۱۱ ۔ مدینہ کی جانب ہجرت کی داستان
ڈاکٹر عبدالرؤف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضورﷺ کے متعدد ساتھی مدینہ مُنتقل ہو چکے تھے ۔آپﷺ اپنی ہجرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے انتظار میں ستمبر ۶۲۱ء تک مکّہ میں قیام پذیر تھے ۔آپﷺ کے ساتھ آپﷺ کے دوست حضرت ابو بکرؓ اورچچیرے بھائی حضرت علیؓ بھی موجُود تھے ۔
ٹاؤن ہال میں تاریخی سازش
اکابرِ قریش کی شدید مخالفت کے باجود آپﷺ کی مقبولیت بڑھتی ہی چلی گئی تو اُن کے غم وغصّہ کی انتہا نہ رہی ۔تنگ آ کر اُنھوں نے قصی بن کلاب کے گھر اعلیٰ سطح کا ایک ہنگامی اجلاس بُلا لیا۔قصی کا گھر ٹاؤن ہال کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔یہاں اہم اُمور پر فیصلے ہوتے تھے ۔اُس تاریخی اجلاس میں قریش کے تمام سر کر دہ لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ابلیس بھی ایک عقلمند بُوڑھے کا بھیس بدل کر اجلا س میں شرکت کے لیے چلا آیا ۔جب منتظمین نے اُس سے پُوچھا کہ ’’تم کون ہو؟‘‘تو وُہ بولا:’’میں سامنے کے پہاڑوں پر رہتا ہُوں ۔سُنا تھا یہاں کوئی ضرور ی اجلاس ہو رہا ہے ۔سوچا میں بھی شامل ہو تا چلوں۔شاید کوئی مفید مشورہ دے سکوں ۔‘‘اس پر اُسے شرکت کی اجازت دے دی گئی ۔
اجلاس کی کارروائی شُروع ہُوئی ۔بڑی گرما گرم تقریریں ہُوئیں ۔مقرّرین نے کہا محمدﷺ قریش کے لیے ایک بے حد تشویشناک خطرے کا رُوپ دھار چکے ہیں ۔شرکاءِ اجلاس کو بتایا گیا کہ محمّدﷺ کو ٹھکانے لگانے کے لیے ٹھوس تجاویز پر غور ہو گا۔
عمر قید،جلاوطنی اور فوری قتل
اجلاس میں تین اہم تجاویز زیرِبحث آئیں :
اوّل : آپﷺ کو زنجیروں میں جکڑ کر زندگی بھر کے لیے محبوس کر دیا جائے ۔
دوم: جلاوطن کر دیا جائے ۔
سوم : فوراًقتل کر دیا جائے ۔
زنجیروں میں جکڑ کر قید کا منصوبہ پیش کرنے والوں نے کہا کہ اس سے آپﷺ اور آپﷺ کا سارامشن ختم ہو جائے گا،مگر ابلیس نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ جب مسلمانوں کو اس کا علم ہو جائے گاتو وہ کسی نہ کسی طرح آپﷺ کورہا کروا لیں گے ۔اور یوں قریش کاوقار پھر خطرے میں پڑ جائے ۔چنانچہ یہ تجویز مسترد کر دی گئی ۔
جلا وطنی کے منصوبہ والوں نے کہا کہ حضورﷺجب ایک بار لوگوں سے دُور اور آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تو مسلمان انھیں فراموش کر دیں گے اور قریش بھی سُکھ چین کا سانس لے سکیں گے ۔ابلیس نے اس تجویز کی بھی مخالفت کی ۔اُس نے کہا کہ حضورﷺکی ساحرانہ شخصیّت ،مؤثّر اندازِ خطاب اور رُوحِ اسلام کی داخلی قوّت کی وجہ سے وہ جہاں بھی جائیں گے اُن کے اِرد گرد مدّاحوں کے ہجوم اکٹھّا ہونا شروع ہو جائیں گے ۔بُہت ممکن ہے کہ اپنی جلاوطنی کے دوران وُہ اتنے پیروکار اکٹھّے کر لیں کہ ایک دِن حملہ آور ہو کر قریش کے اقتدارکوہی تہس نہس کر دیں ۔جلا وطنی کا منصُوبہ بھی مسترد ہُوا۔
قتل کے لیے اِبلیس کی تائید
