کانگو کے گوریلے
تحریر: ڈینس فورمین
تلخیص و ترجمہ: عمیر صفدر
……….
افریقی ملک کانگو کے گوریلوں کی تلاش میں نکلنے والے مہم جو کی سنسنی خیز داستان
……….
۱۴ء کے موسم خزاں کا ذکر ہے کہ مجھے نیویارک کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ ایک ہفتہ پہلے میں مغربی افریقہ کے جنگلوں میں دو سال کاٹ کر آیا تھا۔ میری بدقسمتی کہ ان دنوں میں نے جتنے جانور پکڑے، ان میں آٹھ چمپنزی بندر بھی شامل تھے جن کے بارے میں نیویارک کے چڑیا گھر والوں کو نہ جانے کس طرح پتہ لگ گیا اور انہوں نے مجھ سے تار کے ذریعے درخواست کی کہ یہ سب کے سب بندر منہ مانگے داموں پر چڑیا گھر کے لیے فروخت کر دیئے جائیں۔ ان میں سے پانچ نر تھے اور تین مادہ چمپنزی …… میں نے ان بندروں کو ہوائی جہاز کے ذریعے نیویارک بھیج دیا اور خود فلوریڈا چلا گیا جہاں میری بیوی کے رشتہ دار رہتے تھے۔ فلوریڈا میں قیام کیے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے کہ میرے ایک ہم پیشہ دوست نے مجھے نیویارک آنے کی دعوت دی اور لکھا کہ ”اگر تم میرا خط ملنے کے تیسرے دن نیویارک نہ پہنچے تو میں فلوریڈا آجاؤں گا۔پس میں نے سسرال والوں سے اجازت لیے بغیر چپکے سے جہاز کا ٹکٹ خریدا اور نیویارک کے لیے روانہ ہو گیا۔ نیویارک پہنچنے پر مجھے شرارت سوجھی اور اپنے دوست سے ملنے کے بجائے میں سنٹرل پارک کے ایک ہوٹل میں ٹھہر گیا۔
آدھی رات کے وقت میں اس کمرے سے بیزار چہل قدمی کے ارادے سے باہر نکلا اور چھٹے ایونیو کی جانب چل پڑا۔ گھومتے گھومتے 42 اسٹریٹ کے سرے پر آیا تو ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ دیکھ کر طبیعت مچل گئی۔ پیاس لگ رہی تھی کچھ پینے کے ارادے سے بے دھڑک اندر داخل ہوگیا۔ لیکن اندر جاتے ہی جس شخص سے سب سے پہلے نظریں چار ہوئیں وہ میرے پرانے دوست رنیز کے سوا اور کوئی نہ تھا…… وہی رنیز…… جس کا دھمکی آمیز خط مجھے فلوریڈا میں مل چکا تھا۔ میں نے اسے ٹھیک چھ سال بعد دیکھا تھا اور پہچاننے میں شبہ یوں نہ تھا کہ اس کے دائیں رخسار پر گہرے زخم کا لمبا نشان صاف دکھائی دے رہا تھا۔ زخم کا یہ نشان ایک افریقی چیتے کے پنجے کا تھا۔ جس کا تعاقب رنیزکررہا تھا اور میری اس کی پہلی ملاقات بھی اسی مہم کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ رنیز ارجنٹائن کا باشندہ تھا اور سونے کی تلاش میں افریقہ آیا تھا۔ لیکن جب سونا نہ ملا تو وہ چڑیا گھر کے لیے جانور پکڑ پکڑ کر فروخت کرنے لگا۔
”تو یہاں نیویارک میں کیا کررہا ہے؟ کیا یہاں بھی کوئی سونے کی کان ڈھونڈنے کا ارادہ ہے۔“
وہ زور سے ہنسا اور میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہنے لگا۔
”اجی میں نے سونے کی ایسی کان ڈھونڈلی ہے جس کا علم تمہارے فرشتوں کو بھی نہ ہوگا۔“
”اچھا؟ ہم بھی تو سنیں کہ یہ کان کہاں واقع ہے؟“
”یہ فرانسیسی کانگو میں ہے۔“ رنیز نے فخر سے سینہ پھلاتے ہوئے جواب دیا۔ ”اس کاروبار میں میرے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے۔ ابھی ابھی ہم نے تین گوریلے گرفتار کیے ہیں اور چند ہفتوں کے اندر اندر ان گوریلوں کو امریکہ کے مختلف چڑیا گھروں میں فروخت کردیا جائے گا۔ میں تمہاری خاطر اتنا کرسکتا ہوں کہ ایک گوریلا تمہارے ہاتھ سستی قیمت پر صرف پانچ ہزار ڈالر میں فروخت کردوں …… مجھے یقین ہے کہ تم جب اسے بیچو گے تو زیادہ دام وصول کرسکو گے۔“
”سب بکواس ہے، میں اسمگل کیے ہوئے جانور نہیں خرید سکتا اور خریدوں بھی تو میرے پاس فی الحال پانچ ہزار ڈالر نہیں۔“ میں نے جواب دیا۔
