skip to Main Content

کس کی خاطر؟

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

اس نے لکڑی کے بھاری بھر کم دروازے پر دستک دی۔
”آجاؤ!“ اندر سے بھاری سی آواز آئی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔
”آؤ آؤ سیک ٹری! میں تمہارا ہی انتظار کر رہاتھا۔“ سیٹھ صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
”سر آپ مجھے ’پی اے‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔“ سیکریٹری منیر احمد نے ادب سے کہا۔
”پی اے، نہیں بھئی، اس سے لگتا ہے کہ کوئی پیے ہوئے ہے۔ تم جانتے ہو یہ کام ہم دفتر میں بھی نہیں کرتے!“
”مگر سر درست لفظ سیکر یٹری ہے۔“
”ہوگا! ہم کو سیک ٹری بولنا آسان لگتا ہے۔ اب یہ لیکچر بند کرو نہیں تو ہم تمہارا ٹری کاٹ دیں گے یعنی تم کو سیک (Sack) (معنی خدمت سے علیحدہ)کر دیں گے!“
منیر احمد کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ کچھ کہنے کے لیے اس کے ہونٹ کپکپائے پھر اس نے ہونٹوں کو مضبوطی سے بھینچ لیا۔ سیٹھ صاحب اسے غور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر ملائمت کے آثار نمودار ہو گئے۔ وہ بولے:
”دیکھو سیکریٹری ہمارے پاس پیسہ بہت ہے۔ ہم کوئی ایسی ڈکشنری بھی چھپوا سکتے ہیں جس میں لفظ سیک ٹری شامل ہو۔ خیر گولی مارو۔ کام کی بات کرو۔ تم یہ بتاؤ ساری تیاریاں ہو گئی ہیں۔“
”جی سر!“
”کیا کیا ہو گیا ہے؟“
”سر دونوں حلقوں میں آپ کی بہت ہیوی پبلسٹی ہو رہی ہے۔ آپ کی تصویروں کے بڑے بڑے ہورڈنگز لگ چکے ہیں۔ بینر لگا دیے گئے ہیں۔ ہینڈ بل بٹ رہے ہیں۔ الیکشن آفس اور کیمپس قائم ہو چکے ہیں۔ ورکروں کو ڈیلی الاؤنس، بریانی اور زردہ مل رہا ہے۔“
”گڈ! ووٹرز کیا کہتے ہیں؟“
”سر!ا بھی سروے شروع نہیں کیا، لیکن ویسے تو لگتا ہے کہ ملا جلا رجحان ہے۔ جتنے ووٹ خریدے جا سکے خرید لیں گے۔ کچھ ووٹ ڈرا دھمکا کے لے لیں گے۔“
”کچی آبادی میں کیا حال ہے؟“
”امید تو ہے، پوری آبادی آپ کی سپورٹر ہے۔ آخر آپ نے بستی والوں کے لیے یوٹیلیٹی اسٹور کھلوایا، سینما گھر قائم کیا، میوزک اکیڈمی ……“
”ہوں ……اور وہ تحر یک افلاس کیا کر رہی ہے؟“
”افلاس؟ اوہ، آپ تحریک اخلاص کی بات کر رہے ہیں۔“
”میں اس کو تحریک افلاس ہی کہتا ہوں۔ تم نے دیکھا ہے اس کے ورکرز کو؟ معمولی لباس، پیروں میں سستی چپلیں،اڑی ہوئی رنگت۔ بات یہ ہے کہ یہ اخلاص و خلاص سب کتابوں والی باتیں ہیں۔ مخلص آدمی ہمیشہ مفلس رہتا ہے اور جس کی اپنی جیب میں کچھ نہ ہو، وہ دوسروں کو کیا دے سکتاہے۔“
”رائٹ سر!“
”ہاں۔ تو افلاس والوں کا کیا حال ہے؟“
”کام تو سر وہ بھی بہت کر رہے ہیں۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس تحریک کے پاس پیسہ نہیں ہے، ان کے کیمپوں پر بھی سوائے پینے کے پانی کے اور کچھ نہیں ملتا۔ ان کے ورکروں کو بھی کوئی ڈیلی الاؤنس نہیں دیا جاتا لیکن پتا نہیں کیا بات ہے سر، ان کے ورکر ہیں دھن کے پکے اور عام ووٹرز بھی ان کو پسند کرتے ہیں۔“
”کوئی بات نہیں ان کے پاس دھُن ہے تو ہمارے پاس دھَن ہے! بولو کتنا چاہیے۔ مجھے یہ سیٹ ہر قیمت پر جیتنی ہے۔ ویسے مجھے لیگ کی سپورٹ حاصل ہے۔“
”جیتیں گے سر۔ کیوں نہیں جیتیں گے۔ کل رات ہی میں نے علاقے کے پولیس افسران سے بات چیت فائنل کی ہے۔ پولنگ میں کوئی اوپر نیچے بات ہوئی تو سنبھال لیں گے۔ آپ مجھے پچاس لاکھ اور دے دیں۔“
”لے لو بلکہ ابھی لے لو۔“ سیٹھ صاحب میز کی دراز کھول کر اپنی خفیہ تجوری کھولنے لگے۔

