skip to Main Content

کلیلہ و دمنہ

صدیوں سے مقبول  انسانوں اور جانوروں کی دل چسپی سے بھرپور  لازوال نصیحت آموز کہانیاں۔

قصہ چین کے ایک بادشاہ کا

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے بہت عرصہ پہلے ملک چین میں ایک بادشاہ رہتا تھا جس کی دولت و حشمت اورعظمت و جہاں بانی کا شہرہ چاردانگ عالم میں پھیلا ہوا تھا۔ بڑے بڑے سلاطین اس کے فرماں بردار اور بہت سے شاہان ذی شان اس کے با ج گزار تھے۔ امراء ذی وقار اور وزراء صاحب تدبیر ہمیشہ اس کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہتے۔ علما، فضلا اور حکما سے اس کا دربار بھرا رہتا۔ خزانہ سیم وزراور جواہرات سے پر تھا۔ بے شمار بہادر فوجیں اس کے اشارات کی منتظر صف بستہ کھڑی رہتی تھیں۔ بادشاہ خود بھی شجاعت اور سخاوت کے اوصاف سے متصف تھا۔ مجموعی طور پر اس کے سلطنت اصول سیاست پر چلتی تھی۔
اس بادشاہ کو لوگ ہمایوں فال کے نام سے پکارتے تھے کیوں کہ اس کے عدل و انصاف سے رعایا خوش تھے۔ اس کی بخشش اور سخاوت سے بوڑھے ، مجبور اور محتاج سب ہی چین کی بنسی بجاتے تھے۔ وہ اس راز سے اچھی طرح واقف تھا کہ اگر عمال شاہی رعایا کے معاملات کو انصاف کے مطابق طے نہ کریں گے تو فتنہ وفساد کا بازار گرم ہو جانا اور ملک پر تباہی آجانا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر مظلوموں اور دردمندوں کی دل جوئی اور پشت پناہی نہ کی جائے گی تو پھر ساری مملکت میں ظلم و ستم کی تاریکی پھیل جانا یقینی ہے۔ 
اس بادشاہ کا ایک وزیر تھا جس کی صائب رائے سے امور سلطنت کی گتھیاں آسانی سے سلجھ جاتی تھیں اور اس کی تدبیر سے سلطنت میں اٹھنے والے بہت سے فتنے دب جاتے تھے۔ اس کی سیاست طوائف المکو کی اور ظلم و تشدد کے کانٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی تھی۔ چنانچہ اس کی خجستہ رانی کی بنا پر لوگوں نے اس کا نام ہی خجستہ رائے رکھ دیا۔ بادشاہ ہمایوں فال اس کے مشورے کے بغیر نہ کوئی مہم چلاتا اور نہ اس کی صلاح و تدبیر پوچھے بغیر چھوٹے بڑے کسی کام میں ہاتھ ڈالتا۔ یہاں تک کی رزم وبزم کی ہر بات اس کی رائے اور اشارے پر موقوف تھی۔
اتفاق سے ایک دن ہمایوں فال نے شکار کھیلنے کا ارادہ کیا۔ خجستہ رائے بھی اس کے ہم رکاب تھا۔ شکار گاہ کی فضا بادشاہ ذی شان کے قدم سے چمک اٹھی۔ پرندے شاہین کے ذریعہ بادشاہ کی غذا بننے کے شوق میں زمین پر اترنے لگے اور شکار کرنے والے جانور اپنے اپنے پنجروں سے نکل نکل کر شکار کے تعاقب میں چل پڑے۔ چیتے کالی آنکھوں والی ہرنیوں کی جستجو میں اور شیر جیسے چنگل رکھنے والے شکاری کتے خرگوش پر قابو حاصل کرنے کے لیے روباہی پر اتر آئے۔ باز تیر کی طرح جھپٹے اور آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ شاہین پرندوں کی شریانوں سے خون کھینچنے لگے۔
