خوفناک دھماکہ
حمادظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ان بچوں کی بات پر کان دھرا ہوتا تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصدیق ہو چکی تھی اور اب شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ حکومت نے ان کو بیس منٹ کے اندر اندر شہر سے بہت دور نکل جانے کا حکم دیا تھا، کیونکہ وہ اس کے نزدیک بہت اہم شخصیت تھے، لیکن پروفیسر ثعبان کیلئے ان کا یہ آبائی شہر اور اس کے شہری ان کی اپنی جان سے کہیں زیادہ اہم تھے۔
ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر سارے شہر کو بتا دیں کہ کچھ ہی دیر میں یہاں قیامت آنے والی ہے۔ ان کے شہر پر ایٹم بم مارا جا چکا ہے جو زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں شہر پر گر چکا ہو گا اور سب کچھ تہس نہس کر چکا ہوگا۔ لیکن انہیں پتا تھا کہ اس خبر سے سوائے ہلچل اور ہڑبونگ مچنے کے اور کچھ نہ ہوگا۔ دوکروڑ کی آبادی کے شہر میں سے لوگ فوراً بھی نکل پڑیں تو ایک گھنٹہ میں بھی شہر سے باہر نہ پہنچ سکیں گے۔
پروفیسر ثعبان کیلئے بھی شہر سے باہر نکلنا آسان ثابت نہ ہوتا، لیکن حکومت نے ان کی قدر جانتے ہوئے ایئرپورٹ پر خصوصی احکامات دے دیئے تھے۔ اس سب کے باوجود پروفیسر کا یہاں سے بھاگنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ وہ اپنے شہر کو، اس کی گلیوں بازاروں کو، اس کے لوگوں کو آخری مرتبہ ٹھیک سے دیکھ لینا چاہتے تھے اور پھر انہی کے ساتھ انہوں نے اپنے انجام کو بھی منسوب کر دیا تھا۔
’’ جو پورے شہر کے ساتھ ہوگا، وہی میرے بھی ساتھ ہوگا۔ آسان موت، تکلیف دہ موت یا ہمیشہ کی معذوری!‘‘ وہ بڑبڑائے، اور اپنی تجربہ گاہ سے پیدل ہی باہر نکل پڑے۔
*۔۔۔*
پروفیسر ثعبان ملک کے قابل ترین آدمیوں میں سے ایک تھے۔ نیوکلیئر فزکس اور جوہری توانائی ان کا شعبہ تھا اور اس میں ان کا ایک خاص مقام تھا۔ یوں تو وہ درس و تدریس سے منسلک تھے لیکن ساتھ ساتھ ریسرچ سے بھی وابستہ تھے۔ پندرہ برس پہلے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد جب پاکستانی طلبہ پر یہ مضامین پڑھنے پر پابندی لگی تو انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی معلومات کو نئی نسل میں منتقل کرنے پر پورا زور لگا دیں گے اور ساتھ ساتھ خود بھی اس میں آگے بڑھنے کی جدوجہد میں لگے رہیں گے اور اسی وجہ سے ایٹم بم کو بہتر سے بہتر بنانے میں ان کا بھی اہم کردار تھا۔
انہوں نے شوقیہ طور پر اپنے گھر کی چھت پر ایک کمرے میں ایٹمی سنسر بھی نصب کیا ہوا تھا ، جو کئی سو کلومیٹر کے فاصلے تک موجود کسی بھی ایٹمی مادے کی نشاندہی کر سکتا تھا۔ اس بات کو ان کے ایک دو قریبی شاگردوں کے اور کوئی نہیں جانتا تھا۔
