skip to Main Content
’’ک‘‘ سے کرسی

’’ک‘‘ سے کرسی

محمد الیاس نواز
…………………………………………………….……………………………………..
کرسی کا ’’ک‘‘ ہٹا دیں تو رسی رہ جاتی ہے جویقیناًصاحب کرسی کیلئے اچھی نہیں۔
…………………………………………………….……………………………………..

کہتے ہیں کہ کرسی فرعون صاحب کی ایجاد ہے۔ (صاحب اس لئے لگایا کہ آجکل والوں کے نام کے ساتھ بھی لگتا ہے)شاید یہی وجہ ہے کہ جب سے کرسی ایجاد ہوئی ہے اسکا اور فرعونیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔دیکھئے ناں!… جب فرعون غرور و تکبر کی علامت بنا تو قدرت نے مرنے کے بعد اسے عبرت کی نشانی بنا دیا۔ مگر کرسی ویران نہیں رہی بلکہ اس کے بعد کئی لوگ آئے، اس کرسی پر بیٹھے۔اقتدار و اختیار کے نشے میں فرعونیت اختیار کی اور نشان عبرت بنتے چلے گئے۔بلکہ کچھ تو فرعون سے بھی آگے نکل گئے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سے جب ایک صاحب مصر کے دورے میں فرعون کی لاش پر پہنچے تو لاش نے شرماتے ہوئے منہ پھیر لیا جیسے کہہ رہی ہو ’’استادجی !…. یہاں تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی….شیشہ دیکھ لیتے‘‘…

قارئین !ہم کوشش کرینگے کہ یہاں کرسی کے بارے میں انتہائی مستند معلومات آپ تک پہنچائیں۔
فرعون سے یاد آیاہماراحکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ’’ کرسی کابینہ کی ہو یا کالے بازار کی کرسی کرسی ہوتی ہے‘‘۔
ویسے ہمارے حکمرانوں کو بھی کرسی کے ساتھ ساتھ کمبخت(کلرک)، کاروبار(کوئلے کا)،کٹھ پتلی (کہلوانا) ،کافر،کمیشن اور کارخانے بہت پسند ہیں۔ 
کاشانۂ کلیم والے کلیم صاحب کا مزاج بھی خاصا کرسیانہ ہے۔اور کیوں نہ ہو کہ کافی عرصہ کرسی والے جو رہے ہیں۔انہیں تو بس کشمیری کاٹھ کی کام دار کرسی پسند ہے۔جس پر وہ کریم کلر کی کاٹن کے کڑھائی والے کرتے پہن کر کشن سے ٹیک لگائے کش لگاتے ہیں۔ارے صاحب !کرسی کی تو لت ہی عجیب ہے۔ اس کے ا ور بہت سے شوقین ہوں گے مگر جیسی کرن کمال صاحبہ ہیں کوئی نہیں۔ کرسی کے ساتھ ساتھ انہیں کتے اور کبوتر پالنے کا انتہا کا شوق ہے جبکہ کالم،کہانی، کتب اور کلیات بھی ان کے نرالے شوق ہیں مگر کھانے میں صرف کیلا،کباب،کچوری،کلیجی، کاجو، کشمش، کریلا، کدو،کچنار، کسٹرڈاور کیک پسند ہیں ، بس زیادہ نہیں کھاتیں۔
کرن اور کریلے سے یاد آیاکہ ماہر علم کرسیات کرسی کے مختلف ذائقے بیان کرتے ہیں،مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کرسی کو کاٹنا شروع کر دیں کیونکہ کرسی کا ذائقہ کاٹے یا چاٹے سے پتانہیں چلتا بلکہ یہ جاننے کیلئے دیکھئے کفیل کلیمی کی کلیات جس میں وہ ’’کرسی کے کمالات‘‘کے عنوان میں لکھتے ہیں’’جس کرسی سے رشوت ملے وہ میٹھی،جس پر بیٹھ کر محنت کرنی پڑے وہ کھٹی یا ترش،جس پر بیٹھ کر حلال کمانا پڑے وہ پھیکی اور جس کرسی سے زبردستی اتارا جائے وہ کڑوی ہوتی ہے۔ اسطرح اگر دیکھا جائے تو اپنی کرسی تو پھر کراری ہی ہوئی‘‘.