بادشاہ شکار سے لطف اندوز ہوچکا تھا، صحرا اور اس کی فضا پرندو چرند سے خالی ہوگئی تو لشکریوں کو واپسی کا حکم ہوا۔ بادشاہ اور وزیر دار السلطنت کی طرف روانہ ہوئے لیکن گرمی اتنی تیز تھی کہ لوہا موم کی طرح پگھل رہا تھا اور آفتاب آگ کے شعلے برسا رہا تھا۔ انتہائے تپش سے گھوڑا آگے بڑھنے سے رکنے لگا اور ہمایوں فال نے اپنے وزیر خجستہ رائے سے کہا کہ ایسی گرم ہوا اور لو میں سفر کرناعقل مندی نہیں ہے۔ اس وقت تو خیمے میں بھی گرمی پناہ نہ لینے دے گی۔ کرۂ ارض لوہار کی بھٹی بنا ہوا ہے۔ کوئی ایسی تدبیر نکالو کی تھوڑی دیر سائے میں پناہ مل سکے او رجب سورج گوشۂ مغرب میں اپنا منھ چھپا لے تو ہم لوگ اپنا سفر شروع کریں۔
خجستہ رائے نے اس کی تائید کی اور دست بستہ عرض کیا کہ جہاں پناہ تو ظل الیٰ ہیں۔ آفتاب کی تمازت آپ کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔ پھر بھی صحت جسمانی کے لحاظ سے ایسا کرنا بہت مناسب ہے یہیں نزدیک ہی ایک بہت بڑا پہاڑ ہے، جہاں ہم تھوڑی ہی دیر میں پہنچ سکتے ہیں۔ اس پہاڑ کی بلندی اور شادابی کا کیا کہنا۔ اوپر سے نیچے تک سبزہ ہی سبزہ ہے۔ میٹھے پانی کے ہزاروں چشمے جاری ہیں۔ کلیاں، شگوفے اور پھول اس طرح لہلہاتے ہیں جیسے آسمان پر ستارے چمک رہے ہوں۔ چشموں سے نکلی ہوئی نہریں جنت کی نہروں کی طرح رواں ہیں۔ جاں نثار کی رائے ہے کہ اسی طرف کا رخ کیا جائے اور جہاں پناہ تھوڑی دیر سائے اور سرسبزی سے لطف اندوز ہو کر تازہ دم ہو لیں۔
ہمایوں فال نے خجستہ رائے کے مشورے کے مطابق اس طرف کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دامنِ کوہ میں پہنچ گیا۔ پہاڑ واقعی آسمان سے باتیں کر رہے تھا۔ ہر طرف سرسبزی و شادابی تھی۔ بادشاہ پہاڑ کے اوپر چڑھ کر اِدھر ادھر گھومنے لگا۔ پھرتا پھراتا ایک وسیع قطعہ زمین پر پہنچ گیا جہاں کی ہریالی، پھولوں کا نکھار اور آب و ہوا کی فرحت جنت الفردوس کے مثل تھی۔ پھولوں کے جھرمٹ میں نازک بنفشہ گیسوئے خوباں کی طرح بل کھاتا تھا۔ نسیم مشک بار پھولوں کی خوش بو کو ہر چہار طرف بکھیر رہی تھی۔ بلبلوں کے نغموں سے فضا گونج رہی تھی۔ نہر کے کنارے کھلے ہوئے پھول صاف و شفاف نظر آرہے تھے۔ خوش اِلحان پرندے شاخوں کی بلندی پر چہچہا رہے تھے۔
اس مرغزار میں ایک تالاب تھا، جس کا پانی آبِ حیات سے بھی زیادہ حیات بخش اور سلسبیل سے بھی زیادہ لطیف، شیریں اور صاف تھا۔ وزیر نے تالاب کے کنارے مسند شاہی بچھانے کا حکم دیا۔ ہمایوں فال مسند شاہی پر جلوہ افروز ہو کر استراحت فرمانے لگا۔ لشکری اور خدام نہر کے کنارے اور درختوں کے نیچے لیٹ گئے اور جہنم زار سے نکل کر ایسے جنت نشان مقام پر آنے کی وجہ سے خدائے بزرگ وبرتر کا شکر ادا کرنے لگے۔
بادشاہ اور وزیر خدا کی قدرت، اس کی رنگا رنگ صنعتوں اور حسین گلکاریوں کو دیکھ کر اس کی عظمت کے معترف تھے کہ اچانک ہمایوں فال کی نظر ایک ٹنڈ منڈ درخت پر پڑی جس میں ایک بڑا سا سوراخ تھا اور شہد کی مکھیاں اس کو اپنے قلعے کے طور پر استعمال کر رہی تھیں۔ بادشاہ نے شہد کی مکھیوں کا ہجوم دیکھ کر اپنے تجربہ کار وزیر سے پوچھا کہ اس درخت کے گرد اس کا مجمع کیوں ہے اور اس مستعدی کے ساتھ اس سبزہ زار میں اس کی آمدو رفت کس کے حکم پر ہے؟
