skip to Main Content

جل پری

اشرف صبوحی
۔۔۔۔۔

کسی چھوٹی سی بستی میں کوئی بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے آگے پیچھے ایک لڑکی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ بڑھیا نے لاڈ پیار میں اسے ایسا اٹھایا تھا کہ وہ اپنوں کو خاطر میں لاتی نہ غیروں کو۔ زبان دراز،کلے کار، پھوہڑ، کام چور۔ ماں کے جھونٹے نوچنے کو تیار مگر ماں تھی کہ واری صدقے جاتی، اس کے نخرے اٹھاتی۔
بڑھیا نے اپنی مرنے والی بہن کی لڑکی کو بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا بے چاری بے گھر، بے بس۔ سارا دن خالہ کی خدمت میں لگی رہتی۔ بہن کے نکتوڑے اٹھاتی جب کہیں روکھی سوکھی میسر آتی۔ غریب بونڈیوں کی طرح صبح سے شام تک ٹخر ٹخر کرتی، اپنی ننھی سی جان کو مارتی۔ لیکن کیا مجال جو کبھی خالہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ہو یا بہن نے میٹھی زبان سے کوئی بات کی ہو۔ جب دیکھا ماں بیٹیوں کو غراتے۔ مثل تو یہ مشہور ہے کہ ماں مرے اور موسی جیے۔ ہوتی ہوں گی ماں سے زیادہ چاہنے والی خالائیں بھی۔ اس کے نصیب سے تو بڑھیا جلادنی تھی۔ عید بقرعید کو بھی بے چاری اچھے کھانے، اپنے کپڑوں کے لیے ترستی کی ترستی ہی رہ جاتی۔ اس برے برتاؤ پر شاباش ہے اس لڑکی کو کہ ایک دن بھی اس نے کسی سے شکایت نہیں کی۔ نہ کام کاج سے جی چرایا۔جس حال میں خالہ رکھتی،رہتی اور ہنسی خوشی کے ساتھ وقت گزارتی۔
بڑی بی اگر اندھی تھیں یا ان کے دل سے ترس اٹھ گیا تھا تو دوسرے تو اندھے نہ تھے۔ دونوں لڑکیوں کا رنگ ڈھنگ سب کے سامنے تھا۔ پاس پڑوس والیاں دیکھتیں اور جلتیں مگر کیا کرسکتی تھیں؟ ایک تو پرائی آگ میں پڑے کون؟ دوسرے بڑھیا چلتی ہوا سے لڑنے والی۔ بدمزاج، ٹری، حق ناحق الٹی سیدھی بکنے لگے۔ اچھی کہو بری سمجھے۔ جھاڑ کا کانٹا ہو کر لپٹ جائے۔پڑوسنوں کا اور تو کیا بس چلتا۔ بڑھیا اپنے گھر کی مالک تھی۔ ایک اس کی بیٹی دوسری بھانجی۔ ہاں انھوں نے اپنے دل کے جلے پھپھولے پھوڑنے کو دونوں لڑکیوں کے نام رکھ دیے۔ جب آپس میں ذکر آتا تو بڑھیا کی چہیتی کو تتیا کہیں کہ ہر وقت بھن بھن ذرا چھیڑا اور کاٹا۔ دوسری کو گؤکہ نگوڑی پٹتی ہے برا بھلا سنتی ہے اور کان تک نہیں ہلاتی۔
وہ جو مثل ہے کہ نکلی ہونٹوں اور چڑھی کوٹھوں۔ بستی ہی کون سی لمبی چوڑی تھی۔ دونوں لڑکیوں کے یہ نام سب کو یاد ہوگئے۔ جہاں ذکر آتا بڑھیاکی بیٹی کو تتیا اور بھانجی کو گؤکہتے۔ ایک دن کہیں جھلو خانم کے کانوں میں بھی بھنک پڑگئی۔ وہ آئے تو جائے کہاں۔ پڑوسنوں پر تو دل ہی دل میں خوب برسی کہ جاتی کہاں ہیں میرا موقع آنے دو۔ ایسی پھلجھڑی چھوڑوں گی کہ گاؤں بھر میں ناچتی پھریں۔ تیتیے ہی نہ لگادوں تو بات ہی کیا۔ ہاں غریب بھانجی کی کمبختی آگئی۔ کہاوت سنی ہوگی کہ:
کمھار پر بس نہ چلا تو گدھیا کے کان اینٹھے۔
