خیر اندیش
سیما صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ایک خیر اندیش کی کہانی۔۔۔پھر ہوا یوں کہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جی دراصل گرتے وقت ذہن حاضر نہ تھا۔۔۔ ورنہ بائیں کروٹ ہی گرتا۔۔۔ بہرحال اب اس سلسلے میں کیا کیا جاسکتا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں، جو کرنا تھا وہ تو آپ کر ہی چکے ہیں۔۔۔ ویسے برخوردار یہ سب ’’ہوا کیسے؟‘‘
’’گرگیا تھا!‘‘
’’گرگیا تھا۔۔۔ کمال ہے۔۔۔ کیسے؟‘‘
’’کام سے جارہا تھا۔۔۔ سڑک پہ پاؤں مُڑ گیا۔‘‘
’’پاؤں مُڑگیا۔۔۔ ضرور آپ نے اُونچی ایڑی کے کوئی بے ڈھب سے جوتے پہنے ہوں گے۔۔۔ آج کل لڑکوں میں بھی یہ فیشن چل پڑا ہے۔‘‘
’’جی نہیں!!‘‘
’’ارے تو صاحب پتا تو چلے کہ آخر پاؤں مُڑا کیسے؟‘‘
’’جی۔۔۔ بس اندھیرے میں نظر نہیں آیا۔۔۔ سڑک پر شاید اسپیڈ بریکر تھا۔‘‘
’’شاید۔۔۔!! گویا آپ کو یقین نہیں کہ وہاں اسپیڈ بریکر تھا بھی یا نہیں۔۔۔ حد ہوگئی بے نیازی کی۔۔۔ اور میاں جب آپ کی نظریں اتنی ہی کمزور ہیں تو جناب کو چشمہ لگانے میں کیا شرم آتی ہے؟ میں تو کہتا ہوں ابھی بھی وقت ہے چشمہ بنوالیں ورنہ دوسرا بازو بھی تڑوا بیٹھیں گے۔ ہمدردانہ مشورہ ہے اسے مذاق نہ سمجھیں۔۔۔ زندگی کو سنجیدگی سے لیجیے۔‘‘
’’جناب! میری آنکھیں بالکل روشن ہیں، اندھیرا سڑک پہ تھا، بس پاؤں مُڑ گیا۔‘‘
’’ارے میاں!! آپ کو اسپیڈ بریکر پر اپنی رفتار ہلکی کردینی چاہیے تھی۔ اسپیڈ بریکر کا ترجمہ یہی ہے کہ اسپیڈ کو بریک دیں۔ پڑھے لکھے آدمی ہیں مگر یہ خیال نہیں رکھا۔ اب دیکھیں نا!! آپ کی ذرا سی بے پروائی سے کتنا تکلیف دہ حادثہ ہوگیا۔۔۔‘‘
’’تکلیف دہ!!‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ تکلیف دہ۔۔۔ تکلیف تو ہوئی نا!!‘‘
’’تکلیف مجھے ہوئی!‘‘ (قدرے رُکھائی سے)
’’جی ہاں!! آپ کو ہی ہوئی۔۔۔ مگر آپ کا پلستر سے جکڑا ہوا بے بس سا ہاتھ دیکھ کر ہمیں بھی ہوئی۔۔۔ آپ ضرور اِدھر اُدھر دیکھتے، سیٹی بجاتے، گنگناتے ہوئے چل رہے ہوں گے، یہ بھی آج کل کے لڑکوں کی خاص اَدا ہے۔‘‘
’’مجھے سیٹی بجانی آتی ہے نا گنگنانا۔۔۔ میرے خیال میں گر پڑنے کے لیے یہ ضروری نہیں۔۔۔ میں بالکل سامنے دیکھ کر شرافت سے چل رہا تھا۔‘‘
’’سامنے دیکھ کر؟ یہ تو آپ کی نادانی ہے۔ کم از کم آپ کو نیچے تو دیکھنا ہی چاہیے تھا۔ اگر ایک آدھ نظر نیچے بھی ڈال لیتے تو اتنا لمبا چوڑا اسپیڈ بریکر نظر آہی جاتا۔‘‘
’’جناب آپ یقین رکھیے کہ میں آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے ہر طرف دیکھ رہا تھا۔‘‘
’’کیا!!! یہ تو عجیب بات بتائی آپ نے۔۔۔ آپ اوپر نیچے ہر طرف دیکھ رہے تھے تو آخر چل کب رہے تھے؟‘‘
