خیر الدین باربروسا
خیر الدین کا اصلی نام خضر تھا۔ وہ ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کے قریب ایک چھوٹے سے جزیرے میں پیدا ہوا۔ اس کے والد یعقوب نے چند کشتیاں بنا رکھی تھیں جن میں تجارتی مال لاد کر جا بجا پہنچاتا۔ والد کی وفات کے بعد خیر الدین اپنے تین بھائیوں کے ساتھ اجرت پر کشتیاں ہی چلاتا رہا۔ پھر انہوں نے چھوٹے چھوٹے جہازوں کا بندوبست کرکے تونس میں سکونت اخیتار کرلی جہاں فرنگستانی قزاقوں کے مقابلے میں غیر فانی شہرت حاصل کی۔ 1530ء میں سلطان سلیمان نے اسے قسطنطنیہ بلالیا۔
چار سال کی محنت کی بعد اس نے اپنی نگرانی میں ایک بیڑا تیار کرایا اور اسے لے کر 1534ء میں آبنائوں سے گزرتا ہوا بحیرہ روم میں جا پہنچا۔ وہ آبنائے سینا تک بڑھا چلا گیا۔ لیکن کسی کو مقابلے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس زمانے میں یورپ والے آندریہ دوریا کو بہت بڑا بحری کماندار مانتے تھے۔ چنانچہ کسی بادشاہوں نے ایکا کرکے ایک بیڑا دوریا کی کمان میں دے دیا کہ خیر الدین کا مقابلہ کرے۔ اس وقت عثمانی فوجیں بلقان میں لڑ رہی تھیں۔ خیر الدین نے جب سنا کہ دوریا مقابلے کے لیے نکلا ہے تو وہ ایک سو پینتیس جہازوں کا بیڑا لے کر بلا خطر بحیرہ ایڈریاٹک میں داخل ہوگیا، جہاں دوریا دبا بیٹھا تھا۔ خیر الدین نے فوج بلقانی ساحل پر اتاردی۔ مگر دوریا کو مقابلے پر آنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
اس زمانے میں ترکی بیڑے ی دھاک ہر طرف بیٹھی ہوئی تھی۔ 1539ء میں فرانس کے بادشاہ نے سلیمان سے امداد طلب کی۔ سلطان نے خیر الدین کو بھیج دیا۔ وہ اٹلی کے ساحلی علاقوں پر گولے برساتا ہوا مرسائی پہنچ گیا جو جنوبی فرانس کی مشہور بندر گاہ ہے۔ شاہ فرانس نے حکم دے دیا کہ جب تک ترکی بیڑا مرسانی میں موجود ہے، کسی گرجے میں گھنٹہ نہ بجایا جائے، 1546ء میں خیر الدین نے وفات پائی۔ جنازہ اٹھا تو سارے جہاز سلامی کی توپیں داغ رہے تھے، مدت تک یہ دستور رہا کہ جب ترکی بیڑا باہر جاتا یا باہر سے واپس آتا تو خیر الدین کی قبر کے سامنے پہنچتے ہی سلامی کی توپیں سر کی جاتی تھیں۔