جب عمر قید اور جلاوطنی کے منصُوبے مستردہو چکے تو اَبو جہل نے کہا کہ اُس نے حضور ﷺکو ٹھکانے لگانے کا ایک قابل عمل منصوبہ بنا یا ہے ۔اپنے خطر ناک منصوبے کی تفا صیل بتاتے ہُوئے اُس نے کہا کہ ہر قبیلہ ایک ایک جنگجو نوجوان چُن لے ۔ان منتخب نوجوان کو تیروں اور تلواروں سے مسلّح کر دیا جائے ۔ پھر یہ مسلّح دستہ یک لخت حضورﷺپر ٹوٹ پڑے اور اُن کا فوری خاتمہ کر ڈالے ۔اِس طرح قتل کی ذمّہ داری کسی ایک فرد یا قبیلے پر عائد نہ ہو سکے گی ۔کیونکہ اس میں سارے قبائل مجموعی طور پر ملوّث ہوں گے ۔ حضور ﷺکے خاتمہ کے بعد مسلمان قریش کے تمام قبائل سے نمٹ نہ سکیں گے اور بالآخر خون بہا ادا کرنے سے معاملہ رفع دفع ہو جائے گا ۔
ابو جہل کی تقریر سے اِبلیس کے چہرے پر مسکراہٹیں پھیل گئیں ۔وہ بے اختیار بول اُٹھا :’’یہ شخص ٹھیک کہتا ہے ۔میرے خیال میں یہی صحیح طریقِ کار ہے۔‘‘چنانچہ فوری قتل کا ناپاک منصوبہ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ۔جس کے بعد وہ تاریخی اجلاس ملتوی ہُوا اور تمام مندوبین نہایت سکون ،اطمینان اور مسرّت سے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔
دُشمن کے نرغے سے فرار
اجلاس کے بعد قریش کے عیّار اکابر قتل کے منصُوبہ کی فوری تعمیل میں مصرُوف ہو گئے ۔چنانچہ حضورﷺکوٹھکانے لگانے کا طریقِ کار وضع کر لیا گیا ۔فیصلہ یہ ہُوا کہ اُس رات قتل میں حصّہ لینے والے نوجوانوں کا مسلّح دستہ حضور ﷺکے مکان کے اِردگرد پہرے پر بٹھا دیا جائے تا کہ حضورﷺبھاگنے نہ پائیں اور جب آپﷺ سو جائیں تو آپﷺ کا کام تما م کر دیا جائے ۔
اِدھر جبرئیل ؑ حضورﷺکے پا س تشریف لائے اور آپ ﷺ سے کہا کہ ’’آپﷺ آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں ۔‘‘حضورﷺنے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لیٹ جانے کو کہا اور اُن پر اپنی وہ سبز چادر ڈال دی جو آپﷺ عموماًاوڑھ کر سویا کرتے تھے ۔پہرے دار یہ سمجھتے رہے کہ آپ ﷺاپنی چادر اُوڑھے محوِخواب ہیں ۔اِسی اثنامیں آپﷺ چُپکے سے مکان سے باہر نکل گئے ۔
صبح جب حضرت علیؓ نے جسم سے چادر سر کائی تو حضورﷺکی بجائے آپؓ کو دیکھ کر پہرہ دار ہکّے بکّے رہ گئے ۔چونکہ حضرت علیؓ کم عمر تھے اس لیے اُنھیں ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑدیا گیا اور حضورﷺ کی تلاش شُروع ہُوئی ۔
سفرِہجرت کی تیّاریاں
حضورﷺ چُپکے چُپکے حضرت ابو بکرؓ کے گھر جاپہنچے ۔اسی دورا ن آپﷺ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کاحُکم بھی موصول ہوچکا تھا۔جب آپﷺ نے ابو بکرؓ کو اپنے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تو خوشی کے آنسوؤں سے اُن کی آنکھیں ترہو گئیں۔چنانچہ دونوں نے مِل کر مکّہ سے مدینہ تک ہجرت کے سارے سفر کا منصوبہ طے کر لیا ۔فیصلہ یہ ہُوا کہ آپ ﷺپہلے مکّہ سے باہر واقع غارِثور میں کُچھ عرصہ قیام کریں اور پھر وہاں سے اُونٹوں پر سوار ہر کر ساحلی راستوں سے ہوتے ہُوئے مدینہ کی جانب چل نکلیں ۔