بھئی ذکر چلے ذائقوں کا اور مربوّ ں کی بات نہ ہوبھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ہم آپکو ’’کرسی کا مربہ‘‘ بتاتے ہیں جو ہم نے انتہائی نایاب اور پرانی کتاب سے نکالا ہے۔بہت عمدہ چیز ہے،نوٹ کر لیجئے۔’’کرسی کو کدو کش کرکے اچھی طرح تباہ کر لیجئے۔پھر اس کو کالے کیمیکل میں کانسی کے بڑے کڑھاؤمیں کسی قابل کالا کر لیجئے۔پھرکلونجی، کالا گڑ اور کشمش یاکا جو ڈال کر کاغذ کی کٹوریوں میں کولاپوری چپل کے ساتھ کوٹ کوٹ کر کرسی کے کسی پرانے یا زبردستی ہٹائے گئے مریض کوکسی بُرے وقت (بلکہ وقت بے وقت) دیجئے۔ان شاء اللہ نہ صرف جلد افاقہ ہووے گا بلکہ اللہ کے حکم سے مریض جلد ہی انتقال بھی فرماوے گا۔آزمایا ہوا نسخہ ہے‘‘۔
کرسیات بلکہ’’ کر سی جات‘‘ کے ماہر اس کے مختلف استعمال بھی بتاتے ہیں ۔مثال کے طور پر کابینہ کی ہوتو سونے کیلئے ،اسکول کی ہوتو کباڑیا کیلئے،جلسے کی ہوتو چرانے کیلئے،واپڈا کی ہوتو جلانے کیلئے ،اسکے علاوہ اجلاس اور میٹنگ میں کرسیوں کا چلانے والا استعمال تو خیر عام ہے۔
کرسی کے استعمال سے ایک دلچسب بات یاد آئی ایک دن کمشنر کے کمرے کی کرسی پر جو کامران کفیل بیٹھے تو کچے کاٹھ کی کرسی کاغذ کی طرح کچلی گئی،کچومر کیا نکلا بلکہ کدوکش ہوگئی۔کمشنر کم بخت بڑا کرخت ہوا کیونکہ کرسی کمشنر کے کتے کی تھی۔
کامران کفیل نے وہی غصہ نکالناتو تھا….ہوا کچھ یوں کہکمشنر کے دفتر کے باہردادرسی نہ ہونے پر ایک اماں کچھ یوں بددعائیں دیتی پائی گئی۔’’اے ،اللہ کرے! تیری کرسی کو کیڑا لگے،اے! تیری کرسی کا کریا کر ہو،نی تیری کرسی کتوں کے کام آئے،اے!تیری کرسی کوئلہ ہو‘‘۔ وہیں سے جو کامران صاحب کا گزر ہوا تو کار روک کر بڑھیا کے ہاتھ میں ’’لال کاغذ‘‘ تھماتے ہوئے بولے ’’کوس اماں!…. اور کوس… کرسی کو‘‘اب اماں اور زور سے چلانا شروع ہوگئیں’’اللہ کرے تیری کرسی کا کاف غائب ہو۔اور باقی جو بچے وہ تیرے گلے میںآئے‘‘…
کمشنر اور کتے سے یاد آیا کشور کمال اپنی کتاب’’کرسی کے کرم‘‘میں کرسی پر تفصیل سے بحث کرتی ہیں کہ کرسی کمشنر کی ہوگی توکیسی اور کتنے کی اور کپتان کی ہوگی تو کیسی اور کتنے کی ہوگی۔کرسی کلہاری سے جلدی تباہ ہوتی ہے یا کریاکرم کرنے سے،کرسی کہاں کہاں، کیسے کیسے اور کس کس کے کام آئی۔کرسی کالا باغ کی اچھی ہوتی ہے یا کوہاٹ کی،کالے کلر کی یا کریم کلر کی..
