skip to Main Content

کچھوے کا خول

ناول:Things fall apartسے ایک اقتباس
مصنف: Chinua Achebe
مترجم: مبین امجد
۔۔۔۔۔

”ایزن ما“ اور اسکی ماں ”اک وی فی“ فرش پہ بچھی چٹائی پر بیٹھی تھیں اور آج کہانی سنانے کی باری اک وی فی کی تھی۔ اس نے سنا نا شروع کی کہ……”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تمام پرندوں کو آسمان پہ ایک ضیافت میں بلایا گیا۔ وہ سب بہت خوش ہوئے اور اس دعوت کی تیاری کرنے لگے۔ سب نے سرخ لکڑی سے اپنے جسموں پہ خوبصورت نقش ونگار بنائے۔ کچھوا ان تیاریوں کو دیکھ کر فوراً سمجھ گیا کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ جانوروں کی دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا کچھوا اسے فوراً تاڑ لیتا۔ چونکہ وہ چالاکی اور مکاری کا پتلا تھا اس لیے سمجھ گیا کہ آسمان پہ پرندوں کی ایک پرتکلف ضیافت ہو رہی ہے۔ یہ جانتے ہی اس کے گلے میں خارش ہونے لگی کیونکہ یہ قحط کا زمانہ تھا اور کچھوے کو اچھا کھانا کھائے ہوئے دو چار ماہ گزر چکے تھے،اور اس کا جسم اس کے خالی خول میں خشک ٹہنی کی طرح کھڑکھڑاتا تھا۔ اس لیے اس نے بھی آسمان کی ضیافت میں شریک ہونے کے لیے ترکیبیں سوچنا شروع کر دیں ……“
ایزن ما نے ٹوکا:”لیکن اس کے تو پر ہی نہیں تھے۔“
اس کی ماں نے کہا:”صبر کرو، یہی تو کہانی ہے۔ چونکہ کچھوے کے پر نہیں تھے، اس لیے وہ پرندوں کے پاس جا کر کہنے لگا کہ اسے بھی آسمان کی ضیافت میں جانے کی اجازت دی جائے۔
پرندوں نے اس کی بات سن کر کہا۔’ہم تمہیں خوب جانتے ہیں۔ تم میں مکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور احسان فراموش ہو۔ اگر ہم نے تمہیں ساتھ جانے کی اجازت دے دی تو تم ضرور کوئی فتنہ کھڑا کرو گے۔‘
’تم مجھے نہیں جانتے۔‘ کچھوے نے کہا۔’میں بالکل بدل چکا ہوں اور اب میں یہ بھی جان گیا ہوں کہ جو شخص دوسروں کے لیے مصیبت کھڑی کرتا ہے، وہ اپنے لیے بھی مصیبت پیدا کر رہا ہوتا ہے۔‘
کچھوا چونکہ ایک شیریں زبان جانور تھا اس لیے تھوڑے ہی وقت میں تمام پرندوں نے تسلیم کر لیا کہ کچھوا ایک بدلا ہوا جانور ہے۔ لہٰذا ہر ایک پرندے نے اسے اپنا اپنا ایک پنکھ دیا جس سے کچھوے نے اپنے دو پر بنا لیے۔
آخر وہ بڑا اور خوشیوں بھرا دن بھی آن پہنچا جب سب نے اس دعوت پہ جانا تھا۔ اکٹھے ہونے کے مقررہ مقام پر کچھوا سب سے پہلے پہنچ گیا۔ جب سب پرندے جمع ہو گئے تو وہ مل کر ایک جھنڈ کی صورت میں روانہ ہوئے۔ کچھوا پرندوں کے ساتھ اڑان پہ بہت خوش تھا اور خوب باتیں بنا رہا تھا۔جلد ہی تمام پرندوں نے اسے جھنڈ کی جانب سے بات چیت کے لیے منتخب کر لیا کیونکہ وہ بہت اچھا مقرر تھا۔
جب وہ اڑتے ہوئے اپنی راہ پر چلے جا رہے تھے تو کچھوے نے کہا۔’جب لوگ اس طرح کی بڑی ضیافتوں پہ مدعو ہوتے ہیں تو وہ نئے نام اختیار کرلیتے ہیں۔ آسمان میں ہمارے میزبان بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم اس پرانے رواج پہ عمل پیرا ہوں گے۔‘
پرندوں میں سے کسی نے بھی اس رواج کے بارے میں کچھ نہیں سن رکھا تھا لیکن انہیں اتنا معلوم تھاکہ کچھوا بہت سے معاملات میں اپنی کمزوریوں کے باوجود خوب جہاں گردی کر چکا تھا اور دیگر اقوام کے رسم ورواج سے خوب واقف تھا۔ یوں ان میں سے ہر ایک پرندے نے اپنا نیا نام رکھ لیا۔ کچھوے نے بھی اپنا نیا نام رکھ لیا اور اس کا نام سب سے عجیب تھا۔ اسے ”آپ سب“کہہ کر مخاطب کیا جانا طے ہوا۔
آخر وہ آسمان پر پہنچ گئے اور ان کے میزبان انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کچھوا اپنے کئی رنگوں کے پر لیے اٹھا اور دعوت دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وہ اپنی تقریر میں اس قدر شیریں بیاں اور خوش گفتار تھا کہ تمام پرندے اس بات پر خوش تھے کہ وہ اسے ساتھ لے آئے اور جو کچھ وہ کہہ رہا تھا اس کی تائید میں سر ہلا رہے تھے۔ ان کے میزبان اسے پرندوں کا بادشاہ سمجھے، بالخصوص اس لیے بھی کہ وہ دیکھنے میں دوسروں سے کسی قدر مختلف تھا۔
