کڑوے بادام
رضا ہمدانی
۔۔۔۔۔
’’میاں مٹھو! چوری کھاؤ گے؟‘‘
ننھی بتول نے طوطے کے پنجرے میں چوری ڈالتے ہوئے کہا اور جب طوطے نے جواب نہ دیا، چوری بھی نہ کھائی اور اُداس اداس آنکھوں سے ٹکر ٹکر ننھی بتول کی طرف دیکھنے لگا تو اسے دھکا سا لگا، اُس کا ننھا سا دل بے اختیار دھڑکنے لگا۔ اُس نے سوچا ۔’’نہ جانے کیا بات ہے جو میاں مٹھو آج چوری نہیں کھاتا؟ باتیں بھی نہیں کرتا۔ آخر اس نے چپ کیوں سادھ لی ہے؟ کہیں بیمار تو نہیں؟ اگر میرا طوطا مر گیا تو؟ اللہ! میں کیا کروں گی!‘‘وہ منہ بسور کر رونے لگی۔
بتول کی ماں نے اسے روتے دیکھا تو دوڑی دوڑی آئی۔ اسے گود میں اُٹھا لیا، چوما، پیار کیا اور کہا:’’ میری لاڈلی! روتی کیوں ہے؟ قمر نے تو نہیں چھیڑا؟ انیس نے تو چٹکی نہیں لی؟ بولو بیٹا! کیا ہوا…؟‘‘
ماں نے بہتیرا پوچھا لیکن بتول نے جواب نہیں دیا۔ وہ بس روتی رہی۔ امی نے اُسے سینے سے لگا کر تھپکنا شروع کیا اور ننھی منی بتول ہچکیاں لیتے لیتے سو گئی۔
ماں نے کہا ۔’’نیند نے ستایا تھا بچی کو، جب ہی تو مچل رہی تھی اور پھر اسے اُجلے بستر پر لٹا دیا۔
ننھی بتول بستر پر لیٹتے ہی کنول کے پھول کی طرح نیندوںکی جھیل میں کھو گئی اور پھر اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا خوب صورت باغ ہے جس میں رنگارنگ پھول کھلے ہیں۔ سبز، زرد، نیلے، لال، اودے اور سفید مگر ان پھولوں کے پتے ان پھولوں ایسے نہیں، جیسے وہ اپنے گھر کے باغیچے میں دیکھتی تھی۔ ان کی پتیوں تر تصویر یں بھی تھیں…کسی پر ہرن کھڑا ہے تو کیسی پر چکور، کیسی پر مور ناچ رہا ہے تو کسی پر شیر منہ کھولے کھڑا ہے، کسی پر چڑیوں کی ڈاریں اُڑتی نظر آر ہی ہیں تو کسی پر خرگوش اپنی دُم سکیڑے بیٹھا ہے۔ غرض ہر پھول کی پتی پر کوئی نہ کوئی تصویر بنی ہوئی تھی۔ وہ اِن تصویروں میں اپنے میاں مٹھو کی تصویر بھی ڈھونڈنے لگی۔ پر کسی پتی پر بھی اُسے یہ تصویر نہ ملی۔ اب وہ پھرتے پھراتے ایک اور طرف نکل گئی، جہاں اس نے ایک بڑا سا تالاب دیکھا ۔یہ تالاب سفید پتھر کا بنا ہوا تھا اور اُس کے بیچوں بیچ بلور کی ایک مورت کھڑی تھی جس کے سر سے پانی کا فوارہ چھوٹ رہا تھا۔ جب فوارہ تالاب میں گرتا تو پانی میں چھوٹے چھوٹے حلقے بن جاتے اور ان حلقوں میں ننھے ننھے بلبلے پانی پر تیرنے لگتے اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ پھٹ کر تالاب میں ڈوب جاتے ۔فوارہ جب تالاب میں گرتا تو ایسا لگتا جیسے پانی میں گھنگھرو بج رہے ہوں، یا پھر کوئی تالاب میں مہتابیاں چھوڑ رہا ہو۔
ننھی بتول اس تماشے میں مگن تھی کہ ایکا ایکی اس کے کان میں اپنے طوطے کی آواز آئی، وہ چونک پڑی ۔دائیںبائیں اور سامنے تو طوطا کہیں بھی دکھائی نہ دیا۔ جب اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سرخ پیتو ں والے گنجان درخت کی ٹہنی کے ساتھ سونے کا ایک پنجرا لٹکا ہوا تھا اور اس خوبصورت پنجرے میں سفید پروں والا ایک طوطا بیٹھا گیت گا رہا تھا۔ بتول بے اختیار ادھر لپکی۔ جب پنجرے کے پاس پہنچی تو طوطے نے اس کو سلام کیا اور کہا ۔’’بتول با جی !تم نے بہت اچھا کیا جو باغ میں آگئیں۔ میں تمھیں بڑا یا دکرتا تھا۔‘‘ بتول اُس کی طرف حیرانی سے دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔ ’’یا اللہ! یہ طوطا تو آدمیوں کی طرح باتیں کر رہا ہے اور میرا نام بھی جانتا ہے… ‘‘ وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ طوطے نے پھر کہا ۔’’باجی بتول! مجھ سے خفا ہو کیا؟ میری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتیں؟ اپنے میاںمٹھو کو بھلا بیٹھی ہو ۔لائو نا،کہاں ہے میری چوری؟‘‘
