skip to Main Content

کڑاھی گوشت

حماد ظہیر

……………………………………..

اگر مال نہ نکلا تو کل شام کی دعوت تمہیں کھلانی ہی پڑے گی۔۔۔

……………………………………..

سلیمہ بی بی نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھٹکھٹایا۔ مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انہوں نے ذرا ہمت کی اور اگلی مرتبہ ذرا زور سے دروازہ بجایا، مگر اس مرتبہ بھی جواب ندارد۔
نہیں پتا تھا کہ وہ دوسری طرف سے جائیں تو باآسانی گلریز سے ملاقات ہو سکتی ہے، لیکن وہاں دکان پر موجود بدتمیز لڑکوں کی پھبتیاں سننی پڑیں گی، جو وہاں کیرم اور ڈبو کھیلنے آتے تھے۔ وہ سب ایک نمبر کے شیطان تھے اور گلریز ان کا استاد۔
وہ گلریز کے پاس بھیک مانگنے نہیں جا رہی تھیں، بلکہ وہ تو مالک مکان تھیں اور گلریز ان کا کرایہ دار۔ فقط کہنے کو کرایہ دار تھا ورنہ وہ مکان و دکان پر قبضہ کر چکا تھا اور ایک پیسہ کرایہ نہ دیتا تھا۔ سلیمہ بی بی اس سے تنگ ٹھیں ۔ بے چاری پہلے تو اس سے کرایہ کی درخواست کیا کرتی تھیں، مگر اس نے دکان چھوڑنے کی منتیں اور سماجتیں۔ حتیٰ کہ کچھ پیسے دینے کو بھی تیار تھیں کہ جان چھوڑو۔ مگر گلریز کو مفت میں مکان و دکان حاصل تھی، کیونکر چھوڑتا۔ محلے کی سارے بدمعاشوں کا سرغنہ تھا۔ لہٰذا زبردستی بھی بے دخل نہ کیا جا سکتا تھا۔ پولیس تک سے اس کے تعلقات تھے، شاید آدھے کا آدھا کرایہ انہیں دے دیا کرتا ہو۔۔۔ لہٰذا کوئی چارہ اس کے خلاف نہ تھا۔ 
جب تیسری مرتبہ کھٹکھٹانے پر بھی کوئی جواب نہ آیا تو سلیمہ بی بی چار و ناچار دکان کی طرف بڑھیں، لاحول کا ورد ان کی زبان پر جاری تھا۔ 
’’گلریز!‘‘ دکان پر پہنچ کر انہوں نے دھیمے سے کہا۔
ایک لمحے کو تو وہاں سناٹا چھا گیا۔ سب لڑکے خاموش ہو کر انہیں دیکھنے لگے اور پھر فوراً ہی سارا کھیل چھوڑ کر ان پر امڈ پڑے۔
’’اماں آگئیں، اماں آگئیں۔‘‘
وہ ان کے قریب پہنچ کر اچھلنے کودنے اور شور مچانے لگے۔ پھر کوئی ان کا دوپٹہ پکڑ کر ضد کرنے لگا۔ ’’اماں ٹافیاں تو دے دو ناں!‘‘ کسی نے ہانک لگائی۔ 
’’ اماں میرے سر کی جوئیں تو نکال دو۔‘‘ کوئی بولا۔ ’’اماں میری بندوق آئی؟‘‘
پھر کچھ نے ان کے گرد بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیا۔ وہ گاتے جارہے تھے ’’اماں میرے بابا کو بھیجو رے۔‘‘
بڑی مشکل سے سلیمہ بی بی گلریز تک پہنچ پائیں۔ ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی گلریز نے سامنے لگے بورڈ کی طرف اشارہ کیا جس پر لکھا تھا۔ 
’’ کرایہ کل ملے گا۔‘‘
یہ بورڈ گزشتہ کئی ماہ سے ایسے ہی لگا ہوا تھا۔ سلیمہ بی بی ہاتھ جوڑتے ہوئے بولیں۔
’’ مجھے کرایہ نہیں چاہیے۔ خدا کیلئے میری جگہ چھوڑ دو۔‘‘ اتنے میں پیچھے سے ایک لڑکا آگیا اور رسی گھما گھما کر کہنے لگا 
’’کوڑا ہے جمال شاہی پیچھے دیکھا مار کھائی۔‘‘ 
’’جمال کو بھیج دینا کل ، اسے کچھ کرایہ دے دوں گا۔‘‘

