skip to Main Content

جرم کیا ہے؟

اشتیاق احمد

…………..

احسن اور خالہ گھر میں داخل ہوئے تو ان کے چہرے دھواں ہو رہے تھے۔
والدہ کی نظر ان پر پڑی تو گھبرا گئیں:
’’ کیا ہوا میرے بچو!‘‘
’’ وہ ساتھ والی گلی میں نا۔۔۔ پولیس آئی تھی امی جان۔‘‘ احسن نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
’’پولیس ۔۔۔ مگر کیوں؟‘‘ ان کی والدہ چونک اٹھیں۔
’’ اس گلی کے ایک گھر میں ایک دہشت گرد نے پناہ لے رکھی تھی۔۔۔ پولیس کو سن گن مل گئی۔۔۔ بس وہ ایک آدمی کو پکڑ کر باہر لے آئی ۔۔۔ اور امی جان ۔۔۔ وہ لمبے چوڑھے قد کا خوفناک سا آدمی تھا ۔۔۔ چہرے پر بڑی سی داڑھی تھی۔۔۔ ﷲ ، شکر ہے ۔۔۔ ہم بال بال بچے۔۔۔ ورنہ کیا خبر۔۔۔ اس کی وجہ سے محلے پر کیا آفت آتی۔‘‘
’’ ہوں۔۔۔ تم دونوں نے لوگوں کی باتیں سننے کی کوشش کی؟ ۔۔۔ کیاکہہ رہے تھے۔‘‘
’’وہ مکان شیخ قاسم کا ہے۔۔۔ لوگ کہہ رہے تھے ۔۔۔ وہ شخص شیخ صاحب کا بچپن کا دوست تھا۔۔۔ اس دوستی کے نام پر وہ اسے اپنے گھر میں چھپانے پر مجبور ہو ئے۔‘‘
’’ کیا پولیس شیخ صاحب کو بھی لے گئی۔‘‘
’’ ہونا تو یہی تھا ۔۔۔ لیکن اتفاق کی بات کہ شیخ صاحب اس وقت گھر میں نہیں تھے۔۔۔اب دیکھیں ان کا کیا بنتا ہے۔۔۔ میرے خیال میں تو انہیں اپنے دوست کی گرفتاری کی خبر مل گئی ہوگی اور وہ اپنے گھر کا رخ نہیں کریں گے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ شاید۔۔۔ اور کیا سنا تم نے۔۔۔ اس شخص نے کیا کیا تھا؟‘‘
’’ اس بارے میں کسی کو زیادہ معلوم نہیں۔۔۔ کوئی کچھ کہہ رہا تھا ۔۔۔ تو کوئی کچھ۔۔۔ البتہ یہ بات سبھی مان رہے تھے کہ وہ دہشت گرد تھا اور اس کی گرفتاری سے سبھی لوگ خوش نظر آرہے تھے۔۔۔ چند ایک قدرے پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے۔‘‘
’’ ہوں۔۔۔ شام کو آپ کے ابو آئیں گے تو ہم ان کے ذریعہ تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
’’یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ دونوں ایک ساتھ بولے اور تینوں مسکرا دیئے۔
*۔۔۔*
’’ہوں ٹھیک ہے، میں جا کر معلوم کرتا ہوں۔۔۔ ارشد بھائی بھی تو پولیس آفس میں ہیں، ان سے معلوم کرنے کی کوشش بھی کروں گا۔۔۔ تم لوگ فکر نہ کرو۔‘‘ اختر نعیم نے ساری بات سن کر کہا۔ 
’’ نہیں خیر۔۔۔ ہم فکر مند تو نہیں ہیں۔‘‘
شام کے وقت اخترنعیم گھر میں داخل ہوئے تو دونوں بچے اور ان کی والدہ خود ان کے پاس آ بیٹھے، ان کی آنکھوں میں سوال تھا۔
’’ہاں توکیا معلوم ہوا؟‘‘
’’ یہ بات بالکل درست ہے کہ گرفتار ہونے والا شخص شیخ قاسم کا بچپن کا دوست ہے۔۔۔ اس کا نام کریم الدین ہے۔۔۔ لیکن افسوس! یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پولیس نے اسے کیوں گرفتار کیا ہے؟‘‘
’’تو ارشد بھائی نے بھی آپ کو کچھ نہیں بتایا؟‘‘