”تمہاری قسمت……“ رنیز نے ہنس کر کہا۔ ”بہرحال میں ان تینوں گوریلوں کو بیس ہزار ڈالر سے کم قیمت میں ہرگز نہ بیچوں گا۔ اگر ان کے خریدار یہاں نہ ملیں گے، تو انہیں جنوبی امریکہ لے جاؤں گا۔“
میں نے اس شخص کی باتوں پر ذرا بھی دھیان نہ دیاکیونکہ وہ بلا کا دروغ گوتھا۔ جہاں تک گوریلے پکڑنے کا تعلق ہے، وہ قطعی جھوٹ تھا۔ کیونکہ گوریلے صرف بلجین کانگو میں پائے جاتے ہیں اور وہاں بھی ان کی نسل ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے بعد وہاں کی حکومت نے ان گوریلوں کی حفاظت کے انتظامات بڑے سخت کر دیئے تھے اور کسی ایرے غیرے کو جنگل کے اس حصے میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی جہاں گوریلے رہتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے پھر اپنے تین گوریلوں کا ذکر کیا، تو میں نے قدرے غصے سے کہا۔
”رنیز! خدا کے لیے تم مجھے اتنا بے وقوف نہ بناؤ۔ گوریلے صرف بلجیئن کانگو میں پائے جاتے ہیں اور وہاں تم قدم نہیں رکھ سکتے، اس لئے یہ افسانے مجھے نہ سناؤ۔“
”تم خود بے وقوف ہو اور مجھے بے وقوف کہتے ہو۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ گوریلے بلجیئن کانگو کے علاوہ دنیا بھر میں اور کہیں نہیں؟ ارے نادان، ابھی میں نے تمہارے سامنے افریقہ کے فرانسیسی استوائی خطے کاذکر کیا ہے۔ بلجیئن کانگو کی تو میں نے بات ہی نہیں کی۔ اس خطے میں اتنے گوریلے ہیں کہ جب سے کرۂ ارض وجو د میں آیا ہے بلجیئن کانگو کی سرزمین نے اتنے گوریلے خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں گے اور میں نے جہاں سے گوریلے پکڑے ہیں، وہاں کے قبائلی باشندے انہیں شکار کرکے ان کے گوشت سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔“
اب میں نے اس سے تفصیلات پوچھنے کا ارادہ کیا لیکن وہ ایک منٹ بھی بیٹھنے پر تیار نہ تھا۔ وہ ناراض ہو کر چلا گیا۔
کانگو کے گھنے اور تاریک جنگلوں میں ہزار ہا قسم کے کیڑے مکوڑوں، حشرات الارض، پرندوں اور چرندوں سے لے کر ہاتھی جیسے جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ البتہ شیر اور چیتے کمیاب ہیں۔ دریاؤں میں دریائی گھوڑے عام ہیں۔ اس علاقے کا کوبرا سانپ بڑا مشہور ہے۔ جس کا کاٹاپانی بھی نہیں مانگتا۔ چمپنزی بندروں کی کئی نسلیں یہاں آباد ہیں۔ لیکن میری معلومات کے مطابق گوریلے ان جنگلوں میں نہیں تھے۔ تاہم میں نے تحقیق کا فیصلہ کرلیا اورایک لائبریری میں جا کر اس خطے کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ واقعی یہاں گوریلوں کا کبھی وجود تھا۔
رنیز نے مجھے جو خط لکھا تھا،اس میں اس کا پتہ بھی درج تھا۔ بعد میں جب میں نے خط تلاش کیا تو مجھے نہیں ملا۔ اب میں رنیز سے ملنے کے لیے بے چین تھا۔ اس سے پیشتر میں نے فلور یڈا میں چمپنزی بندروں کی ایک ”پرورش گاہ“ قائم کی تھی۔ چمپنزی بندروں کی کئی نسلیں میں مشرقی اور مغربی افریقہ کے جنگلوں سے لایا تھا اور انہوں نے حیرت انگیز طورپر مجھے مالی فائدہ پہنچایا۔ اب میں سوچنے لگا کہ کیوں نہ گوریلوں کی بھی ایک پرورش گاہ بنائی جائے۔ بلجیئن کانگو کی حکومت نے اپنے علاقے میں سے گوریلے مارنے اور لے جانے والے کے لیے دس سال قید با مشقت کی سزا مقرر کررکھی تھی اس لئے وہاں سے تو گوریلے لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، البتہ فرنچ کانگو کے اس گمنام اور پراسرار خطے سے اگر رنیز جیسا شخص گوریلے پکڑ کر لا سکتاہے اور بقول اس کے وہاں کے باشندے انہیں شکار کرکے گوشت پر گزارہ کرسکتے ہیں۔ تو پھر میرے لیے یہ کام کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا چنانچہ اسی دن سے میرے سر پر اس پراسرار معمے کوحل کرنے کی دھن سوار ہوگئی اور میں برازیل جانے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر وہاں سے میں چند نر اور مادہ گوریلے فلور یڈا لانے میں کامیاب ہوگیا، تو پھر وارے نیارے ہوجائیں گے۔
