خرگوش کی شرارت
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔
میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں نیلے پھول والی بوٹی ڈھونڈتی پھر رہی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
بہت دن گزر گئے کچھوے اور خرگوش کی ملاقات نہ ہوئی۔ جس نہر میں کچھوے کا قیام تھا اس کے خشک ہونے پر اسے نقل مکانی کرنی پڑی۔ خرگوش کو بھی اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا۔ دونوں مخالف سمتوں میں دور ہو گئے۔ خرگوش کچھوے سے ملنے کیلئے بے قرار تھا لہٰذا جب اسے معلوم ہوا کہ کچھوا پہاڑوں کے دوسری طرف ایک جھیل میں رہ رہا ہے تو اس سے رہا نہ گیا۔ وہ ایک دن اس سے ملنے کے لیے چل دیا۔ سفر لمبا تھا لیکن خرگوش کو کوئی فکر نہ تھی۔ وہ صبح سویرے روانہ ہوا اسے یقین تھا کہ شام تک واپس آجائے گا۔
موسم اچھا تھا۔ شکاری جانوروں کا بھی دور دور تک پتا نہ تھا۔ خرگوش مزے سے قلانچیں بھرتا دوڑ رہا تھا۔ اچانک ایک خشک پہاڑی نالے میں اس کا سامنا جنگلی بلی سے ہو گیا۔ بلی کو دیکھ کر وہ ڈر گیا لیکن بلی نے اس پر توجہ نہ دی ۔ وہ آہستہ تھکی تھکی چلی آرہی تھی۔ قریب آنے پر خرگوش نے دیکھا کہ وہ بہت کمزور اور بیمار ہے۔ خرگوش کو اس سے کوئی خاص خطرہ نہ تھا۔
” کہاں جارہے ہو؟“ بلی نے کمزور آواز میں پوچھا۔
”اپنے دوست کچھوے سے ملنے جا رہا ہوں اور تم کدھر چلیں؟“خرگوش نے پوچھا۔
” میری طبیعت ٹھیک نہیں کسی نے بتایا تھا کہ اس علاقے میں ایک خاص بوٹی اگی ہے جس میں نیلے پھول لگتے ہیں وہ ڈھونڈتی پھر رہی ہوں۔ بھائی خرگوش کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟“ بلی نے پوچھا۔
خرگوش فوراً سمجھ گیا اسے معلوم تھا نیلے پھول والی بوٹی کہاں اگی ہے وہ اسے پتا سمجھانے لگا لیکن اسے شرارت سوجھی اور اس نے بلی کو جنوب کے بجائے مخالف سمت شمال کی طرف بھیج دیا۔ بلی شکریہ ادا کرتے ہوئے روانہ ہو گئی۔ خرگوش مکاری سے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
دوپہر تک وہ پہاڑوں کے پار جھیل پر پہنچ گیا۔ جھیل پیالے کی شکل میں تھی۔ اس کا شفاف پانی دھوپ میں چمک رہا تھا، ڈھلوانوں پر گھاس اگی تھی جن پر رنگ برنگے پھولوں کی جھاڑیاں نظر آرہی تھیں، لمبے درخت بھی جھیل پر جھک آئے تھے ان کا عکس پانی میں بہت حسین لگ رہا تھا۔ سفید آبی پرندے بھی پانی پر نظریں جمائیں شکار کی تلاش میں ایک ٹانگ پر کھڑے تھے۔
خرگوش کو وہ جگہ بہت پسند آئی لیکن کچھوے کا کچھ پتا نہ تھا ۔ خرگوش پانی کے کنارے چلا آیا اور اسے آوازیں دینے لگا۔ کچھوا نہر میں آرام کررہا تھا اس تک خرگوش کی آواز نہ پہنچی۔ خرگوش انتظار کرتا رہا لیکن کچھوا باہر نہ آیا تو خرگوش نے سوچا کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔ ایک درخت کے نیچے ڈھیروں سوکھے پتوں سے ایک نرم بستر سا بن گیا تھا۔ خرگوش اس پر لیٹ گیا۔ جھومتے درختوں اور جھیل کے شفاف پانی سے ہو کر آتی خوشگوار ہوا نے جلد ہی اسے سلا دیا اور وہ خواب خرگوش کے مزے لینے لگا۔
