خیالی پُلاؤ
تحریر:وی میدویدیف
ترجمہ:قر أۃ العین حیدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا حصہ
بارن کِن اورتختۂ سیاہ
پہلا واقعہ : دو خراب نمبر
اگر مجھے اور مالی نن کو تعلیمی سال کے شروع ہی میں خراب نمبر نہ ملے ہوتے تو ہماری زندگیوں میں ایسی عجیب وغریب بات بھی پیش نہیں آتی ۔لیکن ہم دونوں کو بہت خراب نمبر ملے اور دوسرے ہی دن ایک بڑا انوکھا واقعہ پیش آگیا ۔ایسا واقعہ جس پر کسی کو یقین آہی نہیں سکتا۔
خراب نمبر ملنے والے حادثے کے فوراََبعد ہماری کلاس مانیٹر زینا فو کینا ہمارے پاس آئی اور بولی :۔۔۔۔۔۔ ’’بارَن کِن اور مالی نَن ! ڈوب مرو تم دونوں۔تم نے تو سارے اسکول کی ناک کٹا دی ‘حد ہو گئی ۔‘‘
پھر اس نے بہت سی لڑکیاں اکٹھّا کیں ۔ سب مل کر مسکوٹ میں لگ گئیں ۔وہ سب میرے اور مالی نَن کے خلاف کوئی سازش سی کر رہی تھیں ۔ا س وقت انٹر ویل تھا ۔جب تک دوسرے پیریڈ کی گھنٹی نہیں بجی‘ان کی کانا پھوسی برابر جاری رہی ۔اِسی عرصے میں ہمارے دیواری اخبار کے فوٹو گرافر اور رپورٹر الیک نووی کوف نے ہم دونوں کی تصویر کھینچ لی اور اخبار کے ’’طنزو مزاح‘‘والے کالم میں لگا دی ۔اس کے نیچے لکھا تھا ’’احمقوں کی جوڑی ‘‘۔اسے دیکھ کر اخبار کے چیف ایڈیٹر ایرا کُزیا کینا نے کھا جانے والی نظروں سے ہمیں دیکھا اور بولی۔۔۔۔۔۔’’تمہاری وجہ سے ہمارے اتنے اچھے اور پیارے اخبار کا حُلیہ بگڑ کر رہ گیا ۔‘‘
ہمارا دیواری اخبار واقعی بہت اچھا تھا ۔اُسے طرح طرح کے رنگوں سے سجایا گیا تھا اور اس پر بڑے شوخ رنگوں سے خوش خط لکھا تھا
’’ہم میں سے ہر ایک صرف ‘اچھّے ‘اور بہت اچھے ‘نمبر حاصل کرے گا ۔‘‘ہمارے اسکول کا اصولِ عمل یا ما ٹو یہی رکھا گیا تھا۔
ایرا کُزیا کینا کا کہنا ایک طرح سے تھا بھی ٹھیک ۔ہمارے پھولے اور اُداس چہرے‘ جن پر حماقتوں کے آثار صاف نظر آرہے تھے ‘اس خوب صورت‘ اخبار سے بالکل لگا نہیں کھاتے تھے ۔ہمیں واقعی دکھ ہوا اور ہم نے چیف ایڈیٹر کو ایک پرچے پر لکھ کربھیجا۔۔۔۔۔۔’’ایراکُزیا کینا!مہربانی کر کے اخبار سے ہماری تصویریں ہٹا دیجیے تاکہ ہمارے پیارے اخبار کی شکل پھر سے سنور جائے۔‘‘لیکن چیف ایڈیٹر صاحبہ نے کوئی توجہ نہ دی۔پرچہ پڑھ کر اس نے صرف کندھے اُچکا دیے اور ہماری طرف دیکھنے تک کی تکلیف گوارہ نہ کی ۔
دوسرا واقعہ : آدمی کو لوگ موقع ہی نہیں دیتے ۔
اسکول ختم ہونے کی گھنٹی بجتے ہی سارے طالب علم ایک ساتھ دروازے کی طرف لپکے ۔میں کواڑوں کو اپنے کندھوں سے دھکاّدے کر کھولنے ہی والا تھا کہ ایرا کُزیا کینا بیچ میں آگئی اور بولی ’’ابھی کوئی نہیں جائے گا ۔ہم عام جلسہ کرنے والے ہیں بارکن اور مالی نَن کے معاملے پر سوچ بچار کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔‘‘یہ سب اس نے بڑے توہین آمیز انداز سے کہا۔
’’جی نہیں ۔جلسہ ولسہ کچھ نہیں ہوگا ۔بس بات چیت ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔سنجیدہ بات چیت۔سب لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جائیں ‘‘۔زینیافو کینا نے چلّا کر کہا ۔
زینیا کے اس جملے نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔لوگ پہلے ہی سے آگ بگولہ ہو رہے تھے ۔اب انہوں نے ڈیسکوں پر مُکّے مارنے شروع کر دیے ۔مجھ پر اور مالی نن پر برس پڑے ۔’’غلطی ان دونوں کی ہے ۔ہم سب اسکول کے بعد کیوں ٹھہریں ؟ہم ہر گز نہ ٹھریں گے ۔‘‘سب چیخنے لگے ،ظاہر ہے ہم دونوں نے بھی اُن کا ساتھ دیا ۔اگر کسی کو خراب نمبر ملیں تو اس کے لیے عام جلسہ کرنے کی کیا تُک ہے ؟عام جلسہ نہ سہی ‘سنجیدہ بات چیت سہی مطلب ایک ہی ہے ۔اور پھر ایسی بات تو پچھلے سال بھی ہوئی تھی ۔میرا مطلب ہے پچھلے سال بھی ہم لوگوں کو خراب نمبر ملے تھے لیکن ایسا شور اور ہنگامہ تو کسی نے نہیں مچایا تھا ۔ہمیں شرم بھی بہت آئی تھی اُس وقت ۔مگر اس سال کی طرح نہیں کہ سر مُنڈاتے ہی اولے پڑگئے۔
میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چیف ایڈیٹر صاحبہ اور کلاس مانیٹر صاحبہ کلاس کی اس ’’بغاوت ‘‘ کو دبانے میں کامیاب ہو گئیں ۔سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔جب شور کم ہوا تو فو کینا نے جھٹ پٹ میٹنگ شروع کر دی یعنی میرے اور میرے جگری دوست ۔۔۔۔۔۔۔مالی نن کے بارے میں ’’سنجیدہ بات چیت ۔‘‘
تیسرا واقعہ : ایک ناٹک
جب کلاس میں خاموشی چھا گئی تو فوکینا نے چلا کر کہا:
’’کتنے شرم اور کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ابھی اسکول کا نیا سال ٹھیک سے شروع بھی نہیں ہوا کہ حضرت بارکن اور مالی نن نے خراب نمبر حاصل کرنا شروع کر دیے۔فو کینا کے الفاظ ابھی ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ کلاس میں ایک بار پھر ہڑبونگ شرو ع ہوگئی۔ہر شخص چیخ رہا تھا ۔اپنی اپنی کہے جا رہا تھا ۔کسی کی بات سمجھ نہیں آتی تھی ۔کبھی کبھار ایک آدھ جملہ سمجھ میں آجاتا تھا۔
’’یہی حال رہا تو میں دیواری اخبار کی چیف ایڈیٹری سے استعفیٰ دے دوں گی ۔‘‘ ایرا کُزیا کینا نے کہا :
’’یاد رہے پچھلے سال بھی ان دونوں نے وعدہ کیا تھا کہ خوب محنت سے پڑھیں گے۔‘‘میشایا کو دلیف بولا ۔
’’احمقوں کے سرداروں !پچھلے سال تو ہم نے تم کو کسی نہ کسی طرح بھگت لیا مگر ا س سال توتمہارا چغدپن ابھی سے شروع ہو گیا ۔‘‘شہد کی نکھٹو مکھی جیسے الیک نودی کولیف نے بھنبھناتے ہوئے کہا۔
’’ان کے اماّں ابّاسے بات کرنی پڑے گی۔‘‘نینا بولی
’’چلّو بھر پانی میں ڈوب نہیں مرتے ۔‘‘ ایرینا اور نینا نے مل کر ہانک لگائی ۔
’’اسکول سے نکال باہر کرو جی ان دونوں کو ۔‘‘ایرا کزیا کینا چیخی ۔
’’ ایرا!بُری بات ہے ۔ایسے الفاظ مت استعمال کرو۔ بعدمیں تم کو کہیں پچھتانا نہ پڑے ۔‘‘کسی نے سنجیدگی سے کہا۔
غرض اتنا اُدھم مچ رہا تھا کہ میں اور مالی نن کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ کون ہمارے لیے سوچ رہا ہے ۔اتنا ضرور معلوم ہوا کہ ان سب کی نظروں میں ہم دونوں حد سے زیادہ احمق،کاہل ، بے غیرت، نکمّے اور بور تھے۔
سب سے زیادہ غم اس بات کا تھا کہ وینکا سیمر نوف ‘جس کو پچھلے سا ل ہم سے بھی زیادہ خراب نمبر ملے تھے ‘چیخنے میں سب سے آگے تھا۔ ’’سوپ تو سوپ چھلنی بھی بولی جس میں نو سو بہتر چھید ۔‘‘میں نے ومینکا کو آڑے ہاتھوں لیا۔۔۔۔۔۔’’اگر تم کو بلیک بورڈ پر سب سے پہلے بلا لیاجاتا تو تم کو ہم سے بھی زیادہ خراب نمبر ملتے ۔تم کیوں ٹیں ٹیں مچا رہے ہو۔اپنی چونچ بند کرو میاں ۔‘‘
’’بے وقوف ہو تم دونوں ۔۔۔۔۔۔میں تو تم ہی لوگوں کا ساتھ دے رہا ہوں ۔تمہارے خلاف کچھ تھوڑی کہہ رہا ہوں ۔‘‘ومینکا نے ہم سے کہا۔پھر چیخ کر بولا ۔۔۔۔۔۔‘‘دوستو!سنو! چھٹیوں کے بعد اسکول کھلتے ہی کسی ساتھی کو اس طرح ڈانٹنا پھٹکارنا نا انصافی ہے ۔ میری تجویز ہے کہ اسکول کھلنے پر ایک مہینے تک کسی سے کوئی سوا ل نہ حل کرایا جائے ۔نہ ہی ا س کو بلیک بورڈ پر چھاپا جائے ۔‘‘
’’شاباش ۔۔۔۔۔۔بالکل ٹھیک بات ہے ۔ذرا ایک بارپھر زور سے کہنا یہی بات ۔‘‘میں چلاّیا ۔
غل پھر مچنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔فوکینا نے ڈیسک پر گھونسا ما ر کر کہا ۔’’خاموش خاموش بارن کن کو بولنے کا موقع دو۔ ‘‘
’’بولنے سے کیا فائدہ ‘‘ میں نے کہا۔’’یہ ہمارا قصور نہیں کہ ٹیچر نے سب سے پہلے ہمیں ہی بلیک بورڈ پر بلایا اور میشا جیسے فرسٹ کلاس طالب علم کونہیں ۔‘‘
سب ہنس پڑے ۔
’’مسخرہ پن کرنے کے بجائے تم کو چاہیے کہ میشا کی تقلید کرو۔‘‘فوکینا نے مجھ سے کہا ۔۔۔ ۔ ۔۔ ’’بتاؤ تم دونوں اچھے نمبر لانے کی کوشش کب سے کرو گے ؟‘‘
’’تم بتادو ۔‘‘میں نے مالی نن سے کہا۔
’’اماں تو تم سب لوگ اپنے اپنے گلے کیوں پھاڑے ڈالتے ہو۔لے آئیں گے اچھے نمبر ۔بس کہہ دیا۔مالی نن نے جواب دیا ۔
’’آخر کب ؟ ‘‘ فوکینا نے پوچھا ۔
’’کب لائیں گے ہم اچھے نمبر ؟‘‘مالی نن نے مجھ سے پوچھا ۔
’’اچھا ہم اگلی چھٹیوں سے پہلے ترقی کر کے دکھا دیں گے ۔‘‘
’’بہت اچھے ۔کیا کہنے ۔۔۔۔۔۔۔یعنی آپ کے اچھے نمبر لانے کے لیے ہمیں پورے سال انتظار کرنا پڑے گا ۔جی نہیں ۔کلاس نے طے کیا ہے کہ تم کو کل ہی سے اچھے نمبر لانے ہوں گے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔فوکینا نے سختی سے کہا ۔
’’معاف کرنا فوکینا۔۔۔۔۔۔۔کل تو اتوار ہے ۔‘‘میں نے مسکرا کر کہا۔
’’فکر نہ کرو ۔اسکول کا تھوڑا بہت کام تمہارے لیے مفید ہو گا ۔‘‘میشا بولا ۔
’’ان دونوں کو ڈیسک کے ساتھ رسّی سے باندھ دو جی۔‘‘ ایرا کزیا بولی ۔
’’ٹھیک ہے ۔ٹھیک ہے ۔‘‘الیک نو دی کوف نے ہاں میں ہاں ملائی۔
’’لیکن ہم سوا ل حل ہی نہ کر پائے تو ۔‘‘میں نے کہا۔
’’میں سمجھا دوں گا ۔‘‘ میشا نے ہمدردی سے کہا ۔
میں نے مالی نن کو دیکھا ۔مالی نن نے مجھے دیکھا ۔ہم دونوں ہی چُپ تھے۔
’’خاموشی کا مطلب رضا مندی ۔‘‘ فوکینا نے کہا۔۔۔۔۔۔۔’’تو بس طے ہے ۔اتوار کی صبح کو تم میشا کے ساتھ سوال حل کرو گے اور شام کو اسکول کے باغ میں ہمارے ساتھ پود لگاؤ گے ۔‘‘
’’کیا ہم دونوں کو بھی پود لگانی پڑے گی ۔آدھی جان تو سوال حل کرنے ہی میں نکل چکی ہوگی ۔‘‘ ہم دونوں نے چیخ کر کہا ۔
’’دماغی کام کرنے کے بعد جسمانی محنت سے دل اور دماغ تازہ ہو جاتا ہے ۔‘‘ ایڈیٹرا نچیف صاحبہ نے ارشاد فرمایا ۔
’’کسی صورت چین نہیں ۔۔۔۔۔۔وہ کیا گانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔میری نیند گئی ‘میرا چین گیا‘ میرا آرام گیا ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے مالی نن کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’الیک ! ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو دونوں بھاگ نہ جائیں ۔‘‘ کلاس مانیٹر نے کہا ۔
’’ بھاگیں گے اور وہ بھی مجھ سے ۔۔۔۔۔۔یہ دیکھا ہے ۔‘‘ اس نے اپنے کیمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔‘‘ اِدھر بھاگے اور اُدھر ایک دو تین ۔۔۔۔۔۔۔اور ایک تصویر اخبا ر میں موجود ۔۔۔۔۔۔!!
چوتھا واقعہ (بے حد اہم ) : اگر میں آدمی بننے سے اُکتا جاؤ ں تو کیا ہو ؟
کلاس روم خالی ہو گیا مگر میں مالی نن کے ساتھ ڈیسک پر خامو ش بیٹھا رہا ۔دونوں ہکّا بکّا تھے۔نمبر ہمیں پہلے بھی خراب مل چکے تھے مگر ہمارے ساتھیوں نے اس طرح ہماری خبر پہلے کبھی نہ لی تھی ۔
تنہائی دیکھ کر میں اپنا دکھ درد مالی نن سے کہنے ہی والا تھا کہ فوکینا پھر آن موجود ہوئی اور مجھ سے بولی :’’یورا ! (حالانکہ وہ مجھے ہمیشہ میرا پورا نام ‘ یورا بارن کن لینے کے بجائے صرف بارن کن کہہ کر پکارتی تھی ) انسان بنو یورا ! کل تک اپنے خراب نمبروں کا داغ دھو ڈالو ۔‘‘ اس نے اس طرح کہا جیسے وہاں صرف ہم دونوں ہی ہوں ‘ اور مالی نن موجود نہ ہو ۔‘‘ کرو گے نا ایسا ؟‘‘ اس نے نرمی سے دُہرایا ۔
’’فوکینا ! اگر میں ایک بد تمیز لڑکا ہوتا تو تم سے کہتا کہ میرا سر نہ کھاؤ ۔‘‘میں نے سختی سے کہا۔
’’تم سے سیدھی سادی انسانوں کی زبان میں بات کرنا فضول ہے ۔‘‘اُس نے غصے سے جواب دیا ۔
’’تو مت کرو بات ۔‘‘
’’نہیں کروں گی آئندہ ۔‘‘ اُس نے اور زیادہ غصے سے کہا ۔
’’لیکن بولے تو جا رہی ہو ۔‘‘ میں نے اور زیادہ سرد مہری سے کہا ۔
’’ صرف اس لیے کہ میں چاہتی ہوں کہ تم آدمی بنو ،مرد بنو،انسان بنو۔‘‘فوکینا نے بے حد غصے سے کہا۔
’’اور اگر میں انسان بننے سے اُکتا چکا ہوں تو ؟‘‘میں نے جھلّا کر جواب دیا ۔
’’حد ہوگئی ۔بارن کن ۔حد ہو گئی ۔‘‘ وہ سر کو جھٹکا دے کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔
میں ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے سوچتا رہا۔واقعی انسان کی حیثیت سے وقت گزارتے گزارتے میں کتنا تھک چکا ہوں۔کتنا اُکتا چکا ہوں میں اس طرح کی زندگی سے۔اور ابھی پہاڑ سی زندگی اسی طرح گزرنے کے لیے سامنے پڑی تھی۔جان لیوا پورا ایک سال اسکول میں اور بتانا تھا۔
پانچواں واقعہ : ہمیں بیلچے دیدےئے گئے اور میشا کسی وقت بھی آن ٹپکے گا۔
اتوار آیا۔ابّا کے کلینڈر میں یہ دن چمک دار سرخ حرفوں اور ہندسوں میں چھپا ہے ۔گھر کے سب ہی بچوں کے لیے یہ چھٹی کا دن ہے ۔کچھ فلم دیکھنے جارہے ہیں ‘کچھ فٹ بال کھیلنے یا کوئی تفریح کرنے۔ لیکن میں اور مالی نن صحن میں بچھی ہوئی ایک سخت بنچ پر بیٹھے میشا کا انتظار کرنے میں مصروف ہیں ۔
اسکول کا کام ہفتے کے باقی دنوں ہی میں کونسا دلچسپ ہوتا ہے۔ اتوار کے اس سہانے اور تفریحوں سے بھرپوردن میں بیٹھ کر سبق پڑھنا اور سوال حل کرنا ‘ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ صبح اُٹھ کر جب میں نے دیکھا تھاتو آسمان پر بادل چھائے تھے ۔کھڑکی کے باہر ہوا سیٹیاں بجا رہی تھی اور پتّے جھڑ رہے تھے۔ میں خوش ہو رہا تھا کہ اگر موسم ایسا ہی رہا تو ذرا ہی دیر میں فاختہ کے انڈوں کے برابر اولے گرنا شروع ہو جائیں گے ۔اولے نہ پڑے تو بر ف کا طوفان یا پھر موسلا دھار بارش تو ضرور ہی ہوگی اور میشا نہ آسکے گا اور ہماری چھٹی ہو جائے گی ۔لیکن اولے‘ برف کا طوفان ‘ آندھی یا بارش ۔۔۔۔۔۔میشا کوکوئی نہیں روک سکتا ۔وہ کچھ اس قسم کا آدمی ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے بادل چھٹ گئے۔میشا کے آتے آتے ہوا بھی بند ہو چکی تھی ۔برچ کے جس پیڑ کے نیچے ہم بیٹھے تھے اس کے پتے گرنے بند ہوگئے تھے۔ سورج خوب چمک رہا تھا۔
’’ارے اے جڑواں ککر متو!تم دونوں اپنا سبق یا دبھی کر چکوگے یا نہیں ۔امّاں نے کھڑکی سے جھانک کر پوچھا ۔یہ سوال وہ اب تک کوئی چھے دفعہ پوچھ چکی تھیں ۔
’’ہم میشا کا انتظار کرر ہے ہیں ۔‘‘
’’کیا اُ س کے بغیر پڑھائی شروع نہیں کر سکتے ؟‘‘
’’یہ ناممکن ہے۔‘‘ میں نے اور مالی نن نے ایک ساتھ جواب دیا اور مُڑ کر کیکر کی جھاڑیوں میں اس دروازے کی طرف دیکھنے لگے جدھر سے میشا آنے والا تھا ۔میشا کا اب تک کوئی پتا نہ تھا۔البتہ الیک نودی کوف پھاٹک کے باہر سڑک پر چکر لگا رہا تھااور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پیڑوں کے بیچ سے یہ دیکھ لیتا تھا کہ ہم دونوں کیا کر رہے ہیں۔ اس کے ایک کندھے پر کیمرہ لٹکا ہوا تھا اور دوسرے کندھے پر فوٹو گرافی کا دوسرا الم غلم سامان ۔میں اس کی اس جاسوسی کو برداشت نہ کر سکا اور جھلّا کر دوسری طرف دیکھنے لگا ۔اتنے میں فوکینا بھی الیک سے آملی ۔اس نے چار بیلچے اٹھا رکھے تھے۔ا س کے ایک ہاتھ میں گتّے کا ایک ڈبّہ اور تتلیاں پکڑنے کا جال تھا۔الیک نے اس کی ایک تصویرکھینچی اور پھر وہ دونوں ہماری طرف بڑھے ۔میرا خیال تھا کہ الیک فوکینا سے بیلچے لے لے گا اور اس کا بوجھ ہلکا کر دے گامگر اس نے ایسا نہیں کیا۔فوکینا سب چیزیں سنبھالے گرتی پڑتی چلی آرہی تھی ۔الیک اپنے دونوں ہاتھوں سے کیمرہ سنبھالے ہوئے تھا۔
’’اے نواب صاحب !یہ بیلچے جو فوکینا اُٹھا ئے ہوئے ہے شاید آپ کے کندھوں کے لائق نہیں ہیں ؟‘‘میں نے کہا۔
’’لیکن آپ دونوں کے لیے عین مناسب ہیں ۔‘‘اس نے ہم دونوں پر کیمرہ فوکس کرتے ہوئے کہا۔
’’اس تصویر کا عنوان ہو گا ۔‘‘کلاس مانیٹر زینیا فوکینا اپنے ہم وطنوں کو اوزار تقسیم کر رہی ہیں ۔‘‘
فوکینا نے بیلچے بنچ سے لٹکا دیے ۔اُسی وقت الیک نے ایک اور تصویر کھینچ لی ۔
’’ہاں مجھے اس تصویری معمے کاخیال آرہا ہے جو میں نے بچوں کے محبوب رسالے ’’کیمپ فائر میں دیکھا تھا۔‘‘ میں نے بچوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔
’’کیا تھا وہ ؟‘‘فوکینا نے شبہے سے پوچھا۔
’’تصویری معمہ ۔‘‘
’’اچھا یہ بات ہے ۔اس بیلچے کا دستہ کہا ں ہے ؟؟‘‘
’’نہیں ۔وہ لڑکا کہاں ہے جو اس بیلچے کو اٹھا ئے گا ؟‘‘میں نے جواب دیا۔
’’بارن کن !کیا تم اسکو ل کے چاروں طرف درخت لگوانے میں ہماری مدد نہیں کرو گے ؟‘‘ فوکینا نے سخت لہجے میں پوچھا۔
’’کون کہتا ہے نہیں کروں گا ۔میں پیڑ ضرور لگواؤں گا۔مگر نہ جانے کتنی دیر لگے گی اس کام میں ۔‘‘
’’انسان بنو‘ بارن کن انسان بنو ۔میشا کے ساتھ پڑھنے کے بعد فوراًاسکول کے باغ میں پہنچو ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہم دونوں سے کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی مگر شاید اس نے ارادہ بدل دیا۔اس نے دو بیلچے ہمارے پاس چھوڑ ے۔باقی دونوں کندھے پر اُٹھا باغ کی طرف چل دی ۔
الیک پھاٹک سے باہر جا کر پہلے کی طرح ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔مالی نن بیلچوں کو اور زیادہ اُداسی کے ساتھ اس طرح گھورنے لگا جیسے اُس پر جادو کر دیا گیا ہو ۔میں نے اُن کو نظر انداز کرتے ہوئے خوش و خرم نظر آنے کی پوری کوشش کی اور درختوں پر چہچہا تی چڑیوں کو دیکھنے لگا۔اس وقت میرے سان گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہمارے مکان کا یہ صحن بہت جلد عجیب وغریب اور اُن ہونے والے واقعات کا مرکز بن جائے گا۔
چھٹا واقعہ : ہفتے کا ہر دن اتوار ہو نا چاہیے ۔یہ خیال میرے ذہن پر چھا کر رہ گیا۔
جھاڑیوں میں چڑیاں چہچہارہی تھیں ۔وہ جھنڈ بنا کر ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ کی طرف ایسے اُڑ رہی تھیں جیسے وہ لچک دار دھاگوں کے ذریعے آپس میں بندھی ہوں ۔
میری ناک کے ٹھیک سامنے بھنگوں کا جھنڈ بھنبھنا رہا تھا ۔کیاریوں پر تتلیاں منڈ لارہی تھیں ۔بنچ پر چیونٹے دوڑرہے تھے ۔ایک چیونٹا میرے گھٹنے پر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا ۔
ان سب کے لیے ہر دن اتوار کا دن ہے ۔میں نے چڑیوں کو رشک سے دیکھتے ہوئے سوچا اور شاید ہزار ویں بار اپنی زندگی کا مقابلہ ان کی زندگی سے کیا اور ایک بہت ہی غمگین اور المناک نتیجے پر پہنچا ۔۔۔۔۔۔یہ چڑیاں ، یہ کیڑے مکوڑے ایک آزاد اور خوشیوں سے بھر پور زندگی گزاررہے ہیں ۔نہ ان کو کسی کا انتظار تھا نہ کسی بات کی فکر ۔نہ کسی کو کوئی کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا ۔نہ لکچر سننے پڑتے تھے اور نہ ہی ریاضی کے سوال حل کرنے ہوتے تھے۔نہ بیلچے ان کے ہاتھوں میں تھما دیے جاتے تھے ۔ہر ایک جس طرح چاہتا مزے سے دن گزارتا ۔ان کی ساری عمر ، ساری زندگی بس ایک تفریح تھی ۔ان کے لیے ہفتے کا ہر دن اتوار تھا ۔کاش ان مسرور تتلیوں ‘ چڑیوں اور چیونٹیوں کی طرح ہم ایک دن بھی گزار سکتے !کاش صرف ایک دن صبح سے شام تک احکامات کی یہ گردان نہ سننی پڑتی کہ۔۔۔۔۔۔جاگو۔کپڑے پہنو۔جاؤ ۔لاؤ ۔یہ کرو ۔وہ کرو ۔سبق پڑھو۔ گنتی یاد کرو ۔پہاڑے یاد کرو۔۔۔۔۔۔۔یہ تو تھی گھر کی بات ۔۔۔۔۔۔۔۔اُدھر اسکول کا حال اس سے بھی بد تر تھا ۔وہاں فوکینا صاحبہ اپنا وظیفہ جار ی رکھتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔بارن کن !آپے میں رہو ۔نیچے بیٹھو ۔بدتمیزی مت کرو۔دیر سے مت آؤ ۔اسکول میں انسان کی طرح رہو۔ وغیرہ وغیرہ ۔اگر یہی انسان کی طرح رہنا ہوا تو پھرآرام کس وقت کروں ؟اور وہ جگہ کہاں ملے گی جہاں میرے آرام میں کوئی دخل انداز نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک اس موقع پر میرے دماغ میں وہ انوکھا خیال آیا جو بہت دنوں سے منڈلا رہا تھا۔۔۔۔ ۔ ۔ ابھی اور اسی وقت اس خیال کو عملی جامہ پہنانا چا ہیے ۔ا س سے بہتر موڈ شاید پھر کبھی نہ آئے ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔میں نے سوچا ۔لیکن مالی نن کو بتاؤ ں یا نہ بتاؤ ں ؟۔۔۔۔۔۔بتانا تو پڑے ہی گا۔۔۔۔۔۔اچھا چلو بتائے دیتا ہوں۔
’’اماں یار !‘‘میں نے مالی نن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے کہا ۔خوشی اور جوش کے مارے میرا دم نکلے جا رہا تھا ۔
یہ واقعہ ہے کہ اگر اس اتوار کے دن مجھے اسکول کا کام نہ کرنا ہوتا اور اس کے بعد پھر اسکول کے باغیچے میں پیڑ لگانے کا بوجھ ہم پر نہ ڈالا گیا ہوتا تو میں اپنے اس اچھوتے خیال کو مالی نن پر کبھی بھی نہ ظاہر کرتا ۔مگر اسکول میں نہ ملے ہوئے خراب نمبر اور بنچ کے ساتھ ٹکے ہوئے بیلچوں نے میری مددکی اور میں نے پہلا قدم اٹھا نے کا فیصلہ کر لیا۔
ساتواں واقعہ : دنیاسے انوکھی ہدایت
میں نے ایک بار پھر اپنے گھر کی کھڑکی کی طرف دیکھا ۔آسمان پر نظر ڈالی ۔چڑیوں پر اور پھاٹک پر نگاہ کی جس کے پیچھے سے میشا کسی بھی لمحے نمو دار ہو سکتاتھا ۔پھر جذبا ت سے گھٹی ہوئی آواز میں بولا :’’ مالی نن !جانتے ہو میری امّاں کیا کہتی ہیں ؟‘‘
’’کیا کہتی ہیں تمہاری امّاں ؟‘‘مالی نن نے اشتیاق سے پوچھا ۔
’’یہی کہ اگر کسی چیز کے لیے سچّے دل اور پوری لگن سے تمنا کی جائے تو چپٹی نا ک تک عقابی ناک میں تبدیل ہو سکتی ہے۔‘‘
’’عقابی ناک ؟۔۔۔۔۔۔۔‘‘مالی نن نے دہرایا اور اس دیوار پر نظر ڈالی جس پر کسی نے چاک سے لکھ دیا تھا
’’خیالی پلاؤ پکانے والا سنکی بارن کن۔ ‘‘
’’ہاں ایسا ہو سکتا ہے بشر طیکہ سچّی نیت اور دل کی گہرائیوں سے تمنا کی جائے ۔‘‘میں نے کہا۔
مالی نن نے اپنی نگاہیں دیوار سے ہٹا کر میری ناک کو شبہے سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔میری ناک چپٹی تھی۔امّاں کہتی تھیں کہ میری ناک بالکل پکوڑے جیسی ہے۔اور جس کے نتھنوں میں سے میرے دماغ کے خیالات تک دیکھے جا سکتے ہیں ۔
’’تو پھر تم اپنی ناک عقابی کیوں نہیں بنا لیتے ۔میرے یار ۔‘‘مالی نن نے کہا۔
’’ناک کا کون ذکر کر رہا ہے بدھو۔میرا مطلب ہے کہ اگر تم سچے دل سے چاہو تو چڑیا بن سکتے ہو ۔مثال کے طور پر۔‘‘
’’کیوں مثال کے طورپر چڑیا ہی بننے کی کیا ضرور ت ہے ؟‘‘
’’ چڑیا بن کر شریف انسانوں کی طرح کم از کم ایک اتوار تو گزار ا جا سکتا ہے۔‘‘
’’انسانوں کی طرح ؟کیا مطلب ہے تمہارا ۔‘‘مالی نن نے تعجب سے پوچھا :
’’میرا مطلب ہے اصلی اور معقول انسانوں کی طرح ۔چلوآج بھر کے لیے میشا ،ریاضی اور دنیا کی ساری خرافات سے چھٹی لے لیں لیکن اگر تم آدمی بننے سے اُکتا نہ چکے ہو تو پھر بیٹھ کر میشا کا انتظار کیا کرو ۔‘‘
’’کون کہتا ہے کہ میں اُکتا نہیں گیا ہوں ؟میرا تو آدمی کی جون میں رہتے رہتے ناک میں دم آگیا ہے ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا ۔
’’اب ڈھنگ کی بات کی تم نے ۔‘‘
میں نے جوش میں آکر مالی نن کے سامنے چڑیوں کی آزادانہ زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ۔
’’ارے واہ ۔کیا لاجواب زندگی ہے ان چڑیوں کی،مگر ہم چڑیا بنیں تو کیسے ؟‘‘مالی نن بولا۔
’’پریوں کی کہانیوں میں کیا ہوتا ہے؟یہ شاید تم نے نہیں پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔یہی کہ ایرالشکا زمین پر گرا ،لوٹا، اور دوسرے ہی لمحے تیز پرواز عقاب میں تبدیل ہو گیا ۔پھر گرا اور لوٹا اور۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اماں بارن کن !کیا بغیر گرے کام نہیں چل سکتا ؟‘‘مالی نن نے ٹوکا ۔
’’چل کیوں نہیں سکتا ۔اصل چیز ہے خواہش کی شدت اور جادو کا منتر ۔‘‘
’’جادو کا منتر کہاں سے ملے گا ۔پریوں کی کسی پرانی کہانی سے؟‘‘مالی نن نے دریافت کیا ۔
’’نہیں منتر تو میں نے سوچ لیا ہے ۔یہ رہا منتر۔‘‘یہ کہتے ہوئے میں نے مالی نن کے سامنے ایک کاپی بک بڑھا دی جس میں وہ منتر لکھا ہوا تھا ۔اس کاپی کو اب تک میرے سوا کسی اور نے نہیں دیکھا تھا۔