ابھی چند ہی منٹ پہلے وفاقی دارالحکومت سے فون آیا تھا کہ شہر کو کوئی شدید خطرہ ہے اور یہ کہ وہ بیس منٹ کے اندر اندر کسی بھی طرح شہر سے بہت دور نکل جائیں۔
’’حتیٰ کہ اگر آپ کو ایئرپورٹ قریب پڑے تو اس کیلئے بھی احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں کہ وہ آپ کو روانہ ہونے والی پہلی فلائٹ میں جگہ دے دیں گے۔‘‘
’’مگر کیوں۔۔۔ آخر ایسا کیا ہو گیا ہے۔‘‘ پروفیسر ثعبان نے الجھن کے عالم میں پوچھا۔
فون کے دوسری طرف پروفیسر نوید تھے جن سے پروفیسر ثعبان کی بہت اچھی جان پہچان تھی۔
’’دیکھو ثعبان یہ وقت ان باتوں کا نہیں، تم میری بات پر یقین کرو۔‘‘ پروفیسر نوید بولے۔
’’تم بتاؤ گے نہیں اصل بات، تو میں نہ یقین کروں گا نہ عمل۔‘‘ پروفیسر ثعبان نے دو ٹوک لہجہ میں کہا۔
’’ٹھیک ہے پھر میں بحث میں وقت ضائع نہیں کروں گا۔ بھارت نے کراچی پر ایٹم بم مار دیا ہے۔ جو ایک گھنٹہ کے اندر اندر تمہارے شہر کو تباہ و برباد کر چکا ہوگا۔تمہارے علاوہ اور بھی اہم شخصیات کو شہر چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔‘‘ پروفیسر نوید نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
’’بکومت۔۔۔ اس قسم کا مذاق تمہیں زیب نہیں دیتا۔‘‘پروفیسر ثعبان پھٹ پڑے۔
’’تم جو بھی سمجھو، یہ حقیقت ہے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ بم لاہور یا اسلام آباد پر مارا جائے گا۔ لیکن یہ تقریباً لاہور کے اوپر سے گزرتا ہوا سیدھا کراچی کی طرف جا رہا ہے۔‘‘
’’تم مجھے الو نہیں بنا سکتے، نوید! کیا مجھے نہیں پتا ہماری حکومت کے دفاعی انتظامات کا۔‘‘ پروفیسر ثعبان کھوکھلی ہنسی ہنس کر بولے۔
’’ہاں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ ذرا میں بھی تو سنوں کیا انتظامات تھے، یہی ناں کہ اگر بھارت نے بم مارا تو ہم بھی جواباً ایک بم مار دیں گے۔‘‘ پروفیسر نوید کے لہجہ میں افسوس کے ساتھ ساتھ طنز کا عنصر بھی شامل تھا۔
’’تو کیا ہم نے بم مار دیا؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔ حکومت کا خیال ہے اس طرح بڑے پیمانے پر تباہی پھیلے گی اور مکمل جنگ کا نقشہ کھینچ جائے گا۔ ‘‘
’’ تو کیا حکومت کو اپنے دو کروڑ عوام کا کچھ احساس نہیں؟‘‘
پروفیسر ثعبان ششدر رہ گئے۔
’’حکومت سمجھتی ہے کہ ان دو کروڑ کی قربانیوں سے ہم ساری دنیا کی حمایت اور ہمدردیاں حاصل کر سکیں گے۔ اب وقت نہ میرے پاس ہے نہ تمہارے پاس۔‘‘
پروفیسر نوید نے فون رکھ دیا۔
’’کیسا گھناؤنا مذاق کیا ہے نوید نے۔ حد ہو گئی۔‘‘
پروفیسر ثعبان کے حلق سے یہ بات اتر ہی نہ رہی تھی۔
’’ارے میرا اٹامک سنسر کس دن کام آئے گا۔‘‘ وہ چونکے اور تیز تیز قدم اٹھاتے چھت کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔
وہاں پہنچ کر جب انہوں نے اپنے آلات سے جائزہ لیا تو ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