تھوڑی دیر بعد کچھوے نے پانی سے گردن باہر نکالی اور کنارے پر خرگوش کو سوتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسے بہت خوشی ہو رہی تھی۔ وہ باہر چلا آیا۔ خرگوش ابھی تک سویا ہواتھا، اس نے خرگوش کو اٹھانا چاہا لیکن پھر خیال آیا اتنی دور سے چل کر آیا ہے کچھ آرام کرکے خود جاگ جائے گا۔ چنانچہ وہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ کچھوے نے محسوس کیا کہ جھیل کا پانی کناروں سے باہر آرہا ہے۔ دراصل پہاڑوں پر بارشیں شروع ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے اکثر پانی کے ریلے جھیل میں آگرتے تھے۔ کچھوا خرگوش کو ہوشیار کرنے بڑھ ہی رہا تھا کہ پانی کی زبردست چھال آئی اور پانی اس تک آپہنچا۔ وہ پانی میں تیرنے لگا لیکن یہ دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہو گیا کہ خرگوش بھی پانی کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ دراصل خرگوش جن پتوں پر سویا ہوا تھا ان کے نیچے ایک ٹوکرا دبا تھا جو اب کشتی کی طرح تیر رہا تھا۔ لہریں ٹوکرے کو گہرے پانی کی طرف لے جا رہی تھیں، حیرت انگیز طور پر خرگوش ابھی تک سویا ہوا تھا۔ کچھوا گھبرا گیا۔ وہ جانتا تھا کہ خرگوش تیرنا نہیں جانتا۔ وہ ٹوکرے کے ساتھ ساتھ تیرنے لگا۔ ساتھ ہی دعا بھی کررہا تھا کہ ٹوکرے کا توازن برقرار رہے اسے جھیل میں موجود مگرمچھوں سے بھی خطرہ تھا۔
جلد ہی خرگوش جاگ گیا اور خود کو پانی میں بہتا دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا۔ کچھوے نے اسے تسلی دی اور ہلنے جلنے سے منع کیا۔ خرگوش کی بری حالت تھی۔ ٹوکرا پانی کے ساتھ بہے جا رہا تھا۔ کچھوے میں اتنی طاقت نہ تھی کہ اسے کھینچ کر کنارے تک لے آئے لیکن وہ مسلسل ٹوکرے کے ساتھ لگ کر تیر رہا تھا اس کی کوشش تھی کہ ٹوکرا بہنے کے ساتھ ساتھ کنارے کی طرف ہوتا رہے، آہستہ آہستہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہونے لگا۔ ٹوکرے اور کنارے کا فاصلہ کم ہوتا گیا۔ آخر ٹوکرا کنارے سے آلگا۔ خرگوش نے جلدی سے خشکی پر چھلانگ لگائی اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر ہانپنے لگا۔ کچھو ابھی اس کے پاس چلا آیا۔ خرگوش ہانپتے ہوئے بولا ” میری قسمت ہی خراب ہے، میرے ساتھ کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ “ وہ بہت جھنجھلایا ہوا تھا۔
کچھوا بولا ”دکھ تکلیف ہرجاندار پر آتے ہیں ہمےں بہادری سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ” لیکن میرے ساتھ یہ زیادہ ہی ہوتا ہے۔“ خرگوش رونی صورت بنا کر بولا۔
”یہ محض اتفاق ہے بہرحال ہمیں اپنے افعال پر نظر رکھنی چاہیے کہیں ہم دانستہ یا نادانستہ اﷲ کی مخلوق کو تکلیف تو نہیں پہنچا رہے۔ “ کچھوا بولا۔
خرگوش کو صبح والی حرکت یاد آگئی وہ شرمندہ ہو گیا۔ ندامت سے اس کی گردن جھک گئی تھی۔
” چلو چھوڑو کچھ اور بات کرو۔ تمہارے علاقے میں کیا حالات ہیں؟“ کچھوا اسکے چہرے کو پڑھتے ہوئے بولا۔
” ہمیں دو مرتبہ علاقہ چھوڑنا پڑا، انسانوں کی بڑھتی آبادی جنگل کا صفایا کررہی ہے۔“ خرگوش نے کہا۔
”ہاں …. جنگلی حیات پر بہت برا وقت آگیا ہے۔ “ کچھوا فکرمندی سے بولا۔ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے پھر خرگوش نے اجازت چاہی۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ کچھوا اسے کچھ دور تک چھوڑنے گیا۔ خرگوش اس سے گلے ملا اور دوبارہ جلد ملاقات کا وعدہ کرکے روانہ ہو گیا۔
٭….٭….٭