لاڈلا بیٹا
شوکت تھانوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واضح رہے کہ اول تو میں خود صاحب اولاد ہوں۔ دوسرے فطرتاً مجھ کو چھوٹے بچوں پر بہت پیار آتا ہے۔ لیکن حامد کے لڑکوں نے مجھ کو بچوں سے کچھ ایسا متنفر کیا ہے کہ دوسروں کے بچے تو درکنار خود اپنی اولاد سے گھبرانے لگا ہوں۔ حالانکہ خدانخواستہ میرے بچے اس قدر۔۔۔ ناہنجار، اس قدر بدتمیز اور اس قدر نالائق نہیں ہیں۔ مگر جناب دودھ کا جلا میٹھا پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ لہٰذا میں خودبخود اپنے بچوں سے بھی محتاط ہوکر رہ گیا ہوں اور وہ بے تکلفی باقی نہیں رہی ہے جو حامد کے لڑکے کو دیکھنے سے پہلے تھی۔ بلکہ اب میں خود بڑی بوڑھیوں کی طرح اس کا قائل ہوگیا ہوں کہ بچوں کو کھلائے سونے کا نوالہ، مگر دیکھے شیر کی نگاہ۔ لہٰذا چاہے سونے کا نوالہ نہ کھلاؤں مگر شیر کی نگاہ سے دیکھنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتا۔
میں دہلی جب کبھی جاتا تھا۔ حامد کے مکان پر ٹھہرتا تھا، چنانچہ اب کی مرتبہ بھی چار پانچ سال کے بعد دہلی جانا ہوا اور میں حسبِ معمول حامد کے یہاں ٹھہر گیا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ حامد ناکتخدا تھے اور ان کے مکان میں کوئی زنانہ حصہ نہ تھا۔ اس کے بعد وہ زمانہ آیا کہ ان کے گھر کا نصف سے زیادہ حصہ ان کی نصف بہتر نے گھیر لیا اور مکان کے دو حصے ہوگئے۔ یعنی زنانہ اور مردانہ۔ لیکن اب کی مرتبہ میں نے ایک اور اضافہ دیکھا اور وہ یہ تھا کہ حامد بیک وقت دو بچوں کے باپ تھے۔ ایک بچہ 3 سال کا تھا اور دوسرا چھ ماہ کا ماں کی گود میں۔ حامد میرے پہنچتے ہی اس شاعر کی طرح جس نے کوئی تازہ غزل کہی ہو اور سنانے کے لئے بے چین ہو۔ مجھ سے پوچھا۔
’’تم نے میرے بچوں کو دیکھا‘‘۔
میں نے ارمان بھرے چچا کی طرح ہنستے ہوئے کہا ’’ابھی کہاں دیکھا۔ ذرا لا تو سہی دیکھوں کیسے بچے ہیں‘‘۔
حامد لپک کر زنانہ مکان میں گھس گئے اور فوراً ہی چھوٹے کو گود میں لئے ہوئے اور دوسرے کی انگلی پکڑے ہوئے اور داد طلب انداز سے بولے:
’’اس کا نام ہے محمود حامد اور اس کا نام ہے مسعود حامد۔ اس کی عمر ہے 3 سال 2 ماہ 13 یوم 3 گھنٹے اور اس کی عمر ہے 5 ماہ 16 یوم 8 گھنٹے۔ یہ بڑا بدمعاش ہے اور یہ بڑا رونا۔ اس کی صحت ہمیشہ خراب رہتی ہے ، اس کو میں بہت چاہتا ہوں اور اس کو اس کی ماں بہت چاہتی ہیں‘‘۔
میں نے نہایت پیار سے بڑے بچے کو گود میں لے لیا اور اس کی بھی پروا نہ کی کہ میرا سوٹ کیچڑ میں لت پت ہوجائے گا۔ وہ گود میں آتے ہوئے بہت کچھ مچلا اور غصہ میں ایک آدھ ہاتھ بھی مجھ کو رسید کردیا، مگر میں بحیثیت چچا کے اپنی شفقت بزرگانہ سے مجبور تھا۔ اس کو گود میں لے کر پانچ روپے دیئے اور اس کے اس منہ پر پیار کیا، جو ناک اور تھوک سے خوب اچھی طرح لتھڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد چھوٹے بچے کو چمکارا تو وہ ہنس دیا۔ اس کو بھی گود میں لیا اور پانچ روپے اس کو بھی دے کر باپ کی گود میں واپس کردیا۔