کریم کلر سے یاد آیا کہ کریم خان نے اپنی کتاب میں علمی نکتے لکھے ہیں کہ ’’کرسی کے چارحرفوں کی مثال اسکے چار پا یوں کی سی ہے۔اگر ایک بھی ہٹا دیا جائے تو کرسی کی کیا ہئیت بنتی ہے دیکھئے!…..کرسی کا ’’ک‘‘ ہٹا دیں تو رسی رہ جاتی ہے جویقیناًصاحب کرسی کیلئے اچھی نہیں۔گلے میں آئے تو مصیبت اور پاؤں میں اٹکے تو عذاب۔’’ر‘‘ ہٹا دیں تو’’کسی‘‘ رہ جاتا ہے،اور کسی کا مطلب ہے نامعلوم،بس کرسی کا ’’ر‘‘ہٹتے ہی صاحب کرسی نامعلوم ہو جاتا ہے۔اللہ ہر کسی کی کرسی کا’’ر‘‘ سلامت رکھے۔اور اگر’’س‘‘ ہٹا دیں تو’’کری‘‘ رہ جاتی ہے۔آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کرسی کا ’’س‘‘ ہٹانے سے انسان کی’’ کری ‘‘بن جاتی ہے۔جبکہ ’’ی‘‘ ہٹانے سے کرسی اور صاحب کرسی ایسے بے معنی ہوجاتے ہیں جیسے لفظ’’کرس‘‘…
اب دیکھئے کہ اگر کرسی کے دو پائے توڑ دئیے جائیں تو کیا ہوتا ہے….’’کرسی میں سے پہلے دو حرف ہٹا لئے جائیں تو’’سی‘‘ رہ جاتا ہے۔جسکا معنیٰ تکلیف اور مرچیں لگنے کے ہیں جبکہ آخری دو ہٹا لئے جائیں تو ’’کر‘‘بچتاہے۔یعنی حکم ہے کہ ’’کچھ کر‘‘…ظاہر ہے آدھی کرسی چلی گئی تو حکم ہی ملے گا،اور اگر درمیان کے دو لفظ ہٹا لئے جائیں تو’’کی‘‘بچے گا جسکی اپنی کوئی حیثیت نہیں جبتک کسی دوسرے لفظ کے ساتھ نہ مل جائے۔اور جب آدھی کرسی درمیان میں سے چلی جائے تو دوسرے الفاظ ملا کر جملہ یوں ہی بنے گا…. خاطر کی….مدارت کی….منت کی…خوشامد کی وغیرہ۔ جبکہ دونوں طرف کا ایک ایک لفظ ہٹا دیا جائے توباقی بچے گا’’رس‘‘۔بس قارئین کرام!جسکی کرسی کے دونوں سرے غائب ہو جائیں تو اسکا رس ہی بن سکتا ہے۔اللہ محفوظ رکھے بہت سوں کو رس ہوتے دیکھا…
کریم خان کے بڑے بھائی کبیرخان کی تو مثالیں بھی اپنی ہیں۔ جیسے ..’’ایک کلرک اوپر سے کرسی چڑھا،کم خرچ کامران،کم بخت کاشان(دونوں انکے بیٹے ہیں)۔کافر کا کتا کشمیر کا نہ کشمور کا۔کتاب کا کیڑا کرسی ڈھونڈے۔کانچ کے کٹے کو کاغذ کیا کاٹے۔جو نہ مانے کسی سے وہ مانے کرسی سے۔
کافر، کتے اور کشمیر سے یاد آیا کہ کرسی کی نیت توہم بھول ہی گئے۔’’نیت کرتاہوں کرسی پر بیٹھنے کی، خاص واسطے کرپشن کے،اپنے وزیروں،مشیروں کے ساتھ، وقت ملک کو کھانے کا،منہ میرا عوام کی جیب کی طرف، نہ کوئی ڈرنہ خوف،حیا غائب، ڈھٹائی عروج پر،پیسہ اکبر….
