لو سنو کہانی
سعید لخت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں سیکڑوں بیماریاں ہیں۔کھانسی،نزلہ،زکام،بخار،توبہ!کوئی کہاں تک نام گنائے۔مگر ایک بیماری سب سے زیادہ خطرناک ہے اور وہ ہے’’کہانیاں لکھنا۔‘‘
ڈاکٹر کہتے ہیں یہ مرض جس بچے کو لگ جائے تو سمجھ لو کہ وہ گیا کام سے۔پھر وہ نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا۔
ہماری سنیے۔ہمیں یہ مرض اس وقت لگا تھا جب ہم چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔پڑھنے لکھنے کے ہم دھنی تھے۔اسکول کے کام سے فرصت ملتی تو بچو ں کے تمام رسالے اور کتابیں پڑھ ڈالتے۔۔چھٹیاں ہوتیں تو ابا جان کی موٹی موٹی دیمک کھائی ہوئی کتابیں بھی نہ چھوڑتے۔چاہے سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ لاؤ ہم بھی ایک کہانی لکھیں ۔چنانچہ کئی دن کی محنت کے بعد ایک کہانی لکھی۔سوچا پہلے ابا امی کو سنا دیں ۔اگر انہوں نے کہا کہ اچھی ہے تو پھر اسے رسالے میں چھپنے کے لیے بھیج دیں گے۔
سہ پہر کا وقت تھا ۔امی باورچی خانے میں پکوڑے تل رہی تھی ۔ہم نے پاس جا کر کہا ’’امی،امی جان ۔امی پیاری۔‘‘
بولیں’’چلو چلو ابھی مت آؤ۔سب کے ساتھ کھانا۔ابھی تو چائے بھی نہیں بنی۔‘‘
ہم بولے’’ہم پکوڑے کھانے نہیں آئے ہیں،امی۔ہم نے ایک کہانی لکھی ہے۔سنائیں؟‘‘
بولیں’’سناؤ،بیٹے۔‘‘ہم نے حلق صاف کیا اور بولے ’’ایک تھی شہزادی……..‘‘
ہنس کے بولیں’’ماں صدقے ،بیٹے۔کسی نوراں یاپھاتاں کا نام لے۔شہزادیاں تو بہت اونچے محلوں میں رہتی ہیں۔وہاں تک میری پہنچ کیسے ہو گی؟‘‘
ہم مچل کر بولے’’امی،آپ تو ہر وقت مذاق کرتی ہیں ۔ہم سر پھوڑ لیں گے اپنا۔جائیے ،ہم نہیں سناتے۔ہم ابا جان کو سنائیں گے ۔‘‘
ابا جان برآمدے میں بیٹھے اپنا دفتر کا کام کر رہے تھے ۔’’اٹھارہ بیس اٹھائیس ۔اٹھائیس دو تیس ۔تیس دو بتیس ۔بتیس بتیس بتیس۔۔۔۔۔۔۔‘‘
ہم نے بڑے پیار سے کہا ’’ابا جان ،اتنا کام نہ کیا کیجئے ۔آپ کے دماغ پر زور پڑے گا ۔‘‘
چونک کر بولے زور پڑے گا ؟کس پر زور پڑے گا ؟‘‘
’’ابو،آپ کے دماغ پر زور پڑے گا ‘‘ہم نے جھلا کر کہا ۔
بولے’’میرے دماغ پر زور پڑے گا؟کس کا زور پڑے گا؟تیس دو بتیس ۔بتیس۔بتیس۔بتی بتی بتی اگر بتی ۔موم بتی۔لا حول ولا قوۃ۔ بیٹے جاؤ۔سیما کیساتھ کھیلو۔تم نے سب کچھ بھلا دیا ۔‘‘
ہم نے گلے میں باہیں ڈال دیں اور بولے’’ابو کام پھر کر لینا ۔پہلے میری کہانی تو سن لو ۔ایک تھی شہزادی؟‘‘
بولے شہزادی؟کون سی شہزادی ؟‘‘
’’شہزادی کون سی ہوتی ہے ؟‘‘ہم جھنجھلا کر بولے۔ہنس کر بولے’’شہزادی دیکھی ہے کبھی تم نے؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔۔‘‘ہم نے سر ہلا یا۔
بولے’’پھر ایسی چیز کے متعلق تم کیا لکھو گے جسے تم نے کبھی دیکھا ہی نہیں؟اگر لکھو گے تو وہ جھوٹ ہو گا ۔حقیقت کے خلاف ہو گا ۔تیس دو بتیس ،چار چھتیس۔چھتیس دو اڑتیس………..‘‘
ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔سوچا ،چلو،سیما کو سنائیں۔سیما کمرے میں بیٹھی اسکول کا کام کر رہی تھی ۔ہم جا کر تمیز سے بیٹھ گئے۔اس نے سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا اور بڑی بے رخی سے بولی’’فرمائیے ؟کیسے تشریف لائے؟کوئی نئی شرارت سوجھی ہے؟ہاتھ دکھائیے۔کوئی مینڈک وینڈک تو نہیں؟‘‘
ہم نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولے’’سیما بہن،اب میں نے شرارت سے بالکل توبہ کر لی ہے۔کل نہا کے پانچوں وقت کی نماز بھی پڑھوں گا ۔‘‘
بولی’’بڑے نیک۔بڑے پارسا ۔نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔جب دس ہزار شیطان مرے تھے تو آپ پیدا ہوئے تھے۔کل رات خداجانے کہاں سے لا کر میری چارپائی میں کھٹمل چھوڑ دیئے ۔رات بھر نیند نہیں آئی ۔‘‘
’’آئی ایم سوری‘‘ہم جلدی سے بولے’’بات یہ تھی کہ سیما بہن کہ میری چار پائی میں پانچ کھٹمل تھے۔ایک بے چارہ بہت دبلا پتلا تھا ۔اسے میں نے آپ کی چارپائی میں چھوڑ دیا ۔اس نے آپ کو کاٹا ،سیما بہن؟‘‘
’’ کھٹمل کاٹتے نہیں ہیں تو کیا پیار کرتے ہیں ؟وہ منہ چڑا کر بولی’’ساری رات کھجاتے کھجاتے گزر گئی ۔پلک سے پلک نہیں لگی۔چارپائی کوٹتے کوٹتے ہاتھوں میں درد ہونے لگا ۔
’’آئی ایم سوری ۔ویری سوری،سیما بہن۔‘‘ہم بولے’’مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے آپ کو اتنی تکلیف ہوئی۔خدا کے لیے مجھے معاف کر دیجئے۔‘‘
بولی ’’خدا خیر کرے۔آج بہت بھولی بھولی باتیں کر رہے ہیں ۔کوئی خاص مطلب ہوگا ۔کچھ ادھار مانگنے آئے ہوں گے ۔میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ۔
پچھلے ہفتے آپ نے مجھ سے چار آنے لئے تھے۔ایک دن کا وعدہ کیا تھا۔ابھی تک واپس نہیں کئے ۔دنیا بھر کے بھائے بہنوں کو دیتے ہیں ۔آپ کچھ انوکھے ہی بھائی ہیں کہ الٹا بہنوں کو لوٹ لوٹ کر کھاتے ہیں۔‘‘
’’آئی ایم سوری‘‘ہم گردن جھکا کر بولے ’’کل اباجان جیب خرچ دیں گے تو میں آپ کی کوڑی کوڑی لوٹا دوں گا ۔‘‘
بولی’’کل بھی دور نہیں۔دیکھ لیں گے۔مگر کل سے پرسوں ہوئی تو پھر یہ بات خالو جان کے کانوں تک پہنچانا پڑے گی اور پھر آپ’’آئی ایم سوری‘‘کہنا ہمیشہ کے لیے بھول جائیں گے۔اچھا ۔اب جلدی سے فرمایئے،کیا بات ہے؟مجھے اسکول کا کام کرنا ہے۔‘‘
ہم نے جیب میں سے کاغذ نکالا اور بولے’’سیما بہن،میں نے ایک کہانی لکھی ہے۔بڑی مزے دار۔سنو ۔ایک شہزادی………….‘‘
بات کاٹ کر بولی ’’شہزادی؟۔۔۔۔ارے ہاں!ایک بات بتا نا تو بھول ہی گئی آپ کو۔رات میں نے ایک خواب دیکھا تھا ۔بڑا اچھا!‘‘یہ کہہ کر اس نے گھٹنے پر ٹھوڑی رکھی اور آنکھیں میچ کر بولی ’’کیا دیکھتی ہوں کہ ایک نہایت شان دار باغ ہے ۔طرح طرح کے پھول کِھلے ہیں ۔باغ کے بیچو بیچ ہیرے جواہرات کا ایک تخت رکھا ہے۔اس تخت پرایک شہزادی بیٹھی ہے۔چندے آفتاب۔ چندے مہتاب۔ ماتھے پر چاند ۔ٹھوڑی پر تارا۔جانتے ہو وہ شہزادی کون تھی۔۔۔؟‘‘
’’کون تھی۔۔؟‘‘ہم نے جلدی سے پوچھا۔
اس نے ہاتھ گھما کر انگلی سینے پر رکھی اور بولی۔
’’میں اور کون۔۔۔۔۔‘‘