*۔۔۔*

جمال ان کے بیٹے کا نام تھا۔ سلیمہ بی بی نے سمجھایا ’’دیکھو بیٹا ویسے تو وہ ہمارا کرایہ دار ہے، لیکن اس سے برتاؤ مالک مکان جیسا ہی کرنا۔ جتنا بھی کرایہ دے، صبر شکر سے لے آنا۔‘‘
بھول تھی سلیمہ بی بی کی۔ جمال کو تو اس نے دراصل اس لیے بلایا تھا کہ آئندہ سلیمہ بی بی وہاں کا رخ کرنے کا بھی نہ سوچیں۔
جمال بھائی سیدھے سادھے سے آدمی تھے۔ انتہائی شرافت سے گلریز کے پاس پہنچے اور کرایہ کا تقاضہ کیا۔
گلریز باآواز بلند بولا۔ ’’لو لڑکووہ آگیا جس کا تھا انتظار ۔ یہ سلیمہ بی بی کا لڑکا جمال ہے۔‘‘
بس اتنا کہنے کی دیر تھی کہ دکان میں موجود آوارہ لڑکے جمال بھائی پر پل پڑے۔ پٹائی تو زیادہ نہیں کی مگر دھول دھبے خوب لگائے۔ قمیض پھاڑ ڈالی، بٹن توڑ ڈالے۔ ایک لڑکے نے تو بورک پاؤڈر ان کے سر پر الٹ دیا۔ گلریز نے ایک لڑکے کو اسپرے پینٹ پکڑا دیا، اس نے جمال بھائی کے اوپر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچیں ، کھوپڑی اور کراس کا نشان بھی بنا دیا۔ ایک اور لڑکا بولا۔
’’تمہاری خوبصورت بڑھانے کیلئے میں بیوٹی کریم اٹھا لایا ہوں۔‘‘ پھراس نے کالی گریس ان کے منہ پر مل دی۔
گلریز بولا ’’ارے اپنے دوست کو گھر ہی بٹھائے رکھو گے کیا۔ اتنی دور سے آیا ہے ذرا محلہ تو گھما دو۔‘‘ 
لڑکوں نے جمال بھائی کو بغلوں اور پاؤں سے پکڑ کر اٹھا لیا اور ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے باہر لے گئے۔
جتنا ہلا گلا وہ کر سکتے تھے کرتے رہے۔ آخر کار انہیں کسی کچرے خانے میں پھینک آئے!
واپس آکر سب نے گلریز سے اپنا اپنا انعام نقد وصول کیا۔

*۔۔۔*

سلیمہ بی بی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ہماری امی جان سے دیکھے نہ گئے۔ کیس ہمارے اور سنی کے حوالے کیا گیا۔ 
’’ہر مرتبہ تم لوگوں کو شرارت سے روکا جاتا ہے اور کرنے پر ڈانٹ پڑتی ہے ۔ مگر اس مرتبہ کھلی چھوٹ ہے کہ جو چاہے کرو، اس پر شاباش بھی ملے گی اور ثواب بھی!‘‘ امی جان نے ہمیں ہدایات دیں۔
’’ارے بیٹا، میری خاطر کیوں ان معصوم بچوں کو آگ کی بھٹی میں جھونکتی ہو۔ دیکھا نہیں کہ میرے جمال کا انہوں نے کیا حشر کیا!‘‘ سلیمہ بی بی بولیں۔
’’ان کی معصومیت پر مت جائیے۔ جب ان کا کامل دیکھیں گی تو اپنا جمال بھول جائیں گے!‘‘