اب تو ننھی بتول اور بھی حیران ہوئی اور وہ سوچنے لگی ۔’’لیکن میرا طوطا تو سبز رنگ کا ہے اور اس کا پنجرا بھی تو کالا ہے۔ یہ اُس نے اتنی جلدی رنگ کیسے بدل لیا، وہ تو باتیں بھی نہیں کر سکتا تھا اور یہ تو آدمیوں کی طرح فر فر بول رہا ہے۔ ‘‘
طوطے نے جب بتول کو چُپ چاپ کھڑے دیکھا تو کہنے لگا ۔’’باجی! میں وہی تمہارا پرانا طوطا ہوں ۔میں نے صرف کپڑے بدل لیے ہیں اور سبز اُتار کر سفید پہن لیے ہیں۔ پہلا گھر بھی چھوڑ دیا ہے۔ اب میں اس نئے گھر میں رہتا ہوں ۔تمھیں پسند ہے نا یہ مکان؟ باجی! اب میں سبق بھی پڑھتا ہوں، اسی لیے تو تمہارے ساتھ اتنی اچھی اردو میں باتیں کر رہا ہوں۔ جب سے میں نے پڑھنا شروع کیا ہے، میں تندرست بھی رہتا ہوں، صفائی کی طرف بھی کافی دھیان دیتا ہوں…باجی !میں اب اس دنیا میں نہیں رہتا، جہاں تم رہتی ہو۔ میں نے اپنے لیے ایک نئی بستی بسالی ہے ۔تم نے خوب سیر کرلی ہوگی اس بستی کی؟پسند آئی میری نئی بستی؟‘‘
ننھی بتول نے جب طوطے کی باتیں سنیں تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور وہ اس کی کسی بات کا جواب نہ دے سکی ۔
میاں مٹھو نے پھر کہا ۔’’میری اچھی باجی! تم میر ے ساتھ بات کیوں نہیں کرتیں؟ آخر میں نے کیا گناہ کیا ہے جو مجھ سے روٹھ گئی ہو…؟ اوہ! میں اب سمجھا شاید تمھیں بھوک لگ رہی ہے۔ اچھا ٹھہرو میں تمہارے لیے ابھی کچھ کھانے کو منگواتا ہوں ۔‘‘
یہ کہہ کر میاں مٹھو چلایا۔’’ٹیں ۔ٹیں۔ٹیں! ‘‘اور جلدی ہی ایک مینا پنجرے کے پاس آبیٹھی۔ طوطے نے اُس سے اپنی زبان میں کچھ کہا جسے بتول نہ سمجھ سکی۔ مینااُڑ گئی اور تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آئی تو اُس کی چونچ میں کاغذ کا ایک تھیلا لٹک رہا تھا۔ اس نے آتے ہی تھیلا بتول کے سامنے رکھ دیا۔ طوطا بولا ۔’’باجی! کھا لو۔ یہ تھیلا تمہارے لیے مینا بہن لائی ہے!’‘‘
بتول بھوکی توتھی ہی، جلدی سے تھیلا اُٹھا لیا اور جب اسے کھولا تو اس میں انگور کی طرح کے رنگ برنگے دانے تھے۔ سبز، سرخ، زرد، کالے اور سفید ۔ کوئی دانہ کھٹا تھا تو کوئی میٹھا، کوئی سلونا تھا تو کسی کا مزہ دودھ ملائی کا ساتھا۔ بتول نے پیٹ بھر کر کھایا، لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ تھیلا اسی طرح بھرا ہوا ہے۔
بتول نے طوطے سے پوچھا۔ ’’میاں مٹھو !تم یہاں کیسے آگئے؟ ‘‘
طوطے نے جواب دیا ۔’’اچھی باجی! جس طرح تم یہاں پہنچ گئیں۔ تم پیدل آئیں اس لیے ذرا دیر سے پہنچیں۔ مگر میں تو ایک ہی اُڑان میں یہاں آگیا تھا۔ جب تم نے چوری ڈالی اور میں نے نہ کھائی تو اس وقت میرا دل بہت دکھی تھا۔ جب تم چلی گئیں تو میں بھی وہیں سو گیا اور آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو اس دنیا میں پایا ۔‘‘