حامد اپنے برخوردار نمبر2 کو گھر کے اندر جاکر دے آئے، لیکن ان کے سعادت آثار نمبر ایک ان کی دم کے پیچھے پیچھے تھے، مجھ کو چھوٹے بچوں پر جو پیار آتا ہے وہ حامد کے بڑے لڑکے پر نہیں آرہا تھا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نہایت گندہ تھا۔ مگر اس کے باوجود میں نے رسمی طور پر حامد سے کہا کہ ’’ماشاء اللہ بڑے پیارے بچے ہیں۔ خدا ان کی عمر دراز کرے اور ان کو صاحبِ اقبال کرے‘‘۔ یہ سننا تھا کہ حامد باغ باغ ہوگئے اور فوراً بولے ’’ابھی یہ محمود میاں آپ سے بے تکلف نہیں ہوئے ہیں۔ جب یہ آپ سے ہل جائیں گے، اس وقت دیکھیے گا کہ کیسی دوستی بگھارتے ہیں۔ عجیب عجیب تماشے کرتا ہے یہ لڑکا اور اس قدر ذہین ہے ماشاء اللہ کہ سب کو تعجب ہوتا ہے۔ جو بات آپ ایک مرتبہ اس سے کہہ دیں ہمیشہ یاد رہے گی۔ جب میں دفتر سے واپس آتا ہوں تو اپنی ماں کی شکایتوں کا دفتر کھول کر بیٹھ جاتا ہے اور میری عدم موجودگی میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی مفصل رپورٹ مجھ کو سناتا ہے۔ ابھی آپ نے ان کے تماشے تو دیکھے ہی نہیں‘‘۔
میں ان معجزات کو سُن سُن کر ہنس رہا تھا اور مصنوعی پیار کے انداز سے اس اگھوری بچے کی طرف دیکھ رہا تھا اور دراصل اس گندگی میں اس کا قصور بھی نہ تھا، بلکہ یہ تو ان بدتمیز والدین کا قصور تھا جو اس طرح اپنے کو اولاد کے معاملے میں نااہل ثابت کررہے تھے اور بچہ کی اس گندگی سے خود ان کی نفاست کے جوہر کھل رہے تھے۔
حامد نے اس گھناؤنے بچے کو نہایت محبت سے بدتمیزی کے ساتھ اپنی گود میں چڑھالیا اور نہایت فخر کے ساتھ بولے۔
’’بیٹا ذرا چچا کو چونچ تو دکھادو‘‘۔
صاحبزادے نے اپنے ایک ہاتھ کی تمام انگلیوں کو جوڑ کر مجھ خاکسار کو چونچ دکھائی اور میں اس عزت افزائی پر ہنس کر خاموش ہوگیا۔ حالانکہ اگر میرے بچے نے یہ بدتمیزی کی ہوتی تو سر سے اونچا اُٹھا کر ایسے زور سے پٹختا کہ چھٹی کا دودھ یاد آجاتا۔ میں ابھی دل میں اس بدتمیزی پر کھول رہا تھا کہ حامد نے پھر اپنے ہونہار سعادت آثار طولعمرہ سے فرمایا۔
’’او بیٹا ذرا چچا کو منہ تو چڑھادو۔۔۔ بڑا اچھا بیٹا۔۔۔ ہاں کیسے؟‘‘
اس بدتمیز لڑکے نے میری طرف منہ کرکے دانت نکالے اور نہایت مکروہ صورت بنا کر کہا۔ ای ای۔ ی ی ی‘‘۔
میرا دل ہی تو جل گیا۔ مگر کیا کرتا مجبور تھا۔ اگر حامد کو یہ مشورہ دیتا کہ بچے کو اس قسم کی بدتمیزی نہ سکھاؤ تو اندیشہ تھا کہ وہ بُرا مان جائیں گے۔ لہٰذا میں مصنوعی تبسم کے ساتھ خاموش رہا اور حامد نے اپنے تمیزدار صاحبزادے کی اس حرکت پر محبت کے مارے اس کو گود میں بھینچ لیا اور چٹا چٹ پیار کرنے کے بعد کہنے لگے۔
’’اور بیٹا چچا جان کو وہ نہیں کہوگے جو مجھے اور اپنی امی کو کہتے ہو۔۔۔ دیکھو پھر چچا جان مٹھائی دیں گے‘‘۔
صاحبزادے نے اٹھلاتے ہوئے فرمایا ’پادل (پاگل)‘‘۔
والد صاحب نے بے صبری سے کہا ’’اور ۔۔۔ اور‘‘۔
بلند اقبال نے فرمایا ’’بے قوف (بے وقوف)‘‘۔