’’میں پیروں سے چلتا ہوں۔۔۔ نظروں سے نہیں!‘‘
’’ہوں!!‘‘ (پُرخیال انداز میں ہنکارہ بھرتے ہوئے) گویا قدم اور نظر میں عدم مطابقت کے باعث ہی آپ گر پڑے۔ ویسے احتیاطاً پورے جسم کا مکمل میڈیکل چیک اپ تو کرالیا تھا نا؟
’’جی نہیں!!!‘‘ (قدرے بے زاری سے)
’’جی نہیں!! غضب خدا کا۔۔۔ ارے کہیں آپ کو اندرونی چوٹیں نہ آئی ہوں۔۔۔ ہمارے ایک جاننے والے نے یہی بے پروائی کی تھی، چوٹیں اندر ہی اندر سڑتی رہیں اور پورے جسم میں سیپٹک ہوگیا۔۔۔ پچھلے سال ہی ان کا انتقال ہوا ہے۔‘‘
’’انتقال!!‘‘ (تھوک نگل کر) ’’جناب اس سے کچھ کم دردناک واقعات آپ کے حاضر اسٹاک میں موجود نہیں؟‘‘
’’دیکھیے میرا مقصد آپ کو ہراساں کرنا نہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ احتیاط بہت ضروری ہے۔ اول تو آدمی کو سنبھل کر چلنا چاہیے اور اگر گر ہی جائے تو مکمل علاج کرانا چاہیے، کیونکہ ہڈی میں صرف ہڈی ہی نہیں، گودا بھی ہوتا ہے، ہڈی کا کوئی بھی کونا ٹوٹ کر بھی اندر رہ سکتا ہے۔ کیا سمجھے؟‘‘
گویا! آپ کو اندیشہ ہے کہ ڈاکٹر گودے اور چورے کی موجودگی کے بارے میں لاعلم ہوگا؟‘‘
’’ہاں!! آج کل کے ڈاکٹروں کا کیا بھروسہ۔۔۔ اگر آپ ذرا محتاط ہوتے تو یہ حادثہ ہی نہ ہوتا!‘‘
’’محترم! میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں کہ میں پوری احتیاط اور سو فیصد ذمہ داری کے ساتھ چل رہا تھا۔‘‘
’’میاں! ہم نے اسپیڈ بریکر سے گاڑیاں اُلٹتے تو دیکھی تھیں، آدمی نہیں۔ اس سے تو آپ کی بدحواسی ظاہر ہوتی ہے۔ آپ بُرا نہ مانییے آپ کی بہتری کے لیے ہی یہ تنبیہ کررہا ہوں۔‘‘
بہتری۔۔۔ کیسی بہتری؟ اب تو میں گرچکا۔۔۔ آپ کو یہ تنبیہ پہلے کرنی چاہیے تھی‘‘۔
’’ہائیں! پہلے؟ یعنی کہ قبل از حادثہ؟ لو بھلا میں کوئی غیب دان ہوں، مجھے کیا پتا کہ اگلے دو چار روز میں آپ سیدھے جاکر اسپیڈ بریکر سے جا ٹکرائیں گے؟‘‘
’’پھر اب اس کا کیا فائدہ؟‘‘
’’خوب!! گویا آپ اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتے پھریں اور کوئی آپ کو نصیحت بھی نہ کرے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ آپ آئندہ کے لیے سبق حاصل کریں۔ اب دیکھیے ناں۔۔۔ مہینہ بھر گلے میں پلستر لٹکائے پھرنا پڑے گا۔۔۔ دفتر سے چھٹی الگ۔۔۔ ویسے دفتر والوں کے کیا تاثرات ہیں؟‘‘
’’جی میں نے فون پر مطلع کردیا تھا۔۔۔ تاثرات دیکھنے نہیں جاسکا!‘‘
’’میرا مطلب ہے اتنی لمبی رُخصت مل جائے گی۔۔۔ اس حالت میں آپ کا دفتر جانا تو مناسب نہیں!‘‘
’’جناب یہ آفس والوں کا مسئلہ ہے!‘‘ (شائستگی سے)