خجستہ رائے نے ادب سے جواب دیا کہ اے بادشاہ، ان مکھیوں سے نفع ہی نفع ہے، نقصان مطلق نہیں۔ ان کی لطافت اور پاکی کا یہ عالم ہے کہ قرآن شریف میں ان کا ذکر آیا ہے۔ ان کے درمیان ایک ملکہ ہوتی ہے جس کو’’ رانی مکھی‘‘ کہتے ہیں جو جتھے میں عام شہد کی مکھیوں سے بڑی ہوتی ہے۔ جماعت پر اس کی حکومت چلتی ہے۔ وہ ایک چو کور تخت پر، جو موم سے بنایا جاتا ہے، جلوہ افروز رہتی ہے اور اس کے وزیر، دربان، پاسبان اور نقیب سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے رہتے ہیں۔کارندوں کی چابک دستی کا یہ حال ہے کہ ان میں سے ہرا یک اپنے لیے موم کا چھ پہلو والا گھر بنا لیتا ہے، جس کے کسی ضلع میں بال برابر کا فرق نہیں ہوتا اور جس کو بڑے بڑے حساب دان بغیر آلہ وپر کا ر کے نہیں بنا سکتے۔ مگر یہ کسی آلے کی مدد کے بغیر بنا لیتے ہیں اور ملکہ کے حکم پر باہر آجاتے ہیں۔ملکہ اپنی زبان میں ان سے عہد لیتی ہے کہ سب اپنی لطافت کو گندگی سے نہیں بدلیں گے، طہارت کو نجاست سے آلودہ نہ کریں گے، سوائے پھولوں اور کلیوں کے شاخ کے اور کسی حصے پر نہ بیٹھیں گے اور صرف اسکی لطیف پتیوں کا رس چوسیں گے۔ مکھیاں جو رس بھی چوستی ہیں، لعاب دہن کی شکل میں، باہر نکال کر جمع کرتی جاتی ہیں۔ یہی وہ مزے دار شربت ہے جس کے بارے میں ’شِفاء لِلناس‘ ( لوگوں کے لیے شفا) کہا گیا ہے۔
یہ کارندے جب رس چوس کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو پہلے درباری ان کا منھ سونگھتے ہیں کہ انھوں نے کسی ناپاک چیز کو تو نہیں چھوا۔ جب اس سے اطمینان ہو جاتا ہے تو اُن کو اجازت ہوتی ہے کہ اپنے بنائے ہوئے گھروں میں داخل ہوں۔ اگر وہ کسی کثافت اور نجاست پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اُن کے منھ سے بو آتی ہے تو دربان انہیں اسی وقت دو ٹکڑے کر دیتا ہے اور اگر وہ دربانوں کی غفلت سے اندر چلے جائیں تو ملکہ کی تیز قوتِ شامہ سے نہیں بچ سکتے۔جیسے ہی ملکہ کو کسی کی بدبُو کا اندازہ ہوتا ہے ، وہ فوراََ اُس کو حاضر ہونے کا حکم دیتی ہے۔ سب سے پہلے دربانوں کو قتل کراتی ہے پھر اس سیہ بخت کو مروا ڈالتی ہے تا کہ دُوسروں کو اس سے عبرت ہو اور آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ شہد کی مکھی کے علاوہ کوئی دوسری چیز ان گھروں میں گھسنا چاہے تودربان کبھی اس کو گھسنے نہ دیں گے اور اگر وہ زبردستی پر اُتر آئے تو پھر اس سے جنگ کریں گے اور مار ڈالیں گے۔ 
مشہور ہے کہ جمشید بادشاہ نے اپنی حکمرانی میں دربانوں اور پاسبانوں کی تعیناتی، ایلچی اور سفیروں کی تقرری کاآئین، نیز تخت و محل کی آرائش کا سلیقہ اسی گروہ سے سیکھا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کی ترقی اور تکمیل ہوتی رہی۔
ہمایوں فال نے جب یہ سنا تو اُس کے دل میں شہد کی مکھیوں کو اور قریب سے دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ وہ اُٹھا اور درخت کے نیچے آکھڑا ہوا۔ مکھیوں کے آنے جانے کا طریقہ اور ان کی کارگُزاری کو دیکھتا رہا۔ بحکمِ الہٰی مکھیوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہوا کے گھوڑے پر سوار نکلتے اور پاک و صاف جگہ سے لطیف غذا منھ میں لے کر لوٹتے ۔ کسی کو ایک دوسرے کے نفع و نقصان سے عرض نہ تھی اور نہ کوئی مکھی کسی کو تکلیف پہنچاتی تھی۔