*۔۔۔*

’’یار اس مرتبہ تو بہت برا پھنسے ، جان کے لالے پڑ سکتے ہیں!‘‘ ہم کافی ڈرے ہوئے تھے۔
’’ مسئلہ جتنا مشکل ہو، اس کا حل اتنا ہی سیدھا سادھا ہوتا ہے!‘‘ سنی نے کسی کا قول پیش کیا۔
’’تو کیا ہم سیدھے اس کے گھر پہنچیں اور اس سے کہیں کہ بھائی ذرا مکا ن تو خالی کر دو۔‘‘ ہم چڑ کر بولے۔
’’ بالکل بالکل! لمبی چوڑی پلاننگ سے بہتر ہے جلد سے جلد دشمن پر حملہ کرکے اس قابو کر لیا جائے۔‘‘ سنی جلدی جلدی بولا۔
’’ ہاں ہاں۔۔۔ وہ تو ہمارے انتظار میں ہاتھ پاؤں ڈالے پڑا ہو گا ناں۔۔۔ کہ آؤ اور قابو کر لو! ‘‘ ہم جل کر بولے۔
’’سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ پڑا تو ضرور ہوتا ہوگا، جب سوتا ہوگا۔۔۔ بس طے پایا کہ اس کے سونے کے وقت ہی اس پر حملہ کیا جائے!‘‘

*۔۔۔*

ہم دونوں فجر کے فوراً بعد اس کے علاقے میں پہنچ گئے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سناٹا عروج پر ہوتا ہے۔ خصوصاً رات بھر کے جاگے تو بے ہوش پڑے ہوتے ہیں۔ دیکھ بھال کر ہم نے دروازہ پھلانگا۔ سارے گھر کا جائزہ لینے پر پتا چلا کہ گھر میں گلریز کے سوا اور کوئی نہیں اور وہ بے سدہ پڑا سو رہا ہے۔ لیٹا بھی وہ الٹا تھا یعنی پیٹ کے بل۔
’’ اس کے ہاتھوں پیروں کو آپس میں باندھنے کے بجائے چارپائی کے پایوں سے باندھ دیتے ہیں!‘‘ سنی نے پلان میں تبدیلی کی۔ازار بند ہم ساتھ لائے تھے۔
ہم نے چپ چاپ پہلے انہیں پایوں میں کسا اور پھر آہستہ آہستہ گلریز کے ہاتھ اور پاؤں جکڑ ڈالے۔ 
’’ کیا اسے جگائیں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’خود ہی جاگ جائے گا اگر ضرورت ہوئی۔‘‘ سنی نے کندھے اچکائے۔
ہمارے پلان میں گلریز کو قابو کرنے کے بعد سب سے پہلے اس کی معیشت کو تباہ کرنا تھا۔
چنانچہ ہم نے اس کے سارے گھر کی تلاشی لی اور ایک ایک پیسہ نکال ڈالا۔ قیمتی چیزیں جو کہ کم ہی تھیں، وہ بھی ایک جگہ جمع کر لیں۔ گلریز کی جیبوں کی تلاشی لی تو اس کی آنکھ کھل ہی گئی۔ جاگتے ہی اس نے اپنے آپ کو ایک عجیب مصیبت میں پایا۔ یعنی بندھا ہوا۔ الٹا لیٹا تھا، لہٰذا سر گھما کر دیکھ بھی نہیں سکتا تھا کہ پیچھے ہے کون؟ ہم بھی سامنے نہ آئے اور سب پیسے وغیرہ لے کر باہر کو دوڑے۔
گلریز نے پہلے تو کچھ گالم گلوچ کی، پھر چیخنا چلانا شروع کر دای۔ 
’’یار اتنا سامان ہم لے کر کہاں جائیں گے، اور کیسے؟‘‘ ہم گھبرا کر بولے۔
سنی نے اِدھر اُدھر دیکھا اور بولا۔’’ یہ موٹر سائیکل کس لیے کھڑی ہے، لے چلو! ‘‘ ہم نے جلدی جلدی سامان کو ایک ڈبے میں بھرا اور موٹر سائیکل پر سوار کیا۔
’’ارے۔۔۔واہ!‘‘ سنی بولا اور اندر کی طرف دوڑا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں موٹر سائیکل کے کاغذات تھے۔ 
’’اسے بیچ کر آنٹی کا چھ ماہ کا کرایہ تو نکل ہی آئے گا۔‘‘ وہ مسکرایا۔