جب ہوتا اسے گود گود کر کھائے جاتی کہ ہاں یہ گؤہے اور میری بچی تتیا؟ خدا کرے کہنے والوں کی زبان میں تتیے ہی کاٹیں۔ کیوں ری توگؤ ہے؟ یہ سارے کو تک تیرے ہی ہیں۔ میں سب جانتی ہوں۔ ارے تیرے کہیں اس نے ڈنگ مارا ہوگا؟ نہ جانے میرے گھر میں سوکن بن کر کہاں سے آ مری۔ یہ جیسی مسمسی ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔
اس طرح روز بڑھیا بکا کرتی اور لڑکی شامت کی ماری کو سننا پڑتا۔ سننے کے سوا اسے چارہ ہی کیا تھا۔ خدا کسی کو کسی کے بس میں نہ ڈالے۔ ایک دن بستی کے باہر کوئی میلہ تھا۔ بڑھیا کی لاڈلی اچھے کپڑے پہن کر مٹکتی اتراتی اپنی سہیلیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔ گؤ بھی آخر لڑکی ہی تھی۔ ایک ایک کا منہ دیکھنے لگی۔ ہمسائی اوپر سے جھانک رہی تھیں۔ انھوں نے کہا:”بوا!اس بچی کو بھی بھیج دو۔ اس کا دل بھی خوش ہوجائے گا۔ دیکھنا بے چاری کیسی چپ چاپ کھڑی ہے۔“
بڑی بی جھلا کر بولیں:”یہ میلہ میں جانے کے قابل ہے۔ سر جھاڑ منہ پھاڑ۔ نہ ڈھنگ کے کپڑے نہ کہیں جانے کا سلیقہ۔ دوسرے گھر کا کام کون کرے گا۔ اس کی لونڈیاں بیٹھی ہیں جو کام کرنے آئیں گی۔“ اور لڑکی سے چلا کر کہنے لگی: ”چل گھڑا اٹھا اور کنوئیں پر سے پانی لا۔“
اس غریب لڑکی نے گھڑا اٹھایا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے کنوئیں پر گئی، پانی بھرا اور درخت کی چھاؤں میں پہنچی کہ ذرا دل ٹھہر جائے تو گھر چلوں۔ رات دن کی مصیبت پر اسے رونا آگیا۔ اتنے میں پیچھے سے اس کو ایک آواز سنائی دی۔ اس نے جھٹ پلو سے آنسو پوچھ کر گردن اونچی کی تو دیکھا ایک بڑھیا کھڑی ہے۔ بڑھیا نے گڑ گڑا کر لڑکی سے کہا: ”بیٹی پیاسی ہوں ذرا سا پانی پلادے۔“ لڑکی نے خوشی خوشی بڑھیا کو پانی پلادیا۔
پانی پی کر بڑھیا نے لڑکی کو دعائیں دیں اور بولی: ”تم بڑی اچھی لڑکی ہو۔ میں تمھارے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہوں کہ ساری عمر یاد کروگی۔ لو آج سے جب تم بات کروگی تمھارے منہ سے موتی جھڑیں گے۔“ یہ کہتے کہتے بڑھیا لڑکی کی آنکھوں کے آگے سے غائب ہوگئی۔ اصل میں وہ بڑھیا جل پری تھی۔
جل پری تو چلی گئی، اور لڑکی بھی اپنا گھڑا سر پر رکھ اپنے گھر کے طرف روانہ ہوئی۔ لیکن اب اسے یہ فکر ہوا کہ یہ بڑھیا کون تھی اور اس نے کیا کہا؟ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی۔
گھر پہنچی تو خالہ نے بے چاری کی خواب خبر لی: ”اب تک کہاں رہی تیرا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تو کہیں اور چلی جا۔“
لڑکی دبی زبان سے بولی:”خالہ جی اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایک بڑھیا کو پانی پلانے لگی تھی۔“
لڑکی کا منہ سے بات کرنا تھا کہ آنگن میں موتی بکھر گئے۔ جل پری کا کہنا سچ ہوا۔ بڑھیا نے جو چمکتے ہوئے موتی دیکھے تو دیوانوں کی طرح جھپٹی اور موتی چننے لگی۔ موتی سمیٹ چکی تو بڑے پیار سے بولی: ”چندا! یہ کہاں سے لائی؟“