لاہور کی جانب سے ایٹمی مادے کی ایک بڑی مقدار بہت تیزی سے کراچی کی طرف بڑھ رہی تھی اور یہ ایٹم بم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ عام جہاز سے یہ سفر تقریباً سوا گھنٹے کا تھا، یعنی میزائل سے یہ آدھے سے بھی کم وقت میں طے ہوجانا تھا۔
پروفیسر ثعبان کے چھکے چھوٹ گئے، انہیں اپنی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ انہیں اپنے اس شہر کی پرواہ تھی جہاں وہ پیدا ہوئے تھے، جہاں ان کا بچپن گزرا تھا۔جس کی گلی کوچوں میں وہ پل کر جوان ہوئے تھے اور جسے اب سے کچھ دیر بعد قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرنا تھا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ماضی کے کچھ واقعات ان کے ذہن کے پردے پر روشن ہونا شروع ہو گئے۔
*۔۔۔*
ایک اسکول کی سائنسی نمائش کے موقع پر وہ مہمان خصوصی تھے۔ بچوں نے بڑی محنت سے مختلف سائنسی ماڈل اور چھوٹے چھوٹے تجربات کا مظاہرہ کیا تھا اور جسے دیکھ کر انہیں اطمینان ہو گیا تھا کہ ان کی جگہ سنبھالنے کیلئے نئی نسل میں ٹھیک ٹھاک ہنر اور جذبہ موجود ہے۔ وہ مختلف اسٹال گھومتے پھر رہے تھے کہ ایک جگہ انہیں لکھا نظر آیا۔ ’’نیوکلیئر اینڈ اٹامک انرجی زون!‘‘
گو کہ انہیں پتا تھا کہ بچوں نے یہاں پر وہی نمونے رکھے ہوں گے جو میٹرک یا انٹر کی کتابوں میں دیئے گئے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ ان کی اپنی دلچسپی کی چیز تھی اور ان کا شعبہ خاص تھا لہٰذا خود بخود ان کے قدم وہاں اٹھتے چلے گئے۔
وہاں پہنچ کر انہیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا، جب انہوں نے دیکھا کہ وہاں فقط چند کاغذات یا رجسٹر کے سوا اور کچھ موجود نہیں۔
’’بھئی ، آپ لوگوں نے کیا بنایا ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ہمارے اسٹال پر رنگ برنگی ڈرائنگ یا متحرک تماشے نہیں ہیں اس لیے اس سے کسی کو بھی دلچسپی نہیں، لیکن آپ چونکہ مہمان خصوصی ہیں، شاید اس لیے مجبوراً تشریف لے آئے ہیں۔‘‘ ایک لڑکے نے دل جلے انداز میں کہا۔
’’نہیں سر! اس کی بات کا برا مت مانئیے گا۔ ہم نے دراصل ایک نئے نظریہ پر کچھ کام کیا ہے۔‘‘ فوراً ہی ایک دوسرا لڑکا خوش اخلاقی سے بولا۔
’’ کس نظریہ پر بھئی؟‘‘ پروفیسر ثعبان نے پوچھا۔
’’سر ایٹم بم انسانوں کو ہلاک کرتا ہے، ہم نے ایٹم بم کو ہلاک کرنے کی ٹھانی ہے!‘‘
پروفیسر ثعبان نے سوچا یہ ضرور سر پھرے لوگ ہیں۔ ان سے کچھ اور نہیں ہو سکا تو یوں ہی ہوا میں تیر چلا رہے ہیں۔
ان کی خاموشی پر اس لڑکے کی ہمت بڑھی اور وہ دوبارہ بولا۔
’’سر ہم نے ابتدا میں تین چار زاویوں سے سوچا۔ایک یہ کہ ہم ایٹم بم لانے والے میزائل ہی کو راستے میں روک لیں یا تباہ کر دیں، لیکن ایسا کرنے سے بم ٹارگٹ تک تو نہیں پہنچے گا، مگر پھٹے گا ہمارے ہی کسی علاقے میں۔