’’ یہ بھی سن لو۔۔۔ میں نے ان سے خود جا کر اس بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ بات سنتے ہی ان کی رنگت اڑ گئی۔۔۔ راز دارانہ انداز میں کہنے لگے۔۔۔ آپ چپ چاپ گھرچلے جائیں۔۔۔ اس بارے میں قطعاً کسی سے کچھ نہ پوچھیں۔۔۔ اور سچی بات یہ ہے کہ خود مجھے بھی معلوم نہیں کہ اسے کس سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے اور نہ میں پوچھنے کی کوشش کروں گا۔ حکومت ہر اس شخص کو شک کی نظروں سے دیکھتی ہے ۔۔۔ جو ایسے لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا سمجھے۔۔۔! یہاں تک کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اور میں اٹھ کر چلا آیا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اب تم بھی اس بات کو بھول جاؤ۔۔۔ اس بارے میں کسی سے کچھ نہ پوچھو۔۔۔‘‘
’’ابو۔۔۔ ابو۔۔۔ اس طرح تو ہم اور زیادہ الجھن محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔۔۔ آخر اس بے چارے کا جرم کیا ہے؟‘‘
’’ اس بے چارے کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ دہشت گرد ہے۔۔۔ اور دہشت گرد اچھے لوگ نہیں ہوتے۔۔۔ وہ لوگوں کو بموں سے اڑا دیتے ہیں۔۔۔ کیا تمہاری معلومات کے لیے اتنا کافی نہیں۔‘‘ ان کے والد کا لہجہ سرد ہو گیا۔ وہ سہم گئے اور سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے آئے۔۔۔ وہ سونے کے لیے لیٹ ضرور گئے ۔۔۔ لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی۔ نہ جانے کب تک کروٹیں بدلتے رہے۔۔۔ کبھی تنگ آکر آپس میں کھسر پسرکرنے لگتے ۔۔۔ پھر رات گئے۔۔۔ جب کہ ابھی ان کی آنکھ لگی ہی تھی کہ انہوں نے ’’دھم‘‘ کی آواز سنی۔۔۔ انہیں یوں لگا جیسے کوئی ان کی چھت پر کودا ہے۔‘‘
’’احسن ، کسی نے ہماری چھت پر چھلانگ لگائی ہے۔‘‘
’’چھت پر چھلانگ۔۔۔ تو کب اس نے آسمان سے چھلانگ لگائی ہے۔ خالد کے لہجے میں حیرت تھی۔ 
’’ نہیں۔۔۔ ہمارے ساتھ والے گھر کی چھت کافی اونچی ہے ۔۔۔ اس پر سے ہماری چھت پر کون جا سکتا ہے۔‘‘
’’ لیکن ( ) کر ایسا۔۔۔‘‘
عین اس لمحے دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔۔۔ کمرے میں زیرو کا بلب روشن تھا۔۔۔ ان کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔۔۔ اندر داخل ہونے والا وہی دہشت گرد تھا جسے ان کے سامنے پولیس نے گرفتار کیا تھا۔‘‘
’’ تت۔۔۔ تت۔۔۔ تم !!‘‘ دونوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’ ہاں! میں ۔۔۔ اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ لیٹے رہو۔۔۔ میں تمہیں کچھ بھی نہیں کہوں گا۔‘‘
’’ تت۔۔۔ تم۔۔۔تم تو وہی ہو۔۔۔جسے پولیس گرفتار کرکے لے گئی تھی۔‘‘
’’ہاں ! میں وہی ہوں۔۔۔ شاید تم اس وقت وہاں موجود تھے۔۔۔ میں جیل سے نکل بھاگاہوں اور ﷲ نے چاہا تو اب ان کے ہاتھ نہیں لگوں گا۔‘‘
اچانک ان دنوں کو یاد آگیا کہ انہیں اب تک اس کا جرم معلوم نہیں ۔ چنانچہ خالد نے کہا۔
’’ پولیس نے آپ کو گرفتار کس لیے کیا ہے؟‘‘