’’چڑیا میں تبدیل ہونے کا گُر ۔از بارن کن ۔‘‘مالی نن نے آہستہ سے پڑھتے ہوئے ورق اُلٹا ۔
آٹھواں واقعہ:پڑھوں گا نہیں میں تو چڑیا بنوں گا۔
’’پڑھوں گا نہیں میں تو چڑیا بنوں گا ۔یہ کیا ہے ؟۔۔۔۔۔۔کوئی نظم ہے کیا ؟‘‘مالی نن نے پوچھا۔
’’نظم نہیں ۔یہ منتر کے بول ہیں ۔پریوں کی کہانیوں میں فی ۔فائی ۔فم وغیرہ منتر کے بول ہوتے ہیں نا۔ویسے ہی بول ہیں ۔‘‘
’’میری سمجھ میں تمہارا یہ منتر نہیں آیا ۔‘‘مالی نن نے کہا۔
’’بالکل صاف تو ہے۔‘‘میں نے کہا ۔سُنو !سُنو! منتر سُنو !میں چڑیا میں تبدیل ہو رہا ہوں ۔بس دیکھتے رہو۔‘‘
’’بہت ٹھیک ۔‘‘مالی نن نے کہا۔
’’میں پور ی رات نہیں سویا ۔بس یہ منتر ہی بناتا رہا۔‘‘یہ کہتے ہوئے میں نے چاروں طرف نظر ڈالی کہ کہیں کوئی ہماری جاسوسی تو نہیں کر رہا ہے ۔
’’تو پھر جلدی کرو کہیں میشا نہ آجائے ۔‘‘مالی نن بولا۔
’’تم بھی عجیب آدمی ہو مالی نن! جلدی کیسے کروں ۔ہوسکتا ہے کی جلدی کرنے میں منتر کا اثر جاتا رہے۔اور تم تو اتنے زور زور سے بول رہے ہو کہ ساری دنیا سُن لے۔‘‘میں نے غصّے سے کہا۔
’’کوئی اور سُن لے گا تو کیا ہو گا؟‘‘مالی نن نے کہا ۔
’’کیا ہوگا ؟‘‘تم جانتے ہو کہ یہ جادو کا کھیل ہے ۔ابھی اس کا تجربہ نہیں کیا گیا ہے ۔اگر کسی نے ہماری باتیں سُن لیں اور بعد میں اس جادو کا کوئی اثر نہیں ہوا تو مفت میں ہمارا مذاق اُڑ جائے گا۔‘‘
’’لیکن تم نے تو کہا تھا کہ اگر تمہارے پاس جادو کا منتر ہو اور تم لو لگا کر منتر پڑھو تو اثر ہو کر رہے گا۔‘‘
’’لیکن اصل چیز ہے کہ تم کتنی شدّت کے ساتھ تمنا کرتے ہو ۔کبھی تم نے سچے دل سے کسی چیز کی تمنّا کی ہے ؟‘‘
’’معلوم نہیں ۔‘‘
’’پھر بھی تم کہتے ہو کہ جلدی کرو ۔یہ کوئی کم نمبروں کا زیادہ نمبروں میں تبدیل کرنے کا معاملہ تو ہے نہیں ۔یہ تو دو انسانوں کا گو ریّا چڑیوں میں تبدیل ہونے کا سوال ہے بھائی میرے۔‘‘میں نے مالی نن کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’گوریا ہی کیوں بنا جائے؟میرے خیال میں تو تتلیاں بننا زیادہ آسان رہے گا۔‘‘
’’تتلیاں کیوں ؟تتلیاں بہرحال کیڑے ہیں اور گوریا ایک پرندہ ہے ۔پچھلا سبق جو کلاس میں پڑھایا گیا تھا وہ گوریا چڑیوں ہی کے بارے میں تو تھا ۔مگر تم تو اس وقت چھپا کر کوئی اور کتاب پڑھ رہے تھے ۔تم نہیں جانتے کتنی مزے دار زندگی ہے ان گوریوں کی!‘‘
’’اچھا خیر۔چلو گوریّا ہی بن جائیں ۔میں نے اسکول کے ڈرامے ’برف کی ملکہ‘ میں کوّے کا پارٹ کیا تھا۔میرے لیے گوریّا میں تبدیل ہوناآسان رہے گا ۔چلو جلدی کرو۔‘‘مالی نن نے جو ش سے کہا۔
’’جلدی مت کرو ۔پہلے ذرا پریکٹس تو کر لیں ۔‘‘میں نے بنچ پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
پھر میں نے ایڑیوں کے بل بیٹھ کر چڑیوں کی طرح سر اندر کر لیااوربازوؤں کی طرح ہاتھ پیچھے کر لیے ۔مالی نن نے میری سب حرکتوں کی نقل کرتے ہوئے کہا ۔’’چوں ۔چوں ۔چوں۔‘‘
’’دیکھوٹھکانے سے پریکٹس کرو ۔ابھی سے یہ چوں ۔چوں کیا لگا رکھی ہے ۔پہلے چڑیا کے چلنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہیے ۔‘‘میں ڈانٹتے ہوئے کہا۔
اُکڑوں بیٹھ کر ہم نے بنچ پر پھدکنا شروع کیا اور یکایک لڑھک پڑے ۔توازن قائم کرنے کے لیے اپنے بازوؤں کوپروں کی طرح پھڑ پھڑاتے ہوئے مالی نن نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔’’بڑا مشکل کام ہے یہ۔‘‘
’’فکر مت کرو جب ہم سچ مچ چڑیا بن جائیں گے تو یہ سب بہت آسان ہو جائے گا ۔‘‘میں نے دلاسا دیتے ہوئے کہا ۔
مالی نن ابھی کچھ دیر اور پھدکنا چاہتا تھا مگر میں نے کہا کہ اب ہمیں اصل کام کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔یعنی چڑیوں کے جون میں آنے کی طرف ۔
’’تیاّ ر ۔‘‘میں نے کہا ۔
’’ہاں تیاّر۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’خبر دار ۔‘‘میں چلّایا ۔
’’خبردار ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’بس سوچوکہ تم گوریا بن رہے ہو ۔‘‘میں نے کہا۔
’’سوچ رہا ہوں ۔‘‘مالی نن بولا ۔
’’اور اب جیسے ہی میں حکم دوں ذہنی طور پرگوریّا میں تبدیل ہونا شروع کردو۔‘‘میں نے ہدایت کی۔
’’اچھا۔‘‘
’’ایک ۔ دو ۔تین ۔‘‘میں نے آنکھیں میچ لیں اورگوریا میں تبدیل ہونے پر دھیان دیتے ہوئے سوچنے لگا کہ کیا میرے ارادے کی قوت اتنی زبردست ہے کہ ایسی ناممکن بات ممکن ہو جائے ۔
دوسرا حصّہ
نواں واقعہ:بس سچے دل سے تمنّا کیجئے اور پھر۔۔۔۔۔
سچ پوچھوتو ساری عمر میرے دماغ میں عجیب عجیب اور بڑے انوکھے قسم کے خیال آتے رہے ہیں ۔میں آرزو کیا کرتا تھا کہ کوئی ایسا کام سر انجام دوں کہ دنیا والے حیر ت میں رہ جائیں۔ مثلاًایک بار میں نے سوچا کہ ایک ایسا آلہ ایجاد کرنا چاہیے کہ جس کے ذریعے دور ہی سے کسی بھی بولنے والے کی آواز غائب کی جائے ۔اس آلے سے میں طرح طرح کے کام لے سکتا تھا۔مثلاً آج کلاس میں ٹیچر بے حد اُکتا دینے والا کوئی سبق پڑھا رہی ہیں اور میں اپنے جیب میں رکھے ہوئے آلے کا بٹن دبا دیتا ہوں ۔بٹن دباتے ہی محترمہ کی آواز غائب ۔باقی لڑکے تو سبق سُن سُن کر بور ہو رہے اورہم مزے سے بیٹھے ہیں ۔یا پھر فوکینا صاحبہ کلاس میں آتے ہی مجھے نصیحتیں کرنا شروع کر دیتی ہیں ۔ میں آلے کو چالو کر دیتا ہوں ۔بس پھر وہ بکے جائیں ۔اپن بے فکر بیٹھے ہیں ۔میں نے سوچا تھا کہ اگر میں نے یہ آلہ بنالیا تو اس کا نام رکھوں گا ۔۔۔۔۔۔’’میو ٹیفون۔ وائی. بی نمبر۱؍ازبارن کن ۔‘‘
مگر شاید میں دل کی گہرائیوں سے اس کی تمنّا نہیں کر پایا ۔تب ہی میں اس آلے کا نام رکھ لینے سے آگے نہ بڑھ سکا ۔یا پھر پچھلے سال کی گرمیوں کی چھٹیوں کے آخری دن رات کوسونے سے پہلے میرا دل چاہا کہ پندرہ بیس سال بعد بڑے ہونے کے بجائے کل صبح ہی بڑا ہو جاؤں تا کہ اسکول نہ جانا پڑے ۔رات بھر یہی سوچتا رہا ۔یہی خواب دیکھتا رہا ۔اگلے دن صبح جلدی اُٹھ بھی بیٹھا مگر یہ کیا؟نہ داڑھی نہ مونچھیں ۔ویسے کا ویسا پھر اسکو ل جانا پڑا۔
اس قسم کی بہت سی تمنائیں میرے دل میں دُبکی بیٹھی تھیں لیکن میں ان میں سے کسی کی بھی اتنے سچے دل اور پوری شدت کے ساتھ تمنا نہ کر سکا تھا جتنی آج اس وقت چڑیا بننے کے لیے کر رہا تھا۔
اس لیے مالی نن کے ایک ۔دو ۔تین ،کہتے ہی میں نے سوچا کہ اب تو چڑیا بن کر ہی دم لوں گا ۔میں بنچ پر دم سادھے لو لگا کے بیٹھا رہا۔ پہلے تو کوئی خاص بات نہیں ہوئی ۔پھر طرح طرح کے بے تکے انسانی خیالات دماغ میں چکر لگانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔کلاس میں لیے ہوئے خراب نمبر ۔ریاضی کے سوال ۔ میشا اور فوکینا۔۔۔۔۔۔۔میں نے سر کو جھٹکا دیا اور پوری کوشش کی کہ انسانوں کی طرح سوچنے کے بجائے پرندوں کی طرح سوچوں ۔دھیرے دھیرے میری کوشش رنگ لانے لگی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے دماغ میں غیر انسانی خیالوں نے سرسرانا شروع کر دیا ہے۔مثلاً میرا جی چاہنے لگا کہ ایک دم چڑیوں کی طرح چہچہا اُٹھوں ۔پھر جی چاہا کہ پھدک کر بینچ پر سے اُڑ جاؤں اور گھونسلے میں جا بیٹھوں ۔وہاں سے اُڑوں تو برچ کی سب سے اُونچی ٹہنی پر پہنچ جاؤں ۔اسی طرح کے خیالوں کے بیچ جب میں نے عادت کی وجہ سے انسانوں کی طرح سوچنا چاہا تو پتا چلا کہ اب انسانی خیالوں کے لیے میرے دماغ کے دروازے بند ہوچکے ہیں ۔ریاضی مجھے انتہائی مسخر ہ پن معلوم ہوئی ۔خراب نمبروں نے مجھے بالکل پریشان نہیں کیا۔میشا جو اسکول کا سب سے ذہین طالب علم تھا ۔مجھے ایک ایسا اُجڈ معلوم ہوا جو ہوا میں اُڑ نے جیسا آسان کام ہر گز نہیں کر سکتا ۔اچانک مجھے سنسناہٹ سی محسوس ہوئی ۔میری ٹانگیں،میری ریڑھ کی ہڈی میرے با،میرا پورا جسم سنسنانے لگا ۔میرا دل چاہا کہ دانے چگنے شروع کر دوں ۔ مٹی پر بکھرے ہوئے جو کے دانے ۔میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس سنسناہٹ اور جو کے دانے چگنے کی خواہش کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟سنسناہٹ ہونا تو پھرکوئی بات نہیں۔اکثر بیٹھے بیٹھے پیر سو جاتے ہیں تو اس طرح کی سنسناہٹ ہوتی ہے۔مگر یہ جو کے دانے۔۔۔۔۔۔۔!مجھے تو اماں کا بنایا ہوا جو کا دلیا کبھی پسند نہ آیا ۔یہ تو جو کے دانے تھے اور و ہ بھی کچّے۔
لاحول ولا قوۃ ۔میں کوئی گھوڑا ہوں کہ جو کھانا شروع کر دوں ۔
میری آنکھیں ابھی تک میچی ہوئی تھیں ۔اس لیے اور بھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔مجبوراًمیں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں ۔پچھائی ہوئی آنکھوں سے پہلے اپنے پروں پر نظر ڈالی ۔۔۔۔۔۔ارے یہ کیا میرے پیر اب گوریا کے پنجے تھے ۔میں نے جلدی سے پوری آنکھیں کھول دیں ۔۔۔۔۔۔ کندھوں پرنظر ڈالی تو بازو اور پر نظر آئے سر گھما کر پیچھے کی طرف دیکھا تو دُم دکھائی دی ۔بنچ پر میرے اپنے انسانی جسم کے بجائے چڑیا کا جسم بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ سچ ہے کہ میں چڑیا میں تبدیل ہو گیا ہوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔سچ اور بالکل سچ ۔میں۔بارن کن ۔اب ایک گوریّا چڑیا تھا۔ جب ہی تو مجھے جو کے دانے یاد آرہے تھے۔امّاں ٹھیک ہی کہتی ہیں کہ اگر سچّے دل سے کسی چیز کی تمنّا کی جائے تو وہ مل ہی جاتی ہے۔
کتنا زبردست انکشاف تھا۔یہ بات تو چہچہا چہچہا کر ساری دنیا کو بتا دینی چاہیے۔میں نے اپنا سینہ پھُلایا۔پر پھیلائے ۔پھر مالی نن کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ارے رے رے ۔حیرت کے مارے میری چونچ کھلی کی کھلی رہ گئی ۔وہ بے چارہ ابھی تک لڑکا ہی بنا بیٹھاتھا۔
دسواں واقعہ :چڑیوں کی بول چال۔
مالی نن آنکھیں میچے ،زورزور سے سانسیں لیتا ہوا اپنے جسم پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔۔۔۔۔اور جلدی جلدی جادو کا منتر دہرارہا تھا۔مگر ہوا کچھ بھی نہیں ۔جوش کے مارے اس بے چارے کا چہرہ سُرخ ہو چکا تھا۔
’’کیا ہوامالی نن !ابھی تک گوریا نہیں بن پائے تم؟‘‘میں نے کہا لیکن ان الفاظوں کی بجائے میرے منہ سے نکلا۔’’چو،چوں،چڑ،چوںُچیں۔‘‘
ٍ ٍٍٍٍٍٍٍٍمالی نن نے گردن موڑ کر مجھے تعجب سے دیکھا ۔
’’بارن کن ۔۔۔۔۔۔۔یہ تم ہو بارن کن ؟؟‘‘ مجھے چڑیا کی جون میں دیکھ کر مالی نن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
چووں چڑ۔۔۔چوں،چیں،چڑ؟۔۔۔۔میں نے گوریا کی زبان میں جواب دیا۔اس کا مطلب تھا ۔’’اور کیا یہ میں ہی توہوں ۔پہچانا نہیں تم نے ؟‘‘
رشک کے مارے مالی نن اور زیادہ لال بھبھوکا اور روہانسا ہو گیا اور بھرّائی ہوئی آواز میں پوچھنے لگا :’’تم نے یہ کیسے کر لیا؟‘‘
’’چیں، چیں، چڑ،چیپ۔‘‘(بالکل آسان ۔ایک ۔دو ۔تین۔جادو منتر چھو،اور بس)میں نے جواب دیا۔اس کے بعد میرے اور مالی نن کے بیچ اپنی اپنی زبان میں اس طرح بات چیت ہوئی۔
مالی نن :’’تم تو بارن کن گوریا بن گئے ۔میں اب تک کیوں نہ بن سکا؟‘‘
میں :’’چوں ، چوں، چیپ۔چڑ،چوں،چی ۔‘‘(مجھے کیا معلوم ۔ٹھیک سے گوریا بننے کی تمّنا نہ کی ہوگی تم نے )۔
مالی نن :’’یہ چوں ،چوں کیا لگا رکھی ہے ۔تم آدمیوں کی طرح کیوں نہیں بات کرتے ۔‘‘
میں :’’چی چی ،چووُں‘‘ (میں گوریّا ہوں بھئی )’’چرررر،چیک،چر،چنک چی،چی۔‘‘ (آدمیوں کی زبان میں کیسے بات کر سکتا ہوں ؟)’’چک چِک ،چک چر ،چی ۔‘‘
مالی نن:’’یہ گالیاں کیوں دے رہے ہو مجھے؟‘‘
مالی نن میرے آخری جملے کو گالی سمجھ بیٹھا ۔حالاں کہ میں کہہ رہا تھا کہ ہمت نہ ہارو اور کوشش کیے جاؤ۔تم بھی گوریّا بن جاؤگے ۔مگر وہ بے چارہ گوریّا کی زبا ن نہ سمجھ سکا ۔اُس نے مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا اس لیے کہ میں اُس کا انتظار کیے بغیر گوریا بن گیا تھا۔میں نے اُس غریب کے اس طرح ناراض ہونے اور بُرا بھلا کہنے کا کچھ خیال نہیں کیا۔مجھے خود بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔مالی نن بے چارہ گوریا نہ بن سکا۔صرف میں بن گیا ۔اکیلے اکیلے گوریّا بن جانے میں بھلا کیا مزہ آئے گا ۔
میں نے اپنے بازو پھڑپھڑائے اور پھُر سے اُڑ کر سامنے والے جنگلے پر جا بیٹھا ۔میں خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔میں نے مُڑ کر مالی نن کی طرف دیکھا۔اُسی وقت سڑک کے موڑ پر مجھے سائیکل پر آتا ہوا میشا نظر آیا۔میں نے اپنے پروں سے اپنا سر پکڑ لیا ۔’’ بے چارہ مالی نن ! اب اُس کے پاس چڑیا بننے کا وقت نہیں ہے۔‘‘ میں نے سوچا ۔گھبرا کر میں نے مالی نن سے کہا :’’چم چم ۔چرررز چپ‘‘ (جلدی کرو مالی نن ۔ میشا آن پہنچا ہے)اس کے ساتھ ہی میں نے بنچ کی طرف دیکھا ۔یہ کیا۔مالی نن کی جگہ ایک اور چڑیا بیٹھی تھی ۔مالی نن گوریّا بن چکا تھا ۔
اتنے میں میشا بھی بنچ کے پاس پہنچ گیا تھا۔
’’مالی نن !مالی نن!!‘‘میشا چلّایا ’’کہاں چلے گئے تم ؟ابھی تو بنچ پر بیٹھے تھے؟ ‘‘اس نے بنچ پر میری کتابیں اٹھا کر دیکھیں ۔اِدھر اُدھر نظر ڈالی اور بولا:’’کمال ہے ۔دونوں غائب ۔‘‘
اتنے میں میری امّاں نے کھڑکی میں سے جھانک کر آواز دی۔۔۔۔۔۔’’ہیلو میشا !بارن کن اور مالی نن کدھر چلاگئے ؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں ۔ان کی کتابیں اور بیلچے یہاں رکھے ہیں ۔مگر ان دونوں کا کہیں پتا نہیں ۔‘‘میشا نے جواب دیا۔
’’بڑے ہی شریر ہیں ۔دونوں بھاگ گئے ہوں گے تم کو دیکھ کر ۔آؤ میشا !تم اندر آجاؤ ۔وہ دونوں بھی آتے ہی ہوں گے ۔‘‘امّاں نے کہا۔میشا نے اپنی سائیکل بنچ سے لگا کر کھڑی کر دی اور کتابیں اُٹھا کر گھر کے اندرچلا گیا۔میں اُڑ کر مالی نن کے پاس بنچ پر جا بیٹھا۔ ’’ارر، چک ۔ارر، چک ۔چپ چُم ، چی ی ی پ۔‘‘(مبارک ہو مالی نن ۔تم نے بھی پالا مار لیا) میں نے کہا۔
’’چی ،چیپ؟‘‘(واقعی؟) مالی نن نے گوریّا کی زبان میں پوچھا ۔
’’چوں ، چوں ۔چپ ، چُرر۔‘‘(ہاں آنکھیں کھولو)میں نے کہا۔
اُس نے آنکھیں کھولیں ۔اس کی آنکھیں لڑکیوں کی طرح نیلی تھیں ۔ذرا غور کیجیے۔نیلی آنکھوں والی گوریّا ۔
بھوچکّے ہو کر اُس نے اپنی دُم اوپر نیچے کی ۔میں نے اپنے بازوؤں کے آخری پروں سے اپنی پیشانی کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا :’’چیپ،چرر،چیں چاں ۔‘‘(شکر ہے اللہ کا )
’’چیک ،چیک،چیپ۔‘‘(ہزار ہزار شکر ہے )مالی نن نے اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا ۔اور ہم دونوں خوشی کے مارے بنچ پر پھُدکنے لگے ۔
گیارہواں واقعہ:مِیاں دُم کٹے سے چھٹکارا
’’چلو اب چل کے تھوڑی پیٹ پوجا کر لیں ۔پھر چلیں گے ہوا کے دوش پر اِدھر اُدھر کی سیر کرنے ۔‘‘میں نے مالی نن سے کہا ۔
’’کدھر چلو گے ۔‘‘
’’کہیں بھی چلے چلیں گے ۔پورب،پچھم ،اتر ،دکھن۔جدھرجی چاہے گا چلیں گے۔اب ہم پرندے ہیں ۔فضائیں اب ہماری ہیں۔‘‘میں نے اپنا دایاں بازو اوپر اٹھایا اور بڑے غرور کے ساتھ بایاں پیر آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
’’ہم پرندے ہیں ۔فضائیں ہماری منتظر ہیں ۔اے میرے بھائی !آؤ میرے پاس آؤ ۔میرے ساتھ آؤ ۔مچلتے سمندر کے پار، چمکتے پہاڑوں پر چلیں ۔ہم پرندے ہیں ۔آزاد ہیں ۔جہاں جی چاہا جائیں گے۔جب جی چاہا آئیں گے ۔۔۔۔۔۔‘‘
مالی نن نے میری طرف دیکھا اور ’’چررررچا‘‘کہہ کر ہنس پڑا ۔کہنے لگا :’’میاں بارن کن !چڑیا توتم بن گئے ۔مگر تمہاری ناک اب بھی پکوڑے کی طرح ہے۔عجب مسخرے قسم کے چڑے معلوم ہو رہے ہیں آپ ۔‘‘
’’گپ مت ہانکو ۔‘‘میں نے چڑ کر کہا۔
’’سچ کہہ رہا ہوں ۔‘‘مالی نن بولا۔
’’اور ذرا تم اپنی آنکھیں تو دیکھو ۔بالکل لڑکیوں کی آنکھوں کی طرح نیلی نیلی ۔‘‘
بنچ سے اُڑ کر میں حوض کے کنارے جا بیٹھا ۔پانی میں اپنا عکس دیکھا ۔سچ مچ میری چونچ میری پہلی والی ناک کی طرح چپٹی اور پھلکا جیسی تھی۔میں ایک نچا کھُچا سر کھلا سا۔۔۔۔۔۔۔چِڑا لگ رہا تھا ۔ لیکن مالی نن۔مالی نن کی شان ہی کچھ اور تھی ۔صاف ستھرا بنا سنورا ۔جیسے سیدھا حجّام کی دوکان سے آرہا ہو۔ لیکن اس کا مجھے مطلق غم نہ ہوا۔جب میں لڑکا تھا تب ہی کون سا حسین تھا ،گندہ بھی بہت رہا کرتا تھا۔اس وقت تو میرے لیے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ میں بہرحال ایک پرندہ تھا۔اب مجھے کوئی بھی چیز اُداس اور رنجیدہ نہیں کر سکتی تھی۔کتنا مزہ آرہا تھا اس وقت ۔نہ کوئی فکر نہ کوئی غم ۔دماغ بالکل ہلکا ۔’ ’ بس اب تو مزے ہی مزے ہیں ۔‘‘میں نے سوچا۔
میں نے تھوڑا سا پانی پیا ۔اپنے بازو سے پانی پر ایک چھُپاکا مارا۔پانی کی پھوار نے مالی نن کو بھگو دیاجو حوض کے دوسرے کنارے پر بڑے مزے سے پھُدک رہا تھا۔
کتنے عیش کی زندگی ہے مالی نن!میں نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا ۔
’’جواب نہیں ۔‘‘مجھ پر پانی اچھالتے ہوئے اُس نے کہا۔
’’میں نہ کہتا تھا کہ چڑیا بننا زیادہ مزے دار رہے گا ۔تم بلا وجہ تتلی بننے پرگھلے ہوئے تھے ۔‘ ‘ میں نے مالی نن کو چڑاتے ہوئے کہا۔’’اب بھوک لگنے لگی ہے ۔چلو جو کے دانے ڈھونڈیں ۔‘‘
مگر ہمارے آنگن میں چارہ چوگا تلاش کرنا آسان نہ تھا ۔خربوزے اور سورج مکھی کے بیچ تو مل گئے مگر کوئی اور مزے دار چیز نظر نہ آئی ۔
’’ارے رے رے ۔یہ کیا کر رہے ہو۔‘‘اچانک میرے پیچھے سے مالی نن کی آواز آئی ۔’’دیکھنا بارن کن !اس بد معاش نے میری دم کا پرا کھیڑ لیا۔‘‘
میں نے پلٹ کر دیکھا کہ ایک دُم کٹا بڑا سا خرّانٹ چڑا مالی نن کو گھاس پر کھدیڑ رہا تھا۔
’’میں پھُدک پھُدک کر دانے تلاش کر رہا تھا۔کچھ دانے مل بھی گئے تھے کہ اس کمینے نے میری دُم کے پر نوچنے شروع کر دیے۔‘‘مالی نن نے میرے پیچھے چھپتے ہوئے کہا۔
’’کیوں جی !اپنے چھوٹوں کو تنگ کرتے ہوئے تم کو شرم نہیں آتی ۔‘‘میں نے دُم کٹے کے سامنے آکر کہا۔
’’یہ میرا دانا کیوں چُرارہا تھا؟واہ بھئی ا،لٹا چور کوتوا کو ڈانٹے ۔اور تم دونوں ہوکون ؟آج پہلی بار نظر آئے ہو ۔‘‘دُم کٹّے نے رعب دار آواز میں ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
میں بڑے دوستانہ انداز میں اُسے سمجھانا چاہتا تھا کہ وہ ہم سے اب تک کیوں ملاقات نہ کر سکا تھا ۔ مگر اُس بے ہود ہ چڑے نے اپنے بازو کی ایک زور دار دھپ میرے سر پر جما دی اور پر پھُلا کر ایک طرف کو اکڑ کر کھڑا ہو گیا۔میں نے بھی پر پھلالیے اور اُس کی چونچ سے چونچ ملا کر ایک ایسا زور دار اڑ نگا لگایا کہ حضرت چاروں خانے چت گھاس پر آرہے ۔ساری شیخی ہوا ہوگئی میاں کی ۔گھبرا گئے کہ اب ان دونوں نے لی اچھی طرح خبر۔مگر نامعلوم کیوں مجھے اُس پر ترس سا آگیا۔
’’کھڑے ہو جاؤ میاں دُم کٹے ۔ہم ہارے ہوئے دشمن پر ہاتھ نہیں اٹھاتے ۔بھاگ جاؤ۔‘‘
’’نہیں ٹھیرو۔تھوڑے سے جو تم بھی کھاتے جاؤ ۔مالی نن!کہاں ہیں جو؟‘‘میں نے کہا۔
’’لو یہ رہے ۔‘‘مالی نن بولا ۔
لیکن دُم کٹّے نے میری دعوت قبول نہیں کی۔چپکے سے اُٹھ کھڑا ہوا اور خاموشی کے ساتھ پھُدکتا ہوا دور چلا گیا۔وہ بہت ہی خوف زدہ نظر آرہا تھا۔
’’بزدل کہیں کا۔‘‘مالی نن نے چلّا کر کہا۔
’’اور تم بڑے بہادر ہو۔‘‘میں نے جو کا ایک سُنہری دانہ ااُٹھاتے ہوئے کہا۔’’دُم کٹے کے سامنے چیں بول گئے تھے۔‘‘
اب ہم دونوں بڑے اچھے موڈ میں تھے ۔جو کے سنہرے اور مزے دار دانوں کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر ا آرہا تھا۔میں نے ایک پتھّرپر چونچ صاف کی اور دانہ چگنے ہی والا تھا کہ مالی نن دہشت سے چلّایا۔۔۔۔۔۔بلی ی ی ی۔۔۔‘‘
بارہواں واقعہ:بلی پُوسی میری تا ک میں۔
میں نے پلٹ کر دیکھا ۔مالی نن اُڑ کر ایک شاخ پر جا پہنچا تھا۔وہ شاخ کو پنجوں سے پکڑے اُلٹا لٹکا پر پھٹپھٹا رہاتھااور میری طرف دیکھ کر بُری طرح چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔۔’’بلی۔۔۔بارن کن ۔۔۔بلّی۔تمہارے پیچھے۔‘‘
میں نے مُڑ کر دیکھا ۔ایک بلی صاحبہ کوڑے کے ڈبے کے پیچھے سے خراماں خراماں چلی آرہی تھیں ۔میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر اس میں ڈرنے کی کیا بات تھی۔جیسے صحن میں بلّی نہیں کوئی شیر ویر آگیا ہو۔ اگر میں جانتا کہ مالی نن اتنا ڈرپوک اور کمزور دل کا ہے تو اپنی اس اسکیم میں اُسے ہر گز شامل نہ کرتا۔
’’بارن کن !اُڑ جاؤ ۔جلدی کرو ۔‘‘مالی نن پھر چلّایا۔
میں نے اس کے چلّانے پر کوئی توجّہ نہ دیتے ہوئے بلّی کی طرف دیکھا ۔یہ تو اپنی ہی بلّی تھی ۔ امّاں کی چہیتی پوسی ۔بھلا اس سے ڈرنے کی کیا ضرورت۔ ابھی ابھی چڑیا بننے سے ذرا دیر پہلے جب میں لڑکے کے جون میں بنچ پر بیٹھا تھا تو کھڑکی سے کود کر وہ میرے پاس آئی تھی اور بڑی دیر تک میرے پیروں سے اپنی پیٹھ رگڑ رگڑ کر خُر خُر کرتی رہی تھی ۔میں نے ہی دُھتکار کر اُسے بھگا دیا تھا۔
’’اے بی پوسی !تم اپنے آقا کو نہیں پہنچانتیں ؟آؤ ۔آؤ۔ڈرو نہیں ۔میں تمہیں کھا نہیں جاؤں گا ۔ ۔۔۔۔۔ارے بدھو یہ میں ہوں ۔تمہارا آقا اور وہ دیکھو مالی نن میرا دوست ۔وہی جو اوپر شاخ سے لٹکا پھڑپھڑا رہا ہے اور تمہیں دیکھ کر ڈر ا جارہا ہے ۔مالی نن نیچے آجاؤ۔ڈرو نہیں ۔یہ تو اپنی پوسی ہے ۔‘‘
’’ارے اے پاگل ۔‘‘مالی نن پھر چیخا ۔‘‘کھا جائے گی تمہیں تمہاری پوسی ۔‘‘
’’پاگل تو تم ہو۔مجھے کھا جائے گی ؟اپنے آقا کو، اپنے۔۔۔۔۔۔‘‘
میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ایک بھاری جسم مجھ پر آن گرا ۔پوسی میرے ذہن میں کوندی اور میں ہڑبڑا کر پھُر سے درخت کی طرف اُڑا اور اس زناٹے سے مالی نن کے قریب سے نکلا کہ وہ بے چارہ گرتے گرتے بچا ۔میں چکّر لگا کر مالی نن کے پاس آبیٹھا ۔پوسی گھاس پر بیٹھی اپنی دُم ہلا کر شائد اپنی خفّت مٹا رہی تھی ۔میرے پر جو اُس نے نوچ لیے تھے ‘ہوا میں اس طرح اُڑ رہے تھے جیسے نیلے تالاب میں رو پہلی مچھلیاں تیر رہی ہوں ۔
’’بہت اچھا ہوا ۔‘‘مالی نن نے جل کر کہا۔
’’سمجھ میں نہیں آتا ۔پالتو بلی ۔کنبے کی ایک فرد اور یہ حرکت۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’ارے ۔احمقوں کے سردار !کیا تم کو نہیں معلوم کہ بلیاں چڑیوں کو کھا جاتی ہیں اور تم اب انسان نہیں ایک چڑیا ہو۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو ۔میں ابھی اس حقیقت کا عادی نہیں ہو سکا ہوں کہ اب میں ایک چڑیا ہوں ۔‘‘
’’حد ہو گئی ۔اور اگر وہ تمہاری پوسی تمہیں ہضم کر جاتی تو تمہاری امّاں پر کیا گزرتی۔‘‘
یہ سوچ کر کہ اگر میں پوسی کے پنجوں سے نہ نکل گیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔حالاں کہ خطرہ ٹل چکا تھا۔مگر میرا دل اب بھی بُری طرح دھڑک رہا تھا۔
’’کیا بات ہے ؟‘‘مالی نن نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں ذرا گرمی سی لگ رہی ہے۔‘‘میں نے پروں سے پنکھا جھلتے ہوئے کہا۔
مالی نن نے میری حماقت پر مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔شرمندہ ہوکر میں نے اپنا سر پروں میں چھپا لیا۔اسی وقت کسی نے میرے پہلو میں بڑے زور کی ٹھونگ ماری۔
تیرہواں واقعہ :بزرگوں کی نصیحتیں
میں نے اپنے بازو کے پروں میں سے جھانک کر دیکھا کہ ایک بوڑھا سا چڑا میرے پاس آبیٹھا ہے ۔اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’اے میاں نیلی چونچ !میں تمہاری حرکتیں بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں، یا تو تم خبطی ہو یا پھر بن رہے ہو۔‘‘