دوسری ترکیب یہ تھی کہ میزائل کو ہم سمندر کا راستہ دکھا دیں تاکہ وہ گرے اورپھٹے تو سمندر میں، لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ بم راستے ہی میں پھٹ سکتا ہے کیونکہ سمندر تک لے جانے کیلئے وقت بہت چاہیے اور اگر سمندر ہی میں گرا تو بھی تابکاری کے بیشتر اثرات ہم تک واپس لوٹ آئیں گے۔
تیسری بات جو کہ تقریباً ناممکن ہے وہ یہ کہ ہم میزائل کا رخ واپس دشمن کی طرف موڑ دیں، کیونکہ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ میزائل کو یکایک صرف نوے ڈگری تک موڑا جا سکتا ہے اور 180ڈگری تک کئی ٹکڑوں میں موڑنے تک میزائل اتنا دور نکل چکا ہو گاکہ اس میں ایندھن باقی نہیں بچے گا اور اگر اس کیلئے ہم اپنا ایک اور میزائل ماریں تو اس کو نہ صرف پچھلا میزائل الگ کرنا پڑے گا بلکہ وار ہیڈ کو دوبارہ سے تھامنے کیلئے ٹھیک ٹھاک وقت بھی درکار ہوگا۔‘‘
لڑکا تقریر کے دوران سانس لینے کیلئے رکا تو پروفیسر ثعبان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل گئی۔ انہیں یہ بچکانہ باتیں اور یہ معصوم خیالات سننے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔ لڑکا پھر شروع ہو گیا۔
’’ابھی تک ہم میزائل ٹیکنالوجی کے بارے میں سوچ رہے تھے، پھر ہم نے سوچا کیوں ناں ہم جوہری توانائی پر کام کریں۔‘‘
باقی لڑکوں نے دیکھا کہ مہمان خصوصی تو جم کر ان کی باتوں کو سن رہا ہے تو وہ سب بھی دلچسپی لینے لگے اور کوئی پرچہ اٹھائے کوئی قلم سنبھالے رجسٹر کھول کر، مختلف چیزیں ان کے آگے کرنے لگے۔
’’ سر بہت غور و خوص کے بعد ہم نے یہ پلان مرتب کیا ہے کہ ہمیں ایٹم بم کی نہ صرف بے انتہا توانائی کو جذب کرنا ہوگا بلکہ ان نیوٹرانز کو بھی قید کرنا ہوگا جو کہ اس سارے فساد کی اصل جڑ ہیں!‘‘
اس لڑکے کا اندازِ بیاں ایسا تھا کہ پروفیسر ثعبان اس کو روک نہیں پا رہے تھے، ورنہ وہ اس کو یہ کہنے کیلئے بے چین تھے کہ
’’میاں ، ذرا ویڈیو گیمز کم کھیلا کرو، یہ پزل یا بلاکس کا گیم نہیں ہے کہ یہاں سے توڑا اور وہاں لگا دیا۔‘‘
’’ آپ کو تو پتا ہی ہوگا کہ ہائیڈروجن بم ، ایٹم بم کا بھی باپ ہوتا ہے اور اس کو فقط پھاڑنے کیلئے ایک دو ایٹم بم درکار ہوتے ہیں اور اس سے نکلنے والی توانائی سے کئی بڑے بڑے شہر دس دس سال تک بجلی حاصل کر سکتے ہیں۔ہم نے اس کو الٹ کر دیا یعنی بجائے ہم دو ہائیڈروجن ہم جا(Isotopes) سے ہیلئم گیس ، نیوٹران اور توانائی بنائیں۔ ہم دو چیزیں ایٹم بم سے لے کر ہیلئم گیس سے اس طرح تعمل کرائیں گے کہ دو ہائیڈروجن ایٹم کے ہم جا بن جائیں یعنی ڈیوٹوریم اور ٹرائی ٹیم!‘‘
اس کے ساتھ ہی لڑکوں نے انہیں مختلف اشکال اور حساب کتاب دکھانا شروع کر دیا۔
’’ارے لڑکو! خوابوں کی دنیا سے نکل آؤ، یہ تم لوگوں نے کن خطوط پر سوچنا شروع کر دیا، ان پر تو ابھی شاید جی ۔ ایٹ نے بھی نہ سوچا ہو گا۔‘‘
