خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابد کو جب پیاس کاشدت سے احساس ہوا تو وہ اپنی جھونپڑی سے نکل کر پانی تلاش کرنے لگا۔ وہ صبح سے ذکر میں مشغول تھا۔ اس کی جھونپڑی جنگل کے درمیان میں واقع تھی۔ عابد نے جھونپڑی کو اپنا مسلسل ٹھکانہ بنالیا تھا۔ اس کے بچے اور رشتے دار سب شہر میں رہتے تھے لیکن وہ اپنے مالک کو راضی کرنے کے لیے سب سے دور ویران جنگل میں رہنے لگا تھا۔وہ پانی کی تلاش میں اپنی جھونپڑی سے کافی دور نکل آیا تھا۔ اچانک اسے اپنے پاؤں کے پاس کسی وجود کا احساس ہوا۔ عابد نے دیکھا کہ پاؤں پرایک سانپ ڈس کر واپس جارہا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے۔سانپ بھی زہریلا تھا۔ تیزی سے اس کا زہر کام دکھانے لگا۔ وہ اپنا پاؤں لے کر زمین پر بیٹھا اور بیٹھتا چلا گیا۔ اسے جب ہوش آیا تو وہ کلینک میں تھا۔اس نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ اسے کون لایا تو ڈاکٹر نے دائیں طرف کھڑے ایک شخص کی طرف اشارہ کر دیا۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے آیا تھا۔اس نے عابد کو بے ہوش دیکھا تو بھاگتے دوڑتے کلینک لے آیا۔ ’’آپ نے مجھ درویش کی جان کیوں بچائی۔ اس کے بدلے میں آپ کے لیے صرف دعا ہی کرسکتا ہوں۔‘‘ عابد نے تشکر آمیز لہجے میں کہا۔
’’میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انسان کی مدد کرنے سے خوش ہوتا ہے اور آپ کو تو میری مدد کی ضرورت بھی تھی۔ مجھے انسانوں کی مدد کر کے حقیقی خوشی ملتی ہے۔ ویسے آپ جنگل میں کیا کر رہے تھے؟‘‘ اس شخص نے جواب دیتے ہوئے سوال بھی کردیا۔ عابد اس کا سوال سن کر شرمندہ ہوگیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کرجس مالک کی رضا کے لیے جنگل میں رہتاہے ،وہ تو ہمیں بندوں سے محبت جکا حکم دیتا ہے۔اس کے ذہن میں اقبال کا وہ شعر گھومنے لگا جو اس نے بچپن میں پڑھا تھا۔