’’آپ چاہتے کیاہیں ؟‘‘میں نے رکھائی سے کہا۔
’’بزرگوں سے بد تمیزی کے ساتھ مت پیش آؤ ۔‘‘
’’بدتمیزی تھوڑی کر رہا ہوں ۔میری آواز ہی ایسی ہے ۔‘‘میں نے جواب دیا اور بات ختم کرنے اور بڑے میاں سے چھٹکارا پانے کے لیے میں نے اپنا سر پھر پروں میں چھپا لیا۔مگراب کے بُڑھؤ نے میری گردن میں ٹھونگ ماری۔
’’بزرگوں کی بات نہیں سُنتے ہو۔گستاخی مت کرو۔تم کو اپنے بزرگوں کی عزّت کرنی چاہیے۔‘‘
’’گستاخی تو نہیں کر رہا ہوں میں ۔‘‘میں نے کھسیا کر جواب دیا۔
’’یہ تم بلّیوں کے بارے میں کیا بک رہے تھے۔ایک چڑیا کا بلّیوں کے ساتھ میل جول کیسے ممکن ہے؟حد ہو گئی تمہاری بے وقو فی کی۔نہ جانے تمہارے ماں باپ کیا سوچتے ہوں گے تمہارے بارے میں ۔‘‘پھر بڑے میاں نے اپنی گول گول آنکھیں گھما کر کہنا شروع کیا کہ اپنے بچپن میں وہ اور اُن کے دوسرے چھوٹے ساتھی اپنے بزرگوں کے ساتھ کتنی سعادت مندی اور تمیز کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے اور اس کے برخلاف آج کل کی نئی پود کس قدر بد تمیز ہے ۔بزرگوں سے باتیں کرنے تک کا ڈھنگ نہیں آتا۔۔۔۔۔۔
زرا سوچیے تو۔میں اس بوڑھے کھوسٹ چڑے کی اُکتا دینے والی تقریر سُننے کے لیے تو چڑیا بنا نہیں تھا (شام کے وقت جب محلّے کی عورتیں میرے صحن میں جمع ہوتیں تھیں تو وہ بھی آپس میں اسی طرح کی چاؤں چاؤں میرا مطلب ہے باتیں کیا کرتیں تھیں ۔)
’’تم دونوں کس کے بچے ہو؟‘‘بڈھے چڑے نے سوال کیا۔
’’کسی کے ہیں ۔تم سے مطلب ؟‘‘میں نے جواب دیاا و ر مالی نن کولیے وہاں سے اُڑ گیا ۔
ہم نے اپنے آنگن کا پورا چکر لگایااور ایک ایسا درخت ڈھونڈنے لگے جس پر دوسری گوریّاں نہ ہوں ۔یہ صحیح ہے کہ ہم دونوں بھی اب گوریّا تھے مگر دُم کٹے چڑے اور ان بڈھے کھوسٹ چڑے سے ملاقات ہو جانے کے بعد اب ہم دونوں میں سے کسی کو بھی اپنے ہم جنسوں سے میل جول بڑھانے کی خواہش نہ تھی ۔سب سے زیادہ فکر مجھے اس بات کی تھی کہ گو ہمیں چڑیا بنے آدھ گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تھا مگر ابھی تک ہم اس شاندار زندگی کے وہ مزے نہ اُٹھا سکے تھے جو میں نے چڑیابننے سے پہلے سوچ رکھے تھے۔ موجودہ حالات تو اس کے بالکل ہی خلاف تھے۔وقت گزر ا جا رہا تھاا ور میں کچھ نااُمید سا ہوتا جا رہا تھا۔مگر میں نے مالی نن سے کچھ نہیں کہا اور سوچا کہ ابھی تو سارا دن پڑا ہے۔مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہم نے ایک ایسا پیڑ ڈھونڈ نکالا جس پر دوسری گوریّاں نہ تھیں ۔یہ پیڑ آنگن کے پورب کی طرف تھا اور اس پر دھوپ بھی خوب آ رہی تھی ۔ہم دونوں دھوپ کے رُخ پر ایک کھلی شاخ پر جا بیٹھے ۔میں آرام لینے کی خاطر آنکھیں بند کر کے اپنا سر پروں میں چھپا نے ہی والا تھا کہ کوئی چیز زن سے میرے کان کے پاس سے گزری ۔کھڑ کھڑاہٹ کی آواز ہوئی اور بہت سے پتیاں گریں ۔یہ کیا قصّہ ہے ؟میں نے آنکھیں کھول دیں ۔
چودھواں واقعہ:غُلیل کا نشانہ
اس بنچ کے قریب جس پر میں اور مالی نن چڑیاں بننے سے پہلے بیٹھے تھے ہمارا پڑوسی اور دوست ومینکا کھڑ اتھا ۔اس کی بائیں آنکھ نہایت خطر ناک انداز میں مچی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ میں وہ غلیل تھی جو میں نے ہی بنائی تھی ۔(مجھ جیسی بڑھیا غلیل کوئی بھی نہیں بنا سکتا تھا اوریہ غلیل میں نے ومینکا کی خاص فرمائش پر بنائی تھی)ومینکامجھے گھور رہا تھا ۔نشانہ خطا ہو جانے کا اس کو بڑا رنج تھا۔
’’یہ لو۔!ابھی تو میں بلّی کا ناشتہ بننے والا تھااور اب اپنی ہی بنائی ہوئی غلیل کا نشانہ بنتے بال بال بچا ۔‘‘میں نے سوچا۔۔۔۔۔۔’’اچھا بیٹھا ومینکا ذرا ٹھہر و تو سہی۔میں ذرا پھر لڑکا بن جاؤں پھر بتاؤں گا تمہیں غلیل کا نشانہ کیسے لگاتے ہیں ۔‘‘ میں نے ومینکا کی طرف غصّے سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ومینکا اطمینان سے جھک کر غلیل کے لیے دوسراغلّا تلاش کرنے لگا۔مالی نن اور میں نے ایک دوسرے کو دیکھااور ہم دونوں وہاں سے رفوچکّر ہوگئے ۔میں اس جگہ ہی سے بہت دور جانا چاہتا تھا ۔اس لیے پہلے ہم اپنے محلّے پر اُڑتے پھرے ۔آج مجھے انداز ہ ہوا کہ ہمارے شہر میں بلّیاں ہی بلّیاں بسی ہیں ۔ لڑکے کی حیثیت سے مجھے بلّیوں کی اتنی بڑی آبادی کا بالکل علم نہیں تھا۔اس انکشاف نے مجھے بے حد پریشان کر دیا ۔۔۔۔۔۔بلّیاں ہی بلّیاں، غلیلیں ہی غلیلیں ۔خدا اپنی امان میں رکھے اور اُدھر مالی نن نے میر ا ناک میں دم کر رکھا تھا ۔وہ بالکل گا ؤدیوں کی طرح ہلکے ہلکے اُڑ رہا تھا اور اس انداز سے جیسے مجھ پراحسان کر رہا ہوں ۔
’’اتنے آہستہ آہستہ کیوں اُڑ رہے ہو؟‘‘ میں اس پر جھلّایا۔
’’میں تو تھک گیا۔‘‘
’’ابھی سے ۔ابھی تو ہم اپنے محلّے سے بھی نہیں نکلے اور آپ تھک گئے !یہ اچھی رہی ۔‘‘
’’اُڑنے سے نہیں ۔چڑیا کی زندگی سے عاجز آگیا ہوں ۔‘‘
’’آدھے ہی گھنٹے میں کمال ہو گیا۔چڑیاں تو ساری عمر چڑیاں رہتی ہیں ۔اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ تم اتنے کم ہمّتے ہو تو ہر گز تم کو اپنی اس اسکیم میں شریک نہ کرتا۔‘‘
اتنے میں سامنے ایک ایسا باغ نظر آیا جس میں کافی گھنے درخت تھے ۔میں نیچے اُتر آیا ۔مالی نن بھی میرے پیچھے پیچھے آیا۔
’’اب تو ذرا سُستا لو ۔‘‘میں نے اُس سے کہا ۔ہم دونوں ایک شاخ پر بیٹھ گئے ۔مالی نن اپنے سر کو پروں میں چھپا کر سونے ہی والا تھا کہ اوپر سے ایک آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔
’’ذرا ان کاہلوں کو تو دیکھنا ۔کام چوروں کی جوڑی ،میں نے ان کو تنکے جمع کرنے کے لیے بھیجا تھا اور یہ مزے سے بیٹھے دھوپ سینک رہے ہیں ۔‘‘
پندرھواں واقعہ:والدین کو بھُول جانے کا نتیجہ
میں نے سر اُٹھا کر دیکھا ۔ایک موٹی سی گوریّا صاحبہ ایک شاخ کا سہارا لیے بیٹھی ہیں ۔‘‘وہ ہم دونوں کو مخاطب کر کے بولیں :
’’جواب دونا۔۔۔۔۔۔؟یا اپنی امّاں کی بات کا جواب دیناتک پسند نہیں کرتے آپ لوگ ۔‘‘
’’یہ بیگم صاحبہ ہماری امّاں کیسے ہو گئیں ؟‘‘مالی نن نے میری طرف دیکھتے ہوئے سوا ل کیا۔
’’کہیں غلطی سے ہم کو اپنے بیٹے تو نہیں سمجھ بیٹھی ہیں یہ حضرت !‘‘میں نے کہا ۔
’’ہو سکتا ہے ہم ان کے بیٹوں کے ہم شکل ہوں ۔‘‘مالی نن بولا۔
’’یہ بھی عجیب اتفاق ہے۔‘‘میں نے ایک طرف کھسکتے ہوئے کہا۔
’’چھُپونہیں ۔ڈر کیوں رہے ہو تم دونوں ۔میں تم کو بالکل نہیں ماروں گی ۔‘‘گوریّا صاحبہ بڑی محبت سے بولیں ۔
’’معاف کیجیے گا بیگم صاحبہ !جب ہم آپ سے واقف تک نہیں ہیں پھر آپ سے ڈرنے یا چھپنے کا کیا سوا ل اُٹھتا ہے ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’لو اور لو ۔حد ہو گئی اس بے غیرتی کی ۔مجھے بیگم صاحبہ کہہ کر مخاطب کیا جارہا ہے ۔اری اے بہنوں !تم سب نے سُنا۔میرے پیٹ کی اولاد مجھ سے ہی اس طرح بات کرتی ہے ۔‘‘گوریّا صاحبہ نے چیختے ہو ئے کہا۔
پڑوسی درختوں پر بیٹھی ہوئی سب چڑیوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ۔اور گوریّا صاحبہ کو اتنا غصّہ آیا کہ انہوں نے مالی نن کی گردن پر ایک زور دار ٹھونگ کس د ی۔
’’اے بیگم صاحبہ !میں آپ کو یقین دلا تا ہوں کہ ہم آپ کی اولاد نہیں ہیں ۔چاہے جس کی قسم لے لیجیے ۔‘‘مالی نن نے درد سے چیختے ہوئے کہا۔
’’لوگو سنا تم نے ؟یہ نا خلف اپنی سگی ماں کو بھُلائے دے رہا ہے ۔‘‘موٹی گوریّا نے شاخ پر زور زور سے پھدکتے ہوئے فریاد کی۔
آس پاس کے پیڑوں کی ساری چڑیاں ہمارے پیڑ پر جمع ہوگئیں ۔اور ہم کو ڈانٹنے ‘پھٹکارنے لگیں ۔اُن کی شہ پا کر ہماری ان والدہ صاحبہ نے ہمیں اتنا مارا ‘اتنا مارا کہ ہمارے کئی پر نُچ گئے اور آخر کار ہمیں مان لینا پڑا کہ یہ بیگم صاحبہ ہی ہماری سگی امّی ہیں ۔
’’آگئے نہ اب راستے پر ۔چلو اب گھونسلہ بنانے کا دوسرا سبق لو۔‘‘ہماری امّی نے مسکرا کر کہا۔
’’سبق !!‘‘ہم دونوں نے گھبرا کر دُہرایا۔
سولھواں واقعہ:پہلا سبق گھونسلہ بناؤ
’’ارے تم لوگ پچھلا سبق بھول گئے؟کل ہی میں نے تم کو گھونسلہ بنانے کا قاعدہ بتایا ہے ۔اُسی قاعدے سے آج تم خود بنانے کی کوشش کرو۔‘‘ہماری امّی صاحبہ نے فرمایا۔
’’بارن کن !تم نے پہلے ہی کیوں نہیں بتا دیا تھا کہ چڑیا کے جون میں بھی سیکھنے سکھا نے سے چھٹکارا نہ مل پائے گا ۔‘‘مالی نن نے آہستہ سے مجھ سے شکایت کی ۔
’’میں کیا جانتا تھا؟‘‘
’’تم تو کہتے تھے کہ چڑیوں کی زندگی بڑی ہی مزے دار اور بے فکر قسم کی ہوتی ہے ؟‘‘
’’میری اُستانی نینا نے اُس دن سبق پڑھاتے وقت ایسا ہی کہا تھا۔‘‘
’’خیر کسی نے بھی کہا ہو۔میں گھونسلا نہیں بناؤں گا اور کبھی بھی نہیں بناؤں گا۔‘‘مالی نن نے ضد کرتے ہوئے زور سے کہا۔
’’کس نے کہی یہ بات؟‘‘چڑیا امّی نے غصّے سے دریافت کیا۔
’’اس نے نہیں ۔میں نے کہا ہے۔‘‘میں نے مالی نن کو اپنے پیچھے لیتے ہوئے سامنے آکر جواب دیا ۔‘‘پھر یہ بھی تو ہے کہ ننھّے بچوں کو اس طرح ڈانٹ مار کر پڑھانا سکھانا کوئی اچھّی بات تو نہیں ہے۔‘‘
میرے اس جواب پر موٹی گوریّا غصّے میں آپے سے باہر ہو گئی اور ٹھونگیں مارمار کر ہم دونوں کا بھر کس نکال دیا اور پھر ایک ایسے درخت کی طرف اُڑا کر لے گئی جہاں گھوڑے کی دُم کے بال ‘بھوسااور گھونسلا بنانے کا دوسرا سامان پہلے سے جمع کر لیا گیا تھا۔
’’اچھّا اب ذرا غور سے دیکھو ۔اس طرح شروع کرتے ہیں ۔ایک تِنکاچونچ میں لو۔پھر اسے موڑ کر اس طرح ایک چھلّا بنا لینا ۔‘‘موٹی گوریّا امّی نے بتایا۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی نظریں بچا کر بے زاری اور نفرت کے ساتھ ایک ایک تِنکا چونچ میں پکڑا اور چھلّے بنانا شروع کر دیے۔امّی بڑی ہوشیاری اور مہارت کے ساتھ ٹیڑھے میڑھے تنکے سیدھے کر کے ہم کو دیتی رہیں ۔جب بہت سے چھلّے تیّار ہو گئے تو امّی بولیں ۔‘‘اب اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔‘‘
لیکن سبق کا دوسرا حصّہ شروع ہونے سے پہلے ایک سرخ رنگ کی گوریّا آسمان سے آ کر عین ہمارے سر پر اتنے زور سے گری کہ ہماری شاخ اس کے بوجھ سے جھول کر رہ گئی ۔
’’لو تمہارے ابّا جی آگئے ،‘‘امّی نے کہااور مارے خوشی کے زور زور سے پھدکنا شروع کر دیا ۔مالی نن اور میری دونوں کی چونچیں تعجب سے کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔اُن میں دبے ہوئے تنکے نیچے گر پڑے اور ہم پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے ان نئے ابّا جان کو دیکھنے لگے ۔
سترہواں واقعہ :گھونسلے کے لیے جنگ
ابّاجان اپنی ٹانگوں کو پروں سے تھپتھپاتے ہوئے ہم سے بولے :
’’لڑکو!جلدی کرو ۔ابا بیلوں نے جنوب کی طرف روانہ ہونے کی تیّاری شروع کر دی ہے اور ان کے ڈبّے نما گھونسلے خالی ہونے والے ہیں ۔بڑے اچھّے گھر ہیں وہ رہنے کے لیے ۔جلدی کرو ۔اُن میں سے کسی پر قبضہ کر لیں ۔اتنا اچھّا موقع پھر ہاتھ نہ آئے گا۔‘‘
’’ڈبّا نما گھونسلہ !!جس میں رہنے کے میں نے ہمیشہ خواب دیکھے ہیں ۔‘‘امّی چہچہائیں ۔
’’ہاں ۔لیکن میراخیال ہے کہ ہمیں قبضہ کرنے کے لیے کافی جھگڑا کرنا پڑے گا ۔جلدی چلو۔‘‘ایک دم ابّاجان نے جلدی کرتے ہوئے کہا ۔
’’ہاں جلدی کرنی چاہیے ۔تیّار ہوجاؤ۔‘‘میں نے مالی نن سے کہا ۔اس لیے کہ سبق یاد کرنے کے مقابلے میں فوج داری بہرحال زیادہ دلچسپ ہوتی ہے ۔
’’لیکن کیا ضروری ہے کہ لڑا ہی جائے ؟ ہم گھونسلا بنانا ہی کیوں نہ سیکھ لیں ۔‘‘مالی نن نے پوچھا۔
’’زیادہ عقل مند نہ بنو۔جاڑوں میں کیا کرو گے ؟‘‘ابّاجان نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
’’بالکل ٹھیک ہے ۔‘‘میں نے ہاں میں ہاں ملائی ۔اور ابّاجان ہم سب کو ساتھ لے کر فوراً’’محاذ‘‘ کی طرف بڑی تیزی سے روانہ ہو گئے ۔راستے میں اگر ہم دونوں میں سے کوئی پیچھے رہ جاتا تو دونوں ٹھونگیں مار مار کر ہمیں اور تیز اُڑنے پر مجبور کرتے ۔
’’میں تم کو ساری عمر معاف نہیں کروں گا ۔اگر تم کو ساری عمر چڑیا رہنا ہے تو شوق سے رہو اور اس منحوس ڈبّے نما گھونسلے کے لیے جنگ کرو ۔میں موقع ملتے ہی بھاگ نکلوں گا ۔‘‘مالی نن نے چنچناتے ہوئے کہا ۔
’’اتنے زور سے مت بولو ۔نہیں تو سب چوپٹ کر کے رکھ دوگے ۔اس بڈھے کھوسٹ چڑے کی موجودگی میں ہمارا کوئی بس نہیں چل سکتا ۔ذرا صبر سے کام لو ۔جیسے ہی موقع ملے گا ہم اُڑ ن چھو ہو جائیں گے ۔جب تک بارن کن کے دم میں دم ہے تم بالکل محفوظ ہو ۔فکر مت کرو ۔‘‘میں نے مالی نن کو سمجھاتے اور دلاسا دیتے ہوئے کہا۔
‘‘جی ہاں !بالکل محفوظ ہوں ۔بالکل اسی طرح جیسے بلّی کے پنجے میں چوہا محفوظ ہوتا ہے ۔‘‘مالی نن نے طنز کرتے ہوئے کہا ۔
مالی نن ٹھیک ہی کہہ رہا تھا ۔ہم خاص مصیبت میں پھنس چکے تھے ۔پورے راستے بھاگ نکلنے کا ایک موقع بھی نہ مل سکا ۔بوڑھے اور اس کی بیوی نے ہم دونو ں کو ہمیشہ اپنے بیچ میں رکھا اور ایک دفعہ بھی پیچھے رہ جانے کا موقع نہیں دیا ۔اگر میں کوشش کرتا تو ان دونوں سے لڑ جھگڑ کر بھا گ نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتا مگر مالی نن کے بس کی یہ بات بھی نہ تھی ۔وہ یوں بھی لڑاکو طبیعت کا نہیں تھا اور پھر گوریّا چڑیوں سے لڑنے کااُ سے کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔
اتنے میں ہم گوریّا چڑیوں کے ایک بڑے سے جھُنڈ میں جاگھسے ۔تمام چڑیاں باغ میں لگے ہوئے ایک عجیب سے ڈبّے نما گھونسلے کے لیے آپس میں بُری طرح لڑرہی تھیں ۔اس ہڑ بونگ میں نہ جانے کیسے ہمارے والدین ہمار ی نظروں سے اوجھل ہو گئے اور ہم دونوں اس حشر کے میدان میں بری طرح پھنس کر رہ گئے ۔وہ تو یہ کہیے کہ مالی نن کی حاضر دماغی کام آگئی ۔اُس نے میری دُم اپنی چونچ سے پکڑلی تھی تا کہ ہم دونوں بچھڑ نہ سکیں ۔لیکن اس طرح مالی نن کو لیے لیے پھرنااور ساتھ ہی ساتھ حملہ کرنے والوں کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔میں حملہ کرنے والوں کو گالیاں دیتااور سب سے چو مکھی لڑتا رہا ۔کبھی میں داہنے بچتا تو کبھی بائیں ‘ کبھی ہوا میں قلابازی لگاتا تو کبھی دوسری چڑیوں کی ٹانگوں کے بیچ سے نکل بھاگتا ۔غرض کہ جتنے بھی کرتب اور پینترے مجھے یاد تھے ‘سب ہی استعمال کر ڈالے تب کہیں بڑی مشکل سے دشمنوں کے گھیرے کو توڑ کر ہم باہر نکل سکے۔
خطرے سے نکلتے ہی مالی نن نے میری دُم چھوڑ دی اور ہم نا ک کی سیدھ میں تیزی سے اڑ نے لگے ۔
’’پکڑو ان بدمعاشوں کو ۔جانے نہ پائیں ۔پکڑ لو۔گردنیں مروڑ دو ۔‘‘چڑیوں نے چلّاتے ہوئے کہا۔
میں نے پلٹ کر دیکھا ۔چار مسُٹنڈے چڑے ہمارا پیچھا کر رہے تھے۔
اٹھارہواں واقعہ
’’ہماری ان مصیبتوں کا کبھی خاتمہ ہو گا یا نہیں ؟‘‘مالی نن نے زور کی اُڑان بھرتے ہوئے کہا۔
’’یہی دونوں تھے جو سب سے زیادہ بول رہے تھے ۔‘‘ہمارا پیچھا کرنے والے ایک چڑے نے چیخ کر کہا ۔وہ سب ہمارے بہت ہی قریب آچکے تھے ۔
’’نہیں بھئی !تم دونوں کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ہم تو بالکل بے قصور ہیں ۔‘‘میں نے گردن موڑ کر اُن سے کہا ۔
’’پھر کیوں گئے تھے تم لوگ وہاں ؟‘‘
’’بس یوں ہی تماشہ دیکھنے کے لیے چلے گئے تھے ۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’ٹھہرو تو سہی ۔ہم تمہارا ہی تماشہ بنا ئے دیتے ہیں ابھی ۔‘‘ان موذیوں نے ہم پر جھپٹتے ہوئے جواب دیا۔وہ ہم پر پوری طاقت سے حملہ کرنے والے تھے جو ہم دونوں کے پر خچے اڑا دیتا ،اُسی وقت مجھے ایک بڑا ہی کار گر داؤ یاد آگیا۔ جیسے ہی ان میں سے سب سے آگے والا چڑا میرے قریب آیا ،میں نے اُڑان گھائی کا داؤ ں لگا کر اس کے سر پر اتنے زور سے لات ماری کہ وہ بے چارا سر کے بل دھڑام سے نیچے ایک جنگلے پر جا گرا ۔یہی حرکت میں نے دوسرے اور تیسرے حملہ آور کے ساتھ کی۔ اپنے ساتھیوں کی یہ درگت بنتے دیکھ کر باقی حملہ آور میدان چھوڑکر بھاگ کھڑے ہوئے ۔
اب ہم دونوں کا فی تھک چکے تھے ۔درختوں کی آڑ لیتے ہوئے ہم ایک مکان کی چھت پر اُتر پڑے ۔پسینے کے مارے میرا بُرا حال تھا ۔اور میرا دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے اس میں انجن لگ گیا ہو ۔ مالی نن چھت پر چونچیں مار مار کر مجھے وہ تمام گالیاں دیے جا رہا تھا جوا سے یاد تھیں ۔
’’اس لیے تو کہتا تھا کہ تتلیاں بننا اچھّا رہے گا ۔نہ ان کو گھونسلے بنانے پڑتے ہیں ‘نہ انھیں بلّیوں کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ان کو بھوک مٹانے کے لیے دانے دنکے چننے پڑتے ہیں ۔بس مزے سے پھولوں کا رس پیتی ہیں ۔شہد جیسا میٹھا اور مزے دار پھولوں کا رس ۔‘‘و ہ بولا۔
میں نے چپ رہنا ہی بہتر سمجھا۔اس لیے کہ مالی نن تتلیوں کے بارے میں مجھ سے کہیں زیادہ جانتا تھا ۔اس کے پاس ان کے پروں کا پورا ذخیرہ تھا۔جسے اس نے بعد میں ڈاک کے ٹکٹوں میں تبدیل کر لیا تھا۔اُس کو ان کے نا م،ان کی ذاتیں ،قسمیں اور خاندان سب رٹے پڑے تھے ۔میرے خیال میں وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ہم کو واقعی تتلیاں بننا چاہیے تھا۔دن بھر باغوں میں پھولوں پر منڈلاتے پھرتے ۔ کتنا مزہ آتا۔میں سوچ رہا تھا۔لیکن تتلیوں کی جون میں آنے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لینا چاہتا تھا تا کہ پھر کسی مصیبت میں نہ جا پھنسیں ۔
’’لیکن مالی نن !کام تو تتلیاں بن کر بھی کرنا پڑے گا ۔تم کو یاد نہیں ٹیچر نے بتایا تھا کہ تتلیّوں کو ایک پھول کا زیرہ دوسرے پھول تک لے جانے کا کام کرنا پڑتا ہے ۔‘‘میں نے کہا ۔
’’تو کیا ہوا ۔ ہم یہ کام نہیں کریں گے ۔وہاں کوئی زبردستی کام لینے والا تھوڑی ہوگا۔‘‘مالی نن بولا ۔
مال نن کی بات میں کافی وزن اور سچائی تھی ۔لیکن پھر بھی میں نے ایک سوال اور کر ڈالا:
’’اسکول وغیرہ تو نہیں ہوتے تتلیوں کی دنیا میں ؟اور پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے کا جھگڑا تو نہیں ہوگا وہاں ؟‘‘میں نے مالی نن سے پوچھا۔
’’سوال پر سوال کیے جارہے ہو تم ۔یہ نہیں دیکھتے کہ بلیّاں یہاں بھی آپہنچی ہیں ۔‘‘مالی نن نے غصّے سے چیخ کر کہا۔
پہلے تو میں سمجھا کہ وہ مذاق کر رہاہے ۔مگر جب مُڑ کے دیکھا تو ہوش اُ ڑ گئے ۔تین کالی کلوٹی بلیّاں روشن دان میں سے نکل کر دبے پاؤں ہماری طرف چلی آ رہی ہیں ۔ان میں سے دو تو میرے لیے اجنبی تھیں مگر تیسری ہماری پوسی تھی ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے پوسی نے مجھے ہڑپ کر جانے کی قسم کھا رکھی ہو۔
’’مالی نن ! تتلی بننے کے لیے ریڈی ہو جاؤ۔‘‘میں نے جلدی سے کہا۔
’’ریڈی ۔‘‘میں نے دہرایا۔
’’ہاں ریڈی ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’ریڈی ،اسٹڈی ۔۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے شروع ہی کیا تھا کہ مالی نن بول اُٹھا:
’’بارن کن ٹھہرو ۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔جادو کا منتر نہیں پڑھا جائے گا کیا؟‘‘
واقعی میں بھول گیا تھا کہ بغیر منتر کے ہم تتلیوں کی جون میں تبدیل نہیں ہوسکتے اور جو منتر ہم آدمی سے چڑیا بنتے وقت کام میں لائے تھے وہ اب تتلی کے لیے کا رآمد نہیں ہو سکے گا ۔اس لیے میں نے کہا کہ ذرا ٹھہرو میں ابھی دوسرا منتر بدلتا ہوں ۔
’’تو پھر جلدی کرو جلدی ۔بلیّاں بالکل قریب آچکی ہیں ۔‘‘مالی نن چیخا ۔
’’ہاں تیار ہو جاؤ ۔جو منتر میں پڑھوں ‘وہی تم دہراتے جانا۔‘‘میں نے ہدایت کی۔
انتر منتر چھو منتر
بدلے ہم تتلی کے اندر
ہُو کس پو کس آئیں شائیں
تتلی بنیں اور مزے اُڑائیں
میں جلدی جلدی منتر پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش بلیّوں کے منہ کا نوالہ بننے سے پہلے ہم دونوں ایک دم تتلیاں بن جائیں ۔مالی نن بڑی تیزی کے ساتھ منتر پڑھے جا رہا تھا۔
تیسرا حصّہ
اُنیسواں واقعہ:گو بھی تتلی
ہم دونوں گھبرا گھبرا کر منتر کے بول پڑھے جا رہے تھے ۔بلیّاں آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہی تھیں ۔
’’ٹھہرجا پوسی کی بچّی !اگر تیرے پنجے سے بچ گیا تو آدمی بنتے ہی تجھے وہ مزہ چکھاؤں گا کہ تو کبھی کیا یاد کرے گی ۔‘‘میں نے دل میں کہا ۔
بلیّوں کے خیال سے جادو کا اثر بھی نہیں ہو رہا تھا اس لیے میں نے ان کے خیال کو دماغ سے نکال دینا چاہا اور پورے دھیان سے تتلیوں ‘پھولوں ‘شہد اور سہانی دھوپ کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی ۔ مگر بھوک کی شدّت کی وجہ سے جو کے دانے اور خوف کی وجہ سے بلیّاں اور مع غلیل کے ومینکا تصور میں آموجود ہوئے ۔میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ بلیّوں کے اور میرے درمیان فاصلہ او رکم ہو چکا تھا اور ابھی تک میں جوں کی توں چڑیا ہی بنا ہوا تھا ۔آخر میں نے بے پرواہ ہو کر آنکھیں کھلی رکھیں ۔بلیاں اچانک رُک گئیں اور میاؤں میاؤں کر کے اپنے سر ایک دوسرے کے پاس ملا کر کچھ باتیں کرنے لگیں ۔ غالباً یہ طے کیا جا رہا تھا کہ کون، کون سی چڑیا کھائے ۔کیوں کہ دو چڑیاں تین بلیّوں میں تقسیم ہونی تھیں ۔ اس لیے پہلے سے طے کر لینا ضروری تھا۔
میں نے دل میں سوچا کہ بس اب تو تتلی بن چکے ۔پھر بھی میں نے ایک بار کافی دل لگا کر منتر کے بول دُہرائے ۔
انتر منتر چھو منتر
بدلیں ہم تتلی کے اندر
ہُوکس پُوکس آئیں شائیں
تتلی بنیں اور مزے اُڑائیں
شاید بلیّوں نے آپس میں کوئی فیصلہ کر لیا تھا۔اُن میں سے ایک مالی نن کی طرف بڑھی اور پوسی اور تیسری بلّی نے میری طرف رُخ کیا۔
’’بد ذات کہیں کی ۔آخر میں نے اس کا کیا بگاڑاتھا۔صرف ایک بار دھوکے سے اس پر روشنائی گرادی تھی ۔کیا اُسی شرارت کا بدلہ مجھ سے لے رہی ہے ؟‘‘میں نے سوچا ۔
مجھ سے تین قدم کے فاصلے پر وہ دونوں رُک گئیں ۔ہم پر چھلانگ لگانے سے پہلے انہوں نے اپنے کوہان اوپر اُٹھائے اور پنجوں سے چھت کھُرچنے لگیں ۔
’’اب لگائی جست انہوں نے ۔بس بن چکے تتلیاں ۔اب خاتمہ قریب ہے۔‘‘میں نے سوچا ۔ میرے سارے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی اور میں کہنے ہی والا تھا ۔’’پیارے مالی نن !الوداع ۔‘‘مجھے افسوس ہے کہ میں نے تم کو بھی اس چکّر میں شامل کر لیا ۔کہ اتنے میں بلیّوں کو نا معلوم کیا ہونے لگا۔ دیدے باہر نکال کر اُنہوں نے ایک ساتھ بڑے زور کی ’پُھش‘کی آواز نکالی۔ان کے رونگٹے اور بال کھڑے ہو گئے اور ہم پر حملہ کرنے کے بجائے انہوں نے پوری قوت سے پیچھے کی طرف چھلانگ ماری اور روشن دان کی طرف بُک ٹٹ بھاگ کھڑی ہوئیں۔وہ ایسی ڈریں کہ جیسے انہوں نے ہمارے پیچھے کسی بڑے سے خوف ناک کتّے کو دیکھ لیا ہو۔میں نے مڑ کر دیکھا ۔ارے یہ کیا؟ میری پیٹھ پر کشتی کے باد بان کی طرح دو خوب صورت پر پھر پھر ا رہے تھے ۔
اب میری سمجھ میں آیا کہ بلیّاں ڈر کر کیوں بھاگ گئی تھیں ۔ان کے دیکھتے ہی دیکھتے کھانے کے قابل دو چڑیاں یکا یک دو تتلیوں میں تبدیل ہو گئی تھیں ۔
مارے خوشی کے میں نے اپنے تکونے پر ہلائے ۔اور اس تبدیلی کی خوش خبری سنانے کے لیے مالی نن کی طرف دیکھا ۔مگر کیا دیکھتا ہوں کہ اس کی جگہ ایک خستہ حال اور ادھ مُری سی چڑیا کے بجائے سیاہ اور سبز تکونے پروں والی ایک خوبصورت تتلی بیٹھی ہوئی ہے !!