*۔۔۔*

دوپہر میں ہم ایک بار پھر اسی علاقے میں پہنچ چکے تھے۔ گلریز اور اس کے چیلوں میں بڑی گرما گرمی جاری تھی۔
’’جب دیکھو کہ دشمن میں پھوٹ پڑ گئی، تو سمجھ لو کہ وہ تباہ ہو گیا، اب تمہیں ناخن تڑانے کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘ سنی خوش ہو کر بولا۔
ادھر گلریز چیخ رہا تھا ’’ مجھے پتا ہے یہ تمہی میں سے کسی کی شرارت ہے۔ نکالو میرے سارے پیسے!‘‘
’’ بڑے افسوس کی بات ہے لالہ۔۔۔ تم ایک شرط ہارے اور دعوت کھلانے سے بچنے کیلئے ڈرامے کرنے لگے۔‘‘ ایک لڑکا منہ بنا کر بولا۔
’’یہ ڈرامہ نہیں ہے۔‘‘ گلریز چلایا۔
’’تو مطلب یہ کہ تمہارے گھر ڈاکا پڑا۔ کونسا چور ڈاکو ایسا ہے جسے تم نہیں جانتے۔ ہمارا تو روز کا کام ہے لالہ۔۔۔ کیا بچوں جیسے بہانے بنا رہے ہو۔‘‘ ایک اور لڑکا طنزیہ لہجہ میں بولا۔
’’یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ تمہی میں سے کوئی ہے۔‘‘ 
’’تو چلو ہمارے ساتھ۔۔۔ سب کے اڈے تمہیں پتا ہیں۔ اگر مال نہ نکلا تو کل شام کی دعوت تمہیں کھلانی ہی پڑے گی۔‘‘ ان کے پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ ہمیں تو پتا تھا کہ مال کہیں سے نہیں نکلنا۔

*۔۔۔*

اگلے دن پھر ہم صبح صبح وہاں پہنچے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ واقعی ہماری ماں کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔
گلریز کے دروازے پر پولیس والے موجود تھے گو کہ یہ ان کے آنے کا وقت تو نہیں تھا، لیکن شاید وہ بھی اس کے چیلوں سے کترانا چاہتے تھے۔ 
’’دو قسطیں جمع ہو گئی ہیں گلریز۔۔۔ پچھلے مہینہ کی بھی اور اس ماہ کی بھی۔‘‘ اس پولیس والے نے گویا دھمکی دی۔
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ کل میرے یہاں چوری ہو گئی۔‘‘ گلریز ہکلایا۔
پولیس والے کا قہقہہ چھوٹ گیا ۔ کافی دیر تک وہ پیٹ پکڑ کر ہنستا رہا۔ اس کے ہنسنے پر ہماری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ 
’’تو ایف آئی آر کیوں نہ درج کرادی یری جان!‘‘ پولیس والے نے بھی بھولا بننے کی کوشش کی۔
’’مم۔۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘ گلریز گھبرا گیا۔
’’اب تم ان ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہو تو پھر تو تم سے تھانے ہی چل کر بات ہوگی۔‘‘
’’مم۔۔۔ میں واقعی سچ بول رہا ہوں۔‘‘
’’ ہاں ہاں میری جان۔۔۔ تونے تو زندگی بھر سچ ہی بولا ہے اور کیا کیا ہے اس کے علاوہ!‘‘گلریز کچھ نہ بول سکا۔
’’ کل صاحب واپس آرہے ہیں۔ تب تک تم ذرا حوالات کی ہوا کھاؤ۔۔۔ شاید ہوش ٹھکانے آجائے!‘‘ 
گلریز منمناتا رہ گیا، پولیس اسے پکڑ کر لے گئی۔ 
’’واہ بھئی۔۔۔ یہ تو غیبی مدد ہو گئی!‘‘ ہم خوش ہو گئے۔
’’ کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھا کر چیلوں کو بھی سبق سکھایا جائے۔‘‘ سنی نے کہا تو ہم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