بادشاہ نے تھوڑی دیر تک یہ منظر دیکھنے کے بعد کہا کہ اے خجستہ رائے، کیسی تعجب کی بات ہے کہ یہ اپنی سرشت میں درندگی رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو تکلیف اور ضرر نہیں پہنچاتیں۔ اِن میں ڈنک موجود ہے لیکن ڈنک مارنے کی بجائے شہد دیتی ہیں۔ فوجی تنظیم اور ترتیب رکھتے ہوئے بھی نرمی و مہربانی سے پیش آتی ہیں۔ اس کے برخلاف ہم بنی نوعِ انسان ہیں کہ اپنے ہی جنس کو ہر وقت ایذا اور تکلیف پہنچانے کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ وزیر نے جواب دیا کہ جہاں پناہ، اللہ پاک نے ان کو ایک جیسی فطرت عطا کی ہے لیکن اس کے برعکس انسان کی طبیعتیں مختلف اور جدا جدا بنائی گئی ہیں اور چوں کہ ان میں روح، کثافتِ جسمانی اور نُور و ظُلمت ایک جگہ جمع کر دیے گئے ہیں اس لیے ان سے قسم قسم کی حرکات اور طرح طرح کی باتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ انسانوں کو فرشتوں کی عقل اور خصلت اور شیطانوں کا نفس امارہ دونوں ہی ودیعت کیے گئے تا کہ عقل تک رسائی حاصل کر کے کچھ لوگ آدم کے درجے تک پہنچ سکیں اور بعض لوگ جو شیطانی سرکشی اور نفسِ امارہ کے شکار ہو جائیں وہ جہنم میں اپنا دائمی ٹھکانا بنا لیں۔
بادشاہ نے کہا کہ نفس پرستوں کا جو حال تم نے بیان کیا ہے اسے سن کر انسان کی بھلائی تو اسی میں نظر آتی ہے کہ وہ دُنیا سے منھ موڑ کر گوشہ نشنینی اختیار کرلے اور دوسرے ابنائے جنس کے درمیان بیٹھ کر اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے اپنی صفائی قلب اور تزکیۂ نفس میں مشغول ہو جائے، تا کہ گمراہی سے چھٹکارا ملے۔ میں نے سنا ہے کہ حضور الہٰی گوشہ نشینی میں پوشیدہ ہے اور صرف مجھے آج معلوم ہو گیا کہ بیشتر انسان کالے ناگ سے بھی زیادہ زہریلے ہیں اور ان سے ملنے جلنے میں جان کا خطرہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض عقل مندوں نے جنگلوں اور غاروں میں چھپ چھپ کر اپنی زندگی گزاردی۔
بادشاہ کی یہ گفتگو سن کر خجستہ رائے نے دست بستہ عرض کیا کہ جہاں پناہ کا فرمانا بجا ہے۔ لوگوں کی صحبت اکثر پراگندگی خاطر کا سبب ہوتی ہے، لیکن بعض بزرگانِ دین اور حکما نے بنی نوعِ انسان کی اصلاح کے پیش نظر انسانوں کے ساتھ رہنے کو گوشہ نشینی سے بہتر سمجھا ہے۔ان کا مقولہ ہے کہ اگر ساتھی اچھے مل جائیں تو پھر صحبت تنہائی سے بہتر ہے۔ (ہاں ، اگر مصاحب اور ساتھی نیک اور شفیق نصیب نہ ہوں تو بے شک تنہائی صحبت سے بہتر ہے) اور غور سے دیکھا جائے تو بات بھی یہی ہے، کیوں کہ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے ہی علم و فضل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ حدیث شریف ہے ( لا رُھبا نیِتہ فیِ الاسلام) اسلام میں گوشہ نشینی نہیں ہے۔