۔۔۔۔۔

سیٹھ صاحب نے غضب ناک ہو کر ٹی وی کار یموٹ کنٹرول میز پر دے مارا۔ پچھلے دو گھنٹے سے وہ موبائل پر انتخابی نتائج معلوم کر رہے تھے۔ اور ساتھ ساتھ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول تھا مے مختلف چینلز بدل رہے تھے۔ وہ شدید حیران تھے کہ نہ صرف وہ اس الیکشن میں ہار گئے تھے بلکہ ملک کے تمام شہروں میں ان کی جماعت ح لیگ کو واضح شکست ہوئی تھی اور تحریک اخلاص کے نمائندوں کی اکثریت کامیاب ہوئی تھی۔ دیہات میں البتہ ح لیگ اور کچھ مقامی جماعتیں جیت رہی تھیں۔ ٹی وی کے چینلوں پر ہونے والے تبصروں میں کئی تجزیہ کار اور دانشور یہی کہہ رہے تھے کہ شہروں میں تحریک اخلاص اس لیے کامیاب ہوئی کہ وہاں تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت ہے۔ان کی موجودگی میں دھاندلی کی کوششیں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ دیہات میں صورتحال اس کے برعکس تھی۔

۔۔۔۔۔

سیٹھ صاحب کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں ایک ہفتہ لگ گیا۔ یہ ہفتہ ان کے گھر کے افراد،ملازمین اور دفتر کے پورے عملے پر بہت بھاری گزرا۔ سیٹھ صاحب نے اپنے ”سیک ٹری“ کو سیک کر دیا۔ نیا سیک ٹری رکھنے کے لیے انہوں نے خود 83 افراد کا انٹرویو لیا تھا۔ ان تر اسی افراد کو ان 472 افراد میں سے چنا گیا تھا، جنہوں نے اس اسامی کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ ابتدائی انٹرویو، ڈائر یکٹر اور ان کے نائبین نے لیے تھے۔
83 افراد میں ایک نوجوان سیٹھ صاحب کوبہت پسند آیا۔ بہت چاق و چوبند،حاضر جواب، سمجھ دار لگا۔ اس نوجوان نے اپنا نام ’ہوشیار احمد‘ بتایا تھا۔ پہلے منیر احمد کے مشوروں نے مروایا، اب ہوشیار کی ہوشیاری دیکھو کیا گل کھلاتی ہے۔ سیٹھ صاحب نے سوچا پھر سر جھٹک کر نئے سیکریٹری کی طرف پوری طرح متوجہ ہو گئے۔
”ہاں بھئی۔ ہوشیار احمد یہ بتاؤ کہ ہمارے ح لیگ کے امیدواروں کے ہار جانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟“
”سر! ایک سے زائد سبب ہیں۔ آپ کے پاس بے شک پیسہ بہت ہے لیکن آپ کے پاس وفادارکارکن نہیں ہیں۔“
”ہوں، مگر ہم نے تو غریبوں کے لیے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا تھا۔ بیواؤں کو سلائی مشینیں دیں، طلبہ کو اسکالر شپ دیے۔ دو سینما گھر کھول کر دیے۔ ایک میوزک اکیڈمی بنائی۔ اور ہاں! ایک اسپتال بھی تو بنایا۔“
”بے شک سر! لیکن آپ کا پیسہ غریب اور مستحق لوگوں تک نہیں پہنچا۔ اسے آپ کے اہلکار بیچ میں ہڑپ کر گئے۔ دو یا تین بیواؤں کو سلائی مشین ملی، جن کی تصویر آپ کے ساتھ کھینچی گئی اور اخبارات کو جاری ہوئی۔ باقی آپ کے اسٹاف نے بیچ کھائی۔ یہی حال اسکالر شپ اور اسپتال کا ہوا۔ اسپتال میں ح لیگ کی پرچی اور رشوت کے بغیر دوا ملتی ہے نہ کوئی ٹیسٹ ہوتا ہے۔“
”اچھا؟ اور وہ سینما گھر، میوزک اکیڈمی؟“
”ان کی وجہ سے تو ووٹرز آپ کے خلاف ہوئے۔ ان کے پاس کھانے کو نہیں اور آپ انہیں ناچ گانا سکھا رہے ہیں۔ اور سر ایک بات اور ہے۔“
