skip to Main Content

کالی بَلا

عبدالحمید نظامی
۔۔۔۔۔

نذیر کو اُس کے ماں باپ پیار سے ’’جیرا ‘‘کہہ کر پکار نے تھے۔ جب کوئی اُس سے پو چھتا کہ’’ منے تمہارا نام کیا ہے؟ ‘‘تو وہ خود بھی تو تلی زبان سے اپنا نام جیرا ہی بتاتا اور بہت خوش ہوتا۔ اُس کی ماں اس کے کالے کالے گال چوم کر اسے سینے سے لگا لیتی اور اس کی توتلی باتوں پر خوب ہنستی۔ماں باپ کو اپنی اولاد سے ایک سی محبت ہوتی ہے، مگر چھوٹے بچے یا جس بچے میں کوئی نقص ہو تو وہ اس سے زیادہ محبت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر نہ سمجھے۔
نذیر کا رنگ دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت کالا تھا اور چیچک نے تو اُسے اور بھی بدشکل کر دیا تھا۔ اس لیے اُس کی ماں، بشرہ اور بشیر سے زیادہ نذیر کو چاہتی تھی۔ بشرہ کا رنگ گورا تھا اور بال سنہرے تھے۔ وہ فراک پہن کر ولایتی گڑیا لگتی تھی۔ بشیر بھی کھلتے ہوئے گندمی رنگ اور اچھے ناک نقشے کا لڑکا تھا۔ یہ دونوں نذیر سے بڑے تھے۔ اور جب کبھی انھیں نذیر سے کوئی شکایت ہوتی یاوہ انہیں اپنی مٹھائی میں سے حصہ نہ دیتا تو وہ اُسے ’’جیرا ۔کالا جیرا۔‘‘کہہ کرخوب چھیڑتے۔ وہ انھیں کو ستا ۔’’اللہ کرے بشرہ مر جائے! خدا کرے بشیر کا منہ بھی کالا ہو جائے! ‘‘مگر جتنا وہ مچلتا اور چِڑتا اُتنا ہی زیادہ وہ اسے ستاتے۔
نذیر کے ابا کے دوست یا آئے گئے مہمان جب نذیر کو دیکھتے تو ہنس پڑتے اور کہتے ۔’’مجید صاحب! آپ کا یہ نمونہ الگ ہی ہے۔ ایک تو بچارے کا رنگ کالا ہے اُوپر سے چیچک نے اور بھی حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ ‘‘
نذیر کے ابا کھسیانے ہو کر کہتے ۔’’بہت اچھا لڑکا ہے نذیر ۔ پڑھنے لکھنے میں بہت ہوشیار ہے۔ آپ اس کی بنائی ہوئی تصویریں دیکھیں تو حیران رہ جائیں۔ وہ نذیر کو تصویریں لانے کے لیے کہتے مگر نذیر پھر ان کے سامنے نہ جاتا۔ اسی طرح جب گلی میں بچے کھیل رہے ہوتے اور وہ بھی کھیل میں شامل ہونا چاہتا تو کوئی نہ کوئی لڑکا اس کی صورت پر اعتراض کر دیتا ۔’’ہم نہیں کھلائیں گے اسے اپنے ساتھ ۔ صورت تو دیکھو جیسے ابھی بھاڑ میں سے نکل کر آیا ہو۔‘‘
یہ سن کر نذیر کو اتنا صدمہ ہوتا کہ روتے روتے اُس کی ہچکی بندھ جاتی۔ وہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا۔’’ اللہ میاں! مجھے اتنا بد صورت کیوں بنایا ہے؟ ہر ایک میرا مذاق اڑاتا ہے ۔مجھ سے یہ باتیں برداشت نہیں ہوتیں، تو مجھے موت دے دے؟ ‘‘
اس کی امی اُس کی یہ حالت دیکھتیں تو بلائیں لیتیں، گلے سے لگا کر پیار کرتیں اور پھر سمجھاتیں ۔’’ میرے لال! ظاہری خوب صورتی کوئی چیز نہیں۔ سچی خوب صورتی اچھی سیرت ہوتی ہے ۔تم اپنے اندر اچھے گن پیدا کرو، پھر سب تم سے پیار کرنے لگیں گے ۔‘‘