فروری 44ء میں جب میں بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کی غرض سے ناروے کے ایک جہاز پر سوار ہوررہا تھا تو امریکہ کے صدر روزویلٹ کا ایک سفارشی خط بھی فرنچ کانگو کی گورنمنٹ کے نام میری جیب میں موجود تھا۔
ہمارے پاس سامان کی مقدار بہت کم تھی۔ دو ہلکے پھلکے بستر،کپڑے اور پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں،کیمرہ اور اسی طرح کا دوسرا سامان ان کے علاوہ تھا۔
فروری کے آخری ہفتے میں میں برازیل پہنچ گیا۔چند روز بعد مجھے شمال کی جانب سفر کرنے کا پاسپورٹ دے دیا گیا اور میں نے گیبن کے جنگلوں کو جانے کی تیاریاں شروع کردیں۔
میں نے خشک گوشت، مکھن اورخشک دودھ کے بہت سے ڈبے خریدے، دو خیمے، کھانا پکانے کے برتن، شیشے اورچینی کی پلیٹیں، چار پانچ کرسیاں اور ایک میز بھی خریدی گئی۔ اب یہ تمام سامان لادنے کے لئے ایک گاڑی کی ضرورت پیش آئی۔ ایک پرانا ڈاج ٹرک جس کی باڈی اور انجن اچھی حالت میں تھا، مجھے سستا ہی مل گیا۔ گویا سفر کاایک بڑا مرحلہ طے ہوگیا۔ اب ضرورت تھی چند ملازموں کی جن کا دستیاب ہونا مشکل تھا لیکن غیب سے یہ انتظام بھی بروقت ہوگیا۔ جوزف نامی ایک افریقی باورچی مل گیا۔ جو ایک مقامی پولیس افسر کے پاس برسوں کام کرچکا تھا اور اب محض مہم میں حصہ لینے کے لیے میرے ساتھ جانے پر تیار تھا۔ برازیل کے چڑیا گھر میں کام کرنے والا ایک اورلڑکا جس کا نام زنگا تھا، وہ بھی کچھ رقم پیشگی وصول کرنے کے بعد ہمارا ساتھ دینے پر رضا مند ہوگیا۔
چوتھے روز ہم اوکیو پہنچ گئے۔ اس علاقے میں قدیم باشندوں کی یہ پہلی بستی تھی جہاں ہم نے قیام کیا۔ جب ان سے گوریلوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، تووہ حیرت سے ہمیں دیکھنے لگے۔ ان کے چہروں پر جو تاثرات نمودار ہوئے ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ گوریلے اس علاقے میں نہیں پائے جاتے۔ یہ دیکھ کر مجھے صدمہ ہوا اور ساری محنت پر پانی پھرتا ہوا معلوم ہونے لگا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہاں ایک فرانسیسی شخص بھی رہتا ہے جس کا نام شیلر ہے۔ جلد ہی شیلر سے ہماری ملاقات ہوئی جو تیس سال کا ایک ہٹا کٹا آدمی تھا۔
شیلر نے بتایا کہ اس گاؤں کا نام اوکا ہے اور یہاں چالیس پچاس جھونپڑیاں ہیں اور اس آبادی تک سارا انتظام ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے۔
جب ہم بستی کے قریب پہنچے، تو ہم نے چند عمر رسیدہ آدمیوں کو ایک جگہ کھڑے پایا جن کے جسموں پر سوائے چند چیتھڑوں کے اور کچھ نہ تھا۔ شیلر کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک نمودار ہوئی۔ شیلر نے اشارے سے ان میں سے ایک آدمی کو بلایا جس کی سوکھی ٹانگیں مڑی ہوئی تھیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں بھی غائب تھیں۔ اس کا چہرہ بے شمار جھریوں کے باعث از حد بھیانک ہوگیا تھا۔
شیلر نے مجھ سے کہا۔ ”اس کا نام بمبو ہے اور یہ اس قبیلے کا سردار ہے۔ میں نے سنا ہے کہ نوجوانی کے عالم میں یہ گوریلوں کا مانا ہوا شکاری تھا۔ اگر آپ اسے اپنی مدد پر راضی کرلیں،تو آپ کاکام بن جائے گا۔ لیکن میں یہاں سے جانے کے بعد آپ کی جان و مال کی حفاظت کا کوئی ذمہ لینے کو تیار نہیں۔ آپ اگر قیام کرنا چاہیں، تو ڈسپنسری کے اندر رہ سکتے ہیں۔ اس کی دیواریں پختہ اور چھت مضبوط ہے۔ اب مجھے اجازت دیجئے اور ہاں آخری بات غور سے سن لیجئے، وہ یہ کہ ان لوگوں سے ہر وقت ہوشیار رہیے۔ ان پر اعتماد کرنا حماقت ہے۔ یہ دیکھنے میں انسان ہیں،لیکن حقیقت میں وحشی درندوں سے بڑھ کر سفاک اور ظالم ہیں۔ یہ شیطان ہیں۔ بس میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔“
