کس کی بطخ اچھی تھی؟
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔
ایسے تین دوستوں کی کہانی جو جانور خریدنے منڈی کو نکلے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دینو، بینو اور مینو تینوں گہرے دوست تھے۔ ہر وقت ساتھ گھومتے نظر آتے تھے۔ گاؤں کے لوگ ان سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جہاں جاتے ساتھ مل کر جاتے۔ تینوں تھوڑے سے بے وقوف بھی تھے اگرچہ ان میں اچھی دوستی تھی لیکن اکثر بلاوجہ الجھ بھی پڑتے تھے۔ ایک دن جب ان کی ملاقات ہوئی تو با ت چیت کے بعد ان پر انکشاف ہوا کہ وہ تینوں گھر سے ایک ہی مقصد کے لیے نکلے ہیں۔
وہ اتوار کا دن تھا۔ اس دن قریب کے گاؤں میں جانوروں کی منڈی لگتی تھی۔ دینو گھر سے اس ارادے سے نکلا تھا کہ منڈی سے پالنے کے لیے ایک خوبصورت سی بطخ خرید لے اسے بطخیں بہت پسند تھیں۔ بینو کے گھر دوسرے دن کچھ مہمان آرہے تھے ان کی خاطر مدارت کے لیے اسے ایک چھوٹا بکرا چاہیے تھا اور مینو کو انڈے حاصل کرنے کے لیے مرغیاں خریدنی تھیں، چنانچہ تینوں ہنستے کھیلتے منڈی کو روانہ ہوئے۔ دوسرا گاؤں جھیل کے پار تھا۔
جب وہ منڈی پہنچے تو وہاں بہت رش تھا۔ بھانت بھانت کے جانور وہاں بکنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ لوگ خرید و فروخت کررہے تھے۔ وہ تینوں منڈی میں گھومنے لگے۔ ایک جگہ، ایک آدمی بہت سی بطخیں لیے بیٹھا تھا۔ دینو کی تو دلی مراد بر آئی۔ وہ تو وہیں ٹک گیا اگر اس کے پاس زیادہ پیسے ہوتے تو وہ تمام بطخیں خرید لیتا۔ خیر اس نے اپنے لیے ایک خوبصورت سی بطخ جس کی چونچ اور پنجے زرد اور پر برف کی طرح سفید تھے، خرید لی۔ پھر وہ آگے بڑھے۔ انہوں نے پوری منڈی دیکھ ڈالی لیکن کہیں بھی چھوٹے بکرے نہ ملے۔ بکرے سب بڑے مل رہے تھے یا زیادہ قیمتوں کے تھے۔ مرغیوں میں ان دنوں بیماری پھیلی ہوئی تھی۔ وہ بھی بہت کم اور کمزور سی مل رہی تھیں۔ بینو اور مینو کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔
تینوں دیر تک منڈی میں گھومتے رہے لیکن ان کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ آخر دینو نے انہیں مشورہ دیا کہ انہیں بھی بطخیں خرید لینی چاہیے۔ بطخیں دینو کی کمزوری تھیں اس نے انہیں راضی کرنے کے لیے دلائل دینے شروع کیے۔ اس نے بینو سے کہا
”بطخ کا گوشت مرغی جیسا ہوتا ہے یہ بطخیں بڑی بھی ہیں اگر تم ایک بڑی بطخ خرید لو تو آسانی سے اپنے مہمانوں کی دعوت کرسکتے ہو۔“ پھر وہ مینو سے مخاطب ہوا۔
”تم مرغیاں انڈے حاصل کرنے کے لیے لینا چاہتے ہو۔ مرغیوں کے انڈے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس نے اشارہ کرکے بتایا اور بطخوں کے انڈے اتنے بڑے بڑے۔“ اس نے اشارے سے بتاتے ہوئے اپنے دونوں بازو ہوا میں پھیلا دیئے۔ مینو نے اسے گھونسا مارا اور بولا
” مجھے پتا ہے بطخ کے انڈے کتنے بڑے ہوتے ہیں۔“
بالآخر دینو نے دونوں کو اپنی باتوں سے قائل کر ہی لیا۔ ان دونوں نے بھی بطخیں خرید لیں چونکہ تینوں دوست تھے اس لیے ان دونوں نے بھی دینو کی بطخ جیسی خوبصورت بطخیں پسند کیں۔ تینوں خوشی خوشی اپنے گاؤں کو واپس روانہ ہو گئے۔ کشتی میں واپس آتے ہوئے وہ بطخوں کے بارے میں ہی تبادلہ خیال کررہے تھے۔ انہوں نے ان کے پیر باندھے ہوئے تھے۔ وہ ایک طرف ڈھے ہوئے تھےں اور اپنی لمبی گردنیں اٹھا کر پانی کو حسرت سے دیکھ رہی تھیں۔
باتوں کے درمیان ان میں بحث چھڑ گئی کہ کس کی بطخ بڑی اور زیادہ اچھی ہے۔ ہر ایک یہ دعویٰ کررہا تھا کہ اس کی بطخ بڑی اور زیادہ خوبصورت ہے۔ کشتی کا ملاح خاموشی سے اپنی کشتی دھکیل رہا تھا ،اس کے چہرے پر ناگواریت تھی۔ آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ملاح سے معلوم کیا جائے۔ ملاح جو ان کے شور سے ناراض تھا بولا ”میرا کام کشتی چلانا اور مسافروں کو منزل پر پہنچانا ہے۔ میں بطخوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔“
تینوں نے مایوسی سے سر ہلایا اور سوچ میں پڑ گئے کہ کیسے پتا چلے کہ کونسی بطخ سب سے اچھی ہے۔ آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ بطخوں کی ڈوریاں کھول دی جائیں تاکہ ان کے ٹھیک ٹھیک قد اور خوبصورتی کا پتا چل سکے۔ جونہی انہوں نے ڈوریاں کھولیں۔ تینوں بطخوں نے پر پھڑپھڑائے اور کشتی میں ادھر ادھر ٹہلنے لگیں۔ تینوں دوست ایک بار پھر اپنی بحث میں الجھ گئے۔ بطخوں نے موقع غنیمت جانا اور خاموشی سے پانی میں اتر گئیں۔
یہ دیکھ کر تینوں بہت سٹپٹائے کیوں کہ ان میں سے کسی کو بھی تیرنا نہیں آتا تھا ۔ انہوں نے بطخوں کو واپس کشتی میں بلانے کی بہت کوشش کی، کبھی چمکارتے تو کبھی منہ سے بطخوں کی آوازیں نکالتے اور کبھی غصہ دکھاتے لیکن بطخوں نے انہیں کوئی اہمیت نہ دی۔ وہ آہستہ آہستہ کشتی سے دور ہو رہی تھیں۔ انہوں نے ملاح سے التجا کی کہ ان کی بطخیں پکڑ دے۔ ملاح بولا ” میرا کام کشتی چلانا ہے پانی میں اتر کر بطخیں پکڑنا نہیں۔“
وہ جھنجھلا کر آپس میں لڑنے لگے ہر ایک ، دوسرے کو بر ابھلا کہہ رہا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہراتے رہے اور بطخیں غائب ہو گئیں۔ یوں تینوں نے بلاوجہ کی بحث میں الجھ کر نقصان اٹھایا اور خالی ہاتھ گھر کو لوٹے۔
٭….٭