خزانہ
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں کے دن تھے۔دسمبر کا پہلا ہفتہ بیت گیا تھا اور دوسرے ہفتے کا آغاز ہوچکا تھا۔شام کا وقت تھا۔دو شخص ویران مقام سے گزر رہے تھے ،جو دو شہروں کے درمیان واقع تھا۔جس شہر سے آئے تھے وہ پرانا شہر تھا اور جدھر جارہے تھے اسے لوگ نیا شہر کہتے تھے۔ان دو اشخاص میں ایک کا نام عامر تھا اور دوسرے کا فیاض۔دونوں دکان دار تھے اور مہینے میں ایک بار کچھ چیزوں کی خریداری کے لیے شہر جاتے تھے۔ رات ایک سرائے میں بسر کرتے تھے۔یہ سرائے نئے شہر سے کچھ فاصلے پر تھی۔جن لوگوں کا ان دو شہروں کے درمیان آنا جانا رہتا تھا، وہ رات عام طور پر اسی سرائے میں گزارتے تھے ۔عامر اور فیاض دونوں تنومند تھے ،مگر سارا دن دکان پر کام کرنے کی وجہ سے تھک گئے تھے، اس لئے ایک گھنٹے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر سستانے لگے۔
آدمی بری طرح سے تھک چکا ہو تو فوراً سو جاتا ہے۔یہی حال فیاض کا ہوا۔گھاس پر لیٹتے ہی سو گیا۔نیند میں اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کا ساتھی کسی سے باتیں کر رہا ہے ۔ابھی نیند اس کی آنکھوں میں تھی کہ وہ بیدار ہو کر بیٹھ گیا۔اس وقت اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی اس کے قریب سے گزر کر درختوں کی ایک قطار کے پیچھے غائب ہو رہا ہے۔
”یہ بوڑھا کون ہے اور اس نے عامر سے کیا کہا ہے۔“فیاض کے ذہن میں خیال آیا اور عامر سے پوچھا۔
”عامر! یہ بوڑھا تم سے باتیں کر رہا تھا؟“
”نہیں تو! ادھر آیا ضرور تھا۔“
عامر کے لہجے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بات چھپا رہا ہے۔
”تم سے کچھ نہیں کہا اس نے؟“
”بالکل نہیں۔“
دونوں پرانے دوست تھے اور ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے مگر اس شام عامر اپنے دوست پر اعتماد نہیں کر رہا تھا۔فیاض نے اصرار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔دونوں اٹھے اور سرائے کے اندر چلے گئے۔کھانا کھا کر اپنے بستر پر لیٹ گئے۔عامر بار بار کروٹیں بدل رہا تھا۔فیاض کو یقین ہو چکا تھا کہ اس کا ساتھی کوئی خاص کارروائی کرنے والا ہے۔وہ آنکھیں بند کئے اس طرح لیٹا رہا جیسے گہری نیند سو رہا ہو۔اس کی آنکھوں میں نیند اترتی جا رہی تھی مگر وہ سونا نہیں چاہتا تھا۔وہ یہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھا کہ آخر عامر کرنا کیا چاہتا ہے اور وہ کونسا ایسا راز ہے جو وہ اس سے چھپا رہا ہے۔
رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی ۔رات آدھی بیتی ہوگی کہ فیاض نے دیکھا ،عامر اپنی چارپائی سے اٹھا ہے۔اس کی طرف آیا ہے۔جھک کر اسے دیکھا اور یہ دیکھ کر وہ سو رہا ہے ، دروازے کی طرف چلا گیا۔دھیرے سے دروازہ کھولتا ہے، ایک بار پلٹ کر فیاض پر نگاہ ڈالتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔
”یا الٰہی! یہ کیا ماجرا ہے ۔آدھی رات کو یہ کہاں جا رہا ہے اور کیوں جارہا ہے؟“
فیاض کے دل میں ایک کشمکش سی جاری تھی،جی تو اس کا چاہتا تھا کہ فوراًا سے آواز دے اور اس سے پوچھے یہ کیا حرکت کر رہے ہو تم۔مگر اس کے ساتھ ہی اسے خیال آیا کہ دیکھوں۔وہ اپنی چارپائی پر لیٹا رہا مگر زیادہ دیر تک کے لئے رہنا اس کے لئے مشکل تھا۔بستر سے اٹھ کر اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔اندھیرے میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔اس نے اپنے تھیلے میں سے ٹارچ نکالی ، چند منٹ کمرے میں ٹہلتا رہا۔طرح طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آرہے تھے ۔سوچتا تھا ، اس بوڑھے آدمی نے اسے نئے شہر کے خاص دکان دار کا پتا بتایا ہوگا جہاں سے اعلیٰ درجے کا سامان مل سکتا ہے اور عامر رات کے اندھیرے میں چلا گیا ہے تاکہ صبح جیسے ہی اس کی دکان کھلے، وہ ڈھیر سارا سامان خرید لے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے اسے کوئی اور بات بتا دی ہو، لیکن وہ بات کیا ہوگی؟ اس کی سمجھ اسے نہیں آتی تھی۔
وہ رہ نہ سکا۔ٹارچ جیب میں ڈالی، اپنے کمرے سے نکل کر سیڑھیاں طے کر کے نیچے آیا اور سرائے کے بڑے دروازے کی طرف جانے لگا۔
سرائے کا بڑا دروازہ عموماً کھلا رہتا تھا۔کیوں کہ بعض مسافر رات ہی کے وقت اپنے کمرے چھوڑ کر چلے جاتے تھے ۔سرائے کے اندر ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔سرائے میں کام کرنے والے اور سرائے کے کمروں میں رات بسر کرنے والے سب سو رہے تھے۔فیاض دروازے سے نکل کر باہر آگیا۔فضا میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔فضا ابر آلود تھی مگر بارش نہیں ہوئی تھی۔
