کھرا کھوٹا
اعظم طارق کو ہستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ لڑکا آئندہ مجھے اس گھر میں نظر نہ آئے۔ اس کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے میرا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔‘‘’’اے ہے۔۔۔ آپ بھی نا۔۔۔ بچہ ہے، سمجھ جائے گا۔‘‘ شاہدہ نے اپنے بیٹے کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔
’’میں کچھ نہیں جانتا! تم بخوبی واقف ہو کہ میں جو بات کہہ دوں وہ پتھر پر لکیرہوتی ہے۔‘‘ جہانزیب کا ناک پر دھرا غصہ آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔
’’آپ بتائیں میں کیا کروں؟ جوان اولاد کو کوئی گھر سے نکالتا ہے کیا۔۔۔ ؟‘‘ شاہدہ روہانسی ہونے لگی۔
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ تم اب آنسوبہانا شروع نہ کر دینا۔ اسے اس کی نانی ا ماں کے ہاں حیدرآباد بھیج دو۔‘‘جہانزیب اپنی بیوی کے رونے سے بڑا ڈرتا تھا۔
’’لیکن۔۔۔‘‘ شاہدہ نے کچھ کہنا چاہا مگر جہانزیب اس کی بات کاٹ کر بولا:’’مجھے مشوروں اور تجاویز کی نہیں بلکہ تعمیل کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ کہہ کروہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
میں دروازے میں کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا۔ ایک تو یہ اباکبھی مجھ سے خوش نہیں ہوں گے۔ جب سے میرے میٹرک کے امتحان ہوئے تھے وہ میرے پیچھے ہی پڑ گئے تھے کہ تم ٹیوشن رکھ لو تاکہ فرسٹ ایئر (گیارہویں) میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔
ہونہہ ۔۔۔میری ’’قیمتی فرصت ‘‘سے تو انہیں گویا چڑ تھی۔ میں نے بھی کہہ دیا تھاکہ جب تک میرا میٹرک کا رزلٹ نہیں آتا ۔۔۔میں کسی قسم کاداخلہ نہیں لوں گا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
کم از کم دو ماہ تو مجھے انجوائے کرنے دیں……. مگر وہ تو سنتے ہی نہیں۔ویسے بھی میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتا ہوں۔ صبح دس بجے سودا سلف لا کر گھر سے نکلتا ہوں اور رات دس گیارہ بجے گھر واپس آ جاتا ہوں تو اس میں برا ہی کیا ہے؟ میرے سارے دوستوں کو تو ابو ویسے ہی جانتے ہیں۔ کیا ہوا جو وہ انھیں پسند ’’نہیں‘‘ کرتے۔
اور آج تو ابو کی باتوں سے مجھے بہت غصہ آیا۔۔۔ اب تو میں بھی یہاں نہیں رہوں گا۔ یہاں سے جاؤں گا تو انہیں پتا چلے گا اور میری قدر آئے گی۔
مجھے خوب معلوم تھا کہ میر ے ابو کو میرے جگری دوست ’’کاشف‘‘ اور ’’علی‘‘ سے میری دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ میںیہی سوچتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ اور زور دار اندازسے دروازہ بند کردیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’کیا تم واقعی ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہو۔۔۔؟‘‘ علی کو میری بات پر اب تک یقین نہیں آ رہا تھا۔
’’ہاں…. میں جا رہا ہوں، لیکن تم بے فکر رہو۔ میں ایک ہفتہ کے اندر اندر لوٹ آؤں گا اور پھر موجاں ہی موجاں۔‘‘میں نے آنکھ مارتے ہوئے کہا تو وہ دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔
’’چلو جس دن تم واپس آؤگے۔ اس دن اکٹھی چار پانچ فلمیں دیکھیں گے۔‘‘
کاشف نے ایک خوب صورت پیشکش کرتے ہوئے کہا۔ جسے ٹھکرانا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ ’’اب تو میں گیا اور آیا۔‘‘
ہم تینوں نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ مگر جلد ہی میرے اس قہقہے کو بریک لگ گئے۔ میرے والد آچکے تھے۔
’’چلو شاہ زیب تمھاری گاڑی کا وقت کم رہ گیا ہے۔‘‘ انہوں نے علی اور کاشف سے ہاتھ ملانے کے بعد مجھے مخاطب ہو کر کہا۔ مجھے ابو کی یہی بات اچھی لگتی ہے کہ انہوں نے کبھی مجھے دوستوں کے سامنے نہیں ڈانٹا۔۔۔ میں اپنے دوستوں کو اﷲ حافظ کہتا ہوا اپنی مطلوبہ گاڑی میں حیدرآباد کے لیے روانہ ہوگیا۔
آج صبح سے ہی موسم سرد تھا۔ اس لیے امی نے مجھے نا صرف موٹے کپڑے پہنائے تھے بلکہ ایک جرسی کے اوپر جیکٹ بھی دے دی تھی۔ کراچی کاموسم بھی بے تکاسا ہے۔۔۔بندہ سوچتا ہے کہ صبح گرم گرم مونگ پھلی والی ریڑھی نکالے یا قلفی بیچے ۔۔۔اور اسی مخمصے میں دن گزر جاتا ہے۔
رات نوبجے تک میں حیدرآباد پہنچ جاؤں گا۔ اگر گاڑی مناسب رفتار سے سفر طے کرے۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہو ئے سوچا ۔