میں نے اتنی حسین تتلی آج تک نہیں دیکھی تھی۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ مالی نن اس قدر حسین تتلی میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔میں نے سوچا کہ یہ مالی نن نہیں کوئی سچ مچ کی تتلی ہو گی۔مالی نن یا تو ڈر کے مارے چھت سے نیچے گر گیا ہے یا پھر اُسے بلیّاں ہڑپ کر گئی ہیں ۔میں نے سامنے والے درخت پر نظر ڈالی کہ کہیں وہ اُڑ کر اُس پر تو نہیں جا بیٹھا ہے ۔
’’گھبرا گھبرا کر اِدھر اُدھر کیا دیکھ رہے ہو؟؟‘‘خوب صورت تتلی نے مالی نن کی آوازمیں سوال کیا۔
میں نے ہکّا بکّا ہو کر اُ س سے پوچھا :’’تم ہو کون ؟‘‘
’’یعنی اب تم مجھے پہچانتے بھی نہیں بارن کن ؟‘‘
’’مالی نن ؟؟‘‘
’’جی جناب !!‘‘
’’حد ہو گئی ۔۔۔۔۔۔کایا پلٹ اسی کو کہتے ہیں ۔مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ تم پر کوئی آفت نہ آگئی ہو۔ ‘‘
’’آفت اور مجھ پر ؟کیا بات کرتے ہو۔‘‘مالی نن نے اپنے خوب صورت پر پھیلاتے ہوئے کہا ۔
وہ اس قدر حسین لگ رہا تھا کہ میں اپنی نظریں اس کے پروں پر سے نہ ہٹا سکا۔
’’مالی نن ۔۔۔!تمہیں کیا کہتے ہیں ؟‘‘
’’مجھے ۔۔۔؟ٹھیرو ۔ابھی بتاتا ہوں ۔میرے پر اوپر سے سیاہ اور سبز ہیں نا؟‘‘
’’ہاں ۔‘‘میں نے جواب دیا ۔
’’اور نیچے سے ۔‘‘اُس نے پوچھا۔
’’کتھئی اور سیاہ ۔‘‘میں نے بتایا۔
’’ان پر سنہری اور رو پہلی بُندکیاں بھی پڑی ہیں ۔‘‘اُس نے کہا ۔
’’ہاں!اور دونوں پروں پر ایک ایک ہلال اور پوری دُھنک بھی بنی ہوئی ہے ۔‘‘
’’بس بس میں سمجھ گیا ۔میں ’ست رنگی تتلی ‘ ہوں اور میرا تعلق ’نو بہارا خاندان سے ہے ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’اور میں کس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں ؟‘‘میں نے پوچھا
’’پیچھے گھومو تو بتاؤں ۔‘‘وہ بولا
میں پیچھے گھوم گیا ۔مالی نن نے چاروں طرف گھوم پھر کر بڑے غور سے میرا معائنہ کیا اور بولا :’’ تمہارے پر چھوٹے ہیں ۔ان کا رنگ زرد ہے ۔اور ان پر سیاہ دھبّے پڑے ہیں ۔تم ۔۔تم ایک وبالِ جان تتلی نما کیڑے میں تبدیل ہو گئے ہو ۔‘‘
’’وبالِ جان تتلی نما کیڑا !کیا مطلب؟‘‘میں نے حیران ہو کر دریافت کیا۔
’’جی ہاں ! وبالِ جان تتلی نما کیڑا ۔وہی جو باغوں میں پایا جاتا ہے اور نرم و نازک پھول کی پتیوں کو خراب کر ڈالتا ہے ۔تمہارا تعلق ’گوبھی تتلی ‘سے ہے ۔‘‘اُس نے بتایا۔
’’اچھّا !تو پھر یہ بھی بتاؤ کہ میں ’گوبھی تتلی‘ میں اور تم ’نو بہار تتلی ‘میں کیوں تبدیل ہوئے ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’میں کیا بتا سکتا ہوں ۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ نو بہار تتلیاں یہاں سے دورپورب کے علاقے میں پائی جاتی ہیں اور میں وہاں کئی سال رہ چکا ہوں اس لیے میں ’نو بہار تتلی ‘ میں تبدیل ہو گیا اور تم چوں کہ وسطی علاقے میں رہتے ہو اور وہاں ’گوبھی تتلیاں ‘بہت ہوتی ہیں ۔اس لیے تم گوبھی تتلی میں تبدیل ہو گئے ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’تمہیں اس بات کا یقین ہے ؟‘‘
’’بالکل ۔تم جانتے ہو کہ میرے پاس تتلیوں کا ایک پوراذخیرہ تھا۔میں تتلیوں کی ایک ایک نسل اور ایک ایک خاندان سے واقف ہوں ۔میں سچ کہتا ہوں کہ میں ’نو بہارخاندان‘سے تعلق رکھتا ہوں اور تم ’گوبھی تتلی‘‘ کے خاندان سے۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’بکواس کرتے ہو ۔میں کہتا ہوں کہ ’گوبھی تتلی‘’نو بہار تتلی‘سے کہیں زیادہ اچھی ہوتی ہیں۔‘‘میں نے جھلّا کر ۔
’’وہ کیسے ؟‘‘مالی نن نے پو چھا ۔
’’اس لیے کہ تمہارے پر بھڑک دار‘چمکیلے اور نرم و نازک ہیں ۔بالکل لڑکیوں کے لباس کی طرح سجے سجائے ۔میں تم جیسے نازک لڑکوں ۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے تتلیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تک پسند نہیں کروں گا ۔‘‘
’’اگر ایسا ہے تو جاؤدفع ہو جاؤیہاں سے ۔‘‘مالی نن نے غصّے سے کہا۔
میں نے اُڑ کر چھت کا ایک چکّر لگایا ۔میرے پر چڑیا کے پروں کی طرح مضبوط تو نہ تھے ۔مگر چھوٹی موٹی اُڑان کے لیے بہت کافی تھے ۔
’’کیسا لگ رہا ہے ؟‘‘مالی نن نے پوچھا ۔
’’بہت ہی اچھا ۔مگر اب تو بڑے زوروں کی بھوک لگنے لگی ہے۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’بھوک کا علاج بھی ابھی ہو اجاتا ہے۔چلو تم کو پھولوں کا رس پلاؤں ۔چلو میرے ساتھ چلو۔‘‘ مالی نن نے کہا۔
بیسواں واقعہ:حُسن خوابیدہ
ہم دونوں چھت کا چکّر کاٹ کر پھولوں کی تلاش میں اُڑ نے ہی والے تھے کہ اچانک مالی نن کو ایک ننھی سی زرد تتلی دکھائی دی ۔وہ دیوار کے ساتھ لگے ہوئے نل کے پا س بیٹھی تھی۔پروں سے اُس نے دیوار پکڑ رکھی تھی۔اس کے پر کتاب کے صفحوں کی طرح بند تھے ۔
’’ہیلوزرّیں تاج ۔‘‘مالی نن نے آواز دی ۔
’’چھوڑوجی۔مجھے تو بھوک لگی ۔‘‘میں نے کہا۔
’’ٹھہر جاؤ۔ذرا بی زرّیں تاج سے دو دو باتیں کر لیں ۔‘‘
’’تم تو ہمیشہ لڑکیوں ہی کے چکّر میں رہتے ہو۔‘‘میں نے مالی نن کو چھیڑتے ہو ئے کہا۔
’’کہو بی زرّیں تاج !کیسے مزاج ہیں آپ کے؟‘‘مالی نن نے زرد تتلی کے قریب جا کر کہا۔
’’مالی نن لڑکیو ں کے چکّر میں ۔‘‘اُس کے سر پر منڈلاتے ہوئے میں نے طعنہ دیا ۔مالی نن نے پہلی تتلی کوپھر مخاطب کیا مگر تتلی نے کوئی توجّہ نہ کی اور خاموش بیٹھی رہی ۔
’’بڑے دماغ ہیں اس کے ! اچھّا ہے ۔تم ہو اسی قابل ۔‘‘میں نے مالی نن سے کہا ۔
’’نہیں شان نہیں دکھا رہی ہے ۔سو رہی ہے بے چاری ۔‘‘مالی نن نے تتلی کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آہا !پریوں کی کہانی والی ۔۔۔۔۔۔’حُسنِ خوابیدہ‘۔۔۔۔۔۔راج کماری اُٹھو ۔شہزادے صاحب تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔‘‘تتلی کے پاس جا کر میں نے اُسے جگانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
‘‘بے کار ہے ۔اس کے کانوں کے پاس ڈھول بجاؤتب بھی یہ نہ جاگے گی۔یہ تو جاڑوں بھرا سی طرح سوتی رہے گی ۔۔۔۔۔۔لیکن تم کیا جانو ان باتوں کو۔‘‘مالی نن نے کہا۔
’’جاڑوں بھر سوتی رہے گی ۔۔۔؟تعجب ہے ۔مگر کیوں ؟‘‘میں نے حیرت سے پوچھا ۔
’’تتلیوں کی دنیا میں قدرت کا یہی قانون ہے ۔‘‘
’’واقعی؟مگر عجیب قانون ہے یہ !‘‘
’’ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ساری تتلیاں خزاں کے موسم میںیا تو مر جاتی ہیں یا پھر بہار کے موسم تک سوتی رہتی ہیں ۔کون سی تتلی کب سوئے گی ۔اس کے لیے قدرت نے ان کے واسطے ایک ٹائم ٹیبل بنا دیا ہے۔ ‘‘مالی نن نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ذرا ٹھہرنا ۔اب ہم لوگوں کا کیا ہو گا ؟کیا ہمیں بھی سونا پڑے گا ۔اسی طرح جاڑوں بھر؟‘‘
’’تتلیوں کی حیثیت سے کسی نہ کسی موسم میں سونا تو پڑے گا ہی ۔‘‘مالی نن نے رُکتے ہوئے جواب دیا۔
’’یہ تو بُرے پھنسے ۔اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ تتلی بنتے ہی ہمیں نیند آدبوچے گی اور وہ بھی جاڑوں بھر کے لیے تو میں ہر گز تتلی بننے کی کوشش نہیں کرتا۔ہم تو بس ایک دن کے لیے تتلی بنے تھے ۔اب اگر سونا پڑ گیا تو سردیوں کی چھٹیاں برف پر پھسلنا ‘ہاکی ‘فٹ بال سب گیا ۔یہ تو بہت بُرا ہو گا۔مالی نن خدا کے لیے اس جال سے جلدی نکلو ۔‘‘میں نے گھبرا کر کہا ۔
’’ہڑبڑا ؤ نہیں بارن کن !نیند ابھی تو نہیں آ رہی ہے ؟‘‘
’’نہیں ۔ابھی نہیں ۔‘‘
’’تو چلو ذرا پھولوں کا رس ڈھونڈ یں ۔بھوک لگ رہی ہے ۔پیٹ بھر لیں ۔جب سونے کا وقت آئے گا ۔تب دیکھا جائے گا ۔‘‘
’’جب وقت آئے گا ۔۔۔کیا مطلب ؟اگر اُڑتے اُڑتے نیند آگئی تو بس اگلے موسم بہار تک کے لیے چھٹی ۔اور جب دوبارہ آدمی بننا پڑا تو امتحان میں کیا کروں گا اپنا سر ؟‘‘
’’گھر پر تو رات بھر اُلّوؤں کی طرح جاگا کرتے ہو اور اب اُڑتے اُڑتے سو جاؤگے ۔فکر مت کرو ۔جانتے ہو کون سی تتلیاں موسمِ خزاں میں سو جاتی ہیں ؟عام تتلیاں۔ہماری دوسری بات ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم تو ٹھہرے خاص تتلیاں۔۔۔۔۔۔غیر معمولی قسم کی تتلیا ں۔‘‘
’’ہم غیر معمولی تتلیا ں کیسے ہیں ؟‘‘
’’ہم انسانی تتلیاں ہیں جناب ۔‘‘مالی نن چلّایا ۔
’’اس سے کیا ہوتا ہے ۔بہ ہر حال ہم تتلیاں ہیں ۔‘‘میں نے جھلّا کر جواب دیا۔
’’ممکن ہے فطرت کا یہ قانون انسانی تتلیوں پر لاگو نہ ہو۔‘‘مالی نن بولا۔
’’اور اگر ہو گیا تو ؟‘‘
مجھے اب مالی نن پر بہت غصّہ آ رہا تھا ۔اُس کو تتلیوں کے بارے میں اتنی معلومات تھیں ۔پھر بھی اُس نے مجھے لاعلمی میں رکھا ۔میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک گوریّا زنّاٹے کے ساتھ میرے سر پر سے گزری۔ مالی نن ڈر کے مارے چھت کے نیچے چھپ گیا ۔گوریّا سامنے دیوار پر بیٹھ گئی۔ اس کی شکل مجھے کچھ جانی پہچانی سی لگی ۔جب وہ ایک طرف کو مڑی تو میں نے دیکھا کہ اُس کی دُم غائب تھی ۔یہ وہی میاں دُم کٹے تھے جن سے جو کے دانوں کے سلسلے میں میرا مچیٹا ہوا تھا۔
’’کہو بھائی کیا حال ہے ؟مجھ سے خفا تو نہیں ہو؟‘‘میں نے چلّا کر پو چھا ۔
’’بارن کن !چھپ جاؤ ۔جلدی کرو ۔ورنہ زندہ کھا جائے گا یہ تم کو ۔‘‘مالی نن نے گھبرا کر مجھ سے کہا ۔
’’کھا جائے گا ۔۔۔۔۔۔مجھے ؟‘‘ لیکن اس سے پہلے کہ یہ الفاظ میرے منہ سے نکلیں مالی نن اپنی جاءِ پناہ سے نکل کر مجھے اپنے پنجوں سے گھسیٹتا ہوا چھت کے نیچے لے گیا ۔اُسی لمحے دُم کٹا چڑوٹا میری طرف جھپٹا ۔میں اس کی پہنچ سے باہر ہو چکا تھا۔پھر وہ ’حسنِ خوابیدہ ‘زرد تتلی کے پاس پہنچا ۔غور سے اُسے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے اُسے چٹ کر کے ایسے اُڑ گیا جیسے کوئی بات ہی نہیں۔
’’میں تم کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ تتلیاں چڑیوں کی من بھاتی غذامیں شامل ہیں ۔آئندہ اس کا خیال رکھنا۔‘‘مالی نن ندامت سے بولا ۔
جی تو چاہا کہ اس وقت وہ کھری کھری سُناؤں ا ن حضرت مالی نن کو اور ان کی تتلیوں کی ’’حسین اور لطیف زندگی ‘‘کو کہ ہمیشہ یاد رکھیں ۔مگر اپنے پنجے اپنے سینے پر رکھ کر صبر کیا ۔کیوں کہ بہ ہر حال میں مالی نن تو تھا نہیں جو چڑیا کی جون میں سے اُکتا کر چیں چیں کر نے لگا تھا ۔اب میں تتلی بنا ہوں تو تتلی کی ساری زندگی کے دکھ اُٹھاؤں گا۔۔۔۔۔۔مردانہ دار‘ہمت اور بہادری کے ساتھ پھر بھوک کی وجہ سے مالی نن کو کھری کھری سُنانے کی طاقت بھی تو مجھ میں نہیں تھی ۔مجبوراًخا موش رہا ۔
اکیسواں واقعہ:ٹوپی کی توپ
جب گوریّا کافی دور نکل گئی تو ہم دونوں چھت کے نیچے سے نکل کر رس کی تلاش میں پھولوں کی کیاری پر پہنچے ۔
’’ہوا میں چڑیوں کا زیادہ خطر ہ رہتا ہے ۔زمین کے قریب ان کا اتنا خطرہ نہیں رہتا ۔لیکن جیسے ہی کوئی پرندہ نظر آئے فوراًچھپ جاؤ۔‘‘مالی نن نے مجھے نصیحت کی ۔
’’فوراًچھپ جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔یہ کہہ دینا نہایت آسان ہے ۔لیکن فرض کرو تم رس چوسنے میں مصروف ہو اور پیچھے سے چڑیا آکر تم کو کھا جائے !‘‘میں نے کہنا چاہا لیکن چپ ہو رہا ۔۔۔۔۔۔۔کیاری رنگ برنگے پھولوں سے بھری تھی۔ان کے رس کی خوش بواتنی عمدہ تھی جیسے امّی کے باورچی خانے میں رکھا ہوا کیک ۔میرے منہ میں پانی بھر آیا اور میں ایک بڑے سے پھول پر چکّر کاٹنے لگا۔
’’مار ڈالو اسے ۔‘‘میرے پیچھے سے ایک آواز آئی ۔
میں نے ہوا میں ایک قلابازی کھائی ۔دیکھا کہ دو شریر لونڈے کدال ہاتھوں میں لیے ‘اپنی ٹوپیاں ہوا میں اچھالتے ،بھاگتے ہماری طرف چلے آرہے ہیں ۔
’’یہ بڑ تتلا ہے ۔مار ڈالو اسے ۔میں اس کیڑے کو خوب پہچانتا ہوں ۔‘‘ایک نے چلّا کر کہااور منہ میں دو اُنگلیاں ڈال کر زور سے سیٹی بجائی ۔
چوں کہ مالی نن کے بیان کے مطابق میں گوبھی تتلی تھا ’بڑ تتلا‘ نہیں تھا‘ اس لیے میں نے لڑکوں کی بالکل پرواہ نہیں کی ۔ایک اور قلاباز ی کھا کر میں خو شبو دار پھول پر منڈلانے لگا ۔اتنے میں ایک بڑی سی پر چھائیں نے مجھے ڈھانپ لیا اور سنسناتی ہوئی تیز ہو اکے ایک جھونکے نے مجھے زمین پر پٹک دیا۔
’’ہرّے ۔پکڑ لیا ۔پکڑلیا۔‘‘ایک لڑکا چلّایا ۔مجھے یہ آواز جانی پہچانی معلوم ہوئی ۔
’’ٹوپی کے نیچے نہیں ہے ۔شاید پھولوں میں چھپ گیا۔جلدی ڈھونڈو۔‘‘دوسرے لڑکے نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔اس لڑکے کی آواز بھی مانوس سی تھی ۔میں نے جھاڑی کی آڑ لیتے ہوئے غورسے دیکھا۔ دونوں لڑکے میرے ہم جماعت ومینکا اور جنیکا تھے۔ومینکا تو وہی تھا جس نے تھوڑی دیر پہلے جب میں چڑیاکے جون میں تھا‘مجھے اپنی غلیل کا نشانہ بنایا تھا۔
’’اچھّا بیٹا ومینکا !ذراٹھہرو تو سہی ۔شکر کرو کہ اس وقت میں تتلی کے جون میں ہوں ‘ورنہ مارتے مارتے تمہارے ہوش ٹھکانے لگادیتا۔‘‘میں نے دل میں کہا ۔وہ دونوں مجھے گھاس اور پھولوں میں ڈھونڈ رہے تھے لیکن میں نے گرتے ہی ایک جھاڑ ی کی آڑ لے لی تھی ۔اور پر سُکیڑ کر ایسے بن گیا تھا جیسے درخت کی سوکھی پتّی ۔لڑکوں کے پیٹھ موڑتے ہی میں ہوا ہو گیا ۔
’’وہ رہا۔وہ جا رہا ہے۔‘‘دونوں چلّائے ۔مگر میں اب اُن کی زد سے نکل چکا تھا ۔میں مالی نن کے قریب پہنچا جو ایک دوسری کیاری پر گھبرایا ہوا منڈلا رہا تھا۔اُس نے مجھے خوف زدہ آواز میں ڈانٹنا شروع کر دیا :
’’میں چیخ رہا تھا کہ بھاگ جاؤ ۔لڑکے آرہے ہیں ۔مگر آپ مزے سے اُس پھول پر منڈلاتے رہے ۔‘‘
’’مگر تم نے تو کہا تھا کہ میں گوبھی تتلی ہوں اور لڑکے کہہ رہے تھے کہ بڑ تتلے کو پکڑ لو ۔میں کیا جانتا تھا کہ وہ مجھے ہی بڑ تتلا کہہ رہے تھے ۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’ان گدھوں کو تتلیوں اور کیڑوں کی پہچان ہی نہیں ہے ۔‘‘مالی نن نے کیاری کے پاس والے کھمبے پر لٹکی ہوئی گھڑی کے پاس بیٹھے ہوئے جواب دیا ۔
گھڑی میں بارہ بج رہے تھے ۔اب تو بھوک اور تیزی سے لگنے لگی ۔ومینکا اور جینکا ابھی تک پھولوں کی کیاریوں کے پاس ‘ہم دونوں کے واپس آنے کا انتظار کررہے تھے۔مگر میں بدھو تو تھا نہیں کہ پھر ان کے پاس پہنچ جاتا ۔میں نے سوچا تھوڑی دیر میں یہ لوگ تھک کر خود ہی چلے جائیں گے ۔پھر اطمینان سے رس پیا جائے گا ۔مگر وہ دونوں ٹلنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے ۔ہاتھ ہلا ہلا کر ہم دونو ں کو بُرا بھلا کہے جا رہے تھے ۔
’’تم خود کیڑے مکوڑے ہو گے گدھو!‘‘میں نے چیخ کر کہا۔’’وہاں باغ میں فو کینا تمہارا انتظار کر رہی ہے ۔پیڑ لگانے کے لیے ۔اور تم دونوں یہا ں تتلیوں کے پیچھے دیوانے ہورہے ہو۔‘‘
ہم دونوں گھڑی والے کھمبے کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے ۔وہ دونوں ہماری طرف بڑھے ۔جینکا نے اپنی ٹوپی میری طرف اُچھالی۔ مگر وہ مجھ تک آہی نہ سکی۔کھمبا کافی اونچا تھا۔ومینکا نے کھمبے پر چڑھنے کہ کوشش کی ۔مگر پھسل کر زمین پر آرہا ۔کھمبا بہت چکنا تھا۔
’’بھئی یہ دونوں تو ہمیں آج رس نہ پینے دیں گے ۔‘‘مالی نن نے کہا ۔میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔
بائیسواں واقعہ:ساتھیو!رخصت ،شاید اب ہم کبھی نہ ملیں ۔
چلو سبزیوں کی کسی باڑی میں چلیں ۔آج کل گاجر ‘شلجم ‘ کرم کلّے اور گوبھی کا موسم بھی ہے ۔پھول بھی خوب ہوں گے وہاں ۔وہاں لوگ باگ بھی زیادہ نہ ہوں گے ۔بڑا مزہ رہے گا ۔‘‘میں نے مالی نن سے کہا۔
’’رہے تم موچی کے موچی ۔میاں گوبھی تتلی !تمہاری ہی وجہ سے تو ترکاریوں کی باڑی میں جانا ممکن نہیں ہے ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا ۔
’’کیوں ؟میری وجہ سے وہاں جانا کیوں ممکن نہیں ہے ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ ترکاریوں کو نقصان پہنچانے والے تم جیسے کیڑوں ہی کو مارنے کے لیے ترکاری کی کیاریوں میں زہرملی ہوئی دوائیں چھڑکی جا رہی ہیں ۔‘‘
یہ سُن کر میں بھو چکا رہ گیا ۔’’بھاڑ میں جائے ۔‘‘میں نے چیخ کر کہا ۔
’’سڑکوں پر رہیں تو ہمارے پر نوچے جانے کا خطرہ ۔باغوں میں جائیں تو ہمیں زہر سے مارا جائے ۔فضا میں چڑیاں ہمارا ناشتہ کرنے کو موجود ۔پھر ہم آخر تتلیاں بنے کیوں ؟بھوکے مرنے کے لیے ؟‘‘
’’پاگل مت بنو بارن کن۔میں تم کو رس ضرور پلواؤں گا ۔آؤ میرے ساتھ آؤ۔‘‘
’’کدھر؟‘‘
’’اسکول کے باغیچے میں چلتے ہیں ۔‘‘مالی نن نے کہا ۔
’’لیکن وہاں تو بچّے پود لگا رہے ہیں۔‘‘
’’یہ تو اور بھی اچھّا ہے ۔ہم ناشتہ بھی کریں گے اور اپنے ساتھیوں کوبھی دیکھیں گے ۔‘‘مالی نن نے کچھ اس طرح جواب دیا جیسے وہ اپنے ساتھیوں کی کمی بُری طرح محسوس کر رہا ہو۔
’’اچھّی بات ہے ۔چلو اسکول ہی کی طرف چلیں ۔‘‘میں نے راضی ہوتے ہوئے کہا ۔
حقیقت یہ تھی کہ میں بھی اپنے ساتھیوں کو دیکھنے کو بے چین سا تھا ۔میرا جی چاہا کہ اپنے اسکول اور اپنی جماعت کے پاس سے گزروں جن سے اتنی سُہانی یادیں وابستہ تھیں ۔۔۔۔۔۔’سہانی یادیں ‘۔۔۔ ۔ ۔۔یہ مجھے کیا ہوا جا رہا ہے ۔؟شاید بھو ک کی وجہ سے میرا دماغ چل نکلا ہے ۔میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی غرض سے ایک جھر جھری لی تا کہ اسکول کے بارے میں ایسے خیالات میرے دماغ سے ایک دم نکل جائیں ۔جھر جھری لینے سے دماغ کچھ ہلکا ہوا اور جذبات سے خالی ۔مردانہ وار میں اپنے ساتھیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیّار ہو گیا ۔مگر مالی نن کو اپنے ساتھیوں کی جدائی زیادہ ستا رہی تھی ۔وہ بے چین سا تھا اور اُ س کی آ نکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا رہی تھیں ۔
’’ہم دوپہر کا کھانااسکول کے باغیچے میں کھائیں گے ۔‘‘مالی نن نے مجھے بڑی حسرت سے کہا ۔
’’ہاں شام کا ناشتہ اور رات کا کھانا بھی وہیں کھائیں گے ۔‘‘میں نے خوش ہو کر جواب دیا ۔
ہم دونوں ہی اسکول کی طرف اتنی تیزی سے زندگی میں پہلی بار جا رہے تھے ۔ورنہ یہ تیزی عام طور سے صرف اسکول سے گھر آنے کے لیے ہوتی تھی ۔میرا خیال تھا کہ مالی نن سے پہلے میں اسکول پہنچوں گا مگر مجھے بڑا تعجب ہوا یہ جان کر کہ میں شروع ہی سے پیچھے رہ گیا ۔ذرا ہی دیرمیں مالی نن مجھ سے تین مکان آگے نکل گیا۔جسمانی لحاظ سے مالی نن کلاس بھر میں سب سے زیادہ کمزورتھا اور کسرت اور کھیل کے میدان میں تو میرا مدَّ مقابل کوئی بھی لڑکا نہ تھا۔میں نے دیوانہ وار اپنے زرد پر ہلانے شروع کیے۔مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔مالی نن اپنے حسین پروں پر تیر کی طرح آ گے بڑھاجا رہا تھااور میں لدّھڑ پھسڈّیوں کی طرح ایسے آگے بڑھ رہا تھا جیسے کوئی مکھّی گوند کی شیشی میں سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہو۔ میں شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا تھا ۔
مجھے پیچھے گھسٹتا رگڑتا دیکھ کر مالی نن میرے قریب آیااور مالی نن کلاس کے سب سے مضبو ط لڑکے بارن کن کو مخاطب کر کے حقارت سے بولا:
’’ارے گوبھی کے کیڑے !تیز کیوں نہیں اُڑتا؟‘‘۔۔۔۔۔۔پھر ذرا نرمی کے ساتھ کہنے لگا:’’بارن کن !تم سے تو شاید گوبھی کا پھول بھی تیز چل سکتا ہے ۔زرا تیزی سے چلو ۔پھولوں کا رس اب زیادہ دور نہیں ۔‘‘
مالی نن کے الفاظ سے جو خفت مجھے اس وقت ہوئی ‘میں ساری عمر نہ بھول سکوں گا۔جب وہ دوسری بار ‘کشتی کے پوّاروں کی طرح اپنے خوبصورت پر ہلاتا ہو امیرے پاس سے گزرا تو میں نے لپک کر اس کی ایک ٹانگ ایسے پکڑ لی کہ اسے پتا بھی نہ چلا ۔اب وہ کوشش کے باوجود مجھ سے آگے نہ جا سکتا تھا۔
’’سمجھ میں نہیں آتا کہ میری رفتار کم کیوں ہو گئی ؟مالی نن نے اور طاقت لگاکر آگے بڑھتے ہوئے کہا ۔
میں نے چپ سادھ لی۔آخر چڑیا کی جون میں وہ بھی تو میری دُم پکڑ کر اُڑا تھا ۔اب میرا موقع ہے ۔میں اپنے پر سُکیڑ کر مزے سے سفر کرتارہا ۔کبھی کبھار ایک آدھ بار پر مار لیتا تھا تا کہ مالی نن سمجھے کہ میں بھی اُڑ رہا ہو ۔
آخر کار ہم اسکول کے باغ میں پہنچ گئے ۔وہاں ہماری کلاس کے سب بچّے پیڑ لگانے میں مصروف تھے۔
دوسری منزل کی ایک کھڑکی کی چوکھٹ پربیٹھ کر ہم نے نیچے دیکھا ۔خوشی سے مست بچّے کھُدائی کر رہے تھے ۔کچھ بچے نئے لگے ہوئے پودوں میں پانی دے رہے تھے ۔سر جیف نے تو جان بوجھ کر اپنے اوپر کیچڑ تھوپ لی تھی اور طرح طرح کی شکلیں بنا رہا تھا۔سب قہقہے لگا رہے تھے ۔سب خوش تھے ۔
’’یہ لوگ اگر کام کر کر کے تھکنا چاہتے ہیں تو شوق سے تھکیں ۔ہم تو مزے سے شہد کھائیں گے ۔ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہم سچ مچ کا رس‘پھولوں کا اصلی رس‘ کھانے والے ہیں ‘تو حسد کے مارے جل بھُن کے کباب ہو جائیں۔‘‘مالی نن نے کہا۔
’’حسد کس پر کریں گے ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ہم تتلیوں پر ۔‘‘مالی نن نے ذرا غیر یقینی انداز میں جواب دیا۔
اس وقت مجھے اُس ’’حسنِ خوابیدہ ‘‘تتلی کا خیال آیا جسے چڑیا کھا گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔بھوک سے میر ی آنتیں ایک دوسرے کو کھجا ئے جا رہی تھیں ۔میں نے نفرت سے ان چڑیوں کو دیکھا جو باغیچے میں اِدھر اُدھر اُڑ رہی تھیں ۔اور جن کے ڈر کی وجہ سے نیچے اُترنے کی ہماری ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔
اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ مشکا بائیسکل پر سوار تیر کی طرح باغ کے دروازے سے داخل ہوا۔ الیک پیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔دونوں سیدھے زینا فوکینا کے پاس پہنچے اور بڑی جلدی جلدی اور جوش کے ساتھ اُسے کچھ بتانے لگے ۔سارے بچے ان کے چاروں طرف جمع ہو گئے ۔قہقہوں کا شور تھم گیا ۔ پورے ماحول پر سنجیدگی سے چھا گئی ۔مزاقیہ سر جیف نے بھی اپنے منہ پر پُٹی مٹی پونچھ ڈالی۔
’’کوئی خاص بات ہو گئی ہے ۔‘‘مالی نن نے بولا۔
میں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔زینا فوکینا سے بات کرنے کے بعد مشکا اور الیک سائیکل پر بیٹھ کراُسی تیزی سے واپس چلے گئے ۔زینا فوکینا نے تین لڑکوں کو بلا کر اُن کے کُدال واپس لے لیے ۔اُن سے کچھ باتیں کیں اور ایک طرف کو روانہ کر دیا۔سڑک پر پہنچ کر تینوں لڑکے تین مختلف سمتوں میں روانہ ہو گئے ۔
’’کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔‘‘مالی نن نے کہا۔
’’ہم ہی کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’ڈھونڈ نے دو۔وہ ہمیں جہاں تہاں ڈھونڈا کریں اور ہم یہاں مزے سے رس پئیں گے۔‘‘مالی نن نے خوش ہو کر کہا ۔
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔بھوک اور تیزی سے لگنے لگی تھی ۔پھولوں کا رس بھی بالکل پاس ہی تھا لیکن۔۔۔۔۔۔لیکن چڑیاں بھی تو دور نہیں تھیں ۔
’’خدا نے چاہا تو یہ چڑیاں ہمیں نہ کھا سکیں گی۔‘‘میں نے سوچا۔
’’ہاں چلو مالی نن ! ‘‘میں نے آواز دی اور دل میں کہا۔‘‘ساتھیو!رُخصت !!!!اگر ہم چڑیوں کا نوالہ بن گئے تو پھر شاید تم سے بھی کبھی نہ مل سکیں ۔
میں نے اپنے پر پھیلائے اور ابابیل کی طرح منڈلاتا ہوا کیاری میں اُتر گیا۔
تیئیسو اں واقعہ:آچھیّں !آآچھیّں !!