لڑکی نے کہا: ”خالہ جی لائی تو کہیں سے بھی نہیں، میرے منہ سے جھڑے ہیں۔“
بڑھیا ہنس کر بولی: ”چل جھوٹی۔ منہ سے بھی موتی جھڑا کرتے ہیں۔ ایک واری سچ بتا ضرور تجھے کوئی خزانہ ملا ہے۔“
”نہیں خالہ اللہ جانے میرے منہ سے جھڑے ہیں۔ ایک بڑھیا کنوئیں پر ملی تھی۔ اسے میں نے پانی پلایا۔ اس نے مجھے دعا دی کہ جب تو بات کرے گی تیرے منہ سے موتی جھڑیں گے۔“ لڑکی نے جواب دیا۔ وہ ضرور کوئی پری تھی مگر بیٹی اب تو دوچار دن پانی بھرنے نہ جائیوپریوں کا کیا بھروسا۔ آج مہربان ہیں تو کل قہرمان۔ تجھے کہیں کنوئیں میں نہ لے جائیں۔“ بڑی بی بڑی تیز تھیں۔ بھانجی سے تو ظاہر میں یہ باتیں بنائیں لیکن دل میں کھول ہی تو گئی کہ پری نے میری بچی کو موتیا کھان نہ بنایا۔ بیٹی میلے میں سے آئی تو اسے خوب پٹیاں پڑھائیں اور بڑی مشکل سے دوسرے دن اس کو کنوئیں پر پانی بھرنے کے لیے بھیجا۔
تتیا مرچ اول تو گئی بڑے نخروں سے، پھر کنوئیں پر ڈول کو جھٹکتی پٹکتی رہی۔ جھینک پیٹ کر گھڑا بھرا اور درخت کے نیچے جا بیٹھی۔ بیٹھی ہی تھی کہ جل پری کبھ نکلی ہوئی بڑھیا کے روپ میں اس کے بھی پاس آئی۔ بولی: ”بیٹی! ذرا سا پانی تو پلادے۔ کب سے پیاسی مر رہی ہوں۔“
بڑھیا کی لڑکی ویسے ہی جلاتن۔ پھر جل پری نے ایسی گھناؤنی صورت بنا رکھی تھی کہ دیکھے سے نفرت ہو۔ گھرک کر بولی:”چل چل، میں نے کوئی پیاؤ لگا رکھی ہے۔“
جل پری گھگھیا کر بولی:”پلادے بیٹی ثواب ہوگا۔“
لڑکی نے جواب دیا: ”جاتی ہے یا پتھر ماروں۔“
”اری میں بہت پیاسی ہوں۔“
”میری جوتی سے۔ پیاسی ہے تو کنوئیں میں ڈوب جا۔“ لڑکی نے تیزی سے جواب دیا۔
جل پری کو پانی کی کیا ضرورت تھی اسے تو اس بھیس میں اپنا کرشمہ دکھانا تھا۔ غصے میں ہو کر بولی:”بدتمیز لڑکی جاتی کہاں ہے۔ اتنی آپے سے باہر ہوگئی۔ میں بھی تجھے وہ مزہ چکھاتی ہوں کہ یاد رکھے۔ جا میں نے کہہ دیا کہ آج سے جب تو بات کرے گی تیرے منہ سے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آئیں گے۔
لڑکی کو اس بات پر غصہ تو بہت آیا۔ جوتی اٹھا مارنے کو کھڑی ہوئی لیکن پری کب ٹھہرنے والی تھی وہ بددعا دیتے ہی غائب ہوگئی۔ لڑکی دیر تک دانت پیستی رہی۔ پری کا بھی اسے انتظار تھا۔ دوپہر ہونے آئی اور پری وری کوئی نہیں دکھائی دی تو یہ دل ہی دل میں بڑبڑاتی اپنے گھر روانہ ہوئی۔
ماں اپنی چہیتی بیٹی کے انتظار میں دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھی تھی۔ دیکھتے ہی پوچھا: ”کہو بیٹی پری ملی اس نے تجھے کیا دیا۔“
لڑکی جلی بھنی تو پہلے ہی چلی آرہی تھی تڑق کر جواب دیا: ”چولھے میں جائے تمھاری پری۔ نگوڑی میری تو گردن بھی ٹوٹ گئی۔“
”آخر کیا ہوا؟ پری آج نہیں آئی؟“ ماں نے پوچھا۔
”میسی پری؟ وہاں تو ایک پگلی سی بڑھیا نجانے کہاں سے آن مری تھی۔“ لڑکی نے جل کر جواب دیا۔