شیلر کی تقریر سن کر میں تو کانپ ہی گیا۔ زنگا اور جوزف اگر چہ افریقہ ہی کے باشندے تھے، لیکن بڈھے بمبو کو دیکھ کر ان کی حالت بھی غیر تھی۔
مجھے دیکھ کر وہ ہنسا اور شکستہ فرانسیسی میں کہا۔ ”مجھے پندرہ سینٹ دو …… تب میں تمہیں ایک بات بتاؤں گا۔“
میں نے جوزف کو اشارہ کیا،اس نے بمبو کو یہ رقم دے دی‘ تو وہ خوشی سے بولا۔
”مجھے ابھی ابھی پتہ چلا ہے کہ ہمارے پڑوسی گاؤں میں رہنے والے شکاریوں نے ایک گوریلا پکڑا ہے۔ کیا آپ اسے دیکھنے چلیں گے؟“
کہہ نہیں سکتا کہ یہ خبر سن کر مجھے کتنی مسرت حاصل ہوئی۔ میں نے جوزف سے کہا کہ میری رائفل لے آئے۔ چند منٹ کے اندر اندر میں نے بمبو کو ٹرک میں بٹھایا اور جوزف کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دے کر ٹرک اسٹارٹ کردیا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ بمبو کہیں دھوکا نہ دے رہا ہو۔ یہ سوچ کر میرے پسینے چھوٹنے لگے۔ لیکن رائفل میرے پاس تھی اور اس کی موجودگی میں کسی کو مجھ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکتی تھی۔
صبح کے اس دھند لکے میں جھونپڑی کے اندر جو کچھ میں نے دیکھا، وہ ساری عمر یادرہے گا۔ موٹے بانسوں اور درختوں کی شاخوں سے بنے ہوئے بڑے پنجرے کے اندر ایک قوی ہیکل اور سیاہ بن مانس اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے بیٹھا تھا۔ اتنے عظیم تن و توش کا گوریلا میں نے اس سے پیشتر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہمارے قدموں کی آہٹ پا کر اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹائے اور ہماری جانب دیکھا۔ خدا کی پنا ہ!…… دہشت سے میرا بدن لرز گیا۔ ایک ہولناک چیخ کے ساتھ بن مانس اپنی جگہ سے اچھلا اور پنجرے کے اندر اچھلنے کودنے لگا۔ طیش میں آکر وہ اچھلتا اور پھر ڈھول کی مانند اپنے سات فٹ لمبے بازوؤں سے سینہ پیٹنے لگتا۔ یکایک اس نے پوری قوت سے اچھل کر پنجرے کو دھکا دیا اور ایک ثانیے کے اندر، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ یہ مہیب درندہ پنجرے کی موٹی لکڑیاں توڑ کر آزاد ہوچکا تھا۔ جھونپڑی کے اندر جتنے آدمی جمع تھے، دہشت سے چیخیں مارتے ہوئے ایک دوسرے پر گرتے پڑتے باہر کی طرف دوڑے۔ ایک قیامت خیز ہنگامہ سارے گاؤں میں برپا ہوگیا۔ بن مانس کی دل دوز چیخیں ان سب آوازوں پر حاوی تھیں۔
پتھر کے مجسمے کی مانند میں اپنی جگہ پر بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ جس وقت گوریلا پنجرے سے آزاد ہوا۔ اس وقت میں اس سے دس فٹ کے فاصلے پر تھا۔ اگرچہ وہ آزاد ہوچکا تھا۔ لیکن وحشیوں کے شور و غل سے وہ اتنا بدحواس ہوا کہ پنجرے کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا اور وہیں بھیانک آوازیں نکال نکال کر چیخنے لگا جن سے خون سرد ہوتا جاتا تھا۔