پھولوں سے طرح طرح کے رسوں کی خوشبوئیں نکل رہی تھیں ۔بھینی،تیز،‘میٹھی ،کھٹ مٹھی ۔ میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔میں نے چکر مار کر پر سکیڑے اور غوطہ مار کر ایک سب سے بڑے پھول پر بیٹھنا چاہا ۔میرا نشانہ غلط ہو گیااور میں سر کے بل گھاس پر جا گرا ۔گھاس میں سے نکل کر دوبارہ کوشش کی ۔ پودے کے تنے پر رینگتا ہوا پھول تک جا پہنچا ۔جلدی سے میں نے اپنی تھوتھنی پھول کی کٹوری میں ڈال دی۔مجھے یقین تھا کہ کٹوری میں مزے دار رس بھرا ہوا ہوگا۔مگر رس ندارد تھا ۔خوش بو البتہ آرہی تھی ۔میں نے اپنا سر اور اندر ٹھونس دیا ۔اب صرف میری ٹانگیں اور پروں کا کچھ حصّہ باہر رہ گیا تھا ۔میں اور بھی اندرداخل ہونا چاہتا تھا مگر مجھے ایسا لگا کہ کوئی چیز پھول کے اند رسے باہر آرہی ہے ۔میں سمجھا کہ شاید کوئی اور تتلی ہے جو میرے آنے سے پہلے سارا رس چٹ کر چکی ہے ۔یہ سوچ کر مجھے بے حد غصّہ آیا ۔میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ایک دم اُس پر حملہ کر دیا ۔اُس نے بھنبھنا کر اپنا سر میرے سر سے بھڑا دیا اور زور سے دھکا دے کر مجھے اس طرح پھول سے باہر کر دیا جیسے ٹوتھ پیسٹ کو ٹیوب سے نکال دیتے ہیں ۔
میں نے آگ بگولہ ہو کر پنکھڑیوں پر اتنے زور سے پر مارے کہ پھول کا زیرہ ہوا میں بکھر گیا ۔ زیرے کے غبار نے مجھے گھیر لیا اور میرا دم گھٹنے لگا۔
’’ٹھہرو تو سہی بچّہ ۔‘‘میں نے اپنے پر پھڑپھڑا کر زیرہ اڑاتے ہوئے کہا۔
’’ذرا میدان میں آؤ ۔تمہارا حُلیہ نہ بگاڑ کے رکھ دوں تو کہنا۔‘‘۔۔۔آچھیّں !آآچھیّں !!مجھے دو زور دار چھنکیں آئیں ۔پھول کا غبار میری ناک میں گھس گیا تھا ۔میں تو چھینک رہا تھا اور وہ چوٹّا باہر نکل کر بڑی سی پنکھڑی پر اطمینان سے بیٹھا مجھے گھور رہا تھا ۔میں نے دیکھا کہ وہ تتلی نہیں بلکہ شہد کا دھاری دار بڑا مکھّا تھا ۔بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے شب خوابی کا دھاری دار پائجامہ پہنے ہو۔اس نے اپنے گول گول دیدوں سے مجھے ایک بار پھر گھورا ۔۔۔حیرت کے مارے میں بھنبھنانا بھول گیا۔ وہ اپنے پروں اور منہ پر سے پھول کے غبار کو صاف کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔میں چھنکتا رہااور اپنے پر صاف کرتا رہا ۔میں اس مکھّے پر کم از کم ایک درجن بار تو ضرور چھینک چکا ہوں گا ۔تب جا کر مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی بڑی غلطی کر رہا ہوں ۔میں نے سوچا :
’’بارن کن!تم یہ کیا کرر ہے ہو ؟تم جو اس وقت ایک حقیر گوبھی کے کیڑے ہو ۔۔۔۔۔۔شہد کے مکھّے پر چھینک رہے ہو ۔اسے اگر غصّہ آ گیا تو۔۔۔۔۔۔۔آآچھیں ۔۔۔۔۔۔۔تمہاری ساری چھینکیں نکال دے گا۔یاد ہے جب تم بچے ۔۔۔۔۔۔تھے اور تمہارے ایک مکھّے نے۔۔۔۔۔۔ آچھیّں ۔۔۔۔۔۔ڈنک مار دیا تھا ۔‘‘
’’یاد ہے ۔‘‘میں نے خود ہی جواب دیا ۔’’بڑے زور کا درد ۔۔۔۔۔۔آچھیّں ۔۔۔۔۔۔‘‘
اس چھینک سے میرا توازن بگڑ گیا اور میں پھول پر سے لُڑھک کر قلابازیاں کھاتا ہوا گرنے لگا۔ زمین تک پہنچنے سے پہلے میں نے خود کو سنبھال لیا اور اپنی خالی تھوتھنی اوپر اٹھا کر ایک طرف کو بھاگ پڑا۔
میرا خیال تھا کہ مالی نن مجھے اس حالت میں چھوڑ کر مزے سے کسی پھول کا رس پی رہا ہو گا ۔مگر درختوں کے بیچ میں سے مجھے اس کے جھلملاتے پروں کی جھلک نظر آئی ۔پتا چلا کہ بھنبھنا تا ہوا ایک اور مکھّا اس کے پیچھے بھی لگا ہوا ہے ۔
’’اچھّا ہوا۔میرا بس چلے تو مکھّوں کا ایک پورا لشکر اس کے پیچھے چھوڑ دوں ۔بڑے تتلی بننے چلے تھے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ہم پھولوں پر منڈلا یا کریں گے !ہم پھولوں کا رس پیا کریں گے !!بڑی مزے دار زندگی ہو گی !!اب پتا چلے گا جب یہ مکھّا ’’اصلی شہد‘‘سے حضرت کی خاطر داری کرے گا ۔میں نے خوش ہوتے ہوئے دل میں کہا۔
’’مدد۔۔۔۔۔۔بارن کن !!۔۔۔۔۔۔مدد !۔۔۔۔۔۔کہاں ہو۔۔۔۔۔۔ممّی !ممّی ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بارن کن !!‘‘
جب میں نے اُس کی یہ دل دُکھا نے والی فریاد سُنی تو میرا دل پگھل گیا ۔اور مجھے ۔۔۔خیال آیا کہ مالی نن اس وقت لڑکا نہیں ہے۔ ایک حسین ناز ک تتلی کی جون میں ہے ۔اگر مکھّے نے کہیں اس کے ڈنک مار دیا تو اس غریب کی جان کے لالے پڑ جائیں گے ۔
میں نے ایک مضبوط سا ڈ نٹھل اُٹھایااور بڑی تیزی سے مکھّے کے پیچھے آکر ‘اتنے زور سے اس کے سر پر دے مارا کہ وہ تیور ا کر وہیں ڈھیر ہو گیا ۔مگر ساتھ ہی بھوک اور کمزوری کی وجہ سے میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے ۔میں لاکھ کوشش کے باوجود خود کونہ سنبھال سکا اور گھاس پر گرنے لگا ۔مجھے ایسا لگا جیسے سمندر کے ٹھنڈے پانی میں ڈوبتا چلا رہا ہوں ۔
چو بیسواں واقعہ:قدرت کا اٹل قانون
جب میں نے آنکھ کھولی تو خود کو ایک تلیّا کے کنارے پڑا پایا۔ میرا بہترین دوست مالی نن اپنے نازک پروں سے مجھے پنکھا جھل رہا تھا۔
’’کیسی طبیعت ہے؟‘‘مالی نن نے پو چھا ۔
’’ٹھیک ہے ۔میں بس ذرا آرام کر نا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔آچھّیں ۔کم بخت چھینکیں رُکنے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔آآچھیّں ۔‘‘
’’میں بتاؤں ۔۔۔۔۔۔ایک اور جگہ ہے جہاں ہمیں پھولوں کا رس آسانی سے اور بغیر کسی خطرے کے مل سکتا ہے ۔‘‘مالی نن بولا ۔
’’جہنم میں جاؤ تم اور بھاڑمیں جائے تمہارا رس۔‘‘میں نے تلخی سے جواب دیا ۔
مالی نن سر سے پاؤں تک پھولوں کے زیرے اور غبار سے لتھڑا ہوا تھا ۔اُس کا ایک پر سیدھا کھڑا تھا۔دوسرا کتّے کے کان کی طرح لٹک رہا تھا۔مجھے اُس کے اس حال پر ترس آنے لگا ۔میں نے اپنے آپ کو سنبھالا ۔بچی کھچی طاقت جمع کر کے تلیّا کے کنارے تک گیا اور بارش کا بد مزا پانی پینے لگا۔
مالی نن نے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی مگر میں خاموش رہا ۔میں نے طے کر لیا تھا کہ اب ساری عمر اُس سے نہ بولوں گا۔تلیّا کا گندہ پانی پی کر میں سوچنے لگا۔۔۔۔۔۔کیا میں نے کوئی غلطی کی ہے ؟نہیں ۔اس میں میری کوئی غلطی نہیں ۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس دھرتی پر وہ سُہانی زندگی کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہے جس کے خواب ہم نے اپنے باغیچے کی بنچ پر بیٹھ کر دیکھے ہیں ۔میں اس زندگی کو تلاش کر کے رہوں گا ۔اتنا ضرور ہے کہ ہم دونوں اُس زندگی کو غلط جگہوں پر تلاش کر رہے ہیں ۔ چڑیا بن کر، تتلی ہو کر ہم نے یقینی بہت بڑی غلطی کی۔دُور کے ڈھول سُہانے معلوم ہوتے ہیں ۔مگر جب قریب پہنچو تو پتا چلتا ہے کہ ان کی آواز یں کتنی تکلیف دینے والی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن کیوں؟ خاموشی سے تلیّا کا گندہ پانی پیتے ہوئے میں نے سوچا اور طے کر لیا کہ جس طرح کی زندگی کے خواب میں نے اور مالی نن نے دیکھے تھے وہ شاید اس دُنیا میں موجود ہی نہیں ۔
اس وقت ایک چیونٹا دوڑتا ہوا میرے پاس سے گزرا ۔دوڑتے دوڑتے وہ ایک دم رُک گیا ۔میں اُس کو دیکھتا رہا اور دُکھ دینے والے اس موضوع پر غور کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔اگر ایسی سُہانی زندگی زمین کے اور پر موجود نہیں تو زمین کے اندر ضرور ہو گی ۔۔۔۔۔۔اگر ہوا میں اُڑ کر مصیبتوں اور پریشانیوں سے آزادی نہیں مل سکتی تو کہیں چھپ کر سارے دکھوں سے چھٹکارا ضرور مل سکتا ہے ۔مثا ل کے طور پر چیونٹیوں کے بل میں چھپ کر ۔
چیونٹا پھر دوڑنے لگا ۔میری نظریں اُس کا پیچھا کر رہی تھیں ۔
میں پھر سوچنے لگا ۔۔۔۔۔۔ان کے بلوں میں چھپ کر ہر طرح کے خطرے سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔مگر چیونٹے تو بے حد محنتی ہوتے ہیں ۔جب دیکھو کام میں مصروف ۔جب دیکھو تنکے ‘پتّے‘اناج کے دانے ‘مٹی کے ٹکڑے اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ۔صبح سے شام تک لگاتار کام کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔نہیں صاحب !بس شکریہ ۔چیونٹا بننا خالہ جی کا گھر نہیں ۔اتنے بہت سے کام اور ہم ۔نا‘ بابا‘نا۔۔۔۔۔۔
میں تو کہتا ہوں کسی ایسے جانور کا جون اختیار کیا جائے جس کی زندگی آرام ‘چین اور سلامتی سے گزرتی ہو۔یہی سب سوچتے سوچتے مجھے اچانک یاد آیا کہ کلاس کی اُس منحوس میٹنگ میں الیک نے مجھے شہد کے چھتّے کے کاہل مکھّے ’’نکھٹو‘‘کے خطاب سے نوازا تھا۔۔۔۔۔۔ ذرا ایک منٹ ٹھہرو ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔میں نے اپنے ذہن کو ٹھوکا دیا اور سوچنے لگا ۔شہد کا مکھّا ۔کاہل نر مکھّا ۔جسے دنیامیں کوئی کام نہیں ۔ چھتّے میں اِدھر اُدھر مٹر گشت کرنا۔آرام سے پڑے رہنا اور بس اس کی دیکھ بھال ، آرام و آسائش ، کھانا پینا، سب باتوں کا خیال اس کے ساتھی کرتے ہیں ۔وہ بس مزے میں شہد پیتا ہے اور مست رہتا ہے ۔۔۔ ۔ ۔۔یہی وہ زندگی ہے جس کا سپنا میں نے اور مالی نن نے باغ کی بنچ پر بیٹھ کر دیکھا تھا۔پھر ہم نے چڑیا اور تتلی کے جون اختیار کرنے کی حماقت کیوں کی ؟ہم دونوں نے واقعی بڑا گدھا پن کیا۔
جب مجھے اپنی اس حماقت کا احساس ہوا تو مالی نن کے خلاف میرا غصّہ رفو چکر ہو گیا اور میں نے مالی نن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’مالی نن !ہم دونوں بڑے احمق نکلے ۔‘‘
’’بالکل ۔۔۔۔۔۔خاص طور پر تم ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا ۔
’’ٹھیک کہتے ہو ۔میں واقعی چغد ہوں ۔بتاؤتو بھلا کتنا وقت ضائع کیا ہم نے چڑیا اور تتلی بن کر ۔ دراصل ہمیں شہد کے چھتّے کا ’’نکھٹو‘‘بننا چاہیے تھا۔
’’وہ کیوں ؟‘‘
’’اس لیے کہ یہ ساری عمر کچھ نہیں کرتے ۔اس لیے تو نکھٹّو کہلاتے ہیں ۔اب ہمیں فوراًنکھٹّو بن جانا چاہیے۔‘‘میں نے کہا۔
’’کیا کہا۔۔۔۔۔۔ایک اور کایا پلٹ !معاف کرنا بارن کن ۔میں باز آیا۔‘‘مالی نن نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’پیارے مالی نن ! پچھلی غلطیوں کو بھُلا دو ۔اس دفعہ بالکل صحیح کایا پلٹ ہوگی ۔ہمیں پہلی مرتبہ ہی نکھٹو بن جانا چاہیے تھا۔‘‘میں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’کیا کہا۔۔۔۔۔۔نکھٹّو؟‘‘۔۔۔۔۔۔مالی نن کی آواز اچانک پُر سکون ہو گئی ۔
’’تم شہد کے نر مکھّے سے واقف نہیں ؟۔۔۔۔۔۔وہی جسے نکھٹو کہتے ہیں ۔‘‘
’’نہ ‘‘مالی نن نے پر پھیلا کر جمائی لیتے ہوئے کہا۔
’’اچھّا تو سنو۔‘‘یکا یک الفاظ میرے حلق میں اٹک گئے ۔کیوں کہ مجھے خود ہی نہیں معلوم تھا کہ یہ کاہل مکھّے کس قسم کے ہوتے ہیں ۔پھر میں نے اپنے دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا:
’’تمہیں معلوم ہو نا چاہیے مالی نن !ایک دن ٹیچر نے پوری کلاس کو اسی کے بارے میں بتایا تھا ۔ تصویریں بھی دکھائی تھیں ۔‘‘
’’ہمیں بالکل یاد نہیں ۔کیوں کہ اُس دن ہم دونوں ہی ایک نئی زبان ایجاد کرنے میں منہمک تھے ۔ ‘‘مالی نن نے جواب دیا ۔
مجھے یاد آگیا ۔سبق پر دھیان دینے کے بجائے اُس دن ہم دونوں ایک ایسی زبان ایجاد کرنے میں مشغول تھے جسے ساری دنیا میں صرف میں اور مالی نن ہی سمجھ سکیں ۔
’’لیکن تم نے ایک آدھ بار تو بلیک بورڈ پر نظر ڈالی ہی ہوگی ۔‘‘میں نے کہا۔
’’نہیں ۔‘‘مالی نن نے انگڑائیاں لیتے ہوئے کہا۔
’’تم جان بوجھ کر انجان بن رہے ہو تا کہ ہم نکھٹو نہ بن سکیں ۔‘‘میں نے جھلّا کر کہا۔
’’بالکل نہیں ۔‘‘مالی نن بولا ۔
’’یہ تو مشکل ہوئی ۔جس چیز سے ہم واقف ہی نہ ہوں اُس میں تبدیل کیسے ہوا جائے ۔‘‘میں نے نااُمید ہوتے ہوئے کہا ۔
’’کاہل ۔۔۔۔۔۔۔کاہل مکھّا ۔۔۔۔۔۔نکھٹو ۔۔۔۔۔۔مالی نن نے یکایک بڑبڑا نا شروع کیا ۔اُسے شاید کچھ کچھ یاد آنے لگا۔اُس نے عجیب طرح سے ڈولنا اور جھومنا شروع کر دیا ۔
’’مجھے بھی یاد آیا ۔بورڈ پر بنی ہوئی نکھٹّو کی تصویر یاد آئی ۔باریک پروں والی نرم مکھّی ۔‘‘
’’اُٹھو مالی نن ! اُٹھو ۔جلدی کرو جلدی ۔‘‘لیکن میری اس چیخ پکار کا مالی نن پر ذرا بھی اثر نہ ہوا ۔وہ کروٹ کے بل پڑا نہ معلوم کیا کیا بڑبڑا تا رہا۔
’’کیا کہہ رہے ہو مالی نن ؟‘‘
’’خر ۔خر ۔خر۔‘‘
’’مالی نن !اُٹھو ۔کیا سو گئے ؟‘‘میں نے اُس کی ٹانگ پکڑ کر ہلائی ۔مگروہ اُسی طرح خراٹے لیتا رہا ۔ وہ بن نہیں رہا تھا واقعی سو گیا تھا۔
عجیب اتفاق تھا ۔جیسے ہی مالی نن کو یاد آیا کہ نکھٹو مکھی کیسی ہوتی ہے اُسے نیند آگئی ۔اور فرض کر لیجیے کہ تتلیوں کی لمبی نیند کا وہ فطری قانون ’ہم انسانی تتلیوں ‘پر بھی لاگو ہو جائے تو؟اور ایسے میں کوئی چڑیا اِدھر آ نکلے تو؟۔۔۔۔۔۔حسنِ خوابیدہ تتلی کو سوتے ہی میں تو چڑیا ہضم کر گئی تھی !میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس خیال سے ۔میں نے مالی نن کو بُری طرح جھنجھوڑ ڈالا مگر وہ ویسے ہی سوتا رہا ۔اب تو مجھے بے حد ڈر لگا ۔
’’مالی نن !اُٹھو۔جاگ جاؤ ۔۔۔ورنہ ہمیشہ کے لیے بولنا چھوڑ دوں گا ۔‘‘میں چلّا یا ۔
’’خرر خرررر۔خر خرررر۔‘‘مالی نن خرّاتا رہا۔
’’اگر وہ انسانوں کی نیند سو رہا ہے تب تو میں اُسے جگا کر ہی چھوڑوں گا ۔لیکن اگر وہ تتلیوں کی لمبی نیند سو چکا ہے تو پھر کیا ہو گا ؟‘‘میں نے سوچا ۔میں نے اُس کو جگانے کی ایک اور ترکیب سوچی ۔اپنی تھوتھنی میں تلیّا کا تھوڑا سا پانی چڑھایا تا کہ اُس پر چھڑک کر جگا سکوں ۔اتنے میں جھاڑیوں کے پیچھے سے ہمارے ہم جماعتوں کی آوازیں سُنائی دیں ۔
پچیسواں واقعہ:اُن کے البم میں ایک میری جیسی تتلی بھی تھی ۔
’’یہ بڑی بے انصافی ہے۔‘‘سیمو نوف نے جھاڑی کی آڑ سے نکلتے ہوئے کہا ۔’’ہم لوگ تو کام میں جٹے ہوئے ہیں اور بارن کن اور مالی نن مزے سے کسی سینما ہاؤس میں بیٹھے کوئی مزے دار فلم دیکھ رہے ہیں ۔‘‘
’’جھک مارتے رہو ۔جیسا فلم ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں خداتم سب کو بھی دکھائے ۔‘‘میں نے دل میں کہا ۔
’’سیمو نوف ٹھیک ہی کہتا ہے ۔اگر کام کرنا ہی ہے تو ہم سب کو کرنا چاہیے ۔یہ نہیں کہ کچھ کام کریں اورکچھ گل چھرّے اُڑائیں ۔‘‘ویرا نے ناراضگی کا اظہا رکرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، دیکھو نا۔بارن کن اور مالی نن تو کھسک گئے ۔سیمر نوف اور پینکن سِرے سے آئے ہی نہیں ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی ۔‘‘سیمو نوف بولا۔
’’کیا بے ہودگی ہے ۔بے کار کی بحث کیے جا رہے ہیں ۔ٹلنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔پتا نہیں کب دفعان ہوں گے یہاں سے سب ۔‘‘میں پتّی کی آڑ میں چھپا سوچ رہا تھا ۔
’’بارن کن کو تو اسکول ہی سے نکال دینا چاہیے ۔آخر ہم کب تک ایسے لڑکوں کی موجودگی برداشت کرتے رہیں گے ؟‘‘ایرا بے زاری سے بولی ۔
’’نکال کر کہاں پھینک دیں ۔سڑک پر ؟‘‘فوکینا نے پوچھا۔
’’سڑک پر کیوں ؟۔۔۔۔۔۔اسکول نمبر ۳۱۵ میں چلتا کر دیں ۔‘‘کوزا کینانے تجویز پیش کر دی ۔
’’اسکول نمبر ۳۱۵ ہی میں کیوں ؟‘‘
’’ہم اس اسکول سے مقابلہ کر رہے ہیں نا ۔بارن کن کو وہاں بھی کم نمبر ملیں گے اور اس سے ہمیں فائدہ ہو گا ۔‘‘
’’تمہارا مطلب یہ ہے کہ بارن کن کے خراب نمبر دوسرے اسکول کو منتقل کر دیے جائیں ۔ٹھیک ہے ۔مگر خود بارن کن کے ساتھ کیا ہوگا۔‘‘فوکینا نے سنجیدگی سے دریافت کیا۔
’’یہ تمہارے سوچنے کی بات ہے ۔ہم تو سوڈا لیمن پینے جا رہے ہیں ۔‘‘سیمو نوف بولا۔
’’میں بارن کن کے متعلق اس مسلسل بحث مباحثے سے عاجز آگیا ہوں ۔آؤ اب چلیں ۔‘‘والیا نے کہا۔
’’جو لوگ جانا چاہتے ہیں شوق سے جائیں مگر فطرت کے پر ستاروں سے میں درخواست کروں گی کہ وہ ٹھہریں ۔‘‘فوکینانے کہا ۔
ؒ لڑکے چلے گئے اور لڑکیاں زینا فوکینا کے چاروں طرف ایک حلقے میں گھاس پر بیٹھ گئیں ۔
’’لڑکیو !خاموش ۔‘‘فوکینا نے ایک موٹی سی کتاب کھولتے ہوئے کہا ’’آ ج کی گفتگو کا موضوع ہے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تتلیاں ۔تتلیاں ۔‘‘لڑکیوں نے اپنے اپنے تتلی پکڑنے کے جال ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے ۔تتلیا ں ہی سہی ۔‘‘فوکینا نے کہا اور کتاب کے ورق اُلٹنے لگی ۔
اس کامطلب یہ ہوا کہ آج کی گفتگو کا موضوع میں اور مالی نن تھے ۔پانی میری تھوتھنی میں اٹک کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔اور فطرت کے یہ پرستار اسی لیے اپنے ساتھ تتلی پکڑنے کے جال لے کر آئی ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس وقت مالی نن کو جگانا بھی غلط ہو گا ۔میں نے اپنی تھوتھنی سے پانی گرا دیا ۔کہاں چھپاؤں اس وقت اس بد بخت مالی کو؟ پاس ہی اخبار کا ایک ٹکڑا پڑا تھا ۔میں اس ٹکڑے کو گھسیٹ کر مالی نن کے پاس لے گیا ۔اس دوران فوکینا نے اپنی عینک ناک پر جمائی ‘حلق صاف کیا اور انتہائی روکھی پھیکی آواز میں پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔
’’کیڑے مکوڑوں کی دنیا کی سب سے زیادہ دل چسپ مخلو ق تتلیا ں ہیں ۔‘‘
میں دم لینے کے لیے ذرا رُکا اور راستے پر گھسیٹ کر اخبار کا ٹکڑا گھاس پر لے آیا ۔میں ڈررہا تھاکہ کہیں عاشقانِ فطرت مجھے دیکھ نہ لیں ۔مالی نن مزے سے خراٹے لے رہا تھا۔
’’تتلیاں معاشی نقطہ نظر سے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہیں ۔‘‘فوکینا نے آگے پڑھا۔
’’ارے زینا ۔۔۔۔۔۔تتلی ۔تتلی ۔‘‘ایک لڑکی زور سے چیخی ۔
یہ سنتے ہی میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔
’’کہاں ۔کہاں ۔کدھر ؟‘‘سب لڑکیو ں نے مل کر شور مچایا ۔
‘‘وہ رہی ۔تلیّا کے پا س گھاس میں ۔‘‘
فو کینا نے کتاب بند کر دی اور شکاری کتّے کی طرح کان کھڑے کر کے اپنی نظریں گھاس پر جما دیں ۔بس اب خاتمہ ہے۔مگر کس کا ۔میرا یا مالی نن کا ؟کاش مالی نن نہ پکڑا جائے ۔خاموشی چھا گئی ۔میں کاغذ کے ٹکڑے کے پاس کھڑا ‘احمق کی طرح اپنے ماتھے سے پسینہ پوچھتا اور لڑکیوں کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھتا رہا۔مجھے ایسا لگا جیسے وہ سب مالی نن کو گھور رہی ہیں ۔اتنے میں فوکینا نے اپنی عینک ٹھیک کرتے ہوئے میری طرف غور سے دیکھا اور فرمانے لگیں :
’’ارے یہ تو ایک بہت ہی گھٹیا قسم کی گوبھی تتلی ہے ۔اس کی پروا نہ کرو ۔ہمارے البم میں ایک گوبھی تتلی پہلے ہی سے موجود ہے ۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے پھر کتاب پڑھنی شورع کر دی ۔جان بچی سو لاکھوں پائے۔ میں خوشی سے پاگل ہو گیا ۔فوکینا کی بات سن کر لڑکیوں کو مجھ سے دل چسپی نہیں رہی ۔میں نے منہ اٹھا کر لڑکیوں کو منہ چڑایا اور دل میں کہا کہ اب میں آنکھ جھپکتے مالی نن کو اخبار سے چھپادوں گا ۔میں کاغذ کو گھسیٹ کر مالی نن کے پاس لے گیا اور اُس کو آڑ بنا کر مالی نن کے سامنے کھڑا کر نا چاہا مگر ہوا کے ایک جھونکے نے سارا کام چوپٹ کر دیا ۔کاغذاڑ کر دور چلا گیا ۔
’فوکینا!!‘‘ایک لڑکی ایسے چیخی جیسے اُسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔’’زرا اُس تتلی کو دیکھو ۔ایسی تتلی ہمارے البم میں یقیناًنہیں ہے ۔‘‘
’’لڑکیو !اِدھر توجہ دو اور جو کچھ میں پڑھ رہی ہوں اُسے غور سے سُنو ۔‘‘فوکینا نے سختی سے کہا ۔ مگر جب اُس کی نظریں مالی نن پر پڑیں تو وہ حیرت کے مارے گُم سُم رہ گئی ۔
’’یہ کیا ہے ۔میں خواب تونہیں دیکھ رہی ۔ذرا میرے چٹکی تو لینا۔ارے یہ تو’یوساری‘علاقے کی پپیلیو تتلی ہے ۔اتنے دور افتادہ علاقے میں پائی جانے والی تتلی ہمارے شہر میں ؟بڑے تعجب کی بات ہے۔ اس موضوع پر تو اخبار کے سائنس کے کالم میں ایک مضمون لکھنا چاہیے ۔‘‘یہ کہتے ہوئے فو کینا نے آہستہ سے اپنا جال اُٹھا یا‘ آگے بڑھ کر ایک ٹانگ پر ساکت کھڑی ہوگئی ۔ اور آہستہ سے بولی :
’’تم سب خاموشی سے اسے چاروں طرف سے گھیر لو ۔میں خود اسے پکڑوں گی۔‘‘
چھبّیسواں واقعہ:’’پکڑ لو۔جانے نہ پائے ۔‘‘
فوکینا نے آگے بڑھتے ہوئے آہستہ سے کہا :
’’پکڑ کر ہی رہیں گے ۔پھر اس تتلی کو تتلی مارنے والے ڈبّے میں بند کر دیں گے ۔پھر سکھا کر البم میں لگانے کے لیے چپٹا کر لیں گے ۔‘‘
خر ر۔خررر۔مالی نن بے خبر سو رہا تھا ۔اُسے خبر بھی نہ تھی کہ اس کی کلاس مانیٹر کس طرح موت بن کر اُس کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ایک منٹ ‘ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کا وقت نہیں ۔میں نے سوچا۔ اُدھر لڑکے بھی واپس آگئے تھے اور لڑکیوں کے ساتھ پورے جوش و خروش کے ساتھ مالی نن کو پکڑ نے کے منصوبے بنا رہے تھے ۔ومینکا اور جینکا سب سے پیش پیش تھے ۔ومینکا لڑکیوں کو پیچھے ہٹا کر آگے بڑھ آیا اور مالی نن کو دیکھ کر بولا:
’’جینکا !دیکھو یہ تو وہی تتلی ہے جس کا پیچھا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہم سڑک پر کر رہے تھے ۔‘‘
ومینکا او ر جینکا کو پودلگانے کے لیے دیر میں آنے پر ڈانٹنے کے بجائے فو کینا نے اُن کو خاموش رہنے کی ہدایت کی ۔لڑکیوں نے موقع پا کر لڑکوں کو پیچھے ڈھکیل دیا ۔آہستہ آہستہ مالی نن کے گرد موت کا حلقہ تنگ ہونے لگا۔
میرے لیے فوری طور پر کچھ کرنا لازم تھا ۔میں اُڑ کر فوکینا کے کان کے پاس منڈ لانے لگا ۔میں نے اُس سے التجا کی کہ وہ مالی نن کو نہ پکڑے ۔میں نے کہا:
’’فوکینا !زینا فو کینا!!ٹھہر جاؤ ۔یہ تتلی نہیں ہے ۔یہ تو ایک انسان ہے تتلی کے رو پ میں ۔جس کو تم پپیلیوتتلی سمجھ رہی ہو ‘و ہ دراصل تمہارا ساتھی ‘ تمہارا ہم جماعت مالی نن ہے ۔‘‘
مگر فوکینا نے میری کوئی فریاد نہ سُنی۔ اُس نے ہاتھ ہلا کر مجھے اپنے کان کے پاس سے بھگا دیا ۔ شاید وہ میری بات سمجھی ہی نہیں ۔
’’لڑکیو ۔۔۔۔۔۔کیا کر رہی ہو ! میں پوری طاقت سے دھاڑا ۔لیکن ایسا لگتا تھا جیسے کہ وہ سب اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں ۔ کسی نے بھی میری چیخ و فریاد پر کوئی توجّہ نہیں دی ۔مالی نن کے چاروں طرف دائرہ اور تنگ ہو تا چلا گیا میں منڈلاتارہا ۔اب اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہا تھا کہ مالی نن کو دھُن کر رکھ دیا جائے ۔پر سکیڑ کر میں نے غوطہ لگایا اور مالی نن کے پہلو پر اپنا سر پوری طاقت سے دے مارا۔ میرا سر جھنّا اُٹھا۔ مالی نن ایک طرف کولُڑھک گیا ۔پھر وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوا اور غصّے سے آنکھیں گھُما گھُما کر مجھے دیکھنے لگا۔
’’مالی نن ! بھاگو ۔اُڑجاؤ ۔اُوپر ۔بہت اُوپر ۔‘‘میں نے کہا۔
’’کیا؟کیوں ؟؟‘‘اُس نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا ۔
جواب نہ دیتے ہوئے میں نے اُس کی ٹانگ پکڑ لی اور پوری طاقت سے اوپر اُڑ گیا ۔نہ جانے مجھ میں اس وقت اتنی طاقت کہاں سے آگئی ۔میں مالی نن کو لے کر لڑکیوں کی پہنچ سے کہیں زیادہ اوپر اُڑ چکا تھا۔
’’کیا کھلنڈ را پن ہے ۔؟‘‘مالی نن نے سوئی ہوئی آواز میں کہا اور آنکھیں بند کر لیں ۔
’’کھلنڈرا پن نہیں ۔تمہارا سر ہے ۔‘‘میں نے اُس کے زور سے لات جمائی ۔
’’بارن کن !بس ایک منٹ رُک جاؤ۔میں تمہارے لیے بڑے عمدہ پھولوں کا رس لے کر آتا ہوں ۔پھر ہم دونوں جیو میٹری پڑھیں گے اورہاں اُس میشا کے بچّے کے تو پر نوچ ڈالنے چاہئیں ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میشاکون ؟‘‘
’’وہی افلاطون کا بچّہ ۔۔۔۔۔۔میشا یاکودلیف ۔بڑا آیا اتوار کے دن جیومیٹری پڑھانے ۔۔ ۔ ۔ ۔۔‘‘یکایک یہ کہتے ہوئے مالی نن نے اپنے پر ہلانے بند کر دیے۔زور کا خرّاٹا لیااور جھاڑیوں کی طرف گرنے لگا ۔
’’مالی نن !جو کچھ بھی ہو سوؤنہیں ۔‘‘کہتے ہوئے مالی نن کے ساتھ میں بھی نیچے چلا۔میرے پر پتیّوں اور ٹہنیوں میں اٹک اٹک گئے ۔مالی نن ایک ٹہنی پر زور سے گرا ۔اُس کی آّ نکھیں کھُل گئیں ۔اس ٹہنی پر چیونٹیاں آجا رہی تھیں اور ایک نازک موقع پر ہمارا راستہ کھوٹا کر رہی تھیں ۔میں نے ٹھو کر مار کر دو تین چیونٹیوں کو نیچے گرا دیا ۔
’’مالی نن !اب جلدی سے ’نکھٹو ‘ کے جون میں تبدیل ہو جاؤ ۔‘‘
’’پھر وہی ’نکھٹّو ‘رٹ لگا دی تم نے ۔کیا دیوانے ہو گئے ہو۔‘‘ مالی نن نے پہلو بدل کر اونگھتے ہوئے جواب دیا ۔
میں نے اُس کے پر زور سے کھینچے اور بولا ۔’’ہاں میں کہہ رہا ہوں کہ نکھٹّو بن جاؤ۔
’’بھلا آدمی شہد کے چھتّے میں رہنے والا نکھّٹو کیسے بن سکتا ہے؟‘‘پاگل تو نہیں ہو گئے تم بارن کن ؟۔۔۔۔۔۔’’مجھے نیند آرہی ہے ۔مجھے سونے دو ‘‘یہ کہتے ہوئے مالی نن نے دوسری طرف کروٹ لی۔
لڑکیاں ابھی تک باغ میں موجود تھیں ۔۔۔۔۔۔اگر اُنہوں نے مالی نن کو جھاڑیوں میں دیکھ لیا تو ۔۔۔۔۔۔اس خیال سے میں ایک بار پھر کانپ گیا۔
’’تم’’ نکھٹو ‘‘بنتے ہو یا نہیں ؟؟آخری بار پوچھ رہا ہوں ۔‘‘میں نے اُسے سیدھا کرنے کے بعد پوچھا۔
’’اچھّااچھّا ۔تمہاری خاطر یہ بھی منظور ہے۔مگر پہلے سُو لُوں ۔‘‘مالی نن بڑا بڑایا۔
’’نہیں پہلے نکھٹّو بن جاؤ۔ پھر سو نا۔میں نے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔‘‘اچھّا میرے ساتھ منتر کے بو ل دہراؤ۔
نہ دن میں نہ شب کو
میں تتلی رہوں گا
نِکھٹّو ۔۔۔۔۔۔۔مگس نر
میں البت بنوں گا
’’یہ رہا ۔‘‘زینا فو کینا مالی نن کو دیکھ کر چیخی ۔‘‘میں جانتی تھی کہ اُڑ کر دور نہیں جا سکے گا ۔آؤ لڑکیو۔ اس جھا ڑی کو گھیر لو ۔‘‘
مالی نن پھر سو چکا تھا ۔اب ہمارا بس خاتمہ تھا۔میں زندگی سے نا اُمید ہو گیا ۔میرے پر جھُک گئے ۔ جو چیونٹیاں میرے پیروں پر رینگ رہی تھیں ‘اُ ن کو ہٹانے کو بھی میرا دل نہ چاہا ۔اُسی لمحے مجھے مالی نن کے ہنسنے کی آواز سُنائی دی ۔میں سمجھا کہ ان تمام مصیبتوں کی وجہ سے شاید اس کا دماغ چل گیا ہے ۔مگر یہ بات نہیں تھی ۔وہ چیونٹیاں اُس کے پیٹ پر رینگ رہی تھیں ۔میں یہ بھول گیا کہ مالی کو گُد گُدی بہت لگتی ہے ۔وہ دنیا میں سب سے زیادہ کسی چیز سے گھبراتا ہے تو گُد گُدی سے ۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں جب وہ دیر تک پڑا سوتا رہتا تھا تو اُسے گُدا گُدا کر ہی جگایا جاتاتھا۔یہ خیال آتے ہی میں نے اپنی چاروں ٹانگوں سے اس کی بغل میں گُد گُدی کر نا شروع کر دی ۔مالی نن کی ہلکی ہلکی ہنسی ایک دم قہقہوں میں بدل گئی ۔وہ اُٹھ بیٹھا ۔اُس کی آنکھیں تارا سی کھل گئیں ۔
ہنستے ہنستے اُس کے پیٹ میں بل پڑے جا رہے تھے ۔وہ پیٹ پکڑے برابر قہقہے لگائے جا رہا تھا۔ اُسے دیکھ کر مجھے بھی ہنسی آگئی ۔میں بہت خوش تھا ۔خاص طور پر اس خیال سے کہ مالی نن اپنی اس خطر ناک نیند سے جاگ چکا تھا۔اس خوشی میں تھوڑی دیر کے لیے میں یہ بھی بھول گیا کہ مالی نن کی زندگی خطرے میں ہے۔میں اُسے آہستہ آہستہ گُدگُداتارہا تاکہ وہ پھر نہ سو سکے۔
’’ہاہاہا۔بس کرو ۔ہاہاہاہا۔‘‘مالی نن نے مجھے اور چیونٹیوں کو ہٹاتے ہوئے کہا۔
اتنے میں میری نظر لڑکیوں پر پڑگئی ۔وہ سب جھاڑی کے چاروں طرف بہت قریب آگئی تھیں ۔ خطرے کو اتنے قریب دیکھ کر میں چلّایا:
’’مالی نن !فوراًایک دم شہد کی نر مکھّی ۔۔۔۔۔۔نکھٹو ‘میں تبدیل ہو جاؤ۔‘‘
’’شہد کی مکھّی ۔نکھٹّو۔۔۔۔۔۔وہ کیوں ؟‘‘مالی نن نے انگڑائی لے کر پو چھا ۔
’’اس لیے کہ وہ لڑکی زینا فو کینا اور’ فطرت کے پرستار ‘اس کے ساتھی تمہیں پکڑ کے ، مار کے، سُکھا کے چپٹا کرنے کے لیے آن پہنچی ہیں ۔‘‘
’’مجھے مار کر سُکھانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟‘‘
’’تتلیوں کی البم میں لگانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔اور کیوں؟‘‘
البم کا نام سُنتے ہی مالی نن کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں ۔اب اُسے خطرے کا پورا پورا احساس ہو گیا ۔کیوں کہ وہ خود بھی فطرت کے پرستار وں کی اس انجمن کا ایک ممبر تھا ۔اور اپنی البم مکمّل کر چکا تھا۔
’’تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ جگا دیا ۔‘‘مالی نن نے شکایتی لہجے میں کہا۔
’’میں تو بہت دیر سے تم کو جگا رہا تھا ۔تم اُٹھ ہی نہیں رہے تھے ۔خداکا شکر ادا کرو کہ تمہارے اُٹھانے کی ترکیب ان چیونٹیوں نے مجھے بتا دی ۔ورنہ آپ ابھی تک خرّاٹے لیتے ہوتے ۔خیر جو ہوا سو ہوا ۔اب جلدی سے میرے ساتھ منتر دہراؤ ۔‘‘میں نے کہا۔
میں نے اُس کے کان میں منتر پھونکا۔مگر اُس کا دماغ کہیں او ر تھا۔لفظ ’البم‘نے اُس کے حواس گُم کر دیے تھے ۔
’’مالی نن !جلدی سے کہو۔۔۔۔۔۔۔نکھٹّو ،مگس نر،میں البت بنوں گا ۔‘‘میں نے اُس کے کان میں زور سے کہا ۔
پہلے تو وہ چپ رہا ۔پھر ایک دم چلّاچلّا کر کہنے لگا :
’’ممّی !او ممّی !!
