جو دے اس کا ہی بھلا
سیما صدیقی
……………..
ہمارے علاقے کا سب سے سینئر فقیر چہرے مہرے سے خاصا معزز دکھائی دیتا تھا۔ بیچارا اندھا تھا ساتھ ہی لاٹھی کے علاوہ ایک بچہ بھی لے کر نکلتا تھا، بظاہر لاٹھی اور اس بچے کے سوا اس کا کوئی سہارا نہ تھا۔ اس کی صدا ہمیشہ ایک ہی ہوتی ’’جمعرات کا روز ہے بابا….. غریب محتاج کی مدد کرو….. میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ‘‘ہم سوچتے کہ معلوم نہیں بیچارے کے بچوں کے بڑا ہونے میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں جو گزشتہ بیس سال سے یہی صدا لگاتا آرہا ہے۔ ایک روز ہم نے صدا سن کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک بالکل نئے ڈیزائن کا بچہ کھڑا تھا۔ ہم حیران ہوئے کہ بچہ کیسے بدل گیا؟ پہلے آنے والا ٹیڑھی ٹانگوں والا مرکچی (سوکھی مرچ) سا لڑکا تھا اور یہ پھولے پھولے گالوں والا بھوندو سابچہ تھا۔
قصہ یہ تھا کہ سینئر فقیر قریباً بیس بائیس سال سے اس پیشے سے منسلک تھا۔ اس کا مسئلہ یہ تھا کہ جس بچے کو وہ لے کر نکلتا وہ چند سالوں میں بڑا ہوجاتا۔ جس کے بعد وہ اسے الگ دھندے سے لگا دیتا اور خود ایک نئے عزم اور نئے بچے کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھتا۔ وہ بچے ضرور بدلتا تھا مگر اپنا بیان نہیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ یکے بعد دیگرے آنے ولاے رنگ برنگے بچے اس کے ’’ذاتی‘‘ تھے یا کسی فرم کو اس نے بچے سپلائی کرنے کا ٹھیکہ دے رکھا تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ فقیروں میں ’’لے پالک‘‘ بچوں کا بھی خاصا رواج پایا جاتا ہے۔ (لے پالک بچے سے مراد ہے ’’بچہ لے کر پالنا‘‘ یعنی اگر کسی کی اولاد نہ ہو تو وہ کسی صاحب سے ان کا بچہ ’’گود‘‘ لے لے (یعنیAdoptکرلے) پیشہ ور فقیر یہ کرتے ہیں کہ گلی محلوں میں گھومتے، اکیلے دُکیلے بچوں کو ’’گود‘‘ لے لیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اس ضمن میں بچے کے والدین سے پوچھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ آپ کہیں گے کہ ایسے غیر ذمہ دار فقیروں کو پولیس کیوں نہیں پکڑتی تو بات یہ ہے کہ ایسا دھندہ کرنے والے فقیر پولیس والوں کے ’’لے پالک‘‘ ہوتے ہیں۔
معلوم نہیں کیوں آج اس نئے ڈیزائن کے نمونے کو دیکھ کر ہمارا موڈ سخت آف ہوگیا اور جب اس نے کہا کہ ’’بی بی! اللہ کے نام پہ….. میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں!‘‘ تو ہم نے جل کر کہا:’’تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟‘‘
فقیر نے سٹپٹاکر بچے کی طرف دیکھا۔ چھوٹے بچے نے باپ کے کالے چشمے کی طرف اشارہ کرکے کہا :’’بی بی! میرا باپ اندھا ہے….. اللہ کے نام پہ….. ‘‘