چشم زدن میں جھونپڑی آدمیوں سے خالی ہوگئی۔ گوریلا اب بھی غرارہا تھا۔ میرے ہاتھ میں اگر چہ رائفل تھی، لیکن مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اسے چلا نہیں سکتا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میرے اعصاب نے اس گوریلے کا اثر قبول کیا۔ اس کی وجہ جو مجھے بعد میں معلوم ہوئی، یہ تھی کہ اس سے پہلے میرا سابقہ جن گوریلوں سے پڑچکا تھا، یہ ان سب سے جسامت میں بڑا اورشکل و صورت کے اعتبار سے بے حد ڈراؤنا اور کریہہ تھا۔ اس کے دونوں ہونٹ کسی بیماری کے باعث جھڑگئے تھے اور صرف دانت ہی دانت نظر آتے تھے۔ فراخ سینے پر مسلسل ہاتھ مارنے کے باعث بال جھڑچکے تھے اور ایک فٹ لمبا سر جو اوپر سے گول ہوگیا تھا، بالکل گنجا تھا۔ جب وہ بل کھا کر پلٹا، تو میری اور اس کی نظریں دوبارہ چار ہوئیں اور مجھے پھر وہی احساس ہوا کہ میرے سوچنے سمجھنے کی ساری قوت سلب ہوچکی ہے۔ وہ اچھل کر میری جانب بڑھا۔ عین اس وقت کسی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے پیچھے گھسیٹ لیا، ورنہ گوریلے کا ہاتھ پورے زور سے میرے سر پر پڑتا۔ میں نے گھوم کر دیکھا۔ وہ جوزف تھا جو حلق پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا تھا۔ ”ماسٹر فائر کیجئے۔“
غیر ارادی طور پر میں نے رائفل سیدھی کی اور اندھا دھند گوریلے پر گولیوں کی بارش کردی۔ چند ثانیوں کے اندر اندر اس کا سینہ چھلنی ہوچکا تھا اور خون کی دھاریں ابل رہی تھیں۔ وہ دھڑام سے زمین پر گرا اور تڑپنے لگا۔ اس وقت اس کے چیخنے کی آوازوں سے کان کے پردے پھٹے جاتے تھے۔ اتنے میں گاؤں کے شکاری ہاتھوں میں لمبے لمبے نیزے لئے آگئے اور انہوں نے گوریلے کو نیزے مار مار کر ختم کردیا۔ جوزف مجھے سہارا دے کر کھلی ہوا میں لے گیا۔ اس حادثے کو مکمل ہونے میں بمشکل پانچ منٹ لگے ہوں گے لیکن میرے لیے یہ اذیت ناک لمحات صدیوں سے کم نہ تھے۔ گوریلا میرے سامنے مردہ پڑا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر ان جنگلوں میں ایسے ہی گوریلے آباد ہیں، تو انہیں زندہ پکڑ کر امریکہ لے جانا پاگل پن کے سوا اور کچھ نہیں۔
یہی سوچ سوچ کر میرا پتا پانی ہوا جاتا تھا۔ جب میں، بمبو اور جوزف کی معیت میں اس گاؤں سے چلا تو یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں، اس لئے مجھے واپس امریکہ چلے جانا چاہئے، لیکن اوکیو پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرا روٹھا ہوا دوست رنیز امیلیا سے ہنس ہنس کر باتیں کررہا ہے۔
”بھائی جان! گوریلے پکڑنا تمہارے بس کی بات نہیں، یہ کام تو ہم ہی سر انجام دے سکتے ہیں۔ اب ذرا میرے ہاتھ دیکھو کہ دو ہفتوں کے اندر اندر کتنے ہی گوریلے پکڑتا ہوں۔ سب سے پہلے تو پنجرے تیار کرنے کا مرحلہ طے ہونا چاہئے جس پر تم نے اب تک توجہ ہی نہیں دی۔ پنجرے تیار کرنا نہایت اہم اور ضروری مسئلہ ہے تاکہ ہم گوریلوں کو ان میں بند کرکے امریکہ لے جاسکیں اور یاد رکھو کہ پنجرے اگر ذرا بھی کمزور ہوئے تو ہم میں سے کسی کی خیر نہیں۔“
”کتنے پنجرے تیار کیے جائیں؟“ میں نے پوچھا۔
”کم از کم دس ……“ رنیز نے کہا”اور انہیں تیار کرنے کے لیے ہمیں دو ماہ درکار ہوں گے۔“
بمبو اپنے نئے ”ماسٹر“ کی ان حرکتوں میں بے حد دلچسپی لے رہا تھا اور اسے احساس ہوگیا تھا کہ یہ شخص بھی مقامی شکاریوں کی طرح گوریلے کے قدموں کے ذریعے جنگل میں اسے تلاش کرسکتا ہے۔ جلد ہی رنیز نے اس مخصوص راستے کا پتہ لگایا جدھر سے گوریلوں کا جوڑا جنگل میں گزرا تھا۔ پانچ میل کے پر مشقت اور تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم جنگل کے اس حصے میں پہنچ گئے جہاں گھنے اور اونچے درختوں کی چوٹیاں ایک دوسرے سے گتھی ہوئی تھیں اور سورج کی روشنی بمشکل ان میں سے راستہ بناسکتی تھی۔ ہمارے پاس اتفاق سے ٹارچیں موجود تھیں۔ جو اس وقت کام آئیں۔