”وہ کیا؟“
”آپ کی ح لیگ کے مقابلے پر تحریک اخلاص ہے۔ اس کے تمام کارکن واقعی بہت مخلص ہیں۔ ہر ایک کی بڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ کبھی رشوت نہیں لیتے۔ کسی پر دھونس نہیں جماتے۔ بے حد دیانت دار ہیں۔ اسی لیے لوگ ان پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرتے ہیں۔ ان کو دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ شہر میں کوئی حادثہ ہو، آگ لگ جائے، بارش سے تباہی پھیل جائے،زلزلہ آ جائے، ہر جگہ تحریک اخلاص کے کارکن سب سے پہلے پہنچتے ہیں اور متاثرین کی بھر پور مدد کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہت منظم بھی ہیں سر۔“
”بس، بہت ہو چکا۔“ سیٹھ صاحب نے میز پر مکا مارا۔ ”میں اس تحریک اخلاص کی شان میں قصیدے بہت سن چکا ہوں۔ مجھے یہ بتاؤ کہ اس تحریک کو برباد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ہونہہ…… تحریک اخلاص، میرا بس چلے تو ابھی اس کو خلاص کر دوں۔“
”سر! مجھے معلوم ہے آپ اس تحریک کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے لیکن سر! حقیقت سے آنکھیں چراناعقل مندی نہیں۔“
”ہوں ……!“سیٹھ صاحب کے ماتھے پر لکیریں مزید گہری ہوئیں۔ کچھ دیر تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ پھر سیٹھ صاحب چونک کر بولے:
”ہم نے غور ہی نہیں کیا۔ ہر پارٹی کو لے کر چلنے والا اس کا لیڈر ہوتا ہے۔ اس تحریک کا لیڈر کون ہے؟ وہی ناسر پھر ا نو جوان۔“
”اخلاص احمد۔“
”ہاں ہاں وہی، اس نے اپنی تحریک کا نام اپنے نام پر رکھ لیا ہے۔“
”مگر سر انہوں نے تو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اس تحریک کے چھٹے صدر ہیں۔ تحریک اخلاص تو ان کے اس تحریک میں شامل ہونے سے پہلے کام کر رہی تھی۔“
”خیر مجھے اس سے مطلب نہیں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ اس چھٹے صدر بلکہ اس چھٹے ہوئے صدر کو چھٹی کادودھ یاد دلایا جائے۔ تم یاد دلا سکتے ہو؟“
”سریہ کام آسان نہیں، میں کوشش پوری کروں گا۔“
”سنو، اگر تم نے میرا یہ کام کر دیا تو میں تم کو اتنادوں گا کہ پھر تم کو بلکہ تمہارے بیٹوں کو بھی کہیں ملازمت کی ضرورت نہ پڑے گی۔ ہاں …… بالکل ٹھیک…… تم اس اخلاص احمد کو کسی طرح بد نام کر دو۔ اس کی کوئی کمزوری پکڑو۔ کوئی انسان فرشتہ نہیں ہوتا اور یہ مولوی تو ہوتے ہی گڑ بڑ ہیں۔ صورت مومنانہ، کر توت کافرانہ۔“
”ٹھیک ہے سر! پھر مجھے تحریک اخلاص میں شامل ہونا پڑے گا۔“
”گڈآئیڈیا۔ آج ہی شامل ہو جاؤ۔ تمہاری تنخواہ تمہارے بینک اکاؤنٹ میں ہر ماہ پہنچتی رہے گی۔تم مجھے ہر ہفتے میرے گھر آکر رپورٹ دو گے۔ نہیں! بلکہ ہر بار ملاقات کی جگہ تبدیل کر دیں گے۔تم میرا موبائل نمبر لکھ لو۔“ اس نے اپنا مو بائل سیٹ اٹھایا اور سیٹھ صاحب کا نمبر اس میں درج کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔

فائیواسٹار ہوٹل کے کمرہ نمبر 815 میں سیٹھ صاحب اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو سیٹھ صاحب کا پہلا سوال تھا۔
”کسی نے تم کو یہاں آتے دیکھا تو نہیں؟“
”سر دیکھا تو بہت سے لوگوں نے ہے لیکن اپنے جاننے والوں میں سے کسی نے نہیں دیکھا۔ ویسے بھی سر تحر یک اخلاص میں ایک دوسرے کی جاسوسی کرنے،ٹوہ لینے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ ہاں! میں نے اس کام کی بنیا در کھ دی ہے۔“
”اچھا؟خوب!“ سیٹھ صاحب مسکرائے۔
”یس سر!میں بڑی احتیاط اور ہوشیاری سے کام کر رہا ہوں، رزلٹ ملنے میں کچھ وقت لگے گا۔“
”ہاں ہاں، وہ تو ہے، مگر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس جگہ کوئی حادثہ ہوتا ہے، قدرتی آفت آتی ہے، وہاں ہم تحریک اخلاص کے مقابلے میں دو گنا پیسہ خرچ کرتے ہیں مگر واہ واہ اخلاص والوں کی ہوتی ہے۔“ سیٹھ صاحب کا مزاج گرم ہونے لگا۔
”سر۔ بات بھروسے کی ہے۔ آپ کے پاس ایماندار کار کن نہیں ہیں۔ پیسہ آپ بے شک تحریک اخلاص والوں سے ڈبل دے رہے ہیں۔ مگر وہ متاثرین تک پورا پورا نہیں پہنچتا۔ پھر یہ ہے کہ تحریک اخلاص کے کارکن عوام میں سے ہیں۔ معمولی مکانوں میں رہتے ہیں۔ ان کا رہن سہن سادہ ہے۔ وہ ہر ایک کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ خواہ وہ کوئی سی زبان بولتا ہو۔ کسی علاقے کا رہنے والا ہو۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہو۔“
”تم نے پھر وعظ شروع کر دیا۔“ سیٹھ صاحب کے چہرے کا رنگ سرخ ہونے لگا۔
”سر میں تو حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ اس تحریک کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی بھی زیادتی ہو جائے، کسی کا حق چھین لیا جائے،پولیس یا بدمعاش تنگ کریں، تحریک کے کارکن مظلوم کی مدد کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔“
”ہوں، یہ بھی ایک مصیبت ہے۔ ان تحریکوں کی وجہ سے ہمارے بہت سے کام میں رکاوٹ پڑ رہی ہے۔ اچھا تو تم نے اس لیڈر کی کوئی کمزوری تلاش کی؟“
”سر میں کوشش میں لگا ہوا ہوں، ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ میں نے خفیہ طریقے سے معلومات حاصل کرنے کی بڑی کوشش کی ہے۔ مگر ابھی تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ اخلاص احمد بہت ایماندار، عبادت گزار، ذہین اور محنتی آدمی ہے۔“
”مجھے تو تم پر شک ہونے لگا ہے۔ کہیں تم پر اس ایماندار،عبادت گزار، ذہین اور محنتی سر پھرے کا جاد و تو نہیں چل گیا۔“ سیٹھ صاحب نے چبا چبا کر طنزیہ لہجے میں سوال کیا۔
”نہیں سر! آپ بے فکر رہے۔ ابھی تو مجھے تحریک میں شامل ہوئے تین ماہ ہوئے ہیں۔ اپنی محنت کی وجہ سے اتنے کم عرصے میں مجھے تحریک والوں نے ٹاؤن انچارج بنا دیا ہے۔“
”ہاں ہاں مجھے پتا ہے۔ مگر میں اب زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ تم اس اخلاص احمد کی کوئی کمزوری پکڑو۔“
”سر! وہ نہ سگریٹ پیتا ہے،نہ پان کھاتا ہے۔ چائے بھی دن میں ایک پیالی سے زیادہ نہیں پیتا۔ تحریک میں عورتیں بھی کام کرتی ہیں لیکن ان کا سیکشن بالکل الگ ہے۔ وہ پردہ کرتی ہیں۔ مگر عورتوں میں ان کا کام بہت ہے۔“
”دیکھو یہ سب باتیں مجھے پہلے سے معلوم ہیں۔ مجھے تو اس شخص کی کوئی کمزوری،کوئی برائی تلاش کر کے دو۔ وہ معاشرے میں بدنام ہو گیا تو اس کی تحریک کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔“
”یس سر! مجھے بھی یہی امید ہے۔“
”ٹھیک ہے۔ اب جاؤ احتیاط سے جانا۔ اور یاد رکھوایک ہفتے میں کام نہیں ہوا تو اپنی نوکری ختم سمجھنا۔“