حضرت ابو بکرؓ نے دو اُونٹ پہلے ہی سے خرید کر کسی محفوظ جگہ رکھے ہو ئے تھے ۔حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ لوگوں کی جمع شدہ امانتیں واپس کرنے کے بعد ہی مکّہ سے روانہ ہوں ۔دونوں دوست چُپکے چُپکے مکّہ سے باہر نکلے اور کوہِ ثور جا پہنچے ۔مکّہ چھوڑنے سے پہلے حضرت ابو بکرؓ یہ انتظامات مکمّل کر چکے تھے :
(۱) اُنھوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کے ذمّے یہ کام سونپ دیا تھا کہ وہ مکّہ کے گلی بازار میں لوگوں کی باتیں سُنے اور اُنھیں غارِثور میں آپ ﷺتک پہنچا تا رہے ۔
(۲)اپنے آزاد شدہ غلام عامر بن فہیرہ کو ہدایت تھی کہ وُہ ابو بکرؓ کے گلّہ کو حسبِ معمول مکّہ کے چرواہوں کے ساتھ چراتا رہے اور غارِثور میں قیام کے دوران دُودھ اور گوشت مہیّا کرتا رہے ۔
(۳)اپنی بیٹی اَسما کو حکم تھا کہ وہ رات کی تاریکی میں غار میں کھانالاتی رہے ۔
اِن انتظامات سے مقصود یہ تھا کہ آپﷺ کو غارِثور میں کفّار کی سرگرمیوں کی باقاعدہ اطّلاع ملتی رہے اور کھانے پینے کی تکلیف بھی نہ ہو۔
غارِثور میں تین دِ ن
۱۳ستمبر ۶۲۱ء کو جب دونو ں دوست کوہِ ثور پہنچے تھے تو حضور ﷺکے پاؤں میں جُوتا نہ تھا۔غارِثور کے اِرد گرد بکھرے ہُوئے پتھروں سے آپﷺ کے تلوے چھلنی ہونے لگے تو ابو بکرؓ نے آپﷺ کو اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور غار کے دہانے پہنچ کر نیچے اُتار دیا ۔پھر ابو بکرؓ اس بات کی تسلّی کے لیے پہلے خود غارکے اندر داخل ہوئے کہ اُس میں کوئی سانپ یا جنگلی جانور نہ ہو ۔دونوں نے غار میں تین روز قیام کیا۔
اِسی دوران دُشمن کو پتہ لگ چکا تھا کہ حضورﷺاُن کے نرغے سے نکل چکے ہیں ۔چنانچہ بڑے زوروشور سے آپﷺ کی تلاش شُروع ہُوئی ۔کچھ لوگ آپﷺ کے تعاقب میں غار کے دہانے تک بھی پہنچ گئے ۔اِس پر ابو بکرؓ بُہت مضطرب ہُوئے تو آپﷺ نے فرمایا :’’گھبراؤ مت ۔اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘حقیقت یہ تھی کہ قدرت بھی اُن کی حفاظت کر رہی تھی ۔ایک مکڑے نے غار کے مُنہ پر جا ل بُن دیا تھا۔قریب ہی ایک جنگلی فاختہ نے گھونسلہ بنا کر انڈے بھی دیے ہُوئے تھے ۔چنانچہ جب تعاقب میں اُدھر آنے والے جال اور گھونسلہ دیکھتے تو انھیں یقین ہو جاتا کہ اس قدر ویران جگہ میں کسی اِنسان کا چُھپنا ممکن نہیں ۔اس لیے وہ آپ کی تلاش میں دوسری سمتوں کی جانب نکل جاتے ۔
اَبو جہل کے ٹولہ کا غیض و غضب
جب قریش کے سردار آپﷺ کا سُراغ لگانے میں ناکام ہُوئے تو اُن کے غیض وغضب کی انتہا نہ رہی ۔اُنھوں نے آپﷺ کی گرفتاری کے لیے ایک سو اُونٹنیوں کے انعام کا فوراًاعلان کر دیا۔بس پھر کیا تھا ۔انعام کے لالچ میں کئی ٹولیاں تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ہر سمت پھیل گئیں ۔
اُدھر ابو جہل چند غنڈوں کولے کر سیدھا ابو بکرؓ کے گھر جا پہنچا اور اسماء سے اپنے والدکے بارے میں پُوچھا۔جب اَسماء نے لا علمی کا اظہار کیاتو ابو جہل سخت بر ہم ہُوا ۔اُس گنوار نے اسماء کے منہ پر بڑے زور سے تھپڑدے مارا۔بے چاری بچی لڑکھڑا کر گِر پڑی اور اس کی بالیاں اُڑ کر دور جا گریں ۔یہ دیکھ کر غنڈے بھاگ کھڑے ہُوئے ۔
