کمّو نکمّو
شوکت تھانوی
۔۔۔۔
نواسے نواسے سب برابر ہیں ۔مگر نانی اماں تو شاید یہ طے کر چکی ہیں کہ انہیں خدا کو منہ دکھانا ہی نہیں ہے یا شاید کمال بھائی اُن کے سگے نواسے ہیں اور ہم سوتیلے کہ دنیا کی تمام نعمتیں اُن کے لیے موجود رہتی ہیں اور زمانہ بھر کی لعنتیں ہمارے لیے مخصوص۔ ان کو پیار سے کمّو کہا جاتا ہے۔ خیر وہ اُن کا نام جتنا چاہیں خراب کرتی اور بگاڑتی رہیں مگر ہم نے اُن کا کیا بگاڑا ہے کہ ہمارا نام آتے ہی وہ اس طرح منہ بناتی ہیں جیسے معدہ خراب ہو گیا تھا اور چورن کھا رہی ہیں۔ کمال بھائی کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں سے پیار کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ ہم کیا کہیں اور اگر ہم نظر آگئے تو اسی بارش میں بجلیاں تڑپنے لگتی ہیں۔ کمال بھائی سلام کریں تو صرف’’ جیتے رہو! سلامت رہو۔‘‘ تک کو کافی نہیں سمجھا جاتابلکہ ان کی بلائیںلے کر اپنی عمر بھی ان کی عمر میں شامل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اور ہمارے سلام کے جواب میں کہتی تو ہیں ’’جیتے رہو!‘‘ مگر اس ’’جیتے رہو‘‘کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ’’مرو اللہ کرے!‘‘
نانی اماں کے اس تعصب پر ہم نے بڑا غور کیا ۔غور کرتے کرتے دماغ چکرا گیا۔ مگر یہ چکر سمجھ میں نہ آیا کہ ان کو کمال بھائی سے اس قدر محبت اور ہم سے اس قدر نفرت کیوں ہے۔نانا ابا کا انتقال تو ہماری پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا لہٰذا یہ الزام بھی ہمارے سر نہیں آسکتا۔ پھر آخر نانی اماں کو ہم سے شکایت کیا ہے جو کمال بھائی سے نہیں ہے کہ ان کو جس پیار سے وہ کمّو کہتی میں اسی حقارت کے ساتھ ہم کو نکمّو کہا جاتا ہے۔ بڑی مشکل سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہم کو غالباً اس لیے نکمّو کہا جاتا ہے کہ ہم ان کی کوئی خدمت نہیں کرتے۔ خیر خدمت کرتے ہوئے تو کمال بھائی بھی ہم کو کبھی نظر نہ آئے بلکہ نانی اماں ہی سے خدمت لیتے رہے ہمیشہ مگر ہم نے نانی اماں کی نفرت کو محبت سے بدلنے کے لیے ان کی خدمت کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اس لیے کہ بزرگوں سے سُنا تھا کہ خدمت ہی سے عظمت ہے۔ خدمت کرنے کے موقع کی تاک ہی میں تھے کہ نانی اماں نماز پڑھنے کے لیے جیسے ہی اُٹھیں ہم نے دوڑ کر لوٹا اُٹھا لیا کہ وضو کے لیے پانی لا دیں۔ مگر ابھی لوٹا لے کر چلے ہی تھے کہ وہ اس بُری طرح چیخیں کہ سارا گھر سر پر اُٹھا لیا۔
’’اے۔ اے! اے لڑکے! اونہال! نہال کے بچے! او نکمّو! بھلا غضب خدا کا، میرا نمازی لوٹا تک لے اڑا۔ واہ آنکھ بچی اور مال دوستوں کا۔ وہ تو کہو میں نے دیکھ لیا ۔نہیں تو گیا تھا آج یہ لوٹا بھی۔ پڑا ہوتا کسی قد مچے پر۔ وضو کے کام کا بھی نہ رہتا ۔
ہم نے کہا۔ ’’نانی اماں! میں تو آپ کے لیے وضو کا پانی لینے جا رہا تھا ۔‘‘
نانی اماں نے ایک جھٹکے کے ساتھ لوٹا چھینتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں اور کیا! ایسے ہی تو بے چارے ہو نہا ر ہیں کہ میرے لیے وضو کا پانی لا رہے تھے۔ ہاتھ توڑ دوں گی جو آگے سے چھوا میرا لوٹا ۔‘‘