’’ ان کی نظروں میں میں دہشت گرد ہوں۔۔۔ لیکن میں اپنی نظروں میں ایک مسلمان ہوں۔۔۔ امریکہ نے پڑوسی ملک پر حملہ کیاتو میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہاں جہاد کرنے کی نیت سے چلا گیا۔۔۔ بس یہ جرم ہے میرا۔۔۔ کوئی امریکہ کے جرم کو محسوس نہیں کرتا۔۔۔ ہمیں سب دہشت گرد کہنے لگے ہیں۔۔۔ ارے ہاں۔۔۔ کک ۔۔۔ کچھ۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔۔۔ اس نے چہرے پر شرم سی آگئی۔
’’ کچھ کیا؟‘‘
’’ کچھ کھانے کو مل جائے ۔۔۔ جب سے ان لوگوں نے مجھے گرفتار کیا ہے۔۔۔ نہ کھانے کو کچھ دیا ۔۔۔ نہ پینے کو پانی دیا۔۔۔‘‘
’’ اوہ ۔۔۔ اوہ۔۔۔‘‘ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔ پھر خالد نے کہا۔
’’اچھا ۔۔۔ میں دیکھتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ باہر جانے لگا تو دہشت گرد نے کہا۔
’’ا چھے بچے ۔۔۔ اپنے ماں باپ کو نہ جگانا۔۔۔ کہیں وہ پولیس کو فون نہ کر دیں۔۔۔ میں ایک بے ضرر مسلمان ہوں۔۔۔ اس بات کا یقین کر لو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘
خالد چلا گیا۔ احسن وہیں بیٹھا رہا۔ انہیں خوف بھی محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔ اور اس سے ہمدردی بھی محسوس کر رہے تھے۔ نہ جانے کیوں۔۔۔ پھر خالد کھانے کو ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوا۔ وہ جلدی جلدی کھانے لگا۔۔۔ دونوں اسے کھاتے دیکھتے رہے۔ کھانے سے فارغ ہونے پر وہ بولا۔
’’پولیس میرے پیچھے تھی۔۔۔ خود کو بچانے کے لیے میں بھاگتا ہوا ادھر نکل آیا۔ آپ کے لان کا ایک درخت چھت تک چلا گیا ہے۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا، اس پر چڑھ گیا۔ آپ کی چھت نظر آئی تو اس پر کود گیا۔۔۔ ان کا خطر ٹل جائے تو میں یہاں سے نکل جاؤں گا۔آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے۔۔۔ جب دنیا اصل دہشت گرد کا چہرہ پہچان لے گی۔۔۔ آپ اخبار پڑھتے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں! ہمارے گھر میں کئی اخبار آتے ہیں۔۔۔ ہمارے ابو ایک سرکاری آفیسر ہیں۔‘‘ خالد نے جواب دیا۔
’’ میرا نام سلمان قاضی ہے۔۔۔ پولیس میرا نام جانتی ہے۔۔۔ کل یا پرسوں کے اخبارات میں میرے فرار کی خبریں شائع کی جائیں گی۔۔۔ ان خبروں میں بھی لکھا ہوگا۔۔۔ جیل سے ایک دہشت گرد فرار ہو گیا ۔۔۔ اس قسم کی خبریں آپ آئے دن پڑھتے ہوں گے۔۔۔ بس جان لیجئے ۔۔۔ وہ دہشت گرد مجھے جیسے ہی ہوتے ہیں۔ میرے کئی ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کیا جا چکا ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے ۔۔۔ میں پھر ان کے ہتھے چڑھ جاؤں اور یہ مجھے بھی ان کے حوالے کر دیں۔۔۔ لہٰذا میں بتاتا چلوں۔۔۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔۔۔مطلب یہ کہ یہود اور نصاریٰ کچھ بھی کر لیں۔۔۔ جہاد کو دہشت گردی کا نام دے دیا جائے یا کچھ بھی کہہ دیا جائے۔۔۔ یہ ختم نہیں ہوگا۔۔۔ عالم اسلام کی زندگی جہاد کی بدولت ہے۔۔۔ آج اگر ہم ذلیل ہو رہے ہیں تو صرف اس لیے کہ ہماری اکثریت جہاد سے منہ موڑ چکی ہے۔ موت سے ڈرنے لگی ہے، حالانکہ موت تو بہرحال ہمیں آکر رہے گی۔۔۔ جب یہ جسم ہے ہی موت کے لیے تو وہ موت شہادت کی موت کیوں نہ ہو۔۔۔ اور میں یہ بھی کہتا چلوں۔۔۔‘‘