قارئین !چونکہ نیت کا تعلق بھی آداب سے ہے اور اقوال زریں کا بھی ادب سے ،تو اسی لئے ہم آپکو
’’ اقوال کرسی زریں‘‘ سناتے ہیں۔
کرسی کسی کو کمال کر دیتی ہے اور کسی کو کنگال کر دیتی ہے۔کرسی کو ہمیشہ سائے میں رکھو،دھوپ پڑنے سے کرسی رنگ بدل لیتی ہے۔کم ظرف کو کرسی سے دور رکھو اور کرسی کو کم بخت سے۔کسی کی کرسی کو مت چھیڑو تاکہ کوئی تمہاری کرسی کو کچھ نہ کہے۔کرسی کو کشکول کے قریب رکھو تاکہ وقت پڑنے پر دونوں ساتھ ملیں۔ کمزور دل کو کرسی سے اتنا ہی دور رکھو جتنا کہ کریلا کشمش سے۔
بات ادب کی ہو اور دعا کا ذکر نہ ہو…..کرسی پر بیٹھے شخص کوکیسے دعا دی جاتی ہے،دیکھئے!….تجھ پر کرسی کا کرم رہے،تیرا کشکول سلامت رہے،تجھ سے کالے شاہ(اوبامہ)راضی رہے۔
ادب کی بات کو ہی آگے بڑھاتے ہیں ۔کرسی کا ذکر مشہور زمانہ شعرأ کے ضرب المثل شعروں میں آیا ہے۔مثلاً 
کاش کہ کرسی کلام کرے
مجھ پر سواری انعام کرے
(انعام کرسوی)
کرسی سے کالے منہ کا بیوپار چلے
چلے بھی آؤ کہ کوئلوں کا کارروبار چلے
(کامل کرسی آبادی)
دل میں ایک کاف سی اٹھی ہے ابھی 
کوئی تازہ کرسی گری ہے ابھی
(کرن کالا پانوی)
رنجش ہی سہی احسان ہی فرمانے کیلئے آ
آپھر سے مجھے کرسی پہ بٹھانے کیلئے آ
(کاظم لامکانپوری)
کنورصاحب ایک دن لیکچر دے رہے تھے’’کرسی سے کال کوٹھری تک‘‘۔فرماتے ہیں’’کرسی اور کشتی کی مثال ایک جیسی ہے۔جو کسی بھی وقت اور کسی بھی طرف اُلٹ سکتی ہے۔یہ کسی کوتوکہیں سے کہیں لے جاتی ہے اور کسی کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑتی۔البتہ یہ ضرور دیکھا گیا ہے کہ جو کرسی کو کمبل ہوا تو کرسی بھی اس کو کفن ہوگئی۔ظاہرہے جو کرسی کا اتنا وفادار ہوتو اسکا بھی فرض بنتا ہے کہ عزت کے طور پر وہ اسکو سفید پوشاک پہنائے۔
کرسی سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔کرسی سے کنواں بھی تو کائنات بھی،کرسی سے کرتوت بھی تو کرشمہ بھی۔کرسی سے کروڑ بھی تو کمر توڑ بھی۔کرسی سے کشش بھی تو کشیدگی بھی۔کرسی سے کرم بھی توکریا کرم بھی،کرسی سے کانپنابھی تو کرسی سے کرختگی بھی۔
چاچا کریم کرم جلے کو یہ منتر ایک تعویز کے ساتھ ایک کرسی والے درویش نے بتایا تھا جو ہم نے خودانکی ڈائری میں دیکھا تھا۔
کالا کوّا کرسی کہوے کہیں کرسی کرش نہ ہو جاوے
اٹھو کمال کوشش کرو،کمال کی کرسی کرسی ہو جاوے
قارئین کرام!…..’’کاف‘‘ سے کرسی،کاف سے کالا دھن،کاف سے کارروائی،کاف سے کارگزاری،کاف سے کاریگری، کاف سے کارنامے،کاف سے کرامتیں،کاف سے کرب….ک سے…..اوہوہو ہو ہو .. ..کاف سے کڑاخ….بھئی میں ذرا دیکھوں کہ کاف سے کس کی کرسی کا کڑاخ….!!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top