۔۔۔۔۔

سیاہ شیشوں والی گاڑی اس ویران سے چوراہے کے قریب آکر رکی۔ اس کا دروازہ کھلا اور چوراہے پر کھڑا ہوشیار احمد اس میں سوار ہو گیا۔ گاڑی تیزی سے روانہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد وہ ایک بنگلے میں جا کر رکی۔ ہوشیار احمد گاڑی سے اتر آیا۔ ایک ملازم اسے بنگلے کے اندر لے گیا، جہاں ایک کمرے میں سیٹھ صاحب اس کے منتظر تھے۔ سامنے گلاس اور بوتلیں چنی ہوئی تھیں۔ غالباً ابھی سیٹھ صاحب نے آغا ز نہیں کیا تھا۔ اسے دیکھتے ہی سیٹھ صاحب بے تابا نہ بول اٹھے:
”ہاں بھئی کچھ ہوشیاری دکھائی تم نے؟“
”یس سر! آخر میں کامیاب ہو گیا۔“
”واقعی؟‘‘سیٹھ صاحب صوفے سے اچھل پڑے۔”کیسے؟کس طرح؟“
”اس طرح سر!“ہوشیا راحمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور بہت چھوٹا سا کیسٹ ریکارڈر نکال کر سامنے میز پر رکھ دیا۔ پھر اس نے کیسٹ ریکارڈر کا کوئی بٹن دبایا۔ چند لمحوں بعد کمرے میں ایک شخص کی آواز سنائی دینے لگی۔
”اخلاص بھائی! آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟ ہر کام میں، ہر منصوبے میں آپ آگے ہوتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی آپ سے آگے نہیں نکل سکتا۔“
”ہاں میں سب سے آگے رہنا چاہتا ہوں۔“ جواب میں دوسری آواز آئی۔ ہوشیار احمد نے کیسٹ ریکارڈر کا بٹن دبا کر کہا:
’’یہ اخلاص احمد کی آواز ہے۔ اب آگے سنیے۔“ اس نے کیسٹ ریکارڈر کا بٹن پھر دبا دیا۔ پہلی والی آواز پھرسنائی دینے لگی۔
”مگر کس لیے، آپ اپنی محنت کرتے ہیں؟“
”شراب کی خاطر۔“ اخلاص احمد کی آواز آئی۔
”شراب کی خاطر!“پہلی آواز میں شدید حیرت نمایاں تھی۔
”ہاں،یہی تو اصل نشہ ہے۔ میں اس کی تفصیل تم کو بعد میں بتاؤں گا۔“ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ ہوشیار احمد نے بٹن دبا کر کیسٹ کو مزید چلنے سے روک دیا۔
”کمال کر دیا تم نے۔ یہ ہوئی نا بات۔ اب میں اس اخلاص والے کو نہیں چھوڑوں گا۔ کتنے اخلاص سے پیتا ہے۔ بس ٹھیک ہے یہ کیسٹ ریکارڈر یہیں چھوڑ دو۔ تم دوسرا لے لینا۔ ابھی تم فی الحال تحریک میں رہو۔ کسی کو تم پر شک نہ ہو۔“
”یس سر!“
”بس ٹھیک ہے، تم جاؤ۔“