بتول نے پوچھا ۔’’میاں مٹھو! پنجرے کا دروازہ کس نے کھولا؟ چابی تو میرے پاس رہتی ہے۔‘‘
میاں مٹھو نے جواب دیا ۔’’اچھی باجی !جس طرح میں آیا ہوں اُس کے لیے دروازہ کھولنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔اس طرح آنے والے لوہے کے سات دروازوں سے بھی نکل آتے ہیں ۔‘‘
بتول انگلی دانتوں میں دبائے ہکا بکاسوچنے لگی۔ میاں مٹھو کس طرح پنجرے سے باہر آیا۔ ضرور آپا گوہر نے میری چابی چرا کر میاں مٹھو کا دروازہ کھول دیا ہو گا۔ اس کو تو میرے کبوتروں اور میاں مٹھو سے خدا واسطے کا بیر ہے ،گھر پہنچنے دو مجھے۔ اس بڑھیا کا سر نہ توڑ دوں تو میرا نام بتول نہیں …‘‘پھر وہ جلدی جلدی اپنی چابی ڈھونڈنے لگی اور جب چابی نہ ملی تو اُس نے زور سے ایک چیخ ماری ۔’’ہائے میری چابی!‘‘اور پھر رونے لگی۔
جب اُس کی آنکھ کھلی تو امی اُسے پیار کر رہی تھیں…’’میری بچی! ڈر گئی ہے نیند میں…‘‘ بتول کوفوراً اپنا میاں مٹھو یاد آگیا۔
’’میری چابی! امی! میری چابی!… میری چابی کیا ہوئی؟ ‘‘بتول نے امی سے پوچھا۔
’’کون سی چابی بیٹا…؟ ‘‘امی نے بتول کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
’’میرے میاں مٹھو کے پنجرے کی چابی …اماں!‘‘
ماں نے ننھی بتول کے سرہانے تلے چابی تلاش کی۔ وہاں نہ ملی تو چار پائی کے نیچے دیکھی اور وہاں بھی نہ ملی توباورچی خانے میں جا کر آپا گوہر سے پوچھا۔ جب اُس سے بھی پتا نہ چلا تو پھر ننھی کو اپنے ساتھ لے کر میاں مٹھو کو دیکھنے کے لیے گئی۔
طوطے کا پنجرا انگور کی بیل میں لٹکا ہوا تھا۔ دُور سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے میاں مٹھو سو رہا ہے ۔ننھی بتول نے دُورہی سے پکار نا شروع کیا۔
’’مٹھو! میاں مٹھو! چوری کھاؤ گے؟‘‘
طوطے نے کوئی جواب نہ دیا۔ امی نے کہا ۔’’مٹھو سو رہا ہے شاید …؟‘‘
جب ماں بیٹی دونوں پنجرے کے پاس پہنچے تو میاں مٹھو کو مرا ہوا پایا۔ بتول نے ایک چیخ ماری اور کہا۔’’ہائے میرا طوطا! اب میں چوری کسے کھلاؤں گی…؟‘‘
بتول کی ماں بھی حیران تھی کہ بھلا چنگا مٹھو ایک دم کیسے مر گیا! پنجرا نیچے اُتارا تو پیالیوں میں بادام پڑے تھے۔ ماں نے سوچا ۔’’ بادام کھانے سے تو کوئی نہیں مرتا ‘‘…پھرا سے یاد آیا کہ کڑو ے بادام کھانے سے طوطامر جاتا ہے۔
اُس نے آپا گوہر سے کہا ۔’’تم نے طوطے کو بادام کیوں کھلائے؟‘‘
آپاگوہر نے جواب دیا۔ ’’بے زبان بے چارے نے دو بادام کھا لیے تو کیا ہوا؟ میں بازار سے اپنے لیے لائی تھی ،کچھ دانے کڑوے نکلے۔ میں نے سوچا چلو یہ میاں مٹھو کھا لے گا۔‘‘
’’بتول کی امی نے آپاگوہر کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔’’بے وقوف بڑھیا! تو نے یہ سر دھوپ میں سفید کیا ہے؟ اتنا بھی نہیں جانتی کہ کڑوے بادام کھانے سے طوطا مر جاتا ہے؟ ‘‘
بتول، سدرہ، جان، قمر، عذرا، انیس اور نفیس، میاں مٹھو کے گرد بیٹھ کر رونے لگے اور پھر بتول نے اسے پھوپھا قمر علی کی بطخ کی قبر کے پاس گاڑ دیا اور اس کی قبرپر یہ لکھ کر لگا دیا۔
’’ننھی بتول کا میاں مٹھو جو ہمیشہ چوری کھاتا تھا۔ لیکن جسے آپا گوہر نے کڑوے بادام کھلاکر شہید کر دیا ۔‘‘