پھر یہ بھی غور فرمایا جائے کہ انسان فطرتاََ مدنی الطبع واقع ہوا ہے۔ اس کے لیے تمدن اور سماج کی ضرورت ہے۔ خالق کونین نے انسان کو ایک دوسرے کا محتاج پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی شخص سماج کی مدد نہ کرے تو پھر انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ ایک شخص غذا پیدا کرتا ہے تو دوسرا کپڑا بناتا ہے، اور تیسرا ہے جو ان کے لیے آلات بناتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی اپنا کام چھوڑ دے اور دوسروں کی مدد نہ کرے تو تینوں زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے سماجی زندگی میں ہاتھ بٹانا انسان کے لیے ضروری ہے۔ ہر شخص اپنی ضرورت سے زیادہ پیدا کرکے دوسروں کو اپنی پیداوار کا حصہ دیتا ہے اور اس کے بدلے میں ان کی پیدا کردہ چیزوں سے مُستفید ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ انسان ایک دوسرے کی مدد کا محتاج ہے اور معاونت اجتماعی زندگی کے بغیر محال ہے۔
بادشاہ نے فرمایا کہ اے وزیر، جو کچھ تم نے بیان کیا وہ حکمت و دانش کا نچوڑ ہے۔ لیکن میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ چوں کہ بنی نوع انسان ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور ان کا مشرب اور فطرت بھی مختلف ہے اس لیے ان میں جھگڑا اور فساد کا ہونا ضروری ہے۔ اور چوں کہ ان میں سے کوئی طاقت ور اور تنومند ہے اور کوئی کمزور اور نحیف، کوئی دولت مند اور امیر ہے تو کوئی غریب اور نادار، اس لیے یقینی ہے کہ طاقت ور اور دولت مند کمزور اور غریب لوگوں کو اپنی ہوس وحرص کا شکار بنائے اور اس طرح فساد برپا ہوجائے۔ 
وزیر نے کہا کہ اے شہنشاہِ حکمت پناہ، اسی جھگڑے اور فساد سے بچنے کے لیے تو تدبیر نکالی گئی ہے کہ ہر شخص اپنے حق پر قانع رہے۔ دوسروں کے حصے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے۔ اسی تدبیر کو ’’ سیاست‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کا دارومدار قانون پر ہے جس کی تشریح خیرُ الاُ مورِاوَ سَطُہا میں مضمر ہے۔
بادشاہ نے کہا کہ اس ’’ اوسط‘‘ یعنی میانہ روی کو اختیار کرنے سے اعتدال کی صورت پیدا ہو جاتی ہے مگر ہم اعتدال کو کس طرح معلوم کر سکتے ہیں؟ وزیر نے جواب دیا کہ اس کا تعین کرنے والی خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی ایک کامل ہستی ہے جس کو حکما ’’ ناموسِ اکبر‘‘اور علمائے دین رسول یا نبی کہتے ہیں اور بلاشبہ اس کا ہر حکم یا ممانعت دنیا اور آخرت کی بھلائی کے پیش نظر ہوتی ہے۔ جب یہ نبی علیہمُ السلام دوسری دنیا میں کوچ کرنے کا عزم کرتے ہیں تو جانے سے پہلے اپنے دین کے آئین اور سیاست کے قوانین کو چلانے کے لیے ایک زبردست اور طاقت ور حاکم کو مقرر کر دیتے ہیں تاکہ وہ شریعت کے احکام ( اوامرونواہی ) کی حفاظت کرتا رہے اور سیاست کے قوانین پر کار بندرہ کو مذہب وسلطنت دنوں کا نگہبان رہے کیوں کہ یہ دونوں تواہم ہیں۔