” میں اسے ڈھونڈو کہاں؟“فیاض نے خود سے سوال کیا۔اس نے جیب سے ٹارچ نکالی۔مدھم روشنی میں وہ کچھ بھی نہ دیکھ سکا۔وہ چلتا گیا۔اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کے قریب ہی کوئی آدم زاد موجود ہے۔روشنی میں اس نے درخت پہچان لیا جس کے نیچے شام کے وقت دونوں نے آرام کیا تھا اور یہیں وہ بوڑھا عامر سے کچھ کہہ کر چلا گیا تھا۔وہ آگے بڑھا ۔اور آگے اور آگے بڑھا ۔
”ہیں یہ کیا!“
اس نے دیکھا کہ ایک شخص سخت درد سے بے قرار ہو کر ہائے ہائے کر رہا ہے۔اس نے سانس روک کر دیکھا ۔وہ عامر تھا۔
”یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے،عامر کو ہوا کیا ہے۔“
عامر ایک گڑھے کے کنارے پڑا تھا۔
”عامر!“ فیاض نے جھک کر اس کے چہرے کو دیکھا جو سیاہ پڑھتا جا رہا تھا۔
”فیاض! سانپ….“
عامر فقرہ مکمل نہ کر سکا۔فیاض نے سمجھ لیا کہ وہ کہنا چاہتا ہے کہ سانپ نے مجھے کاٹ کھایا ہے۔
”خدا کے لئے کچھ کرو فیاض۔“عامر نے بڑی مشکل سے کہا۔
فیاض کو فوراً خیال آیا اگر بہت جلدی اس کا علاج نہ ہوا تو یہ مر جائے گا۔اس نے ٹارچ منہ میں تھا ما۔دونوں ہاتھوں سے اپنے دوست کو اٹھا کر پیٹھ پر لادا اور نئے شہر کی طرف چلنے لگا۔
قدم اٹھانا اس کے لئے مشکل تھا مگر دوست کی جان بچانا بہرحال وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔بوجھ اتنا بھاری تھا کہ اس کی کمر دوہری ہوئی جاتی تھی۔سانس رک جاتا تھا لیکن اس کے قدم نہیں رکتے تھے۔نئے شہر میں بار بار آنے کی وجہ سے وہ جانتا تھا کہ ہسپتال کہاں ہے۔ہسپتال شہر کے کنارے پر تھا۔خوش قسمتی سے ڈیوٹی پر ڈاکٹر جاگ رہا تھا۔اس نے عامر کی حالت دیکھی۔اسے فوراً آپریشن روم لے آیا۔اپنے ساتھی ڈاکٹر کو ٹیلی فون کیا کہ وہ فوراً آجائے۔
”اب مریض خطرے سے باہر ہے۔چند منٹ گزر جاتے تو مر گیا ہوتا۔“
ڈاکٹر کے منہ سے یہ الفاظ سن کر فیاض کی جان میں جان آئی۔صبح تک ڈاکٹروں کے علاج سے عامر کی حالت کافی بہتر ہوچکی تھی اور وہ گفتگو کرسکتا تھا۔
فیاض نے ٹیکسی کرائے پر لی۔ڈاکٹر سے مزید علاج کے لیے نسخہ لکھوایا اور ٹیکسی میں اپنے دوست کو لے کر شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔راستے میں فیاض نے عامر سے کچھ کہنا سننا مناسب نہ سمجھا۔
”عامر کچھ بتانا ضروری سمجھے گا تو خود ہی بتادے گا۔ میں کیوں پوچھوں اس سے؟“
گھر پہنچ کر فیاض نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس کے دوست کی زندگی بچ گئی۔اپنے گھر جانے کے لئے اس نے عامر سے اجازت چاہی۔
”فیاض!“
”کہو عامر!“
”تم نے جو احسان کیا ہے وہ میں آخری سانس تک نہیں بھول سکتا۔“
”یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا ہے عامر! تم پر میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔میری ایسی حالت ہوتی تو تم بھی یہی کرتے جو میں نے کیا ہے۔ہم دوست ہیں کوئی غیر تو نہیں ہیں ۔“
عامر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”فیاض!لالچ نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔میں اندھا ہو گیا تھا۔اس بدبخت بوڑھے نے مجھ سے کہا تھا کہ اس پیڑ کے نیچے خزانہ دفن ہے۔موقع پا کر زمین کھودنا۔بہت بڑا خزانہ تمہارے ہاتھ آجائے گا۔میں نے تم سے اس کا ذکر نہ کیا اور آدھی رات کو زمین کھودی اور سانپ نے کاٹ کھایا۔تم رحمت کے فرشتے بن کر آ گئے ۔میری جان بچ گئی ورنہ اب تک میرے بچے یتیم ہو گئے تھے۔“
عامر خاموش ہوگیا۔
”یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی ہے۔ہمارا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔“
”فیاض!“ عامر بولا۔
”کہو!“
”کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے خزانہ نہیں ملا۔“
فیاض حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ یہی حالت عامر کی بیوی اور بچوں کی تھی۔سب اسے بڑی حیرت سے دیکھنے لگے تھے۔
”مجھے خزانہ مل گیا۔“
فیاض حیران وپریشان اسے دیکھتا رہا۔
”یہ ہے میرا دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ۔ایک سچا اور ہمدرد دوست….دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔“
عامر نے فیاض کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے۔