی تھی،کسی کے سر پر انگریزی ٹوپی تھی۔جنگل میں جا کر یہ سب قطار باندھ کر کھڑے ہوگئے۔اور انھوں نے ہاتھ جوڑ کر خدا کا شُکر انہ اداکیا۔اور پھر وہاںں سے اُٹھ کر اپنے اپنے سُوراخوں میں چلے گئے جو اُن کے پردیس جانے کا راستہ تھا۔تم بھی اے بچّو!خدا کا شُکرانہ بھیجا کرو۔جس نے سردی گرمی برسات کی بے شمار نعمتیں تم کو دی ہیں۔۔۔