ایک لڑکا چراغ پا ہو کر آگے بڑھا اور جذباتی انداز میں بولا۔
’’جی ایٹ آپ سے پوچھ کر سوچتے ہیں، یا جو سوچتے ہیں آپ کو اس کی اطلاع دے دیتے ہیں اور وہ لوگ غیر مسلم ہیں، زیادہ سے زیادہ تباہی کا سوچتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں، ہمیں زیادہ سے زیادہ امن کا سوچنا چاہیئے۔
وہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے سومریں تو دشمن کے دوسو، جبکہ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے سو بھی نہ مریں۔‘‘
’’ہونہہ!‘‘ پروفیسر حقیقت میں واپس لوٹ آئے۔
’’ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے دو کروڑ مر جائیں اور دشمن کا ایک بھی نہ مرے، تاکہ ہمدردیاں اور حمایت حاصل ہو جائے۔‘‘ وہ بڑبڑائے۔
’’اس کے ذمہ دار تم ہو پروفیسر، تم نے اس تباہی کی دوڑ میں ہمیشہ آگی ہی جانے کی سوچی اور اگر کسی نے اس کا سدباب کرنا چاہا تو تم نے اسے مذاق میں اڑایا۔‘‘ ضمیر کی آواز آئی۔
’’کاش ۔۔۔ اے کاش میں نے ان بچوں کی بات پر کان دھرا ہوتا۔ شاید کچھ ہو جاتا، تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔‘‘انہوں نے سوچا۔
راستے میں انہیں ایک فقیر ملا جسے وہ روز بھیک نہ مانگنے پر ایک لیکچر سناتے تھے۔ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور یہ دیکھے بغیر کہ کونسا نوٹ ہے ،فقیر کو تھما دیا۔ وہ حیرت سے کبھی انہیں اور کبھی اس نوٹ کو دیکھ رہا تھا۔
’’تھوڑی دیر کیلئے خوش ہوجاؤ۔یہ نوٹ نہ تمہارے کام آنا ہے نہ میرے۔‘‘ انہوں نے سوچا۔
پھر ان کا رخ بازار کی طرف ہو گیا۔ بھانت بھانت کی بولیاں چل رہی تھیں۔ دکانداروں اور خریداروں میں بحث چل رہی تھی، انہیں اس منظر اور اس ماحول سے بڑی کوفت ہوتی تھی، مگر آج انہیں یہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔
ان کا دل چاہا کہ یہ منظر یوں ہی رک جائے اور ہمیشہ کیلئے ان کی آنکھوں میں بس جائے۔ یہ محنت کش لوگ دھول مٹی اور گرمی میں رزق حلال کیلئے کوشاں لوگ۔ انہیں لگا کہ ان کے ماتھوں پر پسینے کے قطرے نہیں بلکہ موتی چمک رہے ہوں۔ وہ اشیاء کے نام اور قیمتوں کی صدا لگانے کے بجائے سریلے گیت گا رہے ہوں اور کچھ ہی دیر بعد یہ نہیں ہوں گے۔ ان کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔ سالوں سے یہاں جو منظر ہوا کرتا تھا، اس کی جگہ ویرانی اور وحشت لے لے گی، برسوں تک کوئی یہاں سے گزرے گا بھی نہیں۔ کوئی تصور بھی نہ کر سکے گا کہ کیسے کیسے دل والے یہاں بسا کرتے تھے۔
پروفیسر ثعبان کا دل بھر آیا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے آگے بڑھے۔
’’ارے پروفیسر، اس وقت کیسے آگئے؟ آج، دو ہفتے سے اپنی پسند کی چیزیں لے جا رہے ہو، آج ہماری پسند کی لے جانی پڑے گی۔‘‘ ایک دکاندار نے صدا لگائی۔