قریش کے متعدد افراد اور ٹولے بڑی سرگرمی سے مسلسل تین دن آپﷺ کی تلاش کرتے رہے ۔چوتھے روزدُشمن کا جوش وخروش قدرے ماند پڑتا دکھائی دیتا تھا۔چنانچہ موقع غنیمت جان کر ابو بکرؓ اپنے اُونٹ غار میں لے آئے جو اُنھوں نے کہیں اور رکھوائے ہُوئے تھے ۔ایک اُونٹ پر آپﷺ سوار ہُوئے ۔دُوسرے پر ابوبکرؓ اور اُن کے پیچھے عامر بن فہیرہ بیٹھ گئے ۔دُشمن کی گرفت سے بچنے کے لیے سیدھے راستے کے بجائے پیچ وخم کھاتے ہُوئے لمبے ساحلی راستوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔اِس لیے ایک تجربہ یافتہ رہنما ارکات کی خدمات بھی حاصل کر لی گئی تھیں ۔تمام ضروری انتظامات مکمّل ہو چکے تویہ چھوٹا سا قافلہ دو اُونٹوں پر سوار ہو کر ۱۶ستمبر ۶۲۱ء کو چپکے سے غارِثور سے نکلا اور مدینہ کی جانب رواں دواں ہُوا۔
سفر ہجرت کا آغاز ہوتے ہی مکّہ کے گلی کوچو ں میں ایک جِن کی آواز سُنائی دینے لگی ۔وہ بڑے بلیغ انداز میں چند شعر گا رہا تھا۔جِن خود تو نظر نہ آتا تھا مگر اُس کی آواز صاف سُنائی دیتی تھی ۔اُس کے شعروں میں اشارہ اور کنایہ سے اِس بات کی وضاحت ہوتی تھی کہ ہجرت کے مُسافر اپنی منزل کی جانب بخیرو خُوبی جادہ پیماہیں ۔جن کے اشعار سُن کر حضرت ابوبکرؓ کے گھر والوں کو ساری بات سمجھ آ گئی اور انھوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
انعام کے لالچیوں کا تعاقُب
اِنعام کے لالچ میں جو افراد اور ٹولے آپﷺ کے تعاقب میں رات دِن سر گرداں رہے اُن کے قصّے بے حد دلچسپ ہیں ۔ایک دن سراقہ بن مالک اپنے عزیزو ں کے ہمراہ اپنے گھر کے باہر بیٹھا ہُوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور انتہائی حیرت کے عالم میں کہنے لگا :’’بخدا میں نے تین اُونٹ سواروں کو دیکھا ہے ۔میرا خیال ہے کہ وہ محمدﷺاور اُس کے ساتھی ہی تھے ۔‘‘سراقہ کے مُنہ میں انعام کے لالچ سے پانی بھر آیا ۔مگر اُس نے اُسے آنکھ سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دوسروں کو بھٹکانے کے لیے کہنے لگا۔:’’وہ تو فلاں فلاں تھے جو اپنے کھوئے اونٹ کی تلاش میں تھے ۔‘‘
چالاک سراقہ اندر ہی اندر تعاقب کے لیے بے چین ہو رہا تھا ۔ مگر وہاں موجود لوگوں کے شک و شبہ سے بچنے کے لیے وہ کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا ۔پھر چُپکے سے گھر کے اندر داخل ہُوا ۔اپنا گھوڑا تیار کیا ۔پچھلے کمرے سے ہتھیار نکال کر مسلح ہُوا اور فال نکالنے والے تیر بھی ساتھ رکھ لیے۔روانگی سے پہلے اُس نے تیروں کی فال نکالی تو جو تیر نکلا اُس پر لکھا تھا :’’اُسے گزند مت پہچاؤ۔‘‘سراقہ کو یہ فال ناگوار گزری ۔فال دہرائی گئی تو دُوسری بار بھی وہی تیر نکلا ۔سراقہ بُہت مایوس ہُوا ۔عربوں کے مر وجّہ دستور کے مطابق اُسے تعاقب کا ارادہ فوراًترک کر دینا چاہیے تھا۔مگر سو اُونٹوں کے لالچ نے اُسے اندھا کر دیا تھا۔اُس نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ہوا سے باتیں کرنے لگا۔