ہم اس وقت وہ ہنسی ہنس رہے تھے جس کو عرف عام میں کھسیانی ہنسی کہتے ہیں۔ لیکن دل کے اندر کی کیفیت یہ تھی کہ اس موذی بھتیجے کو گولی مار دینے کے لئے دل چاہتا تھا۔ اگر کوئی برابر والا یا کوئی ہم سے بڑا اس طرح توہین کرتا تو فوجداری کا ایک نہایت سنگین مقدمہ تیار ہوسکتا تھا۔ مگر اس ٹانگ برابر کے چھوکرے نے کچھ اس طرح عزت و آبرو پر پانی پھیر کر ہماری ناک کاٹی تھی کہ ہم کو سنجیدہ پیشانی دفعہ پانچ سو تعزیرات ہند والی حرکت کو زہر کے شربت کا گھونٹ بنا کر پینا پڑا اور صرف یہی نہیں بلکہ اندیشہ تھا کہ چونچ دکھانے منہ چڑھانے اور گالیاں دینے کے بعد اب صرف یہ باقی رہ گیا تھا کہ میاں حامد بتوسل صاحبزادہ بلند اقبال مجھ کمبخت مہمان کی تواضع جوتوں سے کرتے۔ مگر خیریت یہ گزری کہ برخوردار نور چشم راحت جان کو حاجت محسوس ہوئی اور وہ اس ضرورت سے گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ ادھر ہم نے بھی موقع غنیمت جان کر کپڑے پہنے، چھڑی اُٹھائی اور جس کام کے لئے حاضر ہوئے تھے۔ اس کو انجام دینے کے لئے باہر چلے گئے۔
میں جس خاص ضرورت سے دہلی حاضر ہوا تھا وہ کم سے کم پانچ دن میں پوری ہوسکتی تھی۔ لہٰذا میں ایک ہفتے کی چھٹی پر تھا۔ مگر اس کو کیا کیا جائے کہ آج تمام دن کی مصروفیت کے باوجود میرا کام نہ ہوسکا اور دن بھر کی پریشانی کے بعد دوسرے دن کی اُمید پر شام کو گھر واپس آگیا۔ حامد میرا انتظار کررہے تھے۔ دن بھر کی مصروفیت کے تمام حالات سننے کے بعد آپ گھر میں تشریف لے گئے اور وہاں سے اسی نابکار بدنہار لڑکے کو اپنے اوپر سوار کرکے لے آئے۔ جس سے سچ تو یہ ہے کہ میں بجائے نفرت کرنے کے اب ڈرنے لگا تھا۔ حامد نے آتے ہی کہا۔
’’اب چچا جان سے معافی مانگو، نہیں تو ہم نہیں جانتے وہ خفا ہو کر چلے جائیں گے اور تمہارے کانوں کے بیچ میں سر کرکے تمہارے منہ پر ناک لگادیں گے‘‘۔
میں نے ارادہ کیا کہ اس معذرت خواہی کی وجہ دریافت کروں، مگر معلوم نہیں کیوں ڈر گیا۔ بہرحال صاحبزادے نے باپ کو ایک دھول رسید کرتے ہوئے فرمایا ’’ایں، ہم نہیں، اوں‘‘۔
حامد نے پھر کہا ’’اچھا تو تم ہاتھ نہیں جوڑوگے؟‘‘
اب میں نے مجبور ہوکر پوچھا ’’آخر کیوں اس غریب کو مجرم بنا رہے ہو۔ جانے دو گھر میں کھیلے‘‘۔
حامد نے کہا ’’نہیں صاحب اس نے آپ کا بڑا نقصان کیا ہے۔ اول تو آپ کا تھرماس اُٹھا کر پھینک دیا جو چکنا چور ہوگیا۔ دوسرے آپ کا ہینڈ بیگ اُٹھا کر نالی میں ڈال دیا تھا۔ وہ تو کہیے کہ میں پہنچ گیا، ورنہ ہینڈ بیگ خدا جانے کدھر بہہ جاتا‘‘۔
یہ سُن کر میں سناٹے میں آگیا۔ مگر سولہ روپے کے تھرماس کی شہادت اور قیمتی چمڑے کے ہینڈ بیگ کی اس درگت کے باوجود رسوم و قیود زمانہ کے ماتحت مجھ کو کسی ناگواری کا اظہار نہ کرنا چاہئے تھا، لہٰذا میں نے اسی کی بہ مشکل تمام کوشش کی، حالانکہ میرا دل چاہتا تھا کہ خوب چیخ چیخ کر روؤں مگر میں نے صرف یہی کہا۔
’’بچہ ہے‘‘۔
حامد نے کہا ’’بچہ ہے۔ ایسا بھی کیا بچہ؟ اگر ابھی سے تمیز نہ سیکھیں گے تو ہمیشہ یہی بدتمیزیاں رہیں گی‘‘۔