’’ہمیں یہ پتا ہے….. تمھارے نصف درجن بڑے بہن بھائی تم سے پہلے ہمیں یہ بات بتاچکے ہیں اور اتنی بار بتایا ہے کہ ہمیں ہی نہیں تمھارے باپ کو بھی یقین آگیا ہوگا کہ وہ اندھا ہے۔‘‘
یہ تکرار سن کر ہماری بہن بھی باہر آگئی ۔جس کے دل میں ہمدردی کا سمندر ہمہ وقت لہریں بلکہ ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے اور روپیہ بچے کے ہاتھ پہ دھرکے بولی :’’اللہ!کتنا معصوم بچہ ہے….. ہے نا!‘‘ ہمیں تو بالکل خبیث لگ رہا تھا مگر ہم نے کہا نہیں۔
ہفتے کی شام کبھی کبھار ایک ایسا فقیر آتا تھا جس کے پاؤں کٹے ہوئے تھے۔ کم از کم ہم یہی سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ لکڑی کے تختے پر بیٹھا رہتا تھاجس کے نیچے پہیے لگے تھے۔ اس پر وہ گھسٹ گھسٹ کر چلتا تھا۔ پاؤں پر گدڑی ڈالے رہتا تھا۔ ایک روز ہم لوگ چھت پہ کھڑے ہوکر ہوا کھارہے تھے۔ کیا دیکھا کہ وہ فقیر گھسٹتا ہوا ہمارے گھر کی طرف آرہا ہے۔ فقیر گیٹ پہ پہنچا اور ہاتھ سے گیٹ دھب دھبانے لگا۔ ہم نے چھوٹی بہن پر رعب جمانے کی کوشش کی۔ ’’دیکھو فقیر آیا ہے، جلدی جاکر دروازہ کھولو!‘‘
مگر وہ ہمارے رعب میں نہ آئی اور کہنے لگی:’’جو بولے وہی کنڈی کھولے!‘‘
ابھی اہم ایک دوسرے کو ٹھیل ہی رہے تھے کہ دفعتاً ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ فقیر صاحب جو یہ سمجھے کہ گیٹ تھپتھپانے کی آواز اندر نہیں جارہی۔ انہوں نے گلی میں چہار اطراف گردن گھما کر دیکھا اور پھر نہایت پھرتی سے کھڑے ہوکر گھنٹی بجائی اور پھر جلدی سے بیٹھ کر گدڑی پاؤں پر ڈال لی۔ یہ سب کچھ منٹ کے ہزارویں حصے میں ہوگیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم لوگ اوپر سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے تو ہم لوگ دنگ رہ گئے کہ یہ ہوا کیا ہے۔ پھرہم دوڑتے ہوئے الانگتے پھلانگے نیچے پہنچے کہ ’’جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچائیں۔‘‘
گیٹ کھولا:’’ارے یہ بیل کس نے بجائی تھی؟‘‘ ہم نے انجان بن کر پوچھا۔
’’وہ جی….. ایک آدمی ادھر سے جارہا تھا….. میں نے بولا ذرا گھنٹی بجادو۔‘‘
’’ہم م! تو جھوٹ بھی بولتے ہو؟‘‘
’’ہاں جی!‘‘اس نے نہایت ڈھٹائی سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔ جس پر ہم چراغ پا ہوگئے۔ ’’شرم نہیں آتی….. فراڈیئے کہیں کے!‘‘
فقیر نے برا سامنھ بنایا۔ اسی اثنا میں سامنے والے گھر سے ایس پی شجاعت نکل آئے جو اس وقت وردی میں تھے انہیں دیکھ کر فقیر ایسا چمپت ہوا جیسے اس کے پیچھے کتے چھوڑدیے گئے ہوں اور اس تیزی سے سڑک پر پھسلتا ہوا گیا گویا اسکیٹنگ کر رہا ہو۔
کچھ فقیروں کو اللہ تعالیٰ خوش گلو ہونے کی اضافی خوبی عطا کرتا ہے۔ ایسے فقیر زیادہ کمالیتے ہیں۔ ایک روز ہماری عقبی گلی میں ایک فقیر مغرب کے وقت نہایت پرسوز اور دلدوز آواز میں گاتا ہوا داخل ہوا۔ دھن اور بولوں کی ترتیب تو یاد نہیں تھی مگر بات کچھ اسی قسم کی تھی کہ ’ساتھ روٹی کپڑا نہ مکان جائے گا، تن پہ چند گز کفن کا کپڑا ہی جائے گا ۔‘(پہلے مصرعے کو کھینچ کر پڑھیں تو وہ دوسرے مصرعے کے برابر ہوجائے گا۔)’ اللہ کے نام پہ بھوکے کو کھانا کھلادو….. دو روز سے فاقہ ہے….. تن پہ کپڑے نہیں ہیں۔‘