سراقہ کی بد قسمتی
سراقہ کا تیز رفتار گھوڑا سر پٹ دوڑے جا رہا تھا ۔راستے میں گھوڑے کے پاؤں اچانک لڑ کھڑائے اور وہ زمین پر آرہا ۔اِسے غیر معمولی بد شگونی تصوّر کرتے ہُوئے اُ س نے پھر تیروں کی فال نکالی ۔اس مرتبہ پھر وُہی تیر نکلا :’’اسے گزند مت پہنچاؤ۔‘‘سراقہ اِنعا م کے لالچ میں دیوانہ ہو چکا تھا ۔اُس نے گھوڑا پھر سر پٹ دوڑایا ۔ابھی تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی اور زمین پر آ گرا ۔ سراقہ نے فوراًتیروں کے فال نکالی ۔نتیجہ پھر وہی نکلا ۔مگر سراقہ نے ہمّت نہ ہاری اور پُورے شدّومد سے تعاقب جاری رکھا۔
تھوڑے وقفہ کے بعد آخر اُسے دُور سے حضور ﷺکا چھوٹا سا اُونٹ قافلہ نظر آ ہی گیا۔اُس کی باچھیں کھِل گئیں ۔اُسے ےُوں محسوس ہُوا جیسے کھیل ختم ہو گیا ہو۔سراقہ گھوڑا سر پٹ دوڑاتا ہُوا بالکل قریب جا پہنچا ۔مگر دفعتاًگھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی ۔اس دفعہ گھوڑا خود بھی زمین پر گر پڑا ۔اور اُس کی اگلی ٹانگیں مٹّی کی موٹی تہہ میں بُری طرح دھنس گئیں ۔زخمی گھوڑے نے مٹّی میں اُلجھی ہُوئی ٹانگیں باہر نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے تو گرد کی ایک موٹی سی دیوار اُوپر اُٹھ کھڑی ہُوئی جس سے حضور ﷺ کا اُونٹ قافلہ سراقہ کی نظروں سے بالکل کٹ گیا ۔
’’تحفُّظ ‘‘کی دستاویز
سراقہ سخت خوف زدہ ہو چکا تھا ۔اُس کے ہوش وحواس درست ہُوئے تو اُس نے ان سب واقعات پر جلدی جلدی غور کرنا شروع کیا۔اَب تو اُسے یقین ہو چکا تھا کہ کوئی غیبی طاقت اُونٹ سواروں کی حفاظت کر رہی ہے ۔اسی اثنامیں گرد کا اُٹھتا ہُوا غبار بیٹھ چکا تھا ۔اور دونوں اُونٹ پھر سے سامنے نظر آ رہے تھے ۔مگر اب سُراقہ کے سر سے انعام کا بھُوت اُتر چکا تھا ۔اُس نے تعاقب کا ارادہ با لآخر ترک کر دیا اور بلند آواز سے بو لا :’’میں فلاں فلاں ہُوں اور آپ ﷺ کو یقین دلاتا ہُوں کہ آپ ﷺ کوکوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا ۔‘‘
حضورﷺنے ابو بکرؓ سے کہا:’’اِسے پُوچھو آخر چاہتا کیا ہے ؟‘‘اس پر سراقہ بولا:’’مُجھے تحفّظ کی ایک د ستاویز چاہیے جو آپﷺ اور میرے درمیان طے ہو۔‘‘حضورﷺنے ابو بکرؓ سے کہا کہ’’اسے یہ تحریر دے دو ۔‘‘چنانچہ ابو بکرؓ کے غلام عامر نے جانور کی ایک ہڈّی (اور بعض کے بقول ٹھیکری یا کاغذ)پر یہ تحریر لکھ دی ۔اور اُسے سراقہ کی جانب پھینک دیا۔سراقہ نے اسے اپنے ترکش میں رکھ لیااور تعاقب ترک کر کے گھوڑے کا رُخ واپس مکّہ کی طرف پھیر دیا۔
راستے کے دِلچسپ واقعات
تعاقب کرنے والوں میں ایک شخص بریدہ اسلمی بھی تھا۔وہ انعام کے لالچ میں اپنے ستّرگھُڑ سواروں کے ہمراہ قسمت آزمائی کے لیے نکلا تھا۔خوش قسمت بریدہ نے انجام کار حضورکی پارٹی کو پا لیا۔مگر جب وہ لوگ آپﷺ کے قریب پہنچے تو آپﷺ کی سحر آفریں شخصیّت اورپُر وقار چہرے سے اس قدر متأثّر ہُوئے کہ اُنھوں نے نہ صرف تعاقب ہی ترک کر دیا بلکہ سب کے سب مسلمان بھی ہو گئے ۔