نہ چڑیا بنوں گا ‘نہ تتلی بنوں گا
اگر ہو سکا تو میں ‘چیونٹی بنوں گا‘‘
اس وقت مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں اور مالی نن دو الگ الگ کیڑوں میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔اور اب ہمارے راستے بھی الگ الگ ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔میں نکھٹّو بننا چاہتا تھااور مالی نن چیونٹی ۔۔۔۔۔۔وہ شاید پاگل ہو گیا ہے۔میں نے سوچا ۔چیونٹی بننے کی بھلا کیا تُک ہے ؟مگر ا س وقت غالباً اس کی سمجھ میں یہی آیا ہو کہ مُردہ تتلی کی بجائے محنت کش چیونٹی بننا زیادہ اچھّا ہے ۔
اب آپ ہی بتائیے کہ مالی نن کو چیونٹی کی دنیا میں اکیلا چھوڑ کر میں خود عیش پسند اور آرام طلب بننا کیسے گوارا کر لیتا ۔
عین اس موقع پر گھوڑے کے ٹاپوں کی طرح جھاڑی کے پیچھے لڑکیوں کے قدموں کی آواز سُنائی دی ۔ڈالیاں چرچرائیں اور تتلی پکڑنے کے رنگ برنگے جال ہوا میں لہرانے لگے۔چند لڑکیوں نے قریب کے پیڑ پر چڑھ کر ہماری آخری جاءِ پناہ بھی قبضے میں کر لی ۔اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا کہ مالی نن کے ساتھ میں بھی چیونٹی بننے کا منتر دُہراؤں ۔ہم دونوں جلدی جلدی کہنے لگے :
نہ چڑیا بنیں گے ‘ نہ تتلی بنیں گے
اگر ہو سکا تو ہم چیونٹی بنیں گیں
مگر مالی نن!ہم یہ کیا کر رہے ہیں ۔ہم چیونٹی میں کیوں تبدیل ہو رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔مالی نن ! آخر کیوں ؟ یہ آخری خیال تھا جو مجھ جیسی تھکی ‘ہاری گو بھی تتلی کے دماغ میں آیا تھا۔
چوتھا حصہ
ستائیسواں واقعہ:بال بال بچ گئے۔
’’زینا اگر گوبھی تتلی پھنس جائے تو ہم کیا کریں ؟‘‘ایک لڑکی نے آہستہ سے زینا سے دریافت کیا۔
’’اسے بھی مار کر ،سُکھا کر چپٹا کیا جائے گا ۔پپیلیو کو سُکھا کر نمائش کے لیے البم میں لگائیں گے اور اس گوبھی تتلی کے ذریعہ میں تم کو سکھاؤں گی کہ تتلیوں کو سکھا کر چپٹا کس طرح کر نا چاہیے ۔‘‘زینا نے جواب دیا۔
جھاڑی کے پیچھے سے بوتلوں اور ڈبّوں کے ٹکرانے کی آوازیں آرہی تھیں ۔یہ بوتلیں اور ڈبّے ہمارے پکڑے جانے کے بعد استعمال میں لائے جانے والی چیزیں تھیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ہوش اڑا دینے والے سوال و جواب بھی ہم دونوں کے بارے میں ہو رہے تھے ۔مثلاً
’’اور زینا !اگر پپیلیو میرے جال میں آجا ئے تو کیا اُس کے پر پکڑ کر جالی سے باہر نکالوں ؟‘‘
’’ہر گز نہیں ۔پروں کو بالکل مت چھونا ۔نینا !کیا ڈبّا تیّار ہے ؟آل پن ؟؟‘‘
’’ہاں سب چیزیں تیّار ہیں ۔‘‘
’’لاؤاِدھر ۔‘‘
’’اوئی ۔مجھے تو ڈر لگتا ہےَ ۔‘‘
’’کا تیا !تم ڈبّا اور پِن اپنے ہاتھ میں لے لو ۔باقی سب تیّار رہو۔‘‘زینا نے ہدایت کی ۔
ڈبّا کھو لا گیا ۔تمبا کو کی بُو ہوا میں پھیل گئی ۔ایک لڑکی کو زور دار چھینک آئی ۔دوسری کے ہاتھ میں کانٹا چُبھ گیا ۔اُس نے زور کی سسکی بھری ۔باقی لڑکیوں نے اُس کی اس حماقت پر اُسے گھور کر دیکھا ۔پھر آہستہ آہستہ جھاڑی کی کچھ ٹہنیاں ہٹیں اور کچھ لڑکیوں کے چہرے نظر آئے ۔
’’کہاں ہیں ؟‘‘
’’وہ رہیں ۔‘‘
’’کہاں ۔مجھے تو نظر نہیں آرہے ۔۔۔نچلی شاخ پر ؟‘‘
’’نہیں اُوپر والی پر ۔‘‘
’’وہاں ۔۔۔۔۔۔اُوپر ۔‘‘
’’نہیں زرا نیچے کو ۔‘‘اِدھر بائیں طرف ۔اور نیچے ۔وہ سوکھی پتی نہیں دکھائی دیتی تم کو ۔۔۔اُس کے پا س۔سیدھی طرف ۔‘‘
’’ارے ہاں ۔۔۔سچ تو ہے !‘‘
چُپ ۔‘‘
ڈالیاں سُرسُرائیں اور زینا فو کینا کا مکڑی کے جالوں اور خراشوں سے بھر پور ’گول مٹول ‘لال چہرہ جھاڑ ی میں سے نمو دار ہوا۔اُس نے دیوانوں کی طرح چاروں طرف نظریں دوڑائیں ۔
’’کہیں بھی نہیں ۔یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے !‘‘زینا نے مری ہوئی آواز میں کہا۔
زینا اگر غور سے اس شاخ کو دیکھتی جہا ں ابھی تھوڑی دیر پہلے دو تتلیاں بیٹھی ہوئی تھیں تو اُس کو تتلیوں کی بجائے دو چیونٹیاں نظر آئیں ۔لیکن اس وقت اُس کے تصوّر میں چیونٹیوں کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔ اُس نے ان چیونٹیوں کا خیال تک نہ کیا۔اُس نے گہری آہ بھر کر کہا:۔۔۔۔۔۔اُڑ گئیں ۔نہ جانے کہاں غائب ہو گئیں ؟‘‘
مالی نن نے اپنی مونچھوں پر تاؤدیا اور اپنے ساتھی چیونٹے (یعنی اس خاکسار بارن کن ) کی کمر پر اپنا ہاتھ مارا۔زینا پیچھے ہٹی ۔ڈالیاں ایک بار پھر سر سرائیں اورمیں اور مالی نن شاخ پر جھولتے رہ گئے ۔
’’ہُرّے ۔۔۔۔۔۔دشمن غائب ۔۔۔۔۔۔‘‘مالی نن خوش ہو کر چلّایا ۔وہ بے حد خوش تھا ۔خوشی کی بات بھی تھی ۔آخر قبر میں لات مار کر واپس آئے تھے نا! مگر میں اپنی اس نئی کایا پلٹ سے کچھ زیادہ خوش نہ تھا۔
’’مالی نن !یہ تم نے کیا کر دیا ؟‘‘میں نے افسردگی سے کہا۔
’’کیو ں؟میں نے کیا کیا ؟یہی نا کہ میں سو گیا تھا ۔مگر اس میں میرا کیا قصور !قدرت کا قانون ہی ایسا ہے ۔‘‘
’’نہیں میں قدرت کے قانون کی بات نہیں کر رہا ہوں ۔میں پوچھتا ہوں کہ تم نکھٹّو کے بجائے چیونٹی کیوں بن گئے ؟‘‘
’’مردہ تتلیوں کے البم میں شامل ہو نے کے مقابلے میں یہی بہتر تھا کہ کسی بھی جانور کا جون لے لیا جائے ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا ۔
مالی نن ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔
’’نکھٹّو بھی ایک طرح چیونٹی ہی کی طرح کی مخلوق ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ نکھٹّو کے پر ہوتے ہیں ۔اور اب ہمیں پروں کی ضرورت نہیں ۔چڑیا اور تتلی کے جون میں ہم کا فی اُڑ چکے ۔بہتر یہ ہے کہ اب ہم دنیا کی ہر چیز سے منہ موڑ کر ‘ بے فکر ہو کر چیونٹیوں کے بل میں چھپ جائیں اور مزے سے آرام کریں ۔وہاں کم از کم ان فطرت کے پرستار وں کے ہاتھوں،چڑیوں اور بلیّوں سے تو محفوظ رہ سکیں گے ۔‘‘مالی نن فلسفیوں کے انداز میں کہا ۔
مالی نن کی اس کٹ ہجّتی پر مجھے تاؤ آگیا ۔’’بڑا آرام ملے گا آپ کو وہاں ! آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ میں دنیا میں سب سے زیادہ محنتی اور کام کرنے والی مخلوق چیونٹی ہے ۔۔۔۔۔۔اور وہ ۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے اُس کا جبلّت ،کام کرنے کی فطری عادت سے مجبور ہو کر برابر کام میں لگی رہتی ہیں ۔‘‘میں نے غصّے سے کہا۔
’’ہاں میں جانتا ہوں کہ چیونٹیاں بڑی محنتی ہوتی ہیں ۔مگر آ ج تو اتوار ہے ۔۔۔۔۔۔مکمّل چھٹی منانے اور آرام کرنے کا دن ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا ۔
’’اتوار سے ان چیونٹیوں کو کیا مطلب !‘‘ میں نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ اتوار کو چیونٹیاں بھی چھٹی مناتی ہیں ۔‘‘
’’تو آپ کا مطلب یہ ہے کہ اتوار کو چیونٹیاں اپنی جبلّت کے زیرِ اثر نہیں رہتیں ۔‘‘میں نے پوچھا۔
’’ایک بات بتاؤں ۔‘‘مالی نن نے یقین کے ساتھ کہا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میرا خیال ہے کہ جبلّت کا کوئی وجود ہی نہیں ۔یہ صرف ایک وہم ہے ۔‘‘
’’جبلّت صرف ایک وہم ہے ۔مگر اسکول میں تو ہمیں پڑھایا گیا ہے کہ جبلّت موجود ہے ۔‘‘میں نے تعجب سے پو چھا ۔
’’صرف بکواس ہے ۔یہ اُستانیوں کی ایجاد ہے تا کہ ہم سے بے سر پیر کے سوالات کر سکیں ۔‘‘
میں نے مالی نن کی بات مان لی ۔واقعی چیونٹیوں میں جبلّت ۔۔۔۔۔۔کام میں لگے رہنے کی فطری عادت جیسی کوئی چیز نہیں ۔وہ بھی ہفتے میں ایک دن ضرور آرام کرتی ہوں گی ۔۔۔اور اگر ایسا ہے تو پھر نکھٹّو کے بجائے چیونٹی بن جانا کوئی بری بات نہیں ۔اسکول میں ڈاکٹر نے ہمیں بتایا تھا کہ چھ دن کام کرنے کے بعد ایک دن آرام کرنا بہت ضرور ی ہے ۔بالفرض اگر چیونٹیاں چھ دن ان تھک کام کرتی ہیں تو ساتویں دن آرام بھی ضرور کرتی ہوں گی ۔مجھے یقین آگیا ۔
میں نے شاخ سے کود کر زمین پر آتے ہوئے کہا:’’مالی نن !چلو چیونٹیوں کے کسی بل میں چلیں ۔وہاں ہم دونوں الگ الگ ایک ایک کمرہ لے لیں اور جی بھر کر لوٹ لگائیں ‘آرام کریں اور سوئیں ؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ چیونٹیوں کے کمروں میں دروازے نہیں ہوتے ۔‘‘مالی نن نے کہا ۔
’’کوئی پروا نہیں ۔ہم اپنی حفاظت کا کوئی نہ کوئی انتظام کر ہی لیں گے ۔‘‘میں خوشی سے چکّر کاٹنے لگااور پاس ہی پڑے ہوئے ایک گول بیج کے دانے پر فٹ بال کی طرح کِک لگائی ۔مالی نن نے اُسے اپنے پیروں سے پکڑ لیا اور اُچھا ل کر میری طرف پھینکا۔
اس وقت میں نے مالی نن کو غور سے دیکھا ۔ا س کا جسم ایسا چمکیلا تھا جیسے کالی پالش کرکے خوب چمکایا گیاہو۔لڑکیوں جیسی بالکل پتلی اور نازک ٹانگیں ۔’’بھئی واہ ۔۔۔۔۔۔بہت خوب ۔یہ چھ ٹانگیں فٹ بال کھیلنے کے لیے بہت اچھی رہیں گی۔گول کیپر کے تو مزے رہیں گے ۔وہ دو ٹانگوں پر کھڑا ہو کر باقی چار ٹانگوں سے گیند پکڑ سکے گا ۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی یہ خیال میرے دماغ میں آیا ،میں نے اُچک کر اپنی اگلی چار ٹانگوں سے گیند کیچ کر لیااور مارے خوشی کے زمین پر لوٹ گیا ۔مالی نن نے بھی خوشی کا نعرہ لگایااور میرے اوپر لوٹ لگائی ۔
اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ چھ چیونٹے گھاس کے جنگل سے نکل کر ہماری طرف آ رہے ہیں ۔میں خوشی سے اُچھل پڑا ۔
’’ہیلو‘‘۔۔۔۔۔۔۔میں نے چاروں ٹانگیں اُٹھا کر اُن کو خوش آمدید کہا اور گیند پر کِک لگاتے ہوئے پوچھا :’’میچ کھیلوگے ؟چھ تم ہو اور دو ہم ۔چار چار کی ٹیمیں بنا لیں ۔میں سینٹر فار ورڈر ہوں گا ۔‘‘
سچ مچ کے چیونٹوں نے مجھے بڑے تعجب سے دیکھا ۔ایک دوسرے کی مونچھیں چھوئیں ۔آپس میں سر گوشی کی اور پیچھے ہٹ کر گھاس میں غائب ہو گئے ۔ہم اُن کے پیچھے دوڑے ۔مگر اُن کاکہیں پتا نہ تھا ۔قریب ہی ایک پگڈنڈی پر چیونٹوں کی بڑی گہما گہمی تھی ۔چھوٹے چیونٹے مٹّی کے ذرّے،تنکے ، پتیاں اٹھائے لیے جا رہے تھے ۔چوڑے کندھوں ، بڑے سروں اور مضبوط جبڑوں والے چیونٹے مرے ہوئے کنکھجور وں، تتلیوں اور بھنو ر وں کو کھینچے لیے جا رہے تھے۔
’’یہ کیا چکّر ہے مالی نن ! مجھے تو لگ رہا ہے جیسے یہ سب کام میں لگے ہوئے ہیں ۔‘‘میں نے پوچھا۔
’’سچ؟۔۔۔۔۔۔نہیں بارن کن !آج کے دن کیا کام کریں گے ۔میرے خیال میں تو یہ سیرو تفریح کی غرض سے گھوم رہے ہیں ۔اور کیا آج اتوار جو ہے ۔‘‘
’’مگر پھر اتنا بوجھ کیوں اُٹھائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔چھٹی کے دن ؟؟؟‘‘میں نے پوچھا۔
مالی نن نے میری بات کا جواب نہ دیا ۔
’’میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تفریح نہیں ،کام کر رہے ہیں ۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو بارن کن !اتوار کے دن بھلا کام کرنے کی کیا تُک ؟‘‘مالی نن نے جواب یا ۔
’’ان کے کندھوں پر جو سامان لدا ہوا ہے یا جو چیزیں وہ گھسیٹ رہے ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘میں نے دریافت کیا۔
یہ توان کے یہاں کی رسم ہے ۔یہ جب چہل قدمی کے لیے نکلتے ہیں ۔تو کوئی نہ کوئی بوجھ اٹھا لیتے ہیں ۔‘‘مالی نن نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
عجیب رسم ہے ۔میں نے سوچا۔میں نے آنکھیں مل کر چیونٹیوں کے ہجوم کو غور سے دیکھا ۔میرا دل ڈوبنے لگا۔
’’کیوں مالی نن !اگر چیونٹیوں کے بل کے اندر جانے کے بجائے ہم دونوں کسی اور طرف گھوم آئیں تو کیسا رہے ۔؟‘‘
’’ہاں ۔ہاں ۔چلو۔‘‘مالی نن فوراً راضی ہو گیا ۔
لیکن اسی وقت ایک عجیب بات ہوئی ۔پیچھے لوٹنے کے بجائے ہم دونوں خود بخود سامنے کی طرف یعنی چیونٹیوں کے بل کی طرف چل پڑے ۔کوئی انوکھی طاقت ہماری مرضی کے خلاف ہمیں چیونٹیوں کی طرف کھینچے لیے جا رہی تھی۔
اٹھائیسواں واقعہ:ہم بھی کام میں لگ گئے
جیسے جیسے ہم بل کے قریب ہوتے گئے ہمارا خیال غلط ہونے لگا۔ان میں سے کوئی بھی تفریح یا چہل قدمی نہیں کر رہا تھا ۔ایک ایک چیونٹی اور چیونٹا کسی نہ کسی کام میں لگا ہوا تھا۔سب کے سب محنت کر رہے تھے اور بری طرح ہانپ رہے تھے ۔چیونٹیوں کا ایک گروہ ایک بڑے سے مُردہ پتنگے کو گھسیٹ کر لا رہا تھا۔سب کے سب لڑکیوں کی طرح ہنگا مہ مچا رہے تھے ۔ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے ۔ہر ایک چاہتا تھا کہ سب سے زیادہ زور میں ہی لگاؤں ۔ا س کھینچا تانی میں اکثر الگ الگ سمتوں میں پتنگے کو گھسیٹنا شروع کر دیتی تھیں ۔مگر نہ معلوم کس طرح پتنگا بل ہی کی طرف گھسٹتا چلا جا رہا تھا ۔ان چیونٹیوں میں سے نہ کوئی کام چور تھااور نہ کاہل۔ایک چیونٹی بھی ایسی نظر نہ آئی جو گپ بازی کر رہی ہو یا دھوپ سینکنے میں وقت برباد کرتی ہو۔خاص بات یہ تھی کہ کوئی حکم یا ہدایت دینے والا بھی نہ تھا۔حد یہ ہے کہ ہماری زینا فوکینا کی طرح ان کا کوئی مانیٹر تک موجود نہ تھا۔
’’یہ تو کام کر رہی ہیں مالی نن !!‘‘میں نے پریشانی کا اظہار کیا۔
’’کرنے دو ۔۔۔جاہل ہیں سب کی سب ۔ان پڑھ ۔ان کو اتنا تک تو معلوم نہیں کہ آج اتوار ہے اور اتوار کو کام کرنا بُری بات ہوتی ہے ۔مگر ہم تم تو پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہیں ۔۔۔ہم آج کام نہیں کر سکتے ۔‘‘مالی نن نے مستقل مزاجی سے جواب دیا۔
’’اس کا مقصد یہ ہوا کہ ’جبلّت ‘نام کی کوئی چیز ہے ضرور ۔اور اگر ایک بار جبلّت کاکہنا مان لیا جائے تو پھر اس کاحکم ماننا ہی پڑتا ہے۔‘‘میں نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ہوتی ہے تو ہوا کرے ۔ہم کسی جبلّت و بلّت کا کہنا نہیں مانتے ۔‘‘مالی نن نے ضدّی پن سے جواب دیا ۔
اب تک میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ اوّل تو جبلّت جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کی پابندی کرنا ضروری نہیں ۔لیکن مجھے بڑی حیر ت ہوئی یہ دیکھ کر کہ بل کے ڈھیر کے قریب پہنچتے ہی میرا دل چاہنے لگا کہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان جاہل چیونٹیوں کے ساتھ میں بھی کام میں جُٹ جاؤں ۔اپنی پوری کوشش کے باوجود میں اس خواہش کو نہ دبا سکا ۔مجھے ایسا لگنے لگا کہ اگر ابھی اور اسی وقت میں نے کوئی نہ کوئی بوجھ نہ اٹھا لیا تو میں بے مو ت مر جاؤں گا۔چناں چہ ایک خشک ٹہنی اٹھا کر میں بل کی طرف چل پڑا ۔میرے دماغ سے ایک بوجھ سا اتر گیااور بھاری ٹہنی لدی ہونے کے باوجود میں خود کوہلکا محسوس کرنے لگا ۔میں نے ایک عجیب طرح کی خوشی سی محسوس کی ۔
مجھے ٹہنی اٹھاتے دیکھ کر پہلے تو مالی نن نے مجھے ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے میں پاگل ہو گیا ہوں مگر دوسرے ہی لمحے اُس نے بڑھ کر ٹہنی کا دوسرا سِرا اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور پورے جوش و خروش کے ساتھ میری مدد میں لگ گیا ۔ٹہنی خاصی بھاری تھی۔کبھی وہ گھاس میں اٹک جاتی‘کبھی کنکروں سے ٹکراتی۔کبھی ہمارے کندھوں پر سے لڑھک کرگر جاتی ۔ٍلیکن ہانپتے کانپتے کسی نہ کسی طرح ہم نے اُسے بل کے دروازے تک پہنچا ہی دیا۔دروازے پر دو مضبوط چیونٹوں نے بغیر کچھ کہے سُنے وہ ٹہنی ہم سے لے لی اور اُسے اندر لے گئے ۔ہم دونوں اُلٹے پیروں تیزی سے واپس لوٹے تا کہ جا کر کچھ اور سامان لائیں ۔
چنا ں چہ اس طرح میں اور مالی نن’ سیرو تفریح ‘کرنے والی چیونٹیوں کی ’چہل قدمی‘میں شامل ہو گئے اور ان ہی کی طرح دنیا بھر کی الا بلا ڈھونے میں مصروف ہو گئے ۔لگاتار کام کرتے رہے بات کرنے کے لیے بھی نہ رُکے ۔
سچّی بات تو یہ ہے کہ یہ جبلّی محنت مشقت خاصی غیر دل چسپ تھی۔بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک طرح کی حماقت تھی ۔سارے وقت ذہن میں بس یہی گونج رہا تھا کہ ’’چلے چلو۔۔۔۔۔۔۔بڑھے چلو بارن کن !بوجھ اُٹھاؤبارن کن !ہاں ہاں بھائی بارن کن ۔۔۔۔۔۔زور سے کھینچو بار ن کن ۔۔۔!زور لگاؤبارن !‘‘مگر آخر کیوں اور کس لیے ؟کچھ پتا نہ تھا۔کسی نہ معلوم طاقت نے میرے سوچنے کی صلاحیت سلب کر کے مجھے اچھا خاصا چغد بنا کر رکھ دیا تھا۔اور اتنی سخت محنت جاہل مزدوروں کی طرح بغیر سوچے سمجھے کیے چلا جا رہا تھا۔اس پورے وقت میں صرف ایک بار عقل کی ایک ہلکی سی روشنی جھلکی ۔جب میرے کندھے بوجھ ڈھوتے ڈھوتے دُکھنے لگے تو میں نے ایک طرح کا ٹھیلہ سا بنا لیامگر چلے چلو بارن کن !۔۔۔۔۔۔ زور لگاؤ بارن کن !بوجھ اُٹھاؤ بارن کن ۔‘‘جیسے فقرے میرے دماغ پر برابر چھائے رہے ۔
روشنی کی دوسری کرن اس وقت جھلکی جب مجھے خیال آیا کہ مالی نن سے پوچھا جائے کہ اس بے سوچی سمجھی مشقت کا یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا ۔بڑی مشکل سے ایک کتاب میں پڑھاہوا یہ جملہ یاد آیا۔چیونٹیاں صبح ہوتے ہی کا م میں لگ جاتی ہیں اور دن چھپنے تک برابر کام میں لگی رہتی ہیں ۔یہ سوچتے ہی میری روح فنا ہو گئی ۔
ہم دونوں بھی شاید سورج ڈوبنے تک کام میں لگے رہتے مگر ایک اور واقعہ پیش آ گیا۔شاید ہم تےئیسویں بار اپنا ٹھیلہ لے کر بل کے دروازے پر پہنچے کہ اُسی وقت ومینکا ہمارے بل کے پاس سے گزرا ۔اُس نے اپنی کدال سے بل کو ایک دو بار کرید ااور سیٹی بجاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
اس کی تو یہ معمولی حرکت تھی مگر ہماری دنیا ۔۔۔۔۔۔میں ایک بھونچال سا آگیا ۔سارے کے سارے چیونٹے اور چیونٹیاں بل کے دروازے پر اکٹھا ہو گئیں اور دس گنے جوش کے ساتھ بل کی مرمّت میں جٹ گئیں ۔ایک دفعہ تو میرا جی چاہا کہ مالی نن کا ہاتھ پکڑ کر یہاں سے بھاگ کھڑا ہوں مگر ومینکا کی اس ناشائستہ حرکت نے ہمارے کام اور محنت کرنے کے جذبے کو دس گُنا کر دیا تھا۔’’چلو چلو آگے بڑھو ۔زور لگاؤ ۔بوجھ اُٹھاؤ ۔‘‘کی گردان میرے دماغ میں دس گنی زیادتی سے گونجنے لگی تھی ۔حالاں کہ اس مالی نن کے بچّے پر جس نے مجھے اس مصیبت میں لا پھنسا یا تھا بے حد غّصہ آرہا تھا ۔جی چاہ رہا تھا کہ ا س کی جی بھر کر ٹھکائی کروں ۔مگر ٹھکائی تو الگ رہی میں اُس سے کچھ کہہ تک نہ سکا ۔آخر وہ بھی تو میری ہی طرح کام میں جُٹا ہوا تھا ۔اس کے دماغ میں بھی یہی فقرے جھنجھنا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔’’چلو چلو ۔مالی نن ۔۔۔۔۔۔آگے بڑھو مالی نن ۔۔۔۔۔۔بوجھ اٹھاؤمالی نن ۔۔۔۔۔۔‘‘
اُنیتسواں واقعہ:اپنی قسم کا انو کھا واقعہ
اب میں اچھی طرح سمجھ گیا کہ وہ سہانی زندگی جس کے سپنے میں نے اپنے صحن کی بنچ پر بیٹھ کر دیکھے تھے ‘کہیں بھی موجود نہیں ۔نہ زمین پر،نہ زمین کے اوپر اور نہ زمین کے نیچے ۔پرندے ،تتلیاں ، چیونٹیاں سب کی حالت یکساں تھی۔شہد کے نر مکھّے کے نکھٹّو کا بھی یقینایہی حال ہو گا ۔ان کے جون میں بھی ہمیں کام سے بچنے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشنے کی محنت کرنی پڑتی ۔بہر حال وہ سُہانی زندگی ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔پھر ایسے خوا ب کیا دیکھنا !ایسی صورت میں چیونٹیوں کے جون میں رہ کر ہم اپنا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں ؟اگر ہمیں یہاں اس حال میں رہنا نہیں ہے تو بل کی مرمّت کے لیے کیوں8 خون پسینہ ایک کیے دے رہے ہیں ؟میں نے مالی نن سے پوچھنا چاہا۔وہ بے چارہ خود اسی اُلجھن میں تھا مگر ایک سچ مچ چیونٹے کی طرح بغیر سوچے سمجھے کام میں مصروف تھا۔
’’اب چھٹی کرنی چاہیے ۔ورنہ یہ کم بخت ’’جبلّت ‘‘ہمیں ادھ موا کر کے چھوڑے گی ۔یہ چیونٹیاں کام کرتی ہیں تو کیا کریں ۔ہم ایسی جبلّت پر لاحول بھیجتے ہیں ۔میں اور مالی نن ثابت کر دیں گے کہ آنکھ بند کر کے ہم اِس کی غلامی نہیں کر سکتے ۔‘‘
چناں چہ میں نے دل میں کہنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔
’’سوچو بارن کن سوچو۔جبلّت کا مقابلہ کرو۔اس کا اندھا دھند حکم مت مانو ۔‘‘
اس طرح جبلّت کے خلاف بغاوت کی اسکیم میرے ذہن میں پیدا ہوئی ۔میں یکا یک ٹھٹک گیا۔ کمر سیدھی کی اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر مالی نن کو زور سے آواز دی ۔
’’مالی نن !پھینک دو یہ کوڑا ۔اُتار پھینکو یہ بوجھ ۔کافی ہو لیا بس۔‘‘
’’کافی ؟۔۔۔۔۔۔کیا کافی ہو لیا؟‘‘مالی نن نے بے تعلقی سے پوچھا۔
’’ہم بغاوت کریں گے ۔جبلّت کے خلاف بغاوت ۔‘‘
’’بغاوت کس چڑیا کا نام ہے ۔؟‘‘
’’حد ہو گئی ۔تم اتنا بھی نہیں جانتے !!‘‘میں نے اُسے بغاوت اور سازش کے معنی سمجھائے ۔
’’لیکن یہ سازش ہے کیا ؟کیسی ہو گی یہ سازش اور بغاوت ؟‘‘
’’بے حد خطر نا ک۔۔۔۔۔۔ہلاکت خیز سازش۔‘‘
’’ہلاکت خیز سے کیا مطلب ہے تمہارا۔‘‘
’’یعنی ہم اپنی جان دے دیں گے مگر جبلّت کاحکم نہ مانیں گے ۔‘‘
’’حکم کے کیا معنی؟‘‘
’’جبلّت ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم بلا سمجھے بوجھے بوجھ اُٹھائیں ۔بے چوں و چرا ں کام کرتے ہیں ۔‘‘
’’ہاں ‘ہاں وہ تو میں سمجھتا ہوں ۔‘‘
’’مگر اب ہم دونوں یہ حکم نہ مانیں گے ۔‘‘میں نے کہا۔
’’حکم نہیں مانیں گے ۔یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’ایسے ۔‘‘اور میں نے اپنے کندھوں پر لدا ہوا بوجھ اُتار پھینکا۔مالی نن نے پہلے تو مجھے اس طرح دیکھا جیسے میرا دماغ خراب ہو گیا ہو یا میں کوئی پرلے درجے کا احمق ہوں ۔پھر ایسا معلوم ہوا ‘جیسے وہ کسی دماغی الجھن میں مبتلا ہو گیا۔لیکن ذرا ہی دیر بعد اُس نے بھی اپنی پیٹھ پر لدی ہوئی سوکھی پتّی اُتار پھینکی اور ہم دونوں اپنے بوجھ سے آزاد ہوتے ہی وہا ں سے بھاگ نکلے۔
جبلّت ہمیں مجبور کر رہی تھی کہ ہم راستے پر پڑی ہوئی ٹہنیاں اور پتّے اُٹھائیں اور چیونٹیوں کے بل کی طرف لے جائیں لیکن ہم دونوں نے جبلّت کے حکم کے خلاف بغاوت جاری رکھی ۔ہم آگے بڑھتے رہے ۔اتنے میں مالی نن اس طرح چکّر کاٹنے لگا جیسے کتّا اپنی دم پکڑنے کے لیے گول گول چکّر لگانے لگتا ہے ۔
