skip to Main Content

کوفہ کے قاضی

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

مشرکین خانہ کعبہ میں جمع تھے۔
اچانک ایک نوجوان، خانہ کعبہ میں داخل ہوا، اس نے بلند آواز میں کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ پہلے تو لوگ حیرت سے سنتے رہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ نوجوان کیا پڑھ رہا ہے لیکن جلد ہی کسی نے کہا:
”ارے، محمدؐ پر جو کتاب اتری ہے، یہ وہی پڑھ رہا ہے۔“
کفار، نئے دین اسلام کے سخت دشمن تھے۔ وہ کہاں یہ برداشت کرسکتے تھے کہ کوئی ان کے سامنے وہ کتاب پڑھے جس کو اسلام کے ماننے والے قرآن کہتے ہیں۔فوراً بہت سے لوگ نوجوان کی طرف دوڑے اور اس کو پکڑ کر مارنا پیٹنا شروع کردیا۔
نوجوان جب اپنے ساتھیوں میں واپس آیا تو اس کے ساتھیوں نے کہا۔ہم تمھیں اس لیے منع کررہے تھے۔
نوجوان نے بے خوفی سے کہا۔ ”تم کہو تو میں کل پھر اسی طرح جا کر ان لوگوں کو قرآن پاک سناؤں۔“
یہ نوجوان، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابیؓ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تھے، جن کو اللہ نے اس زمانے میں اسلام قبول کرنے کی نعمت عطا فرمائی جب گنتی کے چند افراد ایمان لائے تھے۔ حضورؐ نے آپ کو اپنے شاگردوں میں شامل فرمایا اور اپنے خاص خادم کا مرتبہ دیا۔ آپ کو ستر (70) سورتوں کی تعلیم حضورؐ نے خود دی۔
آپؓ کا نام عبداللہ، والد کا نام مسعود اور والدہ کا نام ام عبدؓ ہے۔ اس لیے آپؓ ابنِ ام عبد بھی کہلاتے ہیں۔ آپؓ وہ خوش نصیب صحابیؓ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکیے، جنگ کے سامان اور جوتوں کی نگرانی کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضورؐ کے لیے مسواک کا انتظام کرنا بھی آپؓ کے ذمے تھا۔ حضورؐ کے لیے حضرت عبداللہؓ ہی اونٹ پرکجاوہ کستے اور حضورؓ کے آگے آگے عصا لے کر چلتے۔
حضرت عبداللہؓ میں علم دین حاصل کرنے کی بڑی تڑپ تھی۔ آپؓ رات دن حضورؐ کی خدمت میں حاضر رہنے کی کوشش کرتے اور حضورؐ کے ارشادات کو یاد رکھتے۔
کلام پاک کی تفسیر بیان کرنے میں حضرت عبداللہ کا مقام بہت بلند ہے۔ آپ نے 848 احادیث روایت کی ہیں۔ آپؓ ان اہم صحابہ کرامؓ میں شامل ہیں جن کے بارے میں حضورؐ نے فرمایا: ”قرآن کریم چار آدمیوں سے حاصل کرو۔“ ان میں سب سے پہلے حضورؐ نے ابن ام عبدؓ (حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) کا نام لیا۔ حضرت عبداللہؓ کو تلاوت کلام پاک کرنا پسند تھا۔ ایک بار حضورؐ نے خود حضرت عبداللہ کو سورۃ النساء کی تلاوت کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا۔ ”قرآن پاک تو آپؐ پر نازل ہوا ہے اور میں آپ کو سناؤں؟“ حضورؐ نے فرمایا۔ ”کیوں نہیں لیکن میں چاہتاہوں کہ کوئی قرآن پڑھے اور میں سنوں۔“
حضرت عبداللہؓ، طویل عرصے تک حضور کے ساتھ رہے لیکن حدیث نبوی بیان کرتے ہوئے آپؓ بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ جب کبھی آپؓ نے حدیث بیان فرمائی، آپؓ کا بدن کانپ اٹھا اور فرمایا: ”حضورؐ نے اس طرح فرمایا تھا یا اس کے قریب قریب یا اس سے ملتا جلتا۔“
حضرت عبداللہ بن مسعود نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے ہوئے آپؐ کی عادات اور اخلاق کو یاد رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ ایک بار ایک طویل حدیث بیان کرکے مسکرائے۔ لوگوں نے پوچھا۔ آپ کیوں مسکرارہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا اس لیے کہ حدیث بیان فرمانے کے بعد حضورؐ بھی مسکراتے تھے۔“