فقیر نے نثرو نظم کے امتزاج سے کچھ ایسا جادو جگایا کہ دل موم ہوتا محسوس ہوا۔ ہماری بہن جو ایسی باتوں کا کچھ زیادہ ہی اثر لیتی ہے فوراً ٹھٹھک گئی۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر بولی: ’’اللہ! دیکھو کتنی صحیح بات کہہ رہا ہے ….. ہے نا!‘‘
’’ہیں! یہ کہنا کیا چاہ رہا ہے؟ یعنی ہم چند گز کفن کا کپڑا رکھ کر باقی روٹی کپڑا مکان اس کے حوالے کردیں؟‘‘ ہم نے تشویش ظاہر کی۔
بہن نے ہماری بات پہ کان نہ دھرے اور فقیر کو کھانا دینے چل دی۔ کھانا کھاکر اس نے پانی مانگا، پھر کپڑا مانگا اور پھر پرانے جوتوں کی ضد کرنے لگا۔ الغرض اس کی ’’مانگیں‘‘ بڑھتی ہی گئیں۔ وہ اپنے طے شدہ پروگرام پر مرحلہ وار عمل پیرا تھا۔ ہم اس کی نیت پہلے ہی بھانپ گئے تھے لہٰذا خدشہ ہوا کہ اب کہیں مکان کے کاغذات نہ مانگ لے۔ چنانچہ ہم نے سوچا کہ باہر نکلیں اور کہیں کہ ’’یہ لو چند گز کپڑا…. اور چلتے پھرتے نظر آؤ!‘‘مگر اب وہ اگلی گلی کے باسیوں کا یمان جھنجوڑنے کی فکر میں تھا لہٰذا خود ہی روانہ ہوگیا۔
فقیروں کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں بعض فقیر مفاہمت اور مصالحت پسند ہوتے ہیں۔ ان کی صدا یہ ہوتی ہے کہ ’’جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔‘‘(دل میں خواہ کچھ بھی کہتے رہیں) اس کے برعکس ایسے بھی فقیردیکھنے میں آئے ہیں جو ایسی دھونس جماتے ہیں جیسے ان کا قرض کھایا ہو اور اگر انہیں نہ دو تو ایسی ناقابلِ اشاعت باتیں سناتے ہیں کہ الامان الحفیظ! ایسے ہٹے کٹے مشٹنڈے اور بدتمیز فقیر ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
کراچی کے بازار طارق روڈ پر ایک ایسا خوفناک فقیر پایا جاتا ہے کہ دہشت کے مارے بندہ اس کو کچھ دیے بغیر نکل ہی نہیں سکتا۔ اس کے سفید بال حیرت انگیز طور پر کھڑے رہتے ہیں۔ گونگا نہیں ہے مگر ہر کسی سے بولنا پسند نہیں کرتا۔ بس سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور ہاتھ پھیلا کر اپنی چیل جیسی سرخ سرخ آنکھوں سے اس وقت تک گھورتا رہتا ہے جب گڑبڑا کر آدمی روپیہ دو روپیہ نکال کر چلتا نہ کردے۔ یہ غنڈہ ٹیکس ہوتا ہے، بھیک نہیں! ظاہر ہے ڈرکے مارے آدمی اپنی جیب ڈھیلی کرے تو یہ غنڈہ ٹیکس ہی ہوا۔