کولا نٹ پیش ہو چکے اور کھائے جا چکے تو آسمان والوں نے اپنے مہمانوں کے سامنے حد درجہ لذیز کھانے پیش کیے۔ ایسے کھانے کچھوے نے اپنی اصل زندگی میں تو کیا خواب میں بھی نہ دیکھے تھے۔ یخنی آگ پر سے جس برتن میں پکی تھی اسی میں لا کر پیش کی گئی جس میں گوشت اور مچھلی کی افراط تھی۔ کچھوے نے بہ آواز بلند سونگھنا شروع کر دیا۔ وہاں پر کوٹے ہوئے یاموں کے ساتھ ساتھ پام کے تیل میں مچھلی کے ساتھ برتن میں پکائے ہوئے یام بھی تھی۔ یام کی شراب کے خم کے خم تھے۔ جب ہر چیز مہمانوں کے سامنے دسترخوانوں پہ لگا دی گئی تو آسمان والوں میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے ہر ایک برتن میں سے کچھ کھانا لے کر چکھا اور پھر پرندوں کو کھانا شروع کرنے کی دعوت دی۔ اس پر کچھوا اچھل کر کھڑا ہوااور پوچھنے لگا کہ……’آپ نے یہ ضیافت کس کے لیے تیار کی ہے؟‘
اس شخص نے جواب دیا۔’آپ سب کے لیے……‘
کچھوا پرندوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔’تمہیں یاد ہے کہ میرا نام ”آپ سب“ ہے۔ یہاں کا رواج یہ ہے کہ پہلے سب کی جانب سے بولنے والے کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ جب میں کھا چکوں گا تو تمہیں کھانا دیا جائے گا‘۔
وہ کھانے لگا اور پرندے رنج میں آکر گڑ گڑانے لگے۔ آسمان والے لوگ یہ سمجھے کہ شاید یہ ان کا رواج ہو کہ پورا دسترخوان ہی بادشاہ کے حوالے کر دیا جائے۔ یوں کچھوے نے کھانے کا بہترین حصہ کھایا اور دو گھڑے شراب کے پئے حتیٰ کہ وہ کھانے اور شراب سے پر ہو گیا اور اب اس کا خول اس کے جسم سے بھر گیا۔
جو کچھ بچ رہا تھا وہ کھانے کے لیے اور ان ہڈیوں پہ ٹھونگے مارنے کے لیے،جو کچھوے نے جگہ جگہ پھینکی تھیں، پرندے اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے کچھ تو اس قدر رنجیدہ ہوئے کہ کچھ نہ کھا سکے۔ انہوں نے خالی پیٹ ہی گھر واپس اڑجانے کا فیصلہ کیا لیکن جانے سے پہلے ان میں سے ہر ایک نے کچھوے کو ادھار دیا اپنا پر واپس لے لیا۔اب وہ اپنے سخت خول کے اندر کھانے اور شراب سے بھرا کھڑا تھا اور واپس اڑ کر گھر جانے کے لیے پر نہیں تھے! اس نے پرندوں سے کہا کہ اس کا پیغام بیوی تک پہنچا دیں لیکن سب نے انکار کر دیا۔ آخر طوطے نے،جو کہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھا، اچانک اپنا ارادہ بدلا اور اس کا پیغام لے جانے پر آمادہ ہو گیا۔
کچھوا کہنے لگا:’میری بیوی سے کہنا کہ وہ گھر کی تمام نرم چیزیں باہر نکال کر صحن میں بچھا دے تاکہ میں کوئی بڑا خطرہ مول لیے بغیر آسمان سے نیچے چھلانگ لگا سکوں۔‘
طوطے نے پیغام پہنچانے کا وعدہ کیا اور اڑ گیا لیکن جب وہ کچھوے کے گھر پہنچا تو اس کی بیوی سے کہا کہ گھر کی تمام سخت چیزیں نکال کر صحن میں ڈال دے۔ پس اس نے خاوند کے کدال، نیزے، بندوقیں ……حتیٰ کہ توپ بھی باہر صحن میں لاڈالی۔
کچھوے نے آسمان سے دیکھا کہ اس کی بیوی لا لا کر کچھ صحن میں رکھ رہی ہے مگر اتنی دور سے یہ دیکھنا کہ وہ کیا چیزیں ہیں مشکل تھا۔ جب کچھوے کو ہر چیز تیار محسوس ہوئی تو اس نے خود کو گرا لیا۔ وہ گرتا رہا، گرتا رہا، گرتا رہا ……حتیٰ کہ اسے خوف محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہمیشہ گرتا ہی چلا جائے۔ آخر وہ توپ کی سی آواز سے صحن میں آ گرا۔“
ایزن ما نے پوچھا۔ ”کیا وہ مر گیا؟“
اک وی فی نے کہا۔”نہیں، ہاں اس کا خول ٹکرے ٹکرے ہو گیا۔ لیکن پڑوس میں ایک بڑا جادو گر تھا۔ کچھوے کی بیوی اسے بلا لائی۔ اس نے خول کے تمام ٹکروں کو جمع کر کے انہیں جوڑ دیا۔ اسی لیے کچھوے کا خول ہموار نہیں ہوتا۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top