اسکول میں سبھی لڑ کے نذیر کو کالا جیرا ہی کہہ کر پکارتے تھے، اس لیے رفتہ رفتہ نذیر اس نام سے مانوس ہو گیا مگر نویں جماعت میں محمود کی شرارتوں نے ایک بار پھراسے دکھی کر دیا۔ محمود کو اپنی اچھی صورت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ اس کا رنگ سرخ و سفید، بال گھنگریا لے، آنکھیں بھوری اور گال پھولے ہوتے تھے، جن پر سر خی جھلکتی تھی۔ لباس بھی بہترین سے بہترین پہن کر آتا۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود اسے پڑھنے لکھنے کا شوق نہ تھا۔ گھر پر ہوتا تو اس کا زیادہ وقت بننے سنورنے اور تاش یا کیرم کھیلنے میں گزرتا اور اسکول میں آتا تو اپنی شرارتوں سے لڑکوں کا ناک میں دم کر دیتا۔ اسے اکثر سزا بھی ملتی تھی مگر وہ اس کی کوئی پروا نہ کرتا۔ وُہ مارکھانے کا عادی ہو چکا تھا۔ نویں جماعت میںفیل ہو گیا تھا، اس لیے نئے لڑکوں پر رعب رکھنے کے لیے آئے دن ایک دو کی ٹھکائی کرتا رہتا ۔خصوصاً نذیر کو تو بہت ہی ستاتا ۔کبھی کہتا۔’’سوتے میں بچارے کے منہ پر کوے ٹھونگیں مارتے رہے ہیں۔‘‘ کبھی کہتا۔’’صورت تو دیکھو، ایسا لگتا ہے جیسے گیلے او پلے پر بوندیں پڑ گئی ہوں۔‘‘
ایک دن جب کلاس میں ماسٹر صاحب نہ تھے،محمود نے لڑکوں کو اپنے ارد گرد بٹھا لیا اور کہنے لگا ۔’’رات میں نے خواب میں ایک کالی بلا دیکھی۔ خوف سے حلق خشک ہو گیا۔چیخناچاہا تو آواز نہ نکلی۔ ہاتھ پائوں سن ہوگئے اور ڈر کے مارے بستر پر ہی میرا پیشاب نکل گیا۔ بہت ہی ڈراؤنی شکل تھی اُس بلا کی ۔‘‘
’’کیسی بلا تھی وہ؟ ‘‘لڑکوں نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔
‘‘وہ بلا؟ ‘‘یہ کہتے ہوئے محمود آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور نذیر کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر سب کے سامنے کر دیا۔ ’’لودیکھ لو! بالکل ایسی صورت تھی۔‘‘ لڑکوں کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا مگر نذیر کے دل پر چھریاں سی چل گئیں۔ اُس دن سے لڑکے اسے ’’کالی بلا ‘‘کہہ کر چھیڑنے لگے۔
نذیر نے اپنی امی سے محمود کی شکایت کی اور کہا ۔’’امی وہ لڑکا میرا بہت مذاق اُڑاتا ہے۔ میرا خون کھول اُٹھتا ہے ۔کسی روز میں اُس کا سر پھوڑ دوں گا ۔‘‘
امی نے اسے قریب بٹھا لیا اور کہنے لگیں ۔’’میرے لال! محمود تمہارا دشمن نہیں ہے۔ تم چڑتے ہو اس لیے وہ مذاق کرتا ہے۔ اگر تم اس کے چڑانے کا کچھ اثر نہ لو تو وہ خودبخود ان باتوں سے باز آجائے ۔میں نے ایک دفعہ پہلے بھی تھیں سمجھایا تھا کہ صُورت شکل تو چند روز ساتھ دیتی ہے ۔اصل چیز انسان کی قابلیت اور ہنر مندی ہے۔ تم بڑے ہو کر عملی دنیا میں قدم رکھو گے تو لوگ تمہاری شکل نہیں دیکھیں گے۔ وہ تمہارے گن اور قابلیت دیکھیں گے۔‘‘
ماں کی اِس نصیحت کا نذیر کے دل پر بہت اثر ہوا ۔اُس نے تہیہ کر لیا کہ اب وہ کسی بات سے ہرگز نہیں چڑے گا، بلکہ اپنے اندر قابلیت پیدا کرے گا۔ اب وہ ہر وقت لکھنے پڑھنے میں لگا رہتا۔ جب پڑھتے پڑھتے تھک جاتا تو ڈرائنگ کا سامان لے کر بیٹھ جاتا یا سائنس کے تجربوں سے دل بہلاتا۔ جب طبیعت زیادہ اداس ہو جاتی تو آبادی سے باہر نکل جاتا، کھیتوں میں گھومتا، پرندوں کے چہچہے سنتا اور نہر میں خوب نہاتا، تازہ اور کھلی ہوا میں گھومنے اور نہر میں دیر تک نہانے سے اُس کے ہاتھ پاؤں کافی مضبوط ہو گئے۔ جسم میں خون بڑھ گیا اور دل ہر وقت خوش رہنے لگا۔ وہ محمود یا دوسرے لڑکوں کے مذاق کی ذرا بھی پروا نہ کرتا اور نہ اپنی بدصورتی کے متعلق باتیں سن کر کوئی اثر لیتا بلکہ بڑی بے پروائی سے مسکرا کر منہ پھر لیتا۔