بعض فقیربظاہر بڑے مظلوم اور مسکین دکھائی دیتے ہیں مگر در حقیقت بڑے گُھنّے اور فراڈیئے ہوتے ہیں۔ اب ایک ایسے فقیر کا قصہ سنیے جس سے سابقہ پڑنے کے بعد ہمارا دل فقیروں کی برادری سے کھٹا ہوگیا۔ جون کی چلچلاتی دوپہر کا ذکر ہے ایک فقیر کی صدا سنائی دی ’’ہے کوئی اللہ کا بندہ!جو اس غریب محتاج کی مدد کرے۔‘‘ ہماری گلی میں تقریباً سب ہی اللہ کے بندے ہیں مگر اس وقت کسی نے ہمارے علاوہ دروازہ نہ کھولا۔ ہم نے دیکھا کہ ایک خستہ حال، عمررسیدہ اور نیم مردہ فقیر ننگے پاؤں چلا آرہا ہے۔ اس کا جسم کچھ ایسا تھا کہ اگر ہم چاہتے تو آسانی سے تہہ کرکے اسے الماری میں رکھ سکتے تھے۔ (مگر ہم رکھتے کیوں؟) ہمیں دیکھ کر وہ کمبل ہوگیا اور پنے مطالبات پیش کرنے شروع کردیے۔
’’کوئی پرانا شلورا قمیص، کوئی پھٹا پرانا جوتا….. اللہ تمھارا بھلا کرے۔‘‘دل کٹ کہ رہ گیا کہ بیچارہ جلتی دوپہر میں پتھریلی زمین پہ برہنہ پا گھوم رہا ہے۔ ہم نے بہن کو بتایا تواس کی رحمدلی نے فوراً جوش مارا اوراُس نے ابو کے پرانے جوتے کسی سے پوچھے پاچھے بغیر فقیر کو دے دیے جو کچھ ایسے پرانے بھی نہ تھے۔ فقیرنے جوتے پاؤں میں ڈال لیے۔ اس بار ہمیں بہن کی دریا دلی پہ غصہ نہ آیا کیونکہ بیچارہ واقعی مستحق تھا۔ چند ہفتوں بعد ایک روز ہم لوگ اپنی ایک سہیلی کے گھر سے نکلے جو ذرا فاصلے پر مگر ہمارے ہی بلاک میں ہے۔ کیا دیکھا کہ وہی فقیر صاحب ننگے پاؤں گھسیٹتے چلے آرہے ہیں اور صدا لگارہے ہیں۔ غریب کو کوئی پرانا جوتا کوئی شلوار قمیص دے دو، دل چاہا کہ ابھی سہیلی کے گھر سے دو جوتے اٹھائیں اور اس کے سر پر گن کر لگائیں۔ ہم نے غصہ بہن پہ اتارا۔ ’’دیکھ! ان لوگوں کی بات پہ تو کبھی یقین ہی نہیں کرنا چاہیے….. سب اول درجے کے فراڈیئے ہوتے ہیں۔‘‘
ہماری بہن جو ’’کہانی نگار‘‘بھی ہے پرخیال انداز میں بولی:’’ہوسکتا ہے اس نے جوتے کسی کو دے دیئے ہوں….. مثلاً….. اپنے بوڑھے باپ کو!‘‘
’’بوڑھے باپ کو؟ مگر یہ تو خود ستر سال کا ہے، اس کا با پ کہاں ہوگا؟ اور اگر ہوگا بھی تو تم خود سوچو، سو سال کی عمر میں وہ جوتے پہن کر کرے گا کیا؟‘‘
چھوٹی بہن کی طرح ہماری بڑی ہمشیرہ بھی فقیروں کے لیے دل میں نہایت نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ اسی فقیر نوازی کے سلسلے میں ایک فقیر پر بچپن سے ہی بڑی مہربان تھیں۔ اتفاق سے وہ بھی اندھا تھا۔ ہمیشہ اسے حتیٰ المقدور نوازتی رہیں۔ پھر ایک دن اچانک وہ فقیر غائب ہوگیا۔ آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ کافی عرصہ گزر گیا تو طے یہی پایا کہ ضرور مرکھپ گیا ہوگا کیوں کہ اس کے بیان کے مطابق اسے سترہ موذی بیماریاں تھیں (دروغ بہ گر دِن راوی) پھر ہوا یوں کہ ہمشیرہ صاحبہ شادی کے بعد ضلع شرقی سے ضلع وسطی جاپہنچیں۔ ایک روز ہم لوگ ہمشیرہ کے گھر پہنچے ۔ ابھی سلام دعا کا ابتدائی مرحلہ چل ہی رہا کہ گلی کی جانب سے ایک فقیر کی دردناک آواز سنائی دی۔ نجانے اس کے گائیگی کی لے میں کیا جادو تھا کہ ہمشیرہ صاحبہ ہمیں چھوڑ چھاڑ دروازے کی جانب لپکیں۔ ہم بھی پیچھے ہولیے اور یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ ہمشیرہ کا پسندیدہ ، گم گشتہ اور فوت شدہ فقیر اپنا مخصوص ترانہ گاتا چلاآرہاہے۔