نانی اماں کے اِس سلوک نے دل توڑ کر رکھ دیا۔ جی چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیں مگر اسی وقت خیال آیا کہ پتھر کو موم بنانا آسان کام تو نہیں ہے۔ اس قسم کی تو بہت سی باتیں سننا پڑیں گی اور نہ جانے نانی اماں کو اپنے سے محبت کرانے کے لیے کیا کیا سختیاں جھیلنا پڑیں گی۔ اس پہلے ہی امتحان پر اگر ہم نے ہمت ہار دی توبس بن چکے نانی اماں کے نور نظر ۔ لہٰذا دل کو سمجھا بجھا کر پھر دوڑے ان کے لیے جانماز بچھانے کہ خوش ہو جائیں گی کہ جس کو وہ نکمّوسمجھتی ہیں وہی اُن کے کام آرہا ہے۔ مگر جانماز اٹھا کر ابھی ہم نماز کی چوکی تک نہ پہنچے تھے کہ اُن کی کڑکتی ہوئی آواز پھر سنائی دی:
’’ہائے! میری جانماز! اے میں کہتی ہوں لڑکے! تیرا آخر مطلب کیا ہے؟ کیوں میری جان کا دشمن ہو رہا ہے؟ لو بھلا کوئی پوچھے میری جانماز سے اس کو کیا کام آپڑا ہے کہ وہی لیے جاتا ہے۔ ہزار مرتبہ منع کیا کہ تو میرے کمرے میں نہ آیا کرمگر میں ذراسی ہٹی اور اس نے اپنی کارستانی شروع کردی۔‘‘
اور اس طرح چیختی چلاتی جب وہ قریب آگئیں توہم نے بڑی سعادت مندی سے کہا :
’’نانی اماں! آپ ہی کے لیے تو میں جانماز بچھانے جا رہا تھا چوکی پر!‘‘
نانی اماں نے منہ چڑا کر کہا ۔’’ہاں اور کیا، وہی مثل کہ بھٹیا را نمازی، تو ضرور ہے دغا بازی! کان کھول کر سُن کہ کان اکھاڑ کر ہتھیلی پر رکھ دوں گی جواب میری کوئی چیز چھوٹی اور اب سچ سچ بتا دو کہ وہ میری دُھوپ کی عینک کہاں ہے؟ سوائے تمہارے کوئی نہیں لے جاسکتا۔ تمہاری ہی یہ عادت ہے کہ پرائی چیزیں الٹ پلٹ کرتے رہتے ہو ۔‘‘
لیجیے!گئے تھے نماز بخشوا نے وہاں روزے گلے پڑے۔ عینک کی چوری بھی لگ گئی۔ لوٹا چور اور جانماز چور توثابت ہو ہی چکے تھے۔ اب عینک کا الزام بھی لگ گیا۔ اور الزام کیا لگا، اس قصے نے تو ایسا طول کھینچا کہ ابا جان تک یہ بات گئی کہ ہم نے نانی اماں کی عینک چرا لی ہے اور اس چوری کاا قرار نہیں کرتے۔ وہاں باقاعدہ تحقیقات شروع ہو گئیں۔ پہلے پیار سے چمکار کر پوچھا گیا۔ پھر ڈرایا دھمکایا گیا۔ اس کے بعد دھمکیاں دھول دھپے تک جا پہنچیں۔ مگر سوال تو یہ تھا کہ ہم آخر عینک کہاں سے پیدا کرتے اور کس طرح اس چوری کا اقرار کر لیتے جو ہم نے نہیں کی تھی۔ نتیجہ یہ کہ نہایت پختہ کار چور سمجھ لیاگیا یعنی ہم اتنے پکے ہیں کہ چور بھی ہیں اور چوری کا اقرار بھی کا نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ ہم کو کانوں پر ہاتھ رکھنا پڑے کہ ہم باز آئے نانی اماں کی خدمت سے۔ اتنی سستی نہیں ہے اُن کی محبت جتنی ہم سمجھ بیٹھے تھے۔
چند دن کے بعد ایک حادثہ اور ہو گیا۔ پہلے تو دودھ والے کی شامت آئی کہ وہ اچھا خاصا دُودھ دیتے دیتے اب پانی ملا دودھ دینے لگا ہے جس پر ذرا بھی بالائی نہیں جمتی۔ اس سے کہا گیا کہ اُس کو اس بے ایمانی پر پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ لہٰذا اس نے خود ہی دودھ دینا چھوڑ دیا۔ مگر جب دوسرے دُودھ والے کے دُودھ میں بھی بالائی نہ جم سکی تو یہ طے کیا گیا کہ ہمارا نو کر عبدل در اصل چور ہے اور اس کو بالائی بہت مرغوب ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیا گیا۔ مگر یہ چوری ایک دن خود بخود ہم پر کھل گئی۔ ہم گئے تھے باورچی خانے میں نمک مرچ کی چوری کرنے تاکہ کچی املی کے ساتھ اسکول میں کھائیں، لیکن اسی وقت نانی اماں کو باورچی خانے میں آتے دیکھ کر ہم ایک طرف دبک گئے رہے۔ نانی اماں دبے پاؤں باورچی خانے میں آئیں اور دودھ کی پتیلی کھول کر ایک تشتری میں دُودھ کے اوپر کی ساری بالائی اُتار کر اور اس پر چینی چھڑک کر اسی طرح دبے پاؤں نکل گئیں۔ہم حیران رہ گئے کہ یا اللہ! یہ ہم نے کیا دیکھا ہے۔ نانی اماں ایسی نمازی پرہیز گار، گھر بھر کی بزرگ اور وہ ہیںبالائی کی چور۔ جی میں تو آیا کہ سارا بھانڈا پھوڑ دیں اور گھر بھر کو سر پراٹھا کر نانی اماں سے زندگی بھر کا بدلہ لے لیں مگر ہم نے طے کیا کہ ذرا دیکھیں تو سہی کہ یہ کرتی کیا ہیں۔ دبے پاؤں ہم اُن کے کمرے کی طرف گئے اور اب جو ایک مرتبہ دھڑسے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جاتے ہیں تو دیکھتے کیا ہیں کہ نانی اماں پنکھا جھل جھل کر کمال بھائی کو بالائی کھلا رہی ہیں۔ اور وہ مزے سے بیٹھے چٹ کر رہے ہیں۔ نانی اماں نے جھٹ اپنے ہاتھ کا پنکھا بالائی کی تشتری پر رکھ دیا اور ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑ گئیں کہ ’’کیوں آیا تو میرے کمرے میں؟ عینک کے بعد کیا کچھ اور بھی لے اُڑنے کا ارادہ ہے؟ ‘‘
عینک کا نام سن کر کمال بھائی نے کہا ۔’’نانی اماں! آپ کی عینک تو کبوتروں کی ڈھابلی سے مجھے ملی تھی میں نے رکھ دی ہے اِس سامنے والے بستر پر۔‘‘
نانی اماں نے اس پر بھی کہا تو یہی کہا کہ’’ تو یہ کہو کہ کبوتروں کی ڈھابلی میں چھپائی گئی تھی عینک۔ ‘‘حالانکہ وہ خود روز کبوتروں کو دانہ ڈالنے جایا کرتی ہیں اور کبوتروں کی ڈھا بلی ان کے علاوہ اور کوئی چھو تھی نہیں سکتا۔ مگر یہ کیسے کہتی دیتیں کہ غلطی اور بھول چوک خود اُن ہی کی تھی۔ ایک ہماری شرافت دیکھیے کہ ہم نے اِس بالائی کی چوری کی بات کسی سے نہ کہی بلکہ چپ ہو رہے۔
آخر ایک دن اسکول سے جو آئے تو معلوم ہوا کہ نانی اماں کو بہت سخت بخارچڑھا ہوا ہے ۔ہم نے چاہا کہ جا کر مزاج پوچھیں مگر پھر خیال آیا کہ ہم کو دیکھ کر بخار اور بھی بڑھ جائے گا یا خدا نہ کرے کچھ اور ہو گیا تو نام لگے گا ہمارا کہ ہم ہی نے خدا نہ کرے ان کی جان لی ہے ۔ دوسرے دن ان کی حالت بہت خراب ہو گئی تو ہم نے اپنے کو ہر خطرے میں ڈالنا منظور کر لیا اور ان کے کمرے میں گئے۔ وہ اکیلی پڑی ہائے ہائے کر رہی تھیں اور کبھی کبھی پانی! پانی کہتی تھیں۔ ہم نے ان کو پانی پلایا تو پی کر بولیں ۔’’جیتا رہے میرا چندا! میرا کمّو! میرا لال! کھانا بھی کھایا ہے تو نے؟ ‘‘یہ کہ کر آنکھ جو کھولی تو ہم تھے۔ کہنے لگیں: ’’اچھا تم ہو؟ خیر!‘‘ اور ہم نے بھی دل میں کہا کہ خیر یہی سہی کہ یہ بات خیر، پر ٹل گئی۔ اِس کے بعد سے ہم ان کے پاس سے بالکل نہ ہٹے۔ دوا کے وقت دوا دیتے رہے ،ہاتھ پیر دباتے رہے، ان کو ڈاکٹر نے دُودھ بتایا تھا وہ وقت پر پلاتے رہے اور کمال بھائی کئی دن تک نظر ہی نہ آئے۔ نانی اماں جب ہوش میں آتیں تو ہم ہی کو پاتیں اور اب وہ ہمارے سر پہ بھی ہاتھ پھیرنے لگی تھیں۔ ایک آدھ دُعا بھی دے جاتی تھیں بھولے سے، مگر ایک دن ابا جان سے اُنھوں نے کہا ۔’’کھوٹا پیسا اور نالائق اولا د وقت پر کام آتی ہے۔ دیکھو، میرا نکمّو کیسا کمّو نکلا ہے ۔‘‘