پروفیسر زبردستی مسکرائے اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’واہ بھئی واہ! اتنی آسانی سے مان گئے، بھئی آج سورج کہاں سے نکلا ہے؟‘‘
’’تم خوش رہو۔‘‘ انہوں نے کہنا چاہا لیکن زبان نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
وہ آگے بڑھتے رہے۔ موت کو اتنا قریب دیکھ کر انہیں ساری دنیا ہی بدلی بدلی نظر آرہی تھی۔ لوگ اپنے کاروبار اور لین دین میں مگن تھے، اپنے انجام سے بے پرواہ۔
انہوں نے سوچا کہ زور زور سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیں مگر ان کی آواز ان کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔انہوں نے سوچا کہ کاش وہ لڑکے انہیں دوبارہ سے مل جائیں تو وہ ان سے کہیں کہ
’’تم لوگ صحیح تھے۔ ٹھیک سوچ رہے تھے۔ تم کم عمر ہو مگر بچے نہیں ہو۔ تم لوگ جو کچھ سوچتے ہو اس کو ضائع مت کرو۔ تم سب کچھ کر سکتے ہو۔ اپنے آئیڈیے پر محنت کرو۔ اپنے خواب کو تعبیر دو۔ کوئی نئی چیز ایجاد یا دریافت کرنے کیلئے ڈاکٹر یا پروفیسر ہونا ضروری نہیں ۔ اپنی صلاحیتوں کو سمجھ اور صحیح استعمال کرو، چاہے اسکول میں ہو، چاہے کالج میں یا چاہے یونیورسٹی میں۔‘‘
’’پروفیسر ثعبان نے وقت دیکھا، چند ہی منٹ رہ گئے تھے، ان کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ جسم لرزنے لگا۔ کان کسی بھی لمحے ہونے والے ایک زوردار دھماکے کے منتظر تھے اور پھر آہستہ آہستہ ان کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
*۔۔۔*
پروفیسر ثعبان کی آنکھ کھلی تو انہیں ایک نرس کی صورت نظر آئی۔
’’مم ۔۔۔ میں کہاں ہوں؟‘‘
’’آپ ہسپتال میں ہیں پروفیسر۔‘‘
’’میرا مطلب ہے کس شہر میں ہوں۔ کراچی کا کیا حال ہے؟‘‘ وہ جلدی جلدی بولے۔
’’میرا خیال ہے شاید ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔‘‘ نرس نے کسی سے سرگوشی کی۔
’’کراچی کا کیا حال ہے؟‘‘ پروفیسر حلق کے بل دھاڑے۔
’’اس کے شہریوں کا کیا حال ہے؟‘‘
’’جج جی۔۔۔ کراچی بالکل خیریت سے ہے، اس کے سب شہری بھی بالکل خیریت سے ہیں۔‘‘ نرس سہم کر بولی۔
’’ نوید کا نمبر ملاؤ۔۔۔ پروفیسر نوید، منسٹری آف۔۔۔‘‘
وہ جلدی جلدی بولے۔
’’ایٹم بم کا کیا ہوا؟‘‘ رابطہ ملتے ہی وہ بولے۔
’’کونسا ایٹم بم؟‘‘ پروفیسر نوید حیرانی سے بولے۔
’’وہی جو کراچی کی طرف آرہا تھا۔‘‘
’’ارے وہ ۔۔۔ وہ تو ایٹمی مادہ تھا جو نیوکلیئر پلانٹ کیلئے جا رہا تھا۔ ہم کو تم نے اپنے اٹامک سنسر کے بارے میں بتایا ہی نہیں۔ ہمیں کہیں اور سے پتا چلا تو سوچا چلو تمہارے ساتھ اٹھ کھیلی کریں۔۔۔ ‘‘ پروفیسر نوید مزے لے لے کر کہہ رہے تھے جبکہ پروفیسر ثعبان خدا کا شکر ادا کر رہے تھے کہ انہیں نئی نسل تک اپنی حسرتیں اور پیغام پہنچانے کا موقع مل گیا!
*۔۔۔*