ہمشیرہ صاحبہ انگشت بہ دنداں رہ گئیں۔ حیران وہ اس بات پر نہیں تھیں کہ وہ زندہ تھا بلکہ ششد راس پر تھیں کہ وہ فقیر جو ان کے میکے میں اندھا بن کر ٹامک ٹوئیاں مارتا تھا یہاں لنگڑا بن کر مٹر گشت کررہا تھا۔ ہمشیرہ نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا مبادا کہ یہ نگاہ کا دھوکہ ہو مگر بچپن سے جس فقیر کو دیکھتی چلی آرہی ہوں، اسے پہچاننے میں کیونکر غلطی کرسکتی تھیں۔
فقیر صاحب اپنی ترنگ میں آگے بڑھتے رہے۔ ہمشیرہ کو کھڑا دیکھا تو اپنی جگر مگر کرتی آنکھوں کو گھما کر بولا: ’’اللہ کے نام پہ اس لنگڑے محتاج کی مدد کرو! ‘‘ہمشیرہ سے رہا نہ گیا تو ذرا ڈپٹ کر بولیں: ’’ارے! پہلے تو تم اندھے ہوا کرتے تھے، اب لنگڑے کیسے ہوگئے؟‘‘ یہ سنتے ہی وہ ایسا حواس باختہ ہوا کہ دونوں بے ساکھیاں بغل میں دبائیں اور سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حالانکہ اس موقع پہ وہ صاف مکر جاتا کہ میں تو وہ نہیں….. یا بہرہ بن جاتا گویا کچھ سنا ہی نہ ہو، تو ہم لوگ کیا کرلیتے مگر نجانے اسے بھاگنے کی کیا سوجھی؟ اسے بھاگتا دیکھ کر دل میں آیا کہ چیخ کر کہیں ’’تو اگر لنگڑا نہیں بنتا، نہ بن، اندھا تو بن!‘‘
اب فقیری باقاعدہ اور باضابطہ پروفیشن بن گئی ہے۔ آپ نے مثل سنی ہوگی، سخی سے سُوم بھلا جو ترت دے جواب! مطلب یہ کہ فقیروں کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہما شما کے ہاں گھنٹوں کھڑے دروازہ بجاتے رہیں۔ لہٰذا فقیروں کا کہنا ہے کہ اس سخی سے جو دینے میں گھنٹوں لگا دے وہ کنجوس بھلا ہے جو جلدی سے ’’معاف کرو بابا‘‘ کہہ دیتا ہے۔ مگر بعض فقیر ایسے بھی ہوتے ہیں جو ’’معاف کرنے‘‘ کے قائل نہیں ہوتے ۔ ایسے کمبل ہوتے ہیں کہ گالیاں کھا کہ بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔ بس جان کو ہی آجاتے ہیں۔ بازاروں میں بسااوقات ننھے منے فقیر خواتین کے برقعوں سے چمگادڑوں کی طرح الٹے لٹک جاتے ہیں تا آنکہ انہیں کچھ دے دلا کر (برقعہ نہیں روپیہ) پیچھا نہ چھڑالیا جائے۔
پہلے فقیر آٹا مانگا کرتے تھے اب آٹے کے لیے پیسہ مانگتے ہیں۔ ایک روز ایک فقیر صاحب نے دروازہ دھڑ دھڑ اکر ہمیں مطلع کیا کہ ’’میرے گھر آٹا ختم ہوگیا ہے، دو روز سے فاقہ ہے۔ پیسے دے دو!‘‘ہم نے روپیہ تھمایا تو تنک کر بولا :’’روپے میں کون سا آٹا آتا ہے؟‘‘
’’ارے!! تو کیا پوری بوری کے پیسے ہم ہی سے لوگے؟‘‘ ہم نے احتجاج کیا تو وہ بڑبڑاتا ہوا پڑوسی کو یہ آٹا ختم ہونے والی دلخراش خبر سنانے چل دیا۔
