جسم کا لباس
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”السلام علیکم بھائی جان!“
نوید نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے سلام کیا۔ ڈاکٹر خورشید بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے کتاب سے نظریں ہٹا کر نوید کو دیکھا اور بولے:
”وعلیکم السلام، کہونوید کیا حال ہے؟“
”الحمد للہ۔ بھائی جان اگر آپ کے پاس کچھ وقت ہو تو مجھے چند باتیں معلوم کرنی ہیں۔“ نوید نے کہا۔
”ہاں، ابھی میرے پاس کچھ وقت ہے، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟“
”بھائی جان، آج اسکول میں ایک دوست سے میری بحث ہو گئی۔ اُس کا کہنا تھا کہ ہماری جلد قدرتی طور پر ہمارے جسم کا لباس ہے جبکہ میرا کہنا یہ تھا کہ جلد صرف لباس نہیں ہے، بلکہ اللہ نے ہمیں اس لیے عطا کی ہے کہ یہ اور بھی کام انجام دیتی ہے لیکن میں اپنی بات پوری طرح واضح نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے جلد کے بارے میں بتائیں تاکہ کل میں اپنے دوست کی غلط فہمی دور کر سکوں۔“
”تم نے درست کہا، ہماری جلد صرف لباس نہیں ہے۔ اللہ نے اور بھی فرائض اس کے سپرد فرمائے ہیں۔ انسان کو تو اللہ نے شرم و حیا بھی عطا کی ہے چنانچہ وہ اپنے جسم کو لباس کی مدد سے ڈھانپ لیتا ہے۔ جانوروں کی جلد بالوں سے بھری ہوئی ہو، روئیں دار ہو یا بغیر بالوں کے ہو، انھیں لباس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بہر حال یہ تو ایک الگ تفصیلی موضوع ہے، ہم بات کر رہے ہیں جلد کی۔ جلد بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں بخشی گئی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی زبر دست قدرت کا ایک چھوٹا سا لیکن حیرت انگیز نمونہ ہے۔“
”مجھے ذرا تفصیل سے سمجھائیے بھائی جان۔“ نوید نے بے تابی سے کہا۔
”جسم کے تمام اعضا میں جلد، سب سے بڑا عضو ہے۔ اس نے ہمارے پورے جسم کو بہت خوب صورتی کے ساتھ یکجا کر رکھا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے لیے کئی خدمات بھی انجام دے رہی ہے۔ تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے جسم کے ہر حصے کی ضرورت کے مطابق اس حصے کی جلد بنائی ہے، مثلاً پیروں کے تلووں کو چونکہ زیادہ سخت کام کرنا پڑتا ہے، ہر قسم کی زمین پر چلنا پڑتا ہے، ان پر پورے جسم کا بوجھ بھی ہوتا ہے، اس لیے یہ جلد خاصی سخت ہوتی ہے۔ اسی طرح کہنی یا گھٹنے کے جوڑ کی جلد بھی سخت ہوتی ہے، اس کے مقابلے پر چہرے کی جلد نرم و نازک ہوتی ہے اور چہرے کو حسن بخشتی ہے۔“
”یہ تو بالکل درست ہے بھائی جان۔“
”اب سنو کہ جلد کتنے کام کرتی ہے۔ ایک تو یہ ہمارے اندرونی اعضا کی محافظ ہے۔ دوسرے، ہماری جلد کے نیچے پسینے کے غدود پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ کرم ہے کہ جسم میں جو غیر ضروری اور نقصان دہ اجزاء جمع ہو جاتے ہیں، ان میں سے بہت سے، پسینے کے ذریعے سے، جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ہم ان نقصان پہنچانے والے مادوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ جسم سے غیر ضروری رطوبتیں اور ضرورت سے زیادہ نمکیات بھی اسی طرح خارج ہو جاتے ہیں، ورنہ ہمارے جسم میں ان رطوبتوں اور نمکیات کی زیادتی ہمیں نقصان پہنچائے گی۔ یہ جسم میں ضروری نمکیات وغیرہ کو متوازن رکھنے کا ایک قدرتی نظام ہے۔ اس طرح ہمارے گردوں پر بھی بوجھ کم پڑتا ہے۔“
”اس کا مطلب یہ ہے کہ پسینہ آنا اچھی بات ہے۔“نوید نے کہا۔
”بالکل! اور پسینہ آنے سے تو اور فائدے بھی ہوتے ہیں۔“
”وہ کیا؟“