میرے ساتھ والی سیٹ پر میری ہی عمر کا ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا قد کاٹھ بالکل میرے برابر تھا۔ سفید رنگ کا کاٹن میں نے بھی زیب تن کیاہوا تھا اور اس نے بھی سفید کپڑے پہن رکھے تھے۔ چلو شکر ہے سفر تو اچھا گزرے گا۔ میں نے سکون کا سانس لیا۔ سردی سے اس کے دانت بج رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں ہی میں اور وہ گھل مل گئے۔ وہ کراچی سے حیدرآباد اپنے ایک دور کے رشتہ دار کے پاس کام کے سلسلے میں جا رہا تھا۔ وہ اس دنیا میں اکیلا تھا اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہا تھا۔ اس وقت تک میں نے ازراہِ ہمدردی اپنی جیکٹ بھی اُسے دے دی تھی ۔ گاڑی کراچی سے نکل چکی تھی۔ تمام مسافر یا تو سو رہے تھے یا پھر ایک دوسرے سے کھسر پھسر کے انداز میں گفت و شنید میں مصروف تھے۔
اچانک گاڑی ہوا میں اچھلی اور ایک زور دار دھماکہ ہوا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے جسم کے ہزاروں ٹکڑے فضا میں بکھر گئے ہوں۔ دوسرے لمحے میرا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلاگیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو ایک ہسپتال کے کمرے میں موجود پایا۔ نرس اور ڈاکٹروں کی معلومات کے مطابق ہماری گاڑی کو خوفناک حادثہ پیش آیا اور وہ گاڑی لاہور سے آنے والے ایک تیز رفتار ٹرالر سے ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجے میں ۵۵مسافروں میں سے ۱۵؍ہلاک اور باقی سب زخمی ہیں۔ جب کہ میں معمولی زخمی تھا۔ مجھ پر یہاںیہ انکشاف بھی ہوا کہ میں دو دن بے ہوش رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے مجھے گھر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ اب تک میرا کوئی پوچھنے والا کیوں نہیں آیا۔
خوف اور ڈر کی کیفیت مجھ پر طاری تھی۔ والدین کی نافرمانی، فضول گھومنا پھرنا۔۔۔ ایک ایک منظر مجھے اپنے گناہوں کا احساس دلا رہا تھا۔ اگر میں یوں ہی مر جاتا تو اپنے رب کو کیا جواب دیتا۔ میرے والدین مجھے نماز کا کہتے مگر مجھے تو کاشف اور علی کے ساتھ فلمیں دیکھنے سے فرصت نہیں تھی۔ خوف ودہشت سے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر جو لڑکا بیٹھا تھا وہ اس حادثے میں ہلاک ہو چکا تھا۔ میں نے گھر جانے کے بجاے نانی کے گھر کوترجیح دی۔ میں نانی کے گھر پہنچا تو وہاں ایک اور دل دہلا دینے والی خبر میری منتظر تھی۔ میرے ساتھ سیٹ پر بیٹھا ہولڑکا (ماجد) جسے میں اپنی جیکٹ دے چکا تھا۔ میرے گھر والے اسے میرے دھوکے میں شاہ زیب سمجھ بیٹھے تھے اور اسے کفنا دفنا چکے تھے۔میری مامی نے بتایا کہ بڑے ماموں اور نانی کراچی ہمارے گھر گئے ہوئے ہیں۔
’’تمھاری ماں کا تو رو رو کر برا حال ہوگیا ہے اور تمھارے والد۔۔۔ کچھ مت پوچھو ۔۔۔وہ خود کو کوستے رہتے ہیں کہ میں نے تمھیں کیوں جانے دیا‘‘
یہ سب انکشافات سن کر میرے جسم سے جان ہی نکل گئی تھی۔ میں نے فوراً گھر والوں کو فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور ابو ۔۔۔وہ تو خوشی سے رو پڑے تھے۔ امی نے فون پر روتے ہوئے مجھ سے ڈھیروں باتیں کیں۔ امی سے باتیں کرتے ہوئے میں نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا: ’’امی! علی اور کاشف میرے نقلی جنازے میں آئے تھے؟‘‘ ان کا جواب نفی میں تھا۔ مجھے سخت صدمہ ہوا۔ امی سے بات کرنے کے بعد میں نے ایک خیال کے تحت کاشف کو فون ملایا۔ دوسری طرف کاشف ہی تھا۔ددد
’’ میں علی بول رہا ہوں۔۔۔‘‘ میں نے اپنی آواز حتی المقدور بدلنے کی کوشش کی ۔جس میں مجھے کافی حد تک کامیابی بھی ہوئی۔
’’ہاں بول۔۔۔ ‘‘ کاشف نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔
’’یار وہ شاہ زیب کے جنازے میں نظر نہیں آئے تم؟‘‘
’’یار میں نے کوشش تو کی تھی مگر میرے کزنز آگئے تھے جن کے ساتھ مجھے نئی فلم دیکھنے سینما جانا تھا۔‘‘
کاشف کی بات سن کر میر اخون کھول اٹھا۔ میں نے مزید کچھ کہے بغیرفون بند کر دیا۔ علی کو فون کیا تو وہ اپنی پھوپھو کے لڑکے کی شادی میں شرکت کی وجہ سے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا تھا۔ ان دونوں جگری دوستوں کی باتیں سن کر میرے دل پر جیسے کسی نے کند چھری پھیر دی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے ابو کی روتی ہوئی آواز یاد آئی تو احساس ہوا کہ واقعی والدین کبھی اپنی اولاد کا بُرا نہیں چاہتے۔ آج مجھے کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہو گئی تھی۔ اس حادثے نے مجھے ایک اور بہت بڑے حادثے سے بچا دیا تھا۔جو قبر میں اترنے کے بعد وقوع پذیر ہوتاہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*