۔۔۔۔۔

اخبارات کی سرخیاں چیخ اٹھی تھیں۔ ٹی وی کے مختلف چینلوں پر خبر گردش کر رہی تھی۔”تحریک اخلاص کے صدر اخلاص احمد کا اعتراف مے نوشی۔“ اخلاص احمد کے بارے میں یہ خبر کہ وہ شراب پیتے ہیں،سب سے پہلے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل نے جاری کی تھی۔ ثبوت کے طور پر اخلاص احمد سے ان کے تحریک کے ایک کارکن کی ریکارڈ کی ہوئی گفتگو بار بارنشر کی جارہی تھی۔ جس میں اخلاص احمد نے کہا تھا کہ وہ ساری محنت شراب کی خاطر کرتے ہیں۔ پورے ملک میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا تھا۔ مختلف علماء نے اخلاص احمد کے خلاف فتوے جاری کر دیے تھے۔ اخبارات میں احتجاجی اداریے اور کالم چھپ رہے تھے۔ ٹی وی چینلوں پر تبصرے ہورہے تھے۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر مخالف جماعتوں خصوصاح لیگ کے کارکنوں نے تحریک اخلاص کے دفاتر پر حملے کیے تھے۔ جگہ جگہ دیواروں پر ”اخلاص احمد کی قلعی کھل گئی“، ”اخلاص کے ساتھ پینے والا اخلاص احمد“،”اخلاص احمد کو بوتل دو۔“ جیسے نعرے لکھ دیے گئے تھے۔ کئی مقامات پر بینرز لگا دیے گئے تھے۔ حکومت نے اخلاص احمد کو مشتعل افراد کے حملوں سے بچانے کی خاطر ان کے مکان پر پولیس کی بھاری نفری لگا دی تھی۔ تحریک اخلاص کے کارکنوں کو تو چپ سی لگ گئی تھی۔