عین اسی لمحے دروازے پر بہت خوفناک دستک دی گئی ۔۔۔ وہ بری طرح اچھلے۔۔۔ انہوں نے کمرے میں ابھی تک زیادہ روشنی والا بلب روشن نہیں کیا تھا۔۔۔ زیرو کا بلب ہی جل رہا تھا۔۔۔ سلمان قاضی نے جلدی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ میں درخت کے راستے نکلنے کی کوشش کروں گا۔ میں نہیں چاہتا ،مجھے آپ لوگوں کے گھر سے گرفتارکیا جائے۔۔۔ یہاں سے یہ کھانے کی ٹرے فوراً باورچی خانے میں رکھ آئیں اور لائٹ بند کرکے سوتے ہوئے بن جائیں۔۔۔ آپ کے والد اٹھ کر دروازے کی طرف جانے ہی والے ہوں گے۔آپ اس سے پہلے پہلے یہ کام کر لیں۔۔۔ فی امان ﷲ ۔ جاتے ہوئے اس نے الوداعی انداز میں ہاتھ ہلایا۔
’’ ﷲ حافظ۔۔۔‘‘ ان کے منہ سے نکلا۔
اور پھر وہ زینہ کی طرف چلا گیا۔۔۔ انہوں نے فوراً ٹرے اٹھائی اور کچن میں رکھ آئے۔۔۔ پھر بستر پر دراز ہو گئے۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ عین اس لمحے انہوں نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔
’’ ہمیں ایک مجرم کی تلاش ہے۔۔۔ وہ جیل سے بھاگا ہے۔۔۔ ہے بھی خطرناک ترین۔ یہاں تو نہیں آیا وہ۔۔۔‘‘
’’ نہیں۔۔۔ آپ اندر آکردیکھ سکتے ہیں۔‘‘ ان کے والد کی آواز ابھری۔
’’ آپ کیا کام کرتے ہیں۔‘‘
’’سیکٹریٹری ریٹ میں ملازم ہوں۔‘‘
’’شکریہ ۔۔۔خیال رکھیے گا۔۔۔ اپنا۔‘‘
’’ جی اچھا۔‘‘
انہوں نے پولیس کے جاتے اور دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔۔۔ پھر لائٹ آف ہو گئی۔۔۔ دونوں دبے پاؤں چھت پر آئے لیکن وہ جا چکا تھا۔ انہوں نے تاریکی میں دور دور تک دیکھنے کی کوشش کی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اس کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔۔۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔خالد کے منہ سے دبی آواز میں نکلا۔
’’احسن یہ کیسا دہشت گرد تھا۔۔۔جو ہماری آنکھوں میں آنسو دے گیا۔‘‘
’’ ہاں خالد میرا دل رو رہا ہے اس کے لیے۔۔۔‘‘
’’آؤ نیچے چلیں۔‘‘
انہوں نے اگلے دن کے اخبارات کا بہت غور سے جائزہ لیا۔۔۔ جب وہ اخبار میں دیکھنا شروع کرتے تو ان کے دل زور زور سے دھڑکنے لگتے اور جب وہ اسکی گرفتاری کا ذکر نہ پاتے تو بے تحاشہ سکون محسوس کرتے۔۔۔ آخر ایک مہینہ گزر گیا اور انہوں نے جان لیا کہ وہ نکل جانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔۔۔ اس احساس نے انہیں بہت سکون بخشا۔۔۔ ان کے دل سے دعا نکلی۔
’’یااﷲ ! عالم اسلام کو ایسے نوجوانوں کی بہت ضرورت ہے۔۔۔ تو ان کی حفاظت فرما آمین۔‘‘

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top