دُشمنوں کی زد سے بچ بچا کر حضورﷺلمحہ بہ لمحہ منزل کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے ۔راستے میں ایک مقام پر حضورﷺکی ملاقات حضرت زبیرؓ سے ہُوئی ،جو ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے لَوٹ رہے تھے ۔اُنھوں نے آپﷺ اور ابو بکرؓ کی خدمت میں سفید ملبوسات کے تحفے پیش کرنے کی سعادت حاصِل کی ۔
دشمن کی پہنچ سے محفوظ رہنے کے لیے عام راستے کی بجائے ساحل کے ساتھ گزرنے والا طویل اور تکلیف دہ راستہ ارادتاًاختیار کیا گیا تھا ۔اس پُر خطر اور پیچ وخم کھاتے ہُوئے راستہ کی مختلف منزلیں طے کرتے ہُوئے دو اُونٹوں کا یہ چھوٹا سا قافلہ انجام کار بخیریت تمام مدینہ کے نواحی علاقہ میں داخل ہو گیا ۔
مدینہ میں والہانہ اِستقبال
حضورﷺکے مکّہ سے روانہ ہونے کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی ۔آپ ﷺکی آمد کسی روز بھی متوقّع تھی ۔مسلمان آپﷺ کا بے تابی سے اِنتظار کر رہے تھے ۔اُن کے کئی ٹولے ہر روز صبح شہر سے دُور نکل کر آپ کی راہ تکتے تھے ۔اور جب سُورج بُہت تیز ہو جاتا تو مایوس ہو کر واپس لوٹ آتے ۔یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔آخرِ کار وُہ پُرمسرت گھڑی آ پہنچی جس کاسب کو بے تابی سے اِنتظار تھا۔سب سے پہلے ایک یہودی کی نگاہ آپﷺ پر پڑی ۔وُہ بلند آواز سے چلّایا:’’او بنو قیلہ!تمھاری قسمت تو جاگ اُٹھی ہے ۔‘‘سب لوگ آپﷺ کے استقبال کو لپکے ۔آپﷺ اُس وقت تک اُونٹ سے اُتر کر ابو بکرؓ کے ساتھ کھجور کے ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ چکے تھے ۔ہجوم میں سے اکثر لوگوں کو آپﷺ کی پہچان نہ تھی ۔جب سایہ ڈھل گیا تو ابو بکرؓ بصد احترام اُٹھے اور اپنی چادر سے حضورﷺپر سایہ کر دیا۔اس سے سب کو معلوم ہو گیا کہ دونوں میں سے حُضورﷺکون ہیں ؟‘‘
حضورﷺکا سب سے پُرجوش خیر مقدم مدینہ کے مسلمان بچّوں نے کیا۔اُنھیں معلوم تھا کہ حضورﷺکو بچّوں سے بے انتہا محبت ہے۔اُجلے کپڑے زیب تن کیے ،وہ کب کے آپﷺ کے اِنتظار میں بیٹھے تھے ۔جو نہی آپﷺ مدینہ میں داخل ہُوئے ،بچّوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر آپﷺ کا والہانہ استقبال کیااور خوشی کے گیت گائے ۔اُن کے اس معصوم گیت کے پیارے بولوں سے تو سار ی فضا گونج اُٹھی :
جانبِ جنوب کو ہساروں سے ہم پر
چاند چودھویں کا بالآخر طُلوع ہُوا
اُس کے دین و ہدایت کی نعمت کی خاطر
شُکر ہم پر خُدا کا واجب ہُوا
اس ننھّے مُنّے گیت کی سُریلی سُروں سے ساراشہر مسرّتوں سے مہکنے لگا۔ننھّے بچّوں کے جوش و جذبہ سے حضورﷺبے حد مسرُور ہُوئے ۔آپﷺ نے ان سب سے فرداًفرداًہاتھ ملائے ،اُنھیں چُوما،اُنھیں گلے لگایا ،اُنھیں دُعائیں دیں ۔آپﷺ نے اُنھیں یقین دلایا کہ آپﷺ اُن کے ساتھ رہنے ،اُن کے ساتھ کھیلنے اور اُن کی جھولیاں خوشیوں سے بھر دینے کے لیے مدینہ تشریف لائے ہیں ۔