یہاں ایسا گھپ اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا اور اس پر حد سے زیادہ خنکی…… گرم کپڑوں کے باوجود میرا جسم سرد ہونے لگا اور دانت بج اٹھے۔ رنیز تازی کتے کی مانند جھاڑیوں میں سونگھتا اور جھانکتا پھر رہاتھا۔ دوسرے ننگ دھڑنگ شکاری جن کے ہاتھوں میں لمبے لمبے نیزے اورگلے میں تیر کمان پڑے ہوئے تھے، اس بے پروائی اور اطمینان سے گوریلوں کو ڈھونڈ رہے تھے جیسے وہ معمولی خرگوش یا بھیڑوں کو ڈھونڈ رہے ہوں۔ جنگل کا جنوبی حصہ بہت ہی گنجان اور دشوار گزار تھا اور رنیز کا اصرار تھا کہ گوریلے اس طرف چھپے ہوئے ہیں اور اس سے پیشتر کہ میں اسے روکتا وہ جھاڑیوں میں گھستا اور پھلانگتا ہوا نظروں سے غائب ہوچکا تھا۔ چند سیکنڈ تک اس کے جوتوں کی آواز سنائی دی پھر یک لخت سناٹا چھا گیا۔ بمبو اور اس کے ساتھی بھی رنیز کے پیچھے پیچھے چلے گئے اور میں تنہا رہ گیا۔ میں دل ہی دل میں انہیں کوس رہاتھا۔ یکایک ایک جھاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے کچھ آہٹ سی سنائی دی اور اس سے پہلے کہ میں اس معاملے پر غور کرسکوں، ایک مہیب شکل و صورت کا گوریلا جھاڑیوں میں سے نکلا۔ اسے دیکھتے ہی میراجسم سن ہوگیا اور دل کی دھڑکن جیسے رک گئی۔ میرا اس کا فاصلہ دس فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ جنگل کی تاریکی میں اس کا سیاہ جسم ایک طویل القامت دیو کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ لمبے لمبے بازو زمین تک پہنچ رہے تھے۔ اس کی پشت میری جانب تھی۔
گوریلے کو دیکھ کر اتنی ہیبت میرے دل پر طاری ہوئی کہ بیان سے باہر۔ رائفل میرے ہاتھ میں تھی اور مجھے یاد ہے کہ میں نے اسے جنبش دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ اتنی دیر میں گوریلا دبے پاؤں چلتا ہوا جھاڑیوں میں گم ہوچکا تھا۔ میرے قدم سو سو من کے ہوگئے تھے۔ میں نے الٹے پاؤں بھاگنا چاہا۔ لیکن زمین نے جیسے مجھے جکڑ لیا۔ کیونکہ میرے عقب میں ایک بار پھر خشک پتوں کے چرچرانے اور جھاڑیوں کی شاخیں ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو رہا سہا خون بھی خشک ہوگیا۔ کیونکہ مادہ گوریلا اپنے نر کی تلاش میں ادھر ہی آرہی تھی۔ میں حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ جھاڑیوں کے اندر لیٹ گیا۔ اس وقت میں اگر چاہتا تو اسے آسانی سے اپنی رائفل کا نشانہ بناسکتا تھا۔ لیکن ارادہ تو یہ تھا کہ انہیں زندہ پکڑا جائے، اس لئے گولی چلانا مناسب نہ تھا۔ رنیز اور دوسرے شکاری نہ جانے کہاں غارت ہوگئے تھے اور مجھے رنیز پر اتنا غصہ آرہا تھا کہ اگر وہ میرے سامنے ہوتا تو شاید شوٹ کردیتا۔ گوریلا بڑا سمجھ دار جانور ہے۔ یہ دونوں گوریلے بھانپ گئے تھے کہ شکاری ان کے تعاقب میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لئے جھاڑیوں میں چھپے رہے اور صبح ہونے سے پہلے پہلے یہ دونوں یقینا اس وسیع جنگل میں غائب ہوجائیں گے۔ اس وقت ضرورت تھی کہ رنیز اور شکاریوں کو واپس بلایا جائے۔ فوراً ہی میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی اور میں نے عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں رینگتا ہوا آگے بڑھا اور ایک درخت پر چڑھ گیا اور ٹارچ جلا کر اس کی روشنی چاروں طرف پھینکنے لگا۔ پھر ایک ہوائی فائر بھی کیا جس سے جنگل کی سوئی ہوئی فضاء بیدار ہوگئی۔ گوریلے جو پہلے ہی مضطرب تھے۔ اب بے اختیار غرانے اور سینہ کوبی کرنے لگے۔ چند لمحے بعد میں نے دور جنگل میں ایک ٹارچ کی روشنی دیکھی جو قریب آرہی تھی۔ رنیز اور اس کے ساتھیوں نے میرا اشارہ پالیا تھا اور وہ تیزی سے میری جانب آرہے تھے، پھر رنیز کی رائفل سے جوابی فائر کا دھماکہ جنگل میں گونجا۔