لڑکی جب بات کرتی اس کے منہ سے مینڈکیاں نکل کر زمین پر پھدکنے لگتیں۔ پہلے تو بڑھیا نے اپنی دھن میں دیکھا نہیں۔ لیکن جب ایک مینڈکی اس کی گود میں جاکر اچھلنے لگی تو وہ اچھل پڑی: ”اوئی یہ مینڈکی کہاں سے آئی؟“ پھر جو دیکھتی ہے تو سارے صحن میں مینڈکیاں ہی مینڈکیاں کودتی پھر رہی ہیں۔ ”ہے ہے اری کیا گھڑے میں بھر لائی ہے۔“
”اسی پچھل پائی بڑھیا نے کوسا تھا کہ تیرے منہ سے مینڈکیاں برسیں گی۔“ بیٹی نے بسور کر جواب دیا۔
”’جھلسادوں اس کے منہ کو۔ وہ پری نہیں کوئی بھتنی ہوگی۔“ بڑھیا بولی۔
”اماں یہ سب اس کٹنی کے کرتوت ہیں۔ اسے تم نے گھر میں کیوں گھسا رکھا ہے۔“
”اچھا اب تو تو منہ بند کر پڑوسنیں دیکھ لیں گی تو سارا گاؤں تماشا دیکھنے آجائے گا۔ دیکھ میں اس مردار کی خبر لیتی ہوں۔“
یہ کہہ کر بڑھیا نے پھکنی اٹھا، بے چاری بے قصور بھانجی کو دھننا شروع کردیا۔ ”کیوں ری مردار، پیاروں پیٹی۔ تیرے منہ سے تو موتی جھڑیں اور میری بچی کے منہ سے مینڈکیاں۔ جاتی کہاں ہے۔آج میں بھی تیری دھول جھاڑ کر رہوں گی۔
بڑھیا اپنی یتیم بھانجی پر پل پڑی۔ مارنے کے بعد بھی بڑھیا کو صبر نہ آیا۔ ہاتھ پکڑ گھر سے باہر نکال دیا۔ لڑکی اور کہاں جاتی کنواں ہی پاس تھا۔ روتی ہوئی اس درخت کے نیچے جا بیٹھی جہاں جل پری ملی تھی۔ کبھی خیال کرتی کہ ڈوب مروں۔ کبھی سوچتی کہ کسی اور بستی میں چلی جاؤں۔ اتنے میں جل پری بھی آگئی اور اس نے لڑکی سے پوچھا: ”بیٹی روتی کیوں ہے؟“
لڑکی نے اپنی بپتا سنائی اور کہا: ”تمھاری بدولت میں گھر سے نکالی گئی ہوں۔“
پری قہقہہ لگا کر بولی:”اچھی لڑکیاں کہیں اس طرح بے آس ہو کر رویا کرتی ہیں۔ جاخداتیرے دن پھیردے۔ آج سے تو پھولوں کی سیج پر بادشاہی محل میں سوئے گی۔“
اللہ کو نہ بگاڑتے دیر لگتی ہے نہ بناتے۔ اتفاق سے ادھر تو پری نظروں سے اوجھل ہوئی اور ایک شہزادہ شکار کھیلتا پانی کی تلاش میں کنوئیں کے پاس آیا۔ ڈول اٹھاتے اٹھاتے لڑکی پر نظر پڑی۔ لڑکی حقیقت میں چاند کا ٹکڑا تھی۔ کیسا پانی اور کیسی پیاس ڈول و ول چھوڑ لڑکی کے پاس آیا۔ بات کہے تو ہا ہا ہا منہ سے پھول کیسے سچ مچ کے موتی جھڑتے ہیں۔ اتنے میں پھر جل پری سامنے آئی۔ اب وہ اور ہی شان سے آئی تھی۔ شہزادہ سمجھا کہ یہ لڑکی کی ماں ہے۔ اس نے پری سے لڑکی کی درخواست کی۔ جل پری نے عہدوپیمان کر کے لڑکی کو شہزادے کے ساتھ کر دیا۔ شہزادہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ لڑکی کو اپنے محل میں لے گیا۔ بہو کو دیکھ کر ساس سسر بہت خوش ہوئے۔ بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ بے ماں باپ کی لاوارث لڑکی کو خدا نے اس کے صبر کا پھل دیا۔ بڑھیا اور بڑھیا کی تتیا ساری عمر اپنے تیہے میں کھولتی اور مینڈکوں ہی کے چکر میں رہی۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top