امتحان ہوا تو نذیر اسکول میں اول آیا اور محمود اس باربھی فیل ہو گیا۔ ماسٹر صاحب نے نذیر کے تعلیمی شوق کی تعریف کرتے ہوئے تمام کلاس کے سامنے اسے دس روپے انعام دیے اور محمود پر لعنتوں کی بارش کی۔ ماسٹر صاحب کی اس حوصلہ افزائی پر نذیر کا دل باغ باغ ہو گیا۔ وہ اور بھی محنت اور شوق سے پڑھنے لگا۔ اسکول میں تقریر یا ڈرائنگ کے مقابلے ہوتے تو ان میں بھی نذیر اول آتااور انعامات حاصل کرتا۔ محمود جسے اپنی خوبصورتی پر بہت ناز تھا، نذیر کی اس شہرت سے جلتا اور حسد کرتا۔ مگر اب لڑکے اُس کا ساتھ نہ دیتے بلکہ وہ دل سے نذیر کی عزت کرتے۔ ساتویں آٹھویں کے کئی طلبا نذیر سے پڑھنے اس کے گھرآنے لگے تھے۔
میٹرک کا نتیجہ نکلا تو نذیر صوبے بھر میں اول آیا اور اُسے وظیفہ ملا۔ کالج میں جاکرنذیر کے جوہر اور بھی کھلے۔ ہر امتحان نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کیا اور بی ۔ایس ۔سی کرنے کے بعد انجینئر نگ کورس میں شامل ہو گیا۔ اسے ڈرائنگ کا بچپن سے شوق تھا اور سائنس سے ہمیشہ دلچسپی رہی تھی۔ انجینئر نگ سے یہ دلچسپی اُس کی کامیابی کا باعث بنی اور چار سال کا یہ کورس اُس نے اِس نشان سے پاس کیا کہ رخصت کے وقت کا لج کی طرف سے اُسے ایک شان دار پارٹی دی گئی اور اخباروں میں اُس کے فوٹو چھپے۔
کچھ عرصے بعد نذیر محکمہ تعمیرات میں ملازم ہوگیا اور اُس کی آٹھ سو روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔ ایک دن وہ اپنے محکمے کے ایک دفتر کا معائنہ کر رہا تھا کہ اس نے ہیڈ کلرک کو ایک خوب صورت اور سوٹڈ بوٹڈ کلرک پر بری طرح بگڑتے دیکھا ۔ہیڈ کلرک اُس سے کہہ رہا تھا ۔’’ جتنا تم بن سنور کر آتے ہو ،اتنا اچھا کام بھی کر کے دکھاؤ، تب بات ہے۔ انسان کا چام پیارا نہیں ہوتا کام پیارا ہوتا ہے۔‘‘
نذیر نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ نالائق کلرک محمود تھا۔محمود نے افسر کو سامنے دیکھتے ہی گھبرا کر سلام کیا اور پھرپہچان کر حیران رہ گیا۔
نذیر کے جانے کے بعد وہ ہاتھوں میں سر تھام کرکرسی پر گر پڑا اور سوچنے لگا۔ ’’یہ اعلیٰ افسر، یہ بڑا آدمی، یہ کوٹھی میں رہنے والا صاحب، یہ کار میں گھومنے والا ر ئیس میرا وہی بدصورت ہم جماعت ہے، جسے میں ’’کالی بلا‘‘ کہاکرتا تھا۔ کاش میں نے اپنی خوبصورتی قائم رکھنے کی بجائے کچھ گن بھی سیکھے ہوتے! پھر میں بھی آج ایک معمولی کلرک ہونے کی بجائے کسی اعلیٰ عہد سے پر ہوتا ۔‘‘
اس کی آنکھوں میںآنسو آگئے جنہیں اس نے جلدی سے رُومال سے پوچھا اور پھر کاغذوں پر جھک گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top