رنیز نے پکار کر کہا۔ ”آرمنڈ، تم کہاں ہو؟“
میں نے حلق پھاڑ کر جواب دیا۔ ”میں یہاں درخت پر موجود ہوں۔ فکر نہ کرو، یہ گوریلے صبح ہمارے قبضے میں ہوں گے۔ بمبو سے کہو کہ وہ اسی وقت چند آدمیوں کو گاؤں بھیج کر سب آدمیوں کو صبح تک پہنچنے کی ہدایت کردے تاکہ ہم انہیں زندہ پکڑ سکیں۔ خبردار …… کوئی شخص انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ گوریلے جوان ہیں اور آسانی سے مانوس ہوسکتے ہیں۔“
تھوڑی دیر بعد میں درخت سے اتر کر رنیز کے پاس پہنچ گیا۔ خوشی کے مارے وہ مجھ سے لپٹ گیا اور بولا۔
”بس اب فتح ہی فتح ہے۔ ہم انہیں صبح تک یقینا گرفتار کرلیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت دو پنجرے بالکل تیار ہیں …… پنجرے نہ ہوتے تو ان گوریلوں کو ہم کہاں قید کرتے۔“
ادھر بمبو چیخ چیخ کراپنے آدمیوں کومختلف ہدایتیں دے رہا تھا۔ گوریلے بھی لگاتار غرارہے تھے۔ انہیں روکنے کے لئے چاروں طرف جلدی جلدی گھاس پھوس کی ڈھیر جمع کرکے آگ لگادی گئی۔ گوریلے آگ سے بہت ڈرتے ہیں اور اس کے قریب نہیں جاتے۔ معلوم ہوا کہ پڑوسی گاؤں کے بہت سے شکاری بھی جن کے پاس پرانے زمانے کی زنگ آلود بندوقیں تھیں، ان گوریلوں کے شکار میں حصہ لینے آئے تھے۔ انہیں سمجھا دیا گیا تھا کہ گوریلوں پر فائر کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ انہیں زندہ پکڑنا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے اپنی بندوقیں ایک طرف رکھ دیں اور ہاتھوں میں نیزے تھام لیے۔ درختوں پر چڑھے ہوئے شکاریوں نے اپنے اپنے پھندے تیار کرلیے۔ نیزہ بردار شکاری تن کر کھڑے ہوئے اور جال کی حفاظت کرنے والے دوڑ کر چاروں طرف پھیل گئے اور ایک سناٹا سا ہر طرف چھاگیا۔ گوریلے اب بھی جھاڑیوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ بمبو نے میری جانب دیکھا اور میرا اشارہ پاکر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔
جال کے قریب کھڑے ہوئے شکاری گوریلوں پر نیزے برسانے لگے۔ لیکن اس احتیاط سے کہ نیزے گوریلوں کے دائیں بائیں جھاڑیوں میں پیوست ہوتے رہے اور کسی نیزے نے گوریلوں کو زخمی نہیں کیا۔ نیزوں کے ساتھ ساتھ تیر بھی برس رہے تھے۔ گوریلوں نے لرزہ خیز چیخ ماری اورجھاڑی سے باہر نکل کر ایک جانب دوڑے، لیکن جال نے راستے روک لیا۔ گوریلوں نے اپنے مضبوط اور لمبے ہاتھوں سے جال کو نوچنے کی کوشش کی۔ تو شکاریوں نے ہلکے ہلکے ان کے جسموں میں نیزوں کی انیاں چبھودیں۔
رنیز دوڑ کر جال کی طرف گیا اوربے مثال بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک درخت پرچڑھا اورگوریلوں کی سرحد میں کود گیا۔ سینکڑوں آدمیوں کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔
رنیز کی یہ حرکت اتنی غیر متوقع اور دیوانگی سے بھرپور تھی کہ خود اس جنگل کے باسی جن کی عمریں ایسی ہی مہلک ترین مہموں میں کٹ جاتی ہیں۔ انگشت بدنداں رہ گئے۔ رنیز اب قطعی گوریلوں کے رحم و کرم پر تھا۔ اگر چہ وہ بدحواسی اورخوف کی وجہ سے اس کے نزدیک نہ آئے۔ تاہم وہ اسے آن واحد میں پکڑ کر ہلاک کرسکتے تھے۔ رنیز کے ایک ہاتھ میں رائفل اوردوسرے میں رسی کا پھندا تھا اس نے للکار کر دوسرے شکاریوں کو بھی جال کے اندر کود پڑنے کی ہدایت کی اور ادھر بوڑھے بمبو نے حیرت انگیز جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جال کو عبور کرلیا۔ بس پھر کیا تھا۔ بیسیوں نیزہ بردار شکاری گوریلوں کی سرحد میں پہنچ گئے۔ گوریلے جو ادھر ادھر جان بچانے کی کوشش میں دوڑ رہے تھے۔ دبک کر پھر جھاڑیوں میں جا چھپے اور وہیں سے غرانے اورچیخنے لگے۔ شکاری اب چاروں طرف سے ان کے گرد گھیرا ڈالنے میں کامیاب ہوگئے اور اس حصے میں جتنی بھی جھاڑیاں تھیں وہ چند لوگوں نے لمبے لمبے کلہاڑوں کی مدد سے اکھاڑ پھنکیں اور جگہ کشادہ ہوگئی۔