*۔۔۔*

دوپہر کو لڑکے جمع ہونا شروع ہوئے۔ کیرم ڈبو کی دکان کھلی تھی اور ایک چٹ لگی تھی۔
’’آج دوپہر کو میں دعوت کھلاؤں گا۔ انتظامات کیلئے جا رہا ہوں۔ لالہ
خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہاؤس فُل نظر آیا۔
ہم اور سنی دکان سے ذرا دور بیٹھے موقع کے انتظار میں تھے کہ کچھ لڑکے جو باہر ٹہل رہے تھے وہ بھی اندر چلے جائیں۔
دوپہر کے وقت دھوپ سے بچنے کیلئے دکان کا شٹر آدھا ہی کھلا ہوتا تھا۔
’’دیکھ یار۔۔۔ بہت زیادہ پھرتی دکھانی ہے۔ ورنہ تو جان سے جائیں گے۔‘‘ سنی نے ہمیں مزید ڈرایا۔
’’ بھائی، پھر اس چکر میں پڑتے ہی کیوں ہو!‘‘ ہم کپکپا کر بولے ۔
’’ میرے ساتھ تو تائی اماں کی جبکہ تمہارے ساتھ تو ماں کی دعائیں ہیں، ڈرتے کیوں ہو!‘‘ ہم منہ بنا کر رہ گئے۔
’’ یہ تسلی رکھو کہ اندر سے کوئی ہک وغیرہ نہیں ہے جس سے وہ شٹر کھول سکیں، چاہے لاکھ سر ماریں۔‘‘ اس نے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔
پھر جیسے ہی سب لڑکے اندر ہوئے ہم نے دوڑ لگا دی۔ چشم زدن میں شٹر کو مکمل بند کیا اور کنڈی لگا کر تالے دبا دیئے۔ سنی نے ایک اور چٹ لگا دی۔ 
’’اندر آج کشتی کا مقابلہ ہے۔ توجہ نہ دیں۔ شور شرابے کیلئے معذرت۔‘‘ 
کچھ ہی دیر میں شٹر کو بری طرح دھڑدھڑانا شروع کر دیا گیا اور ہمارے چہروں پر مسکراہٹ کھیل گئی۔ 
’’یار۔۔۔ آج م،جھے بیگم جمشید بہت یاد آرہی ہیں۔‘‘ سنی گنگنایا۔
’’ وہ کیوں؟‘‘ ہم حیران ہو کر بولے۔
’’اس لیے کہ دکان کے اندرونی طرف اونچائی پر ایک روشن دان ہے جو کچن میں نکلتا ہے۔‘‘
’’ کیا مطلب؟ ‘‘ ہم سمجھ نہ سکے۔
’’آؤ۔‘‘ وہ بولا۔
پھر ہم نے اندر جا کر چولہوں پر بڑی سی ڈیگ چڑھائی اور پانی گرم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ دکان کی بجلی کے تار نکال دیئے۔ وہاں گھپ اندھیرا ہو گیا اور جب چھوٹی سی جگہ میں پندرہ بیس لڑکے بھرے ہوں تو کیا کیا نہ ہوا ہوگا۔ ہم روشن دان میں سے بری بری گالیوں کے ساتھ لڑنے بھڑنے کی بھی آوازیں سن رہے تھے۔ سنی ایک نمبر کا اداکار و قلاقار تھا۔ گلریز کی آواز میں بولا۔
’’چپ ہو جاؤ کم بختو! دعوت نہیں کھانی کیا۔‘‘ دکان میں سب کو سانپ سونگھ گیا۔ پھر کوئی بولا۔ 
’’ لالہ ۔۔۔ یہ کیا مذاق ہے؟‘‘
’’ مذاق نہیں ہے دعوت ہے۔ لو یہ شوربہ آرہا ہے۔‘‘ سنی نے کہا اور کھولتا ہوا پانی جگ میں بھر بھر کر روشن دان میں پھینکنے لگا۔
اندر تو ہائے واویلا مچ گیا۔ ان شیطانوں کو یہی محسوس ہوا ہوگا کہ جہنم کے کسی اندھے کنویں کی ریہرسل ہو رہی ہے۔ مگر انہیں کیا پتا تھا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔
’’ لالہ تم اچھا نہیں کررہے۔ ہم سے بگاڑ کر تم یہاں ایک دن نہیں رہ سکتے۔‘‘
’’ مجھے یہاں رہنا بھی نہیں ہے۔ میں دوسرے شہر جا رہا ہوں۔ مگر تم لوگوں کو چوری کی سزا دینے کے بعد۔‘‘ سنی نے پھر گلریز کی نقل اتاری۔ 
’’ ہم نے چوری نہیں کی۔ ایک دعوت بچانے کیلئے اتنا کچھ ہائے۔۔۔ اوہ۔۔۔!‘‘ کوئی کراہ کر بولا۔
’’دعوت کر تو رہا ہوں شوربے سے۔ ارے اس میں وہ تو ڈالی ہی نہیں۔۔۔ سوری یار۔۔۔ یہ لو!‘‘ سنی نے سرخ مرچ کا مرتبان اٹھایا اور وہ بھی اندر جھونک دی۔
اندر کیا ہوا ہوگا۔ ہم سوچ کر ہی کانپ گئے۔ 
’’ کچھ ذائقہ آیا شوربے میں۔‘‘ سنی نے ہانک لگائی۔ اندر سے شاید کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ 
’’لگتا ہے ابھی ذائقہ نہیں آیا۔‘‘ سنی نے سرگوشی کی اور پسی ہوئی سیاہ مرچ بھی اندر انڈیل دی۔ 
’’ بھائی یہ مرمرا نہ جائیں۔‘‘ ہم کانپ کر بولے۔ 
’’ اچھا چلو مان لیتے ہیں۔۔۔ ورنہ میں تو گوشت گلانے والا پاؤڈر ڈالنے والا تھا۔ ‘‘ سنی نے ہاتھ جھاڑے اور پھر ہم دونوں ہی نے وہاں سے بھاگ نکلنے میں عافیت سمجھی!‘‘