حضرت عمرؓ نے 20ھ (641ء) میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو قاضی اور افسر بیت المال مقرر کرکے کوفہ بھیجا۔ مسلمانوں کو تعلیم دینے کے فرائض بھی آپ کو سونپے گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کوفہ پہنچ کر ایک حلقہ درس قائم کیا۔ لوگ دینی مسائل معلوم کرنے لگے۔ ہوتے ہوتے یہ حلقہ درس بہت بڑا ہوگیا۔ یہاں بڑے بڑے علماء تیار ہوئے۔ آپ کے شاگردوں علقمہؒ اور اسودؒ نے بڑا نام پیدا کیا۔ پھر حضرت ابراہیم نخعیؒ، فقیہ عراق کہلائے۔ ان کے پاس حضرت عبداللہؓ بن مسعود کے فتوؤں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ یہ ذخیرہ ان سے حضرت حمادؒ تک پہنچا اور حضرت حمادؒ سے یہ ذخیرہ حضرت امام ابو حنیفہؒ تک منتقل ہوگیا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے اسی بنیاد پر فقہ حنفی کے اصول مرتب فرمائے۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعود کی تقریر مختصر مگر بہت مؤثر ہوتی تھی۔ لوگ آپؓ کی تقریر سننے کے لیے آپؓ کے مکان سے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے تمام اہم جنگوں میں شرکت فرمائی۔ بدر کا میدان ہو یا احد کا معرکہ، غزوہئ خندق ہو یا حدیبیہ کا مرحلہ، غزوہئ خیبر، فتح مکہ، ہر مقام پر آپؓ، حضورؐ کے ساتھ رہے۔ غزوہئ حنین میں بھی آپؓ شریک ہوئے۔ اس جنگ میں مسلمان کچھ دیر کے لیے پسپا ہوگئے لیکن حضرت عبداللہؓ بہادری سے حضورؐ کے پاس ڈٹے رہے۔ بعد میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کوفہ میں دس سال تک قاضی اور افسر بیت المال کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ بہت اہم شہر تھا۔ فوجی مرکز تھا۔ ہزاروں سپاہیوں کی تنخواہیں یہیں سے جاری ہوتی تھیں۔ دیگر بہت سے اخراجات تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے بڑی توجہ سے یہ ذمہ داری ادا فرمائی۔
حضرت عبداللہؓ دینی معاملات میں کسی بڑے سے بڑے افسر کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے۔ ایک بار کوفہ کے حاکم (گورنر) ولید بن عقبہ کو نماز کے لیے پہنچنے میں دیر ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے انتظار نہیں کیا اور نماز پڑھا دی۔ بعد میں ولید بن عقبہ نے شکایت کی تو حضرت عبداللہؓ نے فرمایا، اللہ کو یہ بات ناپسند ہے کہ آپ اپنے مشاغل میں مصروف رہیں اور لوگ نماز کے لیے آپ کا انتظار کرتے رہیں۔“
حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود بہت سادہ مزاج کے مالک تھے۔ عام طور پر سفید رنگ کا لباس پہنا کرتے تھے۔ عطر کا استعمال ہمیشہ کرتے تھے۔
غزوہئ تبوک کے زمانے میں ایک بار مسلمانوں کا لشکر راستے میں ٹھہر گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک کا اہتمام کرنا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہی کی ذمہ داری تھی۔ آپؓ مسواک کاٹنے کے لیے پیلو کے درخت پر چڑھ گئے۔ آپ کی ٹانگیں بہت دبلی پتلی تھیں۔ لوگوں نے دیکھا تو ہنس پڑے۔ حضورؐ نے دریافت فرمایا کہ کیوں ہنس رہے ہیں۔ پھر فرمایا:”یہ ٹانگیں جو تمھیں اس وقت انتہائی کم زور اور ہلکی دکھائی دے رہی ہیں، قیامت کے روز میزان میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوں گی۔“
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ 32 ھ(653ء) میں بیمار ہوگئے اور اسی بیماری میں آپؓ نے وفات پائی۔ آپ کو مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top