ہمایوں فال نے پوچھا کہ یہ زبردست حاکم کیسا ہونا چاہیے اور ملک و ملت کو کاموں کی بجا آوری میں اس کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے؟
خجستہ رائے نے جواب دیا کہ اس حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ انصاف کی باریکیوں اور سیاست کے قوانین سے پوری طرح واقف ہو ورنہ ملک زوال سے قریب تر ہوجائے گا اور سلطنت ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ارکانِ دولت کی سرشت کو پہچانے کہ کس جماعت کو مضبوط بنایا جائے اور کس گروہ کو دبایا جائے۔ کیوں کہ سلطنت کے کارندوں میں تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سلطان کی خیر خواہی اور خلوص کی بنا پر سلطنت کے وفادار اور سلطان کی نیک نامی اور نجاتِ اُخروی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ورنہ زیادہ تر لوگ نفع حاصل کرنے اور اپنی برتری جمانے کے لیے سلطنت سے وابستہ ہوجاتے ہیں، چوں کہ ان کی خدمت کا انحصار لالچ پر ہوتا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ دوسروں کو اپنے سے زیادو فائدہ اُٹھاتے دیکھ کر وہ حسد کرنے لگیں۔ اور جب حسد و رشک کی آگ ان کے دل میں روشن ہوجائے گی تو لا محالہ وہ سلطان کے سامنے اپنے حریف کے بارے میں جھوٹ سچ لگائیں گے۔ اگر سلطان محتاط نہ ہوا اور بغیر تحقیق اور چھان بین کیے حاسد کی لگائی بجھائی میں آگیا تو طرح طرح کے فساداور نقصانات کا ظہور پذیر ہونا ضروری ہے۔ لیکن بادشاہ بیدار مغز اور ہوش مند ہوا اور تمام معاملات کی چھان بین خود کرتا رہا تو پھر اس کے لیے جھوٹ اور سچ میں تمیز کرلینا زیادہ مشکل نہیں۔وہ مذہب اور سلطنت دونوں کو نقصان سے بچا لے گا اور اس کو دنیا اور آخرت دونوں میں سرخروئی حاصل ہوگی۔ جس بادشاہ نے اپنے امور کا دارومدار حکمت اور سیاست پر رکھا اور حکما کی نصیحتوں کو اپنا دستور العمل بنایا، اس کی مملکت کے آباد اور رعایا کے دل شاد ہونے میں کوئی شک نہیں۔ جیسا کہ ہندوستان کے رائے اعظم دالبشیم نے اپنی سلطنت کی بنیاد کو حکیم بید پائے برہمن کے بتائے ہوئے اصولوں پر رکھااور بادشہوں کے شایانِ شان کام کیا۔ نتیجے میں عرصہ دراز تک کامیابی کے ساتھ حکمرانی کرتا اور جب دوسری دنیا کو سدِ ھارا تو صفحہ روز گار پر اپنا نیک نام چھوڑ گیا۔
ہمایوں فال دالبشلیم اور بید پائے کا ذکر سن کر کلی کی طرح کھِل گیا اور مسکرا کر فرمایا کہ اے خجستہ رائے ، زمانہ دراز سے میں رائے دالبشیلم اور بید پائے برہمن کا قصہ سننے کا مشتاق ہوں۔ اکثر لوگوں سے میں نے فرمائش کی لیکن کسی نے اس قصے سے واقفیت کا اظہار نہ کیا۔ اس فکر میں تھا کہ کسی کے منھ سے ان لوگوں کا نام نکلے تو اس سے قصہ کہنے کی فرمائش کروں۔ اب خدا کے فضل سے میرے وزیر ہی کو یہ قصہ معلوم ہے تو پھر میری آرزو کی تکمیل میں کیوں تاخیر ہو۔ جلد ازجلد یہ قصہ سنا کر میری خوشنودی حاصل کرو اور حقِ نعمت بجا لاؤ۔ ان شاء اللہ میں اس کو سن کر رعایا کی بھلائی اور بہبود کے لیے کچھ کر سکوں گا۔

 

جاری ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top