’’کیا ہوا؟خیریت تو ہے مالی نن!‘‘میں نے دریافت کیا۔
’’میرا دل چاہ رہا ہے کہ واپس جا کر پھر کام پر لگ جاؤں ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’ہر گز نہیں ۔۔۔۔۔۔گلا گھونٹ دو اس خواہش کا۔‘‘میں نے سختی سے کہا۔
’’ٹھیک ہے ۔میں دل کا کہنا ہر گز نہیں مانوں گا۔‘‘
’’شاباش ۔‘‘میں نے مالی نن کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
بے چارا مالی نن مجھ سے اس طرح چپٹ گیا۔جیسے اُسے کوئی طاقت ور چیز اپنی طرف گھسیٹ رہی ہو اور وہ اُس سے بھا گنا چاہتا ہو۔میں نے قریب پڑی ہوئی ایک بڑی سی پتّی اٹھائی اور ایک کمبل کی طرح اُس کو اوڑھ لیا تا کہ ہم دونوں کوکوئی دیکھ نہ سکے ۔
’’مالی نن !توجہ دو اور جو منتر میں پڑھوں اس کو دُہراتے جاؤ۔‘‘میں نے اُس کے کان میں کہا ۔
نہ دن میں ‘ نہ شب میں ‘ میں چیونٹا رہوں گا
حقیقت میں انسان ہے سب سے بہتر
میں انسان بنوں گا‘میں انسان بنو ں گا
میں انسان بنوں گا ‘ میں انسان رہوں گا
مالی نن نے منتر دُہرانے کے بجائے زور کی سسکی لی اور چلّایا :’’ہائے میری ماں ۔کوئی میری ٹانگ گھسیٹ رہا ہے ۔‘‘
میں نے پتّی اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔ایک بڑا سا عجیب قسم کا بوڑھا خرّانٹ چیونٹا مالی نن کی ٹانگ پکڑے پوری طاقت سے اپنی طرف کھینچ رہا تھا ۔
تیسواں واقعہ:اچانک حملہ
میں سمجھتا تھا کہ اس چیونٹے سے میں آسانی سے نبٹ لوں گا مگر وہ ایک پر لے درجے کا چغادری چیونٹا نکلا۔اُس نے ہمارا کمبل لات مار کر ایک طرف پھینکا اور میری ایک ٹانگ بھی اپنے منہ میں دبوچ لی ۔پھر اُس نے اپنی مونچھوں سے ڈاکٹر کی طرح ہمیں ٹھونک بجا کر سوال کیا۔
’’بیمار ہو ؟‘‘
’’نہیں تو ۔‘‘ہم دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا ۔
’’پھر یہاں کیوں پڑے ہو۔‘‘
’’ذرا آرام کررہے ہیں ۔‘‘
’’بہت خوب !سب لوگ تو وہاں کام کر رہے ہیں اور آپ کو آرام کرنے کی سوجھی ہے ۔‘‘اُس نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’آج اتوار جوہے ۔‘‘
’’یہ اتوار کیا ہو تا ہے؟‘‘ چیونٹے نے حیرت سے پو چھا۔
’’چھٹی کا دن ۔‘‘میں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’چھٹی کا ہے کے لیے ؟‘‘
’’آرام کرنے کے لیے اور کاہے کے لیے ۔‘‘
یہ خبر کہ اتنے مصروف دن میں دو چیونٹے کہیں جا کر سو گئے ہیں ‘چیونٹیوں کی پوری برادری میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔اس انو کھے واقعے بلکہ حادثے کو دیکھنے کے لیے چیونٹے چیونٹیوں کا ایک ہجوم ہمارے گرد جمع ہو چکا تھا۔اُن میں سے کچھ پھولوں کے ڈنٹھلوں اور گھاس کے پتّوں پر چڑھ گئے تا کہ ہمیں اچھی طرح دیکھ سکیں ۔
’’آرام کیا ہوتا ہے؟‘‘اس بد مزاج اور اکھڑ چیونٹے نے پو چھا ۔
میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ آرام کیا ہو تا ہے اور اتوار کسے کہتے ہیں مگر اُن میں سے کوئی بھی میری بات نہ سمجھ سکا ۔آخر کار مجھے کہنا پڑا کہ جہاں ہم پہلے رہتے تھے وہاں چھٹی کے دن کوئی کام نہیں کرتا۔
‘‘کہاں رہتے تھے تم پہلے ؟؟‘‘پوچھا گیا۔
’’وہاں‘‘ ۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی اگلی ٹانگیں اُٹھا کر اپنے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
اتنا سُنتے ہی پورے مجمع پر سنّاٹا سا چھا گیا ۔سب دم بخود رہ گئے تھوڑی دیر کے لیے۔پھر چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں ۔۔۔۔۔۔’’معلوم کرنا چاہیے کہ یہ کون ہیں ؟کہاں سے آئے ہیں ؟معاملہ گھمبیر ہے اور تحقیق طلب ۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں تحقیقات وغیرہ کی ۔یہ ہم میں سے نہیں ہیں ۔ان دونوں کی ٹانگیں پکڑ کر چیر ڈالو ۔‘‘مجمع سے شور بلند ہوا ۔ ادھر مجمع میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں ۔اُدھر چند بوڑھے چیونٹے ایک طرف ہو کر شاید ہماری قسمت کا فیصلہ کر رہے تھے ۔اسی درمیان میں نے مالی نن سے منتر دُہرانے کو کہا۔میں نے جلد ی جلدی منتر پڑھنا شروع کر دیا ۔مگر مالی نن گُم سم کھڑا تھا ۔جیسے بہرا ہو گیاہو ۔آخر کار میں بھی خاموش ہو گیا ۔میں اور کر بھی کیا سکتا تھا ۔اتنے میں بوڑھے چیونٹوں کی کان فرنس ختم ہو گئی او روہ ’’سزائے موت ،سزائے موت‘‘ کہتے ہوئے ہماری طرف بڑھے ۔ایک بڑا اور بوڑھا چیونٹا ایک پتّی پر چڑھ گیا اور مجمع کو مخاطب کر کے بولا:
’’خواتین و حضرات !ان دونوں کام چوروں نے بھری دوپہر میں کام چھوڑ دیا۔سورج ڈوبنے تک کا انتظار نہ کیا اور پتّی کا کمبل اوڑھ کر سو گئے ۔میں تم سب میں عمر میں بڑا ہوں لیکن میں نے کسی بھی ساتھی کو ایسی عجیب اور غلط حرکت کرتے نہیں دیکھا ،لہٰذا ہماری پنچایت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان دونوں کو موت کی سزا دی جائے ۔آپ لوگوں کی کیا رائے ہے ۔؟‘‘
’’ٹھیک ۔بالکل ٹھیک ۔ہم اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہیں ۔‘‘سب نے ایک زبان ہو کر کہا ۔اُسی لمحے ایک درجن چیونٹے ہماری طرف لپکے اور ہمیں اُٹھا کر ایک طرف چل پڑے ۔
اکتیسواں واقعہ:اچانک چُھٹکارا
نہ جانے ہمارا کیا انجام ہو تا مگر عین اُسی وقت اونچی گھاس پر بیٹھے ہوئے ایک چیونٹے نے چیخ کر کہا :
’’ہو شیار ۔۔۔۔۔۔لال چیونٹے آرہے ہیں ۔‘‘
یہ آواز سُنتے ہی سارے مجمع میں کھلبلی مچ گئی ۔جو چیونٹے ہمیں لیے جا رہے تھے وہ بھی تھر تھر کانپنے لگے ۔انہوں نے ہمیں زمین پر گرا دیاا ور پھر اپنی مونچھیں اور ٹانگیں اس طرح تھر کانا شروع کر دیں جس طرح جنگلی لوگ دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے جو شیلا ناچ ناچتے وقت اپنے ہاتھ پیر تھر کاتے ہیں ۔وہ کود کود کر طرح طرح کے جنگلی پوز بنا کر’’ لا ل چیونٹے ،لال چیونٹے ‘‘کی زور دار آواز یں نکال رہے تھے ۔پھر سب زمین سے چپک کر گھاس اور جھاڑیوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور پلک جھپکنے میں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ۔صرف میں اور مالی نن وہاں اکیلے رہ گئے ۔
نہ جانے کیوں خطرے کا احساس مجھے بھی ہو گیا تھا۔’’خاموشی سے میرے پیچھے آؤ ۔‘‘میں نے ایک جھاڑی پر چڑھتے ہوئے مالی نن کو ہدایت کی۔
’’خاموشی سے کیوں ؟‘‘مالی نن نے پو چھا ۔
’’احتیاط ۔‘‘میں نے جواب دیا ۔حالاں کہ مجھے بھی معلوم نہ تھا کہ یہ احتیا ط ہی میری اور مالی نن کی جان بچانے کی وجہ بن جائے گی ۔
میں ایک اور اونچی پتّی پر چڑھنے ہی والا تھا کہ نیچے مجھے ایک لنگڑا چیونٹا اور بہت سے دوسرے چیونٹے گھاس سے نکلتے ہوئے دکھائی دےئے۔وہ گھاس سے نکل کر پیچھے ہٹے اور بکھر کر قطاریں بنانے لگے ۔پھر وہ بالکل ساکت کھڑے ہو گئے ۔اُسی وقت پندرہ بیس لحیم شحیم سیاہی مائل لال چیونٹے گھاس میں سے نکلے اور سامنے آکر کھڑے ہو گئے۔ اُس کے بعد جو کچھ ہو اس نے میدان جنگ کا نقشہ پیش کر دیا ۔ لال چیونٹے اپنے خوف ناک جبڑے پھاڑ کر شکاری کتّوں کی طرح سیاہ چیونٹیوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کا قتل عام شروع کر دیا ۔سیاہ چیونٹیوں کے سر زمین پر سر سوں کے دانوں کی طرح لڑھکنے لگے۔ذرا سی دیر میں ان قطاروں کے سارے چیونٹے مارے گئے ۔صرف لنگڑا چیونٹا زندہ بچا۔لنگڑا چیونٹابڑا تجربہ کار لڑا کو معلوم ہوتا تھا۔وہ بڑی بے جگری سے لڑرہا تھااور دشمن چیونٹے کا ہر وار خالی دیتاتھا۔ایک بار اُس نے ایک لال چیونٹے کی مونچھ پکڑ کر اتنے زور سے جھٹکا دیا کہ وہ اُکھڑ آئی اور دشمن مارے درد کے زمین پر لٹّو کی طرح پھرکیاں لینے لگا ۔اسی لمحے دو اور چیونٹے اپنے ساتھی کی مدد پر آگئے ۔اُنہوں نے لنگڑے چیونٹے کی اگلی ٹانگیں پکڑ کر پچھاڑ دیا۔ایک تیسرے چیونٹے نے اپنے قینچی نما جبڑے سے اس کا سر الگ کر دیا۔لال چیونٹے لڑائی جیت گئے ۔
سُرخ چیونٹیوں نے فاتحانہ انداز میں چاروں طرف نظر ڈالی ۔مونچھوں پرتاؤ دیااور میدان کی خاک دھول اپنے بدن سے جھاڑنے لگے۔
یکایک میں پتّے کے نیچے سے باہر نکل آیا ۔جبلّت ۔۔۔۔۔۔وہی جبلّت جسے میں نے بڑی مشکل سے دبایا تھا اب پھر اُبھر کر مجھے سیاہ چیونٹیوں کی مدد پر اُکسا رہی تھی۔میں اسی جذبے کے تحت کود کر سُرخ چیونٹیوں پر حملہ کر دینا چاہتاتھا مگر ایک بار پھر اسی فطری خواہش کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ہو گیا ۔ سُرخ چیونٹیوں کی پوری پلٹن سے تن تنہا مقابلہ کرنا پرلے درجے کی حماقت تھی ۔اُدھر یہ خیال بھی آیا کہ اگر میں میدان جنگ میں کودا تو مالی نن بھی میرا ساتھ دے گا اور مارا جائے گا ۔اتنے میں سُرخ چیونٹے ایک طرف کو چل دیے اور میدان جنگ خالی ہو گیا ۔ہم دونوں ایک اونچی شاخ پر چڑھ گئے ۔وہاں پہنچ کر جو منظر دیکھا اُس نے ہمارے اوسان خطا کر دیے ۔
سرخ چیونٹیوں نے ہمارے بل کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔چاروں طرف گھمسان کارن پڑا تھا ۔سُرخ چیونٹے تعداد میں کم ضرور تھے مگر طاقت اور تجربے کے بل پروہ برابر جیت رہے تھے ۔ہر جگہ کالے چیونٹوں کی لاشوں کے ڈھیر پڑے تھے ۔تڑپتے ہوئے کالے چیونٹوں کے لاشے اپنے جبڑے اور پیر بلا رہے تھے ۔
’’ذلیل کتّو!کمزوروں پر حملہ کر کے خوش ہوتے ہو۔‘‘مالی نن زو رسے سے چیخا ۔وہ کود نا ہی چاہتا تھا کہ میں نے اُس کی ٹانگ پکڑ کر روک لیا ۔
اب لڑائی زوروں پر تھی۔فریقین ایک دوسرے کر پچھاڑ رہے تھے ۔مونچھیں اُکھیڑ ی جا رہی تھیں ۔گر دنیں کاٹی جا رہی تھیں ۔
’’شاباش کالے شیرو ۔دشمن کی چٹنی بنا دو ۔بھُس بھر دوان کے ۔شاباش ‘شاماش ۔‘‘ مالی نن میری پکڑ سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہوئے برابر چیخے جا رہا تھا۔
کالے شیر واقعی بڑی بہادری سے لڑرہے تھے ۔انہوں نے دشمن کے داؤ پیچ سمجھ لیے تھے ۔اپنی بھاری تعداد کافائدہ اٹھاکر بڑی دلیری سے مقابلہ کر رہے تھے ۔پانچ پانچ چھ چھ مل کر وہ کسی ایک سُرخ چیونٹے پر ٹوٹ پڑتے اور اس کی تکّا بوٹی کر ڈالتے ۔
شاباش بہادر !ایک حملہ اور ۔‘‘میں نے پوری طاقت سے للکارا ۔
’’آگے بڑھے چلو۔ایک زور دار حملہ اور ۔‘‘مالی نن دھاڑا ۔
‘‘ہُرّے ۔‘‘ہم دونوں ایک ساتھ چیخے ۔سُرخ چیونٹیوں کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ آہستہ آہستہ پسپا ہو نے لگے ۔میں نے اپنی دو ٹانگیں منہ میں ڈال کر بڑی زور دار سیٹی بجائی ۔مالی نن خوشی سے ناچنے لگا مگر پھر ایک دم ٹھٹک گیا۔
’’ا‘دھر تو دیکھو۔‘‘مالی نن نے بل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔میں نے نظریں دوڑائیں تو دیکھا کہ دور بل کی پہاڑی کے پرلے سرے سے سُرخ چیونٹیوں کی تازہ کمک میدان جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے ۔میں سوچنے لگا کہ عین اس موقع پر جب جنگ کا پانسہ کالی چیونٹیوں کے حق میں پلٹنے والا تھا،اگر سرخ چیونٹیوں کا یہ تازہ دم لشکر آگیا تو ہم سب کا چل چلاؤہے ۔میں اور مالی نن بھی تو آخر سیاہ چیونٹے تھے ۔کاش ا س وقت میں اور مالی نن لڑکے ہوتے تو کالی چیونٹیوں کی بڑی مدد کر سکتے ۔موجودہ حالت میں ہم ان کے کسی بھی کام نہیں آسکتے ۔۔۔۔۔۔مگر ذراٹھہریے ۔۔۔۔۔۔اگر ہم سیاہ چیونٹیوں کی فوج کی کمان سنبھال لیں ۔فرض کیجیے کہ میں کمانڈر ان چیف بن جاؤں اور مالی نن میرا چیف آف اسٹاف تو۔۔۔۔۔۔لیکن نہیں مالی نن بھلا کیا کھا کر چیف آف اسٹاف بنے گا ،ڈر پوک کہیں کا ۔اچھا تو یہ ہوگا کہ ہم دونوں فوراًانسان کی جون میں واپس آجائیں، پھر ان لال چیونٹیوں کا قیمہ کر کے رکھ دیں گے ۔
’’مالی نن !میرے ساتھ منتر کے بول دہراؤ۔‘‘میں نے حکم دیا۔
’’نہ دن کو نہ شب کو میں چیونٹا بنوں گا
ہمیشہ ہمیشہ میں انسان رہوں گا ۔‘‘
’’بارن کن !میرے پیچھے آؤ ۔‘‘مالی نن نے منتر کے بول دہرانے کے بجائے مجھے حکم دیا۔’’سُرخ دشمن مُردہ باد ۔‘‘میرے پیچھے سے مالی نن کی گرج دا رآواز سنائی دی ۔میں نے آنکھیں کھول کر پیچھے دیکھا ۔مالی نن ٹہنی پر سے کود کر نیچے پہنچ چکا تھا ۔اُ س نے ایک ٹہنی اٹھائی اور سُرخ چیونٹوں کی فوج پر جا پڑا ۔
بتّیسواں واقعہ:ہم گھِر گئے
کیا جبلّت نے مالی نن کو جنگ میں کود پڑنے پر آمادہ کر دیا!نہیں میں جانتا تھا کہ مالی نن خاصا بز دل ہے ۔جبلّت بھی اس کو جنگ و جدال پر آمادہ نہیں کر سکتی ۔دراصل ا س وقت مالی نن کے اندر سویا ہوا انسان جاگ اٹھا تھا ۔کوئی بھی ، اگر وہ صحیح معنوں میں انسان ہے ، طاقت ور ظالموں کو کمزوروں پر ظلم کرتے نہیں دیکھ سکتا ۔مالی نن کے اندر کا سویا ہوا انسان بیدار ہو چکا تھا۔
بغیر کسی سو چ بچار کے میں نے بھی مالی نن کی تقلید کی، ٹہنی پر سے کود کر میں تیزی سے مالی نن کے پیچھے لپکا۔ ٹہنی پر سے میں نے دیکھ لیا تھا کہ سُرخ چیونٹے بل کے ڈھیر کے پیچھے کی طرف سے حملہ کرنے کی تیاری کررہے تھے۔دشمن کی اس چال سے کالی فوج کو آگاہ کر نا بہت ضروری تھا ۔مالی نن اپنی فوج میں شامل ہو نے کے بجائے اکیلا سُرخ لشکر کی طرف دوڑ پڑا ۔
’’مالی نن ٹھہر جاؤ، تم غلط سمت پر جا رہے ہو ۔‘‘میں نے چیخ کر مالی نن کوآگاہ کر نا چاہا ۔مگر مالی نن شاید بہرا ہو گیا تھا۔’’آگے بڑھو۔مار ڈالو ۔دشمن کو ختم کر دو۔‘‘یہ نعرے لگاتا ہوا وہ آگے بڑھتا رہا ۔ایک اکیلے سیاہ سپاہی کو اپنی طرف دیکھ کر سُرخ لشکر نے اپنا رُخ بدل دیا۔چند لال چیونٹیوں نے آپس میں مشورہ کیااور مالی نن پر حملہ کر نے کے لیے آگے بڑھے ۔
اُنہوں نے چکر کاٹ کر ہمیں اس طرح گھیر لیا کہ ہم اپنی فوج سے کٹ کر الگ ہو گئے ۔
بس اب مالی نن کا خاتمہ ہے ۔اب تیز رفتار ی ہی کام دے گی ۔یہ سوچتے ہوئے شیر کی طرح تین چار لمبی چھلانگیں لگا کر میں مالی نن کے پاس پہنچ گیا ۔اس کی ایک ٹانگ دبوچی اور اُسے ٹیلے کے ڈھلوان پر سے گھسیٹ کر نالے کے کنارے پر لے آیا ۔نالے کو ہم نے ایک پتّے پر سوار ہو کرپار کیا ۔پھر مالی نن کو گھاس میں چھپا دیا ۔ہمارا پیچھا کرنے والے اس وقت نالے کے کنارے تک آچکے تھے ۔مزید احتیاط کے خیال سے میں مالی نن کو اور گھنی گھاس میں لے گیا ۔
مالی نن پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف تاک رہا تھا۔
’’کمال کے سپاہی ہو میرے یار ۔‘‘ میں نے اُس کے ہاتھ سے ڈنڈا چھینتے ہو ئے ڈانٹا ۔’’لگاؤں ایک دھپ تمہاری چندیا پر !تم اپنی فوج کی طرف جانے کے بجائے دشمن کے نرغے میں کیوں جا پھنسے ؟‘‘
یہ کہہ کر میں اس کے چپت لگانے ہی والا تھا کہ مجھے ایک سُرخ چیونٹے کی پیٹھ گھاس میں دکھائی دی ۔ پھر ایک سُرخ خبیث چہرہ پتیّوں میں سے جھلکا دیکھتے دیکھتے دائیں اوربائیں طرف سُرخ چیونٹیوں کا ایک پورا لشکر نمو دار ہو گیا ۔انہوں نے نالا پار کر کے ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا تھا ۔
’’پھول کے کسی پودے پر چڑھ جاؤ اور فوراً انسان بننے کا منتر پڑھنا شروع کر دو ۔‘‘میں نے مالی نن کے کان میں کہا۔
’’اور تم ؟‘‘
’’میں تمہارے ساتھ ہوں ۔۔۔۔۔۔جلدی کرو۔دیکھتے نہیں ہم کتنے خطرے میں ہیں ۔‘‘
ہم دونوں ایک ڈنٹھل پر چڑھ گئے ۔سُرخ چیونٹیوں نے ہماری آوازسُن کر اوپر دیکھا۔ایک اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا تا کہ ہم کو اچھّی طرح دیکھ سکے ۔
’’اور اوپر چلو۔انہوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے ۔سیدھے اس پھول کے پاس پہنچو اور انسان بننے کا منتر پڑھنا شروع کر دو ۔‘‘میں نے مالی نن سے کہا۔
ابھی ہم دونوں پھول تک پہنچ بھی نہ پائے تھے کہ سُرخ چیونٹیوں نے ہمارے پودے کا محاصرے کر لیا اور ایک ایک کر کے اوپر چڑھنے لگے ۔
تینتیسواں واقعہ: دس کے مقابلے میں دو
’’کم بختو !۔۔۔۔۔۔دس مسٹنڈے مل کر دو کمزوروں پر حملہ کر رہے ہو ۔شرم نہیں آتی تم کو !‘‘میں نے پھو ل کی ایک پنکھڑی پر سے جھک کر لال چیونٹیوں سے کہا ۔
سُرخ چیونٹے اُسی خوف ناک خاموشی کے ساتھ پودے پر چڑھتے رہے ۔مجھ سے ایک انچ کے فاصلے پر و ہ رک گئے اور اپنے جبڑے کٹکٹانے لگے ۔
ان درندوں کے مقابلے کے لیے میں ایک نے مضبوط سا ڈنٹھل اپنے اگلے پیر میں لے لیااور سوچنے لگا کہ پتا نہیں اتنے مختصر وقت میں مالی نن انسان بن بھی پائے گا یا نہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن بغیر میری مدد کے وہ انسان بننے کا منتر بھی تو نہیں پڑھ سکتا ۔۔۔۔۔۔
‘‘ارے میاں سرخے !ہمّت ہوتو اکیل پکیل دودو ہاتھ ہو جائیں ۔‘‘میں نے سب سے اگلے چیونٹے کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ۔
یہ سن کر وہ بد معاش خاموشی سے میری طرف بڑھا اور جبڑے پھیلا کر مجھ پر حملہ کر دیا ۔اُسی وقت میں نے پینترا بدل کر پوری طاقت سے ڈنٹھل کو اُس کے سر پر دے مارا ۔اس بھر پور چوٹ سے وہ تیورا گیا اور چکّر کھاتے ہوئے زمین پر جا پڑا ۔
اس کے گرتے ہی دو اور بد معاشوں نے اُس کی جگہ سنبھال لی ۔میں اُن دونوں کی بھی یہی خاطر کر نے والا تھا کہ اوپر سے مالی نن کی آواز آئی ۔
’’بارن کن !۔۔۔۔۔۔پیچھے سے ہو شیار ۔ایک اُدھر سے بھی آ رہا ہے ۔‘‘
میں نے بغلی کاٹی اور تینوں کے ایک زور دار ڈنڈار سید کیا ۔وہ تینوں بھی نیچے جا پڑے ۔اب صرف چھ رہ گئے ۔یہ مجھ سے زرا دوری پر تھے ۔
’’مالی نن !جلدی سے آدمی کیوں نہیں بن جاتے ؟تم میراحکم کیوں نہیں مانتے؟‘‘
’’بغیر تمہارے میں کچھ نہیں بنوں گا ۔‘‘مالی نن نے سہمی ہو ئی آواز میں جواب دیا ۔
’’بنو گے کیسے نہیں ۔‘‘سُرخ چیونٹیوں کے حملوں سے بچتے ہوئے میں نے جواب دیا۔۔۔۔۔ ۔ ۔ اب میں اپنا بچاؤ کرتا ہوا پھول کے بالکل بیچ میں آچکا تھا اور چاروں طرف سے گھِر گیا تھا ۔نکل بھاگنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔نیچے سُرخ چیونٹے تھے، اوپر کھُلّا آسمان او ردرمیان میں،میں اور مالی نن ۔اُسی وقت ایک چیونٹے نے پنکھڑی کے پیچھے سے جھانک کر اپنے خوف ناک دیدے گھمائے ۔
’’مالی نن !جلدی سے جون بدلو۔‘‘میں نے سرخ چیونٹے کے ڈنڈا جماتے ہوئے مالی نن سے کہا ۔
’’اگر تم بھی میرے ساتھ جون بدلو تو میں تیار ہوں ۔‘‘مالی نن بولا۔
’’ساتھ ساتھ جون بدلنے کا وقت نہیں ہے پیارے ۔‘‘
’’اکیلے تو میں جون بدلنے سے رہا ۔‘‘مالی نن نے ضدّی پن سے جواب دیا۔
اُسی وقت ایک اور سرخ چیونٹا نمو دار ہوا۔میں نے جھلّا کر اتنے زور سے اس کے سر پر ڈنڈا مارا کہ اُدھر تو وہ چیونٹا دو ٹکڑے ہو کر نیچے گرااور اِدھر میرے ڈنڈے کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ۔میرے ہاتھ میں اس کی صرف ایک کھپچّی رہ گئی ۔
اب ہم نہتّے تھے۔ دشمن نے شاید ہماری بے بسی کو تاڑ لیا۔باقی چاروں چیونٹے ایک ساتھ ہماری طرف بڑھے ۔میں نے مالی نن کو گلے لگا لیااور بولا:
’’مالی نن !ہمارا وقت آن پہنچا ۔اب رخصت ۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ۔‘‘
’’الوداع پیارے بارن کن !الوداع !!‘‘مالی نن نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو تسلّی دینے کی کوئی کوشش نہ کی ۔چاروں طرف سرخ چیونٹے تھے اور بیچ میں ہم۔ کاش اس وقت کو دکر ہم دوسرے پھول پر جا سکتے ۔لیکن دوسرا پھول بہت دور تھا۔ہم دونوں کئی بار موت کو دھوکا دے چکے تھے ۔کاش ایک بار پھر ایسا ہو جائے ۔
’’چلو مالی نن !ان کو دکھا دیں کہ لڑکے کس بہادری سے موت کا سواگت کرتے ہیں ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں اپنی پچھلی ٹانگوں کے بل کھڑا ہو گیا۔اُسی وقت میرا سر مکڑی کے جالے کے ایک تار سے ٹکرا یا۔یہ تار جسے ہوا نہ جانے کہاں سے اُڑ ا لائی تھی ایک پنکھڑی سے اٹک گیا تھااور کسی طلسمی قالین کی جھالر کے تا رکی طرح پھول پر لٹک رہا تھا۔
’’مالی نن !‘‘میں چیخا۔
مالی نن نے بغیر کچھ کہے میرے دل کی بات سن لی تھی اور مکڑی کے جالے کے تار سے لٹک گیا۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا ۔اب صرف اُسے کاٹ دینا ہی باقی رہ گیا تھا۔میں نے جلدی سے اُسے کاٹ دیا ۔ اُسی لمحے چاروں سرخ چیونٹوں نے ہم پر حملہ بو ل دیا ۔ہم اُڑتے ہوئے جالے کے تار کے ساتھ اوپر اُٹھنے لگے تھے ۔ایک چیونٹے نے لپک کر اپنے جبڑوں سے میری ٹانگ پکڑنی چاہی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا ۔میری ٹانگ میں صرف خراش آئی اور اُس کے جبڑے کٹکٹاتے رہ گئے ۔
جالے کا تار ۔۔۔۔۔۔ہمارا طلسمی قالین ۔ہمیں پھول سے دور لے گیا اور ہم چیونٹیوں کے بل کے قریب پہنچ گئے ۔وہاں کامنظر دیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔
جتنی دیر تک میں اور مالی نن اپنے دشمنوں سے لڑتے رہے اُتنی دیر میں کالے چیونٹوں نے لال چیونٹوں کو مکمل شکست دے کر مار بھگایا تھا۔اب وہ اپنے کام میں ایسے مصروف تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔
لڑائی جتنی اچانک شروع ہو ئی تھی ویسے ہی ختم ہو گئی ۔مزدور چیونٹیاں البتہ لاشوں کو بل سے دور لے جا رہی تھیں ۔صرف یہی ایک نشانی تھی جس سے پتا چل سکتا کہ چند منٹ پہلے یہاں گھمسان کارن پڑا تھا۔
’’نہ دن میں ، نہ شب کو میں چیونٹی رہوں گا۔‘‘میں نے پوری طاقت اور بلند آواز سے منتر پڑھا ۔ مالی نن نے بھی ’’ہمیشہ ہمیشہ میں انسان رہوں گا ۔‘‘کہہ کر میرا ساتھ دیا ۔
اُسی لمحے میرے پیچھے سے تیزسیٹی کی ایک خوف ناک آواز آئی ۔ہوا کی ایک تیز لہر نے مجھے ایک تھپیڑا مارا ،مکڑی کے جالے کا تار میرے ہاتھوں سے چھٹ گیااور میں ہوا میں قلابازیاں کھانے لگا۔اُسی وقت ایک زبر دست قسم کی ابابیل نے مالی نن پر چونچ ماری ۔ابابیل جس تیزی سے آئی تھی اُسی تیزی سے ہوا میں غائب ہو گئی ۔
یہ کیا ہوا ؟میں سمجھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ اندازہ لگا سکوں مجھ پر غشی چھا گئی اور میں بے ہوش ہو کر زمین پر آرہا ۔
پانچواں حصّہ
انسان بنو بارن کن !