حالانکہ وہ لڑکا بدتمیزیاں سیکھ نہیں رہا تھا، بلکہ اس سلسلے میں فارغ التحصیل ہوچکا تھا۔ بہرحال میں نے اس ناخوشگوار سلسلے کو یہیں پر ختم کرکے کھانا مانگا۔ یہ واقعہ ہے کہ اس تکلیف دہ حادثے نے دن بھر کے فاقے کے بعد بھی بھوک باقی نہ رکھی تھی۔ مگر صرف یہی ایک طریقہ تھا کہ اس خونخوار ظالم لڑکے سے نجات مل سکے۔ میں نے کھانا وانا تو خیر یونہی سا کھایا۔ البتہ مسلسل اور متواتر غم کھا رہا تھا۔ دستر خوان سے اُٹھنے کے بعد درد سر کا بہانہ کرکے کلیجہ تھام کر لیٹ رہا اور تمام رات اپنے پیارے تھرماس کی رحلت کے مناظر دیکھتا رہا اور ہینڈ بیگ بھی نالی میں تیرتا ہوا نظر آیا۔ مگر جیسے ہی خواب میں اپنے اس پیارے بھتیجے کو دیکھا۔ میں یکایک اُچھل پڑا۔ آنکھ کھل گئی۔ صبح ہوچکی تھی اور میں اس خوفناک خواب کی وجہ سے اختلاجِ قلب میں مبتلا تھا۔
چائے سے فارغ ہوکر میں نے پہلے تو نہایت احتیاط سے اپنا تمام سامان مقفل کیا اور اس کے بعد اپنے کام سے چلا گیا۔ آج بھی ۔۔۔ اتفاق سے تمام دن مصروف رہنا پڑا۔ مگر شکر ہے کہ آج کی مصروفیت کل کی طرح بالکل ہی ناکام تو نہیں رہی۔ البتہ یہ اُمید ہوگئی کہ دو تین دن میں مقصد پورا ہوجائے گا۔
دن بھر کی مصروفیت کے بعد تھکا ہارا حامد کے مکان پر پہنچا تو حامد صاحب اُسی کمرے میں جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ بیٹھے ہوئے اخبار پڑھ رہے تھے اور ان کے صاحبزادے جن سے میری روح کانپتی تھی۔ میرے بستر پر بیٹھے ہوئے پان چبا چبا کر چادر اور تکیوں کو منقش کرنے میں مصروف تھے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو میری بیوی کا نہایت محنت اور محبت سے بنایا ہوا تکیہ کا غلاف پان کی پچکاری سے رشک اُگالدان بنا ہوا تھا اور چادر پر معلوم ہوتا تھا کہ کانپور کا ہنگامۂ خونیں برپا ہوا ہے۔ میں نے دیکھتے ہی بجائے بے ہوش ہوکر گرنے کے کہا ’’ارے؟‘‘
حامد نے کہا ’’کیا ہوا؟‘‘
میں نے کہا ’’اس نے تمام بستر پر پان کھا کر خوب تھوکا ہے‘‘۔
حامد نے مصنوعی غصے سے کہا ’’کان پکڑ کر ایک تھپڑ دو‘‘۔
میری بھلا کیا مجال تھی کہ میں یہ گستاخی کرتا۔ مگر شاید ان ہونہار صاحبزادے کو یہ شبہ ہوا کہ میں واقعی تھپڑ مار دوں گا۔ لہٰذا انہوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر اُچک کر ایک گھونسہ میرے رسید کیا اور پھر دوسرا اور جب تک میں سنبھلوں۔۔۔ تیسرا اور چوتھا بھی۔
حامد ابے، ابے، ابے او۔ ہائیں، ہائیں۔۔۔ کہتے ہوئے۔۔۔ دوڑے اور اپنے لختِ جگر کے دونوں ہاتھ پکڑ کر کہا ’’ماروں؟‘‘ اور یہ کہہ کر ان کو گود میں اُٹھالیا اور گھر کے اندر چلے گئے۔ ہاں میں اس فکر میں تھا کہ اب کیا کروں۔ اگر یہاں رہتا ہوں تو خدا جانے یہ صاحبزادے مجھ کو کس درجہ پر پہنچا کر نکالیں گے اور اگر جاتا ہوں تو وہ ضرورت ہی جاتی ہے جس کے لئے دہلی آئے تھے آخر میں یہی طے کیا کہ حامد سے چھپ کر دو تین دن قیام کرنا ضروری تھا۔ لہٰذا جیسے ہی حامد برآمد ہوئے میں نے کہا۔
’’اچھا بھائی اب جلد کھانا منگواؤ میں اسی ٹرین سے جارہا ہوں جس کام کے لئے آیا تھا اس نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ مجھ کو اسی وقت بھاگنا چاہئے۔
حامد کو واقعی میری اس غیر متوقع روانگی پر افسوس ہوا، مگر مجبور تھے کیا کرتے۔
حامد سے رخصت ہوکر ہم جس ریلوے اسٹیشن پر پہنچے اس کا نام ’’تاج ہوٹل فتح پوری دہلی‘‘ تھا۔