ایک دن بیچ دوپہر کو کسی نے چلا کر بتایا کہ وہ یتیم ہوگیا ہے اور یتیموں کی مدد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ہم نے جھانک کر دیکھا تو یہ ’’یتیم‘‘ لگ بھگ چالیس برس کا تھا، چنانچہ ہم نے فیصلہ کرلیا کہ اس چالیس سالہ یتیم کی ہرگز مدد نہ کریں گے۔ کیونکہ اب اسے ’’اپنی مدد آپ‘‘ کرنی چاہیے۔ ابھی ہم دروازہ بند کرہی رہے تھے کہ ہماری نگاہ اس کی قبا (لمبے چوڑے سرخ ہرے پیوند لگ لبادے) کے عقب میں جا پڑی۔ دو گندے سندے بچے ننگے پاؤں کچھ کھاتے کھلاتے اس کے پیچھے چلے آرہے تھے۔ ہم ٹھٹھک گئے۔ فقیر نے دوبارہ صدا لگائی۔ اب اس کے مخاطب براہِ راست ہم تھے۔
’’میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کی مدد کرو۔ اللہ ہر بلا سے محفوظ رکھے۔‘‘ (شاید وہ نہیں جانتا تھاکہ وہ خود بھی کسی بلا سے کم نہیں) سابقہ تجربات کے سبب ہمارا دل فقیروں کی طرف سے کھٹا ہوچکا تھا۔ اس عدم اعتماد کے باعث ہم نے انکوائری کا فیصلہ کرتے ہوئے سرسری لہجے میں بچے کو مخاطب کیا :’’کیوں….. بھئی! تمھارے ابا کہاں ہیں ؟‘‘ ہم نے بچے کو گھیرنے کے لیے اندازِ سخن کچھ ایسا رکھا جیسے ہم اس کے ابا سے واقف ہوں یا ہمیں ان سے کچھ کام ہو!خیال یہی تھا کہ شاید وہ بچپنے، میں فوراً اُگل دے گا کہ ابھی بلاتا ہوں! یا یہ کہ ’’یہ ساتھ ہی تو کھڑا ہے!‘‘مگر افسوس بچہ بڑا گھاگ نکلا، جال میں نہ آیا۔ رٹے ہوئے سبق کی طرح سپاٹ لہجے میں بولا:’’مرگیا!‘‘
ہم نے پوچھا :’’کب؟‘‘
کہنے لگا :’’پچپن میں ہی!‘‘
ہم نے کہا:’’کس کے بچپن میں….. تمھارے یا اپنے؟‘‘
کہنے لگا:’’معلوم نہیں جی!‘‘
پھر بچے نے پریشان ہوکر اپنے چالیس سالہ بے آسرا بھائی کی طرف دیکھا جیسے اس سوال کا جواب اسے معلوم ہو۔ پھر ہم بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ ’’اچھے خاصے ہو….. کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
فقیر نے پہلے تو اس گھسے پٹے سوال پر منھ بناکر ناپسندیدگی کا اظہار کیا پھر بولا :’’بھکاری نہیں ہوں جی….. بیماری سے لاچار ہوں….. اللہ جنت کے باغ دکھاے۔‘‘
ہمیں یقین تھا کہ جنت کا ٹکٹ ہمیں ایسے ہٹے کٹے مشٹنڈے فقیروں کی مدد کرنے سے حاصل نہیں ہوگا۔ ویسے بھی اب ہمیں اس کی شکل کچھ ’’بردہ فروش‘‘ جیسی لگ رہی تھی، چنانچہ ہم نے کھٹاک سے دروازہ بند کردیا۔ اس طویل انکوائری کے بعد بغیر کچھ دیے دروازہ بند کردینے پر فقیر چلبلایا تو ہوگا مگر ہم نے مطلق پروانہ کی۔
ساتھیو! آپ یہ مضمون پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ہمارے محلے میں دن رات فقیروں کا میلہ لگا رہتا ہے جو ہر نمونے کے فقیروں سے ہمارے مذاکرات ہوتے رہتے ہیں اوریہ کہ ہمیں کوئی کام دھندہ نہیں جو دن رات فقیروں کے پیشہ ورانہ معاملات میں دخل اندازی کرتے رہتے ہیں تو جناب بات یہ ے کہ ہمارے محلے میں تو فقیر بہت ہی کم آتے ہیں یہ چند روزہ قصہ نہیں ہے بلکہ یہ مضمون ہماری پوری زندگی کے ماہ و سال کے تجربات کا نجوڑ ہے۔ اب یہ مت پوچھیے گا کہ عمرِ رفتہ کے ماہ و سال کتنے تھے اور ان کو نچوڑنے پر فقیر کتنے نکلے!