چونتیسواں واقعہ:غیبی آواز
نہ معلوم میں کتنی دیر بے ہوش رہا۔ہوش آجانے کے بعد بھی میں کافی دیر تک بے سُدھ پڑا رہا ۔ اس تھوڑی سی مدّت میں ہم دونوں پر جو واقعات پیش آئے تھے وہ سب بے ترتیبی کے ساتھ میرے تصور میں منڈلانے لگے ۔میں نے اپنی آنکھیں کھولنی چاہیں ۔مگر یا تو گھپ اندھیری رات پڑ چکی تھی یا پھر میں اندھا ہو گیا تھا۔مجھے کچھ نہ دکھ ئی دیا۔
اب میں نے مالی نن کے بارے میں سوچنا شروع کیا ۔گو مالی نن مر چکا تھا مگر میرے ذہن میں وہ جیتا جاگتا موجود تھا ۔دوست کی یاد سے دل کو ذرا ڈھارس ملی۔کاش اُس منحوس ابابیل نے مالی نن کے بجائے میرے چونچ ماری ہوتی۔آخر میں نے ہی تو مالی نن کو اس مصیبت میں پھنسایا تھا۔میں تو زندہ بچ گیا اور وہ غریب چیونٹے کی موت مرا ۔بے چارہ دوبار ہ انسان کی جون میں آبھی نہ سکا ۔
لیکن میرے لیے مالی نن ہمیشہ انسان ہی رہے گا ۔وہ ایک اچھّے انسان کی طرح سیاہ چیونٹیوں کی مدد پر آمادہ ہو گیا تھا۔اُس نے مجھے خطرے کے وقت کبھی اکیلا نہ چھوڑا ۔اُس نے میرے بغیر انسان کا جون لینا تک گوارا نہ کیا۔وہ سُرخ چیونٹیوں سے کتنی بہادری سے لڑا تھااور میدانِ جنگ میں اُس نے کیسی سورمائی دکھائی ۔اگر یہ واقعہ ایرا دیکھ پاتی تو وہ شاید دیوار ی اخبار کا ایک خاص نمبر مالی نن کے نام پر نکال دیتی ۔اور الیک تو اپنے کیمرے کی پوری فلم اس کی تصویر یں لینے پر ختم کر دیتا۔مالی نن اس سارے وقت ایک سچّے اوراچھے انسان کی مانند رہااور چیونٹی کی موت نہیں ، انسان کی موت مرا ۔اُسے جادو منتر کے ذریعے انسان کے جون میں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔وہ تو عرصہ ہوا صحیح معنوں میں انسان بن چکا تھا۔
لیکن میں ؟؟۔اپنے بارے میں فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہی ہوتاہے ۔میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اسی عرصے میں جو کچھ میں نے کیاوہ ٹھیک تھا یا غلط ۔میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ مالی نن کے ساتھ میرا روّیہ اور برتاؤ کیسا رہا؟یوں تو میں نے خود کو انسان بنانے کی ہمیشہ پوری کوشش کی ۔مالی نن کی خاطر میں کئی بار سُرخ چیونٹیوں کالقمہ بنتے بنتے بچا۔یہ میری خوش قسمتی تھی کہ آخری چیونٹے نے سر کے بجائے میری ٹانگ ہی دبوچی ۔۔۔۔۔۔میری ٹانگ ابھی تک دُکھ رہی تھی۔
میں اپنی ٹانگ کو آہستہ آہستہ سہلاتا رہااور چونک پڑا۔ اس بار چیونٹی کا اگلا پیر اپنے پچھلے پیر کو نہیں سہلا رہا تھا۔بلکہ ایک انسانی ہاتھ ایک انسانی ٹانگ کو سہلارہا تھا۔کم از کم مجھے ایسا ہی محسوس ہوا۔میں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں ۔دیکھا کہ سہلائی جانے والی ٹانگ واقعی ایک عام لڑکے کی ٹانگ ہے بلکہ میری اپنی ٹانگ ہے البتّہ اس پر جما ہوا خون کا ایک چھوٹا سا دھبّہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ابھی چند لمحے پہلے یہی ٹانگ ایک چیونٹے کی ٹانگ رہ چکی ہے ۔میرا سر،میرے ہاتھ اور پیر بلکہ پورا جسم اپنی اصل شکل اختیار کر چکا تھا ۔
حواس درست کرنے کے لیے میں ذرا دیر گھاس پر پڑا رہا۔پھر اُٹھ بیٹھا ، کھڑا ہوا،پتلون جھاڑی ،ہاتھ جیبوں میں ڈالے اور ایک انسان کی طرح گھر کی طرف چل پڑا ۔سر جھکا ئے اور پیروں پر نظریں جمائے میں چلتا رہا۔میرا سر جھنجھنا رہا تھا اور جسم ایسے دُکھ رہا تھا جیسے کسی نے ڈنڈوں سے خوب پیٹا ہو۔ میری ٹانگ میں جہاں سرخ چیونٹے نے کاٹا تھا، بڑی جلن مچ رہی تھی۔
میں لڑکھڑا تا ہوا چلا جا رہا تھا۔کئی بار راہ گیر وں سے ٹکرا ٹکڑا گیااور ہر بار مجھے کچھ نہ کچھ سننے کوملا۔’’دیکھ کر نہیں چلتے میاں صاحب زادے ۔‘‘
مجھے یاد نہیں کہ میں اپنے باغ تک کس طرح پہنچا ۔باغ کے پھاٹک سے ٹکر لگنے پر میری نیند ٹوٹی ۔جیب سے ہاتھ نکالے بغیر میں نے ٹھو کر سے پھاٹک کھو لا اور بنچ پر جا بیٹھا ۔
باغیچے میں ہر چیز پہلے ہی جیسی تھی ۔کیکر کے پیڑ پر چڑیاں اُسی طرح پُھرپُھرا رہی تھیں،کیاریوں پر تتلیاں منڈ لا رہی تھیں اور بنچ پر سیاہ چیونٹے اُسی طرح دوڑرہے تھے ۔ہر چیزاپنی جگہ پر اور اپنی اصلی حالت میں موجو د تھی ۔بس ایک مالی نن نہیں تھا ۔مالی نن بے چارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکاتھا ۔ خود میں ،میں بھی نہیں تھا۔میرا مطلب ہے کہ میں موجود تو تھا مگر اب پہلا جیسامیں نہیں رہا تھا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے برسوں لمبے خطر ناک سمندر ی سفر سے لوٹا ہوں ۔میں اور مالی نن اس سفر پر ساتھ ساتھ نکلے تھے ۔مگر میں اکیلا واپس آیا اور اب ساری عمر اکیلا رہوں گا ۔اکیلا اور تنہا ۔اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر زندگی میں پہلی بار میں رو پڑا ۔میں پھوٹ پھوٹ کرسِسک سِسک کر رو رہا تھا۔آنسوبہہ بہہ کر میرے چہرے ،گردن اور ہاتھوں کو تر کرنے لگے ۔آنسو رو کے نہ رُکتے تھے ۔میں حیران تھا آخر اتنے آنسو آ کہاں سے گئے ۔اگر کوئی شخص کبھی نہ روئے تو کیا اُ س کے آنسو جمع ہوتے رہے ہیں ؟میں سوچنے لگا :
’’بارن کن !یہ کیا؟۔ یہ تم نے ٹسوے بہانا کب سیکھ لیا؟‘‘اچانک اوپر سے مجھے مالی نن کی آواز سُنائی دی۔
پینتیسواں واقعہ:ہم موجو دہیں
’’مالی نن !‘‘میں نے آنسوؤں کا سیلاب روکتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ۔‘‘اُس نے اوپر سے جواب دیا۔اس کی آواز بڑی مدھم سی تھی ۔جیسے بہت دور کہیںآسمانوں سے آرہی ہو ۔
’’تو تم وہاں پہنچ گئے !!‘‘
’’وہاں کہاں ؟‘‘مالی نن کی آواز آئی ۔
’’وہاں،جسے دوسری دنیا کہتے ہیں ۔‘‘
’’دوسری دنیا !!کیا بک رہے ہو ؟میں تو یہاں باڑ ھ پر بیٹھا ہوں ۔‘‘
’’مذاق مت کرو مالی نن ۔جیسے میں نے تمہیں ابابیل کو ہڑپ کرتے نہیں دیکھا۔‘‘
’’کسے کھا گئی ابابیل ؟مجھے؟ اُس نے تو تمہیں کھایا تھا ،مجھے نہیں ۔میں نے اپنی آنکھوں سے اُسے کھاتے ہوئے دیکھا تھا ۔‘‘
’’میں کہتا ہوں کہ ابابیل نے مجھے نہیں تم کو ہڑپ کر لیا تھا۔َ ‘‘
’’مجھے ہڑپ کر لیا ہوتا تو میں اسوقت اس باڑھ پر کیسے بیٹھا ہوتا یقین نہ آئے تو آنکھیں کھولو اور دیکھ لو۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
’’آنکھیں کھولوں !اور آنکھیں کھولتے ہوئے اگر مجھے ڈر لگ رہا ہو تو ؟‘‘
’’ڈر !کاہے کا ڈر ؟‘‘اُس نے پوچھا ۔
’’یہی کہ میں آنکھیں کھولوں اور تم کو موجود نہ پاؤں ۔‘‘میں نے پھر زارو قطار رونا شروع کر دیا ۔
’’اچھا ٹھہروو۔ابھی ایک منٹ میں بتائے دیتا ہوں کہ میں موجود ہوں یا نہیں ۔‘‘مالی نن کی آواز آئی اور ایک سرسراہٹ کے ساتھ کوئی میرے کندھوں پر آپڑا، میں لُڑھک گیا۔آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتاہوں کہ میرے اوپر مالی نن براجمان تھااور گھونسے مار مار کر کہہ رہا تھا۔۔۔’’بتاؤ میں موجود ہوں کہ نہیں ؟‘‘
’’ہاں بھئی ہو۔۔۔موجود ہو ۔ہم دونوں ہی موجود ہیں آدمیوں کی طرح ۔انسانوں کی طرح ۔زندہ اور جیتے جاگتے ۔۔۔ہُرّے ‘ہپ ہپ ہُرّے ۔‘‘ہم دونوں چیخے اور خوشی کے مارے ایک دوسرے سے لپٹ گئے ۔
مالی نن ذراایک منٹ رکو تو ۔میں تم کو دیکھ لوں ۔‘‘میں نے کہا
’’احمق مت بنو بارن کن ۔کیا تم نے مجھے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘مالی نن نے ہنس کر کہا۔
’’نہیں کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔اور تم نے بھی مجھے کبھی نہیں دیکھااصل میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کو کبھی جانا ہی نہیں ۔‘‘
ہم خاموشی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے ۔میں اسے اتنے غور سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ فطرت کا کوئی حیرت انگیز معجزہ ہو ۔میں نے اس کے ہاتھوں کو دیکھا ۔یہی وہی خراشوں سے بھرے ہاتھ تھے جن سے اس نے چیونٹی کے جون میں لڑائی لڑی تھی ۔اب سے پہلے میں نے اپنے یا دوسروں کے ہاتھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہی نہ تھا ۔
ان ہاتھوں کو میں نے ہمیشہ معمولی ہاتھ سمجھا لیکن اب مجھے یہ ہاتھ بڑے اہم لگ رہے تھے ۔۔یہ ہاتھ نہ چیونٹیوں کی ٹانگیں تھیں نہ تتلیوں کے پر ۔میں سمجھتا ہوں کہ شاید آپ لوگوں نے بھی کبھی اپنے ہاتھوں کوکبھی غور سے نہ دیکھا ہو گا ۔بعض لڑکے لڑکیاں اپنے ہاتھوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں ۔مگر نہیں ۔لڑکیوں کو اس ضمرے میں نہ شامل کرنا چاہیے ۔لڑکیوں کو تو اپنے چہرے دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی ۔
اور سر !آج سے پہلے میں نے کبھی اپنے سر کے بارے میں نہیں سوچا ۔سر بس سر تھا ۔کندھوں پر رکھا ہوا۔جس پر لے دے کے کبھی کبھار ٹوپی اوڑھ لی جاتی ہے ۔لیکن اب ۔اب جب ان مصیبتوں اور بلاؤں کا سامنا میں کر چکا تھااُس کے بعد ۔مجھے یقین آگیا ہے کہ انسان کے ہاتھ معجزہ ہیں تو اُس کا سر سب سے بڑا معجزہ ہے ۔لیکن انسان کو ابھی اس سب سے بڑے معجزے کا علم نہیں ہو پایا ہے ۔وہ اس کا صحیح استعمال بھی نہ جان پایا ہے ۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ومینکا کا سر بھی ایک معجزہ ہے مگر وہ بھی اس کے استعمال سے واقف نہیں ۔اسی ایک ومینکا پر کیا منحصر ہے ۔اُس جیسے ومینکا دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں ۔امریکہ کا اپنا ومینکا ہے ۔فرانس کا اپنااور انگلستان کا اپنا ۔ساری دنیا میں ایسے لڑکے موجود ہیں جو کسی بات کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتے ۔اور بہت سے ایسے لڑکے بھی ہیں جو سوچتے تو ہیں مگر غلط طریقے پر سوچتے ہیں ۔مثال کے طور پر مجھے اور مالی نن ہی کو لے لیجیے۔
اب ہم نے حقیقت معلوم کر لی ہے ۔۔۔۔۔۔یہ تو سب ہی لڑکے اور لڑکیاں جانتی ہیں کہ سوچ بچار کرنا کتنی عمدہ چیز ہے ۔خاص طورپر اچھی چیز وں اور اچھی باتوں کے بارے میں سوچ بچار کرنا ۔۔۔سوچنااور ٹھیک طور پر عقل استعمال کرنا۔چیونٹیو ں کی طرح محض جبلّی طور پر ۔۔۔۔۔۔بغیر سوچے سمجھے سوچنا نہیں بلکہ انسانوں کی طرح سوچناا ور سمجھنا ۔
پتا نہیں کہ میں اور مالی نن گھاس پر کتنی دیر تک بیٹھے رہے ،شاید مالی نن بھی یہی باتیں سوچ رہا تھا۔مجھے اُس نے کچھ نہیں بتایا کہ وہ کن خیالوں میں کھویا ہوا تھا ۔مگر میں قسم کھا سکتاہوں کہ میں نے محسوس کیا،بلکہ سُنا ۔جی ہاں اس کے دل کی آواز سُنی ۔اس کے دماغ میں بھی میرے جیسے خیالات اُمڈ رہے تھے ۔لفظ بہ لفظ ۔میں اُس سے کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ اُسی وقت کوئی مُلائم اور گد گد ی سی چیز دھم سے میرے اوپر گری اور میرے جسم میں اپنے پنجے گڑ و دیے ۔میں گھبراگیا ۔
’’مو سکا!‘‘مالی نن خوشی سے چلّا اُٹھا۔
‘‘اہا۔۔۔بی موسکا ہیں یہ ؟آؤ تو ادھر ،تم سے سارا پچھلا حساب کتاب چکالوں ۔‘‘میں نے موسکا کو اپنی پیٹھ پر سے کھینچتے ہوئے کہا۔
’’رہنے بھی دو اب بارن کن ۔جو ہوا سو ہوا۔جان بچی سو لاکھوں پائے خیر سے بُدّھو گھر کو آئے ۔۔۔۔۔۔اب بدلہ مت لو۔‘‘مالی نن نے مجھے رو کتے ہوئے کہا۔
اس خیال سے کہ ہماری اس مہم کا ا نجام بخیر ہوا،ہم دونوں خوشی سے جھوم اُٹھے ۔مالی نن نے زور سے مجھے لپٹا لیا۔مارے خوشی کے میں پاگل ہو رہا تھا۔کبھی میں پیڑسے لپٹ جاتا اور کبھی بنچ سے ۔اسی بنچ سے جس پر بیٹھے بیٹھے یہ سارا قصّہ شروع ہوا تھا ۔
’’سارا شہر چھان مارا اور تم دونوں یہاں پیڑوں سے لاڈ پیار کر رہے ہو۔احمقو ۔‘‘سائیکل پر سے اُترتے ہوئے میشا نے آواز دی ۔ الیک اُس کے پیچھے بیٹھا تھا۔ذرا سی دیر میں فوکینا ،اور ایرا اور باقی سب کے سب آن پہنچے ۔
’’ارے میشا!‘‘میں اور مالی نن اکٹھّے چلّائے اور ایک ساتھ اُس سے لپٹ گئے ۔ہماری اس اچانک حرکت سے وہ گھبرا سا گیا ۔اُس کے ہاتھ سے سائیکل کا ہینڈل چھٹ گیااور ہم تینوں لڑھک گئے ۔میں اور مالی نن،میشا اور الیک سے لپٹ گئے اور بے تحاشہ اُن دونوں کو پیار کرنے لگے ۔
’’کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو !پاگل تو نہیں ہو گئے ؟ہم لوگ ابھی کل ہی تو ملے ہیں ۔تم دونوں بالکل لڑکیاں ہو۔۔۔۔۔واقعی۔‘‘میشا نے ہم کو ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’تم کو کیا پتا ہم پہ کیا بیت چکی ہے !‘‘مالی نن بولا۔
’’کیاہوا۔‘‘الیک نے کان کھڑے کیے۔
’’کچھ بھی نہیں ۔یہ مالی نن تو بس یوں ہی گپ ہانک رہا ہے ۔‘‘میں نے جلدی سے کہا اور مالی نن کو ایسا گھورا کہ وہ بے چارا دم بخود ہو کر رہ گیا۔
اب لڑکیوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیااور چنچناتی ہوئی آواز میں ایک ساتھ بولیں :
’’ہم تم کو سارے شہرمیں ڈھونڈ آئے اور آپ یہاں گھاس پر لوٹ لگا رہے ہیں ۔‘‘
’’بارن کن !سبق یاد کرنے کا ارادہ ہے یا نہیں ؟‘‘فوکینا نے ترش لہجے میں دریافت کیا۔
’’فوکینا ڈارلنگ ۔تمہیں کیا پتا ہم دونوں اپنا سبق یاد کرنے کے لیے کتنے بے چین ہو رہے ہیں ۔‘‘
’’اور کام بھی کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘مالی نن نے ایرا کے ہاتھ سے کُدال چھینتے ہوئے کہا۔میں نے فوکینا کے ہاتھ سے کُدال لیتے ہوئے مالی نن کی ہاں میں ہاں ملائی ۔
’’بارن کن !تم اور مالی نن پگلے سے کیوں نظر آ رہے ہو ۔تمہاری اس وقت کی حرکتیں بھی بالکل خبطیوں کی سی ہیں!‘‘
’’اس لیے ۔۔۔اس لیے کہ ۔‘‘میں چلایا۔
’’اچھا اب چلو بھی،کافی وقت ہو گیا ہے۔‘‘میشا بولا۔
’’بس ایک منٹ ‘‘۔۔۔میں نے کہا ۔’’دوستو اور ساتھیو !
میں تم سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ لفظ انسان میں کتنی گونج ہے ۔‘‘
ایرا نے فوراً! ٹوکتے ہوئے کہا۔۔۔’’بارن کن !تم ان الفاظ کا غلط حوالہ دے رہے ہو۔میکم گور کی نے اپنے ڈر امے میں یہ جملہ اس طرح لکھا ہے ۔۔’انسان ۔۔۔اس ایک لفظ میں کتنی گونج اور گھن گرج ہے ۔‘کیوں بھئی مالی نن !ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ۔‘‘
’’بالکل ٹھیک ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا۔
ہم دونوں نے میشا کی کمر میں ہاتھ ڈالے اور دوڑتے ہوئے پہلی منزل پر جانے لگے۔سیڑھیوں کے اوپری سرے پر ومینکا کھڑاتھا ۔وہی ومینکا جس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے دو چڑیوں کو غلیل کا نشانہ بنانا چاہا تھااور وہ دونوں چڑیاں ہم ہی دونوں تھے اور جب ہم دونوں تتلیاں تھے تو اسی ومینکا نے ہمارے پر نوچنا چاہے تھے اور جب ہم چیونٹے تھے تو اسی نے ہمارا بل ڈھا دیا تھا ۔یاد ہے نا آپ کو ۔
’’ہیلو۔‘‘ومینکا نے ایک آنکھ میچ کر ہمیں مخاطب کیااور دودو سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتے ہوئے میرے پاس آ گیا۔میشا اور مالی نن اوپر چلے گئے ۔
میں نے ومینکا کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا ۔
’’یہ کیا حرکت ہے ۔آخر بات کیا ہے ۔؟‘‘اُ س نے پو چھا۔
’’یہ بات ہے ۔‘‘میں نے اس کی کنپٹی پر گھونسہ رسید کرتے ہوئے کہا۔
’’گھونسہ کیوں مارا تم نے میرے ؟‘‘ومینکا نے پوچھا۔
’’تا کہ مجھ پر غلیل چلانے کا سبق تم کو اچھی طرح مل جائے ۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’میں نے تم پر غلیل کب چلائی ؟‘‘
’’جب میں وہاں اُس شاخ پر بیٹھا تھاَ‘‘میں نے کھڑکی میں سے ایک درخت کی طرف اشارا کیا۔
’’تم اُس شاخ پر بیٹھے تھے ۔کب ‘کیا بک رہے ہو یار ؟؟‘‘
’’میں بک رہا ہو ں؟؟اور وہ جو دو گوریّاں اس سامنے والے پیڑ پر بیٹھی تھیں اُن کو بھول گئے ۔‘‘
ومینکا آنکھیں جھپکا جھپکا کر میرے سوال کا جواب سوچ رہا تھا کہ اتنے میں میں نے ایک اور گھونسہ رسید کرتے ہوئے کہا۔
’’اور یہ رہا ایک گھونسہ تتلیوں کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے اُن کے پر نوچنے کا بدلہ اور یہ رہا چیونٹیوں کی طرف سے ۔۔۔کُدال سے اُن کا بل توڑنے کی سزا۔‘‘میں نے تیسرا گھونسہ مارتے ہوئے کہا۔اس کے بعد میں نے دو تین گھونسے اور جمائے ،اس کی جیب سے غلیل گھسیٹی اور میشا اور مالی نن کے پاس اوپر بھاگ گیا ۔
’’بارن کن !‘‘نیچے سے ومینکا کی آواز آئی ۔
’’کیا ہے ؟‘‘
’’میری سمجھ میں ابھی تک کچھ نہیں آیا !‘‘
’’جب انسان بنو گے تب تمہاری سمجھ میں سب کچھ آ جا ئے گا ۔‘‘میں نے زینے کے جنگلے پر سے جھانکتے ہوئے جواب دیا ۔
چھتیسواں واقعہ:انسان ہی رہنا سب سے اچّھا
اس دن ہم میشا سے لگاتار چار گھنٹے تک پڑھتے رہے ۔آخر کار میشا نے ہم سے کہا۔
’’تھک تو نہیں گئے ہو تم لوگ ؟تھک گئے ہوتو ذرا آرام کر لو۔‘‘
’’نہیں ہر گز نہیں ۔ہم بالکل نہیں تھکے ہیں ۔کام چوری مت کرو میشا !‘‘ہم دونوں نے چلا کر کہا۔
’’کام چوری کون کر رہاہے ۔؟میشا نے حیرت سے کہا اور اگلا سوال سمجھانے لگا۔اُ س نے پچھلے تمام سوال ایک با رپھر سمجھائے ۔ اُس کے بعد ہمارا چھوٹا سا امتحان لیا اور میز پر سر ٹکا کر بھاری آوازمیں کہنے لگا کہ پڑھاتے پڑھاتے اب اس کا گلا بیٹھ گیا ہے اور وہ تھک کر چور ہو چکا ہے ۔
میشا کی یہ حالت دیکھ کر ہم دونوں نے کتابیں کاپیاں بند کیں اور کُدال لے کر باغ میں پہنچ گئے اور میشا کے ساتھ پودے لگانے لگے ۔اس لیے کہ دماغی محنت کے بعد جسمانی محنت کرنے سے دل اور دماغ دونوں کو آرام ملتا ہے ،طاقت ملتی ہے ۔
باغ میں سب سے پہلے ہمیں الیک نظر آیا۔وہ پورے وقت ایک پیڑ کی آڑ میں بیٹھا ہماری نگرانی کرتا رہا تھا تا کہ ہم پڑھائی سے گھبرا کر بھاگ نہ سکیں ۔الیک نے جب میشا سے یہ سنا کہ ہم دونوں یعنی میں اور مالی نن اپنی مرضی سے باغ میں کام کر نے آئے ہیں تو اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ اپنا کیمرہ لے کر ہمارے پیچھے دوڑا اور کام کرتے ہوئے ہماری کئی تصویریں لے ڈالیں ۔
پودے لگانے کے بعد ہم نے ان کی سینچائی شروع کر دی ۔میشااور مالی نن تھک کر بے حال ہو گئے تھے ۔اب کوئی اور کام باقی نہ رہ گیا تھا اس لیے میشا اور مالی نن گھر کی طرف چل دیے ۔میں پھر آکر بنچ پر بیٹھ گیا اور اسکول میں دیا ہوا ہوم ورک کر تارہا ۔یہاں تک کہ بنچ پر بیٹھے بیٹھے مجھے نیند آ گئی اور میں بے خبر سو گیا ۔
دوسرے دن صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں اپنے پلنگ پر موجود تھا ۔شاید رات کو ابّو نے گود میں اٹھا کر مجھے بستر پر لٹا دیا ہو گا۔
آج میں بہت تڑکے ہی اٹھ گیا سارا گھر ابھی سو رہا تھا۔میں نے اپنا بستر خود تہہ کیا ۔ناشتہ کیا، اسکول کی کتابیں سنبھالیں اور دبے پاؤں گھر سے نکلا اور اسکول کی طرف تیزی سے روانہ ہوگیا ۔میں چاہتا تھا کہ آج میں بہت پہلے، سب سے پہلے اسکول پہنچ جاؤں اور ہوا بھی یہی ۔میرے تمام ہم جماعت میشا،الیک ،زینا،مالی نن ۔۔۔سب کے سب ابھی اپنے اپنے گھروں میں سوئے پڑے تھے اور میں ۔۔۔میں اسکول کھلنے سے پورے دو گھنٹے پہلے اسکول کے پھاٹک کے پاس موجود تھا ۔اس سے پہلے پوری دنیا میں شاید ہی کوئی لڑکا یا لڑکی اتنے منہ اندھیرے اسکو ل آیا ہو گا ۔اس بات پر میں بڑا فخر محسوس کررہا تھا۔
لیکن ذرا سو چیے تو کہ مجھے کتنی حیرت ہوئی ہو گی جب اسی وقت بنفشے کی جھاڑیوں کے پیچھے سے ایک سایہ بڑھتا نظر آیا ۔میں ٹھٹک گیا ۔آنے والا شخص بھی رُک گیا ۔میں نے تین قدم اسکول کی عمارت کی طرف بڑھائے وہ بھی تین قدم آگے بڑھا ۔اب میں دبے پاؤں دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔اُس شخص نے بھی ایسا ہی کیا ۔میں نے ایک جھاڑی میں سے سر نکالااور جھانک کر دیکھا۔اُ س نے بھی ایسا ہی کیا ۔اب ہم دونوں بہت قریب آ چکے تھے اور ایک دوسرے کو غور سے دیکھ رہے تھے ۔مگر دُھند لکا ہونے کی وجہ سے پہچان نہیں پا رہے تھے ۔آخر میں میں اُکتا گیا۔
’’مالی نن !؟‘‘میں نے اندازہ لگاتے ہوئے پو چھا۔
’’کہو۔‘‘جواب ملا۔
’’اتنے سویرے یہاں کیا کرر ہے ہو ؟‘‘
’’اور تم اتنے سویرے یہاں کیا کر رہے ہو ؟‘‘مالی نن نے پو چھا۔
’’میں تو بس ایسے ہی آگیا ۔‘‘
’’میں بھی بس ایسے ہی آ گیا ۔‘‘مالی نن نے جواب دیا ۔
’’اوہو ۔۔۔۔۔۔تو یہ بات ہے ۔‘‘ہم دونوں ایک ساتھ بولے ۔
بلّی کی طرح آہستہ آہستہ دبے پاؤں ہم دونوں سیڑھیوں پر چڑھے اور اسکول کے پھاٹک کے دروازے کے ٹھنڈے شیشوں پر اپنے چہرے چپکا دیے اور خاموشی سے دروازہ کھلنے اور اندر داخل ہو نے کا انتظار کر نے لگے ۔
ایک دوسرے کی طرف دھیان دیے بغیر ہم چپ چاپ کھڑے رہے ۔اس وقت ہم دونوں میں سے کسی کوبھی یہ اندازہ نہ تھا کہ اب سے صرف دو گھنٹے بعد ایسے انوکھے واقعا ت پیش آئیں گے جو ساری کلاس بلکہ سارے اسکول کو بھونچکا کر کے رکھ دیں گے ۔
اوّ ل یہ کہ اب سے ٹھیک دو گھنٹے دس منٹ بعد ہماری ٹیچر ،نینا کلاس میں داخل ہوتے ہی مجھے بلیک بورڈ پر بلالیں گی اور مجھ سے تتلیوں کی قسموں اور اُن کی زندگی کے بارے میں سوال کریں گی اور میں تتلیوں کے ایک ماہر کی طرح سب حالت فر فر بتا دو ں گا اور اُن کو سُن کر نینا تعجب سے کہیں گی:۔۔۔ ۔ ۔ ’’بارن کن !تم تو تتلیوں کی بارے میں سب کچھ جانتے ہو۔تم نے تو تمام حالات بڑے اچھے انداز میں بیان کر ڈالے ۔جب تم تتلیوں کے بارے میں بتا رہے تھے تو مجھے ایسا لگا کہ تمہارے اپنے کندھوں پر تتلیوں کے پر اُگ آئے ہوں ۔۔۔۔۔۔‘‘اور نینا کے اس جملے پر پوری کلاس ہنستے ہنستے بے حال ہو جائے گی لیکن میرے اور مالی نن کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہ آئے گی اور ہم دونوں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنے اپنے ڈسکوں پر خاموشی سے بیٹھے رہیں گے ۔
دوسرے یہ کہ دو دن بعد جیومیٹری کی جانچ میں ہم دونوں کے ’’انتہائی خراب نمبر ‘‘اچھے نمبروں میں تبدیل ہو جائیں گے ۔
تیسرے یہ کہ تین روز بعد کلاس کی مانیٹر زینااعلان کرے گی کہ بارن کن اور مالی نن اب تک کسی عجیب خطر ناک بیماری میں مُبتلا تھے مگر اب ٹھیک ہو چکے ہیں او رجلد ہی ان کو ا س بیماری سے چھُٹکارا مل جائے گا ۔
چوتھے یہ کہ چند دن کے اندر ہی بی زینا اپنا وقت بات بے بات’’انسان بنو بارن کن ‘‘کا وظیفہ اچانک بند کر دیں گی ۔
پانچویں یہ کہ پندرہ دن بعد ابّو حسب معمول میری اسکول کی رپورٹ دیکھیں گے مگر اس بار ڈانٹنے کے بجائے خاموش رہ جائیں گے اور اپنا ایک کندھا اُچکا کر حیرت کے ساتھ امّی کو دیکھیں گے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو کچھ کہیں گے ۔
چھٹے یہ کہ ٹھیک ایک مہینے بعد ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔لیکن ذرا ٹھہریے ۔ہیڈ ماسٹر صاحب والا واقعہ تو ایک مہینے بعد ہوگا اور ایک مہینہ ابھی بہت دو رہے ۔ابھی تو صرف دس منٹ گزرے ہیں ۔۔۔صرف دس منٹ ۔۔۔جب سے ہم اسکول کے دروازے پر کھڑے ہیں اور انتظار کر رہے کہ دروازہ کھُلے اور ہم اسکول میں ۔۔۔اپنے اسکو ل کے اندر جائیں ۔