”اس طرح ہمارے جسم کا درجہ حرارت درست رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری جلد میں ننھے ننھے بے شمار سوراخ رکھے ہیں جو مسام کہلاتے ہیں۔ ان مساموں کے ذریعے سے پسینہ خارج ہوتا ہے تو جلد نم ہو جاتی ہے، جب ہوا اس نمی سے ٹکراتی ہے تو جلد ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس طرح ہمیں گرمی کا احساس کم ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ہمارا جسم تنور کی طرح گرم ہو جائے اور ہم بیمار پڑ جائیں۔ جب موسم سرد ہوتا ہے تو جلد کے یہ مسام سکڑ جاتے ہیں یا بند ہو جاتے ہیں۔ جسم کی حرارت اور پسینہ خارج نہیں ہوتا۔ موسم گرما میں یہ مسام پھیل جاتے ہیں تا کہ حرارت بہتر طور پر جسم سے خارج ہو سکے۔ اللہ نے ہماری جلد پر بال بھی عطا فرمائے ہیں۔ یہ بھی اپنا کام کرتے ہیں، سردیوں میں یہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور اندر کی حرارت کو باہر آنے سے روک دیتے ہیں۔“
”سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ نے کتنا عمدہ انتظام فرمایا ہے۔“ نوید نے کہا۔
”اس کے علاوہ ہماری جلد بڑاحساس عضو ہے۔ جسم کے کسی بھی حصے میں معمولی سا کانٹا بھی چبھ جائے تو جلد کے اندر موجود اعصاب فوراً دماغ کو اطلاع دیتے ہیں اور ہم اس کانٹے کو نکالنے کی فکر کرتے ہیں ورنہ اس کانٹے کے ذریعے سے خون بہ سکتا ہے اور جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کوئی چیونٹی جلد پر رینگنے لگے تو ہمیں پتا چل جاتا ہے اور ہم اسے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔“
”یہ بھی ٹھیک ہے۔“
”ایک اور اہم بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری حفاظت کا ایک اور انتظام فرمایا ہے کہ اگر ہمارے جسم میں خصوصاً خون میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے، نقصان پہنچانے والے کچھ مادے پیدا ہو جاتے ہیں تو قدرتی طور پر یہ مادے جلد کی طرف بھیج دیے جاتے ہیں تاکہ جسم کے اندر واقع اہم اعضاء محفوظ رہ سکیں۔ اگر یہ مضر اجزا جسم میں جمع رہ جائیں تو اندرونی اعضا کو زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ اس طرح یہ تو ضرور ہے کہ انسان کو جلد پر کچھ پھوڑے پھنسیوں اور جلدی امراض کی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہے، لیکن ایک طرف تو اندرونی اعضا محفوظ رہتے ہیں، دوسرے، فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ جسم میں یا خون میں کوئی نقصان پہنچانے والے اجزا جمع ہو گئے ہیں۔ اگر یہ اجزا جلد کی طرف آ کر ظاہر نہ ہوں تو شاید ہمیں ان سے ہونے والے نقصان کا علم جلدی نہ ہو سکے۔“
”واقعی، اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بڑا احسان ہے۔“ نوید نے تائید کی۔
”جلد ہمیں خوب صورت بھی بناتی ہے۔ تم دیکھو کہ جلد کی وجہ سے ہمارے اعضاء کتنے خوب صورت محسوس ہوتے ہیں۔“
”بے شک، اور اللہ تعالیٰ نے مختلف انسانوں کو مختلف رنگ کی جلد عطا کی ہے۔“ نوید نے اضافہ کیا۔
”شاباش، لیکن کسی کی جلد کی رنگت اسے اعلیٰ نہیں بناتی۔ یہ تو انسان کا تقویٰ ہے، سیرت و کردار ہے جو اسے اللہ کی نظر میں پسندیدہ بناتا ہے۔“
”بھائی جان! جلد کی حفاظت کیسے کی جاسکتی ہے؟“نوید نے پوچھا۔
”یہ ایک تفصیلی موضوع ہے، بہر حال مختصر طور پر یہ سن لو کہ ہمارے دین نے صفائی اور طہارت پر بہت زور دیا ہے۔ صاف ستھرے رہنے سے جلد بھی صاف ستھری رہے گی، اس کے مسام کھلے رہیں گے تاکہ پینے اور نمکیات کے خارج ہونے میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ غسل اور وضو کی وجہ سے بھی جلد صاف ستھری رہتی ہے۔ پھر چاہے سخت گرمی ہو یا سخت سردی، موسم کی شدت سے جلد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ اپنی صحت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ تازہ سبزیاں، تازہ پھل، دودھ کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ جسم کو ضروری غذائی اجزا خصوصاً حیاتین (وٹامن) ملتے رہیں۔ حیاتین کی کمی سے جلد فوراً متاثر ہوتی ہے۔“
”بھائی جان، آپ کا بے حد شکریہ، اب میں کل اپنے دوست کو جلد کے بارے میں تفصیل سے بتا سکوں گا، امید ہے وہ بھی اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے لگے گا۔ السلام علیکم!“
”وعلیکم السلام“