۔۔۔۔۔

اسی شام کو تمام ٹی وی چینلوں سے ایک اعلان بار بار نشر ہو رہا تھا۔”آج شب ساڑھے نو بجے، تحریک اخلاص کے صدر اخلاص احمد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزام کا جواب دیں گے۔“
پریس کانفرنس کا اہتمام پریس کلب میں کیا گیا تھا۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی پریس کلب میں اخبارات، خبر رساں اداروں، ریڈیو اور ٹی وی کے چینلوں کے نمائندوں کا ہجوم ہو گیا تھا۔
اخلاص احمد نے پریس کلب کے قریب واقع مسجد میں نماز عشاء ادا کی۔ نو بج کر پچیس منٹ پر وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ پریس کلب میں داخل ہوئے۔ پولیس کے سپاہی ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ کئی صحافی اپنے اپنے مائیک اخلاص احمد کی طرف بڑھا کر ان سے سوال کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور پولیس والے ہر ایک کو پیچھے ہٹا رہے تھے۔اخلاص احمد ہر ایک کو سلام کرتے ہوئے ہنس کر کہہ رہے تھے:
”اتنی بے صبری کیا۔ ابھی پریس کانفرنس میں جو پوچھنا ہے، پوچھ لیجئے گا۔“
ٹھیک ساڑھے نو بجے اخلاص احمد نے پریس کانفرنس کا آغاز کر دیا۔ انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی، اللہ تعالیٰ کی مختصر حمد و ثنا بیان کی۔ نبی اکرم ﷺپر درود بھیجا۔ پھر انہوں نے کہنا شروع کیا۔ ”میرے محترم صحافی دوستو! ہنگامی طور پر رات میں آپ کو زحمت دینے پر بے حد معذرت خواہ ہوں، لیکن صورتحال کچھ ایسی ہو گئی تھی کہ مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔“
ملک بھر میں لوگ اپنے اپنے ٹی وی کے آگے بیٹھے، اخلاص احمد کی پریس کانفرنس دیکھ اور سن رہے تھے، جو براہ راست نشر کی جارہی تھی۔ پریس کلب کا ہال صحافیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سیٹھ صاحب بھی ایک کرسی پر براجمان تھے۔
اخلاص احمد نے اپنے آگے لگے درجن بھر سے زیادہ مائیکرو فونز پر نظر ڈالی۔ پھر مسکرا کر کہنے گلے۔”حق وصداقت کے لیے کام کرنے والوں پر الزام تراشی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ سلوک تو انبیاء کرام، خود ہمارے نبی کریمﷺ اور پھر بعد میں دین حق کے لیے چلنے والی تمام تحریکوں سے وابستہ افراد کے ساتھ کیا گیا۔ مجھ پر شراب نوشی کا الزام لگا دیا گیاتو کوئی عجب بات نہیں ہوئی، لیکن چونکہ اس سے پوری تحریک متاثر ہورہی ہے۔ اس کے جو کارکن برسوں سے اخلاص کے ساتھ کام کر رہے ہیں، وہ حوصلہ ہار رہے ہیں۔ یہ ایک قومی نقصان ہے، اس لیے میں نے آپ لوگوں کو زحمت دی۔“
صحافیوں نے اپنی نشستوں پر پہلو بدلے۔ ایک رپورٹر نے بلند آواز سے کہا:”تا کہ آپ شراب نوشی کے لیے محنت کا اعتراف کریں۔“
”جی ہاں!“
ہال میں بیٹھے تمام صحافی چونک اٹھے۔ ٹی وی پر دیکھنے والے لوگوں نے سانس روک لیے اور ہال میں بیٹھے سیٹھ صاحب مطمئن انداز میں مسکرانے لگے۔
”مجھے احتجاج کا حق ہے لیکن میں اس بات پر کوئی احتجاج نہیں کروں گا کہ میری نجی زندگی میں مداخلت آج سے نہیں کئی برسوں سے جاری ہے۔ میری ٹیلی فون اور موبائل کالیں ٹیپ کی جاتی ہیں۔ مجھے ملنے والی اور میرے دفتر یا گھر سے جانے والی ڈاک کے تمام لفافے یا پیکٹ کھول کر چیک کیے جاتے ہیں۔ اب کسی مہربان نے میرے دفتر میں ہونے والی ایک گفتگو ریکارڈ کر لی ہے۔ اس نے اپنے خیال میں بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔مجھے اعتراف ہے کہ یہ ایک بڑا فتنہ تھا جس نے مجھے اور تحریک اخلاص کو عارضی طور پر ہی سہی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن مجھے اپنے رب سے پوری امید ہے کہ وہ اپنے بندوں کو رسوا نہ ہونے دے گا۔“
”رسوا تو تم بیٹاہو چکے۔“ سیٹھ صاحب نے دل ہی دل میں کہا۔
”میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ مجھ پر لگائے گئے الزام کے ثبوت میں جو ریکارڈنگ پیش کی گئی ہے وہ بالکل درست ہے۔“ تمام حاضرین پر بجلی گر پڑی۔ ہال میں سناٹا طاری ہو گیا۔ جس میں اخلاص احمد کی مطمئن اور پر سکون آواز ابھر رہی تھی۔
”ٹی وی چینلوں سے بار بار نشر کی جانے والی آواز میری ہی ہے۔ یہ گفتگو دو روز قبل میرے دفتر میں ہوئی جس میں میرے ساتھ نثار احمد شریک تھے جو یہاں میرے ساتھ موجود ہیں۔“نثار احمد نے مسکرا کرسر ہلایا۔
”اس سارے قصے میں مجھ سے ایک غلطی ہوئی ہے۔“ اخلاص احمد نے کہا۔ سب لوگ پوری طرح متوجہ ہو گئے۔