*۔۔۔*

ہمارا مقصد صرف سبق سکھانا نہ تھا بلکہ مکان خالی کرانا تھا۔ چنانچہ اگلے روز ہم پھر وہیں پہنچ چکے تھے۔ دکان کے آس پاس وہ سب لڑکے اداس اداس بیٹھے تھے جو کل کڑاھی گوشت بننے سے بچ گئے تھے۔ انہیں شاید گلریز کے بچ نکلنے کا افسوس تھا۔ ایسے میں ہم نے اور انہوں نے دیکھا کہ گلریز تانکتا جھانکتا آرہا ہے۔ شاید پولیس کے بڑے صاحب کو اس نے رقم کی کوئی امید دلا دی تھی اور چھوٹ گیا تھا۔ 
لڑکوں نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر ایک دوسرے کو چپ کرایا اور فوراً ادھر ادھر چھپ کر دبک گئے ۔ گلریز تانکا جھانکی کرتا اپنے گھر میں داخل ہوگیا۔ لڑکے بھی ایک ایک کرکے دروازے پر پہنچے اور چپ چپاتے اندر داخل ہو گئے۔ نیز ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور سریے کے ساتھ ساتھ جھاڑو تک موجود تھی۔
’’ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔‘‘ سنی نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اور بولا۔
’’مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے، آؤچل کر سلیمہ بی بی کو خوشخبری سنا دیں۔

*۔۔۔*

’’گلریز کی چیخین تو سنتے جاتے ہیں۔‘‘ ہم اشتیاق سے بولے ’’خواہ مخواہ لپیٹ میں نہ آجائیں۔۔۔ بہتر ہے کسی اسٹیٹ ایجنسی والے سے سلیمہ بی بی کو ملوا دیں تاکہ یہ مکان اچھے داموں بک سکے۔

*۔۔۔*

سلیمہ بی بی کو یقین نہ آیا، جب تک انہوں نے خود چل کر اپنے مکان و دکان پر تالے نہ دیکھ لیے۔ چابیاں ہمارے پاس تھیں۔
’’ مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ گلریز طاقتور آدمی اتنی آسانی سے قابو آسکتا ہے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’ آنٹی اسے خدا کی لاٹھی پڑی ہے آئیے خود چل کر اس کا حال دیکھ لیجئے۔‘‘ ہم نے کہا اور انہیں لے کر سرکاری ہسپتال پہنچے جہاں گلریز ٹوٹا پھوٹا پڑا تھا۔ 
سلیمہ بی بی چاہتی تو بدلے کے طور پر کچھ چبھتے جملے کہہ سکتی تھیں اس کے باوجود جب انہوں نے اس کا حال پوچھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور معافیاں مانگنے لگا۔ اس کا یہ حشر دیکھ کر وہ واقعی اپنے جمال کا حال بھول چکیں تھیں۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top