’’ہاں ہاں!! یہ انہی کا مسئلہ ہے، مگر ہم بھی آپ کے بہی خواہ ہیں۔ آپ پریشان ہوں گے تو کیا ہم متاثر نہیں ہوں گے۔ آپ نے تو اتنی غیریت برتی کہ ایسا حادثہ ہوگیا اور ہمیں اطلاع تک نہ دی۔ آخر محلے دار ہوتے کس لیے ہیں۔ مگر بھئی آج کل تو اپنی خوشی غمی چھپانے کا کچھ رواج سا چل پڑا ہے۔ اچھا خیر چھوڑیے، یہ تو فرمائیے کہ آپ اُس دن جا کہاں رہے تھے؟‘‘
’’ذرا کام سے!!‘‘
’’ذرا کام سے۔۔۔ ارے میاں کوئی بڑا کام ہوتا تو بات بھی تھی یہ کیا کہ ذرا سے کام کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور یہ اتنی رات گئے کیا کام آپڑا۔۔۔ اگر دن میں جاتے تو اسپیڈ بریکر نظر آجاتا!‘‘
’’قسمت میں یہی تھا۔۔۔!‘‘
’’قسمت!! خوب!! گویا اپنی غلطی آپ تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘
(ٹھنڈی سانس بھر کر) ’’ٹھیک ہے، میں نے تسلیم کی!‘‘
’’چلیں آپ نے مانا تو سہی۔۔۔ اب یہ بتائیے کہ اس وقت کہاں جارہے ہیں۔۔۔ اکیلے، پلستر لٹکائے وہ بھی رات کو۔۔۔ گویا کوئی ضد ہے کہ رات کو ہی نکلیں گے۔ کسی آنکھوں والے کو ہی ساتھ لے لیا ہوتا؟‘‘
’’جی وہ کچھ مہمان آگئے تھے۔۔۔ امی نے ناشتہ لینے بھیجا ہے۔‘‘
’’بھئی! مہمانوں کے لیے کچھ انتظام دن ہی کو کرکے رکھنا چاہیے۔ اللہ میاں نے دن کس لیے بنایا ہے۔ یہ کیا کہ رات گئے مہمان آجائیں تو تلاش کرکے، گھر کے سب سے ٹوٹے پھوٹے لڑکے کو ناشتہ لینے بھیج دیا جائے۔ گھر والے بھی خاصے لاپروا ہیں، گویا لاپروائی آپ کو ورثے میں ملی ہے۔ آپ کا گھرانہ تو مجھے ان میں سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں مہمان کے لیے چاے چڑھائی جاتی ہے اور جب وہ کھول جاتی ہے تو اچانک انکشاف ہوتا ہے کہ گھر میں پتّی نہیں۔ پھر کسی سُست لڑکے کو دوڑایا جاتا ہے جس کے انتظار میں چاے اور مہمان دونوں کھولتے رہتے ہیں۔ چلیے خیر چھوڑئیے اس قصے کو یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپ نے دکھایا کس اسپتال میں؟‘‘
’’جی۔۔۔ اے بی سی (A.B.C) اسپتال میں! (رو دینے والے انداز میں)
’’اوہو! (تاسف سے سر ہلاتے ہوئے) بندۂ خدا کسی سمجھ دار آدمی سے مشورہ تو لے لیا ہوتا۔ اے بی سی والوں نے تو میرے سالے کا کیس بگاڑ دیا تھا، بے چارہ ساری عمر لنگڑا کر چلتا رہا۔ پڑوسی کے لڑکے کی کمر کا مُہرہ ہی کھسکا دیا تھا‘‘۔
’’جناب! کیا اس سلسلے کے تمام ناخوشگوار واقعات آج ہی کی تاریخ میں سُنانے ضروری ہیں؟ کچھ کل پر رکھیے اور ویسے بھی آخر اس دنیا میں کچھ لوگ گرنے کے بعد ٹھیک بھی تو ہوتے ہوں گے یا نہیں؟ ورنہ اس وقت ساری دنیا لنگڑا کر چل رہی ہوتی یا کمر کے مُہرے کھسکا کر بستر پر پڑی ہوتی۔‘‘
