خاص درخت
شازیہ نور
۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو درختوں کی بہت ساری اقسام ہیں، لیکن آج ہم آپ کو کچھ خاص الخاص درختوں کے بارے میں بتاتے ہیں:
شجر ممنوعہ:
سب سے پہلے تو ہے شجر ممنوعہ یعنی وہ درخت جس کا پھل کھانا منع تھا۔ یہ درخت سب سے پہلے کہاں لگا کس نے لگایا اور کیوں اس کا پھل کھانا منع تھا؟
ان سوالات کے جواب میں عرض ہے کہ یہ درخت جنت میں لگایا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور اماں حوا کومنع فرمایا تھا کہ اس درخت کے پھل کو نہ کھانا ۔
شیطان (ابلیس) جنت سے نکالا جاچکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ملعون قرار دے دیا تھا کیوں کہ اس نے اللہ کا حکم نہیں مانا تھا۔ اب شیطان نے چال چلی کہ جیسے اللہ کی بات نہ ماننے کی وجہ سے اسے جنت سے نکالا گیا، وہ ایسے ہی حضرت آدم علیہ و علیٰ نبینا اور اماں حوا کو بھی جنت سے نکلوائے گا۔ اسے یہ تو معلوم ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اِن دونوں کو اِس خاص درخت کے پاس جانے اور کھانے سے منع فرمایا ہے، پس اُس نے ان دونوں کو بہکانا شروع کردیا کہ کھالو، یہ پھل کھالو، تم ہمیشہ جنت کے مکین رہو گے اور اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا رہے گا۔ بار بار کے بہکاوے نے دونوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ابلیس بھلا کیوں انھیں غلط پٹی پڑھائے گا۔ سچ ہی کہہ رہا ہوگا، سو انھوں نے بھول کر اس درخت کا پھل چکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے تو وہ درخت امتحان کے لیے لگایا تھا۔ اب وہ دونوں تو کر بیٹھے خطا۔ اللہ میاں ناراض ہو گئے کہ میری بات کیوں نہ مانی اور شیطان کے بہکاوے میں کیوں آئے۔ سو اللہ میاں نے اُن دونوں کو جنت سے زمین پر اتاردیا۔
اب تو ان دونوں کو بہت ہی دکھ، افسوس اور پچھتاوا ہوا کہ واقعی جب اللہ نے منع کیا تھا تو کیوں ابلیس کی بات مانی۔ اب وہ رونے لگے۔ بہت روئے، کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں،لیکن اللہ تو کریم و رحیم ہے، اس نے انھیں سکھایا کہ اپنی غلطی کو مان کر اب یہ الفاظ ادا کرو تو اللہ معاف کردے گا۔ حضرت آدم و حوا علیہم السلام نے وہ الفاظ ادا کردیے۔ بہت دل اور یقین کے ساتھ، امید و عاجزی کے ساتھ۔ اللہ نے انھیں معاف کردیا مگر جنت میں واپسی کے لیے کچھ شرائط رکھ دیں ۔وہ یہ کہ دنیا میں کی جو تھوڑی سی زندگی ملی ہے، اس میں اللہ کے احکام کی پیروی کرو تو پھر جنت کا داخلہ مل جائے گا اور سمجھایا کہ ابلیس اور اس کی اولاد کی مکاریوں، وسوسوں اور غلط خواہشات سے بچ کر رہنا۔
تو حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بھی بہت سے شجر ِممنوعہ ہیں اور اولادِ آدم کو معلوم بھی ہے کہ وہ کون سے” درخت“ ہیں مگر یہاں بھی وہی غلطیوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہاں بھی اللہ نے توبہ کے دروازے کھولے ہوئے ہیں کہ جلد از جلد اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں سے ندامت کے ساتھ توبہ کرلو اور وہی الفاظ کہ جن سے حضرت آدم و حوا کی بخشش ہوئی تھی اولادِ آدم کو بھی سکھادیے:
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین۔
”اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم خسارہ پانے والوں میں ہوجائیں گے۔“
جنت کے درخت:
جنت میں بہت ساری نعمتیں اور بہت سارے درخت ہوں گے۔ کتنی خوب صورت بات ہے کہ جنت میں ہم اپنے درخت یہاں زمین پر رہ کربھی لگاسکتے ہیں….!
سیدنا عبداللہ بن مسعود tسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میری ملاقات حضرت ابراہیم u سے ہوئی۔ انھوں نے کہا: اے محمد!( صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی امت کو میری طرف سے سلام پیش کرنا اور انھیں بتادینا کہ جنت کی مٹی پاکیزہ اور عمدہ ہے، اس کا پانی میٹھا ہے اور وہ ایک چٹیل میدان ہے اور سبحان اللہ، الحمدللہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور لاحول ولا قوة الا باللہ کہنا وہاں درخت لگانا ہے۔“
سبحان اللہ! کتنا آسان طریقہ ہے۔ شجر ممنوعہ سے بچتے ہوئے اگر ہم اِن اذکار کی کثرت کریں تو جنت میں ہمارے لیے لاتعداد درخت لگتے چلے جائیں گے۔
ویسے تو جنت میں بے شمار پھلوں کے درخت ہوں گے، البتہ اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ چند پھلوں کا ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً زیتون، کھجور، انجیر، انگور، کیلا، سیب، انار وغیرہ۔
طوبیٰ:
جنت میں ایک درخت طوبیٰ نام کا بھی ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”طوبیٰ جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے خوشوں سے جنتیوں کے کپڑے نکلیں گے اور اس کی مسافت سو برس ہے۔ (صحیح الجامع)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں گھڑ سوار سو برس تک بھی چلتا رہے تو وہ ختم نہیں ہوگا…. اور اگر تم چاہتے ہو تو اللہ تعالی کا فرمان پڑھو:وظل ممدود (اور لمبا سایہ )۔“ (صحیح بخاری)
شجرِطیبہ:
قرآن میں شجر طیبہ کا بھی ذکر آیاہے جو کلمہ طیبہ کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے اور اس کی مثال کھجور کے درخت کے مانند دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے:
”کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ کلمہ کی مثال کس طرح بیان فرمائی ہے۔ پاکیزہ کلمہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔“ (سورہ¿ ابراہیم)
ساری درج بالا باتوں سے کیا سمجھ میں آیا کہ خود کو کھجور کے درخت کی طرح بنائیں اور پھر جنت کے تمام درختوں کے پھل کھائیں۔ دنیا میں خود کو شجرِ ممنوعہ (شرک، جھوٹ، لالچ، غیبت، حرام، تکبر، حسد وغیرہ) سے بچائیں، ورنہ جہنم میں زقوم کا کانٹوں بھرا، سخت، کڑوا درخت کھانے کو ملے گا کیوں کہ زقوم کا درخت گناہ گار کا کھانا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں جنت کے درختوں کے پھل نصیب فرمائے ، آمین!
٭٭٭