’’ہت تیرے کی‘‘ہم بولے’’پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔۔‘‘بولی’’اِتنے میں نقّارے میں چوٹ پڑی۔کڑم دھم۔
کڑم دھم۔دربانوں نے زور سے پکارا’’با ادب۔با ملاحظہ۔ہوشیار !‘‘سارا باغ نور سے جگمگا اٹھا ۔آسمان سے جگ مگ جگ مگ کرتا ایک اڑن کھٹولا اترا۔اس کھٹولے پر ایک شہزادہ بیٹھا تھا۔جانتے ہو وہ شہزادہ کون تھا؟‘‘
ہم نے ہاتھ گھما کر سینے پر رکھی اور بولے ’’میں۔۔۔اور کون؟‘‘
’’دھت‘‘وہ ہاتھ جھٹک کر بولی’’صورت دیکھی ہے آئینے میں ؟ارے وہ تو پرستان کا شہزادہ تھا ۔اس نے کہا’’ننھی شہزادی!آؤ،میرے اڑن کھٹولے پر بیٹھ جاؤ ۔میں تمہیں پرستان کی سیر کراؤں گا۔میں جھٹ کھٹولے پر بیٹھ گئی اور کھٹولا اڑنے لگا ۔۔۔۔‘‘
آئی ایم سوری ‘‘ہم گھبرا کر بولے’’خالہ جان کہاں تھیں؟‘‘
’’امی؟امی بھی وہیں تھیں ،باغ میں۔‘‘
’’جوتے پہنے تھیں؟‘‘ہم نے پوچھا۔
’’ہاں،پہنے تھے۔کیوں۔۔۔۔؟‘‘
’’تعجب ہے!۔۔۔۔۔پھر کیا ہوا؟‘‘
ُُ’’پھر۔۔۔۔۔۔؟‘‘وہ سوچتے ہوئے بولی ’’کھٹولا اڑا چلا جا رہا تھا ،اڑا چلا جا رہا تھاکہ ایکا ایکی اس کم بخت کھٹمل نے اتنے زور سے کاٹا کہ ہماری آنکھ کھل گئی۔خدا آپ کو سمجھے گا۔ہم تو کچھ نہیں کہتے ۔اچھا اب جائیے۔مجھے کام کرنا ہے۔نہیں تو استانی خفا ہو ں گی۔‘‘‘
ہم بولے ’’مگر سیما بہن ۔وہ کہانی تو یوں ہی رہ گئی۔‘‘
وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر بولی’’ہم نہیں سنتے،نہیں سنتے،ہائے اللہ !ہم رو دیں گے۔دیکھئے خالو جان ،یہ بھائی جان نہیں مانتے ۔اللہ میرے کیا کروں؟‘‘
ہم نے مٹھی بھینچ کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائی اور دانت کٹکا کے بولے’’اب کبھی مجھ سے بات نہ کرنا ۔آج سے تو نہ میری بہن نہ میں تیرا بھائی۔آئی ایم سوری۔‘‘
تن فن ہو کر باہر نکلے۔پرآمدے میں آئے توچائے لگ چکی تھی۔امی بولی۔آؤ بیٹا چائے پیو ۔سیما تو بھی آ۔اپنی امی کو بھی بلا لے۔‘‘
ہم ابا جان کے برابر میں بیٹھ گئے ۔انہوں نے ہما رے سر پر ہاتھ پھیرا،گال تھپ تھپائے اور بولے ’’بیٹے تم ہم سے خفا ہو؟‘‘
ہم منہ لٹکا کر بولے ’’جی نہیں۔۔۔۔سوری!‘‘بولے’’بیٹا تم کس جھنجھٹ میں پڑے ہو؟یہ عمر تعلیم حاصل کرنے کی ہے ۔ابھی تم میں اتنی سمجھ کہاں کہ کہانیا ں لکھو۔جب پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو جاؤ تو پھر کہانیاں کیا ناول لکھا کرنا۔‘‘یہ کہہ کر انہوں نے پکوڑا منہ میں رکھا اور بولے’’بیٹے ہمارا ملک سائنس اور صنعت میں ابھی بہت پیچھے ہے۔اس کو سائنس دانوں ،انجینئر و ں اور کاریگروں کی ضرورت ہے۔میں سوچتا ہوں میرا بیٹا پڑھ لکھ کر یہ بنے گا اور وہ بنے گا مگر۔۔۔۔۔تم نے تو کہانیا ں لکھنا شروع کر دیں۔اب پڑھو گے کیا؟‘‘
ہم نے جیب میں سے کہانی نکال کر پھاڑ دی اور سیما سے بولے’’سیما بہن!یہ لو ۔یہ میرے جگر کے ٹکڑے ہیں ۔انہیں چولھے میں ڈال دو ۔‘‘
سیما بولی۔بہت اچھا ،سعید بھائی۔مگر آپ نے یہ جو دو بسکٹ ،نظر بچا کر،جیب میں رکھ لیے ہیں ،انہیں واپس پلیٹ میں رکھ دیجئے ۔آئی ایم سوری!‘‘