”اپنے ساتھ نثار احمد سے جب میری گفتگو ہوئی تو نماز با جماعت کا وقت قریب تھا۔ مجھے اس وقت یہ بات پہیلیوں کے انداز میں نہیں کہنی چاہیے تھی۔ میں اپنی بات کی وضاحت اسی وقت کر دیتا تو شاید اتنی ہنگامہ آرائی کی نوبت ہی نہ آتی لیکن نماز کا وقت قریب تھا۔ اس لیے میں نے نثار احمد سے کہہ دیا کہ تفصیل بعد میں بتاؤں گا۔ بعد میں ان کو تفصیل بتا بھی دی۔ لیکن جاسوس صاحب کے لیے میرا اتنا اعتراف ہی کافی تھا۔ وہ اسے لے اڑے۔ خیر اب ان سے کیا شکوہ کہ کوئی الزام لگانے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیے۔ وہ تو اپنی روزی حلال کر رہے تھے یا ممکن ہے نوکری بچا رہے تھے۔“
”اخلاص صاحب! آپ اعتراف کب کریں گے۔“ ایک بے صبرا ر پورٹر بول اٹھا۔
”ذرا سا صبر کر لیجئے……“
اخلاص احمد نے قرآن پاک کو ادب سے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ ان کے ساتھ والے نے اپنے بیگ سے ایک رحل نکال کر پیش کی۔اخلاص احمد نے رحل کو ڈائس پر رکھا، قرآن پاک کو رحل پر رکھ دیا اور کہنے لگے۔
”میں آپ کی خدمت میں سورہ مطففین کی آیت نمبر 22 تا 28 کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ یہ قرآن کریم کی سورہ نمبر 83 ہے۔ بحمد للہ میں نے قرآن مجید کو کئی ترجموں اور تفاسیر سے پڑھا ہے۔ اس وقت میں مولانا اختر جونا گڑھی کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ اس کے ساتھ تفسیری حاشیے مولانا صلاح الدین یوسف کے ہیں۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن صاحب کا ترجمہ اور اس کے ساتھ مولانا شبیر احمد عثمانی کی تفسیر بھی میرے پیش نظر ہے۔ علماء کرام اور دیگر افراد جس ترجمے یا تفسیر سے چاہیں تصدیق کر سکتے ہیں۔ ترجمہ حاضرہے۔
”یقینانیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے، مسہریوں پر بیٹھے ہوں گے۔ تم ان کے چہروں سے ہی نعمتوں کی تر و تازگی پہچان لو گے۔ ان لوگوں کو سر بمہر خالص شراب پلائی جائے گی۔ جس پر مشک کی مہر ہوگی۔ سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہیے اور اس کی آمیزش تسنیم کی ہوگی۔ وہ چشمہ جس کا پانی مقرب لوگ پئیں گے۔“
سب لوگ دم سادھے سن رہے تھے۔ اخلاص احمد نے اپنی آنکھوں میں آجانے والے آنسو پونچھتے ہوئے قدرے رندھی ہوئی آواز میں کہا: ”میرے محترم بزرگو! ساتھیو!بھائیو!اور بہنو! میرا قصور اس کے سوا کیا ہے کہ میں نے اپنے مالک کے حکم پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ میرے رب نے اپنی کتاب میں،جس میں ایک نقطے کی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ فرمایا کہ جنتیوں کو سر بمہر خالص شراب پلائی جائے گی۔ جس پر مشک کی مہر ہوگی اور لوگوں کو چاہیے کہ اس شراب کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے تفسیر میں لکھا کہ اس پاک شراب کے لیے لوگوں کو ٹوٹ پڑنا چاہیے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش ہونی چاہیے۔“
اخلاص احمد چند لمحوں کے لیے چپ رہے۔ پھر کہنے لگے:
”ہم تو اپنے رب کے حکم کے منتظرہیں، اس نے علم دیا تو ہم جنت کی شراب کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ اب آپ میرے لیے جو سزا تجویز کرنا چاہیں تجویز فرمائیں۔ میں آپ سب کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے یہاں آنے کی زحمت فرمائی۔“
اخلاص احمد اپنی بات ختم کر کے کرسی پر بیٹھ گئے۔ اس وقت ایک گوشے سے بھاری بھر کم شخص اٹھا۔ وہ کرسیوں کی قطار میں سے راستہ بناتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا۔ ڈائس کے قریب پہنچ کر اس نے اخلاص احمد کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور گلے لگایا۔
سب لوگ یہ منظر حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ اخلاص احمد کو گلے لگانے والا شخص سیٹھ عبدالستار تھا۔ ح لیگ کا اہم عہدیدار وہی سیٹھ صاحب جو انتخابات میں اخلاص احمد سے شکست کھا گئے تھے۔
اگلے دن اخبارات میں اخلاص احمد کی پریس کا نفرنس تفصیل سے شائع ہوئی۔ ساتھ ہی ایک اور خبر بھی نمایاں طور پر چھپی تھی۔ ح لیگ کے صوبائی صدر سیٹھ عبدالستار نے تحریک اخلاص میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک عام کارکن کی حیثیت سے تحریک میں کام کریں گے۔

۔۔۔۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top