skip to Main Content

کتے کا روزنامچہ

جاوید بسام

۔۔۔۔۔

ایک ایسے کتے کی دن بھر کی کارگزاری جسے ہم کتا مار مہم کانشانہ بنا دیتے ہیں

۔۔۔۔۔۔

تاریخ ۳۱ جون ۲۸۹۱ء
بندو حلوائی کے تھڑے کی اوٹ
آج کے دن کا آغاز ساتھیوں کے ساتھ سڑک پر لمبی دوڑ سے ہوا ۔ ایک دوسرے کے پیچھے بگ ڈٹ بھاگتے ہوئے کئی بار اکا دکا آتے جاتے نمازیوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ صبح کی تازہ ہوا میں ہم سب چاق و چوبند ہو رہے تھے۔ جونہی سورج نکلا ہم بازار میں چلے آئے، جہاں دودھ اور سبزی ترکاری کی گاڑیاں اپنا سامان اتار رہی تھیں۔ کچھ دیر ہم ان کے آس پاس ٹہلتے رہے۔ چوک کے گھنٹہ گھر نے سات بجائے تو اسکولوں کی ویگنیں ہارن بجاتی آپہنچیں۔ بازار میں لوگوں کی آمدورفت بھی شروع ہو گئی تھی۔ دکاندار اور خریدار اب ہمیں دھتکارنے لگے تھے۔ ساتھی ایک ایک کرکے اپنے ٹھکانوں پر جانے لگے ۔ میں کچھ دیر ادھر ادھر گھومتا رہا، پھر ایک محفوظ جگہ دیکھ کر سونے کا ارادہ کیا۔ رات کو گھومتے ہوئے ایک ہڈی ملی تھی پیٹ بھرا ہوا تھا لہٰذا لمبی تان کر سو گیا۔
سوتے میں خواب دیکھا کہ سامنے گوشت کا ڈھیر ہے اور مزے سے کھا رہا ہوں لیکن آنکھ پتھر کھا کر کھلی جو کسی کاغذ چننے والے نے مارا تھا، چیخ نکل گئی تیزی سے بھاگا اور اجاڑ پارک میں جا گھسا، جب حواس بحال ہوئے تو بھوک کا احساس ہوا لہٰذا بچتے بچاتے کچرے گھر کا رخ کیا، لیکن کچھ نہ ملا پھر بازار کی طرف گیا۔ وہاں قصائیوں کی بند دکانیں دیکھ کر یاد آیا آج تو منگل ہے بھوک بڑھتی جا رہی تھی۔ کھانے کی تلاش میں گلیوں میں چلا آیا جہاں بچے استقبال کے لیے موجود تھے کوئی پتھر لےے آیا تو کوئی چھری اٹھا لایا۔ ایک پتھر ٹانگ پر لگا، تیزی سے بھاگا اور ان سے پیچھا چھڑا کر ایک گندی گلی میں گھس گیا اور دیر تک ایک منڈیر کی اوٹ میں چھپا رہا۔
دوپہر ہوئی تو گرمی سے تنگ آکر لوگ گھروں میں محصور ہو گئے میں آگے روانہ ہوا ایک جگہ سے پانی پیا جس سے بھوک اور چمک اٹھی ، خوراک کی تلاش میں لنگڑاتا گلی گلی پھرتا رہا لیکن کچھ بھی نصیب نہ ہوا تھک ہار کر کچھ دیر ایک درخت کے نیچے آرام کیا۔ اچانک خیال آیاکہ دوسرے علاقے میں قسمت آزما¶ں، چنانچہ بڑی سڑک پر آگیا۔ جہاں گاڑیوں کا سیل رواں بہے جا رہا تھا۔ شہروں میں دن بدن بڑھتا ٹریفک ہمارے لیے بہت پریشان کن ہے بلکہ پیدل چلنے والے انسان بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ دیر تک انتظار کرتا رہا لیکن ٹریفک اسی طرح چلتا رہا۔ سوچا اس سیلاب میں کود جا¶ں لیکن اپنے ان ساتھیوں کا انجام یاد آیا جو گاڑیوں کی زد میں آکر دوسری دنیا کو سدھار چکے تھے۔ آخر نڈھال سڑک کے ساتھ چلنا شروع کیا ۔ کچھ دور جا کر لگا کہ ٹریفک کم ہے تو ہمت کرکے سڑک پار کی اور خدا کا شکر ادا کرکے آگے روانہ ہو گیا۔
ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ اپنے ایک اور ساتھی سے ملاقات ہو گئی۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ ”کتا کتے کا بیری“ٹھیک ہی ہے۔ وہ بھونکتا ہوا حملہ آور ہوا ۔ ٹانگوں میں جان نہ تھی لیکن بچنے کے لیے بے تحاشہ دوڑا۔ وہ اس کی اپنی گلی تھی اس لیے شیر بنا ہوا تھا۔ وہ دور تک پیچھے آیا اور آخر تک بھونکتا رہا۔ چند موڑ مڑنے کے بعد دھوبیوں کے گھاٹ آگئے۔ وہ پانی میں کھڑے پٹخ پٹخ کر کپڑے دھو رہے تھے۔ میں خوراک کی تلاش میں تھوتھنی لٹکائے گھومتا رہا لیکن کچھ نہ ملا۔ آخر تھک ہار کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ وہاں دھوبی اپنے کپڑے سکھاتے تھے۔ انہوں نے جو مجھے دیکھا تو چلا اٹھے اور پتھر اٹھا کر مارا۔ وہاں سے بھی بھاگنا پڑا۔ اور خیال آیا کہ میں دھوبی کا توکتا نہیں جس کی جگہ نہ گھر میں ہوتی ہے نہ گھاٹ میں۔ سہ پہر ہو رہی تھی ایسا لگتا تھا کہ آج کا دن فاقے سے گزرے گا۔ بھوک سے نڈھال چلا جا رہا تھا کہ ناک میں کھانے کی خوشبو چلی آئی، جسم میں بجلی دوڑ گئی ۔ فوراً تلاش میں آگے بڑھا۔ ایک جگہ شامیانے لگے تھے اور دیگوں میں کھانا پک رہا تھا۔خدا کا شکر ادا کیا کہ پیٹ بھرنے کا آسرا ہوا۔ ایسے موقعوں کا مجھے خوب تجربہ ہے اگر ایسی جگہوں پر صبر اور خاموشی سے چھپ کر بیٹھا جائے تو آخر کار پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
بخشو دھوبی کی شادی تھی مہمان آچکے تھے۔ کھانا کھلنے والا تھا۔ قناتوں کے سوراخوں سے لوگ باتیں کرتے نظر آرہے تھے۔ آخر کھانا کھلا ، لوگ بے صبری سے کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ قورمے اور بریانی کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی۔ میں اگرچہ صبر سے بیٹھا تھا لیکن عادت سے مجبور کچھ کچھ دیر بعد قریب جا کر ضرور دیکھ لیتا ۔ آخر کتے کی ٹیڑھی دم یونہی تو مشہور نہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ کھا کر فارغ ہوئے اور شامیانے سے باہر نکلنے لگے۔ جب سب چلے گئے تو انتظامات میں لگے۔ لوگوں نے دسترخوان سمیٹا اور باہر لا کر جھاڑا اس میں ڈھیر ساری ہڈیاں اور بوٹیاں بھی چلی آئیں۔
جب وہ لوگ چلے گئے تو میں اپنی پناہ گاہ سے باہر آیا۔ ایک بلی بھی کہیں سے چلی آئی تھی لیکن آج میں نے اسے کچھ نہ کہا۔ ہم دونوں بوٹیوں پر ٹوٹ پڑے ۔ کہیں سے ایک اور کتا بھی آنکلا، لیکن آج ہم بالکل نہ لڑے۔ کھانا اتنا زیادہ تھا کہ اور بہت سے بھی کھا سکتے تھے۔ خوب پیٹ بھر کر کھایا جب مزید کی گنجائش نہ رہی تو منہ پر زبان پھیرتا پیچھے ہٹ گیا۔ سورج غروب ہو رہا تھا، مسجدوں سے اذانیں شروع ہوگئیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا جو ہم سب کا حقیقی رازق ہے اور اپنے علاقے کی طرف روانہ ہو گیا۔
٭….٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top