’’برخوردار! ہم تو آپ کو اپنے اندیشوں اور خطرات سے آگاہ کررہے تھے۔ خدا نہ کرے کہ آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہو۔ یہ تو بتائیے کہ ڈاکٹر نے رپورٹ کیا دی؟‘‘
’’ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔۔۔ چار ہفتوں میں جُڑ جائے گی۔ ایکسر سائز بھی بتائی ہے۔‘‘
’’چار یا چھ؟ گویا اُس نے کوئی یقینی بات نہیں بتائی۔ یہ ڈاکٹر تشخیص کرتا ہے یا پیشن گوئیاں؟ بیٹا کسی دوسرے ڈاکٹر سے سیکنڈ اوپینین(مشورہ) لینا ضروری ہے۔ یہ پلستر کے ساتھ ایکسر سائز تو ہم نے پہلی بار سُنا ہے، ہاتھ ہلاتے جلاتے رہیں گے تو ہڈی خاک جُڑے گی، اگر جڑی بھی تو کہیں غلط ہی جاکے جُڑے گی۔‘‘
’’جناب! ڈاکٹر بہتر جانتا ہے۔ یہ اس کا مسئلہ ہے۔‘‘
’’خوب! تکلیف آپ کا مسئلہ ہے، چھٹی دفتر والوں کا اور علاج ڈاکٹر کا۔۔۔ گویا ہم تو ناحق درمیان میں آگئے‘‘۔
’’جی!!!‘‘
’’جی!! کیا مطلب ہے جی!!‘‘ (آگ بگولا ہوکر)
’’میرا مطلب ہے، آپ ناحق فکرمند ہورہے ہیں۔ اللہ سے اچھی اُمید رکھیے انسان کو رجعت پسند (Optimistic) ہونا چاہیے۔ دیکھیے نا! اس سے بھی بڑا حادثہ پیش آسکتا تھا۔ خدانخواستہ دماغ پر چوٹ لگ سکتی تھی۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ ہاتھ پر ہی بات ٹل گئی۔ یقین کیجیے کہ صورتحال اتنی نازک نہیں جتنا آپ گمان کررہے ہیں۔‘‘
’’برخوردار! اب آدمی اتنا بھی Optimistic نہ ہو کہ پہلے پھسل کر ہاتھ کی سب سے کارآمد ہڈی تڑوا بیٹھے اور پھر دانت نکالے سڑک پر ٹہلتا پھرے۔‘‘
’’جناب! (گھڑی دیکھتے ہوئے) میں ذرا جلدی میں ہوں۔۔۔ گھر میں امی انتظار کررہی ہوں گی۔ مہمان بھی شاید جاچکے ہوں۔‘‘
’’ہُنہ!! نیکی کا تو زمانہ نہیں۔۔۔ ہمدردی کرو تو لوگ چِڑ جاتے ہیں۔ بہی خواہوں سے کتراتے ہیں۔۔۔ جو جی میں آئے کیجیے میاں۔۔۔ آپ کا اللہ ہی حافظ ہے‘‘۔
قدوس میاں بھنا کر پلٹے۔۔۔ سامنے سے ایک سائیکل سوار اپنی دُھن میں مگن چلا آرہا تھا، قدوس صاحب کو بچانے کے لیے اس نے سائیکل کا ہینڈل تیزی سے دائیں جانب گھمایا۔۔۔ مگر اتفاق دیکھیے کہ خود قدوس صاحب بھی اپنی بچت کے لیے دائیں جانب ہی مڑے۔ چنانچہ سائیکل اپنے سوار کے قابو سے باہر ہوگئی۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور ارے ارے۔۔۔ کرتے، قدوس صاحب، سائیکل سوار اور سائیکل تینوں اُلجھ کر گرے۔ سائیکل والا تو فوراً ہی بڑبڑاتا، کپڑے جھاڑتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنی سائیکل سیدھی کرنے لگا۔ قدوس صاحب البتہ اپنی ٹانگ پکڑے ہاے ہاے کرنے لگے۔ شبیر نے سہارا دینے کے لیے اپنا اکلوتا صحت مند ہاتھ بڑھایا اور نرمی سے پوچھا:
’’جناب! چوٹ دائیں ٹانگ میں لگی ہے یا بائیں میں!‘‘