گوریلوں پر سب سے پہلے رنیز نے پھندا پھینکا اور پھر ہر طرف سے پھندوں کی بارش ہوگئی۔ مقامی باشندے، امریکہ کے کاؤ بوائے، لوگوں کی طرح پھندے بڑی مہارت سے پھینکتے تھے۔ آدھے گھنٹے کی جان توڑ تگ و دو کے بعد انہوں نے گوریلوں کو قطعی بے بس کردیا۔ نر گوریلے کی گردن اورایک ٹانگ اور مادہ گوریلے کے دونوں لمبے بازو پھندے میں جکڑے جاچکے تھے۔ ہر چند کہ پچاس ساٹھ طاقت ور شکاریوں نے یہ رسے پکڑ رکھے تھے لیکن گوریلوں میں بھی اس بلا کی قوت تھی کہ وہ ایک ہی جھٹکے میں ان آدمیوں کو جدھر چاہتے تھے، گھسیٹ لیتے تھے۔
رنیز اب گوریلوں کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ مہم ختم ہونے کے قریب ہے کیونکہ بے شمار پھندے ان قوی ہیکل جانوروں کے گرد پڑ چکے تھے۔ اب وہ حرکت کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔ البتہ ان کے کھلے ہوئے بھیانک منہ سے ہولناک چیخیں مسلسل نکل رہی تھیں۔
میری نگاہیں گوریلوں پر جمی ہوئی تھیں۔ مادہ گوریلے کو بانسوں کے بنے ہوئے ایک بڑے سے تختے پر لٹا کر باندھا جاچکا تھا اور اب نر کی باری تھی۔ یکایک اس نے ایک زبردست چیخ کے ساتھ دو تین جھٹکے مارے۔ جھٹکا ناقابل برداشت تھا۔ رسیاں ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں۔ گوریلے نے ایک بار پھر زورلگایا اوراپنے دونوں بازو آزاد کرالیے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس موقع پر کیسی افراتفری مچی تھی۔ میں نے اپنے دوست رنیز کو دیکھا جو گوریلے کی زد میں آچکا تھا۔ میں پاگلوں کی طرح اسے بچانے کے لیے دوڑا۔ ادھر سے بمبو اور اس کے چند ساتھی شکاری بھی گوریلے کی طرف لپکے اور اس نے رنیز کو للکار کر پیچھے ہٹ جانے کی ہدایت کی لیکن رنیز کی قسمت میں جو لکھا تھا، پورا ہوکر رہا۔ گوریلے نے غضبناک ہوکر رنیز پر حملہ کیا۔ اس کا فولادی پنجہ رنیز کی گردن پر پڑا اور وہ لڑھکنیاں کھاتا ہوا دور جاگرا۔ دوسرے شکاریوں نے بدحواسی میں اور کام خراب کردیا۔ انہوں نے جب گوریلے کو اپنے قابو سے باہر دیکھا تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ کیونکہ وہ اس وقت بالکل نہتے تھے۔ رنیز گوریلے سے صرف دس بارہ فٹ کے فاصلے پربے ہوش پڑا تھا…… گوریلا چشم زدن میں اس کے سر پر جا پہنچااور جھک کر اسے ایک تنکے کی مانند اٹھالیا۔ عین اسی لمحے بمبو اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے تیر کی مانند نیزے نکلے اور گوریلے کے جسم میں پیوست ہوگئے ایک نیزہ رنیز کی ریڑھ کی ہڈی کو چھیدتا ہوادوسری جانب نکل گیا۔
اس حادثے نے میرے ہوش وحواس گم کردیئے۔ کسی طرح یقین نہ آتا تھا کہ میرا پرانا اور بہادر دوست رنیز ہلاک ہوچکا ہے۔ میں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے دوست کی لاش کو دیکھ رہا تھا جو تھوڑی دیر پہلے جوانی، قوت اور صحت کا مجسمہ تھا۔ لیکن اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکا تھا۔ اس کی جلد بازی اور جوش نے اسے موت کے دروازے تک پہنچادیا۔ مردہ گوریلا جس کے جسم میں بیس پچیس نیزے پیوست تھے، رنیز کے قریب ہی پڑا تھا اور اس کی مادہ اب بھی بری طرح چیخ رہی تھی۔ اس حادثے نے ایسا ناگوار اثر میرے قلب و دماغ پر ڈالا کہ میں نے گوریلے کی مادہ بھی رہا کر دینے کا حکم دے دیا اور تیسرے روز ہی ملازموں کو لے کر امریکہ واپس جانے کی